پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کا تنقیدی نظریہ

خواجہ کوثر حیات

اردو ادب میں تنقید کو ایک اہم فکری سرگرمی کی حیثیت حاصل ہے۔ یہ محض تخلیق پر تبصرہ کرنے کا عمل نہیں بلکہ تخلیق کے پس منظر، اس کی ساخت، اسلوب، تہذیبی شعور، فکری مواد، جمالیاتی پہلو اور قاری کے ردعمل کو مدنظر رکھ کر ایک بامعنی مکالمہ قائم کرتی ہے۔ اس عمل کو مؤثر اور سنجیدہ بنانے میں بعض نقادوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، جن میں پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کا نام نمایاں ہے۔پروفیسر صدیقی کے مطابق تنقید اور تحقیق کے مقاصد جداگانہ ہیں۔ تحقیق کا تعلق محض حقائق کی تلاش سے ہوتا ہے جبکہ تنقید تاثر پر مبنی عمل ہے۔
تنقید میں فنی، فکری، جمالیاتی اور ثقافتی پہلو شامل ہوتے ہیں، جو تخلیق کو ایک نئے زاویے سے دیکھنے اور پرکھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اس لحاظ سے تنقید کا براہِ راست تعلق تخلیق سے ہے، کیونکہ تنقید کی بنیاد ہی تخلیقی عمل پر قایم ہوتی ہے۔ اگر تخلیق موجود نہ ہو تو تنقید کا کوئی وجود ممکن نہیں دوسری طرف تنقید کے بغیر تخلیق کی معنویت اور اس کی گہرائی بھی واضح نہیں ہو سکتی۔تخلیق کے تئیں نقاد کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہے خصوصاً معیاری تخلیق کے لیے پروفیسر صدیقی کے مطابق تخلیق اس وقت مکمل تصور کی جاتی ہے جب وہ عوام و خواص دونوں میں مقبول ہو اور قاری کے لیے دلچسپی کا باعث بنے۔ ایک اچھی تخلیق پر تنقید کرتے وقت نقاد کی ذمہ داری کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ ذاتی تاثرات کے قطع نظر فن پارے کے حسن کو تلاش کرے اور کسی مخصوص نظریے یا تھیوری کو زبردستی اس پر مسلط نہ کرے۔ معروضیت، وسعتِ نظر اور فنی بصیرت ایک سچے نقاد کی بنیادی صفات ہونی چاہئیں۔ پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی نے تخلیق کو ہمیشہ اہمیت دی اسی لیے تنقید پر ان کی خصوصی توجہ رہی۔ پروفیسر صدیقی کا خیال ہے کہ نقاد کو اس تخلیقی فضا میں کچھ وقت گزارنا ضروری ہے جہاں سے تخلیق نے جنم لیا ہو۔ تخلیق کسی اچانک واردات کا نام نہیں، بلکہ تخلیق طویل فکری اور جذباتی سفر کے بعد وجود میں آتی ہے۔ اس لیے نقاد اگر اس عمل کو محسوس نہ کر سکے تو اس کا تجزیہ سطحی اور غیر موثر رہ جاتا ہے۔اردو تنقید کا بنظر غائرجائزہ لیا جائے تو اردو تنقید میں نقاد عموماً دو گروہوں میں منقسم نظر آتے ہیں ۔ ایک گروہ مغربی نظریات کا حامی ہوتا ہے اور دوسرا مشرقی روایات کا ترجمان۔ بعض نقاد مخصوص تحریکات اور رجحانات کے تحت کام کرتے ہیں جیسے ترقی پسند تحریک، ساختیات، پس ساختیات، وجودیت، قاری اساس تنقید اور مابعد جدیدیت وغیرہ۔ پروفیسر صدیقی کا موقف ہے کہ نقاد کو ان نظریات سے واقف ہونا چاہیے، لیکن وہ ان کا اسیر نہ ہو۔ اسے چاہیے کہ وہ مختلف نظریات سے استفادہ کرے لیکن تخلیق کی فطری فضا میں رہ کر اس کی معنویت کو سمجھے۔تخلیق کی زبان کا طرز کچھ بھی ہو اس پر ہو رہی تنقید کی زبان اور اسلوب معنی رکھتے ہیں۔
پروفیسر صدیقی تنقید کی زبان کے مسئلے کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ان کے مطابق تنقید کی زبان نہایت سادہ، رواں، سلیس اور عام فہم ہونی چاہیے تاکہ عام قاری بھی اسے سمجھ سکے۔ ایک اچھی تنقید وہی ہے جو بصیرت، فکری بالیدگی اور جمالیاتی شعور کو فروغ دے اور قاری کو فکر و مسرت عطا کرے۔ وہ علمی و دقیق زبان کے بجائے ادبی اور تخلیقی زبان کے قائل ہیں تاکہ تنقید بھی تخلیق کے قریب تر ہو سکے۔بین العلوم رجحانات اور اردو تنقید کے تناظر میں پروفیسر صدیقی کی ایک بڑی فکری جہت یہ ہے کہ وہ اردو تنقید کو بین العلوم (interdisciplinary) انداز میں دیکھنے کے قائل ہیں۔ ان کے مطابق جدید تنقید کو صرف ادب تک محدود نہیں رکھا جا سکتا بلکہ اسے فلسفہ، نفسیات، تاریخ، عمرانیات، شعریات، لسانیات، سوشیالوجی، سوشل میڈیا اور دیگر علوم سے مربوط کیا جانا چاہیے۔ اس علمی ہم آہنگی سے نہ صرف تنقید کو نئی وسعتیں ملتی ہیں بلکہ ادب کی گہرائی بھی اجاگر ہوتی ہے۔تہذیبی تناظر میں اگر اردو تنقید کو دیکھا جائے تو اردو زبان و ادب ایک مخصوص تہذیبی پس منظر کا حامل ہےجو ہند-اسلامی روایت، عربی و فارسی اثرات اور ہندوستانی سماجی ساخت سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔ پروفیسر صدیقی کے نزدیک اردو تنقید کو کبھی بھی اپنے اس تہذیبی پس منظر سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ انیسویں صدی سے لے کر آج تک اردو تنقید نے مشرق و مغرب کی روایات سے سیکھا اور ایک منفرد شناخت قایم کی۔ اس مخصوص ادبی شناخت کو سمجھنا اور برقرار رکھنا تنقید کا اہم فریضہ ہے۔تخلیق کا تنقیدسے کوئی مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ہے جب کہ ادبی دنیا میں یہ سوال ہمیشہ زیر بحث رہا ہے کہ تخلیق کار بڑا ہے یا نقاد؟ پروفیسر صدیقی اس حوالے سے متوازن نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق تنقید تخلیق کی قدر و قیمت متعین کرتی ہے لیکن تخلیق کے بغیر نقاد کا وجود ہی ممکن نہیں۔
تخلیق نقاد کو مواد فراہم کرتی ہے اور نقاد اسے فکر و نظر کی نئی جہات عطا کرتا ہے۔مابعد جدیدیت کے تخلیق پر اثرات غور طلب ہیں ۔پروفیسر صدیقی مابعد جدیدیت کو ایک رجحان سمجھتے ہیں، جس کا بیان غلط نہیں، لیکن اگر نظریات اور تھیوریز پر حد سے زیادہ زور دیا جائے تو وہ تخلیق پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ وہ تنقید کو قاری اور ادب کے درمیان پل کا کردار تصور کرتے ہیں اور ان کے نزدیک قاری کا تجربہ بھی ادبی سرمایے کا ایک اہم حصہ ہے۔ اب تک پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی سینکڑوں تخلیقات کو نقدونظر کے دائرہ میں دیکھ چکے ہیں۔ ان تخلیقات پر تحریر کردہ تنقید کے مطالعے سے ان کے مختلف تنقیدی زاویوں سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ ان کا تنقیدی نظریہ اردو تنقید کو فکری وسعت، تہذیبی شعور اور علمی ہم آہنگی سے مزین کرتا ہے۔ ان کے نظریات نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔پروفیسر ضیاء الرحمن صدیقی کا کہنا ہے کہ تنقید صرف تجزیہ نہیں بلکہ تخلیق کی روح کو سمجھنے اور عام قاری تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اگر تنقید اس ذمہ داری کو صحیح طریقے سے نبھائے تو ادب اور سماج دونوں کی فکری سطح بلند ہو سکتی ہے۔