اردو فن عروض عربی زبان سے مستعار ایک ایسا علم ہے جس کے ذریعے شاعری کے وزن اور بحر کو جانچا جاتا ہے۔ عروض کا مقصد شاعری میں باقاعدگی اور موسیقیت پیدا کرنا ہے تاکہ اشعار ایک خاص لَے میں رہیں۔ فن عروض کے بنیادی اصول اور اجزاء درج ذیل ہیں:

بنیادی عناصر

    بحر (Meter):

        بحر کسی بھی نظم یا غزل کے شعر کی وزن یا پیمائش کو کہتے ہیں۔ بحر مختلف ارکان پر مشتمل ہوتی ہے جو شعری مصاریع (مصراع کی جمع) کے مختلف ٹکڑوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

    رکن (Foot):

        رکن شعر کا وہ حصہ ہوتا ہے جو مخصوص ہجوں (syllables) پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر رکن میں متعین تعداد میں ہجے ہوتے ہیں۔

    زحاف (Substitution):

        زحاف ارکان میں ہونے والی تبدیلی یا تحریف کو کہتے ہیں، جس کے ذریعے شاعر شعر میں تبدیلی لاتا ہے۔ زحافات مختلف قسم کے ہوتے ہیں جو ارکان میں ہجوں کو کم یا زیادہ کر سکتے ہیں۔

    قافیہ (Rhyme):

        قافیہ اشعار کے آخر میں آنے والے ملتے جلتے یا یکساں حروف یا الفاظ کو کہتے ہیں۔

    ردیف (Radif):

        ردیف قافیہ کے بعد آنے والے یکساں الفاظ یا فقرات کو کہتے ہیں جو ہر شعر کے آخر میں یکساں رہتے ہیں۔

ارکان اور اوزان

ارکان مختلف ہجوں کے مجموعے ہوتے ہیں، اور انہیں بنیاد بنا کر مختلف بحریں بنتی ہیں۔ چند معروف ارکان درج ذیل ہیں:

    فعولن: ۔ - ۔ ۔

    فاعلاتن: - ۔ - ۔

    مفاعیلن: - ۔ ۔ -

    مستفعلن: - ۔ - -

تقطیع (Scansion)

تقطیع کا مطلب ہے کہ شعر کو مختلف ارکان میں تقسیم کرنا تاکہ اس کی بحر معلوم کی جا سکے۔ یہ عمل درج ذیل مراحل پر مشتمل ہوتا ہے:

    شعر کو ہجوں میں بانٹنا:

        ہر لفظ کو ہجوں میں توڑنا اور علامتوں کی مدد سے ظاہر کرنا۔

    ارکان کا تعین کرنا:

        ہجوں کے مجموعوں کو ارکان میں تقسیم کرنا۔

مشہور بحریں

اردو شاعری میں کئی بحریں استعمال ہوتی ہیں، جن میں چند مشہور درج ذیل ہیں:

    بحرِ متقارب: فعولن فعولن فعولن فعولن

    بحرِ ہزج: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

    بحرِ رمل: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

    بحرِ کامل: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

عروض کی اہمیت

فن عروض کی اہمیت یہ ہے کہ اس کے ذریعے شاعر اپنے اشعار میں وزن اور بحر کو برقرار رکھتے ہیں۔ اس سے شاعری کی روانی، موسیقیت، اور ترتیب بہتر ہوتی ہے، اور قارئین کے لیے اشعار کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ اردو شاعری کی ہر صنف میں، خواہ وہ غزل ہو، نظم ہو، یا قصیدہ، عروض کا استعمال لازم ہے تاکہ شعر کی خوبصورتی اور تاثیر میں اضافہ ہو۔

فن عروض کو سمجھنا اور اس پر عبور حاصل کرنا اردو شاعری کے ہر سنجیدہ طالب علم اور شاعر کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ فن نہ صرف اشعار کی فنی خوبصورتی کو بڑھاتا ہے بلکہ شاعر کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بہتر استعمال کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔

فن عروض کی مزید تفصیلات

فن عروض کو سمجھنے کے لئے مزید کچھ اہم عناصر اور اصطلاحات کا ذکر کیا جاتا ہے:

اضافی اصطلاحات

    وتد (Watad):

        وتد دو طرح کا ہوتا ہے: وتد مجموع (ـ ُـ) اور وتد مفروق (ـ ُ ْـ)۔

    سبب (Sebab):

        سبب دو طرح کا ہوتا ہے: سبب خفیف (ـ ْ) اور سبب ثقیل (ـ ُ ْ)۔

    فاصلہ (Fasl):

        فاصلہ دو طرح کا ہوتا ہے: فاصلہ صغریٰ (ـ ُـ ْ) اور فاصلہ کبریٰ (ـ ُـ ُ ْ)۔

بحر کی تشکیل

بحر کی تشکیل ارکان کے خاص ترتیب سے ہوتی ہے، اور ہر بحر کی اپنی مخصوص ترتیب اور قانون ہوتا ہے۔ مثلاً، بحر رجز کی ترتیب فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن ہے۔

زحافات کی اقسام

زحاف کے ذریعے ارکان میں ترمیم کی جاتی ہے۔ کچھ مشہور زحافات درج ذیل ہیں:

    خبن: فاعلاتن سے فَعِلاتن

    کف: فاعلاتن سے فاعلاتُ

    حذف: مفاعیلن سے مفاعیل

    اضمار: مفاعلتن سے مفاعَلتن

مشہور بحریں اور ان کی مثالیں

چند مشہور بحریں اور ان کے اشعار کی مثالیں درج ذیل ہیں:

    بحر متقارب:

        وزن: فعولن فعولن فعولن فعولن

        مثال: یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں، سن جا دل کی داستاں

    بحر رمل:

        وزن: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

        مثال: میں خیال ہوں کسی اور کا، مجھے سوچتا کوئی اور ہے

    بحر کامل:

        وزن: متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن

        مثال: اک بات کہوں تجھ سے، کیا خوب محبت ہے

    بحر ہزج:

        وزن: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

        مثال: یہ جو ہم ہیں تیرے ستم گر، یہ جو تم ہو دل کے صنم گر

عروض کی عملی مثالیں

    تقطیع کی مثال:

        شعر: یہ رات یہ چاندنی پھر کہاں

        تقطیع: یرا – تُ یچا – ند – نیپھ – رکہا – ں

        ارکان: فعولن فعولن فعولن فعولن

    شعر کی تقطیع:

        شعر: میں خیال ہوں کسی اور کا

        تقطیع: مَین – خیا – ل ہون – کسی – اور – کا

        ارکان: فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن

مشق

فن عروض کو بہتر سمجھنے کے لئے مشق ضروری ہے۔ مختلف اشعار کی تقطیع کرنے سے اور مختلف بحروں کے ساتھ کام کرنے سے عروض کی سمجھ بوجھ میں بہتری آتی ہے۔

فن عروض کی اہمیت

فن عروض کی مدد سے شاعری میں موجود موسیقیت اور ردھم کو برقرار رکھا جاتا ہے، جس سے شاعری کی جمالیات میں اضافہ ہوتا ہے۔ عروض شاعر کو یہ بھی سکھاتا ہے کہ کیسے مختلف بحروں میں اشعار کہے جا سکتے ہیں اور کیسے مختلف زحافات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

فن عروض کی مدد سے شاعری کو ایک مخصوص دائرے میں لانا آسان ہو جاتا ہے، جس سے اشعار میں توازن اور خوبصورتی پیدا ہوتی ہے۔ اس علم کی مدد سے شاعری کو سننے اور پڑھنے والوں کے لئے دلکش بنایا جا سکتا ہے۔

فن عروض کی مکمل اور عمیق سمجھ بوجھ شاعری کے معیار کو بلند کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اردو ادب میں اس کا مقام بہت بلند ہے۔

اردو فن عروض کے مزید پہلو

فن عروض میں گہرائی سے جانے کے لئے کچھ اضافی اصطلاحات اور تصورات کا ذکر کرنا ضروری ہے۔

اضافی ارکان

مزید کچھ مشہور ارکان اور ان کی ترتیب درج ذیل ہیں:

    مفاعلتن: - - ُ - ْ

    متفاعلن: - - ُ - -

    فاعلاتن: - ْ - ْ -

بحور کی مزید اقسام

    بحر وافر:

        وزن: مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن

        مثال: محبت کی زباں ہونٹوں پہ لے آ، وفا کی داستان ہونٹوں پہ لے آ

    بحر مدید:

        وزن: فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن

        مثال: کبھی تو آسماں سے چاند اترے، کبھی زمین سے آگ نکلے

    بحر ہزج:

        وزن: مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن

        مثال: یہ جو ہم ہیں تیرے ستم گر، یہ جو تم ہو دل کے صنم گر

تقطیع کی مشق

مثال 1:

شعر: محبت کی زباں ہونٹوں پہ لے آ

    تقطیع: مح – بت – کی – زبا – ں ہون – ٹوں – پہ – لے – آ

    ارکان: مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن مفاعلتن

مثال 2:

شعر: کبھی تو آسماں سے چاند اترے

    تقطیع: ک – بھی – تو – آ – سماں – سے – چا – ند – ات – رے

    ارکان: فاعلاتن فاعلن فاعلاتن فاعلن

عروض کی پیچیدگیاں

عروض میں مختلف زحافات اور ارکان کے استعمال سے اشعار میں مختلف تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں، جو شاعر کے ہنر اور مہارت کی عکاسی کرتی ہیں۔ عروض کے علم میں مہارت حاصل کرنے کے لئے مسلسل مشق اور مختلف بحروں کے ساتھ تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مشہور اردو شعرا کی بحور

بہت سے مشہور اردو شعرا نے مختلف بحروں میں اشعار کہے ہیں۔ چند مشہور شعرا اور ان کی بحور درج ذیل ہیں:

    میر تقی میر:

        اکثر بحر رمل، ہزج اور متقارب میں اشعار کہتے تھے۔

        مثال: پتا پتا، بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے

    غالب:

        بحر ہزج، رمل اور کامل میں اشعار کہتے تھے۔

        مثال: دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں

    اقبال:

        بحر متقارب، مدید اور وافر میں اشعار کہتے تھے۔

        مثال: خُدی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے، خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے

عروض کی پیچیدگی اور خوبصورتی

فن عروض کی خوبصورتی اس کی پیچیدگی میں مضمر ہے۔ ایک بار جب شاعر عروض کے اصولوں کو سمجھ لیتا ہے، تو وہ اشعار میں غیر معمولی روانی اور موسیقیت پیدا کر سکتا ہے۔ عروض کی مدد سے اشعار میں موجود جذبات کو بہتر طریقے سے بیان کیا جا سکتا ہے اور شاعری کی تاثیر میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

نتیجہ

فن عروض اردو شاعری کا ایک اہم جزو ہے جس کی مدد سے اشعار میں وزن، بحر، اور موسیقیت پیدا کی جاتی ہے۔ عروض کے مختلف اصولوں اور قواعد کی سمجھ بوجھ حاصل کر کے شاعر اپنے اشعار کو فنی طور پر مضبوط اور پر اثر بنا سکتا ہے۔ عروض کی مشق اور مختلف بحروں میں تجربے سے شاعر اپنی شاعری کی خوبصورتی اور تاثیر میں اضافہ کر سکتا ہے، جو اردو ادب میں اس کے مقام کو بلند کرتا ہے۔

فن عروض کا مطالعہ اور اس پر عمل پیرا ہونا ایک شاعر کے لئے نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ اسے نہ صرف شاعری کی تکنیکی باریکیوں سے روشناس کراتا ہے بلکہ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کو بھی نکھارتا ہے۔