ماہ نامہ ”سب رس“- ایک اجمالی جائزہ
سرتاج احمد میر
ریسرچ اسکالر
یونیورسٹی آف حیدرآباد، تلنگانہ، بھارت۔۶۴۰۰۰۵
ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ ایک بلند پایہ محقق، نقاد، مورخ، افسانہ نگار، شاعر، مخطوطہ شناس، صحافی اور اعلیٰ پایہ کے استاد ہونے کے علاوہ ماہر لسانیات و صوتیات اور ماہر دکنیات بھی تھے۔ ڈاکٹر زورؔ نے اپنے چند رفقاء پروفیسر عبدالقادر سروری، پروفیسر عبدالمجید صدیقی، پروفیسر عبدالقادر صدیقی اور مولوی نصیرالدین ہاشمی کے تعاون سے دکن اور دکنیوں کی تخلیقی، تحقیقی، تنقیدی اور شعری صلاحیتوں کی نشونما اور دکنی کلچر کو فروغ دینے کے لیے ۵۲ جنوری ۱۳۹۱ء کو ”ادارہئ ادبیات اردو“ حیدرآباد کا قیام عمل میں لایا۔ اس ادارے کے قیام کے اغراض مقاصد میں سب سے اہم اور اوّلین مقصد اردو زبان و ادب کی توسیع و حفاظت اور سرزمین دکن میں اردو زبان و ادب کا صحیح ذوق پیدا کرنا تھا۔ ادارے کے قیام کے بعد اس کے اغراض ومقاصد کے نشرواشاعت کے لیے ڈاکٹر زورؔ نے جنوری ۸۳۹۱ء ماہ نامہ ”سب رس“جاری کیا۔ رسالے کے پہلے شمارے کے پیش لفظ میں اس کے مقاصد اور اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر زورؔ لکھتے ہیں:
”سب رس ”ادارہئ ادبیات اردو“ کا ترجمان ہے جو ہر مہینے اردو زبان اور ادب کی خدمت کے لیے شائع ہوا کرے گا۔ اس ادارے نے اب تک سنجیدہ علمی و ادبی کتابیں شائع کرکے اردو کی جو خدمت کی ہے وہ علم دوست اصحاب سے مخفی نہیں ہے۔۔۔۔۔ ہمارے بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جن کا اثر یا فائدہ ایک خاص حلقہ یا طبقہ تک ہی پہنچتاہے۔ اب ایسے کاموں اور تحریکوں کی زیادہ ضرورت ہے جوسب رس بن سکیں اور ایسے ماہنامے اور روز نامے نکالے جائیں جن میں بھانت بھانت کی باتوں اور طرح طرح کی معلومات کا نچوڑ ہو اور جن کو ہر وہ شخص دلچسپی سے پڑھ سکے جو کسی خاص علم و فن کا ماہر نہ ہو اور اپنی فرصت کی گھڑیوں کو خوشگوار طریقہ پر گزارنا چاہتاہو۔ یہی ایک طریقہ ہے جس سے اردو زبان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا اور ہماری آواز دور تک پہنچ سکے گی۔۔۔۔۔ سب رس کا سب سے بڑا مقصد یہی ہوگا کہ وہ سب کے لیے ہو وہ سب کے لیے اسی وقت بن سکے گا جب اس کی زبان سلیس اور سادہ ہوگی اور جب اس میں سب طرح کے موضوعوں پر دلچسپ مضمون، نظمیں اور افسانے چھپتے رہیں۔ ادارہ اسی وقت خود کو کامیاب سمجھے گا جب ”سب رس“ بچوں اور بوڑھوں، عورتوں اور مردوں سب کے لیے دلچسپی کا باعث بن سکے۔“ ۱؎
ادارہئ ادیبات اردو کے ترجمان رسالہ ”سب رس“ کا پہلا شمارہ جنوری ۸۳۹۱ء میں مکتبہ ”ابراہیمیہ مشین پریس“ میں طبع ہوکر دفتر ادارہ رفعت منزل خیریت آباد سے منظر عام پر آیا۔ ڈاکٹر زورؔ معتمد عمومی ”ادارہئ ادبیات اردو“ رسالہ ”سب رس“ کے نگران مقرر ہوئے اور دکن کے ذہین و فطین شاعر و ادیب صاحبزادہ میر محمد علی خان میکشؔ کو ”سب رس“ کی ادارت کے فرائض سونپے گئے۔ خواجہ حمید الدین شاہدؔ، مہتمم ادارہ نے میکش کو اپنے بھرپور تعاون سے نوازا۔ ”سب رس“ کے پہلے شمارے کے لیے مایہ ناز حسن کار عبدالرحمن چغتائی نے ایک خوبصورت سرورق تیار کیا تھا۔ جس نے رسالہ ”سب رس“ کے ظاہری حسن کو دو بالاکردیا۔ ”سب رس“ کی دلکشی اور جاذبیت میں اضافہ کرنے کے لیے بہت ساری قدیم، نایاب اور قلمی تصویریں بھی شائع کی گئیں۔ رسالہ کو ایک طرف معلومات آفریں بنایا گیا تو دوسری طرف اس میں سلاست اور افادیت کا بھی خاص خیال رکھا گیا جس سے یہ رسالہ نہ صرف حیدرآباد بلکہ حیدرآباد سے باہر بھی بہت مشہور ہوا۔
رسالہ ”سب رس“ کے پہلے شمارے میں جو اغراض و مقاصد اور قواعد تحریر کیے گئے ہیں ان میں چند
اہم حسب ذیل ہیں:
(۱) یہ سلسلہ ادارۂ ادبیات اردو کا ماہوار علمی و ادبی رسالہ ہے جس میں اردو زبان و ادب کے مختلف
شعبوں اور پہلوؤں پر بحث ہوگی۔
(۲) مضامین متعلقہ سیاسیات حاضرہ اور مذہبی مباحث کسی صورت میں قابل اشاعت متصور نہیں
ہوں گے۔
(۳) اردو مطبوعات پر بے لاگ تنقید کرکے اردو تصنیف و تالیف کا ذوق صحیح پیدا کرنے کی کوشش کی
جائے گی۔
(۴) غیر زبانوں کے شاہکار مضامین کو اردو میں منتقل کرکے اردو کے علمی و ادبی سرمایہ میں اضافہ کیا
جائے گا۔
(۵) یہ رسالہ کم از کم ۴۶صفحات اور زیادہ سے زیادہ ۶۹صفحات پر ہر ماہ عیسوی کے پہلے ہفتہ میں
شائع ہوا کرے گا۔
رسالہ ”سب رس“ ایک سال تک پابندی سے شائع ہوتا رہا مگر جب اس کی مانگ بڑھی تو اس کے لیے ایک مجلس انتظامی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ ۹۳۹۱ء کے آغاز میں ڈاکٹر زورؔ نے ادارے کے دوسرے شعبوں کی طرح ”سب رس“ کی بھی ایک مجلس ادارت قائم کردی جس کے اراکین میں صاحبزادہ محمد علی خان میکشؔ، سکینہ بیگم، خواجہ حمیدالدین شاہدؔ اور معین الدین انصاری شامل تھے۔ خواتین کے مضامین اور نظموں کا انتخاب سکینہ بیگم کے سپرد کیا گیا۔ ابتداء میں ”بچوں کا سب رس“ رسالے کے آخری صفحات پر ہی ضمیمہ کی حیثیت سے شائع کیا جاتاتھا لیکن بعد میں اس کی مقبولیت اور بچوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس کی گئی کہ بچوں کے لیے علاحدہ رسالہ جاری کیا جائے۔ چنانچہ ”بچوں کا سب رس“ الگ سے نکالاجانے لگا جس کی ترتیب معین الدین انصاری انجام دینے لگے۔ بچوں کے سب رس کے علاوہ ۰۴۹۱ء میں ایک اور رسالہ ”سب رس معلومات“ کے نام سے جاری کیا گیا جس میں نامور اور مشہور اشخاص کی زندگیاں، عام فہم سائنس کے مضامین، تعلیمی اور سیاسی خبریں، مسابقتی امتحانات سے متعلق معلومات اور کھیلوں کی خبریں وغیرہ شامل کی گئیں۔ اس حصہ کے اجراء کا اصل مقصد یہ تھا کہ جو لوگ حیدرآباد یا برطانوی ہند کے مسابقتی امتحانات میں حصہ لینا چاہتے ہیں ان کے لیے اردو زبان میں قیمتی معلومات اور حالات حاضرہ سے متعلق تمام جانکاری فراہم کی جائیں۔ اس کی ترتیب کا کام عبدالحفیظ صدیقی سرانجام دینے لگے۔ تقریباً دوسال بعد مالی دشواری کے باعث ”سب رس معلومات“ کو بند کردیا گیا اور آگے چل کر وسائل کی قلت کے سبب بچوں کی معلومات کا حصہ بھی ”سب رس“ میں ہی ضم کردیا گیا۔ اس بارے میں پروفیسر سیدہ جعفر لکھتی ہیں:
”سب رس ادارے کا ترجمان تھا اور جنوری ۸۳۹۱ء میں اس کا پہلا شمارہ طبع ہوکر منظر عام پر آیاتھا۔ بچوں کے لیے ”بچوں کا سب رس“ اور ”سب رس معلومات“ شائع کیے تھے جو بعد میں بند کردئے گئے اور ”سب رس“ ہی میں چند صفحات بچوں کے لیے مختص کردئے گئے تھے۔“ ۲؎
رسالہ ”سب رس“ کی ادارتی ذمہ داریوں کو ڈاکٹر زورؔ کی حیات اور نگرانی تک صاحبزادہ میکشؔ، خواجہ حمیدالدین شاہدؔ، سلیمان اریبؔ، وقار خلیل اور پروفیسرمحمد اکبرالدین صدیقی نے مشاورتی بورڈ کے تعاون سے احسن طور پر انجام دیا۔ ڈاکٹر زورؔ کی وفات کے بعد رسالہ ”سب رس“ کو ان کی یادگار ہونے کا شرف حاصل ہوا اور صدر ادارہ سید علی اکبر نے اس کی ادارت قبول فرمائی۔ اس کے بعد محمد اکبرالدین صدیقی، میر حسن اور غلام جیلانی نے ”سب رس“ کی ادارت کے فرائض انجام دیے۔
ڈاکٹر زورؔ کے بعد ”سب رس“ کو امتیازی خصوصیت عطاکرنے میں نامور نقاد پروفیسر مغنی تبسم کا غیر معمولی کردار رہاہے۔ انھوں نے ”سب رس“ کے معیار پر اس قدر توجہ کی کہ آج ”سب رس“ کا شمار اردو کے صف اوّل کے رسائل میں ہوتاہے۔پروفیسر مغنی تبسم اکتوبر ۸۷۹۱ء میں رسالہ ”سب رس“سے وابستہ ہوئے۔ان کے ساتھ کچھ عرصہ تک وقار خلیل بھی ”سب رس“ کی ادارت میں بہ حیثیت معاون مدیر مصروف کارِ رہے۔ پروفیسر مغنی تبسم نے دشوار اور نامساعد حالات میں بھی ادارے اور ”سب رس“ کی سرگرمیوں کو خوش اسلوبی کے ساتھ جاری رکھا۔ پروفیسر فضل اللہ مکرم ”سب رس“ کے تئیں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:
”آپ (پروفیسر مغنی تبسم) نے دریا دلی سے رسالے کی ضخامت، کتابت و طباعت اور خوبصورت گٹ اپ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے سب رس کے کئی خصوصی نمبر اور قلمکاروں کے کئی خصوصی گوشے شائع کیے ہیں۔ ”سب رس“ کو امتیازی خصوصیت عطاکرنے میں پروفیسر مغنی تبسم کا غیر معمولی کردار رہاہے۔“ ۳؎
پروفیسر مغنی تبسم نے علالت کے باعث نومبر ۹۰۰۲ء میں ”ادارہئ ادبیات اردو“ کے معتمد عمومی کی حیثیت سے استعفیٰ پیش کیا اور ساتھ ہی ”سب رس“ کی ادارت سے بھی کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ۰۱۰۲ء کے آغاز سے ستمبر ۱۲۰۲ء تک رسالہ ”سب رس“ کی ادارت کے فرائض عہد حاضر کے مشہور فکشن نگار،ساہتیہ اکیڈمی ایواڈ یافتہ پروفیسر بیگ احساس صاحب بہ حسن و خوبی انجام دے رہے تھے۔ان کے انتقال کے بعد رسالہ”سب رس“ کی ادارت کے فرائض پروفیسر ایس۔اے۔شکور صاحب انجام دے رہے ہیں جو فی الوقت رسالے کے معتمد عمومی بھی ہیں۔ رسالے کی موجودہ مجلس ادارت میں راج کماری اندرا دیوی دھن راج گیرجی (سرپرست)، جناب زاہد علی خان (صدر) اور پروفیسر ایس۔ اے۔ شکور (معتمد عمومی) شامل ہیں جب کہ مجلس مشاورت پروفیسر گو پی چند نارنگ اور پروفیسر اشرف رفیع پر مشتمل ہیں۔
رسالہ ”سب رس“ نے دکن کے اہل قلم اصحاب، شاعروں، افسانہ نویسوں، جامعہ عثمانیہ کے فرزندوں اور خواتین قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کو ابتداء سے اب تک اوّلیت دی ہے۔ ان اصحاب کے ساتھ ساتھ ہندو پاک کے صف اوّل کے لکھنے والوں کا تعاون بھی رسالہ ”سب رس“ کو ہر عہد اور ہر دور میں رہاہے۔ ان اہل قلم حضرات میں ڈاکٹر محی الدین قادری زورؔ، عبدالقادر سروری، علی عباس حسینی، فراقؔ گورکھپوری، پروفیسر مسعود حسن رضوی، قاضی عبدالغفار، امجدؔ حیدرآبادی، نصیرالدین ہاشمی، احمد ندیم قاسمی، سلیمان اریب، اکبرالدین صدیقی، میراں جیؔ، محبوب حسین جگر، مغنی تبسم، مجتبیٰ حسین اور بیگ احساس وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔
رسالہ ”سب رس“ کی نمایاں خصوصیت اس کا علمی و ادبی تنوع ہے۔ آغاز سے ہی یہ خیال پیش نظر رہاہے کہ اس میں ”سب کے لیے سب کچھ ہو“۔ چنانچہ ”سب رس“ میں علمی، ادبی اور تحقیقی مضامین کے ساتھ ساتھ تخلیقی ادب کو بھی جگہ دی جاتی ہے۔ یہ رسالہ کسی مخصوص تحریک کا علم بردار نہیں رہا لیکن ہر دور کے بدلتے ہوئے رجحانات کاساتھ ضرور دیتارہاہے۔ رسالے نے اعتدال پسندی کو ہر دور میں اپنا شعار بنایا ہے۔
رسالہ ”سب رس“ میں مضامین کے انتخاب میں بڑی وسیع النظری رکھی جاتی ہے۔ ڈاکٹر زورؔ نے واضح طور پر کہا تھا کہ افسانوں، نظموں، تحقیقی، علمی، ادبی اور تنقیدی مضمونوں اور اردو کی مطبوعات پر غیر جانب دار تنقیدوں کے سوا آرٹ پر بھی مضامین چھپتے رہیں گے۔ اس معیار کو رسالہ ”سب رس“ نے ہر دور میں اوّلیت دی۔ رسالہ ”سب رس“ اپنے مضامین کے اعتبار سے انتہائی معیاری ہے۔ اردو کے بڑے بڑے ادباء، شعراء، محققین اور ناقدین نے اپنی تخلیقات کے ذریعے اس رسالہ کو نہ صرف زینت بخشی بلکہ اس کے مقام کو بھی بلند کیا ہے۔ ادبی نقطہئ نظر سے دیکھاجائے تو یہ رسالہ اردو ادب میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔
ادارہئ ادبیات اردو نے ”سب رس“ کے عام شماروں کے علاوہ مختلف موقعوں پر خصوصی نمبرات بھی شائع کیے ہیں جو دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو دنیا میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان میں علمی، ادبی اور سیاسی شخصیتوں پر بھی خاص نمبرات ملتے ہیں اور ساتھ ہی ادبی تحریکوں اور ادبی اداروں پر بھی خاص نمبرات نکالے گئے ہیں۔ یہ خصوصی نمبرات اتنے مقبول ہوئے کہ ”سب رس“ کے ہم عصر رسائل و جرائد نے اپنے صفحات میں تعریفی و توصیفی الفاظ میں ان پر تبصرے کیے، جن کو بعد میں ادارے کی رپوٹوں میں شامل کیا گیا۔ ان خصوصی نمبرات میں محرم نمبر (مارچ ۸۳۹۱ء)، اقبال نمبر (جون ۸۳۹۱ء)، دکن نمبر (جنوری ۹۳۹۱ء)، اردو نمبر (جنوری ۰۴۹۱ء)، ترقی پسند ادب نمبر (جولائی ۴۴۹۱ء)، قلی قطب شاہ نمبر (اپریل، مئی، جون ۸۵۹۱ء)، ادارہ نمبر (مارچ ۰۶۹۱ء)، ٹیگور نمبر (جون ۱۶۹۱ء)، امجدؔ نمبر (مئی و جون ۲۶۹۱ء)، زورؔ نمبر (اکتوبر، نومبر، دسمبر ۳۶۹۱ء)، غالبؔ نمبر (ستمبر، اکتوبر، دسمبر ۹۶۹۱ء) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان خصوصی نمبرات کے علاوہ رسالہ ”سب رس“ میں خصوصی گوشے بھی وقتاً فوقتاً شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان میں گوشہ محی الدین قادری زورؔ (مارچ ۳۸۹۱ء)، گوشہ جامعہ عثمانیہ (دسمبر ۳۹۹۱ء)، گوشہ شمیم حنفی (دسمبر ۸۹۹۱ء)، گوشہ عبدالستار دلوی (اکتوبر ۸۹۹۱ء)، گوپی چند نارنگ (مئی ۶۱۰۲ء)، گوشہ مشتاق یوسفی (جولائی ۸۱۰۲ء) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
اردو رسائل کی تاریخ میں ”سب رس“ ایک ایسا رسالہ ہے جس نے نہ صرف اپنے معیار کو بلند رکھا بلکہ پچھلے چراسی برسوں سے اردو زبان و ادب کی خدمت انجام دے رہاہے۔ زمانے کے تھپیڑوں کو برداشت کرتے ہوئے اس رسالے کا مسلسل شائع ہونا اس کی مقبولیت کا غماز ہے۔
حوالہ جات
۱؎ محی الدین قادری زور ؔ، ”اداریہ“ رسالہ سب رس حیدرآباد دکن، جنوری ۸۳۹۱ء جلد ۱، شمارہ ۱، ص ۵،۶
۲؎ پروفیسر سیدہ جعفر، ہندوستانی ادب کے معمار ڈاکٹر زورؔ (ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی ۴۸۹۱ء)ص ۹۳
۳؎ پروفیسر سید فضل اللہ مکرم”ڈاکٹر زورؔ اور سب رس“، مشمولہ سنگ و ثمر(ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی
۴۱۰۲ء)ص ۹۲۱
*****