گوشہء افسانہ
عکسِ حقیقت

نصیر وارثی
مدیر: سہ ماہی ورثہ نیو یارک

دسمبر کا مہینہ اپنے اختتامی لمحوں میں داخل ہو چکا تھا- فضا میں سردی اور دھند کا راج تھا- گزرے سال سے اگلے سال کا سفر محض چند لمحوں کی دوری پر تھا- شہر کی معروف جامع کے تعلیمی بیچ 2010-2006 کی الوداعی تقریب ادارے کے مرکزی میدان میں جوش و خروش سے جاری و ساری تھی- یہ درس گاہ اشرافیہ کے بچوں کی مادر علمی ہونے کے باعث پورے ملک میں ایک ممتاز حیثیت رکھتی تھی- موقع کی مناسبت سے اکتیس دسمبر کی رات ہونے والی یہ الوداعی تقریب نیو ایئر پارٹی میں تبدیل ہو گئی تھی- فضا میں سفید موتیے اور سرخ گلاب کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی- حسن و خوشبو کی محفل اپنے عروج پر تھی- موسیقی کی مدھر دھنیں سامعین کا لہو گرما رہی تھیں- خوش گپیوں کی محفل میں نوجوان قہقہے بخوبی سنائی دے رہے تھے-
اِس ہنگامہ خیز ماحول میں خاموش ندی سی وہ دائیں ہاتھ میں جوس کا گلاس تھامے ایک کونے میں سمٹی کھڑی تھی- کالی ساڑھی میں اس کا حسین سراپا قیامت ڈھا رہا تھا- کسی گہری سوچ میں گم وہ میکانکی انداز میں اپنےچمک دار بالوں کی ایک لٹ کو مسلسل اپنی بائیں ہاتھ کی انگلی پر لپیٹ اور کھول رہی تھی-
ماہتاب! ایک مانوس سی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ چونک کر پیچھے مڑی- اس پر نظر پڑتے ہی آفتاب کی آنکھوں میں ایک خفیف سی چمک اُتر آئی- نفیس و قیمتی سیاہ ساڑھی میں وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی- اس پر سلیقہ سے کیا گیا نفیس میک اپ اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگا رہا تھا- اسکے لبوں کی سرخی اسکے دہکتے ہوئے گالوں سے خوب میل کھا رہی تھی- اس کے کاندھے پر لٹکا ہوا قیمتی بٹوا اپنی قیمت آپ بتا رہا تھا-
ہمیشہ کی طرح آج بھی وہ اس کے حسن کی تجلی پاتے ہی بے زبان سا ہو گیا- اس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا چاہا مگر پھر خود ہی مسکرا کر خاموش سا ہو گیا-
تمہاری نظر پڑنے کے بعد کوئی کچھ بول سکتا ہے کیا؟ آفتاب نے اپنے سیاہ کوٹ کا کالر درست کیا اور زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا-
اتنی دیر سے آنے کی کوئی خاص وجہ؟ اس نے دِل ہی دِل میں آفتاب کی بلائیں لیں اور اپنی ہنسی کو دباتے ہوئے قدرے تحکم آمیز انداز میں پوچھنے لگی-
میں تو آنا ہی نہیں چاہتا تھا مگر پھر تمہاری یاد مجھے کھینچ لائی- آفتاب نے سرگوشی کے انداز میں کہا تو وہ چہرہ جھکا کر شرمانے لگی-
یقین نہیں آتا کیسے یہ چار سال اتنی جلدی گزر گئے- ایسا لگتا ہے جیسے کل کی ہی بات ہو جب ہم آنکھوں میں ہزار سپنے اور دِل میں بہتر مستقبل کی خواہش لیے اِس درس گاہ میں تعلیم حاصل کرنے آئے تھے- اِس امر سے بالکل انجان سے سفرکے اختتام پر ڈگری كکے ساتھ ساتھ ایک خوبصورت ساتھی بھی ہمارا ہم رکاب ہو گا- آفتاب نے اس کی سیاہ خوبصورت آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اسے یاد دلایا-
ساتھی ہونے اور بننے میں فرق ہوتا ہے آفتاب! اس نے قدرے افسوس سےکہا-
وہ دن بھی زیادہ دور نہیں جب آفتاب اور ماہتاب ہمیشہ کے لیے ایک ہو جائیں گے- آفتاب نے اپنی جیب سے گلاب اور موتیے کا ایک مہکتا ہوا گجرا نکالا اور اس کے نازک ہاتھوں میں پہناتے ہوئے بولا-
چاند اور سورج بھی کبھی ایک ہوئے ہیں؟ اس نے سوالیہ انداز میں آفتاب کی جانب دیکھ کر پوچھا-آسمان کا تو پتہ نہیں مگر زمین پر ایسا ضرور ہو گا- آفتاب کے جواب میں مصمم یقین واضح تھا-
کیا میں تمہارے والدین کو پسند آوں گی؟ اس کی آواز میں گھبراہٹ نمایاں تھی-
تمہیں کوئی ناپسند کر ہی نہیں سکتا- خوب صورت ہو، خوش اخلاق ہو، اتنے رئیس گھرانے سے تعلق رکھتی ہو- کوئی دیوانہ ہی ہو گا جو تمہیں اپنے گھرانے کی بہو نہیں بنانا چاہے گا- آفتاب نے وثوق سے کہا-
اور اگر میرے پاس یہ سب نہ ہوتا تو؟ تو کیا تب بھی میں آفتاب اینڈ سنز جیسے معزز گھرانے کی بہو بن پاتی؟ اس نے آفتاب کے دل کو ٹٹولنا چاہا-
ہاں! تب بھی تم میری ہی دلہن بنتیں- بھلا ماہتاب کے بغیر آفتاب کی کیا حیثیت؟ آفتاب کے لہجے میں دنیا بھر کی سچائی امڈ آئی-
تمھیں پتہ ہے آفتاب چاند کی اپنی کوئی روشنی نہیں ہوتی، وہ اپنی روشنی سورج سے اخذ کرتا ہے- اس نے آفتاب کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہا-
میری بھی اپنی کوئی چمک نہیں، جو بھی تھوڑی آب و تاب ہے ، اس کی وجہ صرف تم ہو- تمہارا وجود ہی مجھے جلا بخشتا ہے! اس نے جذباتی انداز میں آفتاب کو اپنی کم مائیگی کا احساس دلایا-
آفتاب کچھ کہنے کے لیے منہ کھولنا ہی چاہتا تھا کہ فضا آتش بازی سے گونج اٹھی اور ہر طرف سے نئے سال کے آغاز کی مبارک بادیں وصول ہونے لگیں-
نیا سال بہت بہت مبارک ہو ماہتاب! آفتاب نے اس کی جانب دیکھ کر کہا-
تمہیں بھی! دعا ہےکہ اگلے سال جب ہم نئے سال کو خوش آمدید کہیں تو میں مسز آفتاب بن کر نئے سال کا استقبال کروں- وہ پر امید لہجے میں بولی-
اس کی یہ بات سن کر آفتاب نے محض مسکرانے پر اکتفا کیا-
ماہتاب! تم یہاں کھڑی ہو اور میں تمہیں پوری تقریب میں ڈھونڈ رہی ہوں- باہر ڈرائیور کب سے ہم دونوں کا انتظار کر رہا ہے- اِس سے پہلے کہ تقریب ختم ہو اور خارجی دروازے پر ہجوم میں اضافہ ہو جائے، ہمیں یہاں سے نکل جانا چاہیئے- اس کی خالہ زاد بہن فیروزہ بھیڑ کو چیرتی ہوئی اس کی جانب آئی اور بلا توقف بولنے لگی-
معاف کرنا آفتاب! ہمیں جانا ہو گا- فیروزہ یہ کہہ کر آگے بڑھی اور ماہتاب کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لے گئی-
اس نے آفتاب کی آنکھوں میں دیکھا اور فیروزہ کا ہاتھ تھام کر اس کے ساتھ چلتی گئی- اس کی نگاہیں مڑ مڑ کر آفتاب کے چہرے کا دیدار کر رہی تھیں- آفتاب نے بھی اسے حد نگاہ تک دیکھا مگر جلد ہی وہ مجمع میں کہیں گم ہو گئی-
آفتاب نے پاس رکھے گملے کی جانب دیکھا تو اس کی نظر ماہتاب کے قیمتی بٹوے پر پڑی- شاید بٹوے کی زنجیر ٹوٹنے کی وجہ سے بٹوا ماہتاب کے کاندھے سے سرک کر زمین پر گر گیا تھا- آفتاب نے بٹوا زمین سے اٹھا لیا- وہ بٹوا لوٹانے کے لیے آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے بٹوا کھول لیا- اندر موجود مواد کو دیکھ کر آن کی آن میں حیرانی کے بادلوں نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا-
فیروزہ نے ہمیشہ کی طرح ماہتاب کو اپنی گاڑی میں بٹھایا اور ڈرائیور کو آگے بڑھنے کا حکم دیا- ابھی گاڑی تھوڑی ہی آگے بڑھی تھی کہ ماہتاب کو کسی چیز کی کمی کا احساس ہوا- جلد ہی اسے معلوم ہواکہ اسکے کاندھے پر لٹکا ہوا بٹوا کہیں کھو گیا ہے- وہ ہڑبڑاتی ہوئی گاڑی سے نکلی اور بٹوا کھوجتی کھوجتی اس مقام پر پہنچ گئی جہاں وہ آفتاب کے ساتھ کھڑی تھی-
اس کے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی آفتاب بٹوے میں رکھی چیزوں کا جائزہ لے چکا تھا- بٹوے میں ایک پچاس روپے کا چرمرایا ہوا نوٹ، کرائے کے کپڑے اور دیگر ملبوسات سپلائی کرنے والی دکان کی رسید اور ایک قومی شناختی کارڈ موجود تھا جس میں درج پتہ ایک انتہائی پسماندہ علاقے کا تھا- آفتاب کا چہرہ غصے سے لال ہو چکا تھا- اسے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ماہتاب کوئی رئیس زادی نہیں بلکہ پسماندہ علاقے میں رہنے والی ایک معمولی سی لڑکی ہے- ماہتاب سے چہرے پر بھی فکر کے آثار نمایاں تھے- اس کا رنگ فق ہو چکا تھا- وہ جو اپنی معاشی حیثیت اتنے سالوں سے فیروزہ کی امارت کے پیچھے چھپاتی آئی تھی، پل بھر میں اس کی حقیقت اس کے رئیس عاشق پرعیاں ہو گئی تھی- اس نے آفتاب سے کچھ کہنا چاہا مگر اِس سے پہلے سے وہ اپنی صفائی میں منہ کھولتی، آفتاب نے اس پر ایک قہر آلود نگاہ ڈالی اور بٹوا اس کے قدموں میں پھینک کر آگے بڑھ گیا-
ہتک اور خفگی کے احساس سے ماہتاب کا خوب صورت چہرہ سفید ہو گیا- اس نے بمشکل اپنے آنسو ضبط کیے مگر پھر بھی گرم نمکین پانی گولے کی طرح اس کے حلق میں پھنس گیا- چند لمحوں کے لیے وہ سانس لینا بھول گئی مگر پھر جبلت بقائے انسانی کے ہاتھوں مجبور ہو کر وہ سانس لینے کی کوشش میں زور زور سے کھانسنے لگی- اس کی غیر معمولی کھانسی کی آواز سن کر ارد گرد کے لوگ اسے گھورنے لگے- وہ اپنا ٹوٹا پھوٹا وجود لے کر وہاں سے بری طرح دوڑی اور فیروزہ كے پاس آ پہنچی جو اس کے عقب میں کھڑی سارا تماشہ دیکھ رہی تھی-
دوسری جانب آفتاب کے قدم کب اسے ہاسٹل تک لے آئے، اسے خبر ہی نہ ہوئی- اپنے کمرے میں پہنچ کر اس نے بتی جلائی اور سگریٹ کے کش لینے لگا- اتنے میں اس كکے موبائل کی گھنٹی بجی- اس کی بہن نے بذریعہ ایس ایم ایس پیغام بھیجا تھا-
“بھائی اماں کی دوا کے پیسے کب بھیجو گے؟ خرچے کے پیسے ختم ہونے کو ہیں- کیا مہینہ ختم ہونے سے پہلے پیسے آ جائیں گے؟”
پیغام پڑھنے کے بعد شدید قلق نے آفتاب کو آ گھیرا کیونکہ ماں کی دواکے پیسوں سے اس نے جامعہ کی الوداعی تقریب کا پاس خرید لیا تھا- اس کے سہانے مستقبل کی عمارت مکمل ہونے سے پہلے ہی ڈھے چکی تھی- کمرے میں باقی بچا تھا تو صرف وہ، اس کے ادھورے خواب اور اس کی غربت!