دورِ حاضر میں ترجمہ کی ضرورت و اہمیت

عامر بشیر (ایم-فل سکالر)

ترجمہ عربی زبان سے مستعار لیا گیا لفظ ہے جو اپنی ساخت اور معنی کے اعتبار بعینہ اردو زبان میں داخل ہوا۔ اردو میں اس کے لغوی معنی تعبیر و تشریح کے ہیں ۔ اصطلاح میں کسی ایک زبان کے ما فی الضمیر کو دوسری زبان میں ڈھالنا ترجمہ کہلاتا ہے۔ ترجمہ کا انگریزی میں مترادف لفظ Translation ہے جو لاطینی لفظ Translatio سے اخذ کیا گیا ہے۔ آکسفورڈ ڈکشنری میں لفظ Translationکی تعریف درج ذیل الفاظ میں کی گئی ہے:
“The English word “Translation” derives from the Latin word “Translatio” which comes from trans “across”+ferre, “to carry” or “to bring”. Thus Translatio is “a carrying across” or “a bringing across”: in this case, of a text from one language to another.”(1)
ترجمہ یعنی Translation کی اس تعریف کے مطابق ایک زبان کے متن کو کسی دوسری زبان میں پیش کرنا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ترجمہ کا اصل منبع اور مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ مترجم کے خیال اور معانی کو ایک زبان سے اٹھا کر دوسری زبان کے پڑھنے والوں تک پہنچانا ہے۔ ترجمے کی اصطلاح ذہن میں آتے ہی یہ سوال ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتا ہے کہ ترجمہ ہوتا کیا ہے ؟ اس کی حدود کا تعین ممکن ہے بھی یا نہیں؟ ایک عام پڑھے لکھے شخص سے اگر یہ سوال کیا جائے تو وہ فوراً جواب دےگا کہ کسی ایک زبان کی تحریر کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کا نام ترجمہ ہے۔پروفیسر ظہور الدین اپنی کتاب ” فن ترجمہ نگاری “ میں ترجمہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ترجمہ ایک ایسا فن ہے جس کی وساطت سے کسی ایک زبان کے فن پارے کو دوسری زبان میں منتقل کر کے اس زبان کے قارئین کو اس تک پہنچنے کے موقعے فراہم کیے جاتے ہیں۔“(۲)
ترجمہ کی تعریف بارے پروفیسر عنوان چشتی لکھتے ہیں :
”ترجمہ ایک زبان سے دوسری زبان میں ترسیل خیال اور انتقال فکر کا عمل ہے۔“(۳)
ترجمہ کا لفظ بولتے یا سوچتے ہی یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ترجمے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟۔ انسان ایک سماجی حیوان ہے اور اسے اپنی ضروریات کی تکمیل کے لیے ہمیشہ دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ دوسرے لوگوں سے تعلقات بنانے ، دوسرے علاقوں کی ثقافت اور تہذیب و تمدن کو سمجھنے کی ضرورت ہمیشہ ہی سےرہی ہے ۔ انسان جب اپنے سے ہٹ کر دوسری تہذیب و ثقافت کی طرف مائل ہوگا تو یقیناً تجارت، سیاحت ، سفارت یا بغرض علاج تعلقات قائم کرنے کے لیے اسے دوسری زبان میں اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے ترجمے کی ہی ضرورت پڑے گی جس کی بدولت وہ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچا سکے گا اور دوسرے کے خیالات کے مطابق عمل کر سکے گا۔
انسانوں کے درمیان باہمی ارتباط اور اتحاد و یگانگت کی راہ میں جو سب سے اہم اور بڑی فطری رکاوٹ حائل رہی ہے ، شاید وہ زبانوں کا فرق ہے۔ انسان کے علم و عرفان اور ادب کو بنی نوعِ انسان کی مشترک میراث بنانے میں ترجمہ نے نہایت اہم اور نتیجہ خیز کردار ادا کیا ہے ۔ترجمہ ہمیشہ ہی سے مختلف زبانوں کی تہذیبوں میں افہام و تفہیم کا ذریعہ و آلہ کار ثابت ہوا ہے ۔ یہ ایسا دریچہ ہے جس کے کھل جانے سے ایک ایسی دنیا کے دروازے ہم پر وا ہوتے ہیں جس سے ہم اس سے قبل بالکل واقف نہیں ہوتے۔ اس کی بدولت ہم ان احساسات اور مدرکات و محرکات سے بھی متعارف ہوتے ہیں جو اس مخصوص قوم کا سر چشمہ حیات ہوتے ہیں ۔ یوں کہ لیجئے کہ ترجمہ افہام و تفہیم کے نئے دروازے کھول کر فکری و ماحولیاتی خلیجوں کو پاٹنے اور قربتیں پیدا کرنے میں ایک پُل کا کام کرتا ہے۔ ترجمے کی تاریخ اور آغاز و ارتقاء کے بارے میں صفدر رشید اپنی کتاب “فنِ ترجمہ کاری میں رقمطراز ہیں :
”ترجمے کا فن اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان کی سماجی زندگی۔ جب ایک سماجی گروہ کا دوسرے گروہ سے سماجی رشتہ قائم ہونے پر ایک دوسرے کی بات سمجھنے کے لیے ترجمہ کا سہارا لینا پڑتا ہوگا تو ترجمہ کچھ آوازوں اور کچھ کچھ اشاروں پر مبنی ہوگا۔ حملہ آوروں ، سفیروں اور سیاحوں وغیرہ کی بنیادی ضرورت یہ تھی کہ وہ دوسرے لوگوں کو اپنی بات سمجھا سکیں۔ اس سے پہلے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کی زبان سمجھنے کے قابل ہوتے، کسی ترجمان کے ذریعے انھوں نے ایک دوسرے تک بات پہنچائی ہوگی۔ “(۴)
اپنی زبان میں کتابیں تصنیف کرنے کی اہمیت و افادیت مسلم ہے لیکن سابقہ انسانی تجربے کی روشنی میں دیگر زبانوں کے تراجم کی ضرورت اور افادیت سے انکار ممکن نہیں ؟ ہر قوم اور تہذیب نے ترقی کی راہیں اور نئے زاویے ہمیشہ دوسری اقوام کے علوم کو سامنے رکھ کر ہی طے کیے ہیں۔ دورِ جدید کا طالبعلم، فلسفی یا ادیب اگر قدیم تاریخ اور علوم سے واقف ہے تو ترجمے کی بدولت ہی اس کے خیالات کو روشنی ملی ۔ تقابلی مطالعہ ہمیشہ نئے معیارات و امکانات کو جنم دیتا ہے اور تقابلی مطالعہ کے ضمن میں بین السانی اور بین الاقوامی علوم و تجربات کا لین دین ہمیشہ ترجمے ہی پرمنحصر رہا ہے۔ تراجم ہمیشہ ادبی افق کو وسیع تر بناتے ہیں اور ایک عالمی و کائناتی تصور پیدا کرنے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔
دنیا میں جو علم بکھرا پڑا اس کو ایک زبان چاہتے ہوئے بھی اپنے دامن میں نہیں سمیٹ سکتی ۔ اس عالمگیر نور اور سرور سے لطف و انبساط کے حصول کے لیے ایک زبان سے دوسری زبان میں تراجم ضروری ہیں ۔ جب تک لوگ ایک دوسرے کے علم ، مہارت اور تجربے کو کام میں لانے کی جستجو رکھیں گے تب تک ترجمے کا سہارا حاصل کرنا یقینی بات ہے۔ علم و آگہی ، جذبے اور شعور و فکر ، تکنیک اور سائنس کے علم میں اشتراک کی لگن جب تک دل ود ماغ میں رہے گی ذہن کے نہا خانوں میں ترجمے کی اہمیت و افادیت کا سوال ابھرتا رہے گا۔
ترجمے کی تاریخ پر سر سری نظر ڈالیں تو اس با ت کا اندازہ ہوگا کہ ترجمہ ہی نے مرتی ہوئی زبانوں کے ادب اور علوم کو زندہ رکھا ہے ۔ دسویں صدی قبل مسیح سے پانچویں صدی قبل مسیح کے درمیان کا قدیم ہندوستانی ادب یہاں کی دیسی زبانوں میں موجود تھا مگر وہ زبانیں اپنا وجود کھونے لگی تھیں۔ ان تمام دیسی زبانوں کا ادبی شہ پارہ ترجمہ کے ذریعے سنسکرت میں منتقل ہوگیا۔ اس کے بعد گیارہویں صدی عیسوی میں جب ہندوستان میں ترکی ، عربی اور فارسی زبانوں کا عمل دخل شروع ہوا تو یہی ادب سنسکرت سے ترجمہ ہو کر عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں سانس لینے لگا۔
جدیدترقی اور امن کے فروغ میں مادی اشیاء ہی نے سہارا نہیں دیا بلکہ اس میں زبان ، ثقافت اور ترجمے نے زبردست کام کیا ہے گویا ترجمے کی بدولت ہی ایک قوم اس کی زبان اور ادب نے دوسری قوموں کو پورا پورا فائدہ اٹھانے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ دوسری طرف ترجمہ نے زبان کے قوتِ اظہار کے نت نئے امکانات پیدا کیے ہیں ۔ اردو زبان میں ترجمہ کاری کی روایت بھی اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود اردو زبان۔ اردو زبان و ادب میں ترجمے کے ارتقاء کے بارے میں ڈاکٹر قمر رئیس اپنی کتاب “ترجمہ فن اور روایت ” میں درج ذیل چارادوار کا ذکر کرتے ہیں :
الف۔ شروع دور میں ترجمہ ایک ایسے عمل کی مانند تھا جس کے ذریعے دوسرے ملکو ں اور زبانوں کے تہذیبی اثرات اردو زبان میں منتقل کئے جارہے تھے۔۔۔۔۔۔ان کی مثال ایسے بیمار کی تھی جو اپنی روزانہ غذاؤں (اردو) کے نقص کو دواؤں (عربی و فارسی) خیالات و اسالیب کے ذریعہ دور کر رہا ہو۔
ب۔ اردو تراجم کا دوسرا دور وہ تھا جب مترجموں نے اردو کو اپنے اسلامی فکر و خیالات کے اظہار کا محکم ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔
ج۔ تیسر ےدور میں نفسِ ترجمہ اور اس کی ضروریات پر زور دیا گیا پچھلے دور میں نفسِ ترجمہ کو کسی حد تک نظر انداز کیا گیا۔
د۔ اردو ترجموں کا چوتھا دور مستقبل سے تعلق رکھتا ہے اور اس دور میں ہماری یہ کوشش ہونی چاہیئے کہ اس بنیادی نقص کو دور کیا جائے ، مگر یہ کس طرح ہو۔ (۵)
ترجمہ ہر عہد اور دور میں نئے افکار و خیالات اور نظریات کو مختلف اقوام کے درمیان میں اشتراک کا ذریعہ رہا ہے۔ اسی نے مختلف تہذیبوں کو ایک دوسرے سے روشناس کرایا ہے۔ جہاں یہ معلومات کی ترسیل کا ذریعہ ہے وہیں زبانوں میں وسعت کا کام بھی کرتا ہے۔ جب کوئی ادیب ایک زبان کے ادبی پارے کا ترجمہ دوسری زبان میں کرتا ہے تو وہ اس زبان کی تہذیبی و ثقافتی تاریخ اور اس کے پس منظر سے بھی آگاہ ہوتا ہے جن سے وہ اپنی زبان کے لوگوں کو روشناس کرواتا ہے یوں ترجمہ تہذیبوں اور ثقافتوں کو سمجھنے کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔
نئی زبانوں کے سوتے ہمیشہ قدیم زبانوں سے ہی پھوٹتے ہیں اور پرانی زبانوں کی انگلی پکڑ کر ہی نو مولو زبانیں چلنا شروع کرتی ہیں لہذا قدیم اور جدید زبانیں اپنی ہم عصر ترقی یافتہ زبانوں کا سہارا لیتی ہیں ، زبانوں کے لین دین کا یہ عمل تاریخ و تمدن کے باب کی طرح ہمیشہ سے جاری ہے اور ترجمہ اس عمل کے جاری و ساری رہنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لہذا ترجمہ ہی کے ذریعہ ایک مخصوص قوم اور ایک جغرافیائی علاقہ کی تحقیقات اور علوم و فنون انسانیت کے دوسرے گروہوں تک پہنچتی ہیں اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ترجمے کی اہمیت بھی وہی ہے جو کسی کیمیائی مادے یا کسی معدنی دولت کی اصل روپ ڈھالنے کے بعد ہوتی ہے ۔ مثال کے طور پر سونا چاندی اور دوسری معدنیات جب تک زیرِ زمین ہوں گی اس وقت تک وہ قومی دولت میں شمار نہیں ہوں گی نہ کوئی گروہ اس سے فائدہ اٹھا سکے گا تا وقتیکہ اس ذخیرے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے۔ اس منتقلی کے بعد یہی پوشیدہ معدنیات ملکی اور عالمی دولت میں حصہ ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔
یونانی فلسفی سقراط اور افلاطون کی ہزاروں سال پرانی تصانیف کا عربی زبان میں ترجمہ نہیں کیا گیا ہوتا تو ان کے اقوال زریں اور فکر و فلسفہ سے لبریز یونان و روم کا قیمتی سرمایہ وہاں کے پرانے کھنڈروں میں دب گیا ہوتا اور یورپ و ایشیا کے ایوانوں میں آج ان کی گونج سنائی نہ دیتی۔ اسی طرح بو علی سینا ، ابو نصر فارابی اور ابنِ رشد کے کارنامے بغداد، غرناطہ اور یروشلم کے کتب خانوں میں ضائع ہوجاتے ، اگر یورپی زبانوں نے انہیں منتقل کر کے چراغ سے چراغ جلانے کا سلسلہ جاری نہ رکھا ہوتا۔ موجودہ دور میں دنیا کے تمام ممالک (گلوبل ویلیج نظریہ کے تحت) نہ صرف ایک دوسرے کے قریب آگئے ہیں بلکہ ان کی معاشی، سیاسی اور تہذیبی ضرورتوں کا انحصار بھی ایک دوسرے پر ہے ۔ اس تبدیلی کے دوررس نتائج نے عالمی سطح پر ایک دوسرے کو سمجھنے ، ان سے اپنا رشتہ مضبوط کرنے میں مدد دی ہے اور ساتھ ہی ایک دوسرے کی زبان کو سمجھنے کی ضرورت کو اجاگر کر کے دنیا کو امن و ترقی کے راستے پر گامزن کیا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اردو کو ایک جدید زبان بنانے، ملک گیر سطح پر اسے مقبولیت بخشنے اور ہندوستانی زبانوں میں اسے ایک امتیازی شان عطا کرنے میں جہاں چند دوسرے عوامل رہے ہیں وہاں یورپی بالخصوص انگریزی علوم و ادب کے تراجم نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی تراجم کے ذریعہ ارد زبان کے لیے ایک ترقی یافتہ صنعتی تمدن کے دروازے کھل گئے ان دروازوں سے عقلیت ، افادیت ، آزادی، انسان دوستی ، روشن خیالی، ذوق تحقیقی اور سائنسی طرز فکر کے جو خوش گوار جھونکے آئے ان سے اس زبان میں تازگی اور توانائی نمو پاتی رہی۔ نت نئے علوم اور نئے تصورات کو جگہ دینے کے لیے خاموشی سے اصطلاحیں وضع ہوتی رہیں ۔ عدل و انتظام ہو یا مدارس کا نیا درسی نظام سب سے پہلے اور سب سے آگے بڑھ کر اردو ہی نے اپنی خدمات پیش کیں ۔ درسی کتب ضابطوں اور قوانین کے تراجم میں اس نے الفاظ اور اصطلاحات کے جو سکے جاری کیے دیکھتے ہی دیکھتے ان کا چلن عام ہوگیا اور اس پزیرائی کے تاریخی اسباب تھے۔
ترجمہ نہ صرف مختلف زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان مؤثر رابطے کو ممکن بناتا ہے بلکہ معاشرتی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیتا ہے۔ یہ قدیم اور جدید علوم کو دنیا بھر میں منتقل کرنے کا اہم ذریعہ رہا ہے، جس نے انسانی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ سفارتی تعلقات، تعلیمی ترقی، اور عالمی تجارت میں اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ ترجمہ ایک ایسا ذریعہ ہے جو نہ صرف دنیا کے مختلف حصوں کو جوڑتا ہے بلکہ انسانی تہذیب کے ارتقا میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
مترجم کا کردار اور خوبیاں :
ترجمہ سے ہم جو کچھ بھی امید وابستہ کرتے ہیں اس کا انحصار مترجم کی ایما پر ہے۔ مترجم دو قوموں اور دو تہذیبوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے۔ وہ ترجمہ کے ذریعہ دو زبانوں اور دو قوموں کے درمیان لسانی اور ثقافتی سفیر کا کام کرتا ہے۔ یہ ایک اہم ذمہ داری ہوتی ہے اور اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ مترجم ترجمے کی بنیادی شرائط سے واقف ہو۔ اس ضمن میں سب سے پہلی شرط تو یہ ہے کہ وہ دونوں زبانوں پر کمال کی قدرت رکھتا ہو۔ اصل تصنیف کی زبان ، موضوع ، اس کے ادب، ہیئت اور صنف سے مترجم کی آشنائی از حد ضروری ہے۔ اسی طرح اگر مترجم کسی مخصوص عہد اور خطہ کے ادبی فن پارے کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ اس عہد کی تاریخ، تہذیب ، لسانی رویوں اور سماجی صورت حال کا پہلے مطالعہ کرلے۔ مثال کے طور پر کوئی فلسطین یا کشمیر کے ادبی فن پارے کا ترجمہ کرنے کا خواہش مند ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس خطے کی سیاسی اور سماجی تاریخ اور تہذیب سے اچھی طرح واقف ہو۔ زبان ایک ہی ہوتی ہے لیکن اس پر ہر علاقے کا اپنا اثر ہوتا ہے۔ اسی طرح ہر دور لفظوں کے معنیاتی نظام کو متاثر کرتی ہے۔ ترجمے میں اس فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ مترجم جس زبان میں ترجمہ کرنا چاہتا ہے اس زبان پر بھی اسے دسترس حاصل ہونا چاہئے ۔ اس کی اہمیت اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب ترجمے کی زبان اصل زبان کے لسانی گھر سے تعلق نہیں رکھتی ہیں۔ جیسے فرانسیسی اور اردو کا تعلق ایک لسانی گھر سے نہیں ہے۔ مترجم کو کوشش کرنا چاہیے کہ وہ مناسب الفاظ کا استعمال کرے۔ بہت سے الفاظ ایسے ہوتے ہیں جن کا متبادل دوسری زبان میں نہیں ملتا ہے۔ ایسے میں مترجم کی ذمہ داری ہے کہ وہ نئے الفاظ پیدا کرے۔ ضرورت پیش آنے پر اسے نئی اصطلاحیں اور تراکیب بھی وضع کرنی پڑتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مترجم زبان کے قواعد اور ان کی باریکیوں سے واقف ہو۔ ان سب کے علاوہ مترجم کی دلچسپی اور اس کی پسندہ نا پسند بھی ترجمے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ترجمہ کے لیے مترجم کو اسی مواد اور موضوع کا انتخاب کرنا چاہئے جس میں اس کی دلچسپی ہے یا جس کو وہ پسند کرتا ہے ۔ ترجمہ ایک صبر طلب اور تھکا دینے والا کام ہےمترجم کا یہ اخلاقی تقاضا ہے کہ وہ متن کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار نہ کرے۔ متن میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کو پوری ایمانداری کے ساتھ ترجمہ میں پیش کرے۔ اپنی سوچ اور نظریے کو ترجمے میں پیش کرنا مناسب نہیں ہے۔ اس بات کا خیال مذہبی متن کے ترجمہ میں زیادہ کیا جاتا ہے۔ نظریاتی ٹکراؤ کی کیفیت تو کسی بھی طرح کے متن میں پیدا ہو سکتی ہے۔ ترجمہ کے عمل میں مترجم کے لیے متن زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس لیے مترجم کو اپنی حدود کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
مترجم زبانوں کے درمیان ایک لازمی واسطے کے طور پر کام کرتا ہے، جو مختلف ثقافتوں، خیالات، اور معلومات کو ایک دوسرے تک پہنچانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ مترجم کا کام صرف الفاظ کو ایک زبان سے دوسری زبان میں تبدیل کرنا نہیں بلکہ مفہوم، جذبات، اور سیاق و سباق کو بھی صحیح انداز میں منتقل کرنا ہوتا ہے۔ یہ کردار خاص طور پر اہم ہوتا ہے جب مختلف زبانیں بولنے والے افراد کے درمیان کاروباری معاہدوں، سفارتی تعلقات، یا تعلیمی مواد کی ترسیل کی بات ہو۔
مترجم کا کردار اس وقت مزید نازک اور اہمیت اختیار کر لیتا ہے جب بات حساس اور تکنیکی معاملات کی ہو، جیسے طبی، قانونی، یا تکنیکی ترجمہ۔ ایک کامیاب مترجم کو نہ صرف زبانوں پر عبور حاصل ہونا چاہیے بلکہ مخصوص شعبوں کی اصطلاحات اور ان کے تناظر کو بھی بخوبی سمجھنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر، طبی مترجم مریض اور معالج کے درمیان رابطے کو ممکن بناتا ہے، جب کہ قانونی مترجم عدالت میں انصاف کے عمل کو سہل اور شفاف بناتا ہے۔
ادبی اور ثقافتی میدان میں، مترجم کی حیثیت منفرد ہوتی ہے، کیونکہ وہ مختلف قوموں کے ادبی شاہکاروں کو ترجمہ کے ذریعے عالمی سطح پر متعارف کراتا ہے۔ مترجم کے کام کے ذریعے لوگ مختلف ثقافتوں کے خیالات، روایات، اور کہانیوں سے واقف ہوتے ہیں، جو دنیا میں ہم آہنگی اور باہمی تفہیم کو فروغ دیتا ہے۔ یوں مترجم صرف ایک پیشہ ور فرد نہیں بلکہ مختلف زبانوں اور ثقافتوں کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والا اہم محرک ہے۔
ایک کامیاب مترجم کے لیے سب سے اہم خوبی زبانوں پر مہارت ہے۔ اسے ان زبانوں کی گہرائی، قواعد، جملوں کی بناوٹ، اور ان کے ثقافتی پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے، جن کے درمیان وہ ترجمہ کر رہا ہے۔ مترجم کو نہ صرف زبان کی باریکیوں پر عبور حاصل ہونا چاہیے بلکہ سیاق و سباق اور جذبات کو بھی درست انداز میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھنی چاہیے۔ یہ مہارت اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ترجمہ کردہ مواد نہ صرف درست ہو بلکہ قدرتی اور قابلِ فہم بھی لگے۔مترجم کے لیے تحقیقی اور تجزیاتی صلاحیتوں کا ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ ہر زبان میں مخصوص اصطلاحات اور مفاہیم ہوتے ہیں، جو وقتاً فوقتاً بدل سکتے ہیں۔ مترجم کو نئے الفاظ، اصطلاحات، اور ثقافتی تبدیلیوں کے بارے میں اپ ڈیٹ رہنا چاہیے۔ وہ اپنے کام میں غیر جانبداری، حساسیت، اور پیشہ ورانہ دیانتداری کے ساتھ ترجمہ کرے، تاکہ اصل مواد کے مفہوم کو نقصان نہ پہنچے اور وہ مستند طریقے سے پیش ہو سکے۔
مترجم صرف ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ کرنے والا فرد نہیں بلکہ مختلف قوموں اور ثقافتوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی ہے۔ وہ ادب، علم، اور سائنس کے میدان میں معلومات کی ترسیل کے ذریعے دنیا کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مترجم کی بدولت مختلف قوموں کے ادبی شاہکار اور علمی مواد دنیا بھر میں پہنچتے ہیں، جس سے عالمی ہم آہنگی اور ترقی کو فروغ ملتا ہے۔
مترجم کے لیے زبانوں پر مہارت، ثقافتی آگاہی، دیانتداری، اور وقت کی پابندی جیسی خوبیاں ناگزیر ہیں۔ یہ خوبیاں نہ صرف مترجم کو ایک ماہر پیشہ ور بناتی ہیں بلکہ اس کے کام کے معیار کو بھی بلند کرتی ہیں۔ مترجم کا کردار علم، ادب، اور ثقافت کے فروغ میں کلیدی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کی مہارت دنیا کے مختلف حصوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔
حوالہ جات
1. Christopher Kasparek, “The Translator’s Endless Toil The Polish Review, vol. XXVIII, no. 2, 1983, pp. 83
2. فن ترجمہ نگاری ، پروفیسر ظہور الدین، ص ۷
3. ترجمہ کا فن اور روایت، پروفیسر قمر رئیس، ص ۱۳۴
4. صفدر رشید ، فن ترجمہ کاری
5. قمررئیس، ڈاکٹر، ترجمہ کا فن اور روایت، خواجہ پریس ، دہلی، جون ۱۹۷۶ء، ص ۱۸۲-۱۸۳