خوشبوئے التفات
(ایک جائزہ)
مظہر الحق صدیقی
وائس چانسلر : سندھ یونیورسٹی۔ جام شور و
جناب رشید وارثی کا مجموعہ’’خوشبوئے التفات‘‘ زیر نظر ہے۔ یہ میری انتہائی خوش نصیبی ہے کہ مجھے حمد ونعت کے اس مجموعے میں تبصرہ کے ساتھ شریک ہونے کا موقع ملا۔ یہ ایک ایسا اعلیٰ وارفع موضوع ہے جس کے بارے میں اظہار تاثرات کرتے ہوئے ہر ادنیٰ و اعلیٰ عقیدت و محبت سے سرشار اور ادب واحترام کے ساتھ سرنگوں ہو جاتا ہے۔ ایسی ہی کیفیت میری ہے۔
رشید وارثی کے اس ’’حمد ونعت ‘‘کے مجموعے میں رشید وارثی کے ایک جانب تحصیل علم وادب کے مسلسل شغف اور دوسری جانب ان کی شاعرانہ دسترس اور قادر الکلامی نے مجھے متاثر کیا۔ اس نعتیہ مجموعے میں رشید وارثی نے مختلف قدیم وجدید شعری اصناف کو برتا ہے چنانچہ غزل مثنوی، قصیدہ، مثلث، رباعی،مخمس، مسدس، مسمط، ترکیب بند، ترجیع بند، قطعہ، مستز اد، نظم، آزاد نظم، نیز مغربی صنف سخن سائیٹ کی ہیئت کو برتا ہے۔ اس کا سبب بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی تیاری کے مرحلے میں ہیں یعنی’’ اردو نعت کا تنقیدی جائزہ شریعت اسلامیہ کے تناظر میں‘‘۔ چنانچہ اس موضوع نے ان کے فکر و خیال کو رفعت اور موضوعات کو وسعت بخشی۔ دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ادیب و شاعر کے ذہن پر اور دل پر جو خیالات القا ہوتے ہیں وہ اپنی ہیئت ساتھ لے کر آتے ہیں۔ رشید وارثی کے اس شعری مجموعے میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔
اس مجموعے کی ابتدا میں سب سے پہلے’’ حمد ‘‘پر نظر ٹھہرتی ہے۔ وہ کہتے ہیں۔
تیرا جمال دل نشیں ہر سو ہے کائنات میں
ڈوبے ہوئے ہیں دو جہاں خوشبوئے التفات میں
اردو شاعری کا جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ تمام شعراء میں بعض نے بالخصوص صوفیاء کے دو نظریات میں سے کسی ایک کو اپنایا ہے یعنی وحدت الوجود، اور وحدت الشہود، اول الذکر کے نزدیک ہر شے کا ظاہری وجود محو ہو جاتا ہے اور باقی رہتا ہے وحدت الوجود یعنی ذات باری تعالی وحدہ لاشریک۔ اس کی ذات کے سوا بندے کو کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ وہی کیفیت ہے جس میں محو ہو کر حضرت منصور ؒنے’’ انا الحق‘‘ کا نعرہ مارا تھا۔ دوسرے نظریے یعنی’’ وحدت الشہود‘‘ میں انسان ہرشے میں اللہ کا وجود منعکس پاتا ہے گویا ہر شے ذات باری تعالیٰ وحدہ لاشریک کے وجود کی گواہ ہے، شہود کے واسطے سے ہم ’’وجود برحق ‘‘کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے’’ اور ہر شے میں اللہ کی نشانیاں ہیں ،تم غور وفکر کیوں نہیں کرتے ‘‘۔رشید وارثی کے کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو وہ موخر الذکر نظریے کے مؤید ہیں۔ کہتے ہیں۔
تیرا خیال کیوں نہ ہو قلب و نظر کی روشنی
ہر جا ترا شہود ہے ایوان ممکنات میں
خلق عظیم مصطفیٰ پر تو خلق ذات ہے
حسن ترا ہے بے نقاب آئینہ صفات میں
صوفیانہ مسلکوں اور نظریات کے تحت کبھی نظر وحدت سے کثرت کی طرف اچنتی ہے اور انسان وحدت کی جلوہ فرمائیاں ’’کثرت‘‘ کے حوالے سے مطالعہ و مشاہدہ کرتا ہے۔ دوسری طرف اس کی نظر کثرت سے’’ وحدت‘‘ کی طرف رجوع ہوتی ہے اور وہ سمندر کو کوزے میں بند د یکھتا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو کما سکے
رشید وارثی بھی کچھ ایسی کیفیات سے گزرتے ہیں چنانچہ فرماتے ہیں:
بے کراں وسعتوں میں رہتا ہے
وہ خدا ہے دلوں میں رہتا ہے
قرآن کریم میں یہ بھی فرمایا گیا کہ اگر تمام دنیا کے سمندر روشنائی بن جائیں اور تمام درخت روئے زمیں قلم بن جائیں پھر بھی للہ کی بڑائی رقم نہیں کرسکتے یعنی اس بیان کی وسعت میں سمویا نہیں جا سکتا۔ رشید وارثی انہی اعتقادات میں ڈوب کر شعر کہتے ہیں اور اپنے زور قلم اور زور بیان کے باوجود اس مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتے ہیں۔ یہ شعر ملاحظہ ہو:
بنے سب سمندروں کو جو ملا کے روشنائی
تو بیاں نہ ہو سکے گی تیری شان کبریائی
مرے علم کا یہ حاصل رگ جاں سے تو قریں ہے
ہے مآلِ کم نگاہی مرا وہم نارسائی
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رشید وارثی کا دامن علم قرآن سے روشنی کا جو یا رہتا ہے یہی سبب ہے کہ قرآنی مفاہیم کو انہوں نے اکثر و بیشتر اپنے اشعار میں ادا کیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر سے ارشاد فرمایا کہ’’ جب لوگ تم سے میرے بارے میں استفسار کریں تو انہیں بتا دو کہ میں تمہاری رگ گلو سے بھی نزدیک ہوں ‘‘(ترجمہ) رشید وارثی کا مذکورہ بالا دوسرا شعر اسی کا مؤید ہے۔ قرآن کریم سے روشنی کے حصول کی جستجو نے انہیں قادر الکلامی کے اس مقام تک پہنچایا ہے کہ وہ عربی تراکیب و محاورات ہی نہیں بلکہ قرآنی آیات کو بعینہ نقل کرتے ہوئے اسے شعر کا جزو بنا لیتے ہیں۔ مثلا ان کی تحریر کردہ حمد کا ایک شعر ملاحظہ ہو:
امتحان لن تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّی تُنْفِقُوا
اور متاع نقدِ جاں ہے استغیث یا غیاث
ایک اور شعر میں فرماتے ہیں:
بے مثل ہے شانِ رب جہاں سبحان اللہ سبحان اللہ
مصروف ثنا ہیں کون و مکان سبحان اللہ سبحان اللہ
الغرض رشیدوارثی نے اپنے کلام حمدیہ کو جا بجا قرآنی آیات سے مستنیر کیا ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
إِنَّ اللَّہَ وَ مَلِئِکَتَہُ یُصَلُّونَ عَلَی النَّبِیِّ یَا یُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوا تَسْلِیماً
ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں نبی ﷺ پر اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔
(حوالہ آیت: پارہ ۲۲ – سورۃ الاحزاب آیت نمبر۶ ۵)
اس سلسلے میں حدیث رسول ﷺ ہے کہ
’’جب امت کا کوئی فرد (اُمتی) مجھ پر درود بھیجتا ہے تو وہ مجھ پر پیش کیا جاتا ہے‘‘۔
رشید و ارثی جب انہی امور وحقائق کو اپنی محبت و عقیدت میں ڈبو کر پیش کرتے ہیں تو یہ کیفیت ہوتی ہے:
لبانِ خیر الوری کی زینت خدا کی ہے شان کبریائی
رشید لیکن رضائے حق ہے درود بر ذاتِ مصطفائی
رشید وارثی نے حمد یہ رباعیات پر بھی زور طبع صرف کیا ہے۔ بہت سی رباعیات زیر تبصرہ مجموعے میں شامل ہیں۔ یہاں صرف ایک رباعی نقل کی جاتی ہے۔ ملاحظہ ہو:
ہر سمت وہی جلوۂ یکتائی ہے
ادراک سے قاصر مری بینائی ہے
ہر مظہر انوار نے واللہ رشید ؔ
خالق ہی کے جلووں سے ضیا پائی ہے
میرا یہ کامل یقین ہے کہ جو شخص تلاوت کلام پاک کا ذوق و شوق رکھتا ہے اس کی آیات کے معانی و مفاہیم میں غور و فکر کو شعار بناتا ہے تو اللہ تعالی ضرور اس پر انوار رحمت کا مینہ برساتا ہے۔ خود تلاوت قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ انسانی ذہن کو ایسی وسعت و رفعت اور بصارت و بصیرت عطا کرتی ہے کہ انسان ترفع کی منازل طے کرتا چلا جاتا ہے۔ یہ میں اس لئے کہہ سکتا ہوں کہ میں ایسا محسوس و مشاہدہ کرتا ہوں اور اس لئے بھی کہتا ہوں کہ خود اللہ تعالی قرآن پڑھنے والے کے بارے میں فرماتا ہے۔ ترجمہ: ’’تو قرآن پڑھتا جا اور جنت کے زینے چڑھتا جا۔ تیری آخری منزل وہی ہے جہاں پہنچ کر تو ٹھہرے‘‘۔ رشید وارثی کو بھی قرآن سے شغف اور احادیث رسول ﷺ سے رغبت و موانست ہے جیسا کہ ان کے اشعار سے جا بجا واضح ہے۔ ان کے نعتیہ اشعار میں بھی جا بجا قرآنی تلمیحات کو موضوع بنایا گیا ہے۔ قرآن کریم کے پندرھویں پارے کی ابتدائی آیات ہیں: سُبْحَانَ الَّذِی أَسْرَی بِعَبْدِہِ لَیْلًا مِنَ المَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلی المَسْجِدِ الأقصی الخ، حوالہ: سورۂ بنی اسرائیل آیت نمبر ا، ترجمہ: ’’پاک ہے وہ ذات (اللہ تعالیٰ) لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام (پاک) سے مسجد اقصی تک۔ واقعہ معراج کی طرف اشارہ ہے جس میں ایک موقع ایسا بھی آیا کہ اللہ اور اس کے بندے (رسولﷺ) کے درمیاں صرف دو کمان کا فاصلہ تھا۔ رشید وارثی جب ان واقعات کو شعر کے قالب میں ڈھالتے ہیں تو ایسے شعر نظر سے گزرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو یہ شعر:
دیدۂ قاصد اَسریٰ پہ صحیفہ اُترے
قابَ قوسین ہے کیا قرب کی منزل کیا ہے
قرآن کریم میں ارشاد باری تعالی ہے۔ ترجمہ: ’’لوگو! رسول ﷺ کی سیرت تمہارے لیے اسوہ ٔحسنہ کی بہترین مثال ہے‘‘۔ ایک موقع پر جب صحابۂ کرام نے حضرت عائشہ صدیقہ سے استفسار کیا کہ آپ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے انہوں نے جواب دیا کہ لوگو!کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا۔ آپؐ قرآن کی عملی تفسیر تھے۔ حجتہ الوداع پر جب آپ نے خطبہ دیا تو فرمایا’’ لوگو!میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ جب تک انہیں مضبوط پکڑے رہو گے تم کبھی گمراہ نہ ہوگے (۱) قرآن اور (۲) سیرت‘‘۔
رشید وارثی بھی جب تلاوت قرآن میں ڈوب کر اور سیرت رسول کی تعلیمات سے سرشار ہو کر اپنی کیفیات شعری قالب میں ڈھالتے ہیں تو پڑھنے والا خود کو انہی کیفیات سے معمور پاتا ہے ان کا یہ شعر ملاحظہ ہو :
ختم رُسل کے اُسوۂ کامل کی شکل میں
تعمیل ہو گئی ہے خدا کے نظام کی
رشیدوارثی کی نعتیہ رباعیات بھی اپنے اندر یہی حسن وکیف سموئے ہوئے ہیں مثلاً یہ رباعی:
یٰسین کہیں ہے کہیں طٰہٰ وہ ہے
قرآن کی آیات کا منشا وہ ہے
جبریل ؑ دو عالم میں بہت ڈھونڈ آئے
کوئی بھی نہیں ایسا کہ جیسا وہ ہے
اس کے ساتھ ساتھ رشید وارثی نے نعتیہ قطعات بھی کہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک قطعہ دیکھئے:
یہی ہے منتہائے علم و عرفاں
کتابِ جاں میں یہ نکتہ رقم ہے
خدا شاہد ہمارادو جہاں میں
محمد مصطفی سے ہی بھرم ہے
رشید وارثی نے مختلف معروف شعرا کے کلام پرتضمینیں بھی لکھی ہیں مثال کے طور پر تضمین بر کلامِ اقبال، تضمین بر کلام رضا اور تضمین بر کلام ِجامی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔
انہوں نے مستزاد، ترکیب بند، قصیدہ خطابیہ اور مثلث پر بھی طبع آزمائی کی ہے چنانچہ’’ مژدۂ رحمت‘‘ کے لیے انہوں نے مثلث کا پیمانہ منتخب کیا ہے۔’’ توصیف ِنبی اکرمؐ ‘‘ ایک عمدہ خطابیہ قصیدہ ہے۔ ’’تضمین بر کلام اقبال کے لیے مسمط کی ہیئت ہے۔’’ در فضیلت مدینۃ النبی واہل مدینہ، رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین ترکیب بند کی صورت میں لکھی ہے جو متاثر کن ہے۔ انہوں نے اپنے نعتیہ خیالات کو مسدس کے پیمانے میں بھی بڑی عمدگی کے ساتھ سمویا ہے مثلاً میلاد مصطفیٰ ﷺ کے پانچ حرف کی فضیلت۔ رشید وارثی طے شدہ بحور اور مروجہ پابند شاعری میں اپنی شعری دسترس علمی وسعت اور قادر الکلامی کے جو ہر دکھاتے ہوئے کبھی نثری نظم اور آزاد نظم کی جانب جا نکلتے ہیں۔ مثال کے طور پر باب رسالت کے زیر عنوان دیکھئے ’’سر اسمائے رسولؐ ‘‘اور’’ بحضور رسولِ رحمتؐ ‘‘۔
اس کے بعد’’ باب ولایت‘‘ کے عنوان کے تحت وہ کلام ہے جس میں حضرت علی ؑ اور اہل بیت ؑکی منقبتیں ہیں۔ اس کے بعد’’ باب تسلیم و مناجات‘‘ کے عنوان سے مناجات وغیرہ رقم کی ہیں۔
مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ رشید وارثی کے کلام میں سہل ممتنع کا حسن بھی ہے اور بیان میں سلاست، روانی، صفائی اور شستگی و وارفتگی عام ہے۔ وہ قرآنی آیات اور ان کے مفاہیم و معانی کو نہایت روانی اور چابک دستی کے ساتھ اشعار کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہ ان کی قرآنی معلومات کی وسعت اور شعر گوئی کی قدرت و دسترس کی دلیل ہے۔
رشید وارثی چونکہ ایک قادر الکلام شاعر ہیں لہذا ان کی طبعی مناسبت و موزونیت انہیں شعر کے کسی ایک سانچے کا پابند نہیں ہونے دیتی چنانچہ انہوں نے مختلف شعری اصناف پر اپنے جواہر مخفی عیاں کیے ہیں۔ وہ قرآنی آیات کو نہایت عمدگی اور برجستگی کے ساتھ شعر کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ طویل وقصیر بحور یکساں چابکدستی کے ساتھ استعمال کرتے ہیں۔ ویسے عموماً طویل بحروں پر انہوں نے طبع آزمائی کی ہے کیونکہ ان کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہے۔ میں اس نعتیہ مجموعہ پر انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔