تصوف[مردہ ربط] کا لفظ اس طریقۂ کار یا اسلوبِ عمل کے لیے اختیار کیا جاتا ہے جس پر کوئی صوفی (جمع: صوفیا) عمل پیرا ہو۔ اسلام سے قربت رکھنے والے صوفی، لفظ تصوف کی تعریف یوں کرتے ہیں کہ؛ تصوف کو قرآنی اصطلاح میں تزکیۂ نفس اور حدیث کی اصطلاح میں احسان کہتے ہیں۔ تصوف کی اس مذکوہ بالا تعریف بیان کرنے والے افراد تصوف کو قرآن و سنت کے عین مطابق قرار دیتے ہیں؛ اور ابتدائی ایام میں متعدد فقہی علمائے کرام بھی اسی تصوف کی جانب مراد لیتے تھے مگر بعد میں تصوف میں ایسے افکار ظاہر ہونا شروع ہوئے جن پر شریعت و فقہ پر قائم علما نے نہ صرف یہ کہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ ان کو رد بھی کیا۔
اللہ کو صرف دین اسلام ہی پسند ہے اور دین اسلام وہی ہے جو اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں پورا کر دیا اور اس کے بعد کسی کو ترمیم یا تجدید کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
” مختصر یہ کہ وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں انسانی جسم کے لیے معیاری خطوطِ راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقیہ کہلائے اور وہ جنھوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task)، درست فہم تک رسائی کے لیے عقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکاتیب میں تقسیم ہو گئے ۔ ماہرین الٰہیات، فلاسفہ اور صوفیا۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح؛ متعدد مسلمان، جنھوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیے مختص کر دیں وہ صوفی کے نام سے جانے گئے (اصل عبارت کے لیے ربط دیکھیے “
ان مذکورہ بالا دو تعریفوں کے علاوہ بھی تصوف کی بے شمار تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔
مضامین بسلسلہ
تصوف
عقائد و عبادات

صوفی شخصیات

تصوف کی معروف کتابیں

صوفی مکاتب فکر

سلاسلِ طریقت

علم تصوف کی اصطلاحات

مساجد

تصوف کی نسبت سے معروف علاقے

دیگر اصطلاحات

صوفی
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ صوفی صوف سے نکلا ہے جس کا معنی اون کا کپڑا ہے جبکہ یہ بھی یونانی لفظ سوفیا سے آیا جس کا معنی حکمت ہے۔
موافقت و مخالفت
تصوف کا لفظ، اسلامی ممالک (بطور خاص برصغیر ) میں روحانیت، ترکِ دنیا داری اور اللہ سے قربت حاصل کرنے کے مفہوم میں جانا جاتا ہے اور مسلم علما میں اس سے معترض اور متفق، دونوں اقسام کے طبقات پائے جاتے ہیں؛ کچھ کے خیال میں تصوف شریعت اور قرآن سے انحراف کا نام ہے اور کچھ اسے شریعت کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ اس لفظ تصوف کو متنازع کہا بھی جا سکتا ہے اور نہیں بھی؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو اشخاص خود تصوف کے طریقۂ کار سے متفق ہیں وہ اس کو روحانی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے قرآن و شریعت سے عین مطابق قرار دیتے ہیں اور جو اشخاص تصوف کی تکفیر کرتے وہ اس کو بدعت کہتے ہیں اور شریعت کے خلاف قرار دیتے ہیں یعنی ان دونوں (تصوف موافق و تصوف مخالف) افراد کے گروہوں کے نزدیک تصوف کوئی متنازع شے نہیں بلکہ ان کے نزدیک تو معاملہ صرف توقیر اور تکفیر کا ہے۔ دوسری جانب وہ افراد، عالم یا محققین (مسلم اور غیر مسلم) ہیں جو مسلمانوں میں موجود تمام فرقہ جات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے تصوف کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کے نزدیک تصوف کا شعبہ مسلمانوں کے مابین ایک متنازع حیثیت رکھتا ہے-
نظریاتِ آغاز
مسلم و غیر مسلم محققین نے اسلام میں تصوف کے آغاز کی وجوہات و اسباب پر متعدد نظریات پیش کیے ہیں جن میں خاصی حد تک مشترکہ باتیں پائی جاتی ہیں۔
داخلیتِ اسلام
اسلام پر علامہ (scholar) کہلائے جانے والے ایک فرانسیسی لوئی ماسینیؤن (Louis Massignon) عہد بمطابق (1883ء تا 1962ء) نے تصوف کو —- داخلیتِ اسلام —- قرار دیا ہے، یعنی اسلام کو اپنے آپ میں داخل کرلینا؛ اس کے مطابق قرآن کی مسلسل تلاوت (تکرار)، مراقبہ اور تجربے سے تصوف پیدا ہوا (ہوئی) اور بڑھی۔تصوف کا قرآن میں لغوی (lexically) طور پیوست ہونے کا یہ نظریہ، باطنیتِ کلام، سے بہت مختلف بھی نہیں کہا جا سکتا؛ صوفیا بھی اسی ظاہریت اور باطنیت کی تقسیمِ اسلام کے قائل ہیں، یعنی قرآن کے الفاظ کا مسلسل ورد اور ان میں وہ معنی (باطنی) تلاش کرنا کہ جو ظاہر میں نظر نہیں آتے یا پوشیدہ ہیں، صوفیا کے نزدیک تصوف کی بنیاد ہیں۔
باطنیتِ کلام
اسلام ایک کامل دین ہونے کے ناطے انسانی زندگی کے ہر پہلو پر راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ تصوف کے آغاز کے بارے میں کچھ نظریہ دان ان پہلوؤں کو تین اقسام میں دیکھتے ہیں؛ جسمانی، عقلی اور روحانی پہلو؛ یہ تیسرا پہلو ہی ہے جس پر اختصاص (specialization) حاصل کرنے والوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ اسی بات کو تصوف سے تعلق رکھنے والے علما بھی ایک حدیث کے حوالے سے روایت کرتے ہیں جس میں اسلامی تعلیمات کے ان تین پہلوؤں کا ذکر آتا ہے اور احسان (excellence) کے بارے میں عبارت یوں ہے؛
“احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو وہ یقینا تجھے دیکھ رہا ہے۔”
تصوف کے لیے احسان اور روح کے علاوہ بھی متعدد الفاظ بطور متبادل استعمال میں دیکھے جا سکتے ہیں؛ مثال کے طور پر صوفیا کے نزدیک تزکیۂ نفس، علم السلوک اور تہذیب نفس بھی تصوف کے ہی مختلف نام ہیں۔ مذکورہ بالا تمام افکار و طریقہ ہائے کار اصل میں پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کے زمانے سے ہی رائج ہیں اور ان کو اسلام ہی کی تعلیمات کہا جاتا تھا۔
رد عملِ دنیا پرستی
حضرت عمر کے زمانے سے تیز رفتاری سے وسعت اختیار کرنے والی اسلامی حکومت میں نومسلمین (غیر عرب) کی کثیر تعداد شامل ہوتی جا رہی تھی جس کے بارے میں صحابہ اور علما ہمیشہ فکرمند بھی رہتے تھے کہ اچانک اسلام سے آشنا ہونے والے نومسلمین کی تربیت کا مقصد کس طرح حاصل کیا جائے کہ اسلامی افکار میں ان علاقوں کے قبل از اسلام کے افکار شامل نہ ہونے پائیں جو نئے فتح ہوئے تھے۔ 661ء میں حضرت علی کی شہادت کے بعد، امت کے افکار میں افتراق وسیع ہونے لگے۔ خلافت راشدہ کے بعد آنے والے حکمران اپنے پیشروؤں جیسی اسلامی حکومت کی مثال قائم نہ رکھ سکے اور متعدد علما ان سے بدظن ہونے لگے۔ یہ علما، مسلمانوں میں آنے والی دولت و آسائش طلب زندگی کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور ابتدائی اسلام کی سادہ گذر بسر کی تعلیمات پر زور دیتے تھے؛ ان میں حسن البصری اور ابو ھاشم جیسے علما شامل ہیں اور علما کی دنیاداری سے دور رہتے ہوئے زاہدانہ زندگی کا اختیار کرنا آگے چل کر تصوف کی صورت میں نمو پایا؛ ابو ھاشم کو وہ پہلا شخص کہا جاتا ہے کہ جن کو ان کے بعد آنے والوں نے صوفی کا لقب دیا۔
حبسِ اسلامِ راسِخ
ایک نظریہ جو بطور خاص تصوف سے شغف اور اسلام سے بغض رکھنے والے غیر مسلم بیان کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ؛ تصوف اصل میں اسلامِ راسِخ (orthodox islam) کی پابندیوں، اپنے نفس پر قابو رکھنے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے عقیدے کو مضبوط رکھنے کے لیے درکار مشقتِ شاقہ اور شرائطِ عُبودیت پر عمل پیرا ہونے کو دشوار سمجھنے اور اس سے نفسیاتی طور پر حبس کی کیفیت محسوس کرنے کے طور پر پیدا ہونے والا رد عمل ہے۔ان محققین کے نزدیک اسلامِ راسِخ کی شرائطِ بندگی اور صعب مجاہدۂِ نفس سے آزاد ہونے اور دوسرے مذاہب کے افکار سے دوستانہ ہونے کی وجہ سے اسلامی حکومت کے پھیلاؤ کے وقت اسلام، سیاست کی بجائے تصوف سے جلد پھیلا ۔
مختلف فرقے، مختلف تعریفیں
اصطلاح
تصوف
تصوف
غامض
غامضیت
الٰہیات
معرفت
عرفان
باطنیت
ظاہریت
باطنی
ظاہری
باطن
ظاہر
خفیت
خفیت
روحانیت
تبصیر
استبصار
خود
خودی
ذات
مراقبہ
تُعمِّق
تُعمِّق

لفظ، تصوف تو اصل میں خود اس پر عمل کرنے والے (یعنی صوفی) کے نام سے مشتق ہے، گویا صوفی کا لفظ تصوف سے قدیم ہے-رہی بات تصوف کی تعریف کی، تو مختلف نقطہ ہائے نظر رکھنے والے افراد کی جانب سے تصوف کی مختلف تعریفیں بیان کی جاتی ہیں۔ سیدھے سادھے الفاظ میں تو تصوف کی تعریف یوں بیان کرسکتے ہیں کہ تصوف اس طریقۂ کار کو کہا جاتا ہے جس پر صوفی عمل پیرا ہوتے ہیں۔
جبکہ خود صوفیا، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ تصوف، اسلام کی ایک ایسی شاخ ہے جس میں روحانی نشو و نما پر توجہ دی جاتی ہے۔صوفیا، تصوف کی متعدد جہتوں میں؛ اللہ کی ذات کا شعور حاصل کرنا، روحانی کیفیات اور ذکر (رسماً و جسماً) اور شریعت بیان کرتے ہیں۔
دیوبند مکتب فکر جن پر وھابی ہونے کا الزام لگایا جاتا ہے کے ایک عالم اور اشرف علی تھانوی صاحب کے خلیفہ کہلائے جانے والے محمد مسیح اللہ خان، تصوف کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں کہ؛ اعمالِ باطنی سے متعلق شریعت کا شعبہ تصوف اور سلوک کہلاتا ہے اور اعمالِ ظاہری سے متعلق شریعت کا شعبہ فقہ کہلاتا ہے- ایک اور دیوبندی عالم قاری محمد طیب کے الفاظ میں؛ مذہبی طور پر علمائے دیوبند مسلم ہیں، تفرقاتی طور پر یہ اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بطور مقلد یہ حنفی ہیں، طریقت میں صوفی ہیں، مدرسی طور پر یہ ماتریدی اور سلوک میں چشتی ہیں۔
برصغیر میں عام طور پر بریلوی مکتب فکر کو تصوف یا اہلسنت سے جوڑا جاتا ہے جو بریلی(شہر) سے تعلق رکھنے والے عالم دین احمد رضا خان بریلوی کو مجدد و امام کہتے ہیں،جنہیں قادریہ سمیت تصوف کے تیرہ دیگر سلاسل کی جانب سے خلافت حاصل تھی۔
یہاں ایک دلچسپ اور قابلِ غور بات یہ ہے تصوف پر عمل پیرا دونوں (بریلوی اور دیوبندی) امام ابو حنیفہ کے مقلد ہیں اور تصوف میں بلند درجے پر تسلیم کیے جانے والے ایک صوفی جلال الدین رومی نے خود اس بات کا تذکرہ کیا کہ امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔
تصوف سے نالاں علمائے اسلام اور سلفی حضرات کی تصوف کی تعریف دیکھی جائے تو ان کے مطابق؛ تصوف، محمد کے بعد اسلام میں پیدا ہونے والی ایک بدعت ہے اور یہ کہ تصوف، قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے۔ لیکن ان میں ایسے علما بھی نظر آتے ہیں جو چند صوفیا (جیسے امام غزالی) کو تکفیر صوفیت کے دوران مُستثنٰی رکھتے ہیں۔
اہل تشیع کے محقق علما اور قدیم متکلمین اور محدثین صوفیت کو کفر اور دشمنی اہل بیت سے تعبیر کرتے ہیں تاہم بعض علما عرفان کے نام پر صوفیت کے قائل ہیں، ان کے نزدیک تصوف، عملی معرفت (gnosis) کا نام ہے اور عرفان سے مراد ایسے علوم کی لی جاتی ہے کہ جو حواس اور تجربات سے نہیں بلکہ باطنی کشف سے حاصل ہو – فی الحقیقت یہ esoteric اور exoteric والا فلسفہ ہی ہے جس کے لیے ایرانی علاقوں میں عرفانِ نظری (theoretical gnosis) کی اصطلاح بھی مروج ملتی ہے اور شیعہ اور سنی تصوف میں مشترکہ خصوصیات پائی جاتی ہیں اور ان کو مدغم کرنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔
تصوف کی مذکورہ بالا تعریفوں کے بعد اگر حجت تمام کے لیے غیر مسلم (اور بطور خاص مستشرقین) کا تصوف کے بارے میں نظریہ دیکھا جائے تو بہت سے حقائق واضح ہو جاتے ہیں جن سے یہ معلوم ہو سکے کہ غیر مسلم، تصوف کو اسلام سے کس طرح جدا دیکھتے ہیں، اس کا تفصیلی ذکر اس کے لیے مخصوص قطعے میں آئے گا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق؛ تصوف، اسلام میں ایک باطنیہ تحریک کا نام ہے جو خدا کے براہ راست شخصی (ذاتی) تجربات کے ذریعے آسمانی (الٰہی) حب و علم کی متلاشی ہے۔ صوفیت محمد کے بعد ایسے اشخاص (مجمع) میں ایک منظم تحریک کے طور پر ابھری جو اسلامِ راسِخ کو روحانی طور پر حبسِ نفس (محبوس) سمجھتے تھے۔
صوفی کی اصل الکلمہ
جیسا کہ قطعۂ تعریف میں بیان ہوا کہ لفظ تصوف تو اصل میں صوفی سے مشتق ایک اسم ہے جو نویں صدی عیسوی (قریباً 286 ھجری) سے مروج ہونا شروع ہوا لفظ صوفی کے بارے میں محققین مختلف نظریات رکھتے ہیں جو نیچے درج کیے جا رہے ہیں۔
اصحابِ صُفّہ
تصوف سے شغف رکھنے والے علمائے کرام، لفظ صوفی کی اصل الکلمہ، اصحاب صفہ سے منسلک کرتے ہیں۔ صفۃ اصل میں عربی کا لفظ ہے جس میں ص پر زیر اور ف پر زبر (صِفَة) کے ساتھ صفت یا اہلیت کے اور ص پر پیش اور ف پر تشدید (صُفَّة) کے ساتھ چبوترے کے معنی آتے ہیں۔ یہ بعدالذکر معنی ہی اختیار کرتے ہوئے یہ کہا جاتا ہے کہ لفظ صوفی اسی صفہ سے اخذ ہے کہ مسجد نبوی کے شمال میں واقع صفہ (چبوترے یا سائبان) میں جو اصحاب رہا کرتے تھے ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور اصحاب صفہ چونکہ، فقراء، تارکِ دنیا اور بالکل صوفیوں کے حال میں ہوتے تھے اس لیے یہی لفظ صوفی کی اصل الکلمہ ہے۔امام ابن تیمیہ کے مطابق حضرت محمد نے اصحاب کو سوال کرنے سے بالکل منع کر دیا تھا یعنی اصحاب صفہ، عام فقراء کی مانند دست سوال دراز نہیں کرتے تھے۔ نہ ان میں کوئی صوفیانہ کیفیات (حال، وجد وغیرہ) پائی جاتی تھیں اور نہ اصحاب صفہ نے خود کو تارک الدنیا کیا تھا بلکہ وہ دیگر اصحاب کی طرح جہاد میں بھی شریک ہوا کرتے تھے-زید یہ کہ علم لسانیات کے مطابق، لفظ صفہ سے صوفی مشتق کرنا قواعد کے لحاظ سے غلط ہے کہ اوپر بیان کردہ اعراب کی رو سے لفظ صفہ سے صُفّی (suffi) مشتق ہوگا نا کہ صوفی (soofi یا sufi) مشتق کر لیا جائے۔
صف الاول
بعض صوفیا کے خیال میں یہ لفظ صوفی اصل میں صف اول کی صف سے ماخوذ ہے کہ صوفی تمام دیگر انسانوں کی نسبت اپنا دل خدا کی جانب کرنے اور اس سے رغبت رکھنے میں پہلی صف میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی دیگر متعدد ماخذ کی طرح لسانی قواعد کی پیچیدگی پیش آتی ہے کیونکہ اگر صوفی، صف سے اخذ کیا گیا ہوتا تو پھر اس لفظ کو صَفّی (saffi) ہونا چاہیے تھا نا کہ صوفی (sufi) جو مروج ہے۔
صوفہ
زمانۂ جاہلیت میں ’’صوفہ ‘‘ نام سے ایک قوم تھی اس قوم کے لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔ گو عربی قواعد کی رو سے لفظ ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی” نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے لیکن بعض ماہرین اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے ’’کوفانی‘‘ کی بجائے ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی‘‘ کا اشتقاق بھی ممکن ہے۔اس دلیل کے باوجود اس اصل الکلمہ کے خلاف متعدد دیگر وجوہات بھی بیان کی جاتی ہیں۔
قوم صوفہ ایک غیر معروف قوم تھی جس کی جانب صوفیا کی توجہ مرکوز ہونا یا اس کے نام سے تشبیہ کا امکان قوی نہیں ہے۔
اگر بالفرض یہ اصل الکلمہ درست تسلیم کر لیا جائے تو پھر صوفی کا لفظ خود حضرت محمد اور صحابۂ کرام کے زمانے سے موجود ہونا چاہیے تھا نہ کہ دوسری صدی ہجری (امام قشیری کے مطابق 822ء میں سامنے آتا۔
قبل از اسلام کے زمانۂ جاہلیت سے انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے تھے اور صوفیا کی جانب سے ایسا انتخاب ممکن نظر نہیں آتا۔
سوفیہ
سوفیہ اصل میں ایک یونانی لفظ، sophos سے لیا گیا ہے جس کے معنی حکمت اور فارسی متبادلِ تصوف کی اصطلاح کے مطابق عرفان کے ہوتے ہیں اور اسی مناسبت سے تھیو صوفی کو اردو میں حکمت یزدانی کہا جاتا ہے۔ اس اصل الکلمہ کا تذکرہ سب سے پہلے البیرونی سے روایت کیا جاتا ہے-اس کو رد کرنے والے محققین کے نزدیک، ادبی طور پر یا فقۂ لسانیات کے لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے کیونکہ ان کے مطابق sophos کو یونانی میں لکھنے کے لیے لفظ سگما استعمال کیا جاتا ہے اور عربی تراجم کے دوران اس کا متبادل سین آتا ہے نا کہ حرف صاد کا آتا ہو۔ برخلاف، وہ محققین جو تصوف میں تھیو صوفی اور نو افلاطونیت جیسے افکار پر توجہ دیتے ہیں (مثال کے طور پر Rene Guenon المعروف عبدالواحد یحیٰی (1886ء تا 1951ء)) وہ لفظ صوفی کے لیے sophos کی اصل ابائٹ کے حق میں علم الاعداد کا سہارا لیتے ہیں اور ان کے مطابق لفظ صوفی میں موجود اعداد کی تعداد حکمت الٰہیہ کے برابر ہے اس لیے صوفی، سوفیہ سے ہی مشتق ہے-
الصّفاء
فقہی امام، احمد بن حنبل کے استاد بشر ابن الحارث (767ء تا 840ء) جنہیں بشر الحافی بھی کہا جاتا ہے کہ مطابق؛ صوفی وہ ہے جس کا دل اللہ کی جانب مخلص (صاف) ہو-اگر لفظ الصفاء کو اخلاص، پاکیزگی اور صفائی کے معنوں میں لے کر اسی کو صوفی کی بنیاد یا اصل الکلمہ تسلیم کیا جائے تو پھر قواعدی طور پر لفظ صوفی کی بجائے صفوی یا صفاوی اخذ ہونا چاہیے تھا-
صوف
لفظ صوف کے معنی اون کے آتے ہیں اور گمان غالب ہے کہ یہ لفظ کوئی آٹھویں صدی عیسوی سے دیکھنے میں آ رہا ہے جب ابن سیرین (وفات 729ء) سے روایت کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اس لباس کی حضرت عیسی کی جانب نسبت سے پہنے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کا ذکر کیا-ابن خلدون کے مطابق صوف (اون) کے کپڑے پہننے کا رجحان دنیا پرستانہ زندگی کی جانب رغبت کے رد عمل کے طور پر ہوا (دیکھیے قطعہ؛ ردعملِ دنیا پرستی) جب بزرگ اور نیک انسانوں نے قیمتی اور ریشمی لباسوں کی نسبت سادہ صوف کے لباس کو ترجیح دینا شروع کی۔
بلا ماخذ
امام قشیری کے مطابق یہ لفظ 822ء سے دیکھنے میں آیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ جب دنیا پرستی سے نالاں اور زاہد عبادت گزار کسی متعبر نام (لقب / شناخت) سے محروم ہو چکے تھے؛ یعنی خود محمد کے زمانے میں تو سب سے معتبر لقب یا شناخت، لفظ صحابی ہی کا تھا پھر ان کے بعد والی نسل نے تابعین کی شناخت اختیار کی اور ان کے بعد کی نسل نے تبع تابعین کے لفظ سے شناخت اختیار کی مگر پھر تبع تابعین کے بعد زاہدین اور مخلص عبادت گذاروں اور دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والوں کے لیے یہ لفظ صوفی اختیار کیا گیا-
تفرقِ ظاہریت و باطنیت
ایک لفظ جو تصوف میں بکثرت استعمال ہوتا ہے وہ ہے باطنیت (esotericism) کا لفظ اور اس کو ظاہری زندگی یعنی ظاہریت (exotericism) سے اندرونی زندگی کو الگ شناخت دینے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے، گو ظاہری زندگی سے یوں تو مراد دنیاوی زندگی کی لی جا سکتی ہے اور عام انسان اس سے وہ زندگی لے سکتا ہے جو مذہبی زندگی (عبادت کے اوقات) سے علاوہ ہو لیکن تصوف میں ایک صوفی کی مراد اس ظاہری زندگی سے اس زندگی کی ہوتی ہے جو غیر صوفی بسر کرتے ہیں۔ جنید (830ء تا 910ء) کے مطابق صوفی، خود کے لیے مرا ہوا اور خدا کے لیے زندہ ہوتا ہے۔
صوفیت اور اسلام
صوفیا کے نزدیک اسلامی علوم کی دو قسمیں ہیں ایک ظاہری اور دوسری باطنی ظاہری علوم سے مراد شریعت ہے، جو عوام کے لیے ہے۔ اور باطنی علم وہ ہے جو ان کے کہنے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنے چند صحابہ حضرت ابوبکر صدیق، حضرت علی اور حضرت ابوذر کو تعلیم کیا۔ حضرت ابوبکر سے حضرت سلیمان فارسی اور حضرت علی سے حضرت حسن بصری فیضیاب ہوئے۔ صوفیا کے نزدیک تصوف کے چاردرجے ہیں۔
شریعت
طریقت
حقیقت
معرفت
جب تک یہ تمام درجات اپنے درست مقام پر حاصل نہ کیے جائیں اس وقت تک انسان صوفی نہیں ہو سکتا۔ شریعت اسلام کا ظاہر ہے اور طریقت اس کا باطن۔ اس کی سادہ سی مثال یوں دی جاتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں بھی منافقین مسلمانوں کی صفوں میں شامل تھے جو ظاہر میں تو ہر وہ عمل کرتے تھے جس کے کرنے کا اسلام نے حکم دیا ہے جیسے کہ نماز روزہ، جہاد وغیرہ مگر دل ہی دل میں وہ کافروں کے ساتھ تھے اور یہ گمان کرتے تھے کہ ہم ان مسلمانوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔ مگر نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اللہ کی طرف سے ان کے سب حالات معلوم تھے اور بعض اوقات تو اکابر صحابہ کی جانب سے بھی ان کو قتل کر دینے تک کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ان کے جان و مال کو بالکل اسی طرح محفوظ رکھا جیسے کہ کسی مسلمان کا رکھا جاتا ہے یہاں پر ان کے ظاہر پر حکم لگایا گیا ہے جو شریعت ہی ہے۔ پس اگر کوئی شخص ظاہر میں نماز روزے کی پابندی اور دیگر فرائض ادا کرتا ہے تو زبان شریعت میں اسے کوئی کافر نہیں کہہ سکتا۔ اب چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو ان کی حقیقت معلوم تھی اور اس بارے میں سورۃ المنافقین بھی اتری جس من ان کی نیتوں کو بے نقاب کر دیا گیا تو طریقت کے اعتبار سے یہ لوگ کافر ہیں اور ہمیشہ جہنمی ہیں مگر ان کے اس ظاہر کی وجہ سے مسلمانوں کا کوئی قاضی ان کو کچھ نہیں کہہ سکتا اور کوئی مفتی ان کے خلاف فتوی نہیں دے سکتا۔ یہاں پر اہل اللہ اور اولیاء اللہ اپنے باطنی نور سے ان کی حقیقت معلوم کر لیتے ہیں اور لوگوں کو ان کے شرور سے متنبہ کر دیتے ہیں۔
اسلام اور صوفیت
قرآن میں صوفی یا تصوف و صوفیت نام کی کوئی اصطلاح نہیں ملتی اور جیسا کہ ابتدائیہ میں مذکور ہوا کہ یہ تصور اسلام کی اولین نسل میں موجود ہی نہیں تھا اور ابن خلدون کے مطابق کوئی دوسری صدی سے دیکھنے میں آیا -ابن خلدون کے الفاظ میں اس سے مراد “خود کو اللہ کی مکمل سپردگی میں دینے کی ہے” (جو اسلام کا تصور بھی ہے) اور یہ لوگ مکمل روحانی پاکیزگی، انسان کی اندرونی کیفیات، وجود کی فطرت اور دنیاوی مسرتوں سے دور ہو کر عبادت اور اللہ کی بندگی پر زور دیتے تھے۔ جب تک یہ تمام طریقۂ کار حضرت محمد کی جانب سے لائے گئے اللہ کے پیغام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے اختیار کیے جاتے رہیں اس وقت تک لفظ صوفی اور تصوف کی بجائے ان کو شریعت ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ جب سب کچھ قرآن اور سنت کے مطابق ہی ہے تو پھر اسے تصوف کیوں کہا جائے کہ اس کے لیے تو شریعت کی اصطلاح حضرت محمد کے قریب ترین زمانے سے موجود ہی تھی۔ لیکن پھر اس میں اسلام حکومت کی وسعت کے ساتھ قبل از اسلام کے ایرانی و یونانی فلسفیانہ خیالات شامل ہونے لگے؛ انسان اور کائنات کا تعلق، اللہ سے قربت، دنیا داری سے کنارہ کشی، انسان کی لاچارگی وغیرہ جیسے تصورات شامل ہونے کے بعد صوفیت اپنی شکل اختیار کرنے لگی؛ اس قسم کی روحانی پاکیزگی اور عبادت کے تصور کو قرآن کی سورت الحدید کی آیت 27 میں رہبانیت (monasticism) کا نام دیا گیا ہے اور اسے خود انسان کی تخلیق کہا گیا ہےاور کہا گیا ہے کہ؛ نہیں فرض کیا تھا ہم (اللہ) نے اسے ان پر۔
اردو کے ایک مفکر اور شاعر، اقبال نے اسلام میں تصوف کے تصور کو اسلام کی زمین پر ایک بدیسی / اجنبی (alien) تصور قرار دیا ہے جو غیر عرب (اسلام کی وسعت کی وجہ سے ) اور (قبل از اسلام کے ) ایرانی عقلیت پسند ماحول میں پروان چڑھا، اقبال نے یہ تصوف کے بارے میں یہ رائے سید سلیمان ندوی کے نام تیرہ نومبر 1917ء کو اپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ میں تحریر کی۔
Even th ہرconcept of tasawwuf is an alien plant on the soil of Islam, one which has been brought up in the intellectual climate of Ajamis (non-Arabs, specially Persians).< ref name=iqbal1>IQBAL IN YEARS at allamaiqbal.com اقبال کا بیانآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ allamaiqbal.com (Error: unknown archive URL)۔
یہ درست ہے کہ اسلام میں تزکیۂ نفس و روح پر زور دیا جاتا ہے اور اس تزکیے کو حاصل کرنے کے سلسلے میں صوفیا کی دو اقسام نظر آتی ہیں ایک وہ کہ جو مکمل طور پر خود کو قرآن اور شریعت کی حدود میں رکھتے ہوئے ایسا کرتے رہے (اور ہیں) اور دوسرے وہ کہ جو غیر مسلم افکار اور فلسفے سے مکدر تصوف پر چلتے تھے (اور ہیں) ؛ یعنی ہمیشہ ایک ایسی صوفیت بھی موجود رہی ہے کہ جو کسی بھی طور اسلام سے تعلق نہیں رکھتی اور بہت سے صوفیا ایسے ہیں کہ جو صوفیت کی ریاضتوں سے گذرنے کے بعد ایک ایسے درجے تک پہنچے جس کے بعد انھوں نے خود کو اسلام سے جدا کر لیا۔
صوفیا اکرام
اس قطعے میں معروف صوفیا کو ترتیب زمانی کے لحاظ سے تحریر کیا جا رہا ہے؛ عام تاثر کے برعکس تصوف کو خصوصیت حاصل ہے کہ اس کے صوفیا میں صرف مسلم صوفیا اکرام ہی نہیں ہیں بلکہ ہندومتی، بدھ متی اور دیگر ادیان کے غیر مسلم صوفیا اکرام بھی شامل ہیں۔
مسلم صوفیا اکرام
درج ذیل میں معروف صوفیا اکرام کی ایک مختصر فہرست بلحاظِ ترتیبِ زمانی دی جا رہی ہے۔ یہ بات وثوق سے کہنا کہ پہلا صوفی کون تھا شاید مشکل ہے لیکن متعدد علما کی نظر میں سب سے پہلے لفظ صوفی کو ابو ھاشم (وفات : 763ء؟) کے لیے اختیار کیا گیا اور ابو سفیان الثوری (716ء تا 778ء) کی روایت سے اس بات تذکرہ ابونعیم الحافظ (1038ء؟) اور ابن الجوزی (1114ء تا 1201ء) کی تصانیف میں آتا ہے[9]۔ اب رہی بات تصوراتی اور روحانی طور پر اسلاف سے تعلق قائم کرنے کی تو اہل تصوف کے ذرائع (بلکہ غیر مسلم ذرائع تک۔[30]) کے مطابق تو پہلے صوفی خود حضرت محمد ہیں اور ان کے بعد یہ تصوف ان اہل افراد (مثال کے طور پر حضرت علی) کو عطا ہوا جو اس کے اہل تھے یوں پیغمبر اسلام سے تصوف کی لڑی کو شروع کرنے کے بعد اس میں حضرت سلمان فارسی، حضرت اویس قرنی اور پھر حضرت جعفر الصادق کے نام بھی شامل کیے جاتے ہیں