٭انٹرویو۔۔۔ منظر بھوپالی٭

٭حنا خراسانی رضوی٭ (نمائندہ ورثہ، سویڈن)

ہم اپنے آپ کی پہچان لے کے آئے ہیں
نئے سخن نئے امکان لے کےآئے ہیں

قارئین گرامی! اس شمارے میں ہم آپ کی ملاقات جس شخصیت سے کروا رہے ہیں ان کا نام نامی تو سید علی رضا ہے لیکن وہ زمانے میں منظر بھوپالی کے نام سے شہرت خاص رکھتے ہیں۔ جناب کا تعلق سرزمین بھوپال سے ہے کہ جس نے چمنِ اُردو کو ادبی و تہذیبی حیثیت میں ہمیشہ پر بہار اور خوشبو گزیدہ رکھا ہے۔جناب منظر بھوپالی صاحب اپنی فکری اور عصری تقاضوں کے گہرے سے مزین شاعری اور دلفریب ترنم کی بدولت اپنے سننے والوں اور والوں کے دلوں پر راج کرتے ہیں۔ آپ کے دس سے زائد مجموعے شائع ہو کر سامنے آچکے ہیں۔ آپ کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے نہ صرف ہندوستان سے بلکہ دنیا بھر سے جہاں جہاں اُردو بولنے والوں کی بستیاں آباد ہیں، آپ کو ایوارڈ و اسناد پیش کیا گیا ہے۔ جن میں مرزا غالب ایوارڈ، فراق گورکھپوری ایوارڈ ، شیری بھوپالی ایوارڈ، ندا فاضلی ایوارڈ، پرائڈ آف مدھیہ پردیش ایوارڈ ، نشان اردو ایوارڈ، بھیم رتنا ایوارڈ و دیگر ایوارڈ شامل ہیں۔
جناب منظر بھوپالی صاحب ورثہ کی جانب سے ہم آپ کو خوش آمدید کہتےہیں۔
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ وعلیکم السلام اور شکریہ۔
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔منظر صاحب بات یہاں سے شروع کرتے ہیں کہ سید علی رضا سے منظر بھوپالی تک کا جو آپ کا سفر ہے اس کی ابتدا کیا ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔
اس طرح گزرا ہے بچپن کہ کھلونے نہ ملے
اور جوانی میں بڑھاپے سے ملاقات ہوئی
ہوا یہ کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ کب میرا بچپن آیا اور کب مجھ پہ جوانی آئی اور کب میری بڑھاپے سے ملاقات ہو گئی۔ آسان نہیں ہے کسی بھی شخص کے لیے، صرف ایک شاعر کے لیے نہیں بلکہ جو بھی شخص اس کائنات میں سانس لے رہا ہے، اُس کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے کہ جب وہ بچپن سے اپنی جوانی اور جوانی سے بڑھاپے کی طرف آتے آتے اپنا پرانا نام کھو دیتا اور نئے نام سے اس کی شناخت ہونے لگتی ہے۔ میں بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہوں۔ میرا بچپن میرے والدین اور میرے بھائی بہنوں کے ساتھ گزرا اور اس کے بعد میری اہلیہ اور میری دو بیٹیوں، زینا اور انعمتا کے ساتھ جو اب امریکہ میں ہیں۔ مجھے پتہ نہیں چلا کہ وہ کب بڑی ہو گئی اور کب تعلیم حاصل کر لی۔ میں اپنی دنیا میں اپنی غزل کی زلفوں سے ادھر ، ادھر سے ادھر جاتا آتا رہا اور اتنے سفر کیے، اتنے سفر کیے کہ مجھے یاد ہی نہیں ہے کہ زندگی کیا ہے اور زندگی کتنی ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کے اصل نام سے زیادہ آپ کا ادبی نام زباں زدِ عام ہے، اگر کوئی آپ کو علی رضا کہہ کر پکارے تو آپ کو اجنبیت تو محسوس نہیں ہوتی؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ نہیں نہیں! علی رضا تو میرا اپنا نام ہے۔ میری والدہ اور میرے والد نے بہت محبتوں کے ساتھ اور عقیدے کے ساتھ یہ نام رکھا
ہے۔ گھر میں آج بھی مجھےکبھی کبھی ميرے بھائی، میری بہن، میری بھابیاں اور بہت سے میرے پرانے ساتھی جو میرے بچپن کے اسکول کے ساتھی ہیں وہ سب مجھے علی رضا کہہ کر بھی بلاتے ہیں۔ اس سے مجھ کوئی فرق نہیں پڑتا ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ منظر صاحب جب آپ نے شاعری شروع کی تو اس میں آپ کے گھر والوں کا اور استادوں کا کیا کردار رہا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔دیکھیے! اس زمانے میں شاعروں کے حالات اچھے نہیں ہوا کرتے تھے جب میں نے شاعری شروع کری اور ہمارا شہر جو بھوپال ہے یہ تو ادبی مرکز ہے۔ یہاں تو بڑے اہم شعرا پیدا ہوئے اور یہیں انہوں نے پرورش پائی اور یہیں سے پوری دنیا میں نام کمایا۔ جیسے شیری بھوپالی صاحب، واصف بھوپالی صاحب تاج بھوپالی صاحب، کیف بھوپالی صاحب، اسد بھوپالی صاحب ، ظفر صہبائی صاحب جیسی شخصیتیں یہاںرہیں۔ اور پھر میرے خود کے استاد رضا رام پوری صاحب، انہوں نے مجھے بہت محبتوں کے ساتھ شاعری کرنا بھی سکھائی، شاعری پڑھنا بھی سکھائی اور شاعری کو سمجھنا بھی سکھایا۔
حنا خراسانی رضوی۔ ۔۔آپ کا پہلا عالمی مشاعرہ غالباً کراچی کا تھا جو شاید نیشنل اسٹیڈیم کراچی میں ہوا تھا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ جی بالکل میں پہلے عالمی مشاعرے میں کراچی حاضر ہوا تھا 1987ء میں، انجمن لوح و قلم کے زیر اہتمام وہ مشاعرہ منعقد ہوا تھا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ اس میں ہندوستان سے خمار بارہ بنکوی صاحب، جگن ناتھ آزاد ،صاحب فنا نظامی صاحب ، ماہر لکھنؤی صاحب،معراج بھائی، راحت اندوری صاحب اور میں جبکہ شاعرات میں تسنیم صدیقی، انجم رہبر اور ان کے علاوہ اور بھی کئی شاعرات تھیں جنہوں نے شرکت کری تھی۔ یہ بڑی ٹیم گئی تھی انڈیا سے۔ اُس میں سب سے چھوٹا شاعر میں تھا اور شاید یہ مشاعرہ ہاشو آڈیٹوریم تھا وہاں پر اُس میں ہوا تھا۔ اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں نیشنل سٹیڈیم کراچی میں ہوا تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔ ۔۔شاعری کی اصناف میں آپ کا میلان غزل کی طرف زیادہ ہے تو کیا اس کی کوئی خاص وجہ ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ وجہ تو ایسی کچھ خاص نہیں ہے۔ غزل سب سے خوبصورت اور محبوب صنف ہے۔ میں سمجھتا ہوں اگر کوئی شاعر ہے اوروہ صنفِ سخن کی طرف انتخاب کرے گا تو وہ غزل کو پہلے نمبر پر رکھے گا۔ اس کے بعد نظم اور اُردو گیت آئیں گے یا ہندی گیت آئیں گے۔پھر رباعی ہے، قطعات ہیں اور مرثیے ہیں۔ جس کی جو ذہنیت ہو جس طرف وہ جانا چاہتا ہو اس طرف جائے گا۔ آپ دیکھیے کہ انیس کے یہاں بھی کچھ شعر ہمیں غزل کے مل جاتے ہیں جو کہ مرثیوں کے بادشاہ کہلاتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ نے نعتیں اور منقبتیں بھی لکھیں؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ جی، میں نے نعتیں بھی لکھی ہیں، حمد بھی ایک دو لکھی ہیں اور مقبول بھی ہوئی ہیں ہے میری حمدیں، منقبتیں تو بہت لکھیں، سلام بھی لکھے ہیں اور کبھی کبھی نوحہ بھی لکھا مگر کامیابی صرف میں ملی مجھ کو۔
حنا خراسانی رضوی۔۔ بلاشبہ غزل تو آپ کی پہچان ہی ہے لیکن آپ کی منقبتوں کا بھی ماشاء اللہ کیا ہی کہنا۔ خاص کر وہ آپ کی معروف منقبت ابھی کھلے گی جدارِ کعبہ اگر آپ ہمیں تھوڑا سنا سکیں تو بڑی نوازش ہوگی۔
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔جی،ضرور
ابھی کھلے گی جدارِ کعبہ
جہاں کو مشکل کشا ملے گا
خدا کے گھر سے علی ملیں گے
علی کے گھر سے خدا ملے گا
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ سبحان الله ! کیا کہنے منظر صاحب۔۔۔ دوبارہ آپ کی غزلوں کی طرف آتے ہیں، آپ کی غزلوں میں سماجی ناانصافی اور معاشرتی و طبقاتی فرق کے بارے میں ایک واضح پیغام ملتا ہے تو کیا یہ شروع سے آپ کا طرز رہا یا کسی واقعے کی وجہ سے یا یوں کہیں کسی آپ نے اس طرز کو اپنایا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ دیکھیے! ایک شاعر کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ی ہے کہ وہ جو دیکھے، جو محسوس کرے اور جس ماحول میں وہ زندہ ہے اُس کی ترجمانی بھی کرتا رہے۔ کوئی شاعر ایسا نہیں کہ صرف غزل ہی کہہ رہا ہو اور محبوب اور عشق کی باتیں ہی کرتا رہے بلکہ اس کی ذمہ داری یہ ہے کہ سماج میں جو خرابیاں ہیں اور جو برائیاں ہیں اُن کے طرف بھی اپنی شاعری میں اشارہ کرے۔ تو میں نے یہی کوشش کی ہے۔ میرے بعد بہت لوگوں نے اس پہ عمل کیا اور وہ بھی کامیاب رہے۔ ہمارے سےملک میںجہاں جہاں ہمیں ایسا لگتا ہے آنکھوںمیںکہ ہمارے سماج میں کچھ گڑبڑ ہے ہم اسےہر اپنی شاعری کا حصہ بنا لیتے ہیں۔ یہ میرا ماننا ہے کہ خدا نے شاعروں کی ڈیجیٹل کیمرہ لگا رکھا ہے جو ہر لمحے کی تصویر لفظوں میں کھینچتے ہیں۔ اگر کوئی شاعر ہے تو وہ ہر چیز کو محسوس کر لے گا، دکھ کو محسوس کرلے گا۔ آپ کہیے نہیں اُس سے، وہ خود ہی محسوس کرلے گا۔ ہر سکھ میں وہ لوگوں کے لیے کھڑا نظر آئے گا اور اس کا کام ہی یہی ہے۔ اللہ نے، قدرت نے قلم اس کے ہاتھ میں اسی لیے دیا ہے اسی لیے دیا ہے کہ تم جو بھی لکھو سچ لکھو۔ تو میرا بھی یہی مانناہے۔
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔خوب! یہ کہنا بےجا نہیں کہ آپ کی شاعری معاشرےہے۔کو بیدار کرنے والی شاعری ہے۔ کچھ لوگ اسے انقلابی بھی کہہ سکتے ہیں۔ تو کیا کبھی اس کی وجہ سے آپ کو کسی مخالفت یا پابندی کا سامنا ہوا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ ہم لوگوں کے ساتھ بہت سی مخالفتیں ہوتی ہیں اور بہت سی ناانصافیاں ہوتی ہیں مگر اس سے کیا ہوتا ہے۔ ہمارے کروڑوں چاہنے والے ہیں۔ ہم سے محبت کرنے والے لاکھوں لوگ ہیں۔ وہ مخالفت وہیں پر ختم ہو جاتی ہے جہاں پر ہمارے چاہنے والے ہماری حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ہماری شاعری پر داد دیتے ہیں، ہماری پشت پر ہاتھ رکھے رہتے ہیں اور وہ ہمیشہ یہی کہتے ہیں کہ اسی طرح سچائی سے اپنی شاعری کا سفر جاری رکھو۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ میرے تو بہت سے چاہنے والے ہیں، پوری دنیا میں ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو محبت کرتے ہیں۔ انہی کی دعاؤں سے اور انہی کی محبتوں کی وجہ میں سید علی رضا سے منظر بھوپالی بنا۔ مجھے کسی سرکار کی طرف دیکھنا ہی نہیں ہے۔ کوئی بھی سرکار ہو یا کوئی بھی ہو، مجھے اُس طرف کیا لینا دینا۔ جس راستے پر مجھے جانا ہی نہیں ہے میں اس راستے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں ہوں۔ ابھی میری ایک کتاب آئی ہے “اعتبار ادب”جو بیسویں صدی اور اکیسویں صدی کی بہت ہی اہم ترین ادبی ہستیاں ہیں، انہوں نے میری شاعری پہ جو کچھ لکھا ہے، میری جو حوصلہ افزائی کی ، میں سمجھتا ہوں وہ ہزاروں ایوارڈ سے بڑی بات ہے میرے لیے۔ ان میں کیفی صاحب، جگن ناتھ آزاد صاحب جون ایلیا صاحب، شہزاد احمد، ظفراقبال صاحب، سحر انصاری صاحب، امجد اسلام امجد صاحب اور بہت ہیں جن کا نام گنوانے بیٹھوں تو آدھا گھنٹہ لگ جائے گا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ بے شک اور آپ کے سننے والے تو ہیں ہی آپ کےگرویدہ ماشاء اللهسے۔
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ یہ اللہ کا بڑا کرم ہے کہ ابھی تک محبتیں جاری ہیں اور دعائیں جاری ہیں لوگوں کی میرے لیے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔
کہہ دو میروغالب سے ہم بھی شعر کہتے ہیں
وہ صدی تمہاری تھی یہ صدی ہماری ہے
اس شعر کے لیے تنقید کا سامنا رہا آپ کو؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ دیکھیے! جب شروع شروع میں لاؤڈ اسپیکر آیا اس مخالفت ہوئی، موبائل جب آیا اس وقت بھی مخالفت ہوئی، غالب وقت بھی کے اوپر بھی مخالفت ہوئی۔ بہت اچھے اچھے شعرا کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تو میں تو بہت معمولی سا شاعر تھا اور میرے شعر کو لے کر جو مخالفت ہو رہی تھی وہ میرا سوچنا ہی نہیں تھا۔ میرا یہ سوچنا تھا کہ میری صدی میں ہی میرے ہیرو ہیں۔ ہر صدی اپنے ہیرو کو لے کر آتی ہے چاہے وہ کسی بھی فیلڈ میں ہو، کھیل کا میدان ہو، ادبی میدان ہو۔ ہر صدی کا ایک بڑا نام سامنے آتا ہے۔ ہماری صدی میں اقبال بھی تھے، فراق بھی تھے، فیض صاحب بھی تھے، جوش صاحب بھی تھے، احمد ندیم قاسمی صاحب بھی تھے اور بہت سے لوگ تھے۔ یہاں ہمارے یہاں انڈیا میں علی سردار جعفری صاحب تھے ، کیفی اعظمی صاحب تھے، مجروح صاحب تھے، خمار صاحب تھے جو کلاسیکل غزل کے بڑے شاعر مانے گئے، تو ہم اُن کو کیا نظر انداز کر دیں گے۔ یہ ہماری صدی کے ہیرو ہیں۔ شاعری کا پڑاؤ وہیں ختم نہیں تھا جہاں غالب و میر تھے۔ یقیناً وہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ ادب اُن کے بغیر مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ نہ کوئی اُن کی شان میں گستاخی کر ہے۔ میرا سوچنا یہ تھا کہ میں اپنی صدی کے ہیرو کو تلاش کر رہا تھا اور وہ ہیرو کئی تھے۔ آج نہیں تو پچاس سالوں کے بعد اس صدی کا فیصلہ ہوگا کہ بھئی فلاں صدی میں فلاں شاعر بڑا تھا۔
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔منظر صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جدید شاعری نے روایتی شاعری کے موضوعات ،محبت، فطرت، تصوف و عرفان کی جگہ آزادی اظہار اور سماجی مسائل پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ بالکل! آج کی صدی میں جو شاعر ہے وہ انسان کے مسائل کو زیادہ سامنے رکھتا ہے۔ ہر پندرہ یا بیس سال بعد دنیا اپنا رنگ بدل لیتی ہے۔ ہم کو احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ کب اپنے کپڑے بدل کے نکل جاتی ہے۔ ہر فیلڈ میں ترقی ہوتی ہے، تبدیلی آتی ہے۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ اے آئی (مصنوعی ذہانت آجائے گا۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہماری جیبوں میں موبائل کی شکل میں پوری دنیا ہوگی۔ ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ کمپیوٹر سائنس یا میڈیکل سائنس یہاں تک پہنچے گی۔ ہم ہم نے کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہم بیل گاڑی سے بڑی بڑی کاروں میں آجائیں . تو دنیا نے ترقی کری۔ اسی طرح شاعری نے بھی اپنا لہجہ بدلہ، طریقہ بدلا اور شعر کہنے کا انداز بدلا۔ کچھ نے محبتوں پر شاعری کی، کچھ نے سماج پر شاعری کی، کسی نے فرقہ پرستی کے خلاف شاعری کی، کوئی انقلابی شاعر ہوا تو کوئی سماجی شاعر ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں کیا برائی اگر ہماری شاعری لوگوں تک پہنچ رہی ہے اور لوگ اسے پسند کر رہے ہیں۔ ہم یہ کب کہہ رہے ہیں کہ کلاسیکل شاعری یا روایتی شاعری کو نظر انداز کیجیے۔ اس کے بغیر تو آج کی شاعری مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔ ہمیں پڑھنا تو وہی پڑے گا غالب کو میر کو مومن کو جگرکو، ان کا مطالعہ کر کے ، اقبال کا مطالعہ کر کے، فیض صاحب کا مطالعہ کر کے ہی آپ مکمل شاعر بنیں گے یعنی شعر کہنے کا سلیقہ سیکھ پائیں گے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ دنیا بھر میں مشاعروں اور ادبی محفلوں میں شرکت کرتے رہتے ہیں آپ کیا محسوس کرتے ہیں کہ آج کے مشاعروں میں سننے والوں کی طرف سے وہی جوش، جذبہ اور محبت کا اظہار ہوتا ہےجو پہلے کے روایتی مشاعروں یا ادبی محافل میں دیکھنے کو ملتا تھا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔کسی بھی چیز کی زیادتی بری ہوتی ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ پاکستان میں بھی اور ہندوستان میں بھی بہت زیادہ مشاعرے ہونے لگے ہیں۔ دبئی میں بھی بہت سی تنظیمیں بن گئی ہیں اور ہر مہینے مشاعرہ ہورہا ہے تو وہ تازگی جو ہوتی تھی، یعنی سامعین میں سننےکی بے چینی ہوتی تھی کہ ہمارا شاعر آرہا ہے یا ہمارے ملک کے شاعر آرہے ہیں، ہم ان کے ساتھ ایک شام گزاریں گے۔ تو نہ شاعروں میں تازگی بچی اور نہ سننے والوں میں کوئی ہلچل نظر آتی ہے۔ محفلوں میں آتے ضرور ہیں، سن کے چلے جاتے ہیں۔ پہلے جب ہم لوگ اسی یا نوے کی دہائی میں شعر پڑھ کے آتے تھے تو گاؤں کے یا شہر کے لوگ دوسرے دن وہ شعر دہراتے تھے تو آج کوئی شعر دہراتا نہیں ہے۔ آج سب موبائل اور واٹس ایپ لگے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ انہیں جب ضرورت ہوتی ہے منظر بھوپالی کی شاعری سننے کی تو وہ بٹن دباتے ہیں اور سن لیتے ہیں مگر یاد کسی کو نہیں۔ وقتی طور پر واہ واہ کر کے اٹھ کے آجاتے ہیں۔ تو بس معیار تو کمزور ہوا ہے ہماری شاعری کا کیونکہ ہمارے اُس طرح کا نہ تو اردو کا اتنا ماحول ہے اور نہ اتنا ادبی ماحول ہے جو استی ملک میں اب یا نوے کی دہائی میں ہوتا تھا۔ آج وہ کچھ نہیں ہے۔ سادگی سے آپ شعر پڑھیے جس میں کوئی اضافت نہیں ہو، کوئی استعارہ نہیں ہو اور کوئی تشبیہ نہیں ہو تو اُن کو داد ملتی ہے۔ اور اگر آپ اس چکر میں پڑ گئے کہ فارسی زدہ شاعری سنا دیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ پھر آپ کو مشاعرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہوگا۔ ہاں! ادب میں ضرور ہوگا، رسالوں میں ضرور ہوگا۔ وہ غزل پسند کی جائے گی۔ جب وہ کاغذ پہ آئے گی تو اپنا رنگ دکھائے گی۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کے ایک انٹرویو میں سنا تھا کہ آپ نے کہا کہ اُردو آپ نے سیکھی تو اس بارے میں کچھ بتائیے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میرے گھر کی زبان تو اُردو ہی تھی۔ میری والدہ بھی بہترین اردو بولتی تھیں، شعر سمجھتی تھیں، شعر پڑھتی اور پڑھاتی تھیں۔ ہم لوگوں کو بہت سے شعر یاد تھے مگر یہ کہ ہم لوگوں کو موقع نہیں ملا تھا کہ ہم بیٹھ کر اچھی طرح سے اُردو زبان سیکھ سکتے۔ جب شاعری شروع کری تو ہمیں ضرورت پڑی کہ صاحب اردو تو پڑھنا پڑے گی۔ اور پھر ہمارے استاد رضا رام پوری صاحب نے کہا کہ بھیا پہلے تم بیس پچیس شعر سناؤ اپنی پسند کے شاعروں کے، میر کے لے آؤ غالب کے لے آؤ پھر دیکھتے ہیں۔۔ وہ ہر ہفتے مجھ سے دس سے پندرہ شعر سنتے تھے۔ اس بعد انہوں نے کہا کہ ڈکشنری کا مطالعہ کیا کرو۔ روز دس شعر پڑھو اور اُن کا مطلب سمجھو۔ تو اس طرح سے ہم لوگوں نے اُردو سیکھی، سمجھی اور پھرآگے بڑھے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ نے اپنے استاد رضا رام پوری صاحب کا ذکر کیا تو یہ بتائیے کہ کیا آپ کے نزدیک ایک اچھا شاعر ہونے کے لیے کسی استاد کے آگے زانو ادب تہہ کرنا ضروری ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ بالکل ہے اور ہر دور میں رہے گی۔ یہ کوئی کوچنگ کلاسز نہیں ہیں کہ پیسہ دے کے آپ کسی بھی سبجیکٹ کی تعلیم حاصل کر لیں۔ یہ شاعری ہے۔ اگر آپ کے اندر کوئی شاعر موجود ہے اور قدرت آپ کے ساتھ ہے تو اُس شاعر کو باہر لانے میں اور اسے زمانے کے سامنے انٹروڈیوس کرانے میں ایک استاد کی ضرورت پڑتی ہے۔ کوئی بھی شخص ہو، چاہے میں ہوں یا کوئی بھی ہو، جب ابتداء کرتا ہے شاعری کی تو ضروری نہیں ہے کہ وہ موزوں شعر کہہ لے یا موزوں نظم یا گیت کہہ سکے۔ وہ کہتا ہے پھر اپنے بزرگوں سے چاہے استاد ہو یا نہیں ہو مگر اپنے سینیئر کو جا کر وہ شعر، نظم یا گیت سناتا ہے تو اس میں وہ اصلاح کر دیتے ہیں کہ بھئی یہ لفظ نہیں ہے تم یہ لفظ رکھ لو یا یہ کہ یہاں پر تم نے یہ لفظ غلط باندھا ہے اس کی جگہ یہ رکھ لو۔۔۔ تو بغیر اصلاح کے شاعری آگے بڑھ نہیں سکتی۔ جب تک کہ شاعری اور اس کی تراکیب آپ کے پوری طرح سمجھ میں نہ آجائیں۔ آج کا زمانہ ہے سوشل میڈیا کا۔ اس میں جو کچھ ہو رہا ہے یعنی بیشتر غزلیں ایسی آتی ہیں ہمارے نوجوانوں کی یا شاعروں کی کہ وہ شاعری ہوتی ہی نہیں ہے مگر وہ سمجھتے ہیں کہ شاعری ہے۔ کیونکہ وہ کسی استاد کے پاس جاتے نہیں بلکہ خود اپنے آپ کو بہت بڑا استاد ماننے لگتے ہیں اور یہیں وہ غلطی کر جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کا خیال اور اُن کی شاعری ڈیپ ہوتی ہے۔ وہ بہت اچھے شعر کہہ سکتے اگر وہ کسی کو اپنا استاد بنا لیں اور کچھ دن اُس کے پاس جا . اُس کو شعر دکھائیں اور سیکھیں۔ حنا خراسانی رضوی بجا فرمایا! یہ بات ان سامعین کے لیے بھی معنیٰ رکھتی ہے جو اچھی اور معیاری شاعری سننے کے شائق اور عادی ہوتے ہیں۔ جب وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں شاعری کے تقاضے پورے نہیں کیے جارہے تو پھر وہ بھی اپنی دلچسپی برقرار نہیں رکھ پاتے۔ کیا آپ اتفاق کریں گے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ بالکل! میں تو ہمیشہ ایک بات جانتا ہوں اور کہتا ہوں کہ شاعر سے بڑا درجہ سامعین کا ہوتا ہے، سننے والوں کا۔ ہم تو ایک شعر کہتے ہیں وہ اس کے پچاس مطلب نکالتے ہیں۔ وہ جو سن رہا ہے، جو شاعری سے ذوق رکھتا ہے ، شوق رکھتا ہے ، سمجھتا ہے اور شعر کے اندر جا کر اس کے معنی تلاش کرتا ہے۔ تو شاعر تو ایک ہی بار کہتا ہے ایک شعر کہ
محبتوں کے چراغوں کی زندگی کم ہے
دیئے جلاؤ کہ دنیا میں روشنی کم ہے
یہ تو ہم نے سامنے کی بات کری مگر سننے والے نے اپنے انداز سے شعر کو سمجھا اور وہ اپنے ساتھ لے گیا۔ تو شاعر سے ہمیشہ بڑا درجہ جو ہوتا ہے وہ سامعین کا ہوتا ہے، سننے والے کا ہوتا ہے۔ وہی شاعر کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں، وہی داد بھی دیتے ہیں اور وہی پزیرائی بھی کرتےہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کی نظر میں ایک نوجوان شاعر یا شاعرہ کے لیے اپنے تخلیقی عمل کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ کیا چیز معنی رکھتی ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ سب سے زیادہ معنی رکھتی ہے کتاب۔ وہ چاہے فراق صاحب کا مجموعہ ہو، چاہے احمد ندیم قاسمی صاحب کا ہو، احمد فراز صاحب کا ہو، پروین شاکر صاحبہ کا ہو یا غالب کا ہو یا میر کا ہو۔ اور اگر زبان سیکھنا ہے تو میر انیس اور دبیر کی طرف جائیے۔ جب تک آپ مطالعہ نہیں کریں گے اچھے شاعروں کا جو پرانے شاعر ہیں ان کا اور اپنے ہم عصر شاعروں کا جیسے جون ایلیا صاحب کی غزلیں ہیں، جیسے راحت اندوری صاحب ہیں، جیسے ہمارے ہاں ندا فاضلی ہیں، بشیر بدر ہیں، ان سب کو اگر آپ تھوڑا تھوڑا بھی پڑھ لیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ بہترین شاعر بن سکتے ہیں آپ۔ حنا خراسانی رضوی۔ آپ کی دس سے زائد کتب منظر عام پہ آچکی ہیں اور ایک حال میں آئی ہے جس کا آپ نے ذکر کیا “اعتبارِ ادب”۔ ایک کتاب آپ کی درختوں پر بھی ہے، اس کے بارے میں کچھ بتائیے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ جی وہ ہے ” سائے میں چلے آؤ” یہ میرا درختوں پر ایک مجموعہ ہے جس میں تقریباً سات آٹھ سو شعر ہیں لیکن وہ میرے اپنے نہیں ہیں بلکہ میرا ایک کلیکشن ہے۔ اس میں دنیا بھر کے جن شعرا نے درختوں پہ شعر کہے انہیں میں نے یکجا کر کے ایک کتابی شکل دی ہے۔ حنا خراسانی رضوی بہت خوب! یہ کام تو آپ کی ماحولیاتی فکر کو ظاہر کر رہا ہے۔ منظر بھوپالی صاحب… جی میں نے ڈیڑھ دو ہزار پیڑ لگا رکھے ہیں اپنے فارم ہاؤس پہ ان پیڑوں پر ہی یہ درخت والے شعر لکھے گئے تھے اور اس کتاب کا رسم اجراء بھی وہیں کیا گیا تھا۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کی پہلی کتاب کب اور کہاں شائع ہوئی؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میری پہلی کتاب ” یہ صدی ہماری ہے” 1991ء میں آئی تھی۔ پھر پاکستان سے یہی کتاب “زندگی” کے نام سے چھپی۔ میری دوسری کتاب آئی ” لہو رنگ موسم” یہ پاکستان سے بھی لہو رنگ نام سے چھپی۔ پھر تیسری کتاب آئی “لاوا” یہ بھی اسی نام سے پاکستان چھپی۔ اس طرح مختلف کتابیں وہاں سے چھپیں ان میں ” اداس روحیں “حاصل” “معجزہ” اور پھر انڈیا سے چھپیں۔ اب میرے پاس ایک ایک دو دو کتابوں کی کاپیاں ہیں باقی سب میرے چاہنے والوں کے پاس ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ماشاء اللہ آپ کی دو بیٹیاں ہیں۔ اُن میں سے کسی کو شاعری کا شوق ہے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔میری دونوں بیٹیاں شعر تو نہیں کہتیں مگر شعر سمجھتی ہیں، اُردو پڑھتی ہیں اور اردو لکھتی ہیں۔ اور میری چھوٹی بیٹی انگلش کی اچھی خاصی پوئٹری کر لیتی ہے۔
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔ادب کے حوالے سے آپ کے گھر کا ماحول کیسا تھ ؟ غالباً آپ کے والد بھی شاعری کرتے تھے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔شاعر نہیں تھے وہ، میرے والدِ محترم مگر اُن کو بہت زیادہ شعر یاد تھے۔ وہ جب اپنے دوستوں میں بیٹھتے تھے تو ہر چند منٹ کی گفتگو کے بعد دو یا تین شعر ضرور سناتے تھے۔ اُن کو بڑا ذوق تھا۔ بہت کتابیں تھیں اُن کے پاس شاعروں کی اور بہت مطالعہ کرتے تھے۔گھر میں ہم لوگ شعر سنتے رہتے تھے اپنے والد سے ۔ اور میری والدہ صاحبہ جو تھیں وہ بہت پڑھی لکھی تھیں، پرنسپل تھیں اور اُردو بہت اچھی جانتی تھیں۔ وہ ہمیں اکثر اچھی کہانیاں سناتی تھیں، اچھی شاعری سناتی تھیں، کوئی اچھی منقبت ہوتی تھی تو وہ سناتی تھیں، حمد سناتی تھیں یا نعت پاک کے شعر سناتی تھیں۔ میرے والد اور والدہ ہم تینوں بھائیوں کو ایک اُس ماحول میں ہی رکھتے تھے کہ یہ اس ماحول سے باہر نہ طریقے سے نکلیں۔ ویسے تو اُس زمانے میں ہر گھر میں اُردو کا ماحول تھا صرف میرے ہی گھر میں کیا۔ ہر غریب سے غریب کے گھر میں اُردو کا ماحول تھا۔ اچھی اردو بولی جاتی تھی۔ اُردو کے رسالے بھی آتے تھے، اخبار بھی آتے تھے مگر اب بدنصیبی سے بہت کم لوگ اُردو کی کتابیں اپنے گھر میں رکھتے ہیں ہمارے یہاں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ اردو سے اس دوری کی بنیادی وجہ کیا ہے منظرصاحب؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ اصل میں اُردو ہمارے یہاں معاش سے نہیں جڑی ہوئی۔ اُردو پڑھنے کے بعد کوئی نوکری آپ کو اُردو کے نام سے نہیں ملتی سوائے یہ کہ ٹیچر بن جائیے۔ وہ بھی کبھی کبھی اور کہیں کہیں نوکری ہوئی تو مل گئی ورنہ بیشتر نوکریاں جو ہماری قومی زبان ہے ہندی اور انگریزی اُس کی ہیں۔ اور پھر آج کا زمانہ ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کا۔ بچے اپنے مستقبل کو دیکھ رہے ہیں۔ شاعری سے، یعنی غالب کو پڑھ کر یا کبیر کو پڑھ کر اُن کے مستقبل کو کیا ملے گا۔ اُن کو تو جانا ہے امریکہ اور اپنا پیکج دیکھنا ہے، اپنا مستقبل دیکھنا ہے۔ یہاں پر رہ کر ان کو کیا ملنے والا ہے یا منظر بھوپالی کی شاعری پڑھ کر ان کو کون سی نوکری مل جائے گی۔ تو یہ ذرا سا معاملہ ہمارے یہاں ہے کہ اُردو کے نام پہ کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے۔ کہیں بھی کوئی نوکری نہیں ملتی۔ بچے پڑھ بھی لیں تو کیا کریں گے۔ اس لیے ایک سبجیکٹ کے طور پر پڑھتے ہیں۔ اچھا انسان بننے لیے، ایک میٹھی زبان ایک خوبصورت زبان سمجھ کر وہ اُردو کو ہیں اور اپنی زندگی کو سنوارتے ہیں اور خوبصورت بناتے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ آپ کا شہر بھوپال اُردو کی یگانہ روزگار ہستیوں کا حوالہ رکھتا ہے، اُن کی صحبت سے کس قدر تحریک ملی آپ کو؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میرے گھر کا ماحول بھی تھوڑا ایسا تھا کہ ہمارے یہاں بہت بڑے بڑے شاعر اُس زمانے کے آتے تھے۔ کیف بھوپالی آتے تھے، تاج بھوپالی آتے تھے، شیری صاحب بھی کبھی کبھی آجاتے تھے۔ میرے بھائی جو مجھ سے بڑے ہیں ساجد، وہ یہاں کے سرکاری ٹیلی ویژن میں تھے تو ان سے سب کی دوستی تھی۔ اس لیے وہ لوگ آتے رہتے تھے۔ ان و دیکھا دیکھی مجھے کچھ ایسا لگا کہ بھئی یہ چیز یعنی شاعری تو ہم کر سکتے ہیں۔ تو جب شاعری شروع کری تو کچھ تو مزاج میں تھا، پھر گھریلو ماحول بھی ایسا تھا شروع میں تھوڑی مشکل ہوئی مگر دھیرے رہے، کتابیں پڑھیں، شاعری سمجھی پھر اس کے بعد شعربھی کہنے لگے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ترنم آپ کا خاصہ ہے تو کیا شروع دن سے اُسے اپنی شاعری سے منسلک رکھا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔جی، وہ تو خداداد صلاحیت ہے میرا کیا أس ہے لیکن ہاں شروع سے ہی۔ پہلی غزل سے ہی۔ پہلی غزل جو کہی تھی تو وہ گنگنا کے کہی۔ اُس کے بعد جو سنائی استاد کو تو انہوں نے بھی سراہا۔ پھر محفلوں میں گئے تو وہاں ترنم سے ہی سنائی تو سب کو پسند آئی، بس پھر ترنم سے ہی پڑھنے لگے۔
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔منظر صاحب بڑی عنایت ہوگی گر آپ اپنی کوئی پسندیدہ غزل ہمیں ترنم سے سنا سکیں؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔ضرور۔
زندگی کے لیے اتنا نہیں مانگا کرتے
مانگنے والے سے کاسہ نہیں مانگا کرتے
مالک خلد سے دنیا نہیں مانگا کرتے
یار دریاؤں سے قطرہ نہیں مانگا کرتے
ہم کو آتا ہے نئی راہ بنانے کا ہنر
ہم پہاڑوں سے بھی رستہ نہیں مانگا کرتے
بیٹیوں کے لیے بھی ہاتھ اٹھاؤ منظر
صرف الله سے بیٹا نہیں مانگا کرتے
حنا خراسانی رضوی ۔۔۔کیا کہنے منظر صاحب بیٹیوں کے موضوع پر آپ نے اپنے قلم کو کافی متحرک رکھا؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔جی، میری ایک کتاب بھی ہے بیٹیوں کے لیے۔ اُس میں کچھ نظمیں ہیں، کچھ گیت ہیں، شعر ہیں اور دو چار غزلیں بھی ہیں۔ حنا خراسانی رضوی ایک طویل دور ہے آپ کا شاعری کا، نوجوانی سے اب تک کا، تو خود آپ کو اپنا کون سا دور سب سے اچھا لگتا ہے؟ منظر بھوپالی صاحب میرا دور ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا کیونکہ میرے ساتھ اللہ کا کرم بھی رہا، ماں باپ کی دعائیں بھی رہیں۔
یہ تاج عظمتوں کا یونہی نہیںملاہے
اللہ کا کرم ہے ماں باپ کی دعا ہے
اور دوستوں کا پیار چاہنے والوں کی ہزاروں دعائیں اور محبتیں میرے ساتھ رہیں تو مجھے کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میرا یہ دور خراب ہے اور یہ دور اچھا ہے۔ ہمیشہ سے ایک جیسا ہی وہ چلا اور ابھی تک اليس سال اسٹیج پر ہوگئے مجھے مشاعروں کی دنیا میں ابھی تک تھوڑا بہت میرا کام چلتا ہی رہتا ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ خوب! آپ کے جو سننے والے اور چاہنے والے ہیں اُن کی محبت کے اظہار کا کوئی ایسا واقعہ جو آپ کو یاد ہو؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میرے چاہنے والے، دعائیں دینے والے ہر جگہ ہیں، امریکہ میں انگلینڈ میں الگ ہیں، پاکستان میں الگ ہیں، انڈیا میں الگ چوالیس سال اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ میں نے مشاعروں کے اسٹیج پر گزار دیا تو بہت سی چیزیں ہیں اُس وقت کی، کیا بیان کروں۔۔ اچھا۔۔۔ یہ یاد کہ جب میری یہ غزل آئی تھی ۔
” ان کو آنسو بھی جو مل جائے تو مسکاتی ہیں”
یہ غزل سناتے وقت میں نے بیشتر لوگوں کی آنکھوں میں نمی دیکھی۔ لوگ اپنی اپنی بیٹیوں کو یاد کرتے تھے۔ مجھے گلے لگا لیتے تھے اور دعاؤں سے نوازتے تھے۔ یہ ہر ملک میں ہوا میرے ساتھ، ہر جگہ جہاں جہاں میں نے یہ غزل پڑھی۔
ان کو آنسو بھی جو مل جائے تو مسکاتی ہیں
بیٹیاں تو بڑی معصوم ہیں جذباتی ہیں
اُن سے قائم ہے قائم ہے تقدّس بھی ہمارے گھر کا
صبح کو اپنی نمازوں سے یہ مہکاتی ہیں
لوگ بیٹوں سے ہی رکھتے ہیں توقع لیکن
بیٹیاں اپنی برے وقت میں کام آتی ہیں
اپنے سسرال کا ہر زخم چھپا لیتی ہیں
سامنے ماں کے جب آتی ہیں تو مسکاتی ہیں
ایک بیٹی ہو تو کھل اٹھتا ہے گھر کا آنگن
گھر وہی ہوتا ہے پر رونقیں بڑھ جاتی ہیں
بیٹیاں ہوتی ہیں پرنور چراغوں کی طرح
روشنی کرتی ہیں جس گھر میں چلی جاتی ہیں
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ واہ! ہمارے معاشروں میں اس طرح کے پیغامات کی بہت ضرورت ہے۔۔۔۔ منظر صاحب ادب کے حوالے سے کوئی ایسا کام جسے کرنے کی خواہش ابھی باقی ہو؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجھے جو کام دیا ہے الله نے مکمل نہیں کر پا رہا۔ میں کوئی نئے کام کے بارے میں نہیں سوچ رہا، بس یہی سوچتا ہوں کہ اللہ مجھے کوئی ایک شعر ایسا دے دے کہ میرے بعد وہ ہمیشہ لوگوں کی زبان پہ رہے۔ ابھی تک میرے نزدیک، میری اتنی ساری کتابیں آچکی ہیں، اتنی شاعری کے بعد بھی وہ شعر مجھے نظر نہیں آتا کہ جو میرے بعد میری پہچان بنے۔ ایک دو شعر ہیں میرے لیکن وہ بہت بڑے شعر نہیں۔ چاہتا ہوں کہ کوئی ایسا شعر میرا آئے جو میری آنے والی پیڑھیوں تک یاد رکھا جائے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ فارغ اوقات میں آپ کی کیا مصروفیات رہتی ہیں؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔ میں نے تقریباً دو ہزار درخت لگا رکھے ہیں۔ میری بہت بڑی فارمنگ ہے۔ میں وہاں چلا جاتا ہوں۔ میرے گھر سے بیس کلومیٹر پہ ہی ہے۔ بہت بڑی زمین ہے۔ وہاں پہ میرے سب کام کرنے والے میرے ساتھی ہیں۔ جب میں فری ہوتا ہوں تو درختوں کے سائے میں چلا جاتا ہوں۔ وہاں بیٹھ کر دنیا بھول جاتا ہوں صرف پیڑوں سے باتیں کرتا ہوں، پیڑوں کی پتیوں سے باتیں کرتا ہوں، وہاں پیڑوں پہ آکے بیٹھے پرندوں کو دیکھتا ہوں اور ان کی بول چال سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ وہ دنیا بالکل الگ ہے اور وہ سکھ ہمیں کہیں نصیب ہی نہیں ہو وہاں پر ملتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ درخت مجھ سے باتیں کررہے ہیں کیونکہ وہ سارے درخت جو وہاں ہیں، میں نے اور تبسم ، میری اہلیہ نے ایک ایک درخت کو اپنے ہاتھ سے لگایا ہے۔ ہندوستان کے اور دنیا بھر کے شہروں کے پیڑ ہیں وہاں۔ میں جہاں گیا وہاں سے ایک چھوٹا سا پودالے آیا اور سکتا جواسے ہم لوگوں نے گملے میں اگایا پھر تبسم اُس کی دیکھ ریکھ کر کے فارم ہاؤس میں بھیجتی تھیں۔ تو بہت سے پیڑ لگے ہیں ہماری یادگار۔ وہی ہماری زندگی ہے، وہی ہماری غزل ہے، وہی ہماری شاعری ہے، وہی ہماری محبت ہے اور وہی ہمارے محبوب۔ ان کے بنا ہم ادھورے ہیں۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔ ہمارے رسالے ” ورثہ” کے لیے آپ کوئی پیغام دیناچائیں گے؟
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔
اب اگر عظمتِ کردار بھی گر جائے گی
آپ کے سر سے یہ دستار بھی گر جائے گی
بہتے دھارے تو پہاڑوں کا جگر چیرتے ہیں
حوصلہ کیجئے یہ دیوار بھی گر جائے گی
سرفروشی کا جنوں آپ میں جاگا جس دن
ظلم کے ہاتھ سے تلوار بھی گر جائے گی
اور یہ شعر دیکھئیے اُردو کے پس منظر میں ہے کہ:
اپنی پرکھوں کی وراثت کو سنبھالو ورنہ
اب کی بارش میں یہ دیوار بھی گر جائے گی
بہت شکریہ آپ کا اور آپ کے سبھی لوگوں کا۔ اور جو آپ کے رسالے کو پڑھ رہے ہیں اُن سب کو مبارکباد۔ آپ لوگوں کو بھی بہت بہت مبارکباد کہ آپ اتنی دور بیٹھ کر، اپنے وطن سے دور رہ کر زبان اور ادب کی خدمت کررہے ہیں۔ بہت بڑی بات ہے۔
حنا خراسانی رضوی۔۔۔نوازش۔۔۔منظر صاحب آپ کا بھی شکریہ ہمیں وقت دینے کے لیے، خدا حافظ ۔
منظر بھوپالی صاحب۔۔۔خدا حافظ ۔