عصری آگہی اور ندرت ِاظہار کا شاعر
سالک ادیبؔ بونتی عمری
ڈاکٹر سید وصی اللہ بختیاری عمری
صدرِشعبۂ اردو، گورنمنٹ کالج برائے ذکور (خودمختار)
کڈپہ، آندھرا پردیش
برادرم سالک ادیبؔ بونتی عمری، ہمعصر اردو شاعری کا ایک اہم نام ہے۔ ان کا کلام ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ ان کا اختصاص غزل ہے۔ اہلِ نظر بخوبی واقف ہیں کہ غزل میں اپنا رنگ نکالنا اور انفرادیت پیدا کرناایک نہایت مشکل کام ہے۔ صنف ِغزل میں‘ فکر میں ندرت، اظہار میں جرأت، لب و لہجہ میں انفرادیت اور لفظیات کا مخصوص نظام تراشنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہی وہ اوصاف ہیں جن سے کسی شاعر کا رنگ ِ تغزل منفرد ہوتا ہے اور غزلیہ اسلوب میں اپنے منفرد رنگ و آہنگ کے باعث کسی شاعر کو انفرادیت نصیب ہوتی ہے۔ اس منزل تک پہنچنے کے لیے مسلسل مشقِ سخن اور فکر و نظر کے مراحل طے کرنے پڑتے ہیں۔ مطالعہ کی وسعت، مشاہدہ کی گہرائی، تخیل کی رعنائی،فنی گیرائی، لفظیات کے در و بسط پر عبور،فن پر گرفت، عروض پر دسترس، فنی موشگافیوں سے کامل آگہی، نیز طرزِ اظہار اور اسالیبِ بیان پر قدرت، اور پھر تخلیقی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے نزاکت ولطافت کے لیے کلام کو حک و اصلاح اور نظرِثانی سے گزارنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کے کوئی تاج محل بنتا ہے، متاعِ سخن کا نسخہ منظرِ عام پر آتا ہے۔ بلاشبہ ان ہی خصوصیات نے سالک ادیبؔ کے کلام کی انفرادیت کا تعین کیا ہے۔ان کی مسلسل مشقِ سخن، فن کے تئیں ان کا خلوص، شاعری کے لیے ان کا انہماک و اشتغال، فکر و فن کے سلسلے میں ان کا لگاؤ اور شعر و سخن کی خداداد صلاحیتوں پر جہد ِ مسلسل اور سعیٔ پیہم کے ساتھ مشق و تمرین اور مزاولت و ممارست‘ مستقبل میںان کی بلند اقبالی کے امکانات کو باذنِ اللہ تعالیٰ مزید روشن کرتے ہیں۔
برادرم سالک ادیبؔ بونتی عمری نے مادرِ علمی جامعہ دار السلام‘ عمرآباد سے فضیلت کی سند حاصل کی ہے۔صد سالہ شاندار علمی و ادبی تاریخ کے حامل جنوبی ہند کی اس دانشگاہ ‘ جامعہ دار السلام عمرآباد کے علمی و ادبی ماحول سے بھرپور کسب ِ فیض کیا ہے۔ جامعہ کے ادب پرور ماحول میں ان کے شعری ذوق کی آبیاری ہوئی۔ شعر و سخن کے ذوق اور شاعری کی خوابیدہ صلاحیتوں کوجلا ملی۔ مادرِ علمی جامعہ دار السلام ‘ عمرآباد میں سالک اصغر سے سالک ادیب ؔ بن گئے ۔ اس طرح اڈیشہ کے دور افتادہ ضلع بھدرک کے قصبۂ بونت سے ایک جوہر قابل اور قادر الکلام شاعر سالک ادیبؔ بونتی عمری کی شکل میں شعر و ادب کے افق پر طلوع ہوا جس کی تابانی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
فی الواقع‘ سالک ادیبؔ بونتی عمری نے نہایت کم عمری میں وہ مقام حاصل کر لیا ہے جو سالہا سال کی مشقِ سخن کے باوجود کہنہ مشق شعراء کو میسر نہیں ہوتا۔دراصل خوداعتمادی، فن پر کامل گرفت کے لیے جہد ِ مسلسل اور اساتذہ کے کلام کا استحضار انہیں اس وصف سے متصف کرتا ہے۔برادرِ عزیز سالک ادیبؔ بونتی عمری اسی جوہر کی بنا پر اپنے ہمعصر شعراء میں نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی سان نہایت تیز ہے اور تخلیقی جوہر کو نہایت عمدگی کے ساتھ عصری حسیّت اور احتساسی بصیرت سے ممزوج کر کے برتنے کا سلیقہ انہیں ممتاز کرتا ہے۔
برادرِ عزیز سالک ادیبؔ عمری کے یہاں فنی لوازم اور تخلیقی بصیرت کا ایسا امتزاج ملتا ہے جس سے ان کے شاعرانہ کمالات دیگر شعراء سے انہیں ممتاز کرتے ہیں۔ مابہ الامتیاز صرف فنی لوازم اور عروضی باریکیاں ہی نہیں بلکہ ان کے طرزِ تخیل اور اسلوب کی انفرادیت بھی ہے۔ انہوں نے اپنا کلام مکمل اعتماد اور بھرپور اطمینان کے بعد ہی مجموعۂ کلام کی شکل میں پیش کیا ہے۔ وہ ایک نہایت محنتی اور قابل شاعر ہیں۔ انہوں نے عربی و فارسی سے کماحقہ واقفیت کی بنیاد پر اپنے کلام کی لفظیات کو نہایت سہل اور عام فہم رکھا ہے۔ ہر چند کہ انہیں مشکل ترین الفاظ اور نہایت مشکل تراکیب پر بھی کماحقہ ٗ قدرت حاصل ہے لیکن انہوں نے اپنے کلام پر دقیق الفاظ اور مشکل تراکیب کی آنچ نہیں آنے دی۔ انہوں نے اپنی تخلیقی بصیرت سے اپنی لفظیات میں سادگی اور سلاست کو اختیار کیا۔ یہی ان کی انفرادیت کی دلیل ہے کہ انہوں نے اپنے لفظی نظام پر بہت توجہ دی ہے۔ ان کے یہاں عام بول چال کے الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔ سالک ادیبؔعمری کے یہاں لفظیات عام سہی، لیکن ان عام الفاظ ہی کے ذریعہ وہ اپنے افکار و خیالات کی ترسیل پر کمال دسترس رکھتے ہیں۔
سالک ادیبؔ عمری کے کلام کا ایک خاص وصف ‘ ان کے مضامین میں پوشیدہ ہے۔ ان کے یہاں افکار و خیالات کی سطح ‘ عام موضوعات اور روزمرہ زندگی کے مسائل اور ذاتی تجربات کی تعمیم سے وابستہ ہے۔ البتہ ان کے کلام میںموجود‘ طرزِ اظہار میں ندرت اور لب و لہجہ میں انوکھا پن اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے۔ وہ عام بات کو بھی خاص انداز میں کہنے کے خوگر ہیں۔ انہوں نے اپنے اسلوب میں ایک اچھوتا پن رکھا ہے جس سے ان کے کلام کو نظر انداز کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ انہوں نے اپنے کلام کو عصری آگہی سے مربوط کیا ہے۔گویا ان کا کلام ان کے اپنے عہد کی صدائے بازگشت ہے۔
سالک ادیبؔ عمری کی تخلیقات مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوا کرتی ہیں۔ سالار ، منصف، بزم آئینہ، ادبی محاذ، اخبار مشرق ، تعمیرِ حیات وغیرہ میں ان کا کلام شائع ہو چکا ہے۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام’ حدیث ِ دل‘ کے نام سے جنوری 2021ء میں اڈیشا اردو اکیڈمی سے شائع ہوا۔ اب جنوری 2024ء میں دوسرے شعری مجموعہ ’متاعِ خیال‘ کی اشاعت عمل میں آ رہی ہے۔
حدیث ِ دل پر برادرم دانش حماد جاذب ؔ عمری اور برادرم حافظ فیصل عادل ؔعمری نے اپنے تاثرات کا اظہار کیا ہے۔ مادرِ علمی جامعہ دار السلام عمرآباد میں ان دونوں نے مجھے بھی اپنے کلام سے متاثر کیا تھا ۔ دراصل ان لوگوں کو جامعہ میں ایک نہایت عمدہ ادبی ماحول میسر آیا۔ بالعموم تمام اساتذۂ کرام ‘ اور بالخصوص مولانا کے۔ پی۔ قمر علی عمری پنگنوری رحمہٗ اللہ نے طلبہ میں شعری ذوق پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جامعہ میںطلبہ کے لیے طرحی مشاعروں کا انعقاد ہونے لگا اور بہت سے طلبہ اس میں حصہ لینے لگے۔ خاص طور پر جامعہ میں اسپورٹس ڈے کی شب‘ سالانہ مشاعرہ کی روایت بہت قدیم ہے۔ سالانہ مشاعرے میں طلبۂ جامعہ بھی نہایت اہتمام سے حصہ لیتے ہیں۔ ان مشاعروں سے سالک ادیب عمری نے اپنی شعری صلاحیتوںکو خوب صیقل کیا۔
سالک ادیب ؔ بونتی عمری نے غزل کو اپنے لیے منتخب کیا ہے لیکن انہوں نے دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی ہے۔ ان کے پہلے مجموعۂ کلام ‘ حدیث ِ دل میں تین حمدیں، چار نعتیں، 167غزلیات اور 19منظومات شامل تھیں۔ اب اس مجموعۂ کلام متاعِ خیال میں تین نعتیں، 78غزلیات، 24منظومات، تعزیت و تہنیت پر مشتمل کلام اور پچاس سے زائد قطعات شامل ہیں۔ انہوں نے مجموعۂ کلام کے آخر میں اپنے متفرق اشعار بھی درج کئے ہیں۔
برادرِ محترم سالک ادیب بونتی عمری کے کلام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی شاعرانہ خصوصیات غزل میں اور خاص طور پر چھوٹی بحروں میں کہی گئی غزلوں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں۔ متاعِ خیال میں شامل بیشتر غزلیں چھوٹی چھوٹی بحروں میں کہی گئی ہیں۔ ان میں زیادہ سادگی اور پُرکاری کی ضرورت ہوتی ہے اور غزل کا فنِ اختصار و ایجاز یہیں زیادہ نکھرتا ہے۔
برادرم ڈاکٹر حافظ ظہیر دانش عمری کڈپوی نے گزشتہ دنوں سالک ادیبؔ عمری کے مجموعۂ کلام’حدیث ِ دل‘ پر ایک نہایت وقیع تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصر ہ ہفت روزہ ’دعوت‘ کے تازہ شمارہ(مؤرخہ: 31؍ دسمبر 2023تا 06؍ جنوری 2024 میں شائع ہوا ہے۔ انہوں نے بجا طور پر سالک ادیب عمری کی شاعری کے روشن امکانات اور تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’سالک ادیبؔ کے شعری مجموعے ’حدیث ِ دل‘ کا مطالعہ اس بات پر دلالت کر تا ہے کہ شاعری میں ان کا مستقبل بہت تابناک ہے۔ان کی شاعری کے حوالے سے پورے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری میں مزید نکھار پیدا ہوگا اور ان کی شاعری خوب سے خوب تر ہوتی جائے گی۔ ان شاء اللہ۔‘‘(ص:15، کتابستان‘ ہفت روزہ دعوت)
سالک ادیب ؔ کا یہ دوسرا مجموعۂ کلام’’متاعِ خیال‘‘ حسب ِ سابق ایمائیت ، اشاریت ، رمز، کنایہ اور علائم کے ساتھ پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا ہے۔ اس مجموعہ کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا شعری سفر خوب سے خوب تر کی جانب گامزن ہے۔ خود سالک صاحب کو بھی اس کا احساس ہے کہ ان کے کلام میں مسلسل بہتری اور عمدگی پیدا ہو رہی ہے۔ان کا یہ احساس ہے کہ سوچتے رہنا ان کی فطرت میں ہے۔وہ جو کچھ دیکھتے ہیں اس کا ہو بہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔ ان کے یہاں حالات کی منظر کشی ، مصوری اور تصویر نگاری پہلے سے بہت بہتر ہے۔ پہلے وہ پر بناتے تھے اور اب شہپر بنانے لگے ہیں۔ کہتے ہیں :
ہمیشہ سوچتے رہنا مری فطرت ہے میں اکثر
تصور میں کبھی جگنو ،کبھی اختر بناتا ہوں
میں جو کچھ دیکھتا ہوں اس کا نقشہ کھینچ دیتا ہوں
مجھے احساس ہے پہلے سے اب بہتر بناتا ہوں
بلندی کا مری آنکھوں نے دیکھا ہے کوئی سپنا
میں پہلے پر بناتا تھا ابھی شہپر بناتا ہوں
مری غزلوں میں ہوتے ہیںمسائل زندگانی کے
میں لفظوں سے کبھی سینہ کبھی خنجر بناتا ہوں
مشتے نمونہ از خروارے ، یہاں سالک ادیبؔ عمری کے کلام سے چند اشعار درج کر رہا ہوں۔
حسد کا لہجہ بہت خوب ہم سمجھتے ہیں دھواں اٹھا ہے تو پھر آگ بھی لگی ہوگی
اک طرف نیند ہے خفا ہم سے اک طرف دے رہا ہے دستک خواب
آپ جتنی وفا کریں ، مرضی زندگی بے وفا ہی نکلے گی !
سالک ادیبؔ عمری کے کلام میں داخلی فضا کے بجائے خارجیت کا رنگ صاف جھلکتا ہے۔ وہ اپنے کلام میں اپنے تمام افکار و خیالات اور احساسات و جذبات کو بحسن و خوبی اظہار کا پیکر عطا کر دیتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کی حقیقتیں واشگاف ہوتی ہیں۔
دل نے پایا ہے لطف تنہائی بزم سے دور دور رہتا ہے
توڑ کر لاکھ جوڑیئے صاحب داغ دل میں ضرور رہتا ہے
پڑھنے والے بھی دیکھتے کم ہیں وہ جو بین السطور رہتا ہے
ردیف کو نباہنے اور اس کی پاسداری کرنے کا مزاج سالک ادیب کے یہاں بدرجۂ اتم پایا جاتا ہے۔ ایک غزل کے چند شعر جس کی ردیف آنکھیں ہے۔
سیراب کسی طور نہیں ہوتی طبیعت
میں تشنہ بلب اور سمندر تری آنکھیں
میں ان کی طرف دیکھ کر ہوجاتا ہوں حیراں
ہر طرح سے دکھلاتی ہیں منظر تری آنکھیں
تنہائیاں، خاموشیاں، گہرائیاں اوڑھے
لگتی ہیں کبھی مجھ کو قلندر تری آنکھیں
کاجل کبھی، سرمہ کبھی‘ ابرو کی نزاکت
ہیں مدِ مقابل میرے لشکر تری آنکھیں
سالک ادیبؔ کو اپنی شاعری اور اپنے فن پر کامل اعتماد ہے۔ انہوں نے اپنے طرزِ سخن اور شاعرانہ مزاج و منہاج کے بارے میں یوں کہا ہے:
غزل کی آنکھ میں سرمہ لگانا سیکھتا ہوں میں
ردیف و قافیہ میں غم چھپانا سیکھتا ہوں میں
سبھی یہ مانتے ہیں مسکراہٹ رونقِ رخ ہے
جو ہیں مایوس انھیں اکثر ہنسانا سیکھتا ہوں میں
کسی بھی بات سے جو لوگ اکثر روٹھ جاتے ہیں
تو ایسے رشتہ داروں کو منانا سیکھتا ہوں میں
کوئی بھی مسئلہ ہو بیٹھ کر میں بات کرتا ہوں
بھڑکنے والی نفرت کو بجھانا سیکھتا ہوں میں
سالکؔ کے یہاں اسلوب کی ندرت ملاحظہ کیجیے:
اب شرارت کرے گی خوب ہوا دیپ ہم نے جلا کے چھوڑ دیا
انہیں شاعری کی نزاکتوں اور غزل کے تقاضوں کا مکمل اندازہ ہے۔ کہتے ہیں:
حوصلہ گر ادیبؔ ہے تم میں مانگتی ہے غزل‘ لہو، آؤ!!
عصری آگہی کے حامل سالک کی غزل کے منفرد لب و لہجہ اوران کے طرزِ تخاطب کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جا سکتا ہے :
ہجر کے اس فیصلے پر نظر ثانی کیجیے
ہم پہ مرشد اک ذرا سی مہربانی کیجیے
گلشنِ ہستی کسی پر منحصر کب تک بھلا
حوصلوں کے ساتھ اپنی باغبانی کیجیے
اب پلٹ کر دیجیے مت نکتہ چینوں کو جواب
وسعتِ قلب و نظر سے پانی پانی کیجیے
کچھ تو ساماں کیجئے اہلِ ادب کے واسطے
منسلک‘ الفاظ میں گہرے معانی کیجئے
چل پڑی ہے فکر و فن میں اب ہوا جدت طراز
شاعری سالکؔ میاں اب ذو لسانی کیجئے
اختصار میں جامعیت اور کم سے کم الفاظ میں جہانِ معانی پنہاں کر دینے کی مثالیں سالک صاحب کے کلام میں جابجا ملتی ہیں۔مختصر زمینوں میں غزلیں‘ ان کے کلام کی ایک نمایاں خصوصیت ہے ۔ درجِ ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیے:
کتنے پانی میں ہے بتاؤں کیا پردہ رخ سے ترے اٹھاؤں کیا
تجھ کو بھی قافیے میں لاؤں کیا کوئی مصرع نیا لگاؤں کیا
کیوں ہے کیچڑ اچھالنے پہ مصر آئینہ پھر تجھے دکھاؤں کیا
اسی رنگ میں یہ اشعاربھی دیکھیے:
حد میں رہنا کمال ہے بابو اس کے آگے زوال ہے بابو
خوب دولت کماؤ، یاد رہے زر پرستی وبال ہے بابو
کیا لکھیں داستاں محبت کی درد جس کا مآل ہے بابو
مٹھیوں سے بکھرنا بالو کا زندگی کی مثال ہے بابو
ڈھانپ لو سر تو پیر کھل جائے تنگ خواہش کی شال ہے بابو
خوش رہے تو ادیبؔ دنیا میں مجھ کو تیرا خیال ہے بابو
سالک ادیبؔ زندگی کی حقیقتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ان کی دور اندیش نگاہیں دنیا کی سب چیزوں کو تماشا سمجھتی ہیں ۔ کہتے ہیں:
زندگانی تری عدالت میں ہر ثبوتِ وفا تماشا ہے
عشق تو نے کمال کر ڈالا جس نے دیکھا کہا تماشا ہے
سالک ادیب ؔعمری کے کلام میں فکر و نظر کی بوقلمونی ہے۔ان کے کلام میں طنز و تعریض کے تیر و نشتر بھی ہیں، فکر و تخیل کے جواہر پارے بھی ہیں۔ ان کے کلام میں دنیا کی بے ثباتی بھی جلوہ گر ہوتی ہے اور زندگی کی حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے۔ ان کے کلام میں طرزِ تخاطب کے کئی رنگ ملتے ہیں ۔ کبھی مشورے‘ کبھی تجاویز اور کبھی صرف مجرد حقیقت بیانی سے کام لیتے ہیں۔ خود کلامی بھی ان کے یہاں موجود ہے۔ وہ داخلیت کے بجائے خارجیت کے شاعر ہیں۔ ان کی نظموں میں بھی خوبصورت بیانیہ رنگ ابھرتا ہے۔