ولی دکنی حیات و غزل گوئی
ابوالبرکات شاذ قاسمی
تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہاں بتیا ای
قدیم اردو کے اکثر و بیشتر شعراء کی طرح ولی دکنی کی ابتدائی زندگی کے احوال کے لئے مستند معلومات کی کمی ہے تاہم اتنا تسلیم کیا جاتا ہے کہ ان کا نام ولی محمد تھا اور ان کے والد محترم کا نام شریف محمد تھا جو گجرات کے مشہور بزرگ شاہ وجیہ الدین کے بھائی شاہ نصراللہ کی اولاد میں سے تھے ولی 1649 سے قبل اورنگ اباد میں پیدا ہوئے ولی کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں بھی معلومات حاصل نہیں ہو پائی ہے اتنا معلوم ہو پایا ہے کہ انہوں نے حصول علم کے لئے بہت سی جگہوں کے سفر کئے گجرات احمد اباد اور دلی کی سیاحت اسی میں آجاتی ہے لیکن قطعی طور پر ان کی تعلیم کے بارے میں یہ کہنا کہ کہاں اور کس طرح ہوئی بہت مشکل ہے۔ ڈاکٹر نورالحسن ہاشمی نے لکھا ہے” ولی نے احمد اباد میں شاہ وجیہ الدین کی خانقاہ کے مدرسے میں تعلیم پائی اور وہی شاہ نور الدین صدیقی سہروردی کے مرید ہوئے (ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کلیات ولی صفحہ نمبر 11 )ولی کے کلام کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تعلیم یافتہ انسان تھے قرآن حدیث اور فقہ پر گہری نظر رکھتے تھے فارسی سے اچھی طرح واقف تھے اپنے زمانہ کے تقریباً تمام مروجہ علوم پر دسترس رکھتے تھے سیر و سیاحت سے بھی بڑی دلچسپی تھی کہا جاتا ہے کہ وہ حج بیت اللہ اور زیارت مدینہ منورہ کے لئے گئے تھے اور اسی سلسلے میں سورت بھی گئے جو اس زمانہ میں حج کرنے کا راستہ تھا ان کی سیاحت میں سفر دلی بڑا انقلاب انگیز اور بڑا دلچسپ ہے اسی سفر نے شمالی ہند کی ادبی تاریخ کا رخ موڑ دیا یہ سفر انہوں نے سن 17 عیسوی میں اپنے دوست سید ابو المعالی کے ساتھ کیا تھا ولی کا انتقال 1720 اور 1725 کے درمیانی عرصہ میں ہوا ہے۔
ولی دکنی کو اردو کے تمام اصناف پر عبور حاصل تھا ان کے کلیات “کلیات ولی” میں تقریباً تمام اصنافِ سخن پر مشتمل کلام ملتا ہے لیکن جس صنف نے انہیں شہرت عام و بقائے دوام بخشی وہ غزل ہے۔ کلیات میں غزل ہی کا حصہ زیادہ بھی ہے اور وقیع بھی ۔ ادب میں مختلف اصناف مخصوص تہذیبی سماجی اور ذہنی اثرات کے تحت قبولیت حاصل کرتے ہیں غزل بھی خاص تہذیبی حالات میں پیدا ہوئی لیکن اس صنف نے وقت کی تبدیلی کے ساتھ خود کو بھی بدل لیا شاید اس نے سب سے زیادہ سیاسی سماجی تہذیبی اور ادبی انقلابات دیکھے جب اور جہاں جیسی ضرورت ہوئی ویسی ہی شکل اس نے اختیار کر لی اور دل میں اتر گئی خارجیت کا چلن ہوا تو سارے بندھن توڑ ڈالے، گیتوں کی فضا میں گیتوں کی مدھورتا غزل نے اپنے اندر سمولی، تصوف کا زور بڑھا تو اسی کو اپنا خاص رنگ بنا لیا، داخلیت کا اظہار ہوا تو دل سے نکلی اور دل میں اتر گئی، سماجی اور تہذیبی تبدیلی کے ساتھ وقت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے غزل اپنے دامن کو وسیع کرتی گئی مختلف مضامین اس میں جگہ پاتے گئےفلسفیانہ مضامین کو جگہ ملی، صوفیانہ خیالات بھی آئے ،آلامِ روزگار اور فکرِ معاش بھی ، زندگی کا شکوہ بھی اور شادمانی کا ذکر بھی، موضوعات کی اس رنگا رنگی اور طرز ادا کی اس نشیب و فراز کے باوجود غزل کا موضوع بنیادی طور پرعشق و محبت ہی رہا ولی کی غزلوں میں ہمیں مندرجہ بالا تمام رنگ کہیں نہ کہیں گہرے اور کہیں مدہم نظر آتے ہیں۔
ولی ایک بلند پایہ غزل گو شاعر تھے ان کی عظمت کا اعتراف شمالی ہند کے کئی بڑے شاعروں نے کیا ہے شاہ حاتم لکھتے ہیں :
حاتم یہ فن شعر میں کچھ تو بھی کم نہیں
لیکن ولی، ولی ہے جہاں میں سخن کے بیچ
آبرو نے کہا ہے:
آبرو شعر ہے تیرا اعجاز
پر ولی کا سخن قیامت ہے
میر تقی میر کا کہنا ہے:
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
ولی کے کلام میں بلا کی رنگینی اور دلکشی پائی جاتی ہے اُس کی وجہ غالباََ یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں اس کا براہ راست تعلق ان کے جذبات و احساسات اور تجربات سے ہوتا ہے ان کے اکثر و بیشتر اشعار ان کے دل میں پہ گزری ہوئی واردات کا اظہار ہے ان کی شاعری میں حسن و عشق کی بڑی اہمیت ہے ان کی شاعری کا محور حسن اور عشق ہی ہے انہوں نے اپنی شاعری میں یہ ذکر بھی کیا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لئے مجاز کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہتے ہیں:
تواضع خاک ساری ہے ہماری سرفرازی ہے
حقیقت کے لغت کا ترجمہ عشق مجازی ہے
یا پھر ان کا یہ بھی کہنا ہے
شغل بہتر ہے عشق بازی کا
کیا حقیقی و کیا مجازی کا
مجازی عشق کا بیان ولی نے پوری فنکاری اور مہارت کے ساتھ کیا ہے اپنے محبوب کی تعریف اور اس کی سراپا نگاری انہوں نے جس انداز سے کی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ولی کی جمالیاتی حِس بہت شدید ہے ان کے کلیات کے بیشتر اشعار ایسے لطیف اور تیز احساسِ جمال کی تصویر پیش کرتے ہیں جس کی مثالیں اردو شاعری میں بہت کم ہے اسی احساسِ جمال نے انہیں اردو کا سب سے بڑا سراپا نگار بنا دیا ہے اشعار بطور مثال ملاحظہ کیا جائے۔
قد ترا رشکِ سروِ رعنا ہے
معنی نازکی سراپا ہے
تجھ بھنواں کی میں کیا کروں تعریف
مطلع شوخ و رمز و ایما ہے
کیوں نہ مجھ دل کو زندگی بخشے
بات تیری دبے مسیحا ہے
سنبل اس کی نظر میں جا نہ کرے
جس کو تجھ گیسوؤں کا سودا ہے
ولی ایک غزل میں کہتے ہیں:
ترا مکھ ہے چراغ دل رباعی
عیاں ہے اس میں نور آشنائی
تری انکھیاں کی مستی دیکھنے میں
گئی پارسا کی پارسائی
مقامی روایات و الفاظ کے استعمال کے ساتھ حسن کا بیان ملاحظہ کریں۔
کوچہء یار عین کاسی ہے
جوگئیِ دل وہاں کا باسی ہے
زلف تیری ہے موج جمنا کی
تل نزدیک اس کے جیوں سناسی ہے
فارسی ادب کی خوشہ چینی کے ساتھ حسن کی تصویر کشی دیکھیں ۔
ترا مکھ مشرقی حسن انوری جلوہ جمالی ہے
نین جامی جبیں فردوسی و ابرو ہلالی ہے
ریاضی فہم و گلشن طبع و دانا دل ،علی فطرت
زباں تیرے فصیحی و سخن تیرا زلالی ہے
ولی کے کلام میں تشبیہات و استعارات کا استعمال بھی بہت اہم ہے انہوں نے مروجہ تشبیہات کو تازگی اور توانائی بخشی اس کے علاوہ نئی تشبیہات اور استعارے وضع کئے جنہوں نے غزل کے دامن کو وسعت دی اور اظہار و بیان کے نئے راستے اور انداز پیدا کئے یہاں چند اشعار بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں ۔
صنعت کے مصور نے صباحت کے صفحے پر
تصویر بنائی ہے تیری نور کو حل کر
کیا ہوسکے جہاں میں ترا ہمسر آفتاب
تجھ حسن کی اگن کا ہے اک اخگر آفتاب
موج دریا کی دیکھنے مت جا
دیکھ اس زلفِ عنبریں کے ادا
حسن ہے دام بلا زلف ہے دو کالے ناگ
جس کو کالے نے ڈسا اس کو جلانا مشکل
مکھ تیرا جیوں روز روشن زلف تیری رات ہے
کیا عجب یوں بات ہے یک ٹھار دن یا رات ہے
تشبیہات و استعارات کی مدد سے ولی اپنے محبوب کی جو تصویر پیش کرتے ہیں، اس کی محبت میں ولی اپنے عشق کی جو روداد بیان کرتے ہیں اس میں ایک مخصوص قسم کی شائستگی پائی جاتی ہے بوالہوسی اور ہرجائی پن کے بجائے وفاداری اور پاک عشق ملتا ہے سنجیدگی گہرائی ضبط اور ٹھہراؤ نظر آتا ہے ان کے عشق کا دائرہ بے حد وسیع ہے ان کے نزدیک عشق و محبت سے زیادہ اہم کوئی چیز نہی تھی ان کا کلیات ان کی عشق مزاجی اور حسن پرستی کا مرقع ہے ان کے کلام میں جو خاص درد و میٹھاس نمایاں ہے غالباً وہ ان کی حقیقی اور بے لوث محبت کی وجہ سے ہے انہوں نے اپنی بے لاگ محبت کا اظہار کئی طرح سے کیا ہے مثال کے طور پر چند اشعار ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔
عارفاں پر ہمیشہ روشن ہے
کہ فن عاشقی عجب فن ہے
پاک بازوں سے یہ ہوا معلوم
عشق مضمون پاک بازی ہے
مثلِ مینائے شرابِ بزمِ حسن
حوضِ دل تج عکس سوں روشن ہوا
قرار نہی ہے مرے دل کوں اے سجن تجھ بن
ہوئی ہے دل میں مرے آہ شعلہ زن تجھ بن
یہی ہے آرزو دل میں کہ صاحب درد کئی جاکر
ہماری درد کی باتاں کہے اس پی پیارے کوں
ولی کا عشق خیالی نہی بلکہ حقیقی ہے ولی نے مجازی عشق کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد اس عشق کے سرے عشق حقیقی سے ملا دیئے ہیں کہتے ہیں۔
در وادی حقیقت جس نے قدم رکھا ہے
اول قدم ہے اس کا عشق مجاز کرنا
اس تصویر عشق کے ذریعے ولی تصوف کی روایت کو اپنے موضوعات کے پھیلاؤ اور کم و بیش ساری علامات کے ساتھ اردو شاعری کے دامن میں جگہ دیتے ہیں اور ایک نئے لہجے اور زندہ آوازوں سے ان میں ایک ایسا رنگ بھر دیتے ہیں کہ ولی کے اس قسم کے اشعار کے مطالعے کے بعد ان کا صوفی کامل ہونا ثابت ہو جاتا ہے
عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسن بے حجاب اس کا
بغیر ازدیدۂ حیراں نہی جگ میں نقاب اس کا
عشق میں لازم ہے اول ذات کو فانی کرے
ہو فنا فی اللہ دائم ذاتِ یزدانی کرے
ہر ذرہ عالم میں ہے خورشید حقیقی
یوں بوجھ کے بلبل ہوں ہر یک غنچہ وہاں کا
خودی سے اولاً خالی ہو اے دل اگر اک شمعِ روشن کی لگن ہے
کہ دی اہلِ دل نے یہ بات مجھ کو دل سے
عارف کا دل بغل میں قرآنِ بے کلی ہے
تصوف و عرفان کے ساتھ ولی کے پاس زندگی کے اعلیٰ مقاصد اور دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کا ذکر ملتا ہے ظاہر پرستی ،نمود و نمائش سے نفرت کا اظہار، صداقت کی تعلیم، خوش خصلتی،تسلیم و رضا، پاکبازی و صبر کی تلقین پائی جاتی ہے لکھتے ہیں ۔
غفلت میں وقت اپنا نہ کھو ہوشیار ہو ہوشیار ہو
کب لگ رہے گا خواب میں بیدار ہو بیدار ہو
گر دیکھنا ہے مدعا اس شاہد معنی کا رو
ظاہر پرستاں سوں سدا بیزار ہو بیزار ہو
اے بے خبر اگر ہےبزرگی کی آرزو
دنیا کی رہ گزر میں بزرگوں کی چال چل
ولی کوں نہی مال کی آرزو
خدا دوست نئیں دیکھتے زر طرف
اے ولی تیغِ غم سے خوف نہی
خاکساری بدن پہ جوشن ہے
اسباب سے جہاں کے ہوں بے غرض سدا میں
بن تیل اور بتی ہے روشن چراغ میرا
یوں بات عارفاں کی سنو دل سے سالکاں
دنیا کی زندگی ہے یوں وہم گمانمحض
ولی نے انسانی زندگی کی حقیقت سادگی ا ور صفائی کے ساتھ بیان کی ہے دولت سب کچھ نہی لیکن بہت کچھ ہے ولی کہتے ہیں :
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
باعث رسوائیِ عالم ولی
مفلسی ہے مفلسی ہے مفلسی
فلسفہ محبت کا بیان ولی نے اس طور پر کیا ہے :
ہر اک وقت مجھ عاشق زار کوں
پیارے تری بات پیاری لگے
محبت کبھی بھی کسی کو بھی ہوسکتی ہے :
عشق کے ہاتھ سوں ہوئے دل ریش
جگ میں کیا بادشاہ کیا درویش
عاشق کبھی اکیلا نہی رہتا کیوں کہ اس کے ساتھ
اک گھڑی تجھ ہجر میں اے دل ربا تنہا نہیں
مونس و دم ساز میری آہ ہے فریاد ہے
ولی نے ہندی الفاظ اور فارسی الفاظ و محاورات کو اس طرح ملایا ہےکہ ایک خوبصورت اور دلکش ادبی زبان بن گئی ہے الفاظ و تراکیب کی جدت اور ندرت ولی کی شاعری میں نکھار اور خوبصورتی پیدا کرتی ہے شاعری میں مختلف صنعتوں کے استعمال سے ولی نے جو حسن پیدا کیا ہے اس کامطالعہ دلچسپی سے خالی نہی یہاں صرف انہی صنعتوں کا ذکر کیا جارہا ہے جو ولی کے کلام میں زیادہ پائے جاتے ہیں۔
ولی کے پاس رعایت لفظی کا استعمال اکثر و بیشتر ہوا ہے وہ ایسے الفاظ جو ایک دوسرے سےکچھ نہ کچھ رعایت اور کنایہ رکھتے ہوں ترتیب دینے میں قدرت رکھتے ہیں :
تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سوں کہوں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سوں کہوں گا
صنعت مراعات النظیر کا استعمال بھی ولی کے پاس مہارت کے ساتھ ملتا ہے اس میں ایسی چیزوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو باہم مناسبت رکھتی ہوں :
آج کی رین مجھ کو خواب نہ تھا
دونوں انکھیاں میں غیرِآب نہ تھا
تجھ حسنِ آب دار کی تعریف کیا لکھوں
موتی ہوا ہے غرق تجھے دیکھ آب میں
حسن تعلیل ایسی صنعت ہے جس میں کسی چیز کی ایک ایسی علت فرض کر لی جاتی ہے جو در اصل اس کی علت نہی ہوتی جیسے :
ماہ کی سینے اُپر اے ماہ رو
داغ ہے تجھ حسن کی جھلکار کا
مشرق سوں مغرب لگ سدا پھرتا ہے ہر ہر گھر ولے
اب لگ سرد دیکھیا نہی ثانی ترا آفاق میں
ترے جو قدسوں رکھا نیشکر نے دل میں گرہ
تو کھینچ پوست کیا اس کابند بند جدا
صنعت عکس و طرد ایک مصرع میں الفاظ جس ترتیب میں آئیں دسرے مصرع میں ترتیب کو الٹ دیا جاتا ہے ولی کے پاس اس کا استعمال ملاحظہ کیجئے:
تجھ سوں لگی ہے لگن اے گلِ باغ حیا
اے گلِ باغ حیا تجھ سوں لگی ہے لگن
مجھ کو ہے دارالامن پیو کا نقشِ چرن
پیو کا نقش چرن مجھ کو ہے دارالامن
کلام میں لفظ ایسے لانا جو ایک دوسرے کی ضد ہوں صنعت تضاد یا طباق کہلاتا ہے ولی کے پاس اس صنعت کا استعمال ذیل کے اشعار میں ملاحظہ ہو :
ہجرت کی زندگی سوں موت بھلی
کہ جہاں سب کہیں وصال ہوا
دورنگی سوں تری اے سرو رعنا
کبھو راضی کبھو بے زار ہیں ہم
مکھ ترا جیوں روز روشن زلف تیری رات ہے
کیا عجب یوں بات ہے اک ٹھار دن ہو رات ہے
بخشی ہے تری نین نے کیفیت مستی تجھ مکھ نے خبردار کیا بے خبری کوں
کبھی وصف کو شدت اور ضعف میں انتہا تک پہنچا دینا مبالغہ کہلاتا ہے ولی کے پاس اس کی مثالیں ملاحظہ کریں
ہمارے دیدۂ گریان سے ابر تر کوں کیا نسبت
وہ اک جھالے میں تھم جاتا ہے یہ برسوں برستے ہیں
یک نقطہ ترے صفحۂ رخ پر نہیں بے جا
اس مکھ کوں ترے صفحۂ قرآں سوں کہوں گا
تجھ ہجر میں دامان و گریبان ورومالاں
شاکی ہیں ہر اک رات مرے دیدۂ ترسوں
ایہامکے لغوی معنی وہم میں ڈالنا ہے ایک لفظ کے دو معنی ہوں ایک قریب دوسرے بعید لفظ کے بعید معنی مراد لئے جائیں تو اس کو صنعت ایہام کہتے ہیں اس صنعت کو ولی نے فن کاری کے ساتھ استعمال کیا ہے شمالی ہند کے شعرا نے ولی کی تقلید میں ایہام نگاری کو رواج دیا صنعت ایہام ولی کے پاس پر لطف انداز میں ملتی ہے:
موسی جو آکے دیکھے تجھ نور کا تماشا
اس کو پہاڑ ہووے پھر طور کا تماشا
مذہب عشق میں تری صورت
دیکھنا ہم کو فرض عین ہوا
ایک کہتے ہیں مکھ یہ کعبہ ہے
اس میں تتلی نے کیوں کیا ہے محل
زہرہ جبیناں خلق کی آویں برنگ مشتری
گرنازسوں بازار میں نکلے وہ ماہ مہرباں
ولی نے پیش رو شعراء سے حاصل کردہ روایات میں اپنے علم و فضل سے کسب و اکتساب کرکے وہ سب کچھ شامل کردیا جس سے ان کی شاعری اور ان کی آواز منفرد رنگ و آہنگ اختیار کر گئی بعد کے تقریبًا تما بڑے شاعروں کے پاس ولی کے خیالات افکار نظریات اور موضوعات کی موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہےکہ وہ اپنے بعد انے والوں کےلئے نئی راہیں چھوڑ گئےمختلف شعراء کے پاس ولی کے خیال اور موضوع کی تکرار ملتی ہے ذیل میں ایسے چند اشعار ب طور مثال درج کیے جا رہے ہیں:
ولی :
بات کہنے کا کبھی جب وقت پاتا ہے غریب
بھول جاتا ہے وہ سب دیکھ صورت یار کی
میر:
کہتے تھے کہ یوں کہتے یوں کہتے وہ جو آتا
سب کہنے کی باتیں ہیں کچھ بھی نہ کہا جاتا
غالب:
آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں پر دیکھیے کیا کہتے ہیں
غرض ولی نے غزل کے امکانات کا وسیع راستہ آنے والے شعراء کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور ولی کی غزل کے رجحانات اردو غزل کے بنیادی رجحانات بن گئے ڈاکٹر جمیل جالبی نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ :
یہ بات یاد رہے کہ آگے چل کر جتنے رجحانات نمایاں ہویے وہ خواہ عشقیہ شاعری کا رجحان ہو یا ایہام پسندی کا؛لکھنوئ شاعری کی خارجیت اور مسی چوٹی والی شاعری ہو مسائل تصوف کے بیان والی شاعری ہو یا ایسی شاعری ہو جس میں داخلیت اور رنگا رنگ تجربات کا بیان ہو یا اصلاحِ زبان و بیان کی تحریک ہو سب کا مبدا ولی ہے ۔ولی کا اجتہاد اتنا بڑا ہے کہ اردو غزل نے جو رخ بھی بدلا اس میں ولی کو رہبر پایا “(تاریخ ادب اردو جلد اول ڈاکٹر جمیل جالبی صفحہ 557)
اپنی صلاحیتوں کے ماہرانہ استعمال سے صنف غزل کو ممتاز مقام تک پہنچانے کے ساتھ ولی آنے والوں کو یہ پیغام دے گئے ہیں۔
راہ مضمون تازہ بند نہیں
تاقیامت کھلا ہے بابِ سخن