٭انٹرویو۔۔ اشفاق حسین زیدی٭

٭حنا خراسانی رضوی٭ (نمائندہ ورثہ، سویڈن)

سامعین گرامی السلام علیکم و آداب عرض ہے! اس شمارے میں ہمارے مہمان ایک ایسی ہما جہت شخصیت ہیں جن کی فکری گہرائی، عملی اور تخلیقی صلاحیتیں دنیائے اُردو ادب کے کئی شعبوں میں نمایاں ہیں۔ آپ کا تعلق پاکستان سے ہے لیکن ۱۹۸۰ء سے تقریباً پینتالیس برسوں سے آپ کینیڈا میں مقیم ہیں۔۔۔۔ ہم اپنے مہمان جناب اشفاق حسین زیدی صاحب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ وعلیکم السلام اور شکریہ
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اشفاق صاحب گفتگو کی شروعات ہم آپ کی ابتدائی زندگی سے کرتے ہیں۔ کچھ اپنے بارے میں بتائیے کہ کہاں بچپن گزرا؟ کہاں تعلیم حاصل کی؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ میرے آباء و اجداد کا تعلق ایسٹرن یوپی سے تھا۔ میری والدہ بنارس کی رہنے والی تھیں اور میرے والد جونپور کے تھے۔ میری انکھ کھلی پاکستان بننے کے بعد، جب میری فیملی یوپی سے ہجرت کر کے کراچی آچکی تھی۔ یہ بالکل ابتدائی زمانہ تھا۔ کراچی میں آ کے جس کو جہاں موقع ملا وہ وہاں رہ رہا تھا۔ میری جہاں آنکھ کھلی وہ پی ائی بی کالونی ( پیر الہیٰ بخش کالونی) تھی جو ایک زمانے میں کراچی کی مشہور کالونی تھی۔ مڈل کلاس کے پڑھے لکھے لوگ وہاں رہتے تھے اور شعر و ادب کی فضا بھی بہت تھی۔ بڑے بڑے شاعر و ادیب لوگ وہاں رہتے تھے۔ پی آئی بی کالونی سے ملحقہ ایک نالہ تھا اور نالے کے دوسری طرف کراچی کا جیل تھا اور اس کے پیچھے ایک علاقے میں مہاجرین کی جھگیاں تھیں جو لیاقت بستی کہلاتی تھی۔ اُسی لیاقت بستی کی ایک جھگی میں ہماری انکھ کھلی۔ اب ظاہر ہے کہ انڈیا سے لوگ ہجرت کر کے آئےہوئے تھے لٹے پٹے تو جہاں بھی جس کو موقع ملا وہ وہاں رہا۔ ہم بھی ایسے ہی رہے۔ پھر ۱۹۶۰ء میں جب گورنمنٹ کی طرف سے کورنگی اور لانڈھی کے علاقے بسائے گئے تو مہاجرین کی اُن جھگیوں کو شہر سے دور وہاں پھینک دیا گیا۔ ایک یا دو سال ہم کورنگی میں رہے اور پھر لالو کھیت آگئے۔ لیکن اسکول وہاں سے بہت دور پڑتا تھا تو پھر ہم دوبارہ کورنگی چلے گئے اور وہیں سے میٹرک کی تعلیم مکمل کی۔۔۔۔ اب یہ وہ زمانہ ہے کہ جب آپ نے میٹرک کرلیا تو شعر و ادب کی چیزیں آپ کے علم کا حصّہ بن جاتی ہیں۔ تو ہمارا ادبی ذوق بھی وہیں سے پروان چڑھا۔ اس کے بعد کراچی یونیورسٹی سے اُردو لٹریچر میں ماسٹرز کیا ۔ کراچی یونیورسٹی ۱۹۷۲ء میں ڈھاکہ فال کے فوراً بعد کھلی تھی۔ سیشن تو۱۹۷۱ء کا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے کھلا ۷۲ء میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اُس وقت جامعہ کراچی میں تو کئی نامور ہستیاں ہوں گی آپ کے ساتھ؟
اشفاق حسین زیدی صاحب ۔۔۔ جی بالکل! میں جب یونیورسٹی گیا تو اُس وقت بڑا اچھا ماحول تھا وہاں۔ ایک پوری فضا تھی ادب کی۔ مجھ سے ایک سال سینیئر طالب علموں میں پروین شاکر تھیں، عذرا عباس تھیں، تاجدار عادل تھے، پاکستان ٹیلی ویژن والے اور حیدر امام رضوی تھے۔ اور جو مجھ سے جونیئر تھے اُن میں ایوب خاور، لیاقت علی عاصم ، ڈاکٹر سلیم علی، جو بہاولپور یونیورسٹی میں تھے، ڈاکٹر فاطمہ حسن، وہ ایسٹ پاکستان سے بی اے کر کے آئی تھیں۔ شاہدہ حسن تھیں، وہ مجھ سے دو سال جونیئر تھیں۔ اور پھر وہ ساتھی جنھوں نے میرے ساتھ ایم اے کیا اُن میں ڈاکٹر ہلال نقوی، ثروت حسین اور انور سین رائے تھے۔ یہ وہ نام تھے جو اس زمانے میں کسی نہ کسی حوالے سے سامنے آتے رہتے تھے اور پھر بعد میں یہی لوگ آگے جاکر نمایاں ہوئے۔۔۔ اچھا! ہم تو کوئی مشہور وشہور نہیں تھے بس ان ساتھیوں کے ساتھ رہتے تھے۔ وہ جسے کہتے ہیں نا کہ ایک ادبی فضا بنی رہتی تھی تو ہم بھی اُس میں شامل رہتے تھے۔
اور پھر دیکھیے کہ ہمارے اساتذہ میں پروفیسر مجنوں گورکھ پوری صاحب تھے جو ہم کو مغربی تنقید پڑھاتے تھے، پروفیسر ممتاز حسین صاحب، وہ مشرقی تنقید پڑھاتے تھے، پروفیسر منظور حسین اور ایوب صاحب فارسی پڑھاتے تھے، حافظ اور سعدی کی داستان و بوستان جو ایم اے کے نصاب میں تھیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بہت خوب! آپ نے پی آئی بی کالونی کے ذکر میں کہا کہ وہاں ادب کی بہت اچھی ایک فضا تھی۔۔۔ تو اُس ماحول نے آپ کو ادب کی طرف راغب کرنے میں مدد کی ؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ دیکھیے! شاعری کا تعلق تو پڑھنے سے ہے۔ اسکول میں جب ادب پڑھا تو کچھ شد بد ہوگئی تھی۔ اس زمانے میں معاشرہ بھی ایسا تھا کہ ہر محلّے میں، غریب سے غریب بستی میں بھی بچوں کے لیے آنہ لائبریری اور دو پیسہ لائبریری ضرور ہوتی تھی۔ سب لوگ ایسے ہی پڑھنا شروع کرتے تھے۔ ہم نے بھی یہی کیا۔ آپ نے بھی ایسے ہی شروع کیا ہوگا کہ ٹارزن، عمر و عیّار اور طلسم ہوشربا کے قصّے پڑھ رہے ہیں۔ پھر جب تھوڑا بڑے ہوئے، نوجوانی میں داخل ہوئے تو ابن صفی نے گھیر لیا تو اُس میں دلچسپی ہوگئی۔ یہ سب پڑھنے سے یہ ہوا کہ زبان میں روانی آگئی۔ پھر یہ بھی کہ اُس زمانے میں جو مذہبی ماحول ہوتا تھا اُس میں آپ کو اچھی زبان سننے کا موقع ملتا تھا۔ میلاد ہورہا ہے تو اس میں نعتیہ شاعری ہو رہی ہے۔ محرم میں مجلسیں ہو رہی ہیں تو مرثیے سننے کو مل رہے ہیں، سوز خوانی ہورہی ہے، نوحے ہورہے ہیں پھر قوالی کی محفلیں ہورہی ہیں۔ یہ سب جب ہو رہا ہے آپ کے بچپن میں ارد گرد تو آپ بہت سی چیزوں سے واقف ہوجاتے ہیں کیونکہ یہ سب ادب کا ہی حصہ ہیں۔ اُس زمانے کے علماء بھی آج کل کے جیسے نہیں تھے جو گالیاں والیاں بکتے رہتے ہیں۔ رشید ترابی صاحب کی تقریر ہوتی تھی تو ہم اپنے ابّا سے کہتے تھے کہ بھئی ہم کیوں جائیں ہمیں تو کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تو وہ کہتے تھے کہ بیٹھو تو سہی تب ہی کچھ کان میں جائے گا اور سمجھ میں آئے گا۔ تو جو الفاظ آپ کے کانوں میں جاتے تھے اُس سے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ ہوتا تھا۔۔۔۔ اچھا پھر ریڈیو بہت اہم ترین ادارہ تھا اُس زمانے کا۔ ہر جگہ ریڈیو چل رہا ہے یعنیٰ مزدور بھی ریڈیو سن رہا ہے اور پان کی دکان پہ بھی ریڈیو چل رہا ہے۔ اور ریڈیو میں بچوں کا پروگرام بھی ہورہا ہے، طالبعلموں کا پروگرام بھی ہورہا ہے، خبریں سنائی دے رہی ہیں تو سب کو پتہ ہے کہ بی بی سی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ تو یہ فضا تھی کراچی میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس کی۔ اور کراچی شہر تو انہی لوگوں کا شہر تھا۔ جاگیرداروں اور نوابوں کا شہر تو تھا نہیں۔ سب لوگ یہاں آکر جدوجہد کررہے تھے۔ بڑے بڑے لوگ جو کبھی نواب تھے اُن کو ہم نے دیکھا کہ بیچارے پیدل چل رہے ہیں اور جو پیدل چلنے والے تھے وہ نوابی دکھلا رہے تھے۔
اب ایک دوسری چیز، ہم زبان کی طرف جاتے ہیں۔ اب جیسے ہمارے نصاب میں چھٹی، ساتویں اور آٹھویں جماعت میں، یہ میں سنہ ۶۰ ء کا ذکر کررہا ہوں، جو بھی بچہ تھا اس کے لیے فارسی یا عربی پڑھنا لازمی تھا۔ اب تین سال فارسی یا عربی پڑھ کے آپ عالم تو نہیں ہوجاتے لیکن اُردو کے جو سرچشمے ہیں وہ ان دونوں زبانوں سے پھوٹتے ہیں، تو اب جب آپ ان زبانوں کے الفاظ اور گرامر پڑھ رہے ہیں تو کچھ نہ کچھ دماغ کو مل رہا ہے۔ تو اُس زمانے میں جو بھی میٹرک کر کے نکلا، اب وہ چاہے پولیس میں گیا یا کسٹم میں گیا یا تجارت میں گیا یا کسی بھی شعبے میں گیا، اُس نے اُردو، فارسی اور عربی تو پڑھی ہوئی ہے اور اسے اچھی زبان کی شدھ بدھ ہے جبکہ آج کے نوجوان کو سمجھ میں نہیں آتا کہ کہا کیا ہے۔ یہ کون سا لفظ ہے اور اس کے کیا معنٰی ہے، یعنیٰ ایک لفظ کے دس معنی ہوسکتے ہیں۔ میں ابھی آپ سے گفتگو کر رہا ہوں تو میں تفصیل سے اپنی بات بیان کر سکتا ہوں لیکن جب میں شعر میں کہوں گا تو یہ ساری تفصیل مجھے ایک ہی شعر میں کہنا ہو گی تو سب سمٹ کے آجائیں گی۔ تو اس کو سمجھنے کے لیے ذہن تیار ہونا چاہیے۔۔۔۔ اس وقت کے کراچی میں اُردو زبان کا اچھا خاصا ماحول تھا اور ریڈیو پاکستان گڑھ تھا۔۔۔۔ ایک زمانے میں کہتے تھے کہ ٹکسالی اُردو والے کون ہیں، دلّی والے ہیں یا لکھنؤ والے۔ لیکن پاکستان بننے کے بعد یہاں ریڈیو پاکستان اسٹینڈرڈ تھا زبان کا۔ اور تھے بھی کیسے بڑے بڑے لوگ ریڈیو میں۔ بخاری صاحب جیسے ڈائریکٹر جنرل اور شاعروں میں قمر جمیل صاحب تھے، احمد ہمدانی صاحب تھے، رضی اختر شوق تھے، تابش دہلوی صاحب تھے، ناصر جہاں تھے، خبروں کے لیے شکیل احمد تھے، انور بہزاد تھے گویا کہکشاں تھی ایک چھوٹی سی عمارت میں۔ اُن کا کہا جب کانوں میں آتا تھا تو آپ سیکھتے تھے۔ مجال ہے کہ کبھی کوئی تلفظ کی غلطی ہوئی ہو۔ اور دیکھئے یہ خیال غلط ہوتا ہے کہ آدمی بڑا ہوکے سیکھتا ہے۔ وہ جب بچّہ ہوتا ہے تب سیکھنے کی صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں۔ تو اس طرح سے پورا معاشرہ سیکھ رہا ہوتا تھا۔ تو ان ہزاروں لاکھوں لوگوں میں ایک میں بھی تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اشفاق صاحب آپ ہی کی بات کو آگے بڑھاؤں گی کہ کیا ہم آج اپنے بچوں کو وہ ماحول دے پا رہے ہیں جس کا پیشتر آپ نے ذکر کیا یعنٰی اگر اُردو کے صحیح تلفظ ہی کی بات کی جائے تو نہ ٹی وی اس پہ زور دے رہا ہے، نہ ریڈیو اور نہ کوئی اورادارہ، تو اس میں قصور تو دونوں طرف سے ہوا؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ نہیں دونوں طرف کا نہیں ہے قصور صرف ہمارے معیارِ تعلیم کا ہے جس کو آپ نے ختم ہی کر دیا۔ سنہ پچاس اور ساٹھ میں جس جنریشن نے پاکستان بنایا تھا اس کی آنکھوں میں کچھ خواب تھے اور آج بھی ہیں کہ ان کو اپنی تہذیب کو بڑھانا تھا لیکن اب دیکھیں آپ بڑے بڑے ہمارے اخبارات ہیں جو مرضی آئے لکھ دیں اردو میں، میں نام لے لیتا ہوں۔۔۔۔ جنگ اخبار، اس کا انگریزی کا دی نیوز ہے۔ ایک ہی ادارہ ہے اگر انگریزی اخبار میں وینٹ کو ڈبلیو کی جگہ وی سے کوئی جرنلسٹ لکھ دے تو اس کی نوکری چلی جائے گی۔ کبھی آپ ایسی غلطی نہیں کر سکتے۔ اُردو میں سو ایسی غلطیاں ہوجائیں کوئی پوچھتا ہی نہیں ہے حالانکہ ایک ہی ادارہ ہے اور ایک ہی مالک۔ تو یہ فرق جو ہے یہ پیدا کیا ہے کسی نے۔ ٹیلی ویژن اور ریڈیو کا ایک معیار تھا۔ یہ نہیں تھا کہ غلطی نہیں ہوتی تھی لیکن اگر کبھی غلطی ہو بھی جاتی تھی تو اس کی معذرت کی جاتی تھی، وضاحت کی جاتی تھی۔ وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا عمل دخل زیادہ تھا جو زبان کو جانتے تھے۔ اب ترجیحات بدل گئیں اور صرف زبان ہی میں نہیں ہر شعبے میں بدل گئیں۔ کرکٹ کھیلنے جاتے تھے تو کرکٹ ایک آرٹ تھا۔ پانچ دن کا گیم ہورہا ہے اور ایسے کپڑے پہننے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ پھر پچاس اوور کا ہوگیا اور پھر بیس اوور کا ہوگیا تو اب بیس اوور میں اسکل بھی بیس اوور کی ہی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ دنیا اسکل سے ختم تو نہیں ہوگئی لیکن یہ کہ ترجیحات بدل گئیں۔ اسی طرح شاعری وغیرہ میں بھی وقت ہی نہیں ہے بچوں کو زبان سکھلانے کا۔ اتنا مقابلہ ہے کہ وہ توجہ ہی نہیں دے پا رہے ہیں تو اس میں ہمارے نظام تعلیم کی اردو کے حوالے سے بہت ذمہ داری ہے۔ وہ دن بہ دن کم ہو رہی ہے اور میرے خیال میں اب تو خرابی کی طرف جارہی ہے۔ میں تو یہی کہوں گا کہ اگر کسی کا خود شوق ہے، خود دلچسپی ہے تو وہ اس طرف آئیں گے ورنہ نہیں۔
اچھا اور ایک دوسری وجہ یہ بھی ہوئی کہ شعر و ادب کا جو ماحول ہمارے مشرق میں تھا وہ مغرب میں نہیں تھا۔ آپ سویڈن میں رہتی ہیں ہم یہاں کنیڈا میں رہتے ہیں۔ کبھی پینتالیس سالوں میں نہیں دیکھا کہ کسی کیفے ٹیریا میں بیٹھے ہوں اور کوئی دو لوگوں کو سنا ہو کہ وہ باتیں کر رہے ہو انگریزی کے ادب کی یا اس کے حوالے سے۔ جبکہ مشرق کی فضا الگ تھی، میں اپنا ایک واقعہ بتاؤں آپ کو، یہ۷۰ ء کی بات ہے جب میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو دوپہر کو ایک جگہ کیفے میں کھانا کھاتا تھا پھر وہاں سے ٹیوشن پڑھانے جاتا تھا۔ ایک دن وہاں دو مزدور بیٹھے ہوئے تھے اسٹول پر اور باتیں کررہے تھے۔ اُس زمانے میں نئی نئی مہدی حسن صاحب کی غزل آئی تھی جو احمد فراز صاحب کی تھی۔۔۔ رنجش ہی سہی۔ مزدور وہاں کھدائی کا کام کررہے تھے جہاں آج کل آغا خان یونیورسٹی ہاسپٹل ہے۔ تو اُن میں سے ایک کہنے لگا کہ یہ پندار کیا ہوتا ہے۔۔۔غزل میں تھا کہ
کچھ تو میرے پندارِ محبت کا بھرم رکھ
دوسرا مزدور کہنے لگا کہ پندار جو ہے نا وہ محبت کی ایک شکل ہے۔ پھر اُن کی نظر مجھ پر پڑی تو ایک نے کہا کہ بھائی صاحب سے پوچھو۔ تو ایک مزدور جس کو الف ب بھی پڑھنا نہیں آتا وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ پندار کیا کہا ہے۔ یعنیٰ اس زمانے میں شعر و ادب کی ایک سوسائٹی تھی۔ آپ دیکھئے! ۷۰ء کی دھائی میں کوئی نہ کوئی ایک فلم ضرور ایسی آتی تھی جس میں شاعر ہیرو ہوتا تھا۔ اب یہ نہیں ہے۔ اس سے شاعر کی اہمیت کم ہوئی معاشرے میں۔ یہ نہیں کہ معاشرہ شاعروں سے خالی ہے۔ بڑے بڑے شاعر ہیں، ادیب ہیں جو لکھ رہے ہیں لیکن ۴۷ء میں جب ہمارے ملک کی آبادی سوا دو کروڑ تھی۔ اس وقت بھی پانچ سو کتابیں چھپتی تھیں جو پانچ ہزار لوگ پڑھتے تھے۔ اب آبادی دو سو پچاس ملین ہوگئی ہے، کتاب اب پانچ سو نہیں بکتی۔ لیکن اس میں ہم کسی فرد کو ذمّہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ میں اور آپ کیا کرسکتے ہیں لیکن جو لوگ کوشش کررہے ہیں ان نامساعد حالات میں زبان کے لیے، ادّب کے لیے وہ شکریئے کے مستحق ہیں جیسے آپ کا ادارہ ہے ورثہ۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ جامعہ کراچی میں دوران تعلیم ابوللیث صدیقی صاحب اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب جیسی دنیائے اُردو کی قدآور اور باکمال شخصیات آپ کے استاد رہے تو آپ کی تخلیقی زندگی پر اُن کا کس قدر اثرہوا؟
اشفاق حسین زیدی۔۔۔ جی اس میں تو کوئی شک نہیں ہے ہر آدمی پر اپنے دوستوں کا، ماحول کا اور اساتذہ کا اثر ضرور پڑتا ہے۔ اگر یہ نہیں ہوتے تو ممکن تھا کہ تُک بندی کرتے رہتے۔ پڑھنے سے ہی تھوڑا بہت یہ پتہ چلا کہ غالب یہ شعر کیوں کہہ رہے ہیں اور اس کے کیا معنیٰ ہیں۔ ہمارے علم کے دو ذرائع ہوتے ہیں ایک علمِ کتابی اور ایک علِمِ مجلسی۔ علمِ کتابی کافی نہیں اس کے ساتھ ساتھ علمِ مجلسی بھی ضروری ہے جو ہم بچپن سے سیکھتے ہیں ماں باپ سے، محلّے سے، دوستوں سے اساتذہ سے۔ صرف علمِ کتابی ہوگا تو آپ کتابچے کو کتّا بچہ بھی پڑھ سکتے ہیں۔ علمِ مجلسی میں اگر بیٹھتے تو یہ کبھی نہیں ہوگا۔ اب مجھے اس میں، علمِ مجلسی میں، کمی محسوس ہوتی ہے۔ ممکن ہے ہم پرانی نسل کے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ آج کی نسل ویسی نہیں ہے لیکن مجھے یہ بھی اندازہ ہوا کہ اب دوسرے ذرائع بھی موجود ہیں۔ پانچ چھ سال پہلے جب میں کراچی گیا تو یونیورسٹی میں ایک شام رکھی تھی بحیثیت شاعر میرے لیے۔ میں نے اپنی دو چار نظمیں اور غزلیں پڑھ دیں جو ہم شاعروں کو عموماً زبانی یاد رہتی ہیں اور ہر جگہ پڑھ دیتے ہیں مگر اُس کے بعد کیا ہوا کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں نے کہنا شروع کیا وہ غزل سنائیے، وہ نظم سنائیے، یعنیٰ دو تین ایسی غزلوں کی فرمائش ہوئی جو مجھے بھی یاد نہیں تھیں۔ ایسا کیوں ہوا؟ کیونکہ اُن کے ہاتھ میں ٹیلی فون تھا۔ تو اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ رسائی نہیں ہے۔ یہ ایک نیا سلسلہ ہے جس تک سب کی رسائی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بالکل درست کہا آپ نے اشفاق صاحب۔ میں آپ کو ایک دلچسپ بات بتاؤں کہ ہمارے جاننے والوں میں بھی کچھ نوجوان بچّے ہیں جو آپ کے نام سے، آپ کی شخصیت سے واقف نہیں تھے مگر آپ کی نظموں خصوصاً ” زومنگ” کے بڑے مداح تھے جو موبائل فون کے ذریعے ہی اُن تک پہنچی تھی۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ سن کر خوشی ہوتی ہے کہ نئی نسل تک شاعری جارہی ہے۔ ایک شعر بھی زندہ رہے تو بہت ہے۔ میں بھی ایک دلچسپ واقعہ سناؤں اس حوالے سے کہ پچھلے سال کلیو لینڈ امریکہ میں مشاعرہ تھا۔ چھوٹا سا مجمع تھا کوئی بہت بڑا مشاعرہ نہیں تھا۔ سو دو سو لوگ ہوں گے۔ وہاں سامنے ایک فیملی بیٹھی تھی۔ اس میں ایک نوجوان لڑکا بھی تھا۔ میں نے زومنگ پڑھی تو میں نے دیکھا کہ وہ لڑکا اپنے والدین سے میری طرف دیکھ کر کچھ کہہ رہا ہے۔ خیر جب مشاعرہ ختم ہوا تو وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا جب آپ نے یہ نظم زومنگ پڑھی تو میں نے اپنی ماں سے کہا کہ یہ نظم تو ان کی ہے ہی نہیں۔ یہ تو کسی اور کی نظم چرا کے پڑھ رہے ہی لیکن پھر جب میں نے موبائل پر سرچ کیا تو اس میں آپ ہی کا نام لکھا ہوا تھا اشفاق حسین زیدی۔ یہ تو آپ ہی کی ہے۔
تو اُس لڑکے کا بھی قصور نہیں ہے ۔ پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ مشاعروں وغیرہ کے ذریعے شاعر اور اُس کا کلام لوگوں تک پہنچ جاتا تھا۔ پھر ریڈیو بھی تھا، کسی گلوکار یا گلوکارہ نے کسی شاعر کی غزل گا دی تو وہ مقبول ہوجاتی تھی۔ احمد فراز صاحب، شاعر تو وہ ہمیشہ سے بڑے تھے مگر جب مہدی حسن صاحب نے اُن کی غزلیں گائیں تو فراز صاحب کی شاعری کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوگیا۔ اتفاق سے میری بھی کچھ نظمیں ضیاء محی الدین صاحب نے پڑھیں تھیں، اُن میں ایک یہ بھی تھی “زومنگ”۔ اُن کی آواز اچھی تھی اور سلیقہ بھی بہت تھا پڑھنے کا، تو یہ بھی مقبول ہوگئی۔ اب بھی میں جب کبھی مشاعروں میں جاتا ہوں تو لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ نظم پڑھ دیں۔ پہلے تو میں شرمندہ ہوتا تھا کہ لوگ کہیں گے ان کے پاس ایک ہی نظم ہے مگر پھر مجھے خیال آیا کہ لوگ جب فرمائش کر رہے ہیں تو سنادوں۔ تو میں سنا دیتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ وہ تو واقعی لاجواب ہے اور اس کی فرمائش تو ہم بھی کریں گے آپ سے۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ ہاں میں آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔
“زومنگ”
دیکھوں جو آسمان سے تو اتنی بڑی زمین
اتنی بڑی زمین پہ چھوٹا سا ایک شہر
چھوٹے سے ایک شہر میں سڑکوں کا ایک جال
سڑکوں کے جال میں چھپی ویران سی گلی
ویراں گلی کے موڑ پر تنہا سا ایک شجر
تنہا شجر کے سائے میں چھوٹا سا ایک مکان
چھوٹے سے ایک مکان میں کچی زمیں کا صحن
کچی زمیں کے صحن میں کھلتا ہوا گلاب
کھلتے ہوئے گلاب میں مہکا ہوا بدن
مہکے ہوئے بدن میں سمندر سا ایک دل
اس دل کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ہوں میں
یوں ہے کہ اس زمیں سے بڑا ہو گیا ہوں میں
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ واہ! کیا کہنے، کیا خوبصورت خیال ہے۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ بہت شکریہ
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ زمانہ طالب علمی میں آپ جامعہ کی ادبی سرگرمیوں میں کافی فعال رہے ہیں تو کس قسم کی ذمّہ داریاں تھیں آپ کی؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ یونیورسٹی میں فعالی کا جہاں تک تعلق ہے تو بزمِ طلبہ ہوتی تھی ریڈیو پاکستان میں تو اس کے پروگراموں میں حصّہ لیتا تھا۔ اپنے ڈیپارٹمنٹ کا میں وائس پریذیڈنٹ تھا یونین کا تو اُس میں ادبی پروگرام وغیرہ کرتے رہتے تھے۔ محفلیں ہوتی تھیں باقاعدگی سے جیسے طالب علموں کی ہوتی ہیں۔ ڈیپارٹمنٹ بھی بہت بڑا تھا ہمار۔ آنرز اور ایم اے سب ملا کر ڈیڑھ دو سو سے اوپر لوگ ہوتے تھے۔ بہت سے لوگوں کو مہمان بلا کر پروگرام کیے۔ لاہور سے فتح محمّد ملک صاحب کو بلایا، بلوچستان یونیورسٹی سے پروفیسر مجتبیٰ حسین صاحب کو لیکچر کے لیے بلایا۔ بلوچستان یونیورسٹی اسی سال کھلی تھی اور پھر کراچی میں جو لوگ ہوتے تھے اُن کو بلاتے رہتے تھے۔ ہر کالج میں ہفتہ طلباء کی روایت تھی جب تک یونین تھی وہاں پروگرام کرتے تھے۔ جمیل الدین عالی صاحب کو بلایا ، سید محمّد تقی صاحب، رئیس امروہوی صاحب ، ابنِ انشاء، مرزا ظفر الحسن، جن جن تک رسائی ہوسکتی تھی اُن کو کسی نہ کسی حوالے سے بلا لیتے تھے۔ اور پھر اپنے ڈیپارٹمنٹ کے علاوہ نیشنل اسٹوڈنٹ فیڈریشن میں صادقین صاحب کو ایک پروگرام میں بلایا، احمد فراز صاحب، سرور بارہ بنکوئی اور فہمیدہ ریاض تو یونیورسٹی میں بحیثیتِ طالب علم نوجوانی سے ہی یہ سب کرنے کا قدرت نے موقع دیا اور ان شخصیات سے ملاقاتیں بہت رہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ غالباً کراچی میں درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ ہاں! ایک تو میں نے یہ کیا کہ ایم اے میں میرا ریسرچ پیپر تھا فیض احمد فیض صاحب پر اس نے میری زندگی میں اہم کردار ادا کیا۔ ایم اے کرنے کے بعد میں ایک سال تک پڑھاتا رہا گورنمنٹ ڈگری سائنس کالج کورنگی میں ٹیمپریری استاد کے طور پر۔ وہاں ایک سال پڑھانے کے بعد میں فرینڈ شپ ہاؤس میں آگیا رشین کلچرل میں اور پھر وہاں سے آرٹس کونسل میں آگیا۔ چار سال ۷۶ء سے ۸۰ء تک یعنیٰ کنیڈا آنے سے پہلے تک میں آرٹس کونسل میں پروگرام آفیسر تھا۔ تو ان جگہوں پر بھی موقع ملا۔ پہلے جو تعلق تھا ادّب کے حوالے سے تھا اور جب آرٹس کونسل میں آگئے تو مختلف فنون کے لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع ملا مثلاً صادقین صاحب، گل جی صاحب، احمد پرویز۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ دوستوں کا حلقہ تھا بس دورانِ ملازمت مجھے موقع مل گیا ان کی باتیں سننے کا، اٹھنے بیٹھنے کا انداز دیکھنے کا۔ اسی طرح ڈرامے کی فیلڈ میں طلعت حسین، معین اختر، عمر شریف کمال احمد رضوی۔ آرٹس کونسل میں بھی ڈرامے ہوتے تھے۔ کمال احمد رضوی کا، ” الّن ننھا” شو ہوتا تھا۔ اسی طرح موسیقی کے پروگرام وہاں ہوتے تھے تو اقبال بانو، فریدہ خانم اور مہدی حسن صاحب آتے تھے تو کہنے کا مطلب یہ ہے کہ مختلف فنون کے لوگوں سے ملنے کا بڑا موقع ملا۔ میں وہاں آرٹس کونسل میں بڑا مطمئن تھا اور اُس زمانے میں، میں نے مشاعروں میں بھی جانا چھوڑ دیا تھا۔ پہلے میں تخلّص رکھتا تھا “شفق زیدی” وہ بھی چھوڑ دیا۔ البتہ شاعری میں کرتا رہا۔ کنیڈا آنے سے پہلے میری دو کتابیں شائع ہوچکی تھیں۔ ایک نثر کی ” فیض اک جائزہ”۔ میں نے لکھی تو تھی ۷۳ء میں اور میرے ممتحن تھے پروفیسر ممتاز حسین صاحب تو انہوں نے اصرار کیا کہ اس کو کتابی شکل میں شائع کرو تو پھر ادارے یادگارِ غالب کراچی میں مرزا ظفرالحسن صاحب نے یہ کتاب ۷۷ء میں شائع کی۔ بعد میں پتہ چلا کہ اس وقت تک فیض احمد فیض صاحب کی شاعری پر اردو زبان میں کوئی کتاب نہیں لکھی گئی تھی۔ مجھے نہیں معلوم تھا لیکن یہ پہلی کتاب تھی۔ مضامین وغیرہ بہت آتے تھے فیض صاحب پہ اس زمانے میں اور بڑی اہمیت ہوتی تھی اُن ادبی رسالوں کی۔ فیض پر بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ اُن پر نمبر تھے اور کافی مضامین تھے اُن پر لیکن کتابی شکل میں کوئی چیز نہیں تھی۔ تو وہ بھی ایک اعزاز ملا۔ اُس کے بعد جب میں یہاں کینیڈا آرہا تھا تو جو میری شاعری طالب علمی کے زمانے کی تھی ۷۰ء میں اور اس کے بعد جو کرتا تھا، مشاعروں میں تو نہیں جاتا تھا مگر شعر کہتا تھا تو دوست نے مشورہ دیا کہ جانے سے پہلے کتاب چھپوا لوں۔ پتہ نہیں پھر کبھی موقع ملے نہ ملے کیونکہ اُس زمانے میں، پینتالیس سال پہلے کینیڈا تو ادبی منظر نامے پر تھا ہی نہیں۔ تو میرا پہلا شعری مجموعہ ” اعتبار” جو میری دوسری کتاب تھی، وہ بھی میرے یہاں آنے سے پہلے شائع ہوئی۔ اس کے فلیپ پر سرور بارہ بنکوی صاحب، پروفیسر انجم عزمی اور فرمان فتح پوری صاحب نے اس کے بارے میں لکھا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ تو میں کنیڈا آکے شاعر نہیں بنا پہلے ہی سے تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ جہاں فیض صاحب پر پہلی کتاب کے خالق ہیں وہیں آپ کو اُن کی صحبت سے مستفید ہونے کا بھی بھرپور موقع ملا تو آپ نے اپنی نظر سے فیض صاحب کو کیسا پایا؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ جی، پہلے تو فیض صاحب سے عام سی دو تین ملاقاتیں ہوئیں جیسے عام بڑے لوگوں سے لوگ ملتے ہیں لیکن یہ ہوا اتفاق سے کہ جب میں یہاں آیا تو اس زمانے میں بھٹّو صاحب کو پھانسی دے دی گئی تھی اور مارشل لاء تھا۔ اُس میں جبر کی فضا بہت تھی تو ہمارے بہت سارے لکھنے والے خود ساختہ ایگزائل میں چلے گئے تھے۔ فیض صاحب بھی اُن میں ایک تھے اور وہ بیروت میں تھے۔ آپ بھی سویڈن میں رہتی ہیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ ان جگہوں پہ اتنا بڑا آدمی جو اپنے ملک میں ہر وقت لوگوں میں گھرا رہتا تھا تو اسے کس قدر تنہائی کا احساس ہوتا ہوگا پردیس میں۔ فیض صاحب جب لندن میں تھے تو ایک شعر میں کہا بھی ہے انہوں نے کہ
تیرے کوچے میں بادشاہی کی
جب سے نکلے گداگری کی ہے
یہ ہے ایگزائیل کا دکھ ۔ وہ ملنا چاہتے تھے لوگوں سے تو اتفاق یہ ہوا کہ اسی زمانے میں ٹورنٹو میں پہلا پروگرام ہوا ۔ یہاں اک آرگنائزیشن تھی ہماری، اُس کے صدر تھے ڈاکٹر یونس، انہوں نے مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلیا کہ فیض صاحب پہ کتاب لکھی ہے میں نے تو میں اس آرگنائیزیشن کا سیکرٹری ہو گیا۔ گویا ایک طریقے سے میزبانوں میں شامل ہو گیا۔ ۱۹۸۰ء میں فیض صاحب یہاں آئے تو اس زمانے میں ظاہر ہے کہ ایگزائیل میں تھے تو زیادہ وقت تھا اُن کے پاس۔ یہاں کینیڈا میں بھی لوگ کم تھے۔ اُردو ادب کی کمیونٹی بہت چھوٹی تھی تو ہمیں بھی زیادہ موقع ملا ان سے ملاقات کا۔ یہ موقع شاید پاکستان میں نہ ہوتا۔ کینیڈا آنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اُن لوگوں کو جن کو ہم تصویر میں دیکھتے تھے یا جن سے ہاتھ ملاتے تھے ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کا موقع مل گیا۔ تو جب تک فیض صاحب حیات رہے ہر سال یہاں آتے تھے اور اُن سے ملاقات ہوتی تھی۔ ذاتی سطح پر جو بات چیت ہوتی تھی جیسے کہیں چائے پینے جا رہے ہیں یا گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں کوئی لطیفہ سنادیا۔ کوئی واقعہ ہو گیا تو وہ علمِ مجلسی بڑا قیمتی تھا۔ اس نے مجھے اُردو پروموشن کی طرف بھی لگا دیا کہ بھئی ہم کانفرنس وغیرہ کریں۔ تب جو بڑے بڑے نام تھے ان کو بلایا۔ ان کے ساتھ بیٹھے۔ وہ سمجھئے کہ ایک طریقے کا میرے لیے یونیورسٹی کا سیمسٹر ہوتا تھا۔ اُن میں احمد ندیم قاسمی صاحب، جگن ناتھ آزاد صاحب، گوپی چند نارنگ صاحب، شمس الرحمن فاروقی صاحب، منیر نیازی صاحب، کشور ناہید صاحبہ، افتخار عارف صاحب اور احمد فراز صاحب تھے۔ فیض صاحب کا تو خیر انتقال جلدی ہو گیا یعنیٰ ملاقات کے چند سال کے بعد ہی لیکن فراز صاحب کا میں چھبیس سالوں تک میزبان رہا ہوں۔ آخری وقت بھی جب وہ گئے ہیں شکاگو سے ٹورنٹو ہوتے ہوئے تو یہاں اُن سے ملاقات ہوئی۔ میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ بحیثیتِ ایمیگرنٹ ہم نے یہاں کیا کھویا، کیا پایا۔ بہت سی چیزیں ہم نے کھوئیں لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ جو دولت مجھے یہاں پر بڑے لوگوں کی صحبت میں ملی وہ بڑی نعمت ہے۔ پھر یہ ہوا کہ میں یہاں ایشین ٹیلی ویژن نیٹ ورک سے وابستہ ہو گیا تو وہاں پر مجھے شاعروں کے علاوہ مختلف ڈسپلن کے لوگوں سے ملنے اور اُن کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا، جیسے دلیپ کمار صاحب ہوئے، لتا منگیشکر صاحبہ ، غلام علی صاحب اور راحت فتح علی وغیرہ۔ تو یہ ہے میری اصل دولت اور میں اپنے آپ کو اس معاملے میں کافی ثروت مند سمجھتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ نے بڑی مشہور و معروف شخصیات کے انٹرویو کیے شاعروں کے، ادیبوں کے، گلوکاروں و فنکاروں کے، یہ بتائیے کہ اُن تمام میں خود آپ کو سب سے اچھا کون سا انٹرویو لگتا ہے جسے کہ آپ یادگار کہہ سکیں؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ پہلے تو یہ بتاؤں کہ اصل میں ہوا یہ خراسانی صاحبہ کہ میں اتفاق سے اس فیلڈ میں چلا گیا تھا۔ یہ میری فیلڈ نہیں تھی۔ قسمت آپ کو خود لے جاتی ہے۔ فیض صاحب جب یہاں کینیڈا آئے تھے تب مجھے بھی یہاں آئے ہوئے چند مہینے ہوئے تھے۔ اس زمانے میں یہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تو تھی نہیں جیسے کہ ہم لوگ بیٹھ کے بات کر رہے ہیں یہ سب چیزیں تو تصّور میں بھی نہیں تھیں۔ ایک ہی ٹی وی ہوتا تھا تو یہاں پہ کینیڈین ٹی وی پہ صرف ہفتے اور اتوار کو ایک گھنٹے کا پروگرام ہوتا تھا ہندی یا اردو جو بھی آپ کہہ لیں ایشیئن ٹیلی وژن نیٹ ورک پر۔ ہوتا یہ تھا کہ اگر محمد رفیع کا گانا ہے اور پروڈیوسر ہندو ہے تو وہ انڈین ہو جائے گا اور صدائے پاکستان پروگرام ہے تو وہ اُردو ہوجائے گا۔ چاہے اس میں لتا منگیشکر کا گانا ہو۔ وہاں ایک ساؤتھ انڈیا کے ڈائریکٹر تھے بلکہ اب بھی ہیں چندرشیکھر صاحب، اُن کے والد نے پہلی ٹاکی مووی انڈیا میں بنائی تھی۔ ممبئی میں ۱۹۳۳ء میں عالم آرا فلم جو بنی اُس سے چند مہینے پہلے ساؤتھ انڈیا میں ٹاکی مووی چل چکی تھی۔ تو فیض صاحب وہاں آرہے تھے تو پروگرام کرنے کا کہا چندر شیکھر سے تو انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے مگر انٹرویو کون کرے گا۔ ہمارے یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ کسی نے بتایا کہ پاکستان سے ایک لڑکا آیا ہوا ہے اُس کو لاتے ہیں۔ اچھا میں نے اس سے پہلے کبھی انٹرویو نہیں کیا تھا مگر چلے گئے اور انٹرویو ہوگیا۔ پھر یہ ہوا کہ کبھی کبھی ایشیئن ٹی وی پر چلے جاتے تھے اور اُردو اور پاکستان کے حوالے سے جو پروگرام ہوتے تھے اس میں شریک ہوتے تھے۔ ایک دن مجھے اچانک چندر شیکھر کا فون آیا اور انہوں نے پوچھا کہ کل تم کیا کررہے ہو؟ میں نے کہا گھر پہ ہوں تو کہنے لگے تم ایسا کرو کل آجاؤ یوسف بھائی آرہے ہیں اُن کا انٹرویو کرنا ہے اُردو میں۔ میں نے کہا یوسف بھائی کون تو کہا دلیپ کمار صاحب۔ وہ اُن کو یوسف بھائی کہتا تھا اور کبھی دادا بھائی۔ اچھا میں اتنا فلم ولم کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا کیونکہ جب میں وہاں تھا تو پاکستان میں انڈین فلمیں اور رسالے وغیرہ بند تھے اور وی سی آر کا اتنا چرچا نہیں تھا۔ اور جو تھوڑا بہت تھا بھی تو ہم تک نہیں پہنچا تھا۔ تو اب میری معلومات زیرو! یعنیٰ آپ کسی کا انٹرویو کرنے جارہے ہیں اور اُس کے بارے میں آپ کو پتہ ہی نہیں سوائے یہ کہ دلیپ کمار صاحب ایک اچھے، بڑے اداکار ہیں اور مغل اعظم اُن کی فلم ہے۔ اب اس پر تو بات نہیں ہوسکتی تھی تو میں نے ادھر اُدھر سے اور دوستوں سے معلوم کر کے کچھ سوالات لکھے۔ پہلے جو انٹرویو ہوا وہ انگریزی میں ہوا۔ اُس میں دلیپ صاحب، سائرہ بانو اور اداکارہ کمی کاٹکر شامل تھے۔ وہ انٹرویو ختم ہوا تو سائرہ بانو اور کمی کاٹکر وہاں سے چلی گئیں۔ دلیپ صاحب بیٹھے تھے۔ انہوں نے اشارہ کیا کہ مائک ہٹاؤ تو اُن کو بتایا گیا کہ ایک انٹرویو اور ہے۔ انہوں نے کہا نہیں نہیں بس اسے ہٹاؤ۔ چندر شیکھر نے کہا کہ یوسف بھائی ! اشفاق کا انٹرویو اُردو میں ہے۔ دلیپ صاحب تقریباً کرسی سے اٹھ چکے تھے مگر اُردو کا سن کر بیٹھ گئے۔ اچھا! اب پہلا سوال جو میں نے کیا اُس سے مجھے اندازہ ہوا کہ دلیپ کمار صاحب تو اُردو ادب اور شاعری وغیرہ سے خوب اچھی طرح واقف ہیں تو پھر میں نے سوالات کا پرچہ جیب میں رکھ لیا اور پھر اس دن کے بعد زندگی میں کبھی پرچہ ہاتھ میں نہیں لیا۔ آپ دیکھئے کہ اپنے زمانے کا اتنا بڑا اور مشہور اداکار، چالیس پینتالیس منٹ میری اُن سے گفتگو ہوئی۔ نہ کوئی فلم پر بات ہوئی نہ اداکاری پر، بس ادب پر ہی بات ہوتی رہی۔ دلیپ کمار صاحب کا وہ انٹرویو یوٹیوب پر ہے۔ وہ بڑی شخصیت تھے تو اُن کی وجہ سے ملین سے زیادہ ناظرین نے اس انٹرویو کو دیکھا۔ تو یہ میرا یادگار انٹرویو تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اشفاق صاحب چونکہ آپ بھی طویل عرصے سے کیینیڈا میں مقیم ہیں تو یہ بتائیے کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ پردیس میں رہنے والے شاعروں اور ادیبوں کو اپنی تخلیقات میں مقامی ماحول کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ اس میں دو چیزیں ہیں۔ شاعری جو ہے وہ اپنے ماحول اور اپنی ثقافت سے جڑی ہوئی چیز ہے۔ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اُس میں جب ہم اُردو میں لکھیں گے یا تو ہم اس زبان میں لکھیں جو اُن کی زبان ہے تو اُن کے ساتھ کمیونیکیشن ہوگا ۔ ہم لکھ رہے ہیں ایک چھوٹی کمیونٹی کے لیے یہاں اور بڑی کمیونٹی کے لیے پاکستان اور ہندوستان میں جو اُردو کی ہے۔ کیونکہ دیکھئے شاعر جو ہوتا ہے اُس کے ذہن میں سامع ہوتا ہے ایک یا گروہ یا مجمع۔ میں اگر اُن کے لیے پڑھ رہا ہوں تو اُن کو سامنے رکھے بغیر گفتگو نہیں کرسکتا۔ میں مثال دوں آپ کو کہ آپ کو بھی اُردو آتی ہے اور مجھے بھی آتی ہے۔ ہم باتیں کررہے ہیں جو بھی ہمارا علمی معیار ہے، ہم بات کررہے ہیں لیکن ابھی میرا تین سال کا نواسہ آجائے اور میں اس سے گفتگو کروں تو میں اس طریقے سے نہیں کروں گا۔ میں اُس سے مینیگ لیس بے معنیٰ گفتگو کروں گا جیسے کا کل لا ہے میلا بچہ۔۔۔۔ کیا مجھے نہیں آتا یہ بولنا کہ کیا کررہا ہے میرا بچّہ۔ لیکن میں اُس کی زبان میں اس کی سطح پر گفتگو کروں گا تاکہ وہ میرے قریب آئے۔ مخاطب کو دیکھ کر ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ اب جو ہم امیگیرنٹ شاعروں کا تعلق ہے اگر ہم ایسی شاعری کریں جو صرف یہیں کے لیول پر ہو تو وہاں میرے پڑھنے والے اسے پڑھیں گے تو لیکن اس ماحول کا درد اُن کے یہاں نہیں ہوگا۔ تو یہ دیکھنا کہ ہم جس زبان میں لکھ رہے ہیں اُس کے پڑھنے والے کہاں ہیں۔ ویسے تو دنیا آج چھوٹی ہوگئی ہے۔ ہم اس دنیا سے وابستہ ہوں گے تو دنیا ہمیں اپنے مسائل کی طرف لائے گی۔ مثلاً اب فلسطین کا مسئلہ ہے، کیا کنیڈا کا مسئلہ نہیں ہے فلسطین، بالکل ہے، یورپ کا بھی ہے اور پاکستان کا بھی ہے۔ اس موضوع پر فیض نے بھی لکھا، فراز نے بھی لکھا۔ میں نے بھی اپنی شاعری میں دیکھا کہ بہت ساری چیزیں مقامی مسائل سے منسلک ہیں۔ ایسا نہیں تھا کہ آنکھیں بند کر کے لکھ دی ہیں۔ یہاں کے امیگریشن کے مسائل پر لکھا۔ جیسے کہ
سمندر چھوڑ آئے کوہ و دریا چھوڑ آئے ہیں
نئی دنیا کی خاطر ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
پہن کر ہم لباسِ اجنبیت کس طرف جائیں
کہ ہم اپنا بدن لائیں ہیں چہرہ چھوڑ آئے ہیں
پھر ماحولیات پر بھی میری نظمیں ہیں جو کہ آج کا بڑا مسئلہ ہے۔ درخت کٹ رہے ہیں، پانی کی کمی ہورہی ہے، مچھلیاں مر رہی ہیں۔ پلاسٹک اور کوڑا ایک الگ ایشیو ہے۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ ایک موسم میں، میں پنجاب سے گزرا تو ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی ۔ میں نے پوچھا کہ آگ کیوں لگی ہوئی ہے، کہنے لگے فصل کٹی تھی اب جلائی جارہی ہے تو ہر طرف دھواں ہی دھواں تھا، کثافت یعںیٰ پلوشن پھیلا ہوا تھا۔ یہ یہاں کا مسئلہ نہیں ہے ہمارے یہاں کا مسئلہ ہے اور یہ میری شاعری میں بھی ہے اور یہاں رہنے والے دوسرے شاعروں کے یہاں بھی ہے۔ تو اُردو شاعری کا آج کا جو دھارا ہے وہ کراچی، ممبئی، لکھنؤ، دلّی، لاہور، یورپ و امریکہ ان سب کا ایک مجموعی دھارا ہے اور ان سب کو پیشِ نظر رکھ کر مجھے اپنی بات کرنی چاہیئے۔ اگر میں اپنی بات کامیابی سے کہوں گا تو بات پہنچے گی، زومنگ کو ہی لے لیجئے۔ میرے ذہن میں ایک خیال آیا اس کو میں نے ایک شکل دے دی اور وہ لوگوں کے لیے قابلِ قبول ہوگئی۔ ممکن ہے کہ آج کے دور میں کوئی پاکستان میں یا ہندوستان میں ایسی بات کہہ دیتا لیکن میں نے پچیّس سال پہلے کہی تھی۔ اپنے ماحول کے حساب سے۔ اسی طرح ساؤتھ افریقہ میں اپرتھائیڈ موومنٹ پر میری نظمیں ہیں۔ اُس وقت میں یہاں سے اُردو انٹرنیشنل نکالتا تھا۔ اُس میں ساؤتھ افریقہ کا نمبر نکالا ، فلسطین پر بیروت کے حوالے سے نکالا۔ پاکستان میں جو ہورہا تھا اس کا بھی ذکر ہوتا تھا۔ مارشل لاء کا زمانہ تھا، اُس پر بھی لکھا۔ لیکن اتنا بڑا شاعر تو نہیں ہوں کہ سب کی نظریں اُس پر پہنچیں لیکن میں نے کوشش کی اور قدرت نے ساتھ دیا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بہت خوب اشفاق صاحب۔ آپ کی بات سن کر مجھے فرماں فتح پوری صاحب کی کہی ایک بات یاد آرہی ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ خارجی حالات ہی ایک شاعر کی زندگی میں ہلچل مچاتے ہیں۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ بالکل لکھنے والے کو، کریٹو آدمی کو اپنے آپ سے ایماندار ہونا چاہیئے اور اپنے ماحول سے جڑا ہونا چاہیئے۔ مجھے یہ سوچ ترقّی پسند تحریک نے اور ترقّی پسند ادب نے سکھلائی کہ لکھنے والے کا تعلق اپنے حالات سے اور معاشرے سے ہونا چاہیئے۔ تو کوشش کرتے رہتے ہیں تھوڑی بہت۔ اب تو حالات اور ہیں۔ گذشتہ پچاس سالوں میں اتنی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں کہ تاریخ کے کسی دور میں اتنی تبدیلیاں نہیں ہوئیں۔ یہی دیکھئے کہ ہم دو الگ الگ جگہوں سے بیٹھ کر گفتگو کررہے ہیں۔ یہ نعمتیں ہیں ان کی قدر کرنی چاہیئے۔ یہ ہم سے پہلے والی نسلوں کو نہیں ملیں۔ غالب کو نہیں ملی، تین ماہ میں بیچارے دلّی سے کلکتے پہنچے تھے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بجا فرمایا۔ اشفاق صاحب ایشیئن ٹی وی نیٹ ورک میں ابھی آپ کی کوئی ذمّہ داریاں ہیں؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ نہیں! میں ۲۰۲۳ء تک رہا اُس میں۔ چالیس بیالیس سالوں تک منسلک رہا۔ اب نہیں ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ کینیڈا سے نکلنے والے اُردو انٹرنیشنل رسالے کے بارے میں کچھ بتائیے؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ جی میں نے اُردو انٹرنیشنل رسالہ نکالا ۱۹۸۲ء میں فیض صاحب کی نگرانی میں۔ وہ سرپرست تھے اور میں مدّیر تھا۔ سال میں تین شمارے اُس کے نکلتے تھے اور سات سال تک یہ نکلتا رہا پھر بَوجوہ اُس کو بند کرنا پڑا۔ اُس زمانے میں اُس کے نمبر وغیرہ تھے اور اُس کو بڑی اہمیت ملی۔ اُس میں لکھنے والے بھی اُس دور کے بڑے بڑے لوگ تھے۔ میں یہ سوچ کر یہ کام کررہا تھا کہ اُس کو پزیرائی ملے گی ادبی دنیا میں لیکن مجھے اُس کی اہمیت کا اندازہ اُس وقت ہوا جب رسالہ بند ہوگیا تھا اور خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ نے اس میں اسپیشل گوشہ نکالا اور گورنمنٹ اورینٹل کالج لاہور نے اس کے کونٹنٹ، مواد پر ریسرچ کرائی۔ اس پر ایم فل کا مقالہ لکھوایا گیا اور پھر پروفیسر ڈاکٹر نیّر معراج صاحب وہاں ہوتے تھے انہوں نے اُس کو کتاب کی شکل میں شائع کیا۔ یونیورسٹی نے گرانٹ بھی دی۔ یہ سب ۹۰ء میں ہوا رسالہ بند ہونے کے دس سالوں کے بعد۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس رسالے کا ایک تاریخی کردار تھا جس نے لکھنے والوں کو دنیا بھر سے، خصوصاً امریکہ اور یورپ کے مختلف شہروں سے، آپس میں ملادیا۔ آپ کے اسکینڈی نیویا سے بھی لوگ شامل تھے اس میں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کے ایک نظمی مجموعے کو ہندوستان کی گرو نانک یونیورسٹی میں نصابی حیثیت حاصل ہے تو یہ کیسے ممکن ہوا؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ وہ یوں ہوا کہ یہاں ایک پنجابی کے افسانہ نگار میرے دوست ہیں بلبیر سنگھ اومی۔ ابھی حیات ہیں تو انہوں نے میری نظموں کا ترجمہ پنجابی زبان میں کیا۔ اس سے پہلے میری نظمیں انگریزی میں ترجمہ ہوچکی تھیں ۱۹۸۵ء میں اور ڈیوڈ میتھیو نے اُس پہ فلیپ لکھا تھا۔ تو بلبیر سنگھ نے وہاں سے لے کراس کا پنجابی میں ترجمہ کیا اور چنڈی گڑھ سے یہ کتاب شائع ہوئی ۱۹۸۷ء میں ” نیندر نال رشتہ” کے نام سے۔ اچھا گرونانک یونیورسٹی میں ایک سبجیکٹ تھا “پردیسی پنجابی ادب” امیگرینٹ لٹریچر۔ تو میری کتاب اس حوالے سے نصاب میں شامل کی گئی۔
اُس میں امیگریشن کے حوالے سے نظمیں ہیں کہ نئی نسل کے بارے میں ہمارا کیا نظریہ ہونا چاہیئے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ کیا ہی خوب ہو زیدی صاحب اگر آپ اُس میں سے ہمیں کوئی نظم سنا سکیں؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ اُس میں ایک نظم ہے ” بیٹے کے نام” وہ میں آپ کو سنا دیتا ہوں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ نوازش
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔
” بیٹے کے نام”
میں تمہاری آنکھوں سے
وہ زمانے دیکھوں گا
جو ابھی نہیں آئے
میں تمہارے پاؤں سے
تیز تیز بھاگوں گا
ایسی شاہراہوں پر
جو ابھی نگاہوں سے
مثل خواب اوجھل ہیں
میں تمہارے ہاتھوں سے
وہ پہاڑ چُھولوں گا
جس کو سوچ کر بھی
اب سانس پھول جاتی ہے
وہ پہاڑ، وہ رستے
جن پہ تم کو جانا ہے
وہ نیا زمانہ ہے
اور وہ تمہارا ہے
میں کہ اُس زمانے کو
دیکھ بھی نہ پاؤں گا
لیکن اُس زمانے کی
ہر گھڑی کو، ہر پل کو
میری آنکھیں دیکھیں گی
اُن چمکتی آنکھوں سے
جو تمہاری آنکھیں ہیں
میں تمہاری آنکھوں میں
پیار بن کے رہتا ہوں
نور بن کے بستا ہوں
خواب بن کے زندہ ہوں
میرے سارے خوابوں کو
ان جمیل آنکھوں کے
ایک خاص گوشے میں
تم چھپا کے رکھ لینا
اور اگر کبھی یہ خواب
پھول بن کے مہکیں تو
اُن کی خوشبو میں تم
میرے نام کے سب حرف
احتیاط سے رکھنا
احتیاط سے رکھنا
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ واہ! کیا بات ہے۔ نئی نسل سے آپ مطمئن ہیں زبان و ادب کے حوالے سے؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ جی بالکل مطمئن ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نئی نسل کو مواقع بہت ہیں۔ سوشل میڈیا کے حوالے سے، یا مختلف فنون کے حوالے سے جو ادب پھیل رہا ہے وہ نئی نسل کی نگاہوں میں ہے۔ اچھا زبان کا یہ ہے کہ ہمیں پاکستان میں اُردو کو محبت سے پھیلانے کی بات کرنی چاہیئے تھی۔ ہم نے سیاسی سطح پر طاقت کے ذریعے نفاذ کرنا چاہا۔ مجھے نفاذ سے اختلاف ہے۔ کیا آپ کوئی حملہ آور ہیں جو نفاذ کریں گے۔ اُردو کو محبت سے پھیلانے کی بات کرنی چاہیئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ زبانیں آسمانی صحیفے نہیں ہوتے۔ اُردو میں اگر اتنی طاقت نہیں ہے کہ ختم ہوجائے تو کون سی تکلیف ہے۔ سینکڑوں زبانیں ختم ہوچکی ہیں۔ تو یہ نہیں کہ اس کا نفاذ کریں گے اور دوسری زبانوں سے جھگڑا کروائیں گے۔ میں زبانوں کا تعصّب نہیں چاہتا۔ مجھے اس سے نفرت ہے۔ محبت سے پھیلاؤ۔ اگر ضرورت ہوگی تو لوگ سیکھیں گے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اشفاق صاحب آپ نے اپنی زندگی میں دیس اور پردیس دونوں میں بہت کچھ کیا لیکن کیا کوئی ایسا کام ہے جسے کرنے کی آرزو باقی ہو؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ یہ سارے کام جو میں نے کیے اب تک یہ سب تو مجھے کھلواڑ لگتا ہے لیکن لگے ہوئے ہیں اور لگے رہیں گے۔ ابھی تک کوئی ایسی چیز تو نہیں لکھی ہے کہ جس پر بہت فخر کر سکیں۔ بس ٹھیک ہے معیاری ہے لیکن کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارے میں کہیں کہ یہ زندہ رہے گی۔ ابھی اس کیٹگری میں خود کو نہیں پاتا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ہمارے رسالے ورثہ کے لیے گر آپ کچھ پیغام دینا چائیں تو عنایت؟
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ میں کافی عرصے سے رئیس وارثی کو جانتا ہوں جب یہ نوجوان تھے۔ ۸۰ء میں یہ ہمارے سرکل میں رہے ہیں تو اُس وقت سے میں ان کو دیکھ رہا ہوں۔ پرجوش نوجوان تھے اور ہیں۔ انہوں نے یونایٹیڈنیشن کی بلڈنگ میں پہلی عالمی اُردو کانفرنس کرائی جس میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ اس میں گوپی چند نارنگ تھے، جمیل الدین عالی تھے اور بھی بہت سے لوگ تھے۔ کافی بڑے پیمانے پر پروگرام کیا تھا۔ رئیس وارثی کے لیے میں کہوں گا کہ وہ کہتے ہیں نا کہ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں تو یہ ایسا ہی ہے۔ ابھی انہوں نے دو تین سال سے ورثہ شروع کیا ہے۔ ان کے جو مقاصد ہیں ان میں ادب سے زیادہ زبان کے فروغ کی طرف ان کا رجحان ہے۔ اس سلسلے میں جو کاوشیں ہونی چاہیے اس کو مقبول بنانے میں، وہ کرتے بھی ہیں۔ اس کو پرنٹ کرنا، آن لائن کرنا پھر لوگوں تک پہنچانا۔ آج کا دور سوشل میڈیا کا دور ہے لیکن اگر کوئی چیز چھپی ہے تو لوگ دلچسپی سے دیکھ لیتے ہیں۔ میں جب بھی ورثہ پڑھتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ فیصل آباد سے کیا لکھا، امریکہ یا یورپ سے کیا لکھا گیا، دلّی والوں نے کیا لکھا، تو یہ دلچسپی کی بات ہوتی ہے اور اس سے زبان کو فروغ ہوتا ہے۔ اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بہت شکریہ اشفاق صاحب۔ بہت اچھی گفتگو رہی آپ سے۔ اجازت چاہتی ہوں، خداحافظ۔
اشفاق حسین زیدی صاحب۔۔۔ خداحافظ۔