منٹو کے افسانے فحش نگاری یا حقیقت نگاری
ایک علمی و ادبی جائزہ
نصیروارثی(مدیر: سہ ماہی ورثہ نیو یارک)
اردو افسانے کے افق پر سعادت حسن منٹو ایک ایسا نام ہے جو اپنی جراتِ اظہار، حقیقت پسندی، اور معاشرتی شعور کے باعث ہمیشہ متنازع مگر لازمی طور پر قابلِ ذکر رہا ہے۔ ان پر “فحش نگاری” کے الزامات لگے، مگر ان کے قلم کی روانی نہ رکی اور نہ ان کے فن کی صداقت کم ہوئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا منٹو کے افسانے واقعتاً فحش تھے یا وہ حقیقت نگاری کے وہ آئینے تھے جن میں ایک بدصورت سماج کا عکس صاف نظر آتا تھا؟
سعادت حسن منٹو کو فحش نگار کہنا محض ایک اخلاقی کمزوری اور تنگ نظری کی علامت ہے۔ ان کے افسانے سچائی کا نوحہ ہیں، ظلم کے خلاف احتجاج ہیں، اور انسانی ضمیر کی خلش کا بیان ہیں۔ وہ آئینہ دکھاتے ہیں، اور اگر اس میں ہمیں بدصورتی نظر آتی ہے تو قصور منٹو کا نہیں، ہمارا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے افسانوں کے بارے میں یہ سوال”فحش نگاری یا حقیقت نگاری
ادب میں ایک طویل عرصے سے زیرِ بحث ہے۔ اس کا جواب یک سطری یا سادہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ منٹو کا فن نہایت پیچیدہ، جرات مند اور سماجی جبر کے خلاف ایک بھرپور احتجاج ہے۔
فحش نگاری کا الزام کیوں لگا؟
انہوں نے اپنے کئی افسانوں، جیسے ٹھنڈا گوشت، بو، کالی شلوار، ہتک، شکاری عورت میں جنسی معاملات کو
جسم، طوائفوں، اور معاشرتی دوغلے پن کو مرکزی موضوع بنایا ۔ ان میں بعض مناظر اور مکالمات اُس وقت کے “اخلاقی پیمانوں” کے لحاظ سے قابلِ اعتراض سمجھے گئے-
منٹو کا مؤقف
منٹو نے اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا ہمیشہ بھرپور دفاع کیا۔ ان کا کہنا تھا
“اگر میری تحریریں فحش ہیں، تو معاشرہ فاحشہ ہے!”
“میں معاشرے کا آئینہ ہوں۔ اگر چہرہ بدصورت ہے، تو آئینے کو برا نہ کہو!”
ان جملوں سے منٹو کی حقیقت نگاری کا اندازہ ہوتا ہے۔
حقیقت نگاری کے حق میں دلائل:
سماجی جبر کی نقاب کشائی:
منٹو نے ان طبقوں کو آواز دی جنہیں معاشرہ نظرانداز کرتا تھا: طوائفیں، پاگل، غریب، عورت، مظلوم۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ میں تقسیمِ ہند کی اذیت اور بے حسی کو ذہنی مریضوں کے ذریعے اجاگر کیا۔
جنسیات بطور علامت:
جنسی موضوعات منٹو کے لیے لذت نہیں، بلکہ دکھ، تنہائی، یا استحصال کی علامت تھے۔
ٹھنڈا گوشت جیسے افسانے میں جنسی جذبات کی بے حسی اور انسانی المیہ کو دکھایا گیا ہے۔
کربناک سچائی:
منٹو کا فن تلخ مگر سچا ہے۔ وہ جھوٹے اخلاق، دکھاوے، اور مذہبی یا معاشرتی منافقت کو بے نقاب کرتا ہے۔سعادت حسن منٹو کو صرف فحش نگار کہنا نہ صرف ناانصافی ہے بلکہ ان کی ادبی عظمت کو محدود کرنے کے مترادف ہے۔ ان کا اصل وصف حقیقت نگاری، جراتِ اظہار، اور انسان دوستی ہے۔ انہوں نے ادب کو محض تفریح نہیں، بلکہ سماجی شعور بیدار کرنے کا ذریعہ بنایا۔
اردو ادب کے افق پر اگر کسی افسانہ نگار نے بے باکی، جرات، اور سچائی کی روشن مشعل بلند کی ہے تو وہ بلاشبہ سعادت حسن منٹو ہیں۔ ان کے افسانے محض کہانیاں نہیں بلکہ ایک بے رحم سماج کے مکروہ چہرے کا عکس ہیں۔ منٹو پر فحش نگاری کے الزامات لگے، مقدمات چلے، مگر ان کا قلم کبھی نہ رکا۔ اس مضمون کا مقصد اسی نکتہ کو واضح کرنا ہے کہ آیا منٹو فحش نگار تھے یا حقیقت نگار؟
منٹو کا دفاع اور مؤقف
منٹو نے ہمیشہ فحاشی کے الزامات کو رد کیا۔ ان کے الفاظ آج بھی زندہ ہیں:
“میں معاشرے کا آئینہ ہوں، اگر میرے افسانے گندے ہیں، تو یہ معاشرہ گندا ہے۔”
“اگر آپ کو میرے افسانے فحش لگتے ہیں تو بند آنکھوں کو کھول کر دیکھیے، میں صرف وہ لکھتا ہوں جو میں دیکھتا ہوں۔”
یہ الفاظ اس بات کا اعلان ہیں کہ منٹو کے افسانے حقیقت کی زمین پر کھڑے تھے، خواہ وہ حقیقت کتنی ہی تلخ اور ننگی کیوں نہ ہو۔
معاشرتی دوغلے پن کی عکاسی
منٹو نے اس معاشرے کی منافقت کو بے نقاب کیا جس میں عورت کو طوائف تو بننے پر مجبور کیا جاتا ہے، مگر اسی کو گالی بھی دی جاتی ہے۔ ان کے افسانے ہتک اور کالی شلوار میں طوائفوں کی تنہائی، عزتِ نفس، اور بے بسی کو نہایت گہرائی سے پیش کیا گیا۔
تقسیمِ ہند کا المیہ
منٹو کے کئی افسانے تقسیمِ ہند کی وحشت، خونریزی اور انسانیت کی پامالی پر مبنی ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ایک ایسا شاہکار ہے جو پاگلوں کے ذریعے پوری انسانیت کی دیوانگی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہاں کوئی فحاشی نہیں، صرف سچائی ہے- کرب کی، تذبذب کی، اور بربادی کی جسم نہیں، انسان موضوع ہے
منٹو نے جسم کے بیان کو کبھی لذت یا عریانی کی غرض سے نہیں برتا، بلکہ وہ اس کے ذریعے نفسیاتی زخم، محرومی، ظلم اور بے حسی کو اجاگر کرتے ہیں۔ ان کے کردار زندہ انسان ہیں جذبات رکھتے ہوئے، حالات سے لڑتے ہوئے، سچ بولتے ہوئے۔
منٹو کی حقیقت نگاری کو بعد کے ادیبوں اور نقادوں نے سراہا۔ احمد ندیم قاسمی، انتظار حسین، اور فیض احمد فیض جیسے اہلِ قلم نے تسلیم کیا کہ منٹو نے ادب کو محض “تفریح” سے نکال کر “عبرت اور شعور” کا ذریعہ بنایا۔
آج اردو ادب میں حقیقت نگاری کے میدان میں منٹو کو ایک سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا اسلوب، کردار نگاری، مکالمہ، اور منظر کشی سچائی سے اتنے قریب ہیں کہ قاری چونک جاتا ہے، شرمندہ ہوتا ہے، اور سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
سعادت حسن منٹو کے افسانوں کو اگر محض “فحش” کہہ دیا جائے تو یہ ان کی تخلیقی عظمت، فکری جرات، اور ادبی بصیرت کی صریح توہین ہے۔ ان کے افسانے سماج کا وہ چہرہ دکھاتے ہیں جسے ہم چھپاتے رہے ہیں۔
لہٰذا، منٹو کو حقیقت نگار ماننا ہی ان کے فن، فکر اور فلسفے سے انصاف ہے۔ ان کے افسانے فحاشی نہیں، بلکہ وہ آئینہ ہیں جس میں ہماری اپنی بدصورتی صاف نظر آتی ہے۔فحاشی کے الزامات اور مقدمات
منٹو پر چھ بار فحاشی کے مقدمات قائم ہوئے، جن میں نمایاں افسانے یہ تھے:
بو (1936)
ٹھنڈا گوشت (1948)
کالی شلوار
ہتک
دھواں
اوپر، نیچے اور درمیان
ان مقدمات میں منٹو کے خلاف مؤقف یہ تھا کہ وہ معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو مجروح کرتے ہیں اور بے حیائی کو فروغ دیتے ہیں۔ تاہم منٹو ہر مقدمے سے یا تو بری ہو گئے یا مقدمے قانونی بنیادوں پر ختم کر دیے گئے۔
منٹو کا بیانیہ: ادیب یا مجرم؟
منٹو نے اپنے مقدمات کے دفاع میں واضح الفاظ میں کہا:
“میں سمجھتا ہوں کہ اگر آپ ان افسانوں کو فحش کہتے ہیں تو آپ کو عدالت میں نہیں، ہسپتال میں ہونا چاہیے۔”
(منٹو کا مقدمہ، 1950)
وہ کہتے تھے کہ:
“میں ان سچائیوں کو بیان کرتا ہوں جنہیں معاشرہ چھپاتا ہے۔ میں گناہ نہیں دکھاتا، گناہگاروں کو بے نقاب کرتا ہوں۔”
تعارف
سعادت حسن منٹو پاکستان کے معروف ادیب، ڈرامہ نگار، اور مختصر کہانیوں کے مصنف تھے۔ انہیں اردو زبان کی سب سے اہم ادبی شخصیات میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور انہیں انسانی فطرت، سماجی مسائل اور ہندوستان کی تقسیم کے بارے میں ان کی بے باک اور جرات مندانہ تصویر کشی کے لیے جانا جاتا ہے۔
منٹو نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ادبی رسائل اور اخبارات کے لیے لکھ کر کیا۔ ان کے ابتدائی کاموں میں ایک منفرد اور ایماندارانہ انداز دکھایا گیا، جو اکثر متنازعہ موضوعات کو چھوتے تھے۔ ان کی کہانیاں، جبکہ افسانوی، حقیقی زندگی کے واقعات اور کرداروں سے متاثر ہوتی ہیں، جو نوآبادیاتی ہندوستان میں زندگی کی تلخ حقیقت کو ظاہر کرتی ہیں۔
منٹو کی کہانیاں محض افسانے نہیں تھیں۔ وہ سماجی تنقید کے لیے طاقتور ہتھیار تھے۔ انہوں نے معاشرے میں پھیلی ہوئی منافقتوں، تعصبات اور ناانصافیوں کو بے نقاب کیا۔ ان کی داستانوں نے پسماندہ افراد کے دکھوں کو اجاگر کیا اور ہمدردی اور افہام و تفہیم کی ضرورت پر زور دیا۔
سعادت حسن منٹو کا افسانہ کرداروں کی پیچیدہ تصویر کشی اور انسانی فطرت کے مختلف پہلوؤں بشمول اس کی خامیوں اور تضادات کی کھوج کے لیے جانا جاتا ہے۔ اگرچہ منٹو کی کہانیوں میں اکثر معاشرتی اصولوں کی عکاسی شامل ہوتی ہے، جن میں صنفی کردار اور رشتوں سے متعلق بھی شامل ہوتا ہے، لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اس کا مقصد جنس پرستی کو فروغ دینا یا اس کی تائید کرنا ضروری نہیں تھا۔
یہ منٹو کی عظمت کا کمال ہے یا اس کا جنس سے گہرا لگائو کہ اس نے نہایت ہی اعلیٰ انداز میں اتنے گھناؤنے واقعات، حادثات اور ظالموں کے ظلم کو بیان کیا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ کوئی سچائی بیان کرنے والا یا تو بہت ہی رحم دل ہوتا ہے یاپھر انتہائی سنگدل۔ر حم دل یوں کہ اس ظلم کا اس سچائی کا ادراک کیا اور سنگدل اس طرح کہ کتنی مضبوطی اور دل کو پتھر بنا کر اس حقیقت کو بیان کر دیا۔ سچائی لکھنے والا ہی جانتا ہے کہ وہ انتہائی حساس ہے اور دوسروں کا احساس کر کے وہ سچائی بیان کر رہا ہے یا انتہائی سخت دل ہے کہ اس سچائی کو جسے جان کر ، پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور روح لرز جائے بیان کر رہاہے۔ ایک مصنف میں جب یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو جاتی ہیں تو وہ ایک مشکل اور معمہ بن جاتا ہے اور منٹو ایک ایسا ہی شخص تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو اردو ادب کا ایک متنازعہ افسانہ نگار ہے۔
منٹو کی کہانیاں اکثر اس معاشرے کی حقیقتوں کی تصویر کشی کرتی تھیں جس میں وہ رہتے تھے، جس میں صنفی تعصب اور عدم مساوات کا گہرا تعلق تھا۔ انہوں نے خواتین کو درپیش تلخ حقیقتوں کی تصویر کشی کرنے سے گریز نہیں کیا، خاص طور پر وہ لوگ جو معاشرے کے حاشیہ پر ہیں۔ یہ تصویریں اکثر ایسے رویوں کی توثیق کے بجائے مروجہ رویوں اور سماجی ڈھانچے پر تنقیدی تبصرے کرتی تھیں۔
منٹو کے کام کی تشریح اس وقت کے تناظر میں کرنا بہت ضروری ہے جس میں وہ رہتے تھے، جس معاشرتی اصولوں پر وہ مخاطب تھے، اور بطور مصنف ان کے اپنے ارادے تھے۔ اگرچہ اس کی کچھ کہانیوں میں ایسی مثالیں شامل ہو سکتی ہیں جو جنس پرستانہ رویوں کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن اس کے کام کا وسیع جسم مضبوط خواتین کرداروں کو بھی پیش کرتا ہے، صنفی حرکیات کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے، اور پدرانہ معاشرے میں خواتین کو درپیش چیلنجوں پر روشنی ڈالتا ہے۔
منٹو کی تحریر غیر آرام دہ سچائیوں کا مقابلہ کرنے، معاشرتی اصولوں کو چیلنج کرنے اور انسانی رویے کی باریکیوں کو جاننے کے لیے تیار تھی۔ اس طرح، اس کا کام قارئین کو کسی خاص نقطہ نظر کو فروغ دینے کے بجائے، ان کے پیش کردہ موضوعات کے ساتھ تنقیدی اور سوچ سمجھ کر مشغول ہونے کی دعوت دیتا ہے، بشمول صنف سے متعلق۔
منٹو کی تحریروں میں جس معاشرے کی عکاسی کی گئی وہ اپنے دور کی انتہائی ڈھکی چھپی برائیاں تھیں مگر موجودہ دور میں وہ برائیاں ڈھکی چھپی نہیں، نہ ہی وہ معاشرے کا ناسور ہیں بلکہ تفریح کی صورت اختیار کر چکی ہیں نہ ان برائیوں کو بیان کرنے سے اب یہ معاشرہ تعفن زدہ ہوتا ہے۔
منٹو نے انتہائی بے باک اور سچائی سے معاشرے کے سات پردوں میں چھپے ہوئے المیوں، گناہوں کو اس وقت بیان کیا جب سب اس کی تحریروں کو فحاشی سمجھنے پر تلے ہوئے تھے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ اس دنیا میں آنے والے صاحب فہم و ادراک وقت سے پہلے حقیقت کو سمجھ کر بیان کر دیتے ہیں۔ جب ان کی بات کو صحیح معنوں میں سمجھنے والا کوئی نہیں ہوتا میری نظر میں منٹو ایک ایسا ہی شاہکار خداوند تھا جس نے معاشرے میں پھیلنے والی گندگی، ناسور کے دھارے کو وقت سے بہت پہلے دیکھ لیا تھا اور جان گیا تھا کہ کچھ سالوں کے بعد یہ ناسور معاشرے میں پھیل کر کیسے مفلوج کر دے گا۔
منٹو کے کردار کثیر جہتی ہیں اور انسانی جذبات، محرکات اور اعمال کی وسیع رینج کی عکاسی کرتے ہیں۔ مرد اور خواتین دونوں کرداروں کی اس کی تصویر کشی اکثر پیچیدہ ہوتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ افراد کس طرح ان معاشروں سے متاثر ہو سکتے ہیں جن میں وہ رہتے ہیں۔
جہاں منٹو کی کہانیاں جنس پرستانہ رویوں کی عکاسی کر سکتی ہیں، وہیں انہوں نے خواتین کو درپیش جدوجہد کے لیے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔ ان کی کہانیوں میں اکثر افراد کی زندگیوں پر معاشرتی اصولوں کے اثرات کی کھوج کی جاتی ہے، ان اصولوں کی توثیق کرنے کے بجائے ان پر تنقید کی جاتی ہے۔
منٹو کی تحریر کا مقصد انسانی رویوں اور رشتوں کی پیچیدگیوں کو تلاش کرنا تھا۔ اس کی جنس پرستی کی تصویریں صنفی حرکیات اور وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی رویوں کے ارتقاء کے بارے میں بات چیت کے نقطہ آغاز کے طور پر کام کر سکتی ہیں۔
بالآخر، منٹو کی کہانیوں کو ادبی کاموں سے تعبیر کیا جانا چاہئے جو سوچ کو بھڑکاتے ہیں، مفروضوں کو چیلنج کرتے ہیں، اور قارئین کو ان کے اٹھائے گئے مسائل کے ساتھ تنقیدی انداز میں مشغول ہونے کی ترغیب دیتے ہیں۔ اس کا مقصد جنس پرستی کو فروغ دینا نہیں تھا بلکہ انسانی تجربے کی حقیقت پسندانہ اور غیر فلٹر شدہ تصویر پیش کرنا تھا-
خلاصہ
یہ کہ سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں ایسے عناصر شامل ہو سکتے ہیں جن کو جنس پرست سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، لیکن ان کے کام کا وسیع جسم اور کہانی سنانے کے لیے ان کا نقطہ نظر یہ بتاتا ہے کہ ان کا مقصد مخصوص تعصبات کی توثیق کرنے کے بجائے معاشرے کی پیچیدگیوں کو تلاش کرنا تھا۔ اس کی کہانیاں معاشرتی اصولوں کے آئینہ کا کام کرتی ہیں، جو قارئین کو اس بات پر غور کرنے کی ترغیب دیتی ہیں کہ معاشرہ کہاں تک پہنچ چکا ہے اور کہاں تک ترقی کی ضرورت ہے۔
یقیناً، سعادت حسن منٹو کے افسانوں میں جنس پرستی کی تصویر کشی پر بحث کرتے وقت یہاں کچھ اضافی نکات پر غور کرنا چاہیے-
کچھ کہانیوں میں جنس پرستانہ رویوں کی موجودگی کے باوجود، منٹو کے کام میں لچکدار اور بااختیار خواتین کردار بھی شامل تھے جنہوں نے طاقت اور ایجنسی کے ساتھ اپنے چیلنجوں کو آگے بڑھایا۔ یہ کردار منفی تصویر کشی کا مقابلہ کرتے ہیں۔
منٹو کا کام بہت سارے موضوعات اور کردار کی حرکیات پر محیط ہے۔ اپنے کیریئر کے دوران، صنف اور جنس پرستی کے بارے میں ان کی تصویریں تیار ہوئیں، جو نہ صرف معاشرے میں ہونے والی تبدیلیوں کی عکاسی کرتی ہیں بلکہ بطور مصنف ان کی اپنی ترقی بھی۔
منٹو کی کہانیوں میں اکثر شناخت کی متعدد جہتوں پر توجہ دی جاتی ہے، بشمول طبقاتی، مذہب اور نسل، جو کہ صنفی حرکیات کے ساتھ ایک دوسرے کو کاٹتی ہیں۔ یہ تقطیع اس کی تصویر کشی اور معاشرتی رویوں کی تنقید میں پیچیدگی کی تہوں کو جوڑتی ہے۔
آخر میں، سعادت حسن منٹو کا افسانہ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی کام ہے جسے جنس پرستی کے سادہ فروغ تک کم نہیں کیا جا سکتا۔ ان کی کہانیاں اس وقت کی عکاسی کرتی ہیں جس میں وہ رہتے تھے، موجودہ عدم مساوات اور ناانصافیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے تنقیدی مشغولیت اور بحث کے مواقع بھی پیش کرتے ہیں۔ اس کی میراث قارئین کو غیر آرام دہ حقیقتوں کا سامنا کرنے اور انسانی تجربے کی پیچیدگیوں کے ساتھ مشغول ہونے کا چیلنج دینے کی صلاحیت میں مضمر ہے۔
ادبی حلقوں کی رائے
احمد ندیم قاسمی
“منٹو نے ہمارے معاشرے کی منافقت کو جرات سے بے نقاب کیا، جس پر ہم سب شرمندہ ہونا چاہیے، نہ کہ منٹو کو ملامت کرنا۔”
فیض احمد فیض
“منٹو کا مسئلہ فحاشی نہیں، بلکہ سچائی ہے، اور سچائی اکثر فحش معلوم ہوتی ہے۔”
ڈاکٹر گوپی چند نارنگمنٹو کی حقیقت نگاری کو افسانوی ادب میں وہی مقام حاصل ہے جو غالب کی شاعری کو اردو غزل میں۔”
منٹو 11 مئی 1912 کو لدھیانہ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم امرتسر اور علی گڑھ میں حاصل کی۔
فلمی دنیا سے بھی وابستہ رہے، بمبئی میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کیا۔
1947 میں تقسیم کے بعد پاکستان آگئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔
منٹو کا انتقال
سعادت حسن منٹو کا انتقال 18 جنوری 1955 کو لاہور میں ہوا۔ اُس وقت ان کی عمر صرف 42 سال تھی۔
انتقال کی وجوہات:
منٹو کی زندگی کا آخری دور مالی پریشانیوں، ذہنی دباؤ، اور شراب نوشی کی شدت سے بھرپور تھا۔ ان کے قریبی حلقے بتاتے ہیں کہ وہ ذہنی و جسمانی طور پر ٹوٹ چکے تھے۔ اُنہیں جگر کی بیماری (cirrhosis of the liver) لاحق ہو گئی تھی، جو بالآخر ان کی موت کا سبب بنی۔
آخری ایام:
منٹو کا ذہن مسلسل معاشرتی ناانصافیوں، تقسیم ہند کے سانحات، اور اپنی تخلیقی آزادی پر ہونے والی تنقید سے بوجھل تھا۔ وہ اکثر تنہائی میں بیٹھے گھنٹوں سوچتے رہتے یا افسانے لکھتے رہتے۔ ان کی آخری تخلیقات میں بھی ایک گہرا کرب اور شدید حقیقت پسندی محسوس کی جا سکتی ہے۔
تدفین:
انہیں میانی صاحب قبرستان، لاہور میں سپرد خاک کیا گیا۔
ان کی قبر پر اُن ہی کا ایک مشہور قول درج ہے:
“یہ سعادت حسن منٹو کی قبر ہے جو اب بھی سمجھتا ہے کہ اس کا نام لوحِ جہاں پر حرفِ مکرر نہیں۔”
حوالہ جات: (References)
1۔ سعادت حسن منٹو، منٹو کے خطوط، سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور
2۔ گوپی چند نارنگ، اردو افسانہ اور تنقید، مجلسِ ترقی ادب، لاہور
3۔ خالد حسن، منٹو: کہانیوں کا انتخاب، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس
4۔ ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب کی مختصر تاریخ
5۔ فیض احمد فیض، مجموعہ مضامین، نیشنل بک فاؤنڈیشن