جدیدیت اور اردو ادب
ڈاکٹر سمیہ تمکین(جونیئر لکچرر اردو)
حید رآباد۔ انڈیا
کسی بھی زبان کے فروغ کے لیے جدید رجحانات اتنے ہی اہم ہیں جتنا انسانی جسم اور دل و دماغ، یعنی مثال کے طور ہر جسم میں نیا خون بننا بند ہو جائے تو اس کے ساتھ دل و دماغ اور دوسرے اعصاب کی جو کیفیت ہوگی اس کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے اسی طرح اردو شاعری کی بقا اور اس کے ارتقا کے لیے جدید رجحانات کی کارفرمائی اشد ضروری ہے۔ یہ جدید رجحانات ہی ہیں جو ہر دور میں شاعری کا ساتھ دیتے ہیں اور ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کرتے ہیں۔
جامع فیروزاللغات میں جدیدیت کے لغوی معنی کچھ اس طرح سے لکھے گئے ہیں:
’’نیا پن، جدید ہونے کی کیفیت‘
علمی اردو لغت میں جدیدیت کے لغوی معنی کچھ یوں درج کیے گئے ہیں:
’’جدید ہونے کی کیفیت۔ نیا پن‘‘
آکسفورڈ ڈکشنری میں جدیدیت کے لغوی معنی:
’’۱۔ جدید نظریات اور اسلوب وغیرہ میلانات کے معاملے میں مذہبی یقین کے ماتحت روایتی ہم آہنگی کے ساتھ جدید سوچ و خیالات۔
۲۔ جدید معیاد یا اظہار بیان۔‘‘
(انگریزی سے ترجمہ)
جدیدیت کے اصطلاحی معنی اس ادب کے ہیں جو اردو میں ۱۹۶۰ء کے بعد لکھا گیا اور یہ ادب ترقی پسند تحریک کے ردعمل کے طور پر وجود میں آیا۔ جدیدیت میں شعر و ادب کی روایات اور کلاسیکیت سے انحراف ملتا ہے۔فرہنگ ادبی اصطلاحات میں جدیدیت کے اصطلاحی معنی کچھ اس طرح سے درج ہیں:
’’روایت سے بغاوت کا نام جدیدیت ہے یا کلاسیکیت سے انحراف کا نام جدیدیت ہے۔‘‘
جدیدیت کے اصطلاحی معنی کے تعلق سے شمیم حنفی رقم طراز ہیں:
’’ایک اصطلاح کے طور پر اسے سب سے پہلے انیسویں صدی کے اواخر میں کیتھولک عقائد کی قدامت پرستی کے خلاف روشن خیالی کی ایک تحریک کے پس منظر میں برتا گیا۔ ہر وہ رویہ جو زندگی کی پرانی قدروں سے گریز اور نئی قدروں کی جستجو کا پتہ دیتا ہے جدید ہے۔‘‘
پروفیسر کلیم الدین احمد جدیدیت کے اصطلاحی معنوں کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’ ’روایت سے فرار ہونے اور فوری ماضی سے بغاوت کا رویہ۔ منفیت، ایمان سے روگردانی، آرٹ کی قدروں پر بھروسہ، فطرت اور فنی نظام سے بے پروائی، بربریت کی تلاش اور اخلاق سے روگردانی۔ اس قسم کی چیزیں جدیدیت سے وابستہ ہیں حالاں کہ ان میں سے ہر چیز ایک روایت بن سکتی ہے۔‘‘
جدیدیت دراصل مغربی ادب کی دین ہے۔ یوروپ میں جدیدیت کم وبیش چار سو سال پر مبنی ہے۔ جب کہ ہمارے یہاں کی تاریخ قریب سو دیڑھ سو سال کی۔ اس لیے جدیدیت نے جو رنگ یوروپ میں بدلے ہیں ان کے پیچھے کشمکش کی اچھی خاصی تاریخ موجود ہے اس سے قطع نظر ہمارے یہاں جدیدیت ابھی نئی ہے۔
مظہر احمد جدیدیت کی ابتدا کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’جدیدیت کی ابتدا مغرب سے ہوئی وہاں اس کے فروغ کے مخصوص سیاسی و سماجی وجوہات تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مغرب کے مفکرین نے یہ محسوس کیا کہ ان کے خیالات و نظریات سب دھرے کے دھرے رہ گئے اور ایسی ہولناک جنگ ہوئی جس میں لاکھوں انسان ہلاک ہوگئے۔ اس مایوس کن عہد نے ادبی فنکاروں کو بھی جھنجھوڑ دیا۔ انھیں اس بات کا احساس دلایا کہ ان کی سیاسی، تہذیبی، سماجی اور ادبی اقدار ختم ہوگئیں لہذا عدم محفوظیت کا احساس پیدا ہوا یعنی بے اطمینانی نے سر اٹھایا۔ اب ان کا نہ تو زندگی پر اعتماد رہا اور نہ ہی اقدار پر۔۔۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب کا سمجھنے والا ذہن کیا کرے چناں چہ ردعمل کے طور پر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب میں اجتماعیت کے بجائے انفرادیت پر زور دیا جانے لگا ۔۔۔ فرائڈ کے نظریات عام ہوئے۔ ایک نمایاں تبدیلی شعر و ادب میں دیکھنے میں آئی ۔۔۔ ادب کا سماج سے رشتہ ٹوٹ گیا، صنعتی انقلاب کی وجہ سے فرد کا چہرہ بے چہرہ ہوگیا، وہ تنہا اور شکست خوردہ ہوگیا، درد و کرب میں مبتلا ہوگیا۔ لہذا درد و کرب، غم و الم، انفرادیت، نفسیاتی الجھنیں ہی شاعر کا موضوع بن گئے۔‘‘
جدیدیت ایک بین البراعظمی تحریک ثابت ہوئی جو بیسویں صدی کی مختلف دہائیوں میں مختلف ممالک میں پھلی پھولی۔ مثلاً فرانس میں اس کا زمانہ ۱۸۹۰ء سے ۱۹۴۰ء تک مانا جاتا ہے۔ روس میں قبل از انقلاب تا ۱۹۲۰ء یہ مروج رہی۔ جرمنی میں ۱۸۴۰ء تا ۱۹۲۰ء تک رائج رہی۔ انگلینڈ میں یہ بیسویں صدی کے آغاز سے یعنی ۱۹۰۰ء سے ۱۹۳۰ء تک قائم رہی اور امریکہ میں یہ پہلی جنگ عظیم سے لے کر دسری جنگ عظیم کے آغاز تک جدیدیت کا چلن رہا اور ہمارے ہاں اس کا آغاز بیسویں صدی کی چھٹی دہائی سے ہوتا ہے۔
جدیدیت کا ایک تاریخی تصور ہے، ایک فلسفیانہ تصور ہے اور ایک ادبی تصور ہے مگر جدیدیت ایک اضافی چیز ہے یہ مطلق نہیں ہے۔ ماضی میں ایسے بھی لوگ ہوئے ہیں جو آج بھی جدید معلوم ہوتے ہیں اور آج بھی ایسے لوگ ہیں جو ماضی کی قدروں کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں اور آج کے زمانے میں رہتے ہوئے بھی پرانے ذہن کے آئینہ دار ہیں۔
ہمارے ملک میں مجموعی طور پر جدیدیت انیسویں صدی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ جدیدیت مغرب سے آئی۔ یوروپ میں جدیدیت کی تاریخ چار سو سال سے زیادہ کی ہے۔ ہمارے یہاں قریب دیڑھ سو سال کی۔ اسی وجہ سے جدیدیت نے جو رنگ یوروپ میں بدلے ہیں ان کے پیچھے کشمکش اور آویزش کی اچھی خاصی تاریخ ہے اس کے مقابلے میں ہندوستان میں جدیدیت نوعمر ہے اور ہندوستانی ذہن ابھی تک مجموعی طور پر جدید نہیں ہوسکا۔
اردو میں جدیدیت کے اثرات ہندوستان کی آزادی کے زمانے سے نظر آنے لگے تھے۔ جب آزادی کے بعد نصب العین کی شکست فرد کا مقدر بن کر سامنے آئی تو تعصب، نابرابری، اہلیت و قابلیت کی ناقدری اور غیر قانونی سرمائے کے افراط وغیرہ جیسے عوامل نے حساس ذہن کے مالک فرد کو مایوس کر دیا اس کے علاوہ بیرونی، سیاسی اور ثقافتی اثرات کا دباؤ بھی ذہنی، فکری اور اعتقادی ارتکاز کو متزلزل ہی کیے رہا جس کے نتیجے میں مایوس و برگشتہ ذہن کا اظہار مایوسی اور برگشتگی کا اظہار بن گیا جس کی مثالیں موجودہ ادب اور فن میں کثرت سے موجود ہیں۔
بیسویں صدی میں علوم و فنون کی گونا گوں کیفیت میں جدیدیت کے اثرات نمایاں بیسویں صدی میں علوم و فنون کی گونا گوں کیفیت میں جدیدیت کے اثرات نمایاں طورپر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس صدی میں دو عالمی جنگوں اور تیسری جنگ کے خوف نے مزید فکری انحراف اور بے اعتقادی کو پروان چڑھایا ہے اس لیے دنیا بھر کے (عصری) جدید ادب میں مختلف رنگوں میں جدیدیت پھل پھول رہی ہے۔
جدیدیت اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانیت۔ کیوں کہ انسان نے ہمیشہ جدید سے جدید ہونے کی کوشش کی ہے جس کے تعلق سے پاکستانی رائٹر ڈاکٹر افتخار حسین کہتے ہیں:
’’بقا اور فلاح کے پیش نظر تغیرات کے مقابلے یا مطابقت کے لیے انسان کی سعی پیہم کا نام جدیدیت ہے۔ جدیدیت کوئی شے نہیں ہے بلکہ جدیدیت اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسانیت۔‘‘
جدیدیت کا لفظ دراصل جدید سوچ، جدید کردار اور عمل کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ ہمدردی کے ساتھ مطابقت اور جدید تصوریت دستور اور پرچم دراصل جدیدیت ہے۔ جدیدیت کا رشتہ دراصل حالیہ وقت اور موجودہ جدید تاریخ کے درمیان ہے جو حالیہ وقت اور موجودہ ہم عصر زمانے کا مخصوص اظہار ہے۔جدیدیت پسند ادب نے آدمی بہ حیثیت فرد اور اس کے وجود کی شناخت پر اصرار کیا۔ گویا اس کی فردیت ہی جدیدیت کا اول و آخر مطمع نظر ہے۔ جدیدیت پسند ادب نے عصر حاضر میں آدمی کی زندگی کے محض منفی، سیاہ اور وجودی اطراف و جوانب کی روحانی زلزلہ پیمائی کو منعکس کیا۔دراصل جدیدیت ایک رجحان ہے جو کئی رجحانات کا مجموعہ ہے۔ جدیدیت کے تعلق سے غزالہ اشفاق ’’شب خون‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’جدید ادب کی یہ تحریک جس کو آپ رجحان قرار دیتے ہیں اس نقطہ نظر پر مبنی معلوم ہوتی ہے کہ اجتماعی ذمہ داری اور اجتماعی احساس کے بجائے انفرادی احساسات اور انفرادیت کی بے قید و بند نشوونما پر ساری توجہ صرف کی جائے۔ دوسرے یہ کہ ابلاغ کی ذمہ داری کو فنکار کے بجائے قاری یا سامع کی ذمہ داری سمجھا جائے۔ اگر صرف نیا پن کسی رجحان یا تحریک کی بنیاد بن سکتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ یہ دونوں باتیں پوری طرح نئی ہیں اور ان میں دلکشی و دلچسپی کے وہ سارے عناصر پنہاں ہیں جن سے عام قبولیت کا دائرہ وسیع ہوتا ہے لیکن اکثر اوقات میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس دلکشی و دلچسپی کی بنیاد غیر منطقی انداز نظر پر تو نہیں قائم ہے۔‘‘
جدت خلا میں پیدا نہیں ہوتی اور نہ ہی روایت سے ہٹ کر یا روایت کو چھوڑ کر یا روایت سے منھ موڑ کر کوئی معنی نہیں رکھتی۔ جدت روایت سے اس طرح جڑی ہوتی ہے کہ یہ بتانا مشکل ہو جاتا ہے کہ روایت کہاں ختم ہوتی ہے اور جدت کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے لہذا یہاں یہ امر واضح ہو جانا چاہیے کہ ’’جدت‘‘ ایکدم، اچانک سے پیدا نہیں ہوتی بلکہ مختلف مسافات طے کر کے ایک مقام پر یا ایک مرکز پر پہنچتی ہے۔
جدیدیت میں ذات کے عرفان کا مسئلہ بھی اہمیت کا حامل ہے اس میں ایک مذہبی جوش دکھائی دیتا ہے۔ جدید دور میں ذات کے مسئلہ پر فکر وجودی فکر میں خاص طور سے ظاہر ہوتی ہے۔ جدیدیت پسند ادب کو قطعاً ناوابستہ اور بہ ذات خود ایک مقصد تصور کرتے تھے، محض ادبی کسوٹی یا ادبیت اس کا نشانِ امتیاز تھا۔ جدیدیت نے ایسی غیر عقلی اور غیر منطقی شعری اور فکشنی تحریرات کے لیے وجدان، ویژن (شاعرانہ خواب عرفان) اور باطن کی گہرائیوں کی اندرونی آواز پر بھرپور زور ڈالا۔جمیل جالبی اپنے مضمون ’’کچھ جدیدیت کے بارے میں‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’جدیدیت ایک اضافی چیز ہے وہ چیز جس کا تعلق کسی لمحہ خاص زمانہ یا دور سے ہوگا وہ اضافہ ہوگی مطلق نہیں ۔۔۔ ایک زمانہ میں جدیدیت سر سید کی تحریک کا نام تھا ۔۔۔ ۱۹۲۰ء کے قریب ٹیگوریت اور رومانی تحریک جدیدیت کے مترادف تھی۔ ۱۹۳۶ء میں جدیدیت ترقی پسندی کا نام تھا۔ ۱۹۴۷ء کے بعد اجتماعی شعور کا اظہار نئی غزل کے روپ میں جدیدیت کہلا تا تھا۔ لیکن آج ۱۹۶۸ء میں ہم ان میں سے کسی کو بھی جدیدیت کہہ سکتے ہیں؟ اگر اس کا جواب نفی ہے تو اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ جدیدیت ایک اضافی چیز ہے جس کے معنی ہر نسل کے ساتھ ہر دور میں بدل جاتے ہیں۔‘‘
اردو کے جدیدیت پسند شعرا زندگی کی بابت اپنی گہری قنوطیت زدگی اور فراریت کے باوجود ادب میں جمالیاتی اور فنی تحرک اور نت نئی ادبی و شعری تجربہ پسندی میں کامل یقین رکھتے تھے اور انھوں نے متعدد کامیاب ترین فکشن اور شعری تجربے بھی کیے ہیں۔ جدیدیت پسند تحریک نے اردو ادب میں مواد اور ہیئت کی نہ صرف ازسرنو تعریف متعین کی بلکہ اس کی ازسر نو تشکیل بھی کی ہے۔ ہندوستان میں شمس الرحمن فاروقی اردو ادب میں جدیدیت پسند تحریک اردو کے جدیدیت پسند شعرا زندگی کی بابت اپنی گہری قنوطیت زدگی اور فراریت کے باوجود ادب میں جمالیاتی اور فنی تحرک اور نت نئی ادبی و شعری تجربہ پسندی میں کامل یقین رکھتے تھے اور انھوں نے متعدد کامیاب ترین فکشن اور شعری تجربے بھی کیے ہیں۔ جدیدیت پسند تحریک نے اردو ادب میں مواد اور ہیئت کی نہ صرف ازسرنو تعریف متعین کی بلکہ اس کی ازسر نو تشکیل بھی کی ہے۔ ہندوستان میں شمس الرحمن فاروقی اردو ادب میں جدیدیت پسند تحریک کے علم بردار ناقد ہیں۔جدید شاعری کے ایسے اشعار خاصی تعداد میں پیش کیے جاسکتے ہیں جن میں انفرادیت بھی ہے اور تازگی بھی۔ مثلاً:
میں ڈھونڈنے چلا ہوں جو خود اپنے آپ کو
تہمت یہ مجھ پر ہے کہ بہت خودنما ہوں میں
(خلیل الرحمن اعظمی)
اس بلندی سے مجھے تم نے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
(مرتضیٰ برلاس)
کچھ اور بھی تو شیش محل راستے میں تھے
کیوں ہم فقط نشانہ سنگ ستم بنے
(سیف زلفی)
جدیدیت کے تعلق سے جو باتیں مشترکہ طور پر ابھر کر سامنے آئی ہیں اس کے تعلق سے جمیل جالبی چند ایک نکات میں یوں واضح فرماتے ہیں:
’’۱۔سنسنی خیزی کی شعوری کوشش جس سے پڑھنے والا چونک جائے اسے تجربے کا نام دیا جاتا ہے۔
۲۔روایت کو روندنے، کھودنے اور کچلنے کی شعوری کوشش۔ یہاں روایت کو رد کرنے کے لیے روایت سے پوری واقفیت کا پتا نہیں چلتا اور لکھنے والے کو روایت کی تخلیقی معنویت سے بھی کوئی سروکار نہیں ہوتا بس روندنا، کھودنا ہی تخلیقی عمل ہے۔
۳۔لفظ و معنی کے رشتے سے بے نیازی، اظہار کے سانچے اور ہیئت کا فقدان، جو نتیجہ ہے اپنے سے پہلے کے ادب کا مطالعہ نہ کرنے کا اورا دب کی قومی و آفاقی روایت سے عدم واقفیت کا۔‘‘
جدیدیت کا تعلق صرف شعر و ادب سے نہیں بلکہ پوری زندگی سے ہے۔ ترقی پسند تحریک والوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم سماج کو ادب کے ذریعہ بدل ڈالیں گے یہ ان کی بنیاد تھی مگر جدیدیت والوں نے ایسا نہیں کیا۔ ناصر عباس نیر لکھتے ہیں:
’’جدیدیت کا تعلق محض ادب سے نہیں ہے۔ تمام معاشرتی علوم میں اسے ایک جدید اور مستقل موضوع کا درجہ حاصل ہے۔ علاوہ ازیں یہ ایک معاشرتی ارتقا اور تہذیبی رجحانات کی نمائندہ بھی ہے اور ایک تاریخی تناظر بھی رکھتی ہے۔ اس لیے جدیدیت کو واضح کرنا آسان ہی رہے گا۔‘‘
جدیدیت زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھتی ہے۔جدیدیت کی سب سے بڑی پہچان ’’ناوابستگی‘‘ ہے۔ اس طرح سے جب ان لوگوں نے ناوابستگی پر یقین کرنا شروع کیا تو جدیدیت کے تین بڑے دائرے بن گئے۔
(۱) انفرادیت، (۲) داخلیت، (۳) اختراع پسندی۔
(۱) انفرادیت
انفرادیت کے لغوی معنی ’’اکیلا‘‘ اور ’’اکیلا پن یا منفرد ہونے کے ہیں۔ ترقی پسند تحریک اجتماعیت پر مبنی تھی جب کہ جدیدیت انفرادیت پر چلتی ہیں۔ جب ترقی پسند تحریک ختم ہوئی تو جدیدیت والوں نے سب سے پہلی ضرب اجتماعیت پرلگائی۔ جدیدیت نے وجود کے اندر جھانکنا سکھایا۔ جدیدیت کی سب سے بڑی مثال انفرادیت پسندی ہے ’’I think‘‘ دراصل انفرادیت کا مظہر ہے۔
جدیدیت کا فلسفہ یہ ہے کہ اس نے ترقی پسند تحریک کی اجتماعیت کو مار گرایا اور کہا کہ اگر انفرادی شخصیت رکھتے ہوں تو انفرادیت کو دیکھو۔ جدیدیت کا پہلا ستون انفرادیت ہے۔
(۲) داخلیت
داخلیت کا سرسری بیان یہ ہے کہ جب کوئی اپنے اندر جھانک کر دیکھتا ہے تو اسے اپنی صلاحیت نظر آتی ہے مگر وہ اس کا غلط استعمال کرتا ہے تووہ ناکام آدمی ہے جب کہ اگر وہ اپنے داخل میں جھانک کر اپنی صلاحیت کو بروقت استعمال کرتا ہے اور اسے صحیح سمت پر لگاتا ہے تو یہ ایک کامیاب آدمی ہے۔ جدیدیت نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ اگر تم انفرادیت رکھتے ہو تو داخلیت میں جھانک سکتے ہو اور اپنے وجود کو سمجھ سکتے ہو کہ تم کون ہو ۔۔۔؟
خدا کائنات وجود
اگر انسان اپنے آپ کو سمجھ لیتا ہے تو وہ خود بہ خود ہی کائنات اور خدا کو پہچان لیتا ہے اور ہماری پہچان وجودیت (داخلیت ) ہے۔
(۳) اختراع پسندی
کسی بھی نئی چیز کی تخلیق کو اختراع کرنا کہتے ہیں۔ اختراع کی ترقی اسی وقت ہوسکتی ہے جب ہم انفرادیت رکھتے ہیں جدیدیت میں اختراع پسندی پر زیادہ زور دیا جانے لگا۔
ترقی پسندی (کچھ بھی نہیں تھا)
جدیدیت (اختراع پسندی آگئی)
اختراع پسندی پر لوگ آنکھ بند کر کے عمل کرنے لگے جس کی وجہ سے جدیدیت بدنام ہونے لگی کیوں کہ اختراع پسندی کی وجہ سے بے ہنگم چیزیں اختراع کرنے لگے۔
اختراع پسندی کی وجہ سے شاعر و ادیب اعتدال سے ہٹ گئے تو لفظ گونگے بن گئے ان کی جگہ دائروں اور لکیروں نے لے لی۔ جس کی وجہ سے جدیدیت کو بہت نقصان ہوا۔ ایسا ادب وجود میں آنے لگا جو بہت قابل تعریف نہ تھا۔ لوگوں نے اس کی کئی طرح سے توجیح کی۔ مثال کے طور پر آل احمد سرور لکھتے ہیں:
’’جدیدیت ایک بت ہزار شیوہ ہے اس لیے ادب میں یہ سورنگوں سے جلوہ گر ہوتی ہے کہیں یہ علامت سے کام لیتی ہے، کہیں ابہام سے، کہیں پرائیویٹ حوالوںسے، یہ رومانیت کی توسیع کہلانے کے باوجود مخالف رومانیت ہے۔‘‘
جدیدیت سے اردو ادب کو بہت فائدہ ہوا۔ جدیدیت نے اردو ادب کو اظہار کے نت نئے طریقے رائج کیے جس کی وجہ سے ادب کا کینوس وسیع ہوتا چلا گیا مثال کے طور پر وجودیت، اظہاریت، سرریلزم اور داداازم وغیرہ کو کوئی نہیں جانتا تھا مگر جدیدیت نے ان تمام کو پیش کیا۔جب کوئی نئی چیز وجود میں آتی ہے تو پرانی چیزوں کی نفی کرتے ہیں اسی طرح جدیدیت کی بنیاد بھی نفی پر ہے جس کے تعلق سے باقر مہدی لکھتے ہیں:
’’جدیدیت کا حرف اول بھی نفی رہا ہے اور اس نفی کا دوسرا قدم اظہار و بیان میں تجربات کے دشت امکاں میں رکھا جاتا ہے۔‘‘
ترقی پسند تحریک میں اظہار کے جو طریقے تھے۔ جدیدیت میں اس کی نفی کی گئی اور اظہار کے نئے نئے طریقے اپنائے گئے۔ راست انداز کے بجائے بالراست انداز کو اپنایا گیا۔بہرکیف جدیدیت، ترقی پسند کی ردعمل کے طور پر ابھرنے والا ایک ایسا رجحان ہے جو کئی ایک رجحانات کا مجموعہ ہے۔ جدیدیت میں ترقی پسند تحریک کی نفی کی گئی مثلاً ہیئت، تجربے، مواد اور اسلوب وغیرہ۔
نئے لکھنے والوں نے زبان کی جکڑ بندیوں کو توڑا، محاوروں سے اپنے آپ کو آزاد رکھا۔ اسلوب میں نئے نئے تجربات کیے، شاعری کو تہہ دار بنایا۔ پرانی علامتوں، استعاروں سے پہلو تہی کرتے ہوئے ان کی جگہ نئی نئی علامتیں، استعارے وجود میں لائے۔ اپنے اندرونی جذبات و احساسات کا دلکش انداز میں اظہار خیال کیا۔جدید اردو شاعری میں ایک قسم کی شگفتگی و شادابی پائی جاتی ہے اور اس کی مثالیں ہمیں موجودہ دور کی نظموں اور غزلوں میں دکھائی دیتی ہیں مثال کے طور پر دیکھیے محمد علویؔ کی نظم:
کون
کبھی دل کے اندھے کنوئیں میں
پڑا چیختا ہے
کبھی دوڑتے خون میں
تیرتا ڈوبتا ہے
کبھی ہڈیوں کی سرنگوں میں
بتی جلا کے
یوں ہی گھومتا ہے
کبھی کان میں آکے
چپکے سے کہتا ہے
تو اب تلک جی رہا ہے
بڑا بے حیا ہے!
میرے جسم میں کون ہے یہ
کچھ اور اشعار دیکھیے
جو مجھ سے خفا ہےٹھہری ہے تو اک چہرے پہ ٹھہری رہی برسوں
بھٹکتی ہے تو پھر آنکھ بھٹکتی ہی رہی ہے
(وحید اخترؔ)
چراغ بزم ابھی جان انجمن نہ بجھا
کہ یہ بجھا تو ترے خد و خال سے بھی گئے
(حامد عزیز مدنیؔ)
میں بکھر جاؤں گا زنجیر کی کڑیوں کی طرح
اور رہ جائے گی اس دشت میں جھنکار مری
(ظفر اقبالؔ)
محمود ایاز کی یہ نظم جدیدیت کی بھرپور عکاسی ہے:
شب چراغ
بسوں کا شور، دھواں، دھوپ کی شدت
بلند و بالا عمارت، سرنگوں انساں
تلاش رزق میں نکلا ہوا یہ جم غفیر
لپکتی بھاگتی مخلوق کا یہ سیل رواں
ہر اک کے سینے میں یادوں کی منہدم قبریں
ہر ایک اپنی ہی آواز پا سے روگرداں
یہ وہ ہجوم ہے جس کا خدا فلک پر نہیں
اور اس ہجوم سرراہ سے گزرے ہوئے
نہ جانے کیسے تمھاری وفا، کرم کا خیال
مری جیبیں کو کسی دست آشنا کی طرح
جو چھو گیا ہے تو اشکوں کے مسوتے پھوٹ پڑے
سموم دریگ کے صحرا میں اک نفس کے لیے
چلی ہے یاد تمنا تو عمر بھر کی تھکن
سیر مزہ سمت آئی ہے ایک آنسو میں
یہ وہ گہر ہے جو ٹوٹے تو خاک پا میں ملے
یہ وہ گہر ہے جو چمکے تو شب چراغ بنے
بہرکیف جدیدیت ایک بت ہزار شیوہ ہے اور اس کی کوئی سیدھی سادی تعریف ممکن نہیں کیوں کہ اس میں کئی ایک میلانات کام کررہے ہیں کچھ لوگ جدیدیت کو صرف عقلیت، سائنسی علم یا انسان اور اس کے شعور میں مکمل اعتماد کے مترادف سمجھتے ہیں تو کچھ لوگ فطرت، انسان، فرد اور سماج کے بہتر علم، ماضی کے حال میں موجود رہنے اور حال کو متاثر کرنے اور بڑھتے ہوئے علم کے ساتھ بڑھتے ہوئے خطرات کے احساس، بلندیوں میں پستی دیکھنے اور دکھانے کو بھی جدیدیت سمجھتے ہیں۔آل احمد سرور کے مطابق جدیدیت دراصل ہنری جیمس کی Imagination of disaster بھی ہے اور Vision of a whole situation بھی۔ الغرض جدیدیت کی روایت بڑی تہہ دار، پہلودار اور جاندار ہے۔