*جوشؔ کی شاعری میں تلمیحات*
*ڈاکٹر حمیرہ تسلیم*
اسوسیٹ پروفیسر، شعبۂ اُردو
ساتاواہنا یونیورسٹی، کریم نگر
شبیر حسین خان جوشؔ ملیح آبادی جو بیک وقت شاعر انقلاب، شاعر شباب، شاعر فطرت کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں، جوشؔ کا شمار 20 ویں صدی کے عظیم شاعروں میں تسلیم کئے جاتے ہیں۔ اقبالؔ کے بعد شہرت، عزت، جوشؔ کو نصیب ہوئی کسی دوسرے شاعر کو نہیں ہوئی۔ جوش پیدائشی شاعر تھے۔ 9دس برس کی عمر میں شعر کہنا شروع کیا۔ جوش کی شاعری بڑی پہلودار شاعری ہے جوشؔ کے کلام میں ہر طرح کے نظریات اور عقائد مل جاتے ہیں۔ مزاج رنگین، طبیعت میں انانیت پسند، انفرادیت حق گوئی و بے باکی تھی۔ وہ بڑے جاگیر دار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ اس لئے مالی اعتبار سے باکل آسودہ تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ …
اے لمحۂِ موجود ادب سے پیش آ
آئندہ زمانے کی امانت ہوں میں
جوشؔ کی آواز میں بڑا جوش تھا۔ انداز بیاں خطیبانہ، لہجہ شاعرانہ تھا۔ ان کی شاعری میں الفاظ کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے۔ شاعری میں جوشؔ کو لفظوں کا ساحر کہا گیا ہے۔ جوشؔ کے جملہ 22 مجموعے ہیں، جن میں 18 شعری مجموعے اور 4 نثری کتابیں ہیں۔ پہلا مجموعہ کلام ’’روح ادب‘‘ ہے۔ جوش کی شاعری میں برجستہتخئیل اور الفاظ کی بندش موجود ہے۔ تراکیب میں ان کی جدت اور تشبیہات میں ندرت انوکھی اور اچھوتی انداز کی ہوتی ہے۔ ان کے کلام میں لسانی تشکیلات، تمثیلات، اساطیر اور تلمیحات وغیرہ موجود ہیں۔ جوش کے اس طرز سخن میں بے مثال شاعری اور ان کی شاعری میں ہمیں خاک وطن سے دلچسپی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تاریخ وطن پر فخر اور قوموں کے اتحاد و اتفاق پر توجہ دیتے ہیں۔ فطری طور پر غریبوں کے ہمدرد ہی نہیں بلکہ انسان دوست اور سادہ مزاج دشمن ہونے کے علاوہ، باغیانہ عناصر کو اہمیت دیتے ہیں۔ ان کی شاعری میں عبادت گاہوں، مقدس مقامات کی قدر اور مقدس فضاء کا اثر موجود ہے۔ حمد و نعت اور منقبت سے تاثر پیدا کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوشؔ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت علیؓ اور حضرت امام حسین سے والہانہ محبت تھی۔ جس کا عکس ان کی شاعری میں نمایاں ہے۔ ’’شاعر آخر الزماں ‘‘ مضمون میں ڈاکٹر امام مرتضیٰ نقوی لکھتے ہیں…
جوشؔ عموماً مقفی زبان رکھتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ شاعری ان کی رگ رگ میں رچ بس گئی ہے۔ ان کی بیشتر تحریریں ایسی ہیں جو قافیہ پیمائی کا ایک اعلیٰ نمونہ کہی جاسکتی ہیں۔ (جوش ملیح آبادی، تنقیدی جائزہ؍ خلیق انجم ص 228)
وہ اپنے کمال فن پر خودہی فخر کرتے ہیں۔ جس کی مثال ملاحظہ ہو۔
جوشؔ کی قدر کر اے مے خوار
فخرِ ہندوستان ہے پیارے
ایک اور جگہ لکھتے ہیں…
جوشؔ اپنی سحر پرستی سے
جاگ اُٹھی قسمتِ ملیح آباد
ان کی شاعری میں حافظ کے علاوہ خیام اور نظیری کے نام بھی ملتے ہیں چنانچہ کہتے ہیں…
ادب کر اس خراباتی کا جس کو جوش کہتے ہیں
گر یہ اپنی صدی کا حافظ و خیام ہے ساقی
اپنے شعری مجموعہ ’’روح ادب‘‘ میں وہ خود کو حافظ اور شیراز کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں۔
آرہی ہے صدائے ہاتف غیب
اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے
جوشؔ ہماری جنگ آزادی کے سب س قد آور شاعر ہیں۔ جوشؔ نے خون جگر سے اپنی قوم کی جو خدمت کی تھی۔ اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔ برطانوی سامراج کے سامنے خم ٹھونک کر میرا نعرہ انقلاب، انقلاب، وانقلاب کہا تھا۔ ان کی شاعری نے لاکھوں مجاہدین آزادی اور انقلابیوں کے دلوں میں جوش اور ولولہ پیدا کیا تھا اور ان کے عزم کو اجنبی بنایا تھا۔ ان کا دل اپنی قوم کے لئے تلملا اٹھا ہے۔
’’جوشؔ کے افکار کو مانے کی مستقبل کی روح‘‘
’’کلیاتِ جوشؔ‘‘ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جوشؔ نے عربی اور فارسی کی بے شمار تلمیحات سے اپنی شاعری کو آراستہ کیا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستانی رسم و رواج ’’ماحول، مناظر اور اہم شخصیات سے تعلق رکھنے والی متعدد تلمیحات سے اپنے کلام میں حسن پیدا کیا ہے۔ اردو زبان میں چند تلمیحات عربی اور فارسی زبان سے وابستہ یں۔ سرزمین ہندوستان میں مسلمانوں کی اسی مذہب اور رسم رواج کی وجہ سے تلمیحات کاکافی ذخیرہ منتقل ہوا۔ اردو تلمیحات کا بہت بڑا حصہ قصے کہانیوں حکایتوں وغیرہ سے وابستہ ہے جو ہندوستان کی سرزمین میںعرب و ایران سے منتقل ہوا ہے۔
تلمیح کی وضاحت پر غور کرنے سے ہوسکتا ہے کہ تلمیح علم بیان کی اصطلاح ہے جس میں کسی قصہ وغیرہ کا کلام میں نمائندگی دینے پر توجہ کی جاتی ہے۔ تلمیح کے لغوی معنی کسی چیز پر سرسری اور اچٹتی نظر ڈالنا یا کسی مشہور اقع یا انقع طلب بات کا اشارہ کرتا ہے۔
علم بدیع کی اصطلاح میں تلمیح اس صنعت کو کہتے ہیں ، جس کے ذریعہ کلام میں بطور اشارہ کسی مشہور قصے، واقعے، کہانی، احادیث یا آیات وغیرہ کو اجمالاً اس طرح لایا جائے کہ اس کو جانے بغیر نہ تو کلام سمجھا جاسکے اور نہ ہی اس سے لطف حاصل کیا جاسکے۔ اگر کلام میں اس طرح کے دو ایک لفظ رکھ دیئے جائیں جو کسی خاص قصہ یا واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوں اور جن کو پڑھ کر یا سن کر فوراً اصل واقعہ یا قصے کی طرف ذہن منتقل ہوجائے تو یہ صفت تلمیح کہلائے گی۔
جوش ملیح آبادی کے کلیات میں بے شمار تلمیحات ملتے ہیں ان میں مرکب الفاظ اور مفرد الفاظ بھی ملتے ہیں۔ جوشؔ کے مجموعہ یعنی ’’روح ادب‘‘، نقش و نگار، شعلہ و شبنم، فکر و نشاط میں ہمیں ایسے بے شمار تلمیحات ملتے ہیں۔میں نے ایسے تلمیحات کو تلاش کیا ہے اور تلمیحات کے اصل قصہ کو مختصر پیش کا ہے حروف تہجی کے ساتھ…
آب و حیات، آدم و حوا، ایوب، اسم اعظم، آتش و نمرود، ابن حیدر، امام جن و بشر، اسکندری، باب خیبر، بوذر، پیغمبر، تخت سلمان، حمزہ و حیدر، حافظ و شیراز، حسن ابن علی، تجل ظلمات، خضر، ذولفقار، رام، راون، رحمت للعالمین، روح الامین، زلیخا، زم زم و کوثر، سحر سامری، سمر قندر و بخارا، سفالیس، ساقی و کوثر، سکندر و سیتا، شیون، شیرخدا، شہ صفدر، ثبسیر، شمس تبریزی، طور، عصائے موسیٰ، عیسیٰ مریم، فردوس بریں، فرہاد و شیریں، فرعون، قیصر و جمشید، قسم بہ اذنی، قلعہ خیبر، قصر آہنی، قیصری، قندیل سلیماں، قیس، کجا حسین، کونین، کوثر و تسنیم، کیمیاء ، کوہ طور، کسریٰ، کلیم ، لحن داؤد، لیلیٰ، لوح و قلم، لحن بلال، لن ترانی، نغمۂ داؤد، ناخدا، مرد باخدا، مسیحا، مہ لقاء، موسیٰ یوسف، یوسف زنداں، یوسف، کنعان، یعقوب، یونس، یوسف ثانی، وغیرہ و جوش ملیح آبادی نے ان عنوانات سے متعلق تلمیحات وقصہ طلب الفاظ نئے نئے انداز سے برت کر مخصوص معانی و مفاہیم عطا کئے ہیں۔
اس میں میں نے جوش ملیح آبادی کی شاعری میں تلمیحات کو تلاش کیا ہے اس کے بعد تلمیح کے اصل قصہ واقعہ کا مختصراً تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ نئی نسل کا ہماری تہذیب سے رشتہ ٹوٹ رہا ہے، نئی نسل اردو زبان و ادب سے ناواقف ہے جب اردو زبان کا ذوق ہی نہیں ہے تو پھر ہماری شاعری میں موجود تلمیحات کا انہیں کیا علم ہوسکتا ہے۔
ہر چند کہ ایوبؑ بھی اس فن میں تھے یکتا
یونسؑ نے ھبی اک حد تک اسے خوب نبھایا
ایوبؑ۔ یونسؑ:اس شعر میں دو پیغمبروں کے ناموں کو تلمیح کے طور پر استعمال کرکے شاعر نے دونوں کے صبر و تحمل کو نمایاں کیا ہے۔ سب سے پہلے یہ بتایا ہے کہ حضرت ایوب پر امتحاناً خدا کی طرف سے طرح طرح کی تکلیفیں نازل ہوئیں، مگر انہوں نے اُف نہیں کی اور ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرتے رہے۔ صبر ایوب کی تلمیح اسی قصہ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اور دوسرے مصرعہ میں پیغمبر حضرت یونس علیہ السلام کا ذکر ہے۔ حضرت یونس علیہ السلام کو سمندر میں مچھلی نگل گئی تھی وہ مچھلی کے پیٹ کے اندر بھی خدا کی حمد و ثناء میں مشغول تھے۔ حضرت یونس علیہ السلام کو آخرکار مچھلی نے دریا کے کنارے پر لاکر اگل دیا۔ یونس ؑ کے لفظ سے اسی قصہ کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
بلقیں سے ہو کہ سر بارگاہِ ناز
پریا کھڑی ہیں تختِ سلیمانؑ لئے ہوئے
تخت سلیمان: تخت سلیمان وہ تخت ہے جسے سلیمان علیہ السلام کی مرضی کے موافق ہوا کہیں بھی لے جاتی تھی۔ خدائے تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کے حق میں ہوا کو مسخر کردیا تھا اور تمام جن و حیوان وغیرہ کے تابع تھے۔ حضرت سلیمان کے پاس ایک تخت تھا جو نہایت سبک روی کے ساتھ دوش ہوا پر ان کی مرضی کے مطابق اُڑ چلا جاتا تھا۔ سلیمان علیہ السلام اس پر بیٹھ کر برسوں کی مسافت کو منٹوں میں طئے کرلیتے تھے۔ ایک اسرائیلی روایت کے مطابق اس تخت کو قوم اَجنا نے نہایت کاری گری اور صناعی سے بنایا تھا۔ یہ تخت دو زبردست خوں خوار اور ہیبت ناک شیروں کی پیٹھ پر قائم تھا اور دو سر یعنی دو گدھ اپنے پیروں سے اس پر سایہ کئے رہتے تھے جب حضرت سلیمان اس تخت پر جلوہ افروز ہونا چاہتے تو دونوں شیر نہایت ادب کے ساتھ اپنے بازو سمیت کر بیٹھ جاتے اور دونوں گدھ اپنے پروں کو پھیلا کر ان کے سر پر سایہ فگن ہوجاتے تھے پھر اس تخت کو دیو اور جن اُٹھا کر آن واحد میں ان کی مرضی کے مطابق ہوا کے دوش پر اڑا کر لے جاتے تھے۔
صبحیں چھپی ہیں قہر کی پرُہول رات میں
جوڑا ہے زہر چشمۂ آب حیات میں
(حالات حاضرہ ، ص 76)
چشمۂ آب حیات اس چشمہ کو کہتے ہیں جو ظلمات میں واقع ہے۔
چشمۂ آب حیات: مشہور ہے کہ آب حیات وہ پانی ہے جس کے پینے سے حیات جاہ و داں حاصل ہوجاتا ہے اور پینے والے کو قیامت تک موت نہیں آسکتی۔ کنایتہ لطیف ، شیریں سرور آنگیں اور حیات بخش چیز کو کہا جاتا ہے۔ آب حیات زہر کی ضد ہے ہندی میں ایسے پانی کو امرت کہا جاتا ہے۔ مشہور ہے کہ میتھس کے وقت جو چودہ رتن برآمد ہوئے تپے ان میں امرت بھی تھا۔ اس کو پی کر دیوتاؤں نے دتیتوں پر فتح حاصل کی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ آب حیات کا چشمہ عالم ظلمات میں واقع ہے۔ ظلمات اس مقام کا نام ہے جہاں گھور تاریکی رہتی ہے۔ وہاں کبھی چاند اور سورج نہیں نکلتے۔ آب حیات کی تلاش میں سکندر اور خضرؑ عالم ظلمات کو گئے تھے۔ سکندرتو ظلمات کی تاریکی میں راہ بھٹک گیا تھا اور خضرؑ نے آب حیات پی کر حیات جاہ و دا ں پائی … ؟
جو موقع مل گیا تو خضرؑ سے یہ بات پوچھیں گے
جسے ہو جستجو اپنی وہ بیچارہ کدھر جائے
( ص101)
خضرؑ: خضر ایک پیغمبر کا نام ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام جو بھٹکے ہوئے کو راستہ بتاتے ہیں ۔ اس شعر میں ان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔عام روایت کے مطابق جنہوں نے آب حیات پیا تھا اس وجہ سے وہ قیامت تک زندہ رہیں گے (مزکید آب حیات) کہا جاتا ہے کہ حضرت خضر جس جگہ قدم رکھتے ہیں یا جس جگہ سے گزر جاتے ہیں وہ جگہ ہمیشہ کے لئے سرسبز و شاداب ہوجاتی ہے۔ یہ لوگوں کے سامنے سبز پوشاک میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اسی لئے ان کو خضر کہا جاتا ہے۔ یہ بھولے بھٹکوں کو راستہ بتاتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب جہاز اور کشتیاں طوفان میں بھنس جاتی ہیں، اونٹ وغیرہ جنگلوں میں بیانوں میں راستہ بھول جاتے ہیں اور لوگ مصیبتوں یا مشکلوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو اس وقت خضر ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔ حضرت موسیٰ اپنے آپ کو سب سے زیادہ علم والے سمجھتے تھے۔ اللہ تعالی کو موسیٰ کی یہ بات پسند نہ آئی اور حم دیا کہ جہاں دو سمندر ملتے ہیں وہاں ہمارا ایک بندہ بعض امور میں تم سے بھی زیادہ عالم و دانا ہے۔ وہ مقام پر حضرت موسیٰ کو خضر مل گئے۔
بزم یزدانی میں روح ہرمن ہے گرم کار
میان سے باہر ابل پڑا اے علی ؑ کی ذوالفقار
ذوالفقار: اس شعر میں ذوالفقار کا ذکر کیا گیا ہے، ذوالفقار حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی تلوار کا نام ہے۔ کہاں جاتا ہے کہ اس کا پھل و ہراتھا یعنی اس کی دو زبانیں تھیں اس لئے اس کو ذوالفقار کہا جاتا ہے۔ ذوالفقار کے معنی مہرہ ہائے پشت ولے ہیں۔ یہ تلوار رسول خدا کے معرکہ بدر میں ملی تھی اور رسول اکرم نے اسے حضرت علی کو عطا کردی تھی۔
فضاء میں جس طرح روحُ الامین کی بال جنبانی
برستا ہو کہیں کچھ دور جیسے خواب میں پانی
( ص270)
الامین:اس شعر میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کا ذکر ہے جنہیں روح الامین کہتے ہیں۔ جبرئیل علیہ السلام خدائے تعالیٰ کے مقرب فرشتوں میں سے ایک ہیں۔ ان کا لقب روح الامین ہے۔ انہیں پیغمبروں کے پاس خدا کی وحی لے کر حاضر ہونے کی خدمت تفویض تھی۔ سورہ شعراء میں جبرئیل کو روح الامین یعنی امانت دار روح کہا گیا ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکامات پیغمبروں تک بے کم و کامت پہنچا دیتے تھے۔
کج ہوں اس وقت سر حشر کلا ہیں اپنی
جب ملیں ساقیٔ کوثر سے نگاہیں اپنی
( ص365)
ساقیٔ کوثر:اس شعر میں ساقیٔ کوثر کہا گیا ہے۔ ساقیٔ کوثر رسول خدا کا لقب ہے۔ آپ بہتوں کو حوض کوثر کا پانی پلائیں گے۔ شیعہ حضرات کے اعتقاد کے مطابق حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساقیٔ کوثر ہیں۔ کوثر بہشت کے ایک حوض کا نام ہے، حوض کوثر کے پانی کو آب کوثر بھی کہا جاتا ہے۔ یہ پانی حوض کرثر سے ایک نہر کے ذریعہ بہشت میں آتا ہے۔ اس کا منبع طوبیٰ کی جڑ ہے۔ کوثر کے تعلق سے جام کوثر کے علاوہ چشمہ ٔ کوثر، حوض کوثر،ساقیٔ کوثر وغیرہ تلمیحات مستعمل ہیں۔
تیرا برق جلوہ رنگیں پہ شیدا ہم بھی تھے
تیرے کوہ طور کے اک روز موسیٰ ہم بھی تھے
( ص293)
کوہ طور:اس شعر میں کوہ طور کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ کوہ طور سریانی زبان میں پہاڑ کو کہتے ہیں۔ اس سے مراد طور سینا لیا جاتا ہے۔ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تجلی خدا وندی کا دیدار کیا تھا۔ یہ پہاڑ بحر قلزم کے دو شاخے پر مصر کے راستے پر واقع بنایا جاتا ہے جب اس پہاڑ پر حکم خدا وندی کی تعمیل میں حضرت موسیٰ پہنچے تو خدا نے ان سے کلام کیا اور اپنے احکامات کی تختیاں انہیں دیں۔ اس کے بعد حضرت موسیٰ نے تجلی الٰہی کا دیدار کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں آگاہ کیا ہ وہ اس کی تاب نہ لاسکیں گے۔ حضرت موسیٰ کے اصرار پر جب جلوہ الٰہی کا ظہور ہوا تو اس کی تاب نہ لاکر طور ریزہ ریزہ ہوگیا اور جل کر سرمہ کی مانند سیاہ ہوگیا۔ موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوگئے۔
طور سے کیا پھر صدائے لن ترانی آئے گی
سچ بتا کیا پھر زلیخا پر جوانی آئے گی
( ص376)
لن ترانی:اس شعر میں لفظ لن ترانی استعمال کیا گیا ہے۔ لن ترانی کے معنی ہیں تو ہرگز مجھے نہ دیکھ سکے گا، یا تو ہر گز دیکھنے کی تاب نہ لاسکے گا۔ یہ تلمیح تجلی باری تعالیٰ سے متعلق ہے۔ حضرت موسیٰ نے طور سینا پر اللہ تعالیٰ سے اس کی تجلی دیکھنے کا اشتیاق ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا ’’ارنی‘‘ یعنی مجھے دیکھا دے، تو اس کے جواب میں خدا نے فرمایا تھا۔ ’’لن ترانی‘‘ یعنی تو میرے دیدار کی تاب نہ لا سکے گا۔اور دوسرا لفظ زلیخا ہے۔ زلیخاء یعنی عزیز مصر فوطیقار کی حسین و جمیل بیوی کا نام تھا جو بنی اسرائیل کے جلیل القدر پیغمبر حضرت یوسف سے والہانہ عشق کرتی تھی۔ اس عشق کی وجہ سے اس کو سارے عالم میں رسوائی ہوئی۔
زلیخاء:زلیخاء عشق یوسف میں اس حد تک مبتلا تھی کہ دن رات حصول مطلب کے حواب دیکھا کرتی تھی لیکن حضرت یوسف نے کبھی اس کی پذیرائی نہ کی۔ جب وہ حضرت یوسف کی جانب سے پوری طرح مایوس ہوگئی تو اس نے اپنے شوہر سے کہہ کر انہیں قید میں ڈلوادیا بعد میں جب یوسف مصر کے خزانوں کے محافظ بنے اور عزیز مصر نے وفات پائی تو زلیخا کا شباب عود کر آیا اور حضرت یوسف کی زوجیت میں آگئی۔
وہ نغمۂِ داؤد پرندوں کی صدا میں
پیراہن یوسف کی وہ تاثیر ہوا میں
( مناظر سحر ، ص 62)
نغمۂ داؤد:اس شعر میں نغمۂ داؤد کا ذکر کیا گیا ہے جو حضرت داؤد علیہ السلام سے وابستہ ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام نہایت خوش الحان تھے وہ جب خدا کی حمد و ثناء کے راگ گاتے تو پرندے ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔ مزا میر داؤد ، نغمۂِ داؤد، لحن وادی کے الفاظ سے یہی مراد ہے۔ ان پر آسمانی کتاب زبورنازل ہوئی۔ معجزہ یہ تھا کہ لوہا ہاتھ میں آتے ہی موم بن جاتا تھا، وہ لوہے کی زرہ آسانی سے بنا لیتے تھے۔
پیراہن یوسف:دوسرے شعر میں حضرت یوسف کے پیراہن سے مراد ہے یعنی (پیراہن یوسف) یوسف حضرت یعقوب کے بیٹے تھے۔ حضرت یوسف کے بھائی قحط سے تنگ آکر مصر میں غلہ خریدنے کے لئے آئے۔ حضرت یوسف ؑ نے ان کو پہچان لیا۔ بہت سا غلہ دیا، سنا کہ ان کے غم میں حضرت یعقوب کی آنکھیں روتے روتے مقفود ہوگئی ہیں۔ انہوں نے اپنی خبر بھیجی اور ان کو مصر بلایا جب حضرت یوسف کا پیراہن پیش کیا۔ انہوں نے پیراہن کو چھوا اور یکایک بینائی عود کرآئی۔ حضرت یعقوب کو پیراہن سے حضرت یوسف کی خوشبو محسوس ہوئی۔
ماخذ:
۱) کلیات جوش ملیح آبادی ؍ ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی
۲) جدید شاعری ؍ ڈاکٹر عبادت بریلوی