اُردو ڈرامے کا آغاز ۔اداکاری سے متعلق فنون
(رام لیلا ۔ راس لیلا ۔ نقالی ۔ کٹھ پتلی۔ بھگت بازی، بہروپیہ ، نوٹنکی ۔ سوانگ)
مصیف الرحمٰن (علی گڑھ)
ہندوستان میں کسی زمانے میں فن ڈرامہ نگاری اور اسٹیج کا عروج رہا ہے ۔ سنسکرت ڈرامہ نگاری کی ابتدا کالی داس سے تصور کی جاتی ہے ۔ڈراما ساتویں صدی عیسوی میں ترقی کی منزلوں پر گامزن ہوا۔ چند رگپت کے عہد (380-410) میں ڈرامے نے خوب ترقی کی لیکن ساتویں صدی میں سنسکرت ڈرامہ کا بھی زوال ہوگیااورسنسکرت زبان اپنی علمی و ادبی حیثیت کھو بیٹھی ۔ادھر بدھوں کی ترقی دیکھ کر برہمنوں نے بھی مذہبی تبلیغ کی غرض سے ڈرامے اسٹیج کرنا شروع کردیے۔ ان کی کامیابی سے متاثر ہوکر عوام نے بھی تجارتی مقاصد کی غرض سے اپنی ناٹک کمپنیاں قایم کرلیں اور اس دور کی بول چال کی زبانوں مثلاً اپ بھرنش وغیرہ میں چند تماشتے اسٹیج کیے۔ لیکن یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوسکا اور عوام اداکاری کے فن سے بددل ہونے لگے۔ ادھر سنسکرت ڈرامے کا وجود بھی ختم ہورہا تھا۔ اگرچہ سنسکرت ڈرامے معیاری ہوتے تھے اور اسٹیج پر اداکاری اور رقص و موسیقی کے فن پر پورے اترتے تھے لیکن عوام میں پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھے گئے۔
جہاں تک اُردو ڈرامہ نگاری کا تعلق ہے اس کی عمر تقریباًڈیڑھ سوسال سے زیادہ نہیں ہے ۔اتنی کم مدت میں اُردو ڈرامے نے ترقی کی اور صنف کی حیثیت سے پہچان بنائی لیکن نسبتاً اُردو ڈراموں کی تعداد کم بھی ہے۔معیاری نوعیت کے ڈرامے بھی بہت زیادہ نہیں ملتے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نقالی کو مسلم ادیبوں نے لائق ِ اعتنا نہیں سمجھا۔ لیکن امانت لکھنوی اور واجد علی شاہ سے لے کر طالب بنارسی،محمد مجیب ،حبیب تنویر اور محمد حسن تک اُردو میں ڈراموں کی تعداد خاصی ہے۔
ڈرامے کا فن مسلم سلاطین کی توجہ کا مرکز بھی نہیںرہا۔ فن موسیقی کے ساتھ اسے فروغ دیا جاسکتا تھا۔ اگرچہ ڈرامے کے سلسلے میں کوئی مذہبی پابندی بھی نہیں تھی۔مسلم دانشوروں نے اس فن کو ہمیشہ غیر اسلامی تصور کیا۔
ہندوستان میں سنسکرت اور دیومالائی عناصر کی اساس پر معیاری ڈرامے موجود تھے لہٰذا اُردو ڈرامے اور اسٹیج کا آغاز سنسکرت اور دیومالائی اساس پر ہوا۔ سنسکرت ڈراموں کے زوال اور اُردو تھیٹر کی ابتدا سے پہلے ڈرامے کا فن ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں تھا جو اداکاری کے فن سے بالکل واقف نہیں تھے۔ اس مدت میں ڈرامے نے مختلف شکلیں اختیار کیں کیونکہ عوام وخواص ڈرامے کو وقتی طور پر تفریح کا ذریعہ تصور کرتے تھے ۔ان کی مختلف صورتیں اس طرح تھیں ۔
۱۔سوانگ یا نوٹنکی :
سوانگ یا نوٹنکی کو صوبہ سرحد اور وسط ہند میں بڑی اہمیت حاصل تھی ۔ سنسکرت ڈراموں کے زوال کے بعد اور اُردو تھیٹر کی ابتدا سے پہلے ہندوستان میں رقص و موسیقی کا چلن عام تھا لیکن اداکاری کے ان فنون میں نوٹنکی کو اولیت حاصل تھی۔ اس کارواج دور قدیم ہی سے تھا اور آج بھی ہے۔ بہروپیوں کا بھیس بدل کر اس فن کا مظاہرہ ہوتا رہتا ہے۔ جو روزگار کا بھی ایک اہم ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ بعض مثنویوں میں بھی سوانگ کھیلنے والے بھگت بازوں کا ذکر ملتا ہے۔
ابتدا میں اسٹیج کا باقاعدہ انداز نہیں تھا۔ نقارے کی بلند آواز سن کر تماشائی کھیل کے میدان میں جمع ہوجاتے تھے ۔ نوٹنکی میں مذہبی ،سماجی ، رومانی اور تاریخی واقعات کے کھیل تیار کیے جاتے تھے اور ناٹک منڈلیاں گھوم گھوم کر گاوں اور میلوں وغیرہ میں اس کا مظاہرہ کرتی تھیں ۔ ہیر رانجھا ،سلطانہ ڈاکو ، گوپی چند اور جالندھر وغیرہ مشہور سوانگ نوٹنکی ہے۔ ان میں سے اکثر آج تک رائج ہیں ۔
’’سنگیت نوٹنکی شہزادی عرف عیارہ عورت‘‘ کو اصلی نوٹنکی قرار دیا گیا ہے۔ جو منظوم ہے ۔ نوٹنکی کا یہ عام انداز جو بعد میں عوامی تھیٹر کا انداز اختیار کرگیا تھیٹر کے زوال کے ساتھ نوٹنکی بھی زوال پذیر ہوگئی اور اب اس کا رواج بہت کم ہے۔
۲۔کٹھ پتلی:
ہندوستان میں کٹھ پتلیوں کا فن بہت قدیم ہے۔ کٹھ پتلی کا مطلب ہے ’’ کاٹھ کی پتلی ‘‘۔ لیکن پتلیاں کاٹھ یعنی لکڑی کے علاوہ کپڑے اور چمڑے کی بھی بنتی ہیں اس لیے انہیں کٹھ پتلی کہا جاتا ہے ۔ کپڑے اور چمڑے کی کٹھ پتلیاں ہی کہلاتی ہیں۔ ہندوستان میں سب سے خوبصورت پتلیاں راجھستان میں تیار ہوتی ہیں ۔ جنوبی ہندیعی(سائوتھ انڈیا) میں بھی کٹھ پتلیاں بنانے کا رواج عام ہے۔ جنوبی ہند میں مذہبی کھیلوں پر مشتمل تماشے زیادہ تر مذہبی موضوعات پر ہوتے ہیں جبکہ شمالی ہندیعی (نارتھ انڈیا) میں تاریخی واقعات اور سماجی مسائل پر مشتمل ہوتے ہیں ۔اس کا اسٹیج گائوں کا میدان یا گائوں کا چوراہا ہوتا ہے ۔ کھیل دکھانے والا ایک طرف وقتی طور پر اسٹیج تیار کرلیتے ہیں لیکن اب یہ تماشے عالیشان آڈیٹوریم میں کھیلے جاتے ہیں ۔تماشائی یعنی دیکھنے والے اسٹیج کے سامنے بیٹھتے ہیں ۔پتلیوں کا تماشا گر ’’سوتر دھار ‘‘کہلاتا ہے۔ وہ اسٹیج کے پیچھے چھپ کر بیٹھتا ہے اور اپنی انگلیوں کے اشارے سے پتلیوں کا کھیل پیش کرتا ہے ۔ جوسامنے آکر نقل و حرکت دکھاتی ہے اور تماشتہ گر کے اشارے پر اسٹیج پر آتی ہے اور غائب ہوتی رہتی ہے۔ راجھستان کٹھ پتلیوں کے کھیل کا اہم مرکز ہے۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک اور دیگر ممالک میں بھی اس کھیل کا رواج ابھی باقی ہے۔
۳۔رام لیلا:
رام لیلا کو اسٹیج کرنے کے آغاز کی کوئی مستند تاریخ موجود نہیں ہے۔ ایک روایت کے مطابق تلسی داس نے سب سے پہلے بنارس اور اجودھیا میں رام لیلا شروع کی تھی۔ اس کے بعد ملک کے مختلف علاقوں میں اسٹیج کی جانے لگی ۔ اس میں رام چند رجی جو ہندوئوں کے اوتار ہیں ۔ان کے حالات و کوائف کو تمثیل کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے۔ رام لیلا کا قصہ تلسی داس کی ’’رام چترت مانس‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس میں رام چندر جی کی زندگی اور ان کے وَن باس اور ان سے متعلق حالات و واقعات بیان کیے جاتے ہیں نیز رام چندر جی کے چودہ برس بن باس پورا ہونے پر اجودھیا واپسی پر جشن کا ذکر بھی تفصیل سے کیا گیا ہے۔
رام لیلا کھلے میدان یا کسی مندر کے احاطے میں کھیلی جاتی ہے۔ اسٹیج کے چاروں جانب تماشائی باقاعدگی سے بیٹھ جاتے ہیں ۔ اداکاروں کی صف پردے کے پیچھے رہتی ہے۔ اداکاروں کو رام چرت مانس کی چوپا ٹیاں ،دوہے اور دیگر مکالمے زبانی یاد ہوتے ہیں ۔ یہ اداکار نقالی کا بھرپور نمونہ پیش کرتے ہیں اور نقالی کے فن سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور لکشمن ،سیتا راون، ہنومان ، رام چندر جی کی نقالی اور اداکاری کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ۔جسے اداکاری سے متعلق فنون کابہترین تمثیلی نمونہ کہا جاسکتا ہے۔ رام لیلا کو مذہبی حیثیت بھی حاصل ہے۔جو بڑی معتبر اور مستند ہے۔
۴۔رہس یا راس لیلا:
رہس دراصل سنسکرت زبان کا ایک لفظ ہے اس کے معنی تنہائی ، گوشہ نشینی اورخلوت گزینی وغیرہ کے ہیں ۔ لیکن یہ لفظ کرشن اور گوپیوں کے سنگیت ،ناچ رنگ،اور ڈرامائی پیش کش کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اصلاحاً یہی معنی رائج ہیں۔
راس لیلا میں رادھا کرشن کی داستانِ محبت قصے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ جمنا کے کنارے کرشن کا گوپیوں کے ساتھ تفریح کرتے ہوئے اور رقص کرتے ہوئے اچانک غائب ہوجانا ،گوپیوں کا درختوں اور ان سے لپٹتی ہوئی بیلوں سے ان کا پتہ پوچھنا اور ناکام ہوکر تڑپنا اور آنسو بہانا ۔اچانک کرشن کا ظاہر ہونا اور گوپیوں کا کرشن کے اردگرد رقص کرنا۔رہس کے لازمی اجزا ہیں ۔ا س کے مکالمے منظوم ہوتے ہیں اور برج بھاشا میں ہوتے ہیں۔راس لیلا اور رہس ایک ہی ہیں ۔ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں ۔ راس لیلا ئوں سے متاثر ہوکر واجد علی شاہ نے رہس کی طرز پر جلسے شروع کیے ،اودھ کے شاہی رہس اور اسٹیج پر یہی روایت نظر آتی ہے۔
سنسکرت ڈراموں کے زوال کے بعد بھی عوامی روایتوں کی روایت قایم رہی اور عرصۂ دراز تک تفریح کا ذریعہ بنی رہی۔ بھانڈوں کی نقلیں ،سوانگ ،رام لیلا ،کٹھ پتلی کے کھیل اور بنگال یاترا وغیرہ عوامی ناٹکوں کو آج بھی مقبولیت حاصل ہے۔
یہ ابتدائی دور کے ڈراموں کا انداز تھا ۔ بعد ازاں ان فنون نے منظوم ڈراموں کی شکل اختیار کرلی جو نثری مکالموں کے ذریعہ متکلم فلموں کے فروغ میں اور انہیں قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ اس طرح باقاعدہ اُردو ڈرامے کے فن کو صنف کا درجہ حاصل ہوا۔
برسوں تک واجد علی شاہ کے رہس یعنی رادھا کنہیا کو اُردو کا پہلا ڈرامہ تسلیم کیا جاتا رہاکیونکہ وہ نامکمل تھا۔ اس لیے امانت کی اندر سبھا کو اُردو کا پہلا باضابطہ ڈرامہ تسلیم کیا گیا۔یعنی اُردو کا پہلا ڈرامہ امانت کا لکھا ہوا اندر سبھا ہی ہے۔