مثنوی ’’پھول بن‘‘ کی حکایتوں کا تجزیاتی مطالعہ
ڈاکٹر شیخ فاروق باشا
اسسٹنٹ پروفیسر (شعبہ ء اردو )
گورنمنٹ ڈگری کالج ،رائچوٹی، آندھرا پردیش
دکنی زبان کے بلند پایہ اور قد آور شاعروں میں ابن نشاطی کاشمار ہوتا ہے۔ قطب شاہی فرماں روا سلطان عبد اللہ قطب شاہ(1035تا1083) کے عہد سے اس کا تعلق ہے ۔اصل نام شیخ محمد مظہر الدین ابن شیخ فخر الدین تھا ۔اس کی مفصل زندگی اور اوراق حیات ہنوز تحقیق طلب ہیں لیکن مثنوی پھول بن کی شہرت نے اسے زندہء جاوید بنا دیا ۔محققین نے اسے ایک بہترین انشا پرداز بھی ما نا ہے لیکن اہل نظر کو اس کی انشا پردازی کے نمونوں سے استفادہ کا موقع نہیں ملا۔ملاوجہی اور غواصی کی طرح اسے شاہی دربادر تک رسائی نہ ہو سکی ورنہ اس کی صلاحیتوں میں مزید نکھار اور حسن پیدا ہوتا۔وہ عوامی شاعر تھا اور عوام میں اسے بے حد مقبولیت حاصل تھی ۔مثنوی پھول بن اس کا لازوال، شہرت مدام اور زندہ جاوید ادبی کارنامہ ہے جس کا سن تصنیف اسٹوراٹ نے ۱۰۵۹ھ بتایا ہے ۔ ڈاکٹر محی الدین قادری زور ،نصیر الدین ہاشمی اور ڈاکٹر جمیل الدین جالبی نے ۱۰۷۶ھ قرار دیا ہے ۔مثنوی نگار کی قطعہ تاریخ سے اس کی وضاحت بھی ہوتی ہے ۔
صفادار اس کی دیک ہر یک چمن میں
رکھیا ہوں نائو ں اس کا پھول بن میں
اتھا تاریخ لا یا تو یہ گلزار
اگیارہ سو کوں کم تھے ،بیس پر چار
پھول بن میں۱۷۴۴ اشعار کی تعداد ہے جس میں وقتا فوقتا اـضافے اور اصلاحیں ہو تی رہی ہیں ۔ابن نشاطی نے اس مثنوی کو صرف تین ماہ کی مدت میں مکمل کیا ہے ۔پھول بن کے ماخذ کے تعلق سے چارلس اسٹوراٹ نے ملا احمد زبیری کی بساتین کا ترجمہ قرار دیا ہے ۔ڈاکٹر جمیل جالبی نے تاریخ ادب اردو جلد اول میں اسے احمد حسن دبیر عید روسی کی ’’ بسا تین الانس ‘‘ کا منظوم ترجمہ بتا یا ہے ۔ ابن نشاطی نے اسے بسا تین کی حکا یت کا ترجمہ قرار دیا ہے ۔وہ کہتا ہے ۔
اچاہاں خوب یک تازہ حکایت اچھے گا عشق کا جس میں روایت
بساتین جو حکایت فارسی ہے محبت دیکھنے کی آرسی ہے
اسے ہر کس کے تیں سمجا کے توں بول کھن کی بات سوں سریاں کو کہ کھول
مثنوی کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ ابن نشاطی نے اپنے طور پر اس میں بہت سے حذف و اضافے کیے ہیں ۔مثنوی پھول بن میں کل تین حکایتیں بیان کی گئی ہیں۔
پہلا قصہ :۔ ختن کے سوداگر کے بیٹے اور گجرات کے ایک زاہد پارسا لڑکی کی داستان عشق ہے
دوسرا قصہ:۔ ہندوستانی ہے جس میں راجا کی جوگیوں سے عقیدت ،روح کی نقل مکانی اور پرندوں کا انسا نوں کی کی طرح باتیں کرنا ،جیسے تذکرے بیان کیے گیے ہیں ۔
تیسراقصہ:۔ ایرانی طرز کا ہے ، اس قصہ کا عاشق اور معشوق دونوں اسلامی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ پھول بن کا اہم ترین قصہ ہے
عبد القادر سروری پھول بن کے مقدمہ میں ان قصوں کے تعلق سے لکھتے ہیں ۔
’’ اس کا قصہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے انو کھا اور خا صا دلچسپ ہے ۔اس وقت بھی جب اس کی زبان قدیم سمجھی جاتی ہے۔ اس کی وقعت کم نہیں ہوتی،اور یہ قدیم ادب کے شہ کاروں میں شمار ہوتی ہے ۔جو شخص بھی اس کے مطالعہ میں تھو ڑی بہت زحمت برداشت کرے اس کے لیے دلچسپی کا سامان مہیا ہے‘‘۔
مثنوی پھول بن کی حکا یتو ں کا انداز عربی کی مشہور شہرہ آفاق کتاب کلیلہ و دمنہ کے حکایتی طرز اسلوب سے ملتا جلتا ہے ۔ایک حکایت ختم نہیں ہوئی کہ دوسری حکایت بطور تمثیل پیش کی گئی ہے ۔جیسے دوسری حکا یت میں راجا نقل روح کے چنگل سے چھٹکارہ پا تا ہے اور دوبارہ حکو مت کی باگ دوڑ سنبھا ل لی تو اس کو وزیر عورتوں کے جال میں پھنسنے سے روکتا ہے ۔وہ کہتا ہے ۔
’’ اے فرخندہ طالع وہ بد بخت اس طرح فنا ہوا جس طرح ایک بادشاہ،کسی عورت پر فریفتہ ہو کر تخت کھو بیٹھا تھا یہ سن کر بادشاہ اس کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھنے لگا وہ کون کوتاہ بین تھا جس نے عورت پر بھول کر اپنی عزت گنوائی۔
پھول بن کا موضوع عام داستانوں کی طرح’’ عشق ‘‘ہے ابن نشاطی کہتا ہے۔
سراسر عشق کے ہے اس میں رازاں کیے سو عشق با زی عشق بازاں
قصے کا آغاز زاہد کی عارفانہ اور مو عظانہ اقوال سے ہوتا ہے جس کی وضاحت کے لیے حکایتوں کا سہارا لیا گیا ہے ۔حکایتوں میں جو کردار ہیں وہ خیرو شر کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ جیسے جو گیوں کے معتقد باشاہ کا وزیر ایک کردار ہے جو بد معاش کی سیرت کی نمائندگی کرتا ہے ۔اس کے بالمقابل رانی ستونتی کا کردار نیکی ،عفت اور پا کدامنی اور فراست کی بہترین مثا ل ہے ۔مثنوی میں درمیان میں کہیں کہیں نصیحتوں کے باب کھول دئیے گیے ہیں۔ان قصوں میں اخلاقی مطمح نظر کار فرما ہے ۔
پھول بن کی اصل خوبی اور دلچسپی ،محاکات ، شعری نکات اور سلاست بیان میں مخفی ہے جو در اصل مثنوی کی انفرادیت ہے ۔قصہ گوئی یا حکایتوں کو اگر دلکش اسلوب بیان سے پیش نہ کیا جائے تو وہ اپنی دلکشی و رعنائی کھو دیتے ہیں ۔اس کی زبان بہت ہی سیدھی سادھی اور رواں ہے ۔ایک درویش کی تصویر کشی اس طرح کی گئی ہے ۔
سو دیکھا خواب میں درویش کوں ایک دنیا کے عاقبت اندیش کوں ایک
ہے تن پر ‘پیرہن اجلے چھبیلے کمر بادندیا ہے یک باریک سیلے
بندیا ہے چھوڑشملا سر پہ دستا ر عصا پکڑیا ہے یک رنگین طرح دار
لیا ہے ہاتھ میں اپنا مصلا ریاضت سوں کیا ہے دل مصفا
اگر چہ لھو سوں تھا سب آنگ خالی ولے سجدے کی تھی اس مکھ پر لالی
پھول بن کی حکایتوں کی خاص خوبی جذبات نگاری ہے ۔عاشق و محبوب ،شوہر بیوی ، بادشاہ و زیر ،کی جذباتی و نفسی تعلقات کی تصویر کشی بالکل فطری اور موثر انداز میں کی گئی ہے ۔اسی طرح واقعات کی جزئیات نگاری میں ابن نشاطی کو ید طولی حاصل تھا ۔جیسے مختلف کپڑوں ،مچھلیوں کی ہمہ اقسام کا بیا ن، چرند و پرند کی طویل فہرست ،بزم و عیش کے بیان میں مختلف سازوں کا ذکر بڑی دقیق نظری سے کیا گیا ہے۔ابن نشاطی نے دعوی کیا ہے کہ وہ پھول بن میں ۳۹ صنعتوں کا استعمال کیا ہے ۔و ہ اپنی صنعتوں کے بارے میں کہتا ہے کہ جو عقلمند صنعت کو سمجھ سکتا ہے وہی میری اس نکتہ دانی کی داد دے سکتا ہے ۔وہ کہتا ہے
جو کوئی صنعت سمجھتا ہے سو گیانی وہی سمجھے میری یو نکتہ دانی
صنعتوں کی بہتات کے باوجود اس کی زبان بہت سادہ اور دلکش ہے۔بقول گوپی چند ’’زور تخیل اور روانی طبع میں نشاطی کا وجہی اور غواصی سے کو ئی مقابلہ نہیں ۔کہیں کہیں تو اس کا قد تصرتی سے بھی نکلتا ہوا معلوم ہوتا ہے ۔وہ الفاظ کا ساحر ہے او ر ان کے مناسب ترین استعمال پر حیرت انگیز قدرت رکھتا ہے ،دوسرے قصے میں راجا توتے کی شکل میں اپنی وفا شعار رانی کا امتحان لینے کے لیے پو چھتا ہے کہ اے گل گلشن خوبی تیری جوانی کا رنگ کیوں برباد ہوا ،رانی آہ کھینچ کر جواب دیتی ہے کہ جب دیا نہ ہو تو رات کسے سہاتی ہے ۔جب منہ میں پان نہ ہو تو چہرہ کیو ں کر بھلالگتا ہے ۔فراق میں جا ن دینا آسان ہے لیکن پیا کے انتظار میں زندہ رہنا مشکل ‘پریشانی او ر وسوسے کا شکار ہوں لیکن محبت میں ثابت قدم ہوں ۔شمع کی مانند جل رہی ہوں ،مگر اپنی جگہ سے ٹلی نہیں ،اصل اشعار یوں ہیں ۔
کہ سب عالم اوپر روشن ہے یو بات دیوانیں سو سہا وے کس سندر رات
جو نیں جس کے اچھے گاموں میں تنبول وہ کیوں کر خوب دستا موں سو توں بول
برہ میں جیو دینا بھوت آساں ہے جینا پیو بن مشکل ککر جاں
پریشانی میں گر چہ میں علم ہوں محبت میں ولے ثابت قدم ہوں
اگر چہ شمع کے نمنے جلی ہوں ولے جاگے تے اپنے نیں ٹلی ہو ں
پھول بن کی زبان میں جس طرح سادگی ہے ویسے ہی اس کے خیالات و افکار میں بھی سادگی پائی جاتی ہے ۔اس کے قصوں اور حکایتوں میں قطب شاہی عہد کی معاشرتی جھلکیاں صاف دکھا ئی دیتی ہیں ۔اس زمانے کی عام اور دربار ی زندگی کا پس منظر صاف اور واضح ہے ۔سمن کے جزیرے کے محل کا نقشہ کھینچتا ہے تو اس کی دیواروں پر قطب شاہی بزم کی تصویریں دکھائی دیتی ہیں ۔
عموما دکنی مثنویاں فارسی سے ماخوذ ہیں ۔ان مثنویوں میں جو تہذیبی جھلکیاں دکھا ئی دیتی ہیں ان پر اسلامی رنگ غالب نظر آتا ہے ۔ابن نشاطی کا یہ کارنامہ ہے کہ اس میں ہندی لوک کتھائو ں سنسکرت اور ہندی قصوں کا رنگ اور مزاج شامل کر دیا ہے اس طرح اس مثنوی میں سنسکرت ،عربی ،فارسی اور ہندی رنگ و روپ کا حسین امتزاج ہے
داستا ن کا آغاز کنچن پٹن سے شروع ہوتا ہے ۔شہر کے نام سے ہی ظاہر ہو تا ے کہ وہ ہند وستان ہی کاکوئی ایک شہر ہے ۔خواب میں درویش کا نظر آنا اور خوابوں کی تعبیر جاننا یہ قصہ گوئی کا ایرانی انداز ہے ۔پہلے قصہ میں ہیرو کی جائے وقوع کشمیر اور اس کی ہیروئن گجرات کے زاہد کی بیٹی ہے ۔دوسرا قصہ بھی خالص ہندوستانی ہے کیو ں کہ اس میں ہندی روایتوں کا استعمال کیا گیا ہے جیسے روحوں کی منتقلی یا انسانوں کا چرند پرند اور احجار او ازھار میں بدل جانا خالص ہندی خیال ہے ۔ایک جوگی باشاہ کو نقل روح کا منتر سکھاتا ہے ۔
منتر سکھلائیا یک کاڑ کر بید اتھا جس میں جو نقل روح کا بھید
منگتے تو جسم میں ہر کس کے جانا منگے تو پھر کر اپنے تن میں آنا
اس طرح شہزادہ یا شہزادی کا اپنے گم شدہ محبوب کی تلاش میں جوگی یا جوگن کا روپ اختیار کر کے گاؤ ں گا ؤں گھومنا یہ قدیم ہندوستانی رواج رہا ہے ۔جسے بہت سے مثنوی نگاروں نے ذکر کیا ہے ۔ابن نشاطی نے بھی ایک ایرانی شہزادی کو ہندوستانی روپ میں پیش کر کے ہند ایرانی مخلوط تہذیب کو پیش کیا ہے ۔وہ کہتا ہے ۔
بھبوتی اپنے موں کو پھر لگائی پنم کا چاند بادل میں چھپائی
برہ کے درد دک سوں پدمنی وو چلی بنواس لے بیراگنی وو
پڑی دک غم کے آینے اپر سل چلی پھرتی جنگل کی ،ہو کے کو ئل
درجہ بالا اشعار میں بھبھوتی ،پونم ،چاند ،برہ کے درد دکھ، پدمنی ، بیرا گنی، کوئل جیسے الفاظ کا استعمال صاف طور سے ہندی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
مثنوی پھول بن کا تیسرا قصہ ایرانی انداز کا ہے ۔ اس کا ہیرو اور ہیروئن دونوں اسلامی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں یہ پھول بن کا اہم ترین قصہ ہے اس میں بھی ہندوستان کے قدرتی مناظر کی بہترین تصویر کشی کی گئی ہے ۔ایک باغ کی تصویر اس طرح پیش کی ہے ۔
مدن مد کی مستی آتی کہ لالے کھڑے تھے ہت میں لے مئے کے پیالے
ہرے ہور لال پیلے پات جھڑ کر چمن میں ہر طرف ہر ٹھار پڑ کر
بھنور پھولاں پو بیٹھے سو دسے یوں کہ مکھ پر گل رخاں کے خال ہے جیوں
پھریں پھولاں پے بلبل کھول یوں بال کہ اڑتے ہیں پتنگ جیوں شمع اپر ال
ابن نشاطی اپنے وطن سے بے حد محبت کرتا ہے ۔اپنے ملک پر آنچ آئے تو اس کی زبان سے یہ جذبات ادا ہوتے ہیں ۔ مصر کا بادشاہ سندھ پر چڑھائی کرتا ہے تو شاہ سندھ وزیر سے کہلوا بھیجتا ہے ۔
ہمیں ہندی اگر جھگڑے پہ آویں گھڑی میں مار مصریاں کوں بھگاویں
ہمارا فن ہے کرنا ترک تازی ہمارا کام ہے شمشیر بازی
دلیری میں یو ایسے ہیں دلیراں انن کو دیکھ جنگل پکڑے شیراں
اگر نکلیں جو لیں ہاتھاں میں بھالے وہی بانچے خدا جس کو سنبھا لے
غرض مثنوی پھول بن میں ابن نشاطی نے ہند ایرانی تہذیب کی بہترین عکاسی کی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس نے جہاں حکا یتوں کے ذریعہ مسرت اور لطف اندوزی کا سامان فراہم کیا ہے وہیں علم و عرفان کے رموز بھی کھولے ہیں ۔کرداروں کے ذریعہ خیر و شر کی ابدی تصادم کو پیش کیا ہے ۔ہندوستان کے قدرتی مناظر کی حسین اور دلکش منظر کشی کے ذریعے اس کے چپے چپے سے والہانہ محبت کا اعتراف کیا ہے ۔ہندوؤں اور مسلمانوں کے تہذیبی قدروں کو اس دلکش پیرایے میں پیش کیا ہے کہ اس سے ہمیں اتحاد و اتفاق اور اخوت و محبت کا حسین درس ملتا ہے ۔پند و نصائح کے اعتبار سے بھی مثنوی پھول بن کی حکایتوں کا مطالعہ آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی سبھی کے لیے بالخصوص نوجوان طبقہ کے لیے اہمیت کا حامل ہے ۔