ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مزاح نگاری کا اجمالی جائزہ
ثوبیہ ارشد(ایم-فل سکالر)
دورِ جدید میں ڈاکٹر انعام الحق جاویدطنز ومزاح کی کہکشاں کا وہ تابندہ ستارہ ہیں جنھوں نے بہ یک وقت ایک سے زائد زبانوں اور متنوع ادبی جہات میں اپنے تخلیقی اور تصنیفی جوہر دکھائے۔ وہ اردو، انگریزی اور پنجابی زبان کے شاعر، محقق اور نقاد ہیں۔ وہ ایک ہمہ جہت ادبی شخصیت ہیں جنھوں نے کئی شعری اصناف میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ خصوصی طور پر مزاحیہ شاعری میں ان کا ادبی سرمایہ نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ۔ علاوہ ازیں مختلف انتظامی عہدوں پر تعیناتی کے نتیجے میں انھوں نے کئی قومی اداروں میں اپنی فراست، لیاقت اور بصیرت سے اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہونے والے اردو اور پنجابی مشاعروں میں بارہا وطنِ عزیز کی نمائندگی کرچکے ہیں ۔ ان کا شمار طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے صفِ اول کے شعراء میں ہوتا ہے ۔ ۶ جون ۱۹۴۹ء کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ اردو اور پنجابی زبان وبیان میں خصوصی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ خوش اخلاق اور باغ و بہار طبیعت کے مالک ہیں اور یہی شگفتگی و تازگی ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ ظریفانہ شاعری سمیت اردو ، پنجابی اور انگریزی میں ۷۵ سے زائد تحقیقی و تنقیدی کتب کے مصنف ہیں جن میں سے بعض کتب کو اعلیٰ ادبی ایوارڈز بھی مل چکے ہیں ۔ طنزیہ و مزاحیہ اردو شعری مجموعے درج ذیل ہیں :
۱۔ ”خوش کلامیاں “ ۲۔ ”خوش بیانیاں “
۳۔ ”کوئے ظرافت“ ۴۔ ”سوبٹا سو“
۵۔ ”لا یعنی “ ۶۔ ”رانگ نمبر “
۷۔ ”بد حواسیاں“ ۸۔ ”تبسم طرازیاں “
۹۔ ”دیوانِ خاص “ ۱۰۔ ”دیوانِ عام “
علاوہ ازیں ”منظوم قہقہے“ ، ”کشتیءِ زعفران“، ”گلہائے تبسم“ اور ”انتخاب در انتخاب“ کے نام سے مرتب کردہ قدیم و جدید مزاح گو شعراء کے منتخب کلام پر مبنی چار ضخیم کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔
طنزومزاح وہ پیرایئہ اظہار ہے جس میں زندگی کی ناہمواریوں کو شگفتگی کے ساتھ بے نقاب کیا جاتا ہے تاہم اس میں شائستگی کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے تاکہ اصلاح کا پہلو غالب رہے ۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی طبیعت میں پائی جانے والی شگفتگی کا عکس ان کی اردو مزاحیہ شاعری میں واضح طور سے جھلکتا ہے۔ وہ پاکستان میں کشتِ زعفران کے ایک پر گو شاعر ہیں۔ انھوں نے معاشرے کے ہر طبقے اور ہر پہلو کو اپنی اردو مزاحیہ شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے ہمارے سماج میں معاشی تفاوت، طبقاتی تقسیم اور اخلاقی زبوں حالی کو بھی طنزیہ پیرائے میں بے نقاب کیا ہے:
غریب چیخ رہے ہیں کہ ہم کو کھانا دو
امیر ڈانٹ رہے ہیں کہ ہم کو کھانے دو
چرا کے آنکھ نکل جاؤ تم بھی چپکے سے
چرا رہا ہے جو یہ بھینس اسے چرانے دو(۱)
ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے بہت عمدہ اور دلچسپ مزاح تخلیق کیا ہے، جس کی تازگی اور مٹھاس انسان کو زندگی کی تلخیوں سے پرے لے جاتی ہے ۔ ان کا طنز سادہ اور موثر ہونے کے ساتھ ساتھ تیکھا اور معنی خیز ہے۔ وہ طنز کی تلخی، شدت، جارحیت کو شاعری میں ناگواریت پیدا کرنے نہیں دیتے بلکہ کمال مہارت ، نفاست اور احتیاط سے اس کا استعمال کرتے ہیں کہ ناگواریت کے بجائے مسکراہٹ ابھرتی ہے اور اصلاح کا پہلو نمایاں ہوجاتا ہے ۔ اس طنز کی بہترین مثال اور اعلیٰ نمونہ موجودہ دور کی تعلیمی حالت اور اساتذہ و طلباء کے غیر سنجیدہ طرزِ عمل کا دلکش پیرائے میں بیان ان کے قلم سے ملاحظہ ہو:
پروفیسر ہی جب آتے ہوں ہفتہ وار کالج میں
تو اونچا کیوں نہ ہو تعلیم کا معیار کالج میں
وہ ڈگری کی بجائے میم لے کر لوٹ آیا ہے
ملا تھا داخلہ جس کو سمندر پار کالج میں(۲)
جب اس مزاح کے ساتھ مقصدیت کا عنصر پایا جاتا ہے تو طنز اور مزاح کی نہایت پر لطف آمیزش سے ایک نیا پہلو نکلتا ہے جس میں مسکراہٹ کے ساتھ فکر انگیزی بھی پائی جاتی ہے ۔ انعام الحق جاوید نے اپنے عہد کے تمام سماجی ، سیاسی، معاشی اور روزمرہ زندگی کے مسائل پر ظریفانہ نظر ڈالی اور طنز و مزاح کے حسین پیرایوں میں بڑے دلچسپ اور موثر انداز میں پیش کیا :
میڈم کی ڈانٹ سن کے ملازم پکار اُٹھا
ہر چند سنگ ریزہ ہوں گوہر نہیں ہوں میں
لیکن کلام کیجیے مجھ سے ادب کے ساتھ
نوکر ہوں کوئی آپ کا شوہر نہیں ہوں میں(۳)
ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے مادیت پرستی اور ازدواجی زندگی کے منفی پہلوؤں کو جوڑ کر پیش کیا ہے۔ ہمارے کئی نوجوان محنت کرنے اور ہنر مند بننے کے بجائے کسی غیر ملکی یورپی عورت کے ساتھ شادی کر کے اپنے سپنے پورے کرنے کے خواب دیکھتے ہیں۔ انھوں نے اپنے ایک قطعہ ’’امریکی شہریت‘‘ میں ’’شوہریت اور شہریت‘‘ کے لفظی ہیر پھیر سے مزاح پیدا کیا ہے جو امریکہ میں مستقل شہریت حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور ازدواجی رشتہ غیر جذباتی انداز میں بنانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں:
وہ تھی امریکہ کی بیوہ اور میں رنڈوا گاؤں کا
ایک محفل میں جو ہم دونوں کی نیت مل گئی
کیا بتاؤں چند لمحوں میں ہی کیا کچھ ہوگیا
مجھ کو شہریت تو اس کو شوہریت مل گئی(۴)
ان کے ہاںمشرق اور مغرب کی اچھائیوں اور برائیوں پر بھی ظریفانہ انداز میں تبصرہ ملتا ہے۔ انھوں نے مشرقی و مغربی معاشروں کے مثبت اور منفی پہلوؤں کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی سماج میں چند قدیم روایات کی پاسداری کی جاتی ہے لیکن یہ سماج کاہلی اور محدود سوچ کی وجہ سے جدید دنیا سے پیچھے رہ گیا، اسی طرح مغرب نے سائنسی دنیا میں ضرور ترقی کی ہے لیکن حیا داری کا فقدان ہے۔ مشرق و مغرب سے متعلق ان کے مشاہدے کی گہرائی کو ڈاکٹر امجد علی بھٹی ان الفاظ میں سامنے لاتے ہیں:
’’ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے عقائد اور مقاصد چاہے جو کچھ بھی ہوں، یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی طنز مغربی تقلید کی طوفانی رو میں دھیما پن پیدا کرسکتی ہے جن سے ہم اپنی ادبی، تمدنی اور مذہبی روایات کا تحفظ بھی کرسکتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کی نظم’’ مشرق و مغرب ‘‘ قابلِ توجہ ہے جس میں انھوں نے مغرب کو نشانہ طنز بنانے اور مشرق کو ہی بلند مرتبہ دکھانے کے بجائے ان دونوں میں توازن پیدا کرنے کا درس دیا ہے۔‘‘(۵)
ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اپنی طنز و مزاحیہ شاعری اور ظریفانہ کلام میں کئی مزاحیہ حربے برتے ہیں۔ انھوں نے غزل، نظم، قطعات وغیرہ جیسی اصناف میں مزاحیہ کلام تخلیق کیا ہے تاہم ان کے ہاں قطعات کی تعداد دیگر اصناف کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مزاحیہ قطعہ نگاری کی صنف کو زندہ رکھنے میں ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا کردار قابلِ صد تحسین ہے۔ ان کے ہاں رعایت لفظی، لفظی شعبدہ گری، الفاظ کے الٹ پھیر اور بذلہ سنجی سے کام لیا گیا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مزاحیہ شاعری میں اس مزاحیہ حربے کا استعمال کثرت سے کیا گیا ہے۔ اس سے متعلق ان کا درج ذیل قطعہ خصوصی توجہ کا استحقاق رکھتا ہے:
تجھ سے چھپ کر میں نے ڈھونڈا آستانہ پیر کا
آستانے کی طرف مت آ، ستانے کے لیے
امتحاں دینے کو اب دونوں طرح تیار ہوں
آ، زمانے کے لیے یا آزمانے کے لیے(۶)
جدید اردو شعری ادب میں طنزومزاح کے اہم رجحانات میں پیروڈی کے فن اور تحریف نگاری کی جدت نے ہمارے فکاہی ادب کو بعض نئے زاویوں سے آشنا کیا ہے۔ پیروڈی یا تحریف نگاری کسی تصنیف یا کلام میں ایسی لفظی نقالی کا نام ہے جس سے کوئی مضحک پہلو سامنے لایا جاسکے۔ ڈاکٹر انعام الحق نے کئی اردو شعرا کے کلام کی پیروڈیاں اس سلیقے سے کی ہیں کہ قاری اپنی ہنسی پر قابو پانے میں ناکام ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو انھوں نے عرش صدیقی کی معروف نظم بعنوان ’’اسے کہنا دسمبر آگیا ہے‘‘ کی تحریف ’’اسے کہنا پلمبر آگیا ہے‘‘ سے کی ہے:
اسے کہنا پلمبر آگیا ہے
ترے بنگلے کا نمبر آگیا ہے
مرمت ہورہا تھا جب یہ بنگلہ
تو میں نے ہی لگایا تھا یہ جنگلہ
مگر اجرت نہ مجھ کو مل سکی تھی
سو میں اس وقت سے پھرتا ہوں کنگلہ(۷)
ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے اپنے اردو ظریفانہ کلام میں مزاح پیدا کرنے کے کئی منفرد حربے استعمال کیے ہیں۔ انھیں اپنی مزاحیہ شاعری میں انگریزی، پنجابی اور فارسی زبان کے الفاظ پرونے کا ہنر بھی بخوبی آتا ہے۔ان کے ہاں موازنہ و تضاد بھی کہیں کہیں دکھائی دیتا ہے۔ رمز کی کیفیت پیدا کر کے بھی انھوں نے مزاح پیدا کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کی مزاحیہ شاعری میں اسلوب کی دل کشی اور تہ داری ان کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کو ایک انفرادیت بخشتی ہے، جس کا دھیما پن ہر مصرعے سے جھانک کر تبسم او رلطافت کے بے شمار نئے اور اچھوتے زاویوں کو جنم دیتا ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق کی شاعری میں ان کی شگفتہ نگاری اور ظرافت کے گل ہائے رنگا رنگ ملتے ہیں۔
انھوں نے جن شخصیات کے خاکے لکھے ہیں، ان سے متعلق بعض دل چسپ واقعات وحقائق یااقوال بیان کرتے ہوئے ان کے اسلوب کی شستگی کہیں کہیں شگفتگی کی حدود میں داخل ہوگئی ہے۔ وہ شخصیات کے ظاہری و باطنی کمالات کے ساتھ ان کی زندگی کے اردگرد سے ایسے واقعات چنتے ہیں جو قاری کے لبوں پر تبسم بکھیر دیتے ہیں۔ حبیب جالب کے خاکے سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیئے:
’’حبیب جالب نے تقریر کی۔ پارٹی کے اغراض و مقاصد بیان کیے اور بتایا کہ عوامی پرولتاری پارٹی غریبوں کی پارٹی ہے اور اس کے سب عہدے دار بھی میری طرح غریب ہی ہوں گے۔ خواجہ احمد سعید ان دنوں کچھ نہیں کرتے تھے اور بزرگوں کی کمائی پر ہی گزارہ کرتے تھے۔ (ویسے آپس کی بات ہے کہ وہ آج کل بھی کچھ نہیں کرتے اور آئندہبھی کچھ نہ کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ گھر میں چھوٹے لاڈلے ہیں لہذا ہر طرف سے انھیں ’’نذرانے‘‘ ملتے رہتے تھے ) لیکن جب چائے وغیرہ رکھی گئی تو اس میں مٹھائی، مرغ روسٹ، پیسٹریز، کیک اور نہ جانے کیا کچھ شامل تھا جسے دیکھ کر حاضرین کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے کہ یہ کہاں سے؟ غالباً احمد سعید صاحب بھی بھانپ گئے اور آخر میں اپنی تقریر کے اختتام پر بولے: حاضرین حبیب جالب صاحب ہمارے ملک کا ایک قیمتی سرمایہ ہیں جنہوں نے آج تک اصولوں پر سودے بازی نہیں کی۔ اب انھوں نے غریبوں کے لیے ایک پارٹی بنائی ہے اور ہم ان کا خیر مقدم کرتے ہیں لیکن یہ جو مٹھائی اور انواع و اقسام کی اشیائے خوردنی میزوں پر دیکھ رہے ہیں یہ سب میں نے مقامی سرمایہ داروں کے تعاون سے اکٹھی کی ہیں۔ خواجہ احمد سعید بلا کے شرارتی تھے چنانچہ حبیب جالب کو فوراً کھڑے ہو کر کہنا پڑا کہ میں خواجہ احمد سعید کو ابھی اسی وقت اپنی پارٹی کی ضلعی صدارت سے معطل کرتا ہوں۔‘‘(۸)
سفرنامہ نویسی غیر افسانوی صنفِ نثر کی اہم صنفِ ادب ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے ’’گورا گوری گورستان‘‘کے عنوان سے سفرنامہ تخلیق کیا۔ یہ سفرنامہ مختلف ممالک کے دل چسپ اور شگفتہ سفرناموں پر مشتمل ہے۔ ان ممالک میں امریکہ، برطانیہ، ناروے، فرانس، کینیڈا، ایران، بھارت، متحدہ عرب امارات، قطر، سعودی عرب، تھائی لینڈ، اٹلی، جرمنی، مسقط، چین اور ترکیہ شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے چٹخارے دار اسلوب سے اردو سفرنامے کو نئے ذائقے فراہم کیے ہیں۔ وہ ادبی مشاعروں میں شرکت کرنے کے لیے ان ممالک کے سفر پر گئے اور اپنے مشاہدے اور قلم کی روانی کی قوت سے یہ سفرنامہ قلمبند کیا اور مزاح کا بھرپور تڑکا لگایا۔
عہدِ حاضر میں مصاحبہ کاری، مکتوب نویسی کی طرح باقاعدہ ایک فن اور ادبی صنف کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مختلف مشاہیرِ علم و ادب اور دانش مندوں سے مصاحبات پر مشتمل تصنیف ’’مشاہیر سے مکالمہ‘‘ بھی ادبی مزاح پارے کی ایک منفرد شکل ہے۔ تئیس سالوں پر محیط طویل عرصے کے دوران کیے گئے نامور لوگوں کے مصاحبات جو اردو، پنجابی اور انگریزی ادب اور فنونِ لطیفہ کی مختلف شاخوں سے وابستہ ہیں، نہایت اہم ادبی دستاویز کی حیثیت رکھتے ہیں جس کو ادبی و فنی دنیا کی کہکشاں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ مصاحبہ کار کا کمال یہ ہے کہ وہ ان مشاہیرِ زمانہ اور دانش مندوں سے ایسے تیکھے سوال کرتے ہیں کہ وہ ان کا جواب دل چسپ انداز میں دینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ وہ مصاحبہ کاری میں اندر کی بات اگلوانے اور دل چسپ حقائق کو بیان کروانے میں بے حد طاق ہیں۔
شگفتہ مضامین نویسی کی روایت میں بھی ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا نام بے حد اہم ہے۔ طنزومزاح اور ظرافت ان کے مضامین کا جزو لاینفک ہے۔ وہ مضامین لکھتے ہوئے اپنے اردگرد کے موضوعات پر جب بھی قلم اٹھاتے ہیں تو ان کی ناہمواریوں کے حوالے سے ان پر ہلکے تیکھے انداز میں پھبتی کستے نظر آتے ہیں لیکن وہ طنز کو بے مہار چھوڑنے کے بجائے اسے اکثر شگفتگی اور مزاح کی نکیل پہنائے رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین میں طنز و مزاح کا حسین امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے نثری طنز و مزاح میں بھی ادبی چاشنی اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ جھلکتی ہے۔ مصاحبہ کاری ہویا مضامین نویسی، سفرنامہ نگاری ہو یا خاکہ نگاری، ادبی فکاہیہ کالم نویسی ہو یا انشائیہ نگاری، ان کی نثر میں طنز و مزاح، شگفتگی، بذلہ سنجی اور ظرافت کے لاجواب نمونے باآسانی مل ہی جاتے ہیں جو مزاح نگاری پر ان کی قدرت کا بیّن ثبوت ہیں۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی نظم و نثر میں مزاح نگاری کا مجموعی احاطہ کر کے یہ کہنا قطعی طور پر مبالغہ نہیں ہوگا کہ جدید اردو مزاح نگاری کے چوٹی کے مزاح نگاروں میں ڈاکٹر انعام الحق کا نام شامل ہے۔ ان کے ہاں بہترین اور معیاری مزاح کے کئی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی آمد موجودہ مزاح کے ادبی منظرنامے میں ابرِ بہاراں کی حیثیت رکھتی ہے۔ ڈاکٹر سلیم اختر لکھتے ہیں:
”انعام الحق جاوید الفاظ کے فنکارانہ استعمال کا تخلیقی شعور رکھتا ہے۔“(۹)
ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مزاح نگاری وقتی نہیں بلکہ دیرپا اثر رکھتی ہے۔ موضوعات کے تنوع کے علاوہ الفاظ کا مناسب چناؤ، ان کا برمحل استعمال اور انفرادی پیش کش وہ عناصر ہیں جو ان کی انفرادیت کے ساتھ ساتھ ان کی مزاح نگاری کوبھی بڑھاوا دینے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ ان کا ایک منفرد کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ادبی نقادخانے میں اس وقت اپنی شخصیت میں انفرادیت اور امتیاز پیداکیا جب وہاں کم و بیش درجن بھر استاد مزاح نگاروں کا طوطی بول رہا تھا۔ ان کے ہاں کثافت، ہزل گوئی اور پھکڑ پن جیسے سوقیانہ عناصر قطعی طور پر دکھائی نہیں دیتے بلکہ ہر سمت ظرافت ہی ظرافت ہے۔ وہ مزاح نگاری کرتے ہوئے الفاظ کے چناؤ کا نہ صرف خیال رکھتے ہیں بلکہ ادبی معیار کو بھی برقرار رکھتے ہیں۔ وہ اس شہر (فیصل آباد) میں پیدا ہوئے جو ضلع جگت اور مزاح نگاری کے حوالے سے پاکستان بھر میں مشہور ہے۔ یوں کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی مزاح نگاری فکری و موضوعاتی اور فنّی و اسلوبیاتی ہر دو حوالوں سے اپنی مثال آپ ہے۔ معاصر اردو مزاح کی روایت میں ان کا نام تابندہ ستارے کی مانند ہے۔
حوالہ جات
ڈاکٹر انعام الحق جاوید، تبسم طرازیاں، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۹ء، ص: ۵۱
•ڈاکٹر انعام الحق جاوید: ’’خوش بیانیاں‘‘ دوست پبلی کیشنز، اسلام آباد، ۲۰۱۲ء، ص ۴۴
•ایضاً، ص ۴۴
•ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سو بٹا سو، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۳ء، ص: ۶۲
•ڈاکٹر امجد علی بھٹی، ڈاکٹر انعام الحق جاوید: شخصیت اور فن، اسلام آباد: اکادمی ادبیات پاکستان، ۲۰۱۹ء، ص: ۸۴
•ڈاکٹر انعام الحق جاوید، لایعنی، اسلام آباد: دوست پبلی کیشنز، ۲۰۰۶ء، ص: ۸۳
•ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سو بٹا سو، ایضاً، ص: ۱۰۹
•ڈاکٹر انعام الحق جاوید، سن تو سہی، لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۱۷ء،ص: ۵۰-۵۱
•سو بٹا سو، فلیپ کور۱۷