*معاصر اردو ادب کی زبوں حالی*

*ڈاکٹر سیّد احمد قادری*
گیا ( بہار، انڈیا)

معاصر اردو ادب کے گرتے معیار کے سلسلے میں اس وقت ادبی حلقوں سے مایوسی کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ معاصر ادب سے تیزی سے معدوم ہوتے معیار نے سنجیدہ ادبی لوگوں کو زیادہ تشویش میں مبتلأ کئے ہوئے ہے ۔افسوسناک پہلو یہ ہے کہ معیاری اردو ادب کی جہاں تریج و اشاعت ہوا کرتی ہے یعنی اردو بان و ادب سے تعلق رکھنے والی درسگاہیں ، وہاں بھی اس تعلق سے کوئی تشویش یا سنجیدگی کا اظہار نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ جیسی جیسی ان درسگاہوں سے خبریں نکل کر آ رہی ہیں وہاں کچھ زیادہ اردو ادب صارفیت کا شکار ہے ۔ اس حوالے سے میرے علم میں کئی ایسے مضامین ہیں ،جو ان درسگاہوں کے پول کھولتے نظر آ رہے ہیں ۔ ملک کی مختلف اکاڈمیاں اور دیگر ادارے بھی ان دنوں جیسے جیسے غیر معیاری مسودات اور نصابی ضرورتوں کے تحت ٹھیکہ پر لکھاوائی اور شائع کرائی جا رہی ہیں اور ان کتابوں کو، ذاتی تعلقات اور پیروی پر مالی معاونت اور انعامات سے نواز رہی ہیں۔ اس سے معاصر ادب کا جو حال ہونا تھا ، وہ سامنے ہے ۔ معاصر ادب کی صورت حال کا جائزہ لینے سے قبل یہ جان لینا ضروری ہے کہ دراصل ادب ہے کیا؟
یوں تو ادب کے سلسلے میں بہت ساری تعریفیں اور تشریحات سامنے آچکی ہیں۔لیکن میرے خیال میں اس سوال کا مختصر جواب یہ ہوسکتا ہے کہ ادب ماضی، حال اور مستقبل کا وہ آئینہ ہے، جس میں ہماری زندگی کے مختلف جہات کے واضح عکس منعکس ہوتے ہیں ۔ اب اس ایک جملے کو جس قدر چاہیں پھیلا لیں ، لیکن گھوم پھر کر محور یہی رہے گا۔ اس کے بعد یہ سوال فطری طور پر اٹھ سکتا ہے کہ ادب کی ضرورت کیا ہے؟ اس کے جواب میں بھی مختصرطور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادب جو کام کرتا ہے، وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکتا ۔ ہم نے سمندر کی گہرائی سے لے کر آسمان کی وسعتوں تک کو اپنا تابع بنا لیا ہے ، لیکن وقت کو اپنی گرفت میں نہیں لے سکے اور یہ ادب ہی ہے جو وقت اور زمانے کو اپنے دامن میں قید رکھنے کی بھرپور قوت رکھتا ہے۔ ادب ماضی حال اور مستقبل کے حیات و کائنات کو تمام تر جزئیات اور کیفیات کے ساتھ زندہ رکھنے کا متحمل ہے۔ جس کی ضرورت کل بھی تھی ، آج بھی ہے اور کل بھی بہرحال ہوگی۔
اب ہم معاصر اردو ادب کا حال جاننے سے قبل ایک نگاہ معیاری ادب پربھی ڈالتے چلیں تو دیکھیں گے کہ معیاری ادب ہمیشہ معاشرتی بحران اور مسائل کے بطن سے وجود میں آیا ہے۔ شعر و ادب وہی شاہکار اور کلاسک بنے ہیں ، جن میں اپنے عہد اور زمانے کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، معاشرتی، تہذیبی، اخلاقی، تاریخی اور ثقافتی مسائل، بحران اور انتشار کو موضوع بنایا گیا ہے۔ پہلی اور دوسری عالمی جنگ اور تقسیم ہند کے اثرات اور حالات کے اظہار نے اردو کے معیاری ادب میں قابل قدر اضافہ کیا ہے۔ اسپین کے مشہور ادیب مینڈوز نے ایک جگہ لکھا ہے کہ’ سماجی تبدیلیوں کے حوالے سے ملک ایک بحران میں مبتلا ہے اور یہ وقت ایک مصنف کے لئے بہترین تخلیقی لمحہ ہے۔
اب جہاں تک معاصر اردو ادب کا تعلق ہے ، تو اس ضمن میں کئی جانب سے مایوسیوں کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان مایوسیوں نے گزشتہ پچیس تیس برسوں سے شدّت اختیار کر لی ہے۔
اب ہم سب سے پہلے اردو ادب کی بہت ہی اہم صنف شاعری کومعاصرانہ حدود میں دیکھنے کو کشش کرتے ہیں کہ اردو شاعری نت نئے تجربات و احساسات سے گزرتی ہوئی ، آج افکار و اظہار کی وہ ایک مضبوط، مقبول اور لطیف صنفِ شاعری نہیں رہی ۔ شاعری میں فکری آگہی ، فنّی نزاکت ، ندرتِ اسلوب اور الفاظ کے مزاج و معنیٰ کے برتنے کی جو کارفرمائیاں پہلے دیکھنے کو ملتی تھیں اور معمولی موضوع کو بھی غیر معمولی اور تہہ دار بنانے کا جو شعری کارفرمائی ہوتی تھی ،نیز اعلیٰ تخلیقی یافت کی جو ضمانت ہوا کرتی تھی وہ تمام عوامل عصری شاعری میں موجود نہیںہیں ۔بلکہ اس صنف میں عصری حسّیت، عصری مزاج اورعصری تقاضے کا پرتو بھی کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ چنانچہ موجودہ عہد کا یہ تقاضہ ہے کہ جدید شعراء اور جدید شعری منظر نامے پر تنقیدی اظہار خیال کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شعری سرمائے کی تفہیم و تعبیر کے سامان بھی فراہم ہوں۔ اس کے لئے عصری تقاضوں کو سامنے رکھ کر نفسیاتی تحلیل و تجزیے کئے جائیں ،تاکہ نئے جہان معنی و مطالب سے ایک نیا منظر نامہ سامنے آسکے۔
ان دنوں دبی دبی زبان میں اس امر کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ عصر حاضر میں ادب پر جمود طاری ہے اور عہد حاضر کے شعراء فکرو فن کی اس بلندی تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں ،جو میرؔ، غالبؔ،اقبالؔ ، مومن ؔ،اختر ؔشیرانی، فراقؔ و فیضؔ اور جوشؔ وغیرہ کے شعری تخلیقات سے متعین ہوتی ہیں۔اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ عہد حاضر میں چونکہ کوئی بڑی تحریک پیش نظر نہیں ہے، اس لئے شاعری اس مرتبہ اور معیار سے دور ہے۔ادب میں جمود کے حوالے سے اب سے دو دہائی قبل معروف نقاد پروفیسر عبد المغنی سے میں نے ایک سوال (انٹرویو) ’کیا اردو ادب میں واقعی جمود طاری ہے؟ ‘ پوچھا تھا ۔ جس کے جواب میںانھوں نے کہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ میرا خیال ہے کہ جمود سے زیادہ انتشار ہے۔ آج اردو کی جتنی کتابیں شائع ہو رہی ہیں اور رسالے نکل رہے ہیں، پہلے کبھی نہ اتنی کتابیں شائع ہوتی تھیں اور نہ رسالے نکلتے تھے۔ لیکن اوّل تو کتابوں کا معیار گرتا جا رہا ہے، دوسرے رسالوں کی صحافت بہت غیر معیاری ہو گئی ہے۔ آج کے مصنفین اور مدیران نہ تو عالم ہیں اور نہ ادیب۔ سبھی ذاتی مفاد ، گروہ بندی اور اشتہار بازی کے لئے کتابیں شائع کرتے ہیں اور رسالے بھی ۔ اس صورت حال کو انتشار کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے اور اگر دوسرا لفظ استعمال کیا جائے تو زوال ہے ‘‘
( مکالمہ۔ سید احمد قادری، صفحہ: 16۔17)
پروفیسر عبدالمغنی کی دو دہائی قبل کہی گئی یہ بات عصری منظر نامہ میں کس قدر کڑوی سچائی بن کر سامنے ہے ۔ اس کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان دو دہائیوں میں اردو ادب زیادہ زوال پزیر ہے ۔
نئی دہلی سے شائع ہونے والا ماہنامہ ’کتاب نما‘ کے فروری 2009ء کے شمارہ کے اداریہ میںبھی اسی زوال کی بات کرتے ہوئے محمدمحفوظ عالم نے لکھا تھا ۔۔۔
’’ تحقیق اور تنقید دونوں سطح پر زوال کے آثار نمایاں ہیں‘‘
کچھ اسی طرح کی شکایت ماہنامہ ’آجکل‘ کے مدیر ڈاکٹر ابراررحمانی بھی اپنے کئی اداریوں میں کر چکے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ معاصر ادب کو بے وقعت اور بے سمت بنانے میں ہمارے ناقدین ادب زیادہ ذمّہ دار ہیں۔ بقول معروف افسانہ نگار اور صحافی کلام حیدری ، ’ہمارے آج کے ناقدین ادب نے ادب کو صولی پر چڑھانے کا زیادہ کام کیا ہے۔ ‘ شمس الرحمٰن فاروقی جو بذات خود ایک بڑے نقاد تھے ۔ انھوں نے اس امر کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا تھا کہ
ہند و پاک دونوں طرف کے تنقیدنگار اپنے پسندیدہ ادیبوں کے گروہ رکھتے ہیں اور ان سے باہر نکلنا وہ پسند نہیں کرتے ‘‘ ۔ اس رائے کے بعد خود شمس الرحمٰن فاروقی سوالات کے گھیرے میں آ جاتے ہیں کہ آپ نے اس گروہ کو توڑنے کی کس حد تک کوشش کی؟ شمس الرحمٰن فاروقی کو ایسے ’صاحب تصنیف‘ سے بھی چڑھ تھی جو ’’ دس پانچ افسانوں یا منظومات پر مشتمل مجموعہ چھپوا کر صاحب تصنیف بن بیٹھے اور پھر ہر کس و ناکس سے توقع اور تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر توصیفی مضمون لکھے ‘‘ ۔ان جملوں کے بعد اگر شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریروں پر ایک اچٹتی نگاہ بھی ڈالی جائے تو اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے دور امامت(جدیدیت) میں کیسے کیسے اپنے مبتدیوں کو بانس پر چڑھانے کی کوشش کی ہے ۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدیدیت کے نام پر معمّہ جیسے اردو افسانے، ادب سے تقریباََ خارج کر دئے گئے اور اس کے بعد شمس الرحمٰن فاروقی نے فرمایا تھا کہ’ اردو افسانہ مر چکا ہے اور ایسے افسانوں کے ساتھ ساتھ ان افسانہ نگاروں کو بھی دفن کر دو۔
معاصر ادب کے حسن و معیار کو مجروح کرنے میں نام نہادتخلیق کاروں سے زیادہ ہمارے ناقدین ادب نے زیادہ منفی رول ادا کیا ہے ، اس سے وہ انکار نہیں کر سکتے ہیں ۔ یاد کیجئے وہ زمانہ جب ایک دولت مند شاعر نے کچھ نقادوں کو ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں شراب اور کباب سے بد مست کر دیا تھا ،تب شراب اور کباب کا ڈکار لیتے ہوئے ان نقادوں نے اس شاعر کو ٹیگور سے بھی بڑا فنکار قرار دیا تھا ۔لیکن جب اس شاعر کی دولت پر گہن لگ گیا تو وہ شاعربیچارہ ان نقادوں کی نگاہ میں بے وقعت ہو کر رہ گیا ۔ یہ تھا ہمارے نقادوں کا ادب کے تئیں رویۂ۔ آج اس سے بھی زیادہ بری حالت ہے، آج کے ایسے نقاد، سیمینار ہا ل اور اردو رسائل وغیرہ میںجس طرح تعریف و توصیف میں مبتلا ہیں ، اس سے بہرحال معاصر ادب پر نہ صرف منفی اثر ت مرتب ہو رہے ہیں بلکہ اردو ادب کا مستقبل تاریکوں میں ڈوبتا جا رہاہے ۔ نقادوں کے ایسے ہی رویۂ سے متنفر ہو کر معروف شاعر اور صحافی حسن کمال ( ممبئی )کہتے نظر آتے ہیں کہ
’ ’ گروہ بندی ،جوڑ توڑ من ترا حاجی بگوئم اور اسی قسم کے دوسرے سیاسی رجحانات آج ادب میں پوری طرح جلوہ گر نظر آتے ہیں.(آئینہ۔ صفحہ: 100)
حسن کمال سے قبل معروف افسانہ نگار اور صحافی کلام حیدری نے ماہنامہ ’کتاب نما ‘( دسمبر 1988ء ) کے شمارہ میں مہمان مدیر کی حیثیت سے ’ روئیے زار زار اور کیجیے ہائے ہائے‘ کے زیر عنوان جو کچھ لکھا تھا، اس کا ایک ایک حرف معنویت سے بھرا ہوا ہے ، جنھیں سمجھنے یا پھر انھیں ڈی کوڈ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ اقتباس دیکھئے
’’ تخلیق کی تمازت خالق کو راس آ سکتی ہے، مگر نقاد تو ’ایئرکنڈیشنڈ‘ میں ہی فربہ ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ ہماری تنقید بھی موٹی ہونے لگی اور ’موٹی عقل‘ کی Monopoly ہو گئی ۔ تیز رفتاری کے ساتھ یونیورسیٹیاں کھلیں ، اردو کے شعبے کھلے۔ لکچرر، لکچرر رہنے پر قناعت کر ہی نہیں سکتا ، چنانچہ وہ ڈی لٹ ہو گیا اور پی ایچ ڈی گر ہو گیا ۔ ہندوستان صنعتی ہونے کی جانب مائل ہوا تو اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں بھی صنعت و حرفت قرار پائیں ۔ اس فرق کے ساتھ کہ صنعت غائب ، صرف حرفت رہ گئی ‘‘ ۔
اردو ادب میں انحطاط، زبوں حالی یازوال ، جو کہہ لیجیے ، یہیں سے شروع ہوئی ہے، جس کی جانب کلام حیدری نے معنی خیز انداز میں اشارہ کیا ہے، جو بڑھتے بڑھتے اس سطح تک پہنچ گئی کہ بقول اشفاق انجم۔
’’ شعری مجموعوں کا سیلاب سا امڈ آیاہے۔ دو چار برس کی شعری عمر رکھنے والا بھی اپنی بغل میں ایک مجموعہ ٔ کلام دبائے پھر رہا ہے ۔اکثر مجموعے عیوب و نقائص کا پلندہ نظر آتے ہیں ۔
کل ہند مشاعروں میں پھول اور روپئے لٹانے کا منظر بھی اہل اردو کے لئے مرقع عبرت ہوتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے ہم کسی کوٹھے یا قوّالی کی مجلس میں آ پھنسے ہیں ۔ کچھ نامور ناقدین نے پیش لفظ لکھنا اپنا پیشہ بنا لیا ہے اور ہزاروں کما رہے ہیں ۔‘‘
( اردو بک ریویو، اکتوبر۔دسمبر 2014ء، صفحہ: 8)
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاصر ادب کے روح رواں اس بات کو قطئی فراموش کر گئے کہ ہمیشہ سے سماجی، سیاسی ، معاشرتی، تہذیبی اور ثقافتی تعمیر و تشکیل میں ادب اور ادیب کی اہمیت اور افادیت تسلیم کی گئی ہے۔ لیکن ہمارے آج کے ادیب و شاعر نے اپنی انا ، خود داری ، ضمیر اور وقار و عظمت کو مادّی ضرورتوں اور وقتی شہرت ، نام و نموداور انعام و اکرام کے حصول کے لئے ادب کے اعلیٰ مرتبہ و مقاصد کو حرص و ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ جس کی وجہ کر معاصر ادب عامیانہ، سطحی ، بے وقعت اور غیر معیاری ہو کر رہ گیاہے۔ ایسے منفی حالات سے متنفر ہو کر کبھی دھیمے اور کبھی تیز سُروں میں احتجاج کی بازگشت سنائی دیتی رہتی ہے۔ ماہنامہ ’ کتاب نما ‘( دہلی) میں ہی زبیر رضوی نے ’ توتے نہیں اڑے ‘ کے زیر عنوان اپنے ایک مضمون کی ابتدأ یوں کی تھی۔۔۔۔۔۔
’’ کتاب نما ‘‘کے پچھلے اداریوں کے کچھ جملے یہ ہیں :
’’ مجھے ان لوگوں سے چڑھ ہے جو دس پانچ افسانوں یا منظومات پر مشتمل مجموعہ چھپوا کر صاحب تصنیف بن بیٹھے ہیں اور پھر ہر کس و ناکس سے توقع اور تقاضا کرتے ہیں کہ ان پر توصیفی مضمون لکھے ‘‘ ( شمس الرحمٰن فاروقی )
’’ ہمارے آج کے بیشتر ادیب خواہ بوڑھے ہوں، ادھیڑ ہوںیا پھر جوان، سب کے سب خود غرضی ، نمایشی، ، خود پرستی، منافقت، احساس کمتری، مصلحت پسندی اور گروہ بندی جیسی لعنتوں کا شکار ہو چکے ہیں۔ ‘‘ (فضیل جعفری)
’’ ادب کے ان ہی مجاوروں کی بدولت اردو اکادمیوں اور سرکاری اداروں کا کام صرف مال غنیمت کی بندر بانٹ یعنی اعزازات اور نوازشات کی تقسیم باہمی ہو کر رہ گیا ہے ۔ ‘‘
( ظفر پیامی)
ان چند اقتباسات کے بعد تجزیاتی عمل سے گزرتے ہوئے زبیر رضوی آخر میں لکھتے ہیں ۔
’’ اب موڑ وہ آ گیا ہے جب ہمیں ان لوگوں کو نام بنام سر عام Expose کرناچاہیے جو اردو کے پورے منظر نامے کو دھندلا اور مٹ میلا کرنے کی شعوری کوشش میںلگے ہوئے ہیں ۔ ادبی سیاست میں گندہ کھیل کھلینے والوں کی سرزنش ضروری ہے۔ انھیں رسالوں ، محفلوں جلسوں اور ادبی تقاریب میں انگلی اٹھا کر شرمسار ہونے پر مجبور کرنا چاہیے۔
(کتاب نما۔ دسمبر1988ء، صفحہ: 38)
مشہور نقادڈاکٹر قمر رئیس نے بڑی خوبصورتی سے سیمینار باز اردو اساتذہ کرام کے سلسلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا تھاکہ ۔
’’ اساتذہ کرام اردو خواہ تمام سال درس و تدریس سے دامن کش رہیں، لیکن مزاکروں کی گرمیٔ گفتار انھیں کھینچ لاتی ہے۔تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ سمیناروں اور کانفرنسوں سے کم از کم اردو ادب کا کوئی مسٔلہ حل نہیں ہوتا بلکہ دو چار مسٔلوں کا اضافہ ہی ہو جاتا ہے ۔‘‘
( کتاب نما۔ فروری 2015 ء)
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ بعض جرأت مند نوجوان قلمکار ستائش کی تمنّا، نہ صلہ کی پرواہ کئے معاصر اردو ادب کے ناگفتہ بہہ حالات اور ایسے حالات کے مرتکب لوگوں کو Exposeکرنے کا حوصلہ دکھا رہے ہیں۔ مشہور صحافی زین شمسی نے دہلی میں منعقدہ کئی سیمیناروں کا حال زاردیکھ کر روزنامہ’ ’روزنامہ خبریں ‘‘ میں ’’ سمیناروں اور مشاعروں کے طوفان نے اردو کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ،اردو اداروں پر چند لوگوں کا قبضہ ‘‘ کے تحت 23؍دسمبر2014ء کے شمارہ میں جو کچھ لکھا ہے، وہ نام نہاد ادیب وشاعر کے لئے ایک تازیانہ ہے۔’’ ریختہ‘‘ کے سائٹ سے منسلک رہے زمرد مغل نے دو قدم آگے بڑھ کر ایسے نقالوں (نقادوں) کو آئینہ دکھایا ہے۔ معروف نقاد حقانی ا لقاسمی نے اپنی تنقیدی کتاب ’’ادب کولاژ‘ ‘ میں گزشتہ دس سال کے اردو ادب کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے ۔
’’ پچھلے دس برسوں میں ہندوستان میں یہ ہوا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا کہ جسے سنگ میل ، شان منزل یا یادگار کہا جا سکے ۔ ہاں اس دہائی کو Decade of Decline قرار دیا جا سکتا ہے کہ ادبی جہاں میں قلب و نظر کی مہجوری عام رہی۔ زوال و بحران کا تسلط رہا ۔ اس دہائی میں دیکھنے کو صرف یہ ملا کہ اطاعت کی دہلیز پہ دست بستہ بالشتیوں کو بلندی کی ہی خلعت عطا کی گئی ۔‘‘( ادب کولاژ، صفحہ: 357)
حقانی القاسمی کے بعد ایک دوسرے نوجوان نقاد اور شاعر عاصم شہنواز شبلی نے بھی رسالہ ’ سہیل ‘ کے علی سردار جعفری نمبر میں’ ’عرض مدیر‘ ‘کے تحت جو کچھ لکھا ہے، اس کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عاصم شہنواز شبلی نے بڑی بے باکی سے ادب کے مافیایوں کے چہرے پر سے نقاب کشائی کی سعی کی ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ ان کے ابتدائی جملوں ۔’’ موجودہ عہد میں ہر شئے کو صارفی اور اقتصادی نقطۂ نظر سے دیکھا جا رہا ہے ۔ جس کے نتیجے میں ہر چیز تجارتی اور بکاؤ ہو گئی ہے۔ رشتوں کے تقدس ، جذبات و احساسات اور خواب و خواہشات سب کہرے کی دھند میں چھپے ہوئے ہیں ۔ ہر جگہ لین دین کا عمل جاری ہے ۔ شعر و ادب اور فنون و لطیفہ بھی اس سے مستثنٰی نہیں رہے ہیں ۔ سے لے کر آخری حصّہ تک نقل کر دوں ، لیکن احساس طوالت سدّ راہ ہے۔ اس لئے’ ’عرض مدیر ‘‘ کے اس اقتباس پر اکتفأ کر رہا ہوں ، جس میں انھوں نے ایسے نام نہاد ادیبوں ،شاعروں اور سیمینارباز نقادوں کی جانب انگشت نمائی کی ہے ، جو معاصر ادب کو بازاری اور غیر معیاری بنا کر شعر و ادب کا چہرہ نہ صرف مسخ کر رہے ہیں ، بلکہ اس کے تقدس اور اس کی حرمت کو بھی پامال کر رہے ہیں ۔ عاصم شہنواز شبلی لکھتے ہیں ۔
’’ اس لئے اب بہت ضروری ہو گیا ہے کہ سنجیدہ اور متین اور باشعور و با صلاحیت قلم کاروں کو ادب کے تحفظ کے لئے سرگرم عمل ہونا ہوگا اور معیارو وقارکے ساتھ خود ساختہ عظمت کے مظاہر اور تخلیقی فکر و عمل سے نا آگاہ اچھل کود کرنے والوں کے خلاف اپنے قلم کو استعمال کرنا ہوگا، تب ہی انھیں ان کا وہ حق حاصل ہو سکے گا جس کے وہ مستحق ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم فن کار متحد ہو کر اس مسئلے پر غور کریںتاکہ شعر و ادب کا چہرہ مسخ نہ ہونے پائے اور سچّا تخلیق کار بد دل ہو کر راہ فرار نہ اختیار کر لے۔
( رسالہ’ ’سہیل‘‘ علی سردارجعفری نمبر ، صفحہ: 6)
حقیت یہ ہے کہ معاصر ادب اس وقت جس انتشار, زوال ، انحطاط اور بے سمتی کا شکار ہے اور اس ضمن میں جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے ، وہ یقینی طور پر لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے سدّ باب کے لئے با ضمیر ، با وقار، ہوشمنداور سنجیدہ قلمکاروں کو میدان عمل میں متحرک ہو کر ان بد اعمالیوں کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ضرورت ہے ، ورنہ ادبی و لسانی تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔