میرے پڑوسی ناصر کاظمی ایک خاموش ہمسایہ
ایک زندہ شاعر
ـ معروف شاعرناصر کاظمی کے تعلق سےچند یادیں
خالد الطاف
پی،ٹی،این نیویاک(ڈلاس کے مالک و پروڈیوسر)
ناصر کاظمی میرے پڑوسی تھے، لیکن حقیقتاً وہ میری گلی کے نہیں، اردو شاعری کے مکین تھے۔ ان کے دروازے سے نکلنے والی دھیمی قدموں کی چاپ، ان کے کمرے کی مدھم روشنی اور کبھی کبھار ان کے ہونٹوں سے نکلتی ہوئی نظموں کی سرگوشی۔۔۔۔یہ سب آج بھی میری یادوں میں تازہ ہیں۔
خاموشی میں بسی آواز
ناصر صاحب کم گو تھے، لیکن جب بولتے تو یوں لگتا جیسے الفاظ ان کے لیے نہیں، وہ الفاظ کے لیے پیدا ہوئے ہوں۔ اکثر شاموں کو وہ سامنے کھڑکی پر کھڑے سگریٹ کے دھوئیں کے ساتھ خیالات کی لہریں چھوڑتے۔ میں، تب ایک نوجوان طالبعلم، دیوار کے پار سے ان کی آہستہ آواز میں گنگناتے اشعار سنتا اور حیرت زدہ ہوتا کہ ایک انسان اتنا گہرا، اتنا حساس کیسے ہو سکتا ہے۔
اکثر ان کے گھر ملاقات پر بات چیت رہتی جیسا کہ میں نے بتایا کہ میرے سامنے والے گھر میں ان کی رہائش تھی۔ایک دن ان کے گھر میں جانا ہوا تو ۔۔۔ وہ بہت سادگی سے آئے، دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بیٹھے اور چائے پیتے ہوئے اچانک بولے
دائم آباد رہے گی دنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ میں نے دل ہی دل میں وہ لمحہ محفوظ کر لیا۔ وہ ان کا روزمرہ تھا، ہمارے لیے ایک یادگار لمحہ۔بارش، تنہائی اور ناصر کاظمی
ایک مون سون کی شام، جب گلی میں بارش کا پانی بہہ رہا تھا اور بجلی غائب تھی، ناصر صاحب چھتری کے بغیر آہستہ آہستہ گلی میں چل رہے تھے۔ میں نے کھڑکی سے دیکھا تو پوچھا، “ناصر انکل! آپ بھیگ رہے ہیں۔وہ مسکرائے اور کہا:
“بارش میں تنہا چلنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ لفظ بھی بھیگتے ہیں اور خیال بھی۔”
اس دن میں نے جانا کہ شاعری صرف کاغذ پر نہیں، زندگی کے رویوں میں بھی ہوتی ہے۔
ناصر صاحب کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا:
“زندگی ایک ادھوری غزل کی طرح ہے، کبھی مکمل نہیں ہوتی۔”
کچھ ہفتوں بعد وہ ہمیں چھوڑ گئے۔ ان کا دروازہ بند رہا، لیکن ان کی شاعری نے ہر دروازے پر دستک دینا جاری رکھا۔
یہ چند لمحے میرے دل کے سب سے قیمتی گوشے میں محفوظ ہیں۔ ناصر کاظمی میرے پڑوسی تھے، مگر ان کی شاعری نے مجھے عمر بھر کا ہمسایہ بنا لیا۔ان کی زندگی بھی ایک نظم تھی، جس کے ہر مصرع میں تنہائی، اداسی، امید اور محبت کا رنگ چھپا تھا۔کیا آپ چاہتے ہیں کہ یہ خاکہ مزید طویل کیا جائے، یا اس میں کوئی خاص واقعہ یا ان کی کوئی مشہور نظم یا غزل کا ذکر شامل کیا جائے؟
یقیناً، آئیے اس یادداشت کو آگے بڑھاتے ہیں، تاکہ ناصر کاظمی کی شخصیت، شاعرانہ فضا اور ان کے ساتھ گزارے گئے مزید لمحات کو بہتر انداز میں اجاگر کیا جا سکے:
“میرے پڑوسی ناصر کاظمی وہ جو لفظوں میں رہتا تھا”
کتابیں، چپ اور بارش کی خوشبو
ناصر کاظمی کا کمرہ چھوٹا مگر پرسکون تھا۔ کتابوں سے بھرا ہوا، ایک پرانی کرسی، ایک میز جس پر ہمیشہ کوئی قلم، کاغذ، اور سگریٹ کی ڈبیا رکھی ہوتی۔ ان کے کمرے سے ہمیشہ خاموشی کی خوشبو آتی تھی، یا شاید وہ خاموشی بھی ان کے مزاج کا حصہ تھی۔
اکثر دیکھا کہ وہ کھڑکی کے پاس بیٹھے، کسی پرانی کتاب کو کھولے، کسی اور دنیا میں کھوئے رہتے۔ ان کی تنہائی خود ایک ادبی تجربہ تھی۔ ایک بار میں نے پوچھا،
“ناصر انکل، آپ اتنے خاموش کیوں رہتے ہیں؟”
وہ ہنسے، اور جواب دیا:
“خاموشی میں جو بات ہوتی ہے، وہ لفظوں میں کہاں؟”
گلی میں ایک شاعر
ہماری گلی میں سبھی ان سے واقف تھے، مگر کم ہی لوگ ان کی قدر کو سمجھتے تھے۔ اکثر بچوں کو ٹافیاں دے دیتے، چھوٹے موٹے دکان داروں سے خوش دلی سے بات کر لیتے، مگر جب کوئی ان سے ان کی شاعری کا ذکر کرتا تو نظر جھکا کر آہستہ سے کہتے:
“شاعری تو بس دکھ کو ترتیب دینے کا ایک طریقہ ہے۔”
ایک بار گلی کے نکڑ پر چائے والے نے انہیں پہچان کر کہا:
“آپ ہی وہ ناصر کاظمی ہیں نا جن کی غزل کل ریڈیو پر سنی؟”
ناصر صاحب ہلکا سا مسکرائے اور جواب دیا:
“نہیں، میں تو بس ایک گمشدہ آدمی ہوں، جسے لفظوں نے تھام لیا ہے۔”
نظم جو میرے لیے تھی؟
ایک دن وہ گھر کے باہر بیٹھے تھے۔ میں کالج سے لوٹا تو انہوں نے بلایا،
“آؤ، کچھ سناتا ہوں۔”
انہوں نے جو نظم سنائی، وہ یوں تھی جیسے میرے ہی جذبات کو لفظوں کا روپ دے دیا گیا ہو۔پھر کہا،
“تم نے جو پچھلے دنوں تنہائی کا ذکر کیا تھا، وہی نظم میں نے تمہارے لیے لکھی۔”
میں حیرت سے انہیں دیکھتا رہ گیا۔ ناصر کاظمی صاحب نہ صرف بڑے شاعر تھے، بلکہ وہ بڑے انسان بھی وہ سن سکتے تھے دل کی بات، آنکھ کی نمی، اور سانسوں کی تھکن
ان کے آخری ایّام میں جب ان کی طبیعت کافی بگڑ چکی تھی، میں ان سے ملنے گیا۔ وہ کمزور ہو چکے تھے، مگر ان کی آنکھوں میں وہی روشنی تھی۔انہوں نے آہستہ سے کہا:
“تم نے کبھی شام کے سائے کو غور سے دیکھا ہے؟ وہ بھی ایک طرح کی نظم ہے۔ بس ختم ہونے سے پہلے کچھ دیر ٹھہرتی ہے۔”
اس دن وہ کچھ زیادہ دیر تک خاموش رہے، شاید اس خاموشی میں سب کچھ کہہ دیا تھا۔
ناصر کاظمی جیسے شاعر صرف اشعار میں زندہ نہیں رہتے، وہ اپنے ہمسایوں کی یادوں میں، گلیوں کی خاموش دیواروں میں، اور ہر اس لمحے میں زندہ رہتے ہیں جہاں لفظ کسی دل کو چھو لیتے ہیں۔میں اپنے نوجوانی کے ان دنوں میں کھو جاتا ہوں۔۔۔۔۔
۱۹۷۱ میں اسلامیہ کالج آف کامرس لاہور میں میرا تیسرا سال تھا میرا ایک بہت ہی قریبی اور بہترین دوست ہوا کرتا تھا جس کا نام برکات النعیم تھا میرا کہیں بھی آنا جانا ہوتا کوئی ہونہ ہو یہ دوست میرے ساتھ ضرورہوتا تھا ہم روزانہ ملتے وہ بلاناغہ ہماری کھڑکی کے پاس آکر میرا نام پکارتا جس دن وہ نہیں آتا اس دن میں اس کے گھر گلی میں جاکر اس کانام زور سے پکارتا کیونکہ وہ دوسری منزل پر رہتا تھا وہ اوپر کھڑکی پر نمودار ہوتا اور اشارہ کرتا کہ وہ دو منٹ میں نیچے آرہا ہے ہم کہیں ٹیوشن کیلئے جاتے تھے تو کبھی گھومنے پھرنے امتحان کے دنوں میں ایک ساتھ بیٹھ کر پڑھائی بھی کیا کرتے تھے اور فلمیں بھی ہم نے ایک ساتھ بہت دیکھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری اُن دنوں بہت ہی عروج پر تھی یکے بعد دیگرے بہت ہی خوبصورت معیاری فلمیں بنا کرتی تھیں لوگوں کی تفریح کا بس یہی ایک ذریعہ تھا اُن دنوں سنتوش کمار سُدھیر محمدعلی اور وحید مُراد کا طوطی بولتا تھا۔
کرشن نگر لاہور میں جس گلی میں ہمارا گھر تھا وہیں عظیم شاعر ناصر کاظمی بھی رہا کرتے تھے ہمارے گھر کے عین سامنے ان کادروازہ تھا جو سارا دن کھلا رہتا تھا ناصر کاظمی کی بیگم اور ہماری والدہ کی بہت اچھی دوستی تھی اُن دونوں کا تقریباً روزانہ ہی ملنا جلنا ہوا کرتا تھا وہ ایک سنہری دور تھا محلہ والے سب ایک دوسرے کو جانتے تھے دروازہ لاک کرکے اندر بیٹھنے کی روایت ہی نہیں تھی جس کھڑکی پر آکر میرا دوست مجھے پکارتا اُسی کھڑکی کے بلکل سامنے ہی ناصر کاظمی صاحب کی بھی کھڑکی کھلتی تھی تو جب بھی وہ آتا میرا نام پکارتا کاظمی صاحب اپنی کھڑکی کھول کر باہر دیکھتے ایسا کئی بار ہوا تو وہ دوست مجھ سے کہتا کہ تم سے پہلے یہ سامنے والے چچا ونڈو پر آجاتے ہیں تو میں اسے کہتا کہ بھائی شائید اُنہیں کسی کا انتظار ہو ،لڑکپن کا دور تھا ہمیں قطعی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ یہ چچا کتنے بڑے شاعر اور کتنی عظیم ہستی ہیں، اتنا تو اندازہ تھا کہ وہ شاعری کرتے ہیں ہم کبھی کبھار اُنہیں ٹی وی پر بھی دیکھا کرتے تھے اور خاص طور پر محرم کے دنوں میں تو پی ٹی وی والے اُن کو محرم کے اسپیشل پروگراموں میں ضرور مدعو کیا کرتے تھے اور جب کبھی بھی چچا یعنی ناصر کاظمی صاحب سے کھڑکی پر ملاقات ہوتی تو ہم انہیں کہتے انکل ہم نے کل رات آپ کو ٹی وی پر دیکھا تھا اور وہ مسکرا کر رہ جاتے۔ لاہور میں مال روڈ پر ایک خوبصورت سنیما الفلاح ہوا کرتا تھا اس سنیما سے میں اور میرا دوست نعیم فلم العاصفہ دیکھ کر نکلے رات کا تقریباً ایک بجا ہوگا ٹکٹ نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں رات کا شو دیکھنا پڑا تھا کوئی سواری وغیرہ نہ ہونے کی وجہ سے گھر کی طرف پیدل جانا ہی ایک آپشن بچا تھا ہم دونوں نے مال روڈ پر کرشن نگر کی طرف جہاں ہمارا گھر تھا آہستہ آہستہ پیدل چلنا شروع کیا ہر طرف خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا ابھی ہم مال روڈ پر جی پی او کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ یوں لگا جیسے کسی نے ہمیں آواز دی ہو پیچھے مُڑ کر دیکھا تو اپنے پسندیدہ لباس سفید کرتے پاجامہ میں یہ ہمارے کھڑکی والے پڑوسی انکل یعنی ناصر کاظمی صاحب تھے کہنے لگے بیٹا اتنی رات کو آپ لوگ کہاں سے آرہے ہو ہمیں سچ بتانا پڑا کہ ہم فلم دیکھ کر آرہے ہیں پوچھا کیا گھر بتا کر آئے ہو ہم نے کہا جی انہیں معلوم ہے کہ ہمیں دیر ہوگی انہوں نے ہم دونوں کو بہت اچھی اچھی باتیں بتائیں اور نصیحتیں کیں کہ رات کو دیر تک گھر سے باہر رہنا بالکل ٹھیک نہیں وغیرہ وغیرہ بلکل ایک سگے چچا کی طرح مگر میرے ذہن میں یہ سوال اُبھر رہا تھا کہ کاظمی صاحب اس وقت اتنی رات کو کہاں سے آرہے ہیں مگر پوچھنے کی ہمت نہیں تھی سوچا شائید وہ بھی ہماری طرح کوئی فلم وغیرہ دیکھ کر آرہے ہوں گے میرے دوست نے ذرا ہمت کی اور کاظمی صاحب سے کہا انکل آج آپ کو آفس سے نکلتے دیر ہو گئی؟ کہنے لگےنہیں میں ریڈیو اسٹیشن سے آرہا ہوں جہاں مجھے ایک پروگرام میں شرکت کرنی تھی وہیں دیر ہوگئی میں نے کہا ریڈیو اسٹیشن تو آپ کے گھر سے بہت دور ہے کہنے لگے اکثر رات کو جب کبھی بھی دیر ہوجاتی ہے تو میں گھر پیدل ہی جاتا ہوں شام کوکہیں جانا ہو توبس میں چلا جاتا ہوں اسی طرح باتوں باتوں میں وقت کا پتہ ہی نہیں چلا انارکلی کےمقبرے کے پاس سے گزرتے ہوئے ہم کرشن نگر اپنے محلہ میں پہنچ چکے تھے پہلے نعیم کا گھر آگیا تو وہ خداحافظ کرکے بائیں جانب گلی میں اپنے گھر کی طرف مُڑ گیا تھوڑے ہی فاصلہ پر کاظمی صاحب کا اور ہمارا گھر تھا وہ دائیں جانب اپنے دروازے سے جو کھلا ہوا ہی تھا خدا حافظ کہتے ہوئے اندر چلے گئے اور سامنے ہی میں اپنے گھر یہ ہماری زندگی کا ایک خوبصورت ترین اور ناقابل فراموش مختصر سا سفر تھا جو ہم نے کاظمی صاحب کے ساتھ پیدل ہی طے کیا جس رات جو فلم ہم نے دیکھی تھی اس فلم کا توصرف نام ہی یاد ہے فلم میں کیا تھا اسٹوری کیا تھی بلکل یاد نہیں مگراُسی رات ناصرصاحب کےساتھ کیا ہواگھر کی طرف یہ پیدل سفر اوران کی ایک ایک بات میں کبھی بھول نہیں سکتا۔
ناصر کاظمی صاحب کے مطابق وہ ۸ دسمبر ۱۹۲۵ کو انبالہ پنجاب میں پیدا ہوئے۔
۱۹۴۷ وہ اپنے والدین کے ساتھ انبالہ سے اپنے گھر بار چھوڑ کر آگ اورخون کے بھیانک اور دل سوز مناظر سے گزرتےہوئے لاہور پہنچے ترک وطن کرنے کے ساتھ ہی
وہ اپنے بچپن اور لڑکپن کو بھی پیچھے چھوڑ آئے تھے وہ ایک سیدھے سادھے اور نیچرل شخصیت کے مالک تھے شائد اسی لئے انہیں فطرت کے نظاروں سے بہت لگاؤ تھا دریاؤں پہاڑوں قدرتی مناظر حسین وادیوں میں گھومنے پھرنے اور شکار کے شوق کے علاوہ گھڑ سواری دور دراز قصبوں اور دیہاتوں میں گھومنا پھرنا ان کی کمزوری تھا وہ کبوتروں کے بھی بے حد شوقین تھے لاہور میں اپنے گھر کی چھت پر انہوں نے قسم قسم کےبے شمار کبوتر پال رکھے تھے لوگ دوردراز کے علاقوں سے ان کے گھر کبوتر دیکھنے آتے تھے ہم اکثر انہیں شام چار پانچ بجے کچھ دوستوں کے ساتھ کبوتر اُڑاتے کوٹھے پر دیکھتے تھے ایک غول کبوتروں کا اُڑتا تھا اور واپس آجاتا تھا کچھ دیر بعد دوسرا غول اڑتا اور پھر واپس آجاتا یہ سلسلہ گھنٹہ دو گھنٹے چلتا رہتا اور ہم یہ نظارہ اپنی چھت سے دیکھا کرتے تھے اور محظوظ ہوتے یہ لکھتے ہوئےمجھے اس وقت ان کا ایک شعر یاد آرہا ہے:
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اُداسی بال کھولے سو رہی ہے
اتنے خوبصورت جامع انداز اور سیدھے سادہ لفظوں میں انہوں نے اپنے درو دیوار کا جو نقشہ کھینچا ہے کہ بس وہی شخص اس بات کو بخوبی سمجھ سکتا ہے جس نے ان کے گھر کی دیواروں کو دیکھا ہو ان کا گھر ہمارے گھر سے کافی اونچا تھا اور ان کی دیواروں پر نیچے سے اوپر تک سیمنٹ کا پلاسٹر چڑھا ہوا تھا اور ان دیواروں پر کسی قسم کی سفیدی یا رنگ و روغن بلکل نہیں تھا اور جگہ جگہ کریکس پڑے ہوئے تھے یعنی اداسی بال کھولے بڑے مزے سے گہری نیند سو رہی تھی اور شائید اسی اداسی نے ان کے دل پر بھی ڈیرے ڈالے ہوئے تھے انہوں نے زندگی کا بیشتر حصہ بے روز گاری لاپرواہی اورشبِ گردی میں گزارا لیکن وہ بلا کے ذہین خوش اخلاق اور ملنسار آدمی تھے۔
ناصر کاظمی سیدھےسادھےالفاظوں کااستعمال بڑی خوبصورتی سے اپنی شاعری میں کیاکرتے تھے اوراپنی بات اس طرح کہہ جاتے تھے کہ ایک عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا یہی وجہ ہے کہ ہندوستان اورپاکستان کے تقریباً ہر بڑے اور چھوٹے غزل سنگرز نے ان کی لکھی ہوئی غزلیں گائیں اور خوب نام اور مال کمایا جیسے ہندوستان میںغزل سنگر پنکج اداس نے” نئے کپڑے پہن کر جاؤں کہاںاور بال بناؤں کس کے کیلئے” گاکر بڑی دھوم مچائی اور داد وصول کی ، پاکستان میں غزل سنگر غلام علی نے “دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی” ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی۔
اردو ادب میں ان کی خوبصورت معنی خیز شاعری کارنامے اور خدمات کے کیا کہنے بیان کرنے کیلئے شائد ایک پوری کتاب بھی کم پڑجائے ان کی لکھی ہوئی آخری چار کتابیں ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔
۱۹۷۱کی جنگ کی وہ رات مجھےآج بھی اچھی طرح یاد ہے مشرقی پاکستان میں فوج نے ہتھیار ڈال دئیے تھے میں واہگہ بارڈر پر ایک سپاہی کے طور پر اپنی فوج کے ساتھ ڈیوٹی انجام دے رہا تھا وہیں ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان کے بارے میں خبر ملی ہم سب لوگوں پر جیسے بجلی ٹوٹ پڑی ہو سب پر بے حد مایوسی اور اداسی چھائی ہوئی تھی رات کا وقت تھا یہ جنگ کی آخری رات تھی دونوں طرف سے متواتر شدید گولہ باری جاری تھی سنسناتی گولیوں کی آوازیں اور دھماکے یوں لگتا تھا جیسے دونوں فریقین نے آج تہیہ کرلیا ہے کہ آج جتنا بھی اسلحہ بارود اور ایمیونیشن ہے سب کے سب پھونک کر دم لینا ہے آخر کار ہنگامہ خیز رات ڈھل چکی تھی صبح کا سورج طلوع ہوا سیز فائر کے بعدجنگ اپنے اختتام کو پہنچی ہماری تعیناتی بارڈر پر مزید کچھ ہفتہ رہی پھر بہت سے فوجی حضرات اپنے اپنے قصبہ اور گاؤں جانا شروع ہوگئے میں نے بھی ڈسچارج لے لیا اپنے محلہ یا گھر میں کسی کو پتہ نہیں تھا کہ میں واپس آرہا ہوں میں سب کو سرپرائز دینا چاہتا تھالاہور ریلوے اسٹیشن سے میں نے رکشہ لیا تھا اپنی گلی کے نکڑ پر ہی میں رکشہ سے اتر گیا تھاکیونکہ میں خاموشی سے چلتا ہوا گھر پہنچنا چاہتا تھا جیسے ہی میں اپنے گھر کے پاس پہنچا کاظمی صاحب اپنی اسی کھڑکی پر موجود تھے اور باہر ایک شخص کھڑا تھا جس سے وہ باتیں کر رہے تھے انہوں نے جیسے ہی مجھے دیکھا اشارے سے انہوں نے اپنے پاس آنے کو کہا اور پوچھا کیسے ہو میرے فوجی جوان میں نے انہیں بتایا کہ میں نے فوج سے رخصتی لے لی ہے اب میں دوبارہ کالج جوائن کروں گا اور پڑھائی وہیں سے شروع کروں گا جہاں سے منقطع ہوئی تھی مجھے نہیں معلوم تھا کہ ناصر کاظمی صاحب کے ساتھ یہ میری ملاقات آخری ملاقات ثابت ہوگی چند ہی دنوں بعد وہ اس جہاں فانی سے رخصت ہو گئے ۲ مارچ ۱۹۷۲ کا یہ دن مجھے آج بھی یاد ہے سارے محلہ میں ہنگامہ برپا تھا دور دور سے لوگ آرہے تھے کہ کاظمی صاحب کا انتقال ہو گیا یہ بات بعد میں پتہ چلی کہ انہیں پیٹ کا کینسر تھا شائید اسی وجہ سے وہ دبلے پتلے تھے اس سانحہ کے کچھ ہی دنوں بعد روزمرہ کی زندگی معمول پر آگئی اسی طرح میرا دوست مجھے پکارتا ہوا آتا لیکن کاظمی صاحب کھڑکی پر نہ آتے وہ کھڑکی پھر کبھی نہ کھلی۔
اردو ادب میں ان کی خوبصورت معنی خیز شاعری کارنامے اور خدمات کے کیا کہنے بیان کرنے کیلئے شائدایک پوری کتاب بھی کم پڑجائے ان کی لکھی ہوئی آخری چار کتابیں ان کی وفات کے بعد منظرعام پر آئیں۔میرے من پسند اُن کے کچھ اشعار۔
آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں
اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
مجھے یہ ڈر ہے تری آرزو نہ مٹ جائے
بہت دنوں سے طبیعت مری اداس نہیں
نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے