ہمارے پیارے پاپا
پرویز ؔمظفر
(برمنگھم،برطانیہ)
بچپن سے لے کر آج تک جب بھی کسی مشکل لمحے میں کسی مدد صلاح مشورے کی ضرورت پڑی اور اکثر پڑی تو سب سے پہلے مجھے اپنے والدِ محترم یاد آئے اور ان سے مشورہ کیا اور ہمیشہ دانشمندانہ اور صحیح مشورہ ملا۔اور خدا کا شکر ہے کہ اسی پر عمل کرنے سے ہمیشہ میرے کام بنے اور ہر بار مشکل کے دلدل سے باہر آگیا۔یہ تجربہ ایک بار نہیں زندگی میں کئی مرتبہ ہوا۔ اس سے اس بات پر ایمان لانا پڑاکہ سچائی اور ایمانداری سے دیئے گئے مشورے ہمیشہ انسان کے فائدے کی چیز ہے۔
ہمارے والدِ محترم سچائی ،ایمانداری ،خلوص و محبت کا پیکر ہیں۔ ان کے ظاہر اور باطن میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جو محسوس کرتے تھے جیسا محسوس کرتے تھے وہ کہہ دیتے تھے۔ چاہے وہ نجی زندگی میں ہو یا شاعری میں۔
جو نہ محسوس کیا ہو اسے کیونکر کہتے
ورنہ آسان تھا قطرے کو سمندر کہتے (مظفرؔ حنفی)
ان کی ہزاروں خوبیوں میں سے ایک اچھائی یہ بھی تھی کہ وہ اپنے بارے میں کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے چاہے وہ ان کے اپنے فن سے متعلق ہو ،ترقی یا انعام و اکرام کا معاملہ ہو یا ذاتی پریشانی ۔ کبھی کسی سے کچھ نہیں کہتے تھے۔ ہماری ممی نے ان کو بدلنے کی کوشش کی ہے مگر یہ بدلائو نہ کے برابر تھا ۔
ہم پانچ بھائی اور ایک بہن ہیں۔ ہم میں سے کسی کو آج تک یاد نہیں ہے کہ ہمارے پاپا نے کبھی ہم لوگوں سے سر بھی دبوایاہو۔ اگر کبھی معلوم ہوا کہ پاپاکی طبیعت خراب ہے اور ہم نے ان کی سر یا پائوں دبانے کی کوشش کی تو انہوں نے فوراً روک دیا اور ہمیشہ کہا کہ ماں کی خدمت کرو اور ڈھیر ساری دعائیں دی۔یہ سلسلہ آخر تک جاری تھا۔ ان سارے واقعات کے بارے میں میں جب بھی سوچتا ہوں تو مجھے میرے پاپا ایک درویش صفت انسان نظر آتے ہیں جس نے دنیاکو صرف دینا ہی سکھایا ہے۔لینے کی کسی سے کوئی امید نہیں رکھی۔گھرہو یا گھر کے باہر ہمیشہ لوگوں کے ساتھ کچھ کیا ہی ہے۔ لیا کبھی کسی سے کچھ نہیں۔
ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمیں اپنے گھر میں پیار محبت اور عیش و آرام کی زندگی ملی۔مگر ہمارے والد محترم کا بچپن اور عہد جوانی بہت مشکل حالات میں گزرے۔ مگر اس کا ذکر وہ کبھی نہیں کرتے۔ ہم لوگوں کو یہ باتیں اپنی ممی یا پھر ڈاکٹر محبوب راہی کے تحقیقی مقالے سے معلوم ہوئیں۔ ان سب کے باوجود وہ ایک جذباتی انسان اور بہت مخلص اور بچوں سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے عظیم والد اچھے شوہر اور بے مثال دادا نانا تھے جو قسمت والوں کو ہی ملتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنے سے پہلے اپنے چاہنے والوں کی فکر کرتے تھے۔ ممی کو کھانسی آئی نہیں کہ پاپا پریشان ہوگئے ۔کسی بچے کوبخار آیا نہیں کہ پاپا کی راتوں کی نیند غائب۔
کئی بار ایسے موقع آئے کہ ان کا پروگرام ہے ،ان کا مشاعرہ ہے ،بڑے معاوضے پر باہر جانا ہے لیکن اگر ممی کی تھوڑی سی طبیعت خراب ہوگئی تو پاپا اپنے پروگرام ملتوی کردیتے تھے۔ ہم لوگ کئی بار کہتے تھے کہ آپ چلے جایئے ہم ہیں تو مگر وہ نہیں مانتے تھے۔ ہر انسا ن کے چاہنے کے الگ انداز ہوتے ہیں اور ہمارے پاپا کا یہ انداز نرالا تھا۔ ہماری ممی تو کئی بار پاپا کو اپنی طبیعت کے بارے میں بتاتی ہی نہیں ہیں مگر پاپا کو جانے کیسے معلوم ہوجاتا تھا یہ محبت تھی ۔
کہاں کہاں سے کیا کسبِ نور مت پوچھو
کسی کی مانگ میں چھوٹی سی کہکشاں کے لیے (مظفرؔ حنفی)
زمین تنگ رہی ہے ہمیشہ میرے لیے
میرے حساب میں ایک آسماں زیادہ ہے(مظفرؔ حنفی)
ہماری ممی بھی ہمارے پاپا کا بہت خیال رکھتی ہیں ۔ہر مسئلے میں ان سے مشورہ کرتی ہیں مگر میرا خیال ہے پاپا کی محبت ان کے لیے بہت زیادہ تھی۔گھر کے سارے اختیارات ممی کو سونپ رکھے تھے اور ہماری ممی ہی فیصلہ کرتی ہیں کہ گھر میں کیا ہوگا۔ پاپا کی عادت ہم سب بھائی بہن میں آئی کہ جو پک جائے اللہ کا شکر ادا کرکے کھالو۔ خدا کا احسان ہے کہ مجھے ماں بھابیاں بہن اور بیوی ایسی ملی جنہوں نے ہمیشہ اچھ اور لذیذ کھانے پکا کر کھلا ئے۔
ہمارے پاپا اپنے گھر بھرے پڑے خاندان کے ہر فرد کا خیال رکھتے تھے۔ خاندان ان کے لیے فیملی کی حیثیت رکھتا تھا۔ کنبے کا کوئی فرد کسی وجہ سے پریشان ہے یا بیمارپڑا تو پاپا اس کے لیے فکر مند ہوجاتے اور مختلف طریقوں سے اس کی مدد کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔رات رات کو جاگ کر ترجمے کیے دو دو ملاقاتیں کیں اور لوگوں کی اس طرح مدد کی کہ دائیں ہاتھ سے دیا اور بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہوئی اور یہ سلسلہ آخر تک جاری رہا ۔ان کی یہ صفت ہمارے بڑے بھائی فیروز مظفر میں بھی اس خوبی سے سمو ئی ہے کہ جواب نہیں۔کاش ان دونوں کی اس صفر کا کچھ حصہ مجھ مین بھی آجاتا۔
ہمارے پاپا کو بناوٹ اور جھوٹ سے سخت نفر ت تھی مگر لوگ شاید آج کل ان چیزوں کو فیشن کے طور پر استعمال کرنے لگے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ہمارا مذہب بھی اس کی اجازت نہیں دیتا۔ ہم میں سے کوئی بڑے سے بڑا نقصان یا غلطی کردے جو اکثر کرتے ہیں اور آکر پاپاکو بتایا تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاپا ناراض ہوئے ہوں ۔ہمیشہ پیار سے سمجھایا ہے۔ پاپا کی ان ہی خوبیوں کی وجہ سے شاید ان کے دوست کم تھے دشمن زیادہ ۔
دشمن بہت اپنی جان کے ہیں
ہم آدمی آن بان کے ہیں
مظفرؔ حنفی
مین ان کے بہت سے ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جن کی انہوں نے مختلف طریقوں سے مدد کی۔ بڑی بڑی کمیٹیوں سے اپنا نام نکلواکر دوستوں کو بتائے بغیر ان کا نام ڈلوادیا۔ کئی ایسے جلسوں میں ٹی وی وغیرہ کے پروگراموں میں شرکت نہیں کی جہاں ان کے دوستوں یا استاد محترم کو نہیں بلایا گیا۔ ایک آدھ دوست تو ایسے ہیں جن کی پی ایچ ڈی برسوں سے مکمل نہیں ہو رہی تھی وہ والد محترم نے کرادی اور کام پورا ہوتے ہی موصوف کے رنگ بدل گئے۔
مجھے تو اس کی شہادت کے بعد علم ہوا
وہ دوست کم ہے مرا راز داں زیادہ ہے
مظفرؔ حنفی
ہر صورت بشر ہے دوست پیغمبر نہیں کوئی
وہ اپنے نفع پر بیشک تھے قربا کر دے گا
مظفرؔ حنفی
پاپا ایسے بڑے دل کے آدمی کہ ان کے دشمنوں کا احوال بھی دوستوں سے برسوں کے بعد معلوم ہوتا ہے۔ کیونکہ ان کی عادت ہے کہ کسی کی برائی کبھی اس کی پیٹھ پیچھے نہیں کرتے اور دشمن کو بھی اچھی نظر سے دیکھتے تھے۔
ہم نے ہمیشہ محسوس کیا ہے کہ ہو صاف بات کہنے والے بے حد گو انسان ہیں۔ پاپا کو یہ بالکل پسند نہیں ہے کہ لوگ کسی کی غیبت کریں۔ جو کہنا ہو منہ پر صاف صاف کہہ دیتے ہیں،کوئی لاگ لپیٹ نہیں رکھتے۔حالانکہ بات سچ ہوتی ہے مگر لوگوں کو دوست احباب کو بھی پسند نہیںآتی۔
اور مظفرؔ سچا بن
چڑھ جا بھینٹ اصولوں پر
مظفرؔ حنفی
ہمارے پاپا دوست کی کمی اس کے منہ پر بیان کردیتے تھے مگر اس کے پیٹھ پیچھے مجال نہیں کہ کوئی ان کے دوست کی برائی کردے۔اس کے لیے دوسروں سے لڑ جائیں گے مگر اس دوست کوبھی نہیں بتائیں گے کہ کیا ہے۔
اتنا سچ راس نہیں آتا مظفرؔ صاحب
سر ہتھیلی پر لیے پھرتے ہو جس تس کے لیے
مظفرؔ حنفی
اس کی ایک چھوٹی سے مثال اور دیتا ہوں ۔ایک والد محترم سے دریافت کیا کہ جب نارنگ صاحب نے اردو کی نئی کتاب کا پروجیکٹ ہاتھ میں لیا اس وقت آپ کی دوستی نارنگ صاحب سے بہت گہری تھی اور زیادہ تر وقت ان کے ساتھ شعبۂ اردو جامعہ میں یا ہمارے گھر پر گزرتا تھا۔پھر کیا وجہ ہے کہ اس کمیٹی میں تریا حسین ،شمس الرحمٰن فاروقی،پروفیسر مغنی تبسم ،پروفیسر حامد کاشمیری ،خلیق انجم، وغیرہ شامل تھے۔ مگر آپ کا نام نہیں تھا خالد محمود اس میں شامل تھے جو اس وقت جامعہ ہائر سیکنڈری میں چند سال قبل ہی لگے تھے۔ والد صاحب نے جواب دیا جب کمیٹی ممبران کی فہرست تیار ہوئی تو والد صاحب کا نام تھا ،والد صاحب نے کمیٹی ممبران کی فہرست دیکھ کر کہا ہم اسکولوں کے لیے درسی کتاب تیار کر رہے ہیں اور کمیٹی میں سب پروفیسر اور ڈاکٹر جمع ہیں۔اسکول کا کوئی ٹیچر اس کمیٹی میں کیوں نہیں ہے۔ نارنگ صاحب نے جواب دیا اب تو میں سب کو اطلاع دے چکا ہوں آپ بتایئے آپ میں سے کس کو نکالیں یہ تو میں نہیں جانتا۔اور اگر آپ کسی کو نہیں نکال سکتے تو آپ مجھے نکالیے اور خالد محمود کو شامل کریے۔اس طرح خالد محمود کی شمولیت اس پروجیکٹ میں ہوئی اور نارنگ صاحب کے ساتھ مل کر خالد محمود نے یہ کتاب تیار کی۔ یوں بھی پروفیسر خالد محمود پر والد صاحب کے بہت احسان ہیں مگر نہ والد صاحب نے کبھی احساس دلایا نہ پروفیسر خالدمحمود کو کبھی احساس ہوا۔
آج کل کا دور وہ ہے کہ لوگ منہ پر خوشامدکرنا اور کروانا پسند کرتے ہیں جو ہمارے پاپا کے مزاج سے میل نہیں کھتا۔ اس طرح لوگوں کا دوستی سے بھروسہ اٹھتا جارہا ہے۔ ہم نے اپنے ڈرائنگ روم میں ایسے ایسے لوگوں کو دیکھا ہے جو کسی شخص کی اس قدر برائی کرتے ہیں جیسے کوئی کسی دشمن کی کرتا ہے۔ اور ہفتہ بھر بعد اسی شخص سے فنکشن میں اس طرح بغل گیر ہوں گے جیسے ان کا سب سے بڑا دوست ہو۔
ان کی شکایت ان کا شکوہ اکثر کرتے رہتے ہو
اور مظفرؔ ہم نے تم کو اکثر دیکھا ان کے پاس
مظفرؔ حنفی
اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ہمارے والد محترم اپنے ڈرائنگ روم سے ایسے لوگوں کو نکلال باہر کرتے تھے جو ہمارے والد کے دشمن یا دوست کی برائی کر رہا ہو۔ اب یہ بات ہمارے والد کے کسی دوست کو جاکر کون بتائے گا ۔ ہمارے پاپا تو جانے سے رہے اور جس کو دوڑا لیا ہے وہ بتانے سے رہا۔
اب ایسے اچھے اور سچے انسان کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے کی ہمارے پورے سماج کی ذمہ داری بنتی ہے۔
وضع داری کی بہت قدر کرو کہ ایسے لوگ
آج کل صرف کہانی میں نظر آتے ہیں
مظفرؔ حنفی
والد صاحب کی اس صاف گوئی اور ایماندارانہ مشوروں کی کی وجہ سے ان کو کئی مقام پر نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے۔مگر کیا کیجئے جب یہ اچھائی ان کے اندر اس گہرائی سے سموئی ہوئی تھی۔
نہ پوچھئے کہ یہ لہجہ کہاں کا حصہ ہے
کھری زبان میرے جسم و جاں کا حصہ ہے
مظفرؔ حنفی
ان کا اپنے دوستوں کے لیے ایثار کرنے کا انداز بھی بے حد نرالا ہے۔اکثر مجھے بھی کہتے ہیں کہ اگر دوستوں کے لیے کچھ کیا اور انہیں جتا دیا تو پھر وہ کچھ کرنے کا جو مزہ ہے وہ جاتا رہتا ہے۔ دوستی کی بنیاد تو یقین پر ہوتی ہے۔اسی لیے کئی ایسی مثالیں موجود ہیں جب ہمارے والد نے خود اپنا نام نکلوا کر اپنے دوست کا نام شامل کروایا اور اس کو خبر تک نہ ہونے دی۔ ٹی وی پروگرام یا بڑے فنکشن اس لیے اٹینڈ نہیں کیے کہ ان کے دوست کو نہیں بلایا گیا۔ اور دوست کو یہ احساس تک نہیں ہونے دیا کہ وہ کس وجہ سے نہیں گئے۔
آج کل دوست پیٹھ پر نیزہ تان کر آتے ہیں اور منہ پر اپنی تعریف کرتے ہیںکہ انسان چاہ کر بھی نہیں کر پاتا اور چاپلوسی کے شہد میں پھنس جاتا ہے۔
ہزاروں مشکلیں ہیں دوستوں سے دور رہنے میں
مگر ایک فائدہ ہے پیٹھ پر خنجر نہیں لگتا
بہت محتاط رہیئے ایسے لوگوں سے
جو آپ کی تعریف صبح و شام کرتا ہے
مظفرؔ حنفی
چرب زبانی بھی کیا شئے ہے
جس کو چاہو پانی کرلو
مظفرؔ حنفی
اس کے برعکس ہمارے والد اپنے دوستوں کے لیے ان کے پیٹھ پیچھے ہمیشہ ڈھال بنے رہے مگر کیا کیجئے۔
برا ہوں جس کے لیے زمانے سے
سچ میرا برا لگا اسے بھی
مظفرؔ حنفی
اتنی سچائی اور صاف گوئی کے باوجود ان کے چاہنے والوں کا ایک بڑا حلقہ موجود ہے۔ جس میں ڈاکٹر محبوب راہی، پروفیسر صغریٰ مہدی،نعیم کوثر،پروفیسر نعمان خان،اقبال مسعود ،منور رانا ،ڈاکٹر راحت اندوری اور پروفیسر اشفاق احمدجیسے لوگ شامل ہیں۔
ہمارے والد صاحب میں حس مزاح بہت ہے مشکل سے مشکل گھڑی میں بھی ہم نے انہیں گھبراتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کسی بھی پریشانی میں وہ ایسا نکتہ نکال لیں گے جس سے دکھ درد پریشانی کم ضرور ہوجاتی ہے۔ وہ ہمیشہ کہتے ہیں اگر آپ گھبراگئے تو آپ کے سوچنے اور کام کرنے کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔
ہمارے پاپا اپنے سے کم اور غریب انسان کو یہ احساس کبھی نہیں ہونے دیتے کہ وہ ان سے چھوٹا ہے یا غریب ہے مگر کسی بڑے سے بڑے آدمی کو یہ حق ہر گز نہیں دیں گے کہ یہ ظاہر کر سکے وہ بڑا ہے یا افضل ہے۔ انہوں نے صرف اللہ کے آگے سرجھکانہ سیکھا ہے۔
کئی بار ہم لوگوں نے دیکھا کہ پاپا کسی پروگرام میں جانے کے لیے تیار ہیں اور وطن سے کوئی آگیا تو اس کے ساتھ وقت بتانے کے لیے ضروری پروگرام چھوڑ دیا۔ بس یونیورسٹی کی کلاس نہیں چھوڑیں گے اس کے علاوہ کوئی بھی بڑا پروگرام ہو اہمیت نہیں رکھتا۔ اس وطن کے عام آدمی کے مقابلے میں ہمیشہ کہتے ہیں۔ جن باتوں پر وہ خود عمل پیرا ہیں وہی باتیں شاعری میں بیان کرتے ہیںاور اپنے وطن کے عام آدمی کو بھی عزت و مقام دیتے ہیں۔ میں نے کئی مناظر دیکھے ہیں جہاں دولت یا عہدے کے نشے میں چور بڑے لوگوں نے اپنے غریب و معصوم والدین کو لوگوں سے ملوانے میں شرم محسوس کی۔ہمارے پاپا کو جب بھی ایسے مواقع پر احساس ہوا تو انہوں نے بڑے لوگوں کی محفل چھوڑھ کر ان بزرگوں کے پاس احترام سے بیٹھنا زیادہ پسند کیا اور ان کی دعائیں لی ہیں۔ یہ ایک سچے اچھے اور بڑے فنکار کی خصوصیت ہے کہ وہ ان بزرگوں کو اہمیت دے رہا ہے جس کی اپنی اولادیں انہیں لوگوں کی آنکھوں سے چھپا رہی ہیں۔
بچے بہت معصوم ہوتے ہیں۔انہیں چاک پر جس طرح چاہو ڈھال لو مگر ایک بات صاف ہے کہ وہ سچے پیار کو بہت اچھی طرح پہچانتے ہیں۔ اور ہمارے پاپا میں قدرتی خوبی ہے کہ وہ اپنے بچوں سے بے انتہا اور سچا پیار کرتے ہیں، اسی لیے تو ان کے بچے پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں سب ان سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔اتنے مصروف ہونے کے باوجود بھی وہ بچوں کے ساتھ کھیلنے کا وقت ضرور نکال لیتے ہیں۔ اتنا بڑا عظیم تخلیق کار جب بچوں کے ساتھ کھیلا ہے تو یہ منظر دیکھنے لائق ہوتا۔ ہمارے گھر کے تمام بچے اپنے دادا نانا سے بہت قریب ہیں اور ہر بچے کو وہ بہت چاہتے ہیں اور اسی طرح کی دعائیں دیتے ہیں۔ ہم لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں یا مشکل گھڑی میں فیصلے لینے میں پریشنان ہوجاتے ہیں مگر ہمارے پاپا کبھی بھی مشکل گھڑی میں گھبراتے نہیں اور ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے موقعوں پر پُرسکون رہ کر اورسوجھ بوجھ کا استعمال کرکے پریشانی کا حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیشہ کہتے ہیں ہر چیز کے دو رخ ہوتے ہیں اگر پریشانی آتی ہے تو اس کا حل بھی ہوگا۔ ہاں انہیں پاسپٹل اور اونچائی پسند نہیں ہے۔ پھر بھی دیکھے ایک واقعہ یاد آیا۔ایک بار والد محترم اسپتال میں داخل تھے یہ دیکھے بغیر کہ پاپا ڈیابٹیزکے مریض ہیں۔ جب اگلے دن Consultaintآیا تو اسے علم ہوا کے Glucoseغلط چڑھایا گیا ہے۔ فوراً ہٹوایا، اب جو ناک سے روئی نکالی تو خون کے دھارے بہنے لگے ۔ڈاکٹر نرس بھائی وغیرہ سب بری طرح گھبرا گئے۔ پاپا بالکل نارمل رہے بجائے اس کے ڈاکٹر ان کو تسلی دے ،پاپا ان کو تسلی دیتے رہے اور ان کی مدد کرتے رہے۔ کافی دیر بعد جب خون بند ہوا تو ان لوگوں کی سانس میں سانس آئی، اس Consultant نے تب ممی کے پاس جاکر کہا کہ اس نے اتنا بہادر اور حوصلہ مند مریض کبھی نہیں دیکھا۔
تعلیم کے سلسلے میں ہمارے پاپا گھر تو کیا گھر کے باہر جاکر بھی لوگوں کی مدد کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کئی رشتے داروں کو اور تین چار عزیز لوگوں کو اپنے گھر میں رکھ کر اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ کئی شاگردوں کو پی ایچ ڈی کرانے میں اپنے دن رات ایک کردیئے۔ ہم سب بھائیوں اور بہن نے جب تعلیم مکمل کی تو ہمیشہ پوچھا اگر ہم اور آگے پڑھنا چاہتے ہیں تو بندوبست کریں۔ ہمیشہ حوصلہ افزائی کی کہ اور آگے تعلیم حاصل کریں۔ اس سلسلے کے بے شمار واقعات میں سے دو کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں۔ اس زمانے میں میں ہائر سیکنڈری میں پڑھتا تھا۔ میرا ایک دوست ہوسٹل میں رہتا تھا اور نہ جانے کیوں اس کے پیسے وقت پر نہ پہنچے اور وہ پریشان ہوگیا کہ اگر اس کی فیس وقت پر نہ بھری گئی تو شاید نام کٹ جائے گا۔ اس کا ذکر میں نے پاپا سے کیا ۔ پاپا نے بنا کچھ سوال پوچھے مجھے وہ رقم دے دی اور کہا کہ اس کی فیس وقت پر جمع ہونی چاہیے ۔اس کے کچھ سالوں بعد ایک واقعہ پھر گذرا جب میں یونیورسٹی میں تھا۔ میرے دوس کو ہاسٹل کی فیس جمع کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی ۔پاپا سے کہا اس وقت انہوں نے صرف یہ پوچھا ۔واقعی فیس کے لیے چاہیے کہیں عیش کرنے کے لیے تو نہیں مانگ رہاہے۔ میری تصدیق پر انہوں نے فوراً پیسے نکال کر دے دیے۔
ان واقعات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے پاپا کتنا بڑا دل رکھتے ہیں اور تعلیم کے سلسلے میں لوگوں کی مدد کرنے میں کتنا آگے جاتے ہیں۔ امریکہ سے کئی بار سات آٹھ ہفتوں پر مشتمل پروگراموں کے دعوت نامے آتے ہیں لیکن یونیورسٹی کے بچوں کی تعلیم میں حرج ہوتا تھا اس لیے وہ انکار کر دیتے شاید اس لیے کہ خود بچپن میں اپنی تعلیم کے سلسلے میں بہت مشکلیں جھیلی تھی ،بہت دکھ سہے تھے جس کا ذکر وہ نہیں کرتے مگر اپنا دکھ درد سمجھ کر جینے والے نہیں ہمارے پاپا۔
درد کا وہ سینے میں سمائی نہیں دینا
اپنا تہیہ ہے کہ دہائی نہیں دینا
مظفرؔ حنفی
لوگوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھ کر جینے والے ہیں ہمارے پاپا۔
یوں چھائوں میں جلتا رہوں کب تک میرے مولا
سایہ ابھی پہنچا نہیں سب تک میرے مولا
مظفرؔ حنفی
عجب کمزور لمحے میں صدا دی ہے صداقت نے
مظفر آج ہر قطرہ لہو کا دان کردے گا
مظفرؔ حنفی
ہمارے پاپا کو پڑھنے لکھنے کا اتنا شوق ہے کہ اندازہ نہیں لگایاجاسکتا ۔ کوئی مضمون لکھنا ہو ،کسی کے اوپر لکھنا ہو ،اس کی کتاب کا مطالعہ ضرور کریں گے،پھر لکھیں گے۔ کتابیں پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ ہم جتنی محنت امتحان کے زمانے میں کرتے تھے اس سے کئی گناہ زیادہ پڑھنا لکھنا ان کا روز کا معمول ہے۔ اردو ہندی انگریزی کی کتابیں ۴۵؍سال سے تو میں دیکھ رہا ہوں ،دن رات پڑھنا اور کام کو پابندی سے کرنا ان کے مزاج میں شامل ہے۔ کلکتہ کے قیام کے دوران کاکیر ٹیکر(Corc Taker)ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ پروفیسر صاحب جب صبح ٹہلنے نکلتے ہیں تو مجھے معلوم ہوجاتا ہے کہ صبح کے ساڑے پانچ بج گئے ہیں۔
اگر کوئی کام کرنا ہے تو اچھی طرح کرنا ہے اور وقت پر کرنا ہے۔پھر کوئی آندھی طوفان انہیں روک نہیں سکتا۔ کھانا پینا بھول کر دن رات ایک کر دیں گے اس کام کو پورا کرنے کے لیے۔یہاں تک کے اپنی صحت کا خیال بھی نہیں رکھیں گے۔ ممی کبھی کبھی اس بات پر جھگڑتی ہیں کہ آپ اپنی صحت کا خیال تو رکھیںمگر پاپا نے وعدہ کرلیا اورکوئی پروجیکٹ ہاتھ میں لے لیا تو پھر وہ مکمل کرنا ہی ہے اور وقت پر مکمل کرنا ہے۔ محترم قمر رئیس صاحب نے پاپاسے میر تقی میرؔ کا مونوگراف تین ہفتوں میں تیار کرنے کی گزارش کی اور انہوں نے اپنی مجبوری ظاہر کرتے ہوئے پاپا سے کہا کہ اگرہندوستان میں کوئی یہ کام اتنے دنوں میں کرسکتا ہے تو وہ صرف آپ ہیں۔ پاپا نے اس کام کو مکمل کرنے کے لیے دن رات ایک کردیے اور اٹھارہ انیس گھنٹے روز کام کیا اور اٹھارہ دن میں یہ کام مکمل کرکے دہلی اردو اکیڈمی کے حوالے کر دیا۔
انجمن روحِ ادب الہٰ آباد نے اردو شاعری کا پچاس سالہ انتخاب تیار کرنے کے لیے پاپا کا انتخاب کیا اور صرف چھ مہینے میں غزل کا پچاس سالہ سب سے بڑا انتخاب تیار کرنے کی درخواست کی۔ پاپا نے دن رات ایک کرکے ۶۹۳؍شعراء کا انتخاب کیا۔وہ اردو غزل کا اب تک کا سب سے بڑا انتخاب ہے۔ وضاحتی کتابیات ان کا ایک اور بڑا کارنامہ ہے جس کی پچیس جلدیں تیار کرینے کے لیے پورے ایک ادارے انجمن کی ضرورت تھی وہ کام پاپا نے اکیلے دم پر سرانجام دیا۔
ہمارے پاپا کو شاعری سے جنون کی حد تک محبت ہے اور شاعری سے وہ ایسی محبت کرتے ہیں جیسی ہم لوگوں سے شاید ہم لوگوں سے بھی زیادہ۔ سیکڑوں بار ہم نے دیکھا ہے کہ والد محترم کی رات کو نیند کھل گئی اور اپنے ریڈنگ روم میں بیٹھے غزل کہہ رہے ہیں ۔
دن رات میں ستر شعر مظفرؔ صاحب
یا مصرعہ ہفتے بھر میں ہو
مظفرؔ حنفی
راتوں کو اٹھ کر شعر کہنا ان کی عادت ہوگئی ہے ۔ہمیشہ کہتے ہیں شعر بنا ئے نہیں جاتے وہ تو پکے پھولوں کی طرح خود بخود ٹپکنے لگتے ہیں۔
راتیں تباہ کی ہیں مظفرؔ نے
اک مصرعہ تر کے لیے کیا نہیں کیا
یہ کائنات مظفر کے ساتھ جاگتی کیوں
غزل کے شعر اگر ٹھیک ٹھاک ہوجاتے
مظفرؔ حنفی
ہمارے پاپا نے کتنی اچھی اور معیاری شاعری کی ہے اس کا اندازہ روز آنے والے بے شمار خطوط سے لگایا جاسکتا ہے۔ مگر نقاد اور صاحبانِ اقتدار شاید انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ کیونکہ ہمارے پاپا میں اعتماد اور سچا فنکارپوشیدہ ہے جو دوسروں کے سامنے جھکنا پسند نہیں کرتا۔صاحبِ اقتدار کے دروازے پر جاکر سلام نہیں کرسکتا نہ ہی ان کی شان میں قصیدہ لکھ سکتا ہے۔
میں اپنا شعر کیسے ان کی نظر انداز کروں
اجالے میں تو یہ روشن ستارہ ڈوب جائے گا
مظفرؔ حنفی
تنقید انہیں مانے مظفرؔ کو نہ مانے
اشعار میں بہتوں کے جھلکتا ہے مرا رنگ
مظفرؔ حنفی
والد محترم کی سچائی اور خدّاری جو ہر سچھے فنکار کی خصوصیت ہوتی ہے اسی وجہ سے ادب کے ٹھیکیداروں نے دیوار کھڑی کر رکھی ہے مگر بقول ہمارے پاپا ؎
خوشبو قید نہیں رہ سکتی گلشن میں
دیکھیں وہ کتنی دیوار لگاتا ہے
مظفرؔ حنفی
بلا مبالغہ ان کی شاعری کی خوشبو پورے جہان میں پھیل رہی ہے۔ پاپا روزے نماز کے زیادہ پابند نہیں ہیں مگر اسلام نے ایک سچے اور اچھے مسلمان کے لیے جو خوبیاں بیان کی ہے اس پر پورے اترتے ہیں ۔ ان کے اصولوں اور سچائی کی قسم کھائی جاسکتی ہے۔ ان کا شعر ہے ؎
خدائے عزوجل جاوداں کرتا ہے لفظوں کو
مظفرؔ اپنی تخلیق تیرے نام کرتا ہے
مظفرؔ حنفی
ہمارے پاپا نے اردو ادب کی بہت خدمت کی ہے اور بنا صلے کی پرواہ کیے ہوئے۔ وہ اپنے آپ کو قلم کا مزدور کہتے ہیں مگر ہم سب جانتے ہیں کہ پھلدار درخت ہمیشہ زمین کی طرف جھکا ہوا رہتا ہے۔
انہوں نے ۹۰؍سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ۔۲۵۰۰؍سے زیاہد غزلیں کہیں۔بہت سارے کاموں میں تو ہمارے پاپا پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میرا خیال ہے اور لوگوں کا ماننا ہے کہ ہمارے والد نے ۱۹۵۸ء میں جب رسالہ’’نئے چراغ‘‘ جاری کیا تو وہ جدید ادب کا ہندوستان میں پہلا رسالہ تھا۔ اس کے ساتھ آتھ سال بعد ’’شب خون‘‘ جاری ہوا۔پانی کی زبان ‘ہمارے پاپا کاجدید غزل کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ مختلف موضوعات پر دوہزار پانچ سو اشعار ’’ہیرے ایک ڈال کے‘‘ بھی وہ کارنامہ ہے۔ جس کی پہل ہمارے والد محترم کی اور اب تک کسی ایک ہی شاعر کے مختلف موضوعاتی اشعار اور اتنی تعداد میں کبھی منظر عام پر نہیں آئے۔
ہمارے والد محترم نے اردو ادب کو جتنا کچھ دیا ہے اگر کسی اورملک کا دیب اتنا کام کرتا تو وہاں کی حکومت اس ادیب و شاعر کو سر آنکھوں پر بٹھالیتی ۔برطانیہ کا ادیب اگر اتنا اتنا کام کرتا تو اسے اب تک نائٹ ہوڈ(Knitght Hood)سے سرفراز کیا جاچکا ہوتا۔پاکستان کا کوئی ادیب اتنا کام کرتا تو اسے اب تک ستارۂ امتیاز جیسے اعزاز سے سرفراز کیاجاچکا ہوتا۔ نہ جانے ہمارے ملک کی حکومت کی آنکھ کب کھلے گی ۔میری اس سلسلے میں اکثر اپنے پاپا سے بات ہوتی ہے اور وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا انعام و اعزاز کسی چھوٹے تخلیق کار کو بڑا نہیں بنا سکتا اور بڑا تخلیق کار بڑا ہی رہے گا چاہے اسے کوئی اعزاز ملے یا نہ ملے۔ اس بڑے اور اہم شاعر نے ۱۰؍اکتوبر ۲۰۲۰ء کو اس دنیاسے رخصت لی اور آخری سانس تک لبوں پر کلمہ تھا۔ اللہ تعالیٰ والد صاحب کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
والد صاحب کے دو اشعار ؎
لوگ تو نام کمانے میں لگے رہتے ہیں
آدمی کام سے زندہ ہو تو مرتا ہے کبھی
ہمارے شعروں میں امکان ڈالنے والا
نکل ہی آئے گا کوئی خدا کے بندوں میں
مظفرؔ حنفی