این میری شمل کی کتاب ’’میری روح ایک عورت ہے‘‘ تحریکِ نسواں کے تناظر میں
ڈاکٹر صدف نقوی
صدرشعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، فیصل آباد
sadafnaqvi@gcwuf.edu.pk
آسیہ ستار
پی ایچ ڈی سکالر، شعبہ اُردو، گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی، فیصل آباد
Abstract:
In Islam, the status of women has always been of great importance. Women, as mothers, sisters, daughters, and wives, deserve respect and are a source of honor. Islam has granted equal rights to both women and men. Many books have been written on the role of women in Islam. Anne-Marie Shimmel’s book”My Soul is a Women” is also a part of this series. In this book, an effort is made to find answers to important questions about the role of women in Islam. The book also explains the reality of the propaganda against Islam in the name of women’s rights. The book consists of 12 chapters. Throughout the chapters, the role of women is discussed. The first 8 chapters analyze the role of women from an Islamic perspective. The remaining four chapters focus on mythological figures and the role of women in the Indian subcontinent. From reading this book, one can understand that Anne-Marie Shimmel’s scholarly and literary journey is truly remarkable. Whatever topic she addresses, she makes an effort to reach its true essence.
Key words: Women, Islamic Perspective, Rights, Feminist, Love, Respect, World
اسلام میں عورت کا کردار نہایت اہم رہا ہے۔ عورت بحیثیت ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے لائق احترام و باعثِ تکریم ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کو مساوی حقوق دیے ہیں۔
اسلام میں عورت کے کردار پر بہت زیادہ کتب تحریر کی گئی ہیں۔ این میری شمل کی کتاب ’’My soul is a women‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس کتاب میں اسلام میں خواتین کے کردار کے حوالے سے اہم سوالات کے جواب تلاش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ این میری شمل کی کتاب ’’My soul is a women‘‘ اسلام میں عورت کا مقام متعین کرنے کی اہم کاوش ہے۔
“My intention with this book is not to suddenly join the stream of feminist criticism, but rather to explore a new approach one that, I hope, will lead to a better under standing of the woman’s role in Islamic mysticism.”(1)
کتاب کا اصل موضوع تصوف اور مسلمان خواتین کا کردار ہے۔ این میری شمل کا تعلق ایک عیسائی گھرانے سے تھا مگران کے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ علاوہ ازیں اس کو استاد نہایت محنتی اور شفیق ملے۔ جنھوں نے اس میں اسلامی تہذیب و ثقافت سے عشق کی کھوج کا تجسس پیدا کیا۔ اسلامی تصوف پر اُن کا مطالعہ بے حد وسیع تھا۔ اُن کی بہت سی کتابیں اس موضوع پر ہیں۔ اپنے شوق کی خاطر انھوں نے جرمنی میں پہلی جنگِ عظیم کے بعد کے انحطاط کو نظر انداز کر کے لکھنے کا عمل جاری رکھا۔ وہ جہاں بھی جاتی تھیں اپنے موضوع سے متعلق حقائق اور دلائل اکٹھے کرتیں اور ان کو ایک منظم کتاب میں یک جا کر دیتی تھیں۔ ’’My soul is a women‘‘ کی تصنیف کے دوران انھوں نے بے حد دل چسپی کا مظاہرہ کیا:
“As soon as, I started this project, I realized how very much has yet to be done.”(2)
’’My soul is a women‘‘ شمل کی کتاب کا انگریزی ترجمہ ہے۔ یہ کتاب لندن سے ۱۹۴۷ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب میں اسلام میں عورت کے حقوق پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جو ایک طرح سے تحریکِ نسواں کے علمبرداروں کے اٹھائے گئے سوالات کا جواب فراہم کرتی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسلام سماجی زندگی کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتا ہے۔ ان کی اس کتاب میں تصوف اور اسلام میں عورت کے کردار کا بہتر انداز میں تعارف کروایا گیا ہے۔ کتاب کے دیباچے میں انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ اسلامی عورت کے موضوع سے میری دلچسپی حضرت رابعہ بصری کی وجہ سے ہے جو نہ صرف اپنی خصوصیات کی وجہ سے اہم ہے بلکہ ان کے ساتھ ساتھ Margret smith کی کتاب ’’رابعہ‘‘ کی وجہ سے مجھے اسلام کی عظیم رہنما صوفیہ خواتین سے بھی شنا سائی ہوئی۔ انھوں نے اس کتاب کو ترکی کی ایک مصنفہ سمیہا ایوردی کے نام معنون کیا ہے۔
“Dedicated to the memory of Samiha Ayverdi with gratitude.” (3)
سمیعہ ایوردی کے حوالے سے این میری شمل لکھتی ہیں:
“I had the personal good fortune of becoming acquainted with saintly and mystical women leaders in the Islamic world in the course of visiting the graves of such, often legendary women in Turkey, India and Pakistan. To one of them, the Turkish mystical writer Samiha Ayerdi (1906-1993). This book is dedicated in gratitude; I am idebted to her for many invaluable insights.” (4)
کتاب میں شروع سے آخر تک تمام ابواب میں عورت کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ کتاب کے کل بارہ ابواب ہیں جن میں سے پہلے آٹھ اسلامی نقطۂ نظر کے حامل ہیں، جب کہ باقی چار اساطیری کردار سوہنی مہینوال، سسی پنوں، عمر ماروی اور ہندوستان میں عورت کے کردار پر مبنی ہیں۔
این میری شمل نے ابتدائی ابواب میں مسلمان خواتین کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور حضرت خدیجہؑ، حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمہؑ اور حضرت رابعہ بصریؒ کی زندگیوں پر جامع اور وقیع بات کی ہے۔ بڑی مکمل اور خرد افروز گفتگو کی ہے۔ انھوں نے مسلمان خواتین کے سماجی کارکن اور تجارت کے پیشہ کی صلاحیت کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت خدیجہؓ کی زندگی کا مختصر جائزہ پیش کیا ہے ۔ اور حضرت خدیجۃ الکبریٰؑ سے اسلام میں عورت کا مقام متعین کرتی ہیں:
“It is impossible to overestimate the role the Prophet’s first wife, Khadija, played in defining the woman’s place in Islam. She was also the one who consoled and supported him after his first visions and auditions and who convinced him that the revelations he experienced in the cave at Mount Hira during the meditations were not of demonic but rather of divine origin Khadija rightfully bears the honorary titles Mother of Belivers and the Best of women’s Khair un-nisa (the latter still a favourite name for women.”(5)
جہاں تک جدید روشن خیال معاشرہ عورت کی نا خواندگی کا رونا رہتا ہے تو وہاں این میری شمل اپنی کتاب میں حضرت فاطمہؑ کی ذہانت اور ان کے علم کی بلندی کا تذکرہ بڑے رشک آمیز انداز میں کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ قرآن وحدیث کے بارے میں بھی وضاحت کرتی نظر آتی ہیں کہ زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس پر اللہ اور اس کے رسولﷺ نے رہنمائی نہ کی ہو؛ ہر مسئلے کا حل قرآن مجید میں موجود ہے۔ وہ حضرت فاطمہؑ کا ذکر کرتے ہوئے اُن کے لقب ’’اُم ابیھا‘‘ کی بات کرتی ہیں اور “Sana Ghazna” کے گیت کا ذکر کرتی ہیں:
“The world is full of women yet where is there a women the best of women.”(6)
وہ اپنی بات کا آغاز حدیث مبارکہ کے اس مفہوم سے کرتی ہے:
“God had made dear to me from your world women and fragrance and the joy of my eyes is prayer.”(7)
(دنیا میں خوشبو اور عورت مجھے عزیز ہیں اور نماز میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔)
اس بات کو لے کر وہ پورے باب میں یہ بات واضح کرتی ہے کہ خوشبو، عورت اور نماز تین اہم نسوانی اسماء ہیں۔ ان تینوں کی ترتیب یہ ہے کہ خوشبو ایک ایسا نا دیدہ عنصر ہے جو عورت اور نماز کے مابین ایک پاکیزہ تعلق ہے، گو یا خوشبو کا ایک تعلق دنیا یعنی عورت کے ساتھ ہے اور دوسرا آخرت یعنی نماز کے ساتھ ہے تو خوشبو اصل میں دنیا سے آخرت یعنی اپنے رب کی طرف جانے کا ایک راستہ ہے۔ یہ خوشبو دراصل وہ محبت ہے جو اللہ نے عورت کے وجود سے مخصوص کر دی ہے۔ عورت محبت ہی کا ایک روپ ہے اور نماز اس محبت کو عشقِ حقیقی میں بدلتی ہے اور یہ عشق بندے اور اس کے خدا کے درمیان ایک ایسا راز ہے جو صوفیا کرام کو اللہ نے دیا ہے۔ خوشبو کا ایک سرا پاکیزگی یعنی نماز سے منسوب ہے۔ پاکیزگی انسان کی روح کی غذا ہے اور یہ روحانی پاکیزگی تصوف کی کلید ہے۔ اس طرح یہ پاکیزگی صوفیائے کرام کو خدا کی محبت میں سرشار رکھتی ہے۔ مغرب کی پروردہ ایک غیر مسلم خاتون کی جانب سے اس قدر عقیدت مندانہ اور حقیقت پسندانہ تجزیہ ہمارے لیے فخر کا باعث ہے۔ یہ منطقی انداز تحریکِ نسواں کے مبلغین کے تمام اعتراضات کا جواب دیتا ہے کہ نسوانیت عریانی اور جسمانی آزادی نہیں ہے بلکہ یہ تو روحانی آزادی اور ذہنی بالیدگی کی ایک ایسی سطح کا نام ہے جسے خدا نے دنیا کی تمام آلائشوں سے ماورا رکھا ہے۔
اسی طرح وہ تصوف اور عورت والے باب میں رابعہ بصری کی زندگی کا تجربہ پیش کرتی ہیں کہ تصوف کا ایک مرحلہ خلوص اور رحم دلی ہے، کوئی بھی عمل خلوص سے مبرا ہو کر اچھا نتیجہ پیش نہیں کر سکتا۔ ہر کام ہر عمل انسان کے خلوص کا متقاضی ہوتا ہے یہاں تک کہ عبادت بھی۔ حضرت رابعہ بصری کے حوالے سے حافظ عطار کے اشعار کا حوالہ دیتی ہیں:
For a whole week the saintly Rabťa had taken no food.
During that week she never sat down but prayed and fasted continuously.
When hunger had weakened her legs and utterly exhausted all her limbs and members,
A woman who lived near her happened to bring her a bowl of food.
Rabťa, in pain and suffering as she was, went to fetch a lamp.
When she returned it chanced that a cat had knocked the bowl upon the ground.
Again she departed to fetch a pitcher and break her fast with water.
The pitcher fell from her hand: she was still thirsty and the pitcher was broken.
That disconsolate one heaved such a sigh that it was as though the whole world had been consumed with fire.
In utter bewilderment she cried: “O God, what wilt Thou of this poor helpless creature?
Thou hast cast me into confusion-how long wilt Thou cause me to welter in my blood?”
There came a Voice saying: “If thou so wish I will this very moment bestow upon thee all that lies between the Moon and the Fish.
But I shall remove from thy heart the grief that thou hast borne for so many years for My sake. Consider this well.
For not in a hundred years will suffering for Me and this deceitful world meet together in a single heart.
If thou wouldst always suffer for Me thou must forsake the world forever.
Hast thou the one thou canst not hope for the other, for suffering for God is not to be had without paying for it.(8)
این میری شمل عورت اور محبت کو ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم قرار دیتی ہے۔ شروع سے آخر تک وہ یہی بات کرتی ہے کہ محبت ہی عورت کو بچا سکتی ہے اور زندگی میں بلند مقام دلا سکتی ہے۔ این میری شمل کی باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ وہ محبت ہی کہ وجہ سے عورت کو تخلیق کا سر چشمہ کہتی ہے۔
تیسرے باب میں وہ قرآن اور روایات میں عورت کا مقام بتاتی ہیں۔ قرآن نیک اور ایمان یافتہ عورتوں کو مومنات، مسلیمات کے نام سے یاد کرتا ہے۔ حوا کی پیدائش کا قصہ اساطیری انداز میں پیش کیا ہے، لیکن یہ تاثر دیا ہے کہ اگر حوا کو خدا نے آدمؑ کی پسلی سے بنایا ہے تو یہ پسلی دراصل عورت کے وجود کی کیمیائی ساخت کی علامت ہے۔ اللہ نے عورت کو ایک خاص طرز پر تخلیق کیا۔ اس کی ذہنی ساخت میں کسی خاص نشیب و فراز رکھے ہیں۔ جن کو ختم نہیں کیا جا سکتا مگر سوائے محبت کے بظاہر ٹیڑھی چیز کو اگر طاقت کے زور پر سیدھا کرنا نقصان دہ ہوتا ہے مگر محبت سے یہی کام نہایت آسمانی سے انجام پاتا ہے۔وہ قرآن سے حضرت مریمؑ ، ملکہ بلقیس اور حضرت زلیخا کے واقعات کو بھی بیان کرتی ہیں۔ مولانا روم کے بی بی زلیخا کے حوالے سے کچھ اشعار درج کرتی ہیں:
“Love is likean ocean upon which the heaven’s are mere foam aroused, like Zulaikha in her love for Yusuf.” (9)
این میری شمل کی اس تحریر سے ان کی فراخ دلی کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کلچر کو کسی دوسری تہذیب پر فوقیت نہیں دیتی۔ حقوقِ نسواں کے حامی نقاد اس بات کو بہت اُچھالتے ہیں کہ عربی لڑکیوں کو زندہ درگور کرتے تھے اور مشرق میں عورت مظلوم ہے تو عمل اس بات کے جواب میں کہتی ہیں:
“Every culture prefers boys to girls.” (10)
این میری شمل نے اپنی اس کتاب میں ثابت کیا ہے کہ اسلام میں مردوں کی نسبت خواتین نے نویں صدی سے اب تک سوانح عمری پر زیادہ کام کیا ہے۔ عورتوں کے حوالے سے ادبی کتب کا مطالعہ بھی علم کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ شمل نے اس میں عورت کی تربیت اور پرورش کے طریقوں پربھی بات کی ہے۔ برصغیر پاک و ہند کے مسلم خطوں میں عورت کے بارے میں نرم رویے کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ترقی پسند طبقہ اور حقوق نسواں کا پرچار کرنے والا گروہ اردو کے کلاسیکی ادب کے داستانوی رنگ کو اوہام پرستی قرار دیتا ہے جب کہ این میری شمل کے مطابق عورت کے کردار کی بہترین عکاسی کلاسیکی دور میں لکھی گئی کتب میں کی گئی ہے۔ اس حوالے سے وہ ڈپٹی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کا ذکر کرتی ہیں جس میں عورت کی ملنساری کا ذکر ہے۔ مرزا خلیج بیگ کے ناول کا ذکر ہے کہ اس کے نسوانی کردار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ جو تاریخ، ریاضی اورعربی کی ماہر ہیں، وہ لکھتی ہیں کہ مسلمان عورت کو در پیش مسائل اور ان کے حل کے ضروری ہے کہ اس کی ادبی سرگرمیوں کا مطالعہ از سر نو کیا جائے۔ وہ عورت کو سیاست کے میدان میں دیکھ کر خصوصاً غزوات میں امہات المومنینؑ کا ذکر کر کے وہ ان کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ خواتین جنھوں نے حکومت کی، خاص طور پر رضیہ سلطانہ اور چاند بی بی (مغل سلطنت) اور آگرہ، گولکنڈہ اور بیجاپور کی شہزادیوں کے فنون لطیفہ میں کار ہائے نمایاں کا تذکرہ کرتی ہیں۔
اس کتاب میں وہ مسلمان خواتین کو ان عبادت و ریاضت کے سبب خطابات کا تذکرہ بڑے اشک آمیز انداز میں کرتی ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کو طاہرہ، حضرت فاطمہؓ کو زہرا اور زلیخا کو عمّارہ کا خطاب ملنا۔ ان خواتین کے سماجی مرتبے اور عزت کی دلیل دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ مرد اساس معاشرے کی قباحتوں پر بھی اظہارِ افسوس کرتی ہیں۔ وہ خواتین جو اَن پڑھ تھیں انھیں ان کے قانون اور شرعی حق سے دور رکھا گیا۔ اس سبب کے باوجود شمل ایک ایسا دائرہ کار متعین کرتی ہیں۔ جس میں عورت اپنے تمام حقوق سے مستفید ہوتی ہے اور وہ تصوف کا دائرہ کار ہے۔ جس طرح متقی اور پرہیز گار آدمی کو خدا کا بندہ کہتے ہیں۔ اسی طرح عورت کو بھی اسلام کی تاریخ اور ابتداہی سے تقویٰ کی بنیاد پر ہی فضیات دی جاتی ہے۔
شمل اسلامی نقطۂ نظر سے وجودِ زن کی تشریح کرنے کی ترغیب دیتی ہیں اور خود بھی کرتی ہیں:
“I believe a careful study of the image of women in islamic literature can help us better appreciate these ideals.” (11)
شمل کا خیال ہے کہ پاکستان میں اور مشرق میں انتہا پسندی کے عروج کا سبب عام لوگوں کی تباہ حالی، بےروزگاری، جہالت اور نا انصافی ہے لیکن اس عدم برداشت اور انتہا پسندی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ اسلام محبت اور امن کا درس دینے والا ضابطہ حیات ہے۔
کتاب کا پانچواں باب “The Old Women” اور چھٹا باب “The Mothers” کے عنوان سے ہے جس میں وہ عورت کی بحیثیت ماں کے عزت و تکریم کے اسلامی حوالے دیتی ہے۔ حضورﷺ کا ارشاد ہے:
“Be good to your parents, for only them will your children be good to you.” (12)
این میری شمل اقبال کے اُن اشعار کا حوالہ بھی دیتی ہے جو کہ علامہ اقبال نے والدہ مرحومہ کی یا دمیں لکھے تھے:
“Who, waiting at home, will pray for me will worry when letters tarry? Into your grave, I’ll put this question. Who’ll remember me in her nighly prayer.” (13)
اقبال لکھتے ہیں:
کسی کو اب ہو گا وطن میں آہ! میر اانتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار
خاک مرقد پر تری لے کر یہ فریاد آؤں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آؤں گا(۱۴)
ساتویں باب میں “Women as Manifestation of God” پر بات کرتے ہوئے عورت کی فضیلت پر بات کرتی ہیں:
“She is a ray of God, she is not that (earthly) beloved.
She is creative, you might say she is not created.”(15)
این میری شمل کی کتاب کے آخری تین باب برصغیر کی لوک عشق کی داستانوں پر مشتمل ہیں۔ سسی پنوں، سوہنی مہینوال اور عمر ماروی کی کہانیوں کو بیا ن کیا گیا ہے۔ ان داستانوں کے لیے انھوں نے شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام سے رجوع کیا ہے۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی صوفی شاعر ہیں۔ صوفی شاعر اِ ن داستانوں کے ذریعے علامتی انداز میں محبوب حقیقی سے عشق کی داستان بیان کرتا ہے۔
“My Soul is a Women”کا سب سے نمایاں اور قابلِ ذکر پہلو ایشیائی سرزمین کا تہذیبی شعور ہے۔ این میری شمل کی کتاب مٹی سے جڑت کی عکاس ہے۔ وہ عورت کا سراپا محبت قرار دیتی ہے۔
قصۂ مختصر این میری شمل کا علمی اور ادبی سفر نا قابلِ یقین ہے۔ اس کی مادری زبان جرمن تھی مگر وہ مشرقی زبانوں میں بھی خاصی رواں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جس ملک میں بھی جاتیں وہاں کے طلباء کو انہی کی زبان میں پڑھاتی تھیں۔ عورت کے تصور کی جو تصویر کشی شمل نے کی ہے اس میں اس تحریکِ نسواں کا واضح رنگ نظر آتا ہے جو مغرب کے گوشوں سے اُٹھی ہے۔ لیکن این میری شمل نے مغربی تانیثیت کے مخالف رویہ اپناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ مشرقی عورت نہایت معزّز اور محفوظ ہے۔ وہ والد جس کو مغرب میں ایک ظالم محافظ سمجھا جاتا ہے وہیں والد مشرق میں بیٹیوں کے لیے شجر سایہ دار ہے۔ وہ ماں جو مغرب کے آزاد خیال معاشرے میں اولڈ ہوم میں زندگی کے دن پورے کرنے پر محصور ہے وہی ماں مشرق میں اپنے بچوں کی جنت کی ضامن ہے۔ مغرب میں جس شوہر سے آزادی حاصل کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہے مشرق میں وہی شوہر عورت کے وجود کی تکمیل کا توانا ستون سمجھا جاتا ہے۔مشرق کی عورت خاندان کی عزت کی پاسبان سمجھی جاتی ہے۔
حوالہ جات
Annemarie Schimmmal, My Soul is a women, Continuum New York, 1977, P.9
Ibid, P.10
Ibid, P.6
Ibid, P.10
Ibid, P.27
Ibid, P.31
Ibid, P.26
Ibid, P.36-37
Ibid, P.60
Ibid, P.69
Ibid, P.181
Ibid, P.89
Ibid, P.92
علامہ محمد اقبال، کلیاتِ اقبال اُردو، الفیصل ناشران و تاجران کتب، لاہور، ۱۹۹۲ء، ص۱۷۸
Annemarie Schimmmal, My Soul is a women, Continuum New York, 1977, P.