زندہ لاش
ڈاکٹر رافعہ ملک
شعبہ اردو نیشنل کالج آف بزنس ایڈمنسٹریشن اینڈ اکنامکس ، ملتان
رات کی تاریکی ہر طرف پھیل چکی تھی۔ گاؤں کی دیواروں سے خوف منڈلا رہا تھا۔ شہر سے آنے والی کچی سڑک بالکل ویران تھی۔ سخت سردی پڑ رہی تھی۔ سارے گاؤں والے اپنے اپنے گھروں میں لحافوں کے اندر چھپے ہوئے تھے۔ گاؤں کے ایک چوپال میں ہلکی سی گہما گہمی تھی۔۔۔۔۔۔ وہاں پر اونی چادروں میں لپٹے چند لوگ الاؤ کے گرد بیٹھے آگ تاپ رہے تھے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے اور باری باری حقے کے کش لگاتے جا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ سردی بڑھتی جا رہی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد ایک ایک کر کے سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو سدھار گئے۔ آخر میں چوپال کا مالک چاچا رمضان اٹھا اور اس نے تمام چیزوں کو سنبھالا۔۔۔۔۔ جگ، گلاس، حقہ، برتن اور اسی طرح کی دیگر چھوٹی موٹی چیزوں کو اندر رکھ کر باہر سے کمرے کو تالا لگا دیا۔ باہر آ کر اس نے گلی والے بڑے گیٹ کو اچھی طرح بند کیا پھر اس پر بڑا سا تالا لگا کر اسے تین چار مرتبہ جھٹکا۔۔۔۔۔۔۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں رفیق یا اس کے اوباش ساتھی آج پھر چوپال میں پڑی چیزیں چرا کر نہ لے جائیں۔۔۔۔۔۔ یہ گاؤں جس کا نام “ٹاہلی والا” تھا ، پہلے تو بہت پرامن تھا۔ چوری چکاری کا کوئی ڈر نہیں ہوتا تھا۔ لوگ بسا اوقات اپنے گھر کا باہر والا دروازہ کھلا چھوڑ کر رات کو صحن میں آرام سے سو جایا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ دکان دار بھی بلا خوف اپنی دکانیں کھلی چھوڑ کر بازار والی مسجد میں ظہر اور عصر کی نمازیں پڑھ آتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جب سے رفیق نے اپنے چند اوباش نوجوانوں کے ساتھ ہیروئین پینے کا نشہ شروع کیا اس وقت سے “ٹاہلی والا” پر امن نہیں رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ہر آئے دن چوری کی شکایتیں آنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔ کل فلاں کی دکان کا تالا توڑ لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔آج فلاں کی سائیکل چوری ہو گئی۔۔۔۔۔۔ الغرض لوگوں کی دکانیں اور گھر محفوظ نہیں رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ گاؤں میں ایک چھوٹا سا بازار تھا۔ اس کی نگرانی کے لیے ایک چوکیدار تعینات کیا گیا۔ سارے دکاندار مل کر اسے تنخواہ دیتے تھے۔ وہ رات بھر جاگتا اور وقفے وقفے سے سیٹیاں بجاتا رہتا۔ آہستہ آہستہ گھروں کی حفاظت کے لیے بھی دو چار چوکیداروں کی ضرورت محسوس ہونے لگی۔۔۔۔۔۔ گاؤں کے لوگ بہت پریشان تھے۔ کئی مرتبہ چوری کی وارداتوں پر پولیس کو بلایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن روایتی انداز اپناتے ہوئے کچھ دیر کے لیے پوچھ گچھ کر کے پولیس رفو چکر ہو جاتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ ایک مرتبہ چاچا رمضان بھی پولیس کو بلا لایا تھا جب چوپال میں پانی والی موٹر اور کچھ برتن چوری ہو گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ “ہم بڑے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ یہ کسی ڈکیٹ کی واردات نہیں لگتی۔ کسی نشئی کی کارستانی ہو سکتی ہے۔ آپ لوگ خود ہوشیار رہیں۔”۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر پولیس واپس چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
آج بڑے گیٹ کا تالا بند کرنے کے بعد چاچا رمضان کچھ دیر کے لیے گلی کی نکڑ پر ٹھہرا رہا۔ اسے بار بار رفیق اور اس کے اوباش ساتھیوں کا خیال آ رہا تھا۔ اب تو سارے گاؤں والوں کو یقین ہو چلا تھا کہ چوری کی ان وارداتوں میں رفیق اور اس کے اوباش ساتھی ملوث ہیں۔۔۔۔۔۔۔ چاچا رمضان تھوڑی دیر وہاں ٹھہر کر چوپال کے گیٹ کو دیکھتا رہا اور پھر گھر کی طرف چل دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چاچا! آج سردی بہت زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔ بازار میں کھڑے چوکیدار نے قریب ہو کر سرگوشی کی۔۔۔۔۔۔۔ خدا غرق کرے چوروں کو۔۔۔۔۔۔ بیٹا ، بہت پریشان ہیں گاؤں والے۔۔۔۔۔۔۔ چاچا رمضان نے چلتے ہوئے غصہ نکالا۔۔۔۔۔۔۔ جب سے میں آیا ہوں کسی چور اچکے کو بازار میں قدم رکھنے کی جرآت نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار نے دلیرانہ انداز میں گرج کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللّٰہ بھلا کرے آپ کا۔ اللّٰہ محفوظ رکھے ہم سب کو۔۔۔۔۔۔ چلتے چلتے چاچا نے دعائیں دیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوکیدار نے سیٹی بجا کر چاچا کو رخصت کیا۔۔۔۔۔!!
رات کے ساڑھے گیارہ بج چکے تھے۔ ہر طرف گہری خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ گاؤں کی دیواروں سے خوف منڈلا رہا تھا۔ ہلکی ہلکی دھند چھانا شروع ہو گئی تھی۔ سردی بدستور بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ چاروں اطراف خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ دور کہیں کہیں کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔۔۔۔۔۔۔ رفیق اچانک اپنے گھر سے نکلا۔ سخت سردی کے باوجود اس نے کوئی چادر نہیں اوڑھ رکھی تھی۔ وہ جامع مسجد کے دروازے پر ذرا سا رکا اور قبرستان کی طرف مڑنے کی بجائے شہر کو جانے والی کچی سڑک پہ ہو لیا۔۔۔۔۔۔ قبرستان میں اس کے اوباش ساتھی بیٹھے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ آج پاؤڈر پلانے کی باری رفیق کی تھی۔ دو گھنٹے پہلے وہ عذرا سے کچھ پیسے بٹورنے گھر آیا تھا۔ وہ بیچاری سارا دن کپڑوں کی سلائی کرتی اور بڑی مشکل سے گھر کا چولہا جلتا۔ دوسرے تیسرے دن جو چار آٹھ آنے کی بچت ہوتی وہ رفیق چھین کر لے جاتا۔ آہستہ آہستہ گھر کی چیزیں فروخت ہونے لگیں۔ حتیٰ کہ عذرا کے جہیز والے برتن تک فروخت ہو چکے تھے۔ دو میاں بیوی اور ایک معصوم بیٹی۔۔۔۔ یہ مختصر سا کنبہ تھا لیکن رفیق کو نشے کی جو لت لگی تھی اس نے گھر کو برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ عذرا نے کئی دفعہ اسے نشہ سے باز رہنے کی تلقین کی مگر اس پر جوں تک نہ رینگتی۔ رخشندہ دو سال کی ہو چکی تھی۔ اکلوتی بیٹی کے لیے بازار سے کچھ لے آنا تو دور کی بات ہے۔ رفیق نے اس کی سائیکل اور واکر تک بیچ ڈالی تھی۔۔۔۔۔۔۔!!
آج پھر اس نے عذرا کو تنگ کر رکھا تھا۔ اس بیچاری نے دونوں کمروں کی الماریاں کھول کر دکھائیں مگر رفیق بار بار اس کے کانوں کی بالیوں پر نظر رکھے ہوئے تھا اور ضد کر رہا تھا کہ ہر صورت وہ انہیں اتار کر لے جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دو گھنٹے سے یہ تکرار جاری تھی۔ جھگڑا طول پکڑتا گیا۔ اچانک ریل گاڑی نے سیٹی بجائی۔ رفیق فوراً چونکا اور اس نے خودکشی کرنے کی دھمکی دی اور گھر سے نکل پڑا۔۔۔۔۔ اس کے جانے کے بعد عذرا کو اپنے اکیلے پن سے خوف آنے لگا۔ بیوگی کے احساس سے وہ تھر تھر کانپنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جنونی بندہ اگر واقعی خود کشی کر بیٹھا تو معصوم رخشندہ یتیم ہو جائے گی۔۔۔۔۔۔۔ ہائے اللّٰہ اب کیا ہوگا؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔ عذرا نے گہری سانس لی اور رخشندہ کو نیند میں تنہا چھوڑ کر رفیق کے پیچھے چل پڑی۔۔۔۔۔۔۔۔ جب اس نے دیکھا کہ جامع مسجد والے راستے سے رفیق قبرستان کی طرف نہیں مڑا تو اسے خودکشی والی بات کا یقین ہو گیا۔۔۔۔۔ وہ تیز تیز قدم چلتی اس کے پیچھے آ گئی۔۔۔۔۔ رفیق! رفیق! رکو رفیق!…. رخشندہ کے ابو! رکو ، ٹھہرو میری بات سنو…… عذرا پکارتی ہوئی اس کے قریب پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔ چاروں طرف دھند چھا چکی تھی۔ آگے کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ رفیق لڑکھڑاتا ہوا کچی سڑک پر پہنچ چکا تھا۔ آگے تھوڑے سے فاصلے پر ریل کی پٹری تھی۔ روزانہ رات کے بارہ بجے گاڑی وہاں سے گزرتی تھی۔۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے کچھ تو خیال کرو۔۔۔۔۔ عذرا نے اس کے بازو سے پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچا۔۔۔۔۔۔ مجھے چھوڑو، مجھے جانے دو، میرا کوئی نہیں۔۔۔۔۔۔۔ رفیق نے جھنجھلا کر بازو چھڑانے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔۔ گھر آؤ میں اپنی بالیاں تمہیں دیتی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ عذرا نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ رفیق خاموش رہا۔ وہ سردی سے کپکپاتا ہوا عذرا کے ساتھ واپس گھر آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ ہو! تجھے تو بخار ہو رہا ہے۔۔۔۔ عذرا نے رفیق کے ماتھے پر ہاتھ رکھا جو تپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔۔۔۔۔ رفیق نے کانپتے ہوئے کہا اور چارپائی پر لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔ عذرا نے جلدی سے چائے بنائی اور بخار کی دو گولیاں اسے کھلا دیں۔ پھر اس پر دو رضائیاں ڈال کر اسے دبانے لگی۔۔۔۔۔۔!!
رات کے دو بج چکے تھے۔ عذرا چارپائی سے اٹھی۔ آئینے میں خود کو دیکھا۔ اپنی دونوں بالیوں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔ پھر انہیں اتار کر الماری میں رکھ دیا اور الماری کو تالا لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔ رخشندہ رونے لگی۔ عذرا نے اسے دودھ پلا کر سلا دیا۔ سارے دن کی تھکی ہاری عذرا خود بھی سو گئی۔۔۔۔۔۔۔ صبح نماز کے لیے اٹھی تو رفیق اپنے بستر سے غائب تھا۔ وہ سمجھی شاید واش روم میں ہو گا۔ اچانک اس کی نظر الماری پر پڑی۔ اس کا تالا ٹوٹا ہوا دیکھ کر سمجھ گئی۔ سنبھالنے پر پتا چلا کہ بالیاں غائب ہیں۔ وہ صحن میں آئی تو باہر گلی والا دروازہ کھلا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ اسے بہت افسوس ہوا۔۔۔۔۔ رات تم خود ہی اسے منا کر لائی تھیں۔ اب افسوس کس بات کا ؟؟؟۔۔۔۔۔ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا اور خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔۔ اچانک اسے خیال آیا کہ وہ رات اسے خود کشی کرنے دیتی۔ روز روز کے رونے سے ایک دفعہ کا رونا اچھا تھا۔۔۔۔۔۔۔ نہیں عذرا بالکل نہیں۔ وہ “زندہ لاش” سہی پھر بھی خاوند ہے، گھر میں پڑا رہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے آپ کو دلاسہ دیا اور ٹھنڈے پانی سے نماز کا وضو کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔!!
اس دن کے بعد پورے پانچ دن رفیق گھر نہیں آیا۔۔۔۔۔۔۔ کہیں مر کھپ گیا ہو گا۔۔۔۔ عذرا نے سوچا۔۔۔۔۔۔ بیچاری سارا دن کپڑوں کی سلائی میں مگن رہتی۔ مارے ڈر کے ساری رات آنکھوں پر کاٹتی۔ طرح طرح کے وسوسے اسے سونے نہ دیتے۔ رخشندہ کی طبیعت کبھی ماشہ کبھی تولہ۔۔۔۔۔۔ ایک رات ابھی اس کی آنکھ لگی ہی تھی کہ اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے کوئی چور باہر والی دیوار پھلانگ کر صحن میں آ دھمکا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے ؟؟؟ اس نے آواز لگائی۔۔۔۔۔ اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اْدھر سے کوئی جواب نہ آیا۔ وہ مطمئن ہو کر دوبارہ سو گئی۔ مارے خوف کے اس کی نیند اڑ گئی تھی۔ وہ زیر لب آیتہ الکرسی کا ورد کرتی رہی۔۔۔۔۔۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ جیسے کسی نے کمرے کے دروازے کا پٹ کھولا ہے۔ وہ یکدم ڈر گئی۔ وہ چلانا چاہتی تھی مگر آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی۔۔۔۔۔۔ بڑی مشکل سے اس کی زبان سے “چور” کا لفظ نکلا۔۔۔۔۔۔ اتنے میں ایک آدمی کمرے میں نمودار ہوا۔۔۔۔۔۔ کمرے میں اندھیرا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچاؤ، بچاؤ۔۔۔۔۔ عذرا نے چلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں رفیق ہوں، سوچا رات کا وقت ہے، آپ کو تنگ نہ کروں اس لیے مجھے دیوار پھلانگنی پڑی۔۔۔۔۔۔ عذرا خاموش رہی۔ اسے غصہ بھی تھا اور افسوس بھی۔۔۔۔۔۔۔ اور ہاں میں نے نشہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔ وہ عذرا کو تسلی دیتے ہوئے بولا۔۔۔۔۔۔ تم پانچ چھے دن کہاں غائب رہے ؟ عذرا نے استفسار کیا ؟ مجھے پولیس پکڑ کر لے گئی تھی۔ انہوں نے کل چھوڑا ہے۔۔۔۔۔ اللّٰہ کی قسم ، قرآن کی قسم ، نبی کی قسم میں نے نشہ چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ قسمیں کھاتا رہا اور عذرا کو یقین دلانے کی کوشش کرتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ قسمیں کھانا جھوٹے آدمی کا سب بڑا ہتھیار ہے۔۔۔۔۔۔۔ عذرا نے دل میں سوچا اور زہر کا گھونٹ پی کر سو گئی۔۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اسے نیند آ گئی۔۔۔۔۔!!
صبح چار بجے رخشندہ کے رونے پر اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ اسے دودھ پلانے کے لیے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔۔ کمرے کا بلب روشن ہوا تو رفیق اپنے بستر پر نہیں تھا۔۔۔۔۔ اسے رفیق کی جھوٹی قسمیں یاد آنے لگیں اور وہ زیر لب مسکرا دی۔۔۔۔۔۔ رخشندہ کو دودھ پلاتے ہوئے اچانک اس کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس نے دیکھا تو رخشندہ کے کانوں کی بالیاں بھی غائب تھیں۔۔۔۔۔۔!!!