او دور دیس جانے والے

فرخندہ ضمیر
ایسوسی ایٹ پروفیسر،اجمیر ، راجستھان

آج گھر کے درودیوار سے بہاریں رقص کناں تھیں۔ دادی امّاں کے پیر خوشی سے زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔کئی مرتبہ وہ تایا ابّاکی بلائیاں لے چکی تھیں۔ ان کا صدقہ اتار چکی تھیں۔ تایا ابّو بھی ماں کی گود میں سر رکھے چھوٹے سے بچّے کی طرح لیٹے تھے ان کے بیوی بچہ یہ نظارہ دیکھ کر مسرور ہو رہے تھے۔
بات ہی ایسی تھی دادی اماں یہ جدائی کا کرب 30سال سے جھیل رہی تھیں۔ ان کی ہر خوشی ادھوری تھی۔اتنے بہاروں کے موسم آئے لیکن دادی امّاں کے دل کی کلی نہ کھل سکی۔وہ بیٹے کی یاد میں ہمیشہ غمزدہ رہتیں ۔
دادی اماّں اکثر تقسیم کے درد کو بیاں کرتی تھیں کہ کس طرح ملک کے حالات خراب ہوئے مار کاٹ مچی، انسانیت شرم سار ہوئی، فرقہ پرستوں نے ان کی حویلی پر بھی حملہ کیا۔ گھر کی عورتوں کو حکم ہوا کہ وہ پیچھے کے دروازے سے بچوں کولے کر نکل جائیں ،مرد بلوائیوں کا مقابلہ کریں گے۔ دادی اماّں پیچھے کے دروازے سے اپنے دونوں بچّوں کو لے کرنکل گئیں۔لیکن اس افراتفری اور بھاگم بھاگ میں تایا ابّو بچھڑ گئے۔ بہت تلاش و بسیار کے بعد بھی ان کا سراغ نہیں ملا نہ جانے کہاں چلے گئے۔
حالات سازگار ہوئے لیکن دادی اماں کے دل کا ایک کونہ خالی ہی رہا۔ نہ جانے کتنی نظر ونیازبولیں ،لیکن سب بے سود۔ذرا بھی سراغ ملتا دادا ابّو سارے کام چھوڑ کر بھاگتے۔دادی امّاں ہر محرّم میں ابّو کو ہرے کپڑے پہناتیں، امام ضامن باندھتیں تو تایا ابّو کے لئے بھی سارے اہتمام کرتیں۔ عید بقرعید کو جیسے کپڑے ابّوکے بنتے ویسے ہی تایا ابّو کے بھی بنتے ان کی عمر کا حساب لگا کر اسی سائز کے کپڑے بنواتیں اور ان ملبوسات سے دادی کا ٹرنک بھرتا گیا۔لیکن ان کی مامتا ترستی رہی۔موسم بدلے کئی تغیّرات ہوئے دل پر پتھّر رکھ کر ہر فرض کو انجام دیا۔ہر خوشی کے موقع پر ان کی آنکھیں اشک بار ہو جاتیں۔ابّو کے سر پر سہرا بندھا دادی امّآں کی آنکھیں بھیگ بھیگ گئیں لیکن وہ اپنے درد کو پی گئیں کہ ان کی وجہ سے ان کے پیاری ملول نہ ہوں ان کی خوشی پھیکی نہ ہو۔بارہا خوشیوں کے موسم آئے ان کے آنگن میں بہو کی پازیب چھنکی،پوتا پوتیوں کی مسکراہٹ سے گھر کے درو دیوار کھلکھلا اٹھے۔ صدف ان کے بہت نزدیک تھی۔ہر بات وہ دادی سے شیئر کرتی۔ وقت گزرتا رہا۔صدف دادی کے غم میں برابر کی شریک رہتی۔ان کا غم بھلانے کے لئے وہ انھیں موبائل پر دنیا جہاں کی معلومات فراہم کرواتی۔دادی امّاں بھی مسرور ہوتیں لیکن اس دل کا کیا کریں کہ ایک ٹیس سی اٹھتی اور اس غم نے دادی امّاں کو دل کے عارضہ میں مبتلا کر دیا۔ دادا ابّوبہت بہلاتے لیکن دل کی بیقراری کو قرار نہ آتا۔ بڑی بوڑھیاں جو کہتی ہیں کہ مر جائے تو صبرآجائے لیکن زندہ کا صبر نہ آئے۔‘‘
دادی اماں ہر وقت یہی سوچتیں نہ جانے کس حال میں ہوگا۔ کسی غلط ہاتھ میں تو نہیں پڑ گیا اپنے دل کے سکون و قرار کے لئے وہ اپنے پیارے حبیب کے روزیپر بھی گئیں جنّت کی کیاری میں سجدہ ریز ہو کر انھوں نے اپنے اہل وعیال، عزیزواقارب وغیرہ کے لئے دعا مانگی لیکن کھوئے بیٹے مراد علی کے لئے ایسی تڑپ تڑپ کر دعا مانگی کہ اشکوں کے دریا بہا دئے ۔
وقت اپنے محور پر گردش کرتا رہا ۔
صدف اور صائم فیس بک کے ذریعہ سرگرداں ہو گئے۔سوشل میڈیا کے ذریعے سب کو اطلاع دی۔آخرکار ایک دن وہ تلاش ختم ہوگئی۔
اور دادی امّاں کی بیقراری کو قرار آگیا۔ صدف نے دادی کی آنکھوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
دادی امّاں یہاں آئیں۔ آپ کے لئے ایک سرپرائز ہے۔ جب میں کہوں تب آنکھیں کھولیں۔”صدف دادی کا ہاتھ پکڑ کر ہال میں لیکر آئی۔اور آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا۔”سامنے دیکھئے کون آیا ہے؟”دادی امّاں کھچڑی بالوں، سرخ سفید چہرے پر عمرکی کھنچی چند لکیروں والے شخص کو دیکھتی رہیں۔پھر اچانک ان کی مامتا نے جوش مارا، جسم رواں،رواں پکار اٹھا ” مراد علی۔ مراد علی۔ وہ بے اختیار آگے بڑھیں اور بیٹے سے لپٹ گئیں۔
دونوں طرف سے اشکوں کے دریا بہ گئے۔ دادی کی طبیعت خراب ہوگئی، انھیں شادیٔ مرگ ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر نے انھیں نیند کا انجکشن لگا یا۔تایا ابّو تائی جان ان کے دونوں بیٹے کمال اور جمال بھی اس منظر کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئے۔ دادی کی طبیعت سنبھلی تو گھر کے سبھی افراد یہ جاننے کے لئے بے چین تھے کہ تایا ابّو کہاں چلے گئے تھے۔تایا ابّو نے جوروداد سنائی۔
دادی کے ساتھ تایا ابّو بد حواسی کے عالم میں اسٹیشن اپنے نانہال جیپور جانے کے لئے پہنچے، اسٹیشن پر بہت بھیڑ تھی کہ اس افراتفری میں دادی کا ہاتھ چھوٹ گیا۔وہ بہت روئے ہر جگہ تلاش کیا لیکن دادی اور بھائی نہیں ملے۔ایک بھلے مانس نے انھیں اس حال میں دیکھا تو ان کے آنسو پونچھے اور انھیں اپنے ساتھ لے گئے۔ان کی بیوی مر چکی تھی۔ان کے بچّہ کو پرورش کے لئے نانا نانی لے گئے تھے۔اس فرشتہ صفت انسان نے انھیں پالا پوسا، اعلیٰ تعلیم دلوائی،شادی بیاہ کیا۔ آج وہ آب۔ پاشی کے محکمہ میں انجینئر ہیں۔دادی امّاں اس فرشتہ صفت انسان سے ملنا چاہتی تھیں لیکن وہ شاید آبِ کوثر کے کنارے حوروں ملائکہ کے جھرمٹ میں بیٹھے شرابِ طہورا پی رہے تھے۔
ہر ملاقات کا انجام جدائی ہے، تایا ابّو کا ویزا ختم ہو گیا۔وہ سب کو ایک اور انتظار کی صلیب پر لٹکتا چھوڑ گئے، اس وعدے کے ساتھ کہ وہ جلدی ہی آئیں گے۔ اب دادی روز ویڈیو چیٹنگ کرتیں، ایک دن پولیس والوں نے تھانے پر بلا لیا کہ آپ کے یہاں سے پاکستان بہت بات ہوتی ہے۔سب ڈر گئے۔اب کبھی کبھی بات ہوتی۔دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہو گئے۔ دادی دوبارہ ملنے کی آس لئے صاحبِ فراش ہو گئیں۔ماہ وسال گزرتے رہے، دادی کی طبیعت بہت خراب ہو گئی، ہر وقت آنکھیں دروازے پر لگی رہتیں اچانک ایک دن رات کو دروازے کی بیل بجی۔ صائم نے دروازہ کھولا تو ششدر رہ گیا۔ !
‘‘تایا ابّوآپ اس وقت۔!تایا ابّوکو نام سن کر سب اپنے کمروں سے نکل آئے۔
بھائی جان ،بیٹا کی تحیّرآمیز آوازوں سے ہال گونج اٹھا۔
دھیرے بولو، کسی کو پتا نہ چلے کہ میں آیا ہوں۔امّاں اپنے کمرے میں ہیں؟”
‘‘جی صدف نے کہا۔ وہ جلدی سے امّآں سے جاکر لپٹ گئے۔
‘‘امّاں میری پیاری امّاں””ارے میرا لال تو کہاں سے آگیا”؟
امّاں میں اجمیر شریف میں خواجہ غریب نوازؒکے عرس میں سرکاری ڈیلیگیشن کے ساتھ آیا ہوں۔ میں چھپ کر کچھ گھنٹوں کے لئے آپ سے ملنے آیا ہوں۔
’’تو نے بہت اچھا کیا۔مجھے تیرا انتظار تھا ،اللہ میری خواہش پوری کرے کہ میں دونوں بیٹوں کے کاندھوں پر ابدی سفر پر روانہ ہو جاؤں “امّاں اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ایسی باتیں نہ کریں۔ سب بیٹھے ہوئے اک دوسرے کا حال احوال پوچھ رہے تھے کہ دروازے کی بیل بجی۔ صائم نے جاکر دیکھا تو تین چار آدمی کھڑے تھے۔ایک نے آگے بڑھکراپنا کارڈ دکھاتے ہوئے کہا۔”میں سی۔ آئی۔ ڈی آفیسر ہوں۔مراد علی یہاں ہی ہیں “جی”صائم کچھ نہ سمجھ سکا اتنے میں صائم کے والد آگئے۔”جی فرمائیں۔” ہم مراد علی کو اریسٹ کرنے آئے ہیں۔اجمیر سے بناپرمیشن چھپ کر آنے کے جرم میں۔”کچھ ہی لمحوں میں خوشیاں کافور ہو گئیں۔تایا ابّو کو اریسٹ کر لے گئے۔دادی امّاں سے خبر چھپائی گئی، لیکن دادی امّاں جہاں دیدہ عورت تھیں۔تایا ابّواور تمام گھر والوں کے تاثرات سے سمجھ گئیں کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔لاکھ چھپایا لیکن راز چھپ نہ سکا صائم کے والد اور دادا ابّو کی دوڑ بھاگ سے انھیں صدر کو بتانا پڑا کہ “تایا ابّوکوچھپ کر ملنے کے جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہیاور دادا ابّو،ابّو ان کو چھڑانے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔”ہائے “دادی امّآں کا ہاتھ سینے پر گرا۔اوران کی روح پرواز کر گئی۔
دادی امّآں کی خواہش اس طرح پوری ہوئی کہ تایا ابّوپولیس کسٹڈی میں دادی کو ان کے ابدی سفر پر روانہ کرنے کے لئے آئے۔