ساقی نامہ
درمبارکباد شاہد احمد دہلوی، مدیر ’ساقی‘

ڈاکٹر سید فیضان حسن

دہلی (انڈیا) اور کراچی (پاکستان) کے مشہور و معروف ادبی رسالے ماہنامہ ’ساقی‘ کے مدیر اور نامور ادیب شاہد احمد دہلوی اور ان کی چھوٹی ہمشیرہ بشریٰ زمانی بیگم کی شادی کے موقع پر دہلی (منقسم ہندوستان) کے معروف نثر نگار اور قادر الکلام شاعر ناصر نذیر فراقؔ دہلوی(1865ء۔1933ء) نے 27 جنوری 1922 کو بطور مبارکباد 65؍ اشعار پر مشتمل ایک ساقی نامہ نظم کیا تھا۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
بشیر احمدِ صاحبِ علم و فن نظر
کردۂ شہر یارِ دکن
خدا نے یہ ان کو دکھایا ہے دن
کہ دو شادیاں ساتھ لایا ہے دن
جو بیٹی کی رخصت تو بیٹے کا بیاہ
جو ارمان اس کا تو ہے اس کی چاہ
بی بشریٰ زمانی خجستہ سیرسدھاریں
بِدا ہوکے وہ اپنے گھر
ہوا فرض بیٹی کا جب یہ ادا
تو بیٹے کو اپنے کیا کتخدا
وہ نورِ نظر قرّۃالعین ہے وہ
ماں باپ کی جان کا چین ہے
عجب شاہدِ احمد ہوا اس کا نام
پڑھے سن کے ہر اک درود و سلام
بنا شاہد احمد وہ دولہا پری ہوئے
جس پہ صدقے مہ و مشتری
ساقی نامے کے آخری شعر سے بیاہ کا مادۂ تاریخ حاصل کیا ؎
فراقؔ اس کی تاریخ بے فکر و طیش
کہی میں نے ’’تقریب آرام و عیش‘‘
دراصل شاہد احمد دہلوی کے والد مولوی بشیر الدین (بن ڈپٹی نذیر احمد) کے فراقؔ دہلوی سے بڑے گہرے مراسم تھے۔ اسی تعلق کی بنا پر انھوں نے اپنے رفیق کی خوشی اور غم کے علاوہ ان کی متعدد تصانیف پر بھی قطعاتِ تاریخ انشا کئے ہیں۔ ان کے انتقال پر بھی قطعۂ تاریخ کہہ کر حق دوستی ادا کیا۔
27؍جنوری 1922ء کو جب سولہ سال کی عمر میں شاہد احمد دہلوی کی شادی ہوئی تو فراقؔ دہلوی ان سے متعارف نہیں تھے اور انہیں کیا معلوم تھا کہ اپنے بے حد قریبی دوست کے جس فرزند ارجمند کی شادی کا انھوں نے ساقی نامہ نظم کیا ہے وہ بعد ازاں ان کی نثری اور شعری نگارشات کو حسنِ طباعت سے آراستہ کرے گا۔ فراقؔ دہلوی سے شاہد احمد دہلوی کے باقاعدہ مراسم اس وقت قائم ہوئے جب انھوں نے اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنا ایک ادبی رسالہ ’ساقی‘ جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ فراقؔ دہلوی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے رسالے کے لئے مضامین اور افسانے لکھنے کی درخواست کی۔ اپنی اس پہلی ملاقات سے متعلق شاہد احمد دہلوی ’نقوش (لاہور) کے شخصیات نمبر (ص 526) میں رقمطراز ہیں:
’’نومبر 1929ء میںمجھے ان (فراقؔ دہلوی) کے ہاں جانے کا پہلا اتفاق ہوا۔ پتہ پوچھتا پوچھتا ان کے گھر پہنچا۔ کُنڈی کھٹکھٹائی، غالباً کہیں قریب تھے، خود ہی دروازے میں آگئے۔ مجھے جانتے نہ تھے۔ پوچھا ’’کون ہو بھائی؟‘‘ میں نے اپنا نام بتایا، کوئی اثر نہ ہوا۔ باپ کا نام بتایا بے قرار ہو کر سینے سے لگا لیا۔ برابر والی مردانی بیٹھک میں لے جا کر بٹھایا۔ بولے ’’تم تو بھتیجے ہو۔ تمہارے ابّا سگے بھائیوں سے زیادہ سمجھتے تھے۔ ہائے! اب وہ اگلی سی وضع داریاں کہاں؟ اچھا بتاؤ گھر میں تو سب خیریت ہے؟ آج تم کیسے آئے؟‘‘ میں نے کہا ’’ایک ادبی ماہنامہ دلّی سے جاری کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘ پوچھا ’’نام کیا رکھا ہے؟‘‘ میں نے کہا ’’ساقی‘‘۔ خوش ہو کر بولے۔ ’’اچھا نام ہے۔ بدہ ساقی مے باقی کہ در جنت نہ خواہی یافت۔‘‘ بیسیوں شعر ساقی کے سنا ڈالے۔ ’’ہاں بھئی، ساقی کے لئے ضرور لکھوں گا۔ بھتیجے کے لئے ضرور لکھوں گا۔ نثر بھی اور نظم بھی۔‘‘
اپنی دوسری ملاقات کے بارے میں شاہد احمد دہلوی، فراقؔ دہلوی کی تصنیف ’’چارچاند‘‘ کے دیباچے (ص 7) میں لکھتے ہیں کہ جب ’ساقی‘ جاری ہوا تو میں ان کی خدمت میں پھر حاضر ہوا اور عرض کیا:
’’ میں ایک سلسلہ اہلِ زبان کی تصنیف و تالیف کا کتابی صورت میں بھی شروع کرنا چاہتا ہوں جس سے شائق فیضیاب ہوں اور اس بارے میں سب سے پہلے آپ کو مخاطب کرتا ہوں۔ اپنے کشکول میں سے کچھ تبرک عنایت فرمائیے۔‘‘ فراقؔ صاحب نے جواب دیا کہ ’’جو کچھ سرمایہ میرے پاس ہے، میں تم سے دریغ نہ کروں گا اور کشکول کی جو آپ کہتے ہیں تو فقیر کے ہاں بہت سے کشکول ہیں۔ کشکولِ شریعت، کشکولِ طریقت، کشکولِ حکمت، کشکولِ راز و نیاز، کشکولِ سوز و ساز اور ہر کشکول میں صدہا انشا کے طلسم اور ہر طلسم میں ہزار در ہزار علم ہیں۔ اگر آپ کو اسی کی ہٹ ہے تو میں بھی دل آزاری کرنی نہیں چاہتا۔ یہ چار مضامین کا مجموعہ (چار چاند) لے جائیے اور اپنا دل بہلائیے۔ یہ مضامین مقبول ہوگئے تو پھر ’کنگھی چوٹی‘ ہے، ’بناؤ سنگھار‘ ہے، ’کوچۂ دلدار‘ ہے، ’فقیر شہر یار‘ ہے، ’سیرو سفر‘ ہے۔ انہیں بھی چھپوانا اور فراقؔ کا تماشا دکھانا۔‘‘
مذکورہ دیباچے میں شاہد احمد دہلوی مزید لکھتے ہیں کہ فراقؔ دہلوی کی تصنیف ’’چار چاند‘‘ کی اشاعت سلسلۂ ’ساقی‘ کی پہلی کڑی ہے۔ گویا ’ساقی‘ کی اشاعت کا سلسلہ فراقؔ دہلوی کی تصنیف ’’چار چاند‘‘ سے ہی شروع ہوا تھا۔ علاوہ ازیں فراقؔ دہلوی کی ایک اور اہم تصنیف ’’لال قلعہ کی ایک جھلک‘‘ بھی شاہد احمد دہلوی نے ہی شائع کی تھی۔ فراقؔ دہلوی سے شاہد احمد دہلوی کے مراسم ان کے آخری عمر تک قائم رہے۔ فالج کی وجہ سے فراقؔ دہلوی کے جسم میں رعشہ تھا اور نقل و حرکت نہیں کر سکتے تھے۔ شاہد احمد دہلویؔ ان کی زندگی کے آخری دنوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’آخری بار ان سے ملا تو پردہ کروا کر اندر گھر میں بلوا لیا۔ ایک جھلنگے میں لحاف اوڑھے پڑے تھے۔ ان کے صاحبزادے خلیق فگارؔ بہت پریشان تھے۔ فراقؔ صاحب کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ بولے ’’لو بھئی شاہد میاں، چلنے کا وقت آپہنچا ؎
ساقیاں یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
بھئی ننھے، ہمارے مرنے کی خبر ان کو ضرور دینا۔‘‘ میرا دل بھر آیا۔ منہ سے کچھ نہ کہہ سکا۔ ان سے مصافحہ کرکے باہر چلا آیا۔ فگارؔ صاحب نے بتایا ’’ابّا کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ کوئی دم کے مہمان ہیں۔‘‘
(نقوش (لاہور)، شخصیات نمبر (ص526)
آخر اردو کا یہ بے لوث خادم (فراقؔ دہلوی) دو سال فالج میں مبتلا رہ کر 18؍فروری 1933ء (شوال 1351ھ) کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گیا۔ دہلی گیٹ کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔ شاہد احمد دہلوی نے ان کو ’ساقی‘ کا سرپرست کہا ہے۔ ان کے انتقال پر شاہد احمد دہلویؔ نے اپنے رسالے ’ساقی‘ میں بے حد مؤثر الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
’’دہلی کے باکمال انشا پرداز اور ’ساقی‘ کے سرپرست حضرت ناصر نذیر فراقؔ، جانشینِ حضرت خواجہ میر درد،ؔ کے انتقال پُرملال کی خبر سنی۔ اردو لٹریچر کے مُربی فراقؔ کے اٹھ جانے پر ہم جس قدر بھی غم کریں تھوڑا ہے۔ شاہی کے لُٹتے ہی اجڑے دیار کے گلبنِ ادب پر خزاں کا منحوس سایہ چھا گیا تھا لیکن بچے کھچے پکھیرو اپنے میٹھے بول مدھم سروں میں سناتے رہے اور اس طرح اہلِ دل کے لئے کمیت و کیفیت کے اسباب فراہم کرتے رہے۔ لیکن موت کا ظالم صیاد گھات میں لگا رہا اور فتہ رفتہ ان کے سمع نواز چہچہوں میں کمی آنے لگی۔ یہاں تک کے خزاں رسیدہ چمنستانِ ادب کی مکدر فضا میں کبھی کبھی ایک دل تڑپا دینے والا نالۂ فراق گونج اٹھتا تھا۔ واحسرتا! کہ یہ مرہمِ جراحتِ دل بھی کافور ہوا۔ داغِ فراقؔ کے ساتھ ساتھ دورِ خزاں کی المناکی پایۂ تکمیل کو پہنچ گئی۔ اس سونے چمن کے بھیانک سنّاٹے میں اب مضمحل چہچہے، دُکھ کے بول، دبی ہوئی آہیں، غم کی سسکیاں اور درد کی چند سُبکیاں سنائی دیتی ہیں اور بس ؎
پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ
افسوس تم کو میرؔ سے صحبت نہیں رہی‘‘
(ساقی (ظریف نمبر)، اپریل1933ء)
فراقؔ دہلوی کے صاحبزادے ناصر خلیق بھی شاعر تھے اور فگارؔ تخلص تھا۔ ہندوستان کی تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ (اگر پاکستان میں کوئی صاحب ناصر خلیق فگارؔ یا ان کے خاندان سے واقف ہیں تو راقم الحروف کو اس بارے میں ضرورت اطلاع فراہم کریں۔ بے حد ممنون ہوں گا۔)
شاہد احمد دہلوی ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان (کراچی) ہجرت کر گئے تھے۔ انھوں نے وہاں بھی آخری عمر تک ’ساقی‘ کو جاری رکھا۔ ان کا انتقال 27؍مئی 1967ء کو کراچی (پاکستان) میں ہوا۔
مذکورہ ’ساقی نامہ‘ کے خالق ناصر نذیر فراقؔ دہلوی (1865ء 1933—ء) عہد داغؔ کے مشہور و معروف نثر نگار اور صاحبِ دیوان قادرالکلام شاعر تھے۔ اردو اور فارسی ہردو میں فکر سخن کرتے تھے۔ موصوف نے تقریباً سب ہی مروجہ اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے غزلوں کے علاوہ مثنویاں، مرثیے، رباعیات، واسوخت، قطعات، سلام، سہرے بھی تخلیق کئے ہیں۔ قطعاتِ تاریخ، تضمین اور ساقی نامہ بھی ان کے دیوان کے مخطوطے کی زینت ہیں۔ ان کو محمد حسین آزاد سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ خواجہ میر دردؔ کے نواسے تھے اور تصوف سے فطری لگاؤ تھا۔ موصوف نے خواجہ میر دردؔ کا تذکرہ ’میخانۂ دردؔ‘ کے نام سے قلمبند کیا تھا جو اردو ادب میں بے حد اہمیت کا حامل ہے۔ نثر میں ان کی دس اور نظم میں دو تصانیف دستیاب ہیں جو 1947ء سے قبل زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ علاوہ ازیں متعدد نثری تخلیقات مختلف رسائل میں بکھری ہوئی ہیں جن میں چند ناول بھی شامل ہیں۔ موصوف سے متعلق راقم الحروف کی ایک کتاب ’’ناصر نذیر فراقؔ دہلوی۔حیات اور ادبی خدمات‘‘ کے نام سے منظر عام پر آچکی ہے۔ اس کے علاوہ راقم کو فراقؔ دہلوی کے دیوان کا جو غیر مطبوعہ مخطوطہ دستیاب ہوا ہے، اس کا انتخاب بھی حسنِ طباعت سے آراستہ کیا ہے۔ شاہد احمد دہلوی کی شادی سے متعلق مذکورہ ساقی نامہ بھی اس مخطوطے کی زینت ہے اور اسی سے اخذ کیا گیا ہے۔ اب یہ مکمل ساقی نامہ ملاحظہ فرمائیں:
ساقی نامہ تاریخی
مبارکباد رخصتِ دختر و بزمِ طوی فرزندِ دل بند جناب مولوی بشیر الدین احمد خاں
بن شمس العلما ڈپٹی نذیر احمد خاں صاحب مصنف کتب ہائے متعددہ
وہو ہٰذا
کدھر ہے تو اے ساقیٔ گل بدن
کدھر ہے تو اے ساقیٔ سیم تن
تو جلدی سے کرلے بناؤ سنگھار
کہ میخانے میں جمع ہیں میگسار
اُمنگیں جوانی کی ہیں زور پر
اٹھاتی ہیں دل میں مرے شور و شر
بڑی تشنگی ہے، بڑی پیاس ہے
ترا آسرا ہے، تری آس ہے
پلا دے مئے وصل کا ایک جام
گل و عطر کا بھی تو کر اہتمام
مگر مجھ کو بھاتا ہے عطرِ سہاگ
حنا اور عنبر کی ہو جس میں لاگ
مئے ناب سے جب ہو تازہ دماغ
طبیعت ہو خوشبو سے پھولوں کی باغ
تو احولِ شادی کروں کچھ رقم
کروں چاند سورج کو اک جا بہم
بشیر احمدِ صاحبِ علم و فن
نظر کردۂ شہر یارِ دکن
جو دلّی کے ہیں نامور اک رئیس
زمانہ جنھیں دے رہا ہے اسیس
خدا نے یہ اُن کو دکھایا ہے دن
کہ دو شادیاں ساتھ لایا ہے دن
جو بیٹی کی رخصت تو بیٹے کا بیاہ
جو ارمان اس کا تو ہے اس کی چاہ
بی بشریٰ زمانی خجستہ سیر
سھداریں بدا ہو کے وہ اپنے گھر
بڑا لے گئیں ساتھ اپنے جہیز
چھپرکھٹ تھا سونے کا، سونے کی میز
کروں گہنے پانے کی تفصیل کیا
جڑے تھے ہر اک میں دُرِ بے بہا
کروں اس کے دولھا کی تعریف کیا
وہ ہے خوبرو اور یوسف لِقا
دولھن اور دولھا رہیں شاد کام
بحقّ محمد علیہ السّلام
ہوا فرض بیٹی کا جب یہ ادا
تو بیٹے کو اپنے کیا کتخدا
وہ نورِ نظر قرّۃالعین ہے
وہ ماں باپ کی جان کا چین ہے
خدا نے دیا ہے وہ اُس کو جمال
مہ و مہر نے جس سے پایا زوال
وہ ہے سروقد اور نازک بدن
وہ ہے خوب رو اور غنچہ دہن
وہ باغِ شرافت کا ہے نونہال
دکھائے خدا اس کا ہم کو کمال
عجب شاہد احمد ہوا اس کا نام
پڑھے سن کے ہر اک درود و سلام
برانڈی پلا اب کے ساقی مجھے
کہ کہنی ہے روداد باقی مجھے
یہی وقت تو مے گساری کا ہے
محل یہ نہ پرہیزگاری کا ہے
تو بوتل کو لا اب بنا کر عروس
کرے تاکہ تختِ ادا پر جلوس
مرا دل جو پینے سے مسرور ہو
گذارش میں پھر سعیٔ موفور ہو
عجب دھوم ہے، اُس کی ساچق گئی
ہوئے ساتھ جس کے مہ و مشتری
عجب روشنی تھی، عجب تھا سماں
زمیں پر اُتر آئی تھی کہکشاں
بَری میں مَنوں قرص1 تھے نُقل2 تھے
ترو خشک میوے سبھی قسم کے
وہ چوتھی کا جوڑا جو تھا جال کا
نہیں اس کے اندازہ کچھ مال کا
بڑا قیمتی تھا، بہت خوب تھا
مرصّع، مزیّن تھا، محبوب تھا
چڑھاوے کا زیور عجیب و غریب
بنے جس کا کارن3 ، وہ ہے خوش نصیب
بنا شاہد احمد وہ دولھا پری
ہوئے جس پہ صدقے مہ و مشتری
وہ شاہانہ خَلعت جو تھا زیب بَر
ٹھہرتی نہ تھی اس کے اوپر نظر
وہ رومال منہ پر وہ نیچی نگاہ
وہ آنکھوں میں سرمہ خدا کی پناہ
تھی سہرے کی سر پر وہ طرفہ بہار
بہشتِ بریں جس کے اوپر نثار
گلے میں جو بَدّھی4 تھی اُس کے پڑی
جواہر کی تھی بیش قیمت لڑی
براتی ستارے تھے، دلہا تھا ماہ
ہر اک اُن میںسے صاحبِ عزّ و جاہ
دلہن کے مکاں پر جو پہنچی برات
شریعت کے پورے ہوئے سب نکات
محل میں جو دلہا بلایا گیا
تو رسموں کا نقشہ جمایا گیا
ہوا مصحف اور آرسی جس گھڑی
ادھر شرم تھی اور ادھر تھی ہنسی
دیتے سالیوں کو جو تھے اُن کے نیگ5
جو حق دار تھے، بھر دیئے اُن کے بیگ
اٹھا کر جو دلہن کو دولھا چلا
تو بہنوں نے آنچل کا سایہ کیا
کیا اس کو پینس کے اندر سوار
براتی چلے باندھ کر سب قطار
بڑی شان و شوکت سے لائے اُسے
خوشی اور فرحت سے لائے اُسے
ولیمے کا سامان ہونے لگا
ہر اک نے کہا مرحبا مرحبا
ہوئی محفلِ رقص آراستہ
ہوئے جمع محبوبِ نوخاستہ
وحیدن ہوئی ناچنے جب کھڑی
تو محفل میں اک دم سے ہل چل پڑی
پری زاد تھی شکل و صورت میں وہ
ہنر مند، یکتا لیاقت میں وہ
غضب اُس کی آواز تھی دلرُبا
فرشتوں کو وجد اُس پہ ہونے لگا
اٹھا کر چلی جب وہ پشواز کو
کیا مات طاؤس طنّاز کو
مگر دوسری اور تھی اک پری
وحیدن پہ رکھتی تھی وہ برتری
وہ اللہ دی غازی آباد6 کی
جو شمشیر بُرّاں تھی جلّاد کی
سریلی بڑی ہے وہ ہے شوخ و سنگ
رجھانے کے آتے ہیں سب اس کو ڈھنگ
وہ گانے میں مشہور آفاق ہے
وہ لیکار ہے اور مشّاق ہے
جوانی کی ہے اُس کے اندر ترنگ
نہ کیوں ناچنے میں ہو اُس کے امنگ
سرِ بزم جب اس نے مجرا کیا
تو ہونے لگی آفریں واہ وا
وہ لیتی تھی آسائی7 میں جا کر تان
پہنچتی تھی آواز تا آسمان
گلا اُس کا تھا نور کی اک مشین
ادا اُس کی، ہر بات تھی دل نشیں
بھنڈیلے بھی آئے تھے سب انتخاب
انھوں نے ہر اک نقل کی لا جواب
اسی لطف میں رات ڈھلنے لگی
کہا شمع نے میں پگھلنے لگی
چھپرکھٹ میں فانوس کے سوؤں گی
تکان اپنے اعضا کی میں کھوؤں گی
ہوئی مجھ کو بھی فکر تاریخ کی
طبیعت مری مجھ سے کہنے لگی
فراقؔ اس کی تاریخ بے فکر و طیش
کہی میں نے ’’تقریب آرام و عیش‘‘
ناصر نذیر فراقؔ دہلوی
حواشی
1۔ قرص۔ ایک قسم کی شیرینی جو اکثر ساچق میں آتی ہے اور وہ گول گول سرخ یا سبز کھانڈ کی ٹکیاں ہوتی ہیں۔
2۔ نُقل۔ ایک قسم کی شیرینی جو ساچق میں لی جاتی ہے۔
3۔ کارن۔ ہندی لفظ بمعنی وجہ۔ باعث
4۔ بدّھی۔ پھولوں کا ہار
5۔ نیگ دینا۔ حسبِ رسم بیاہ شادی کے موقع پر رشتہ داروں وغیرہ کو اپنی توفیق کے موافق کچھ نقدی دینا۔ مبارکباد کا انعام
6۔ غازی آباد۔ہندوستان کے ایک بڑے صوبے ’اترپردیش‘ کے ایک شہر کا نام
7۔ آسا۔ ایک راگ کا نام جو صبح کے وقت گایا جاتا ہے۔