اظہارِ دیارِ محبت اور سبیلِ بخشش
مرزا حفیظ اوج(معاون مدیر :سہ ماہی ورثہ)
صدر شعبہ، پیسفک گروپ آف کالجز ملتان
میری حالیہ تصنف “نعت برنگِ شمائل” شائع ہوئی تو سب سے پہلے مجھے واٹس ایپ پر مبارکباد کا ایک میسج موصول ہوا جو گوجر خان سے تعلق رکھنے والے خوبصورت شاعر “سلطان محمود چشتی” کا تھا. جب گفتگو مزید بڑھی تو معلوم ہوا کہ موصوف ایک نعتیہ مجموعہ “سبیلِ بخشش” کے خالق بھی ہیں. ان کی نعت سے وابستگی نے مجھے تجسس میں ڈال دیا کہ ان کو کچھ نہ کچھ جانا جائے تو مزید مسیجز کا سلسلہ شروع ہوا. میں سلطان محمود چشتی صاحب کو اتنا زیادہ تو نہیں جانتا مگر ظلِ نعت میں باقی تمام نعت نگاروں کی طرح ہم دونوں بھی کھڑے ہیں۔موصوف کے نام میں ہی ان کا سلسلہ طریقت شامل ہے جو انہیں گولڑہ سے حاصل ہے. ان کی تصنیف پر کلام کیا جائے تو “سبیلِ بخشش” کے ضابطہ میں ایک حمد اور 76 نعوت شامل ہیں جبکہ آخری میں عاجزانہ سلام کے عنوان سے ایک کلام شامل ہے۔
فی زمانہ نعت کثرت سے ضمنِ نعت میں کہی جا رہی ہے جن کے موضوعات میں التجائیں، گزارشیں، اپنی بے مائیگی، گناہوں کی کثرت پر شرمندگی، حالاتِ ناگزیر کا ذکر اور دربار رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں اس کی داد رسی کی آرزو، استغاثے، خواہشات، عشق و محبت کا اظہار اور آزوئے مدینہ اور دیار محبت کے در و بام جیسے عنوانات شامل ہیں جبکہ خالص نعتیہ اشعار کی ریشو بہت کم ہے حالانکہ نعت کا لفظی مطلب ہی رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدح سرائی بیان کرنا ہے. تبھی مندرجہ بالا تمام عنوانات کو ضمنِ نعت قرار دیا گیا ہے کیونکہ استغاثہ بھی تو مداح ممدوحِ خدا ہی سے ہوتے ہیں. بہرحال زیرِ مطالعہ نعتیہ مجموعہ “سبیلِ بخشش” بھی زیادہ تر بیان کردہ موضوعات پر مشتمل ہے مگر کہیں کہیں قرآنی استدلال اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے استفادہ کرتے ہوئے نعتیہ اشعار بھی شامل ہیں. جیسے سورۃ النجم کی آیت نمبر 3 اور 4 وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰى. اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰى کے موضوع کو یوں بیان کیا:
نہیں بولتے ہیں وہ مرضی سے اپنی
بیانِ نبی سب خدا کا بیاں ہے
نبی رحمت، شفیع امت، تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جودوسخا کا اظہار یوں کیا:
سخاوت ہے ان کی دو عالم پہ اب تک
ہے شہرہ بہت ان کی جودو سخا کا
وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (الضحٰی:11) کے موضوع کو شعری پیرائے میں یوں ڈھالا:
سراپا کرم جن کو کہتی ہے دنیا
وہ خالق کا احساں ہمارے محمد
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰى (النجم:9) میں موجود قاب قوسین کا تذکرہ کرتے ہوئے خوبصورت اظہاریہ اختیار کیا:
منزلِ عشق سے قاب قوسین تک
دید کی انتہا آج کی رات ہے
قَالَ لَنْ تَرٰىنِیْ (الاعراف : 143) کے موضوع کو سلطان محمود چشتی نے خوبصورت باندھا:
لن ترانی کا ارشاد بھی ہے بجا
قُم حبیبی صدا آج کی رات ہے
وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ (الصف:6) اور سابقہ صحائف و الہامی کتب میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشن گوئی کا ذکر اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ کا ذکر اس شعر میں یوں کیا:
صحیفوں میں ان کا ہے ذکرِ مبارک
رسولوں میں ختم الرسل محترم ہیں
سورۃ اللیل سے “والیل” اور سورۃ النجم کی آیت نمبر 17 مَا زَاغَ الْبَصَرُ سے “مازاغ” کو شعری قالب میں خوب ڈھالا
ہیں والیل زلفیں
ہے مازاغ دھاری
تحویل قبلہ کی آیت قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا۪-فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ(البقرہ: 144) کو بھی نہایت عمدگی سے برتا ملاحظہ ہو:
خالق نے کہا دیکھ کے اٹھتا ہوا چہرہ
قبلہ بھی اُدھر ہوگا یہ رخ تیرا جدھر ہو
“سبیل بخشش” میں سلطان محمود چشتی نے دیارِ حبیب کے تذکرے اس قدر زیادہ کئے کہ جنہیں پڑھ کر لگتا ہے کہ موصوف کا زیادہ سے زیادہ وقت اسی سوچ میں گزرتا ہے کہ وہ کیسے اور کب مدینہ منورہ کی طرف عازمِ سفر ہوں، کہیں دربار رسالت مآب کا ذکر ہے تو کہیں مدینے جانے کی آرزو، کہیں فرشتوں کا وہاں اترنا لکھا ہے تو کہیں ان کے ساتھ مل کر دردو و سلام پڑھنے کی آرزو، کہیں دیارِ محبت میں نمازِ محبت کی ادائیگی کے تذکرے تو کہیں مستقل مدینہ آنے جانے کی التجا، کہیں بارِ دیگر مدینہ بلائے جانے کی آرزو، تو کہیں وہاں پہنچ کر خود کو مٹانے کی خواہش، کبھی مدینے بلاوے کی مبارک خبر سننے کی کیفیت تو کبھی وہاں شام و سحر گزارنے کی آرزو، وہاں اپنی موجودگی اور زیارات سے تھکن کےباوجود اسے خاطر میں نہ لانے کا اظہار، کہیں بار بار مدینے بلائے جانے پر خود کو مقدر کا سکندر کہنا، کہیں یہ کہنا کہ سانسوں کہ روانی اور جسم میں حرارت اسی لئے ہے کہ دیارِ محبت کے پر نور منظر کو دیکھا جائے، کبھی مدینہ منورہ کو مثل جنت کہتے ہوئے اس کی سجاوٹ کا دلپذیر ذکر کرنا، کہیں کہیں سلطان محمود چشتی مدینہ منورہ کی فضاؤں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہاں چلنے والی ہوا ہر وقت معطر و معنبر ہوتی ہے۔
قاسمِ نعمت، نبیء رحمت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شہر کے اذکار میں عطاؤں اور کریمی کو ان سے منسوب کرنا گو کے ہر نعت گو شاعر کے ہیں ملتا ہے اور کیوں نہ ہو حقیقت بھی یہی ہے اسی موضوع کو سلطان محمود چشتی نے متعدد مقامات پر خوبصورت انداز میں باندھا، اور زندگی کی تمام بہاریں، حیات نو، جلا و بقا، آسودگی و خوشحالی ، گل و گلستاں پر رنگوں کی برسات، آبشاروں کی روانی، پھولوں کی مہکار، پرندوں کی چہکار الغرض حیات کے حقیقی معنی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے منسوب کیا. نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی محفل کی کیف آوری کا منظر لفظوں میں کیا بیان کیا جا سکتا ہے اور کون کر سکتا ہے مگر موصوف نے بہتر انداز سے باندھا۔
سلطان محمود چشتی نے اپنی کتاب “سبیلِ بخشش” میں دیار رسول ما صلی اللہ علیہ والہ وسلم اور مسجد نبوی کے میناروں کی ضیاؤوں سے چاند کے شرمندہ ہونے کا ذکر کیا، کہیں مدینہ منورہ کے درختوں اور پتوں کی سبزگی اور تازگی اور بہاروں کی جوانی سے دو عالم میں موجود رنگ حنا سے تشبیہ دی، کہیں طیبہ کے ذرات کو رشکِ عالم کہا، الغرض موصوف نے دیارِ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ایسے ایسے تذکرے کئے جو نہ صرف لاجواب ہیں بلکہ کیف آفریں بھی ہیں۔
سبیلِ بخشش میں بعض مقامات پر مدینہ منورہ کے موضوع پر نہایت اچھوتے خیال بھی ملتے ہیں جیسے
مجھے اس کی تصویر لینے دے درباں
مرے دل کا روشن اسی سے جہاں ہے
جہاں ان کے نقش قدم کا نشاں ہے
وہ ٹکڑا زمیں کا حدود جناں ہے
میں ان کے روبرو جاؤں کیسے؟
کہ اک حدِ ادب ہے اور میں ہوں
ہے آٹھوں پہر جو طوافِ حرم میں
مدینے کی ہم وہ ہوا ڈھونڈتے ہیں
حجازِ مقدس کا ہر ایک ذرہ
ہمارے لئے تو وہ قبلہ نما ہے
بڑا عنبرین ہے مدینے کا موسم
مدینے کی رنگیں قبا آج مانگو
اور آخر میں اپنی کم مائیگی، الفاظ کی قلت، عاجزی و انکساری کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
مدینے کی توصیف ممکن ہو کیسے؟
مدینے کا ہر اک نشاں معتبر ہے
المختصر سبیلِ بخشش میں سلطان محمود چشتی نے دیارِ محبت کے بے شمار تذکرے کیے جو ہر نعت میں موجود ہیں سوائے سات سے آٹھ نعوت کے، اور کچھ نعوت میں اشعار کی تعداد ایک سے زائد ہے جبکہ بطور ردیف مدینہ کا استعمال بھی چند نعوت میں ہے. آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ و رسول عزوجل و صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں ان کا نذرانہ عقیدت قبول ہو اور ان کے لئے نجات کا وسیلہ بنے۔ آمین