صدام فدا اور نعت کا اسلوبیاتی تشکل

منیر جعفری

معلوم شعری منظر نامے کے حقائق جتنے تلخ ہیں اس سے کہیں زیادہ شیریں بھی ہیں۔ بیدار فکر اذہان کی رسائی مختلف شعری اصناف کے تناظر میں نئی اور دلچسپ تخلیقات کے فروغ کا باعث بنی ہے۔ جہاں نظم اور خاص طور پر نثری نظم نے غزل کے ساتھ ترقی کی منازل طے کر کے اپنا مقام بنا لیا ہے۔ وہیں مذہبی سطح پر حمد، نعت اور سلام جیسی پر لطف اصناف نے بھی نئی بلندیوں کی طرف سفر کیا ہے۔ بر صغیر کی ادبی فضا میں چونکہ مذہبی شاعری نے ہمیشہ سے قدامت پسندی اور بعض سطحوں پر سکہ بند نظریات کے ساتھ آواز بلند کی ہے۔اس لیے مجموعی طور پر خاطر خواہ نتائج شعری اور سماجی سطحوں پر نہیں نکل سکے۔ یہ معاملہ تمام سطحوں پر نہیں ہے۔ ایسی شاعری نے ادب میں بڑے خوبصورت اضافوں کو بھی عام سطح پر اجاگر کیا ہے۔نعتیہ شاعری کو ہی اگر سامنے رکھا جائے تو آج کی نعت اور کلاسیکی دور کی نعوت میں خاصا فرق دیکھنے کو نہیں ملتا۔ نعت آج بھی مسائلستان کا منبع ہے جیسے شاعر کے نزدیک نعت کی اصل روح اپنے مسائل کا بیان ہے ۔ بہت کم ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ نعت میں حضور عالی مقام کی سیرت کے وہ پہلو جو صرف نثری ادب کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں ،ان کو شعری منظر نامے میں جگہ ملے ۔درود و سلام، عفو و درگزر اور مسائل پر معافی جیسے موضوعات مسلسل نعت پر قابض چلے آتے ہیں ۔اسوہ حسنہ کے وہ پہلو جن سے تعمیر انسانی سماجیت موجودہ دہشت و معیشت کے پیچیدہ مسائل سیاست و ثقافت اور آج کی تیز ترین زندگی میں رفتار کے براہ راست دوراہے پر بھٹکے ہوئے لوگوں کی ذہنی اصلاح جیسے اہم موضوعات کو شاذ و نادر ہی نعت کے ذریعے سخن میں لایا گیا ہے ۔مذہب جہاں انفرادی ذاتیات کے مباحث کا حصہ ہے ۔وہیں اجتماعیت کی بے راہ روی میں سمت کی درستی کا علمبردار بھی ہے ۔اور یہ خوبی اسلام جیسے عالمگیر مذہب میں یعنی بقیہ مذاہب کی نسبت زیادہ ہے ۔سو نعت جہاں محض ایک صنف شاعری ہے وہیں ایک ایسی پبلسٹی بھی ہے جو مفاد عامہ کے تناظر میں ایک واضح پیغام کے طور پر معاشرتی بھلائی کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے۔ اگر سیرت پاک کے تمام پہلوؤں خاص طور پر سماجی مسائل پر مشتمل معاملات کو نعت میں سمویا جائے تو معاشرے کی صحت مند تشکیل ممکن ہے۔ نعتیہ دبستانوں سے اٹھنے والی آوازوں نے بہت حد تک نعت سے جڑی موجودہ سماجی ضروریات کو معاشرے کے حوالے کیا ہے ۔ان میں ٹیکسلا کی زرخیز اور متحرک تاریخی سرزمین سے صدام فداجیسی آواز بھی ہے ۔جس نے نعت میں صرف مدح سرائی کے قدیم اور روایتی اصولوں کو نہیں اپنایا بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت نئی معاشرتی تشکیل کے عناصر کو نعت میں اسوہ رسول اللہ سے جوڑا بھی ہے۔ موجودہ دہشت اور معیشت کے عفریت نے جس طرح انسانی اقدار کے عوامل کو وطن بدر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ثقافت اور تاریخ نے دوراہے کو اپنی منزل سمجھ لیا ہے۔ آج کا انسانی معاشرہ جس بے حسی کے کنارے پر کھڑا ہے وہاں مذہب کی نفیس آواز برنگ نعت ہی ہمیں کسی طرح صحیح سمت دکھا سکتی ہے ۔صدام فدا نے اپنی سی کوشش ضرور کی ہے کہ کسی نہ کسی سطح پر حضور کے کرداری پہلوؤں اور سوانح کو شعر کر کے انسانیت کی ڈھارس بندھائی جائے۔
“صرف اسلام کا رستا ہے وہ روشن رستا
زندگی جس پہ توازن سے گزر جاتی ہے”
نعت کے حصے میں صحت مند تنقید کا بہت کم میسر آنا خود نعت اور نعت گو کے درمیان ٹھہرے ہوئے خلا کی وجہ سے ہے۔یہ خلا معلوم انسانی رویوں کی پیچیدگیوں میں سے ایک ہے ۔جو سکہ بند مذہبی نظریات کا ترجمان ہے۔ نعت ثقافت اور ادب کے درمیان ایک پل ہے ۔جو ان دو منہ زور دریاؤں کے بہاؤ کو بآسانی عبور کرنے میں مدد دیتا ہے۔ نعت عصر حاضر کی معاشرت ،زبان، اخلاقی پہلو ،لہجے، رویے اور بدلتی ہوئی تہذیبی ناہمواری کے مسائل کو حل کرنے میں کس قدر معاون ہو سکتی ہے یہ عام فہم قاری بھی سمجھ سکتا ہے ۔صدام فدا کے ہاں نعت ایک ثقافتی علامت ہے ۔فدا کا ماننا ہے کہ نعت کے ذریعے فکر سماجی نظریات اور تضادات کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔ اس امر کے پس منظر میں شعر دیکھیے :
آنکھ جب اپ کے راستے پہ بچھانی آئی
میرے افکار پہ اس وقت جوانی آئی
نعت کی معلوم تاریخ میں حضور کے سراپا انور کی مدحت سرائی ایک خاص نقطہ رہا ہے۔ جو نعتیہ موضوعات کی فہرست میں سب سے اوپر ہے ۔تحقیق سے واضح ہے کہ سب سے پہلے عرب میں حضور کی شان میں” حضرت ابو طالب” نے نعتیہ اشعار تخلیق کیے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے سابق معتمد التعلیم مولانا عبداللہ عباس ندوی اپنی کتاب عربی میں نعتیہ کلام میں لکھتے ہیں:
” ابو طالب وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے نعتیہ اشعار لکھے۔ اس کے علاوہ سب سے پہلے حضرت علی نے حضور کے لیے نعتیہ شاعری تخلیق کی۔ جس میں آپ کے سراپا انور کی تعریف کی اور آپ کے سراپا کی خوبصورتی سے رعب اور ہیبت کو اجاگر کیا”۔
حسن کی خوبی ہے کہ دیکھنے والوں کو حیرت، اچنبھے اور ہیبت میں ڈال دیتا ہے ۔موجودہ شعری منظر نامے پر محبوب کی تعریف کے جتنے روایتی اور جدید استعارے موجود ہیں وہ سب حسن کی ظاہری خوبصورتی کو کسی نہ کسی سطح پر ہیبت کے تناظر میں پیش کرتے ہیں۔ اور جہاں بات جذبات کے ساتھ جڑی گہری وابستگی کی ہو (حضور کی ذات مذہب سے آگے نکل جاتی ہے اور جذبات و احساسات کی اگلی سطح پر قیام کرتی ہے) تو رعب اور دبدبہ اپنا مقام خود بنا لیتے ہیں۔ صدام فدا کی ذہنی حالت بھی اسی سطح کی مکمل ترجمانی کرتی ہے۔ اس کے ہاں بھی نبی کریم کے سراپا انور کی روشنی اور خوبصورتی کو حیرت سے مدینے کے نواح میں خیالات کے پس منظر میں دیکھنا ایک خاص بات ہے۔ اردو شاعری میں بھی خواجہ بندہ نواز گیسو دراز سے لے کر قلی قطب شاہ اور موجودہ سطح پر صدام فدا تک سب نے اس امر کے بیان میں لاشعوری اور شعوری سطح پر اس بات کا اقرار کیا ہے۔ صدام فدا کو پڑھیں:
دیکھنے والوں نے کیا کیا نہ کرشمہ دیکھا
نور میں ڈوبا ہوا شہر مدینہ دیکھا
ایک خاص بات جو نعت کو باقی اصناف سے ممتاز کرتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ تصوف کی نعتیہ شاعری میں نسائی تکلم زیادہ پایا جاتا ہے۔ نسائی لہجہ حسن و جمال اور خاص طور پر تعریف و توصیف جیسے عوامل میں خاص کشش رکھتا ہے۔ مگر المیہ یہ ہے کہ نعت کا موجودہ تنقیدی منظر نامہ ان جیسے مباحث سے خالی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ نعت خاص و عام کے اتنا قریب ہونے کے باوجود مباحثے اور مجلسی معاملات سے دور ہے ۔نعت نے ہر سطح پر وقت کے ساتھ اپنے لہجے میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں۔ چونکہ نعت صرف حضور کی تعریف اور توصیف کے لیے مختص ہے، اس لیے اس کے اظہاریے ہر دور کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر نعتیہ اسلوب اور لہجے نے خاص ترقی کی۔ عصرِ حاضر کی نعت میں غزل کے نمایاں اثرات ملتے ہیں۔ غزلیہ لہجہ چونکہ موسیقیت اور لطیف بیانیے کے زیادہ قریب ہے ،نیز عوامی اظہاریوں کی قریبی گزرگاہ بھی غزل ہے۔ اس لیے نعت نے جلدی اس اثر کو قبول کیا۔ مگر فی زمانہ نعت پر غزل نے خاص رنگ جمایا ہے۔
ہمارے ہاں کتاب شائع کرنے کی روایت میں شامل ہے کہ ابتدائی صفحات پر حمد’ نعت اور منقبت وغیرہ کو جگہ دینا ضروری ہے۔ سو اس سے صاف ظاہر ہے کہ غزل کے شعرا جب نعت گوئی کی طرف آتے ہیں تو ان کا فطری لہجہ ان پر کسی خاص حد تک غالب رہتا ہے ۔صدام فدا نے بھی غزل گوئی سے آغاز کیا ۔ان کی نعت پڑھتے ہوئے ان کے غزلیہ لہجے کی کھنک سے صاف پتہ چلتا ہے کہ غزل کے آہنگ اور ردھم کی جھلک موجود ہے ۔صدام فدا نے غزل جاری رکھی یا چھوڑ دی۔ اس بات سے قطع نظر ان کے نعتیہ کلام سے ان کے غزلیہ آہنگ کا پتہ چلنا ایک خاص صداقت ہے۔ مثال کے طور پر چند معروضات دیکھیے۔ جن سے معلوم پڑتا ہے کہ فدا کے ہاں غزلیہ اظہار پورے طمطراق کے ساتھ موجود ہے۔
آبلے شوقِ سفر اور بڑھا دیتے ہیں
میرے افکار پہ اس وقت جوانی آئی
نعت کے میدان میں ایک اور کمی جسے شاید اہل نقد و نظر نے پورا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ نعت کی سائنسی تنقید ہے۔ وقت اور وقت کے مباحث کو نعت کے پلیٹ فارم سے منظر عام پر لانا نہایت ضروری ہے ۔وقت اپنے ساتھ جڑے ماضی،حال اور استقبال کے تمام زاویوں کو ساتھ رکھتا ہے ۔نعت میں اس امر کی خاص ضرورت ہے کہ وقت کے سفری محرکات کو سائنسی نقطہ نظر سے ثابت کرنا مثلا واقعہ معراج جو ٹائم ٹریولنگ کے حساب سے انتہائی اہم ہے۔ صدام فدا کے ہاں خاص طور پر اس موضوع پر شعری علائم کا ہونا ان کے مطالعے،مباحثے اور دیگر اصناف میں طبع آزمائی کے شواہد ہیں۔
نظامِ شمسی پہ واجب ہوا طواف اس کا
ستارہ خاکِ مدینہ سے جب اٹھایا گیا
کشش وہاں سے مجھے اس لیے بھی ہوتی ہے
خمیر میرا اسی خاک سے اٹھایا گیا
الغرض نعت کے خار زارِ نقد میں ابھی کتنے ہی ایسے مقامات ہیں جن کو دریافت کرنا نہایت ضروری ہے ۔یہ نئے مباحث نعتیہ آفاق کو نئی بلندیوں کی طرف لے جا سکتے ہیں۔ نعت کی نئی سماجیات، غیر مذہبی شعراء کی نعت گوئی، نعت کے تناظر میں بدلتی لسانی صورتحال، مذہبی استحصال کے پس منظر میں نعت گوئی کا استحصال، ما بعد جدیدیت اور نعت کے ذہنی مسائل وغیرہ۔ ایسے خاص عوامل ہیں جو معلوم نہیں نعت سے کیوں دور ہیں ۔صدام فدا کی فکری سطح پر جہاں روایتی نعتیہ مضامین کی بھرمار ہے اور موضوعات و استعارات کی دہرائی کا عمل خاصہ تکلیف دہ ہے۔ وہیں اس کی شاعری نے نئے مضامین، زبان کی ترقی، نئی تراکیب کے اضافے یا نئی تراکیب کو ابلاغ بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مثلا صدام فدا نےوسیع الکرم کی ترکیب استعمال کی جو خاص طور پر کم استعمال کی گئی ۔صدام فدا کی اس فکری بلوغت کی استقبالی ترقی کے لیے بحضور سرور کائنات دل سے دعا گو ہوں کہ وہ اس عہد کی ناکام معاشرتی و معاشی پیچیدگیوں میں گھرے ہوئے بھی نعت کے ذرائع سے انسانیت اور معاشرے کی خدمت بجا لاتا رہے ۔پھولوں بھری دعاؤں اور آنسوؤں بھری فریاد کے ساتھ نیک تمنائیں۔
ہزار باغ لیے ہوں نگاہ میں پھر بھی
نظر میں اپ کا روضہ نہیں تو کچھ بھی نہیں
موجودہ نعت کے افق پر متشدد رویے بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خاص طور پر برصغیر کی دینی مجالس کے حوالے سے خود ساختہ نعرہ بازی نے نعتیہ اشعار میں بھی جگہ بنا لی ہے۔ یہ رویہ چونکہ ہمارے خمیر خام کا حصہ ہے۔ اس لیے ہمارے نعتیہ اور دیگر مذہبی اصناف میں اس کا ہونا ایک خاص متشدد مذہبی روش کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔معلوم نعتیہ تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے۔ مگر صدام فدا کے ہاں ایسا نہیں۔ وہ ایک سلجھا ہوا تہذیبی آدمی ہے اور ایسا حساس تخلیق کار ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں صرف فنا ہونا جانتا ہے۔ شعر دیکھیے:
بہت ضروری ہے مر جائیں ان کی حرمت پر
اگر یہ کام بھی ہوتا نہیں تو کچھ بھی نہیں
باتیں بہت سی ہیں۔مگر صدام فدا کا تازہ شعری مجموعہ”جادہ نور” ہاتھ میں ہے۔ نور کا ایک ہالہ ہے جو میرے چاروں طرف پھیلتا جاتا ہے۔ محبوب کی تعریف خاص طور پر ایک دائرہ ہے جو جکڑ لیتا ہے۔
شکر ہے آپ نے بلوایا ہمیں اپنی طرف
ورنہ ہم محفل اغیار میں بیٹھے رہتے