گوشہء نعتیہ ادب
نعت برنگِ شمائل
سید صبیح رحمانی
بانی و سیکرٹری جنرل،نعت ریسرچ سینٹر انٹرنیشنل
مدیر: نعت رنگ
نعت کے موضوعات اور اسلوبی تجربات میں قدیم و جدید کا پہلو اور ادبی قدر کے تعین میں اس کی اہمیت سے انکار تو بے شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن یہ معاملہ خواص کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ نعت کے ایک عام قاری اور سامع کو اس بحث سے کوئی سروکار نہیں۔ اس ضمن میں یہ نکتہ بھی غور طلب ہے کہ نعت کے کتنے ہی موضوعات ابتدا سے وجود رکھتے ہیں تاہم ہر عہد میں شعرا کی فکرِ رسا حتی المقدور انھیں دریافت کرکے اپنے تہذیبی، ادبی اور سماجی تناظر میں معرضِ اظہار میں لاتی ہے۔اس کا سبب یہ ہے کہ عصری تقاضے صنفِ نعت میں مختلف النوع میلانات و رجحانات کا باعث بنتے ہیں۔ چناں چہ نعت کبھی متصوفانہ رنگ سے متأثر ہوئی، کبھی مقصدیت سے ہم آہنگ ہوئی، کبھی عہدِ رسالت کے نقوش سیرت النبی کے بیان سے اجاگر کیے گئے اور کبھی رسالتِ محمدی کے اُن پہلوؤں کو جدید اسالیب کے ذریعے پیش کیا گیا جو ماورائے زمان و مکاں ہیں۔ البتہ شمائل النبی نعت کا وہ مقدم موضوع ہے جو ہر عصری میلان کے پہلو بہ پہلو ہمیشہ دائرۂ سخن میں رہا ہے۔ اس موضوع کو نبھانا بھی سہل نہیں کیوں کہ اس کی بنیاد مطالعۂ تاریخ و سیرت اور صحتِ حقائق پر ہے۔ ایک اُمتی کے دل میں دیدارِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو خواہش ہمیشہ جاگزیں رہتی ہے ‘شمائل النبی پر مبنی کلام میں شاعر کا حسنِ تخیل اس خواہش کو حضور واضطراب کی لے سے ہم آہنگ کرتا ہے اور یوں عشقِ نبی کی لَو فزوں تر ہوجاتی ہے۔
مرزا حفیظ اوجؔ نے اسی موضوع کا اپنی تحقیق کے لیے انتخاب کیا، یہ امر لائقِ تحسین ہے۔ اس تصنیف میں دل چسپی کا دائرہ اس لیے وسیع ہونے کا امکان ہے کہ نعت میں شمائل النبی کا موضوع بلا تخصیص ہر علمی و ادبی حلقے میں عہدِ رسالت مآب سے اس دور تک مرغوب اور خاص و عام کی توجہ کا مرکز رہا ہے۔ اگرچہ اس پیکرِ جمال کی مکمل عکاسی اور حرفِ اظہار کے دائرے میں اس کا جامع بیان انسان کی قوتِ ابلاغ کی بساط سے باہر ہے۔ البتہ شعرا کی اس سعیِ جمیل سے فن کے آفاق وسیع ہوتے رہے ہیں۔ شمائل النبی کے ضمن میں صاحبِ کتاب نے عمدہ نمونہ ہائے کلام انتخاب کیے ہیں جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ خود باذوق شاعر ہیں۔
باب اوّل میں مرزا حفیظ اوج نے قرآن و حدیث کے علاوہ گراں قدر کتب و جرائد سے استفادہ کرکے موضوع سے متعلق مستند معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ ایک ذمہ دار محقق ان نکات سے رُوگردانی کر بھی نہیں سکتا۔ نعتیہ کلام کا انتخاب کرنے کے لیے یقیناً انھوں نے بہت سے شعرا کا کلام بالاستیعاب دیکھا ہے اور نمائندہ شعرا کا کلام فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
مرزا حفیظ اوجؔ اس بات کے خواہاں ہیں کہ شمائل النبی کا موضوع اردو نعت نگاری میں اپنی الگ جگہ بنا سکے اور یہ ایک مستقل فن کی صورت میں سامنے آئے جیسے سیرت نگاری میں شمائل کا بیان ایک الگ باب کی حیثیت کا حامل ہے۔ ان کی اس خواہش نے ایک زبردست محرّک کا کام کیا ہے اور اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے ان کا تنقیدی شعور جس طرح سامنے آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں معاملہ اس موضوع سے شغف کی حد تک ہی نہیں ہے، بلکہ وہ اس کے بارے میں وسیع دائرے میں غور کرتے ہوئے اس کے ادبی و فنی پہلوؤں کو بھی پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ شمائل النبی کے منظوم اظہار پر بات کرتے ہوئے جس طرح مضمون خیال، لفظیات اور بیان و بدیع کی جزئیات پر مرزا حفیظ اوج کی نظر رہی ہے اور جس اعتدال سے وہ انتخابِ کلام کا جواز پیش کرتے جاتے ہیں، اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ نعت میں شمائل النبی کا موضوع جیسے جیسے ایک الگ موضوعِ سخن کی حیثیت اختیار کرتا جائے گا وہ اس ضمن میں تحقیق و تنقید کا دائرہ بڑھانے کی کاوش و جستجو بھی کرتے رہیں گے۔ ان کا اندازِ تنقید یہ واضح کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے ذکر مبارک کو اپنا کر شاعر ماورائے تنقید نہیں ہوجاتا بلکہ نعت گوئی میں اپنے انتخاب کیے ہوئے موضوع کو تمام تر شرعی اور فنی تقاضوں کے ساتھ نبھانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اپنے مؤقف کو واضح کرنے کے لیے مرزا حفیظ اوج نے بعض مقامات پر تقابلی جائزے کی اہمیت کا خیال کرتے ہوئے یہ فریضہ بھی سرانجام دیا ہے اور ان عوامل پر بھی بحث کی ہے جن پر صاحبِ طرز شعرا کی انفرادیت کا دارومدار ہے۔
کوئی تحقیقی کاوش بالخصوص جب وہ ایسے مہتم بالشان موضوع پر ہو تو اس کی قدرومنزلت کا انحصار اختصار یا طوالت پر نہیں ہوتا۔ اس مختصر تصنیف میں شامل لوازمہ نعت میں شمائل النبی کے بیان کی کئی صورتیں سامنے لا رہا ہے۔ اس مطالعے سے تحقیق و تنقید کے نئے پہلو واضح ہوں گے۔ اس موضوع پر کچھ اور زاویوں سے بھی غور کیا جا سکتا ہے مثلاً نعتیہ شاعری میں شمائل النبی کا جو اظہار ہوا اس کا عہد بہ عہد یا اصناف وار جائزہ ممکن ہے۔ یہ تجزیاتی مطالعہ بھی اہم ہوگا کہ وسیع دائرۂ اثر رکھنے والے عالمِ دین شعرا کے عقائد و افکار کی بنیاد پر یہ موضوع کیا پیرایہ ہائے اظہار اختیار کرتا رہا ہے۔ اردو میں یہ روایت عربی و فارسی روایت سے کس طور سے متأثر یا مختلف ہے اور یہ کہ جدیدیت کے زیرِ اثر اس موضوع کے ضمن میں کون سے تجربات پیرایۂ بیاں اور اسلوبِ نگارش سامنے آئے ہیں۔
امید کی جانی چاہیے کہ مرزا حفیظ اوجؔ کی یہ کتاب علمی و ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی جائے گی اور اہلِ نقدونظر کے لیے غوروفکر کی کچھ اور راہیں بھی اس کے ذریعے روشن ہوں گی۔ میں دعا گو ہوں کہ اس موضوع کی برکت خود مصنف کے لیے بھی مزید توفیقات کا جواز ٹھہرے ۔