پنڈت برج نارائن چکبستؔ کی نظم نگاری
برج نارائن چکبستؔ لکھنوی کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں ہوتا ہے۔ عہد برطانیہ میں وہ لکھنوکے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے،ان کے اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے مستقل طور پر لکھنو میں سکونت اختیار کرلی تھی۔چکبستؔ نے غزل کی دہلیز سے اردو شاعری میں قدم رکھالیکن وہ بنیادی طورپر نظم کے شاعر ہیں۔حب الوطنی اور اصلاح معاشرہ،ان کی شاعری کا موضوع رہا چکبستؔ کے یہاں لفظ قوم کا بڑا مثبت تصور ملتا ہے۔کشمیری اور لکھنوی تہذیب کا حسین امتزاج پایاجاتاہے۔جدید طریقہئ تعلیم اور تعلیم نسواں پر انھوں نے بطورخاص توجہ دی اور اپنے افکار و نظریات کو کشمیر ی خواتین کے لیے ایک کلب بھی قائم کیا تھا۔
چکبستؔ نے شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی،شخصی نظمیں بھی لکھیں۔ان کے کل اشعار کی تعداد 2025 بتائی جاتی ہے جبکہ غزل کے اشعار کی تعداد 477 ہے اور غزلوں کی تعداد 58 ہے۔چکبستؔ کی بیشتر نظمیں مسدس کی شکل میں ہیں۔
چکبستؔ شام کا وقت ادبی سماجی اور سیاسی کاموں میں گزارتے تھے۔ادبی حلقوں کے علاوہ وکلاکے حلقے میں بھی بہت مقبول تھے۔شہنشاہ حسین وکالیت میں ان کے استاد تھے۔وہ محب وطن اور سیکولر ذہن کے مالک تھے۔مدن موہن مالویہ اور سرسید کی تعلیمی فکر کی وہ تعظیم کرتے تھے۔ شررؔ سے چکبستؔ کے ادبی معرکے بھی رہے۔
برج نارائم چکبستؔ کی پیدائش 19/جنوری 1882 میں فیض آباد کے ایک خوشحال گھرانے میں ہوئی۔ان کے اجداد اٹھارہویں صدی کے اواخرمیں کشمیرسے ہجرت کرکے لکھنومیں آباد ہوگئے تھے۔چکبستؔ کے والد پنڈت اودتنارائن پٹنہ میں ڈپٹی کلکٹرکے عہدے پر فائذ تھے۔انہیں شاعری سے شغف تھا اور شعر بھی کہتے تھے۔والد کے انتقال کے وقت چکبستؔ کی عمر پانچ برس سے زیادہ نہ تھی۔چکبستؔ کی ابتائی تعلیم گھرپر ہوئی،ان کی والدہ لچھی شوری نے چکبستؔ کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار اداکیا۔
1895میں چکبستؔ نے کاظمین مڈل اسکول کا امتحان پاس کیا۔1897میں گورنمنٹ جوبلی کالج میں داخلہ لیا اور 1900میں میٹرک کی سند حاصل کی 1902 میں کیننگ کالج سے ایف اے مکمل کیا 1905 میں بی اے اور 1907میں الہ آباد یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور مستقل طور پر وکالت کا پیشہ اختیار کرلیا۔
چکبستؔ کی پہلی شادی 1905 میں جوالاکے ساتھ ہوئی لیکن وہ ایک سال بعد فوت ہوگئیں۔دوسری شادی 1907میں چھیماشوری آغا سے ہوئی،ان سے کئی اولادیں ہوئیں لیکن صرف ایک لڑکی مہراج کماری زندہ رہیں۔
ابتدا ہی سے ان کی طبیعت شعر گوئی کی طرف مائل تھی۔بارہ برس کی عمر میں شعر کہنے لگے تھے اور 1894میں پہلی نظم ”حب قوم“ کے نام سے لکھی جسے کشمیری پنڈتوں کی کانفرنس کے ایک اجلاس میں سنائی۔چکبستؔ منشی سید افضل علی خاں لکھنوی کے شاگرد تھے۔
چکبستؔ لکھنوکی تہذیب کے پروردہ اور ادبی قدرون کے امین تھے۔حقہ پیتے اور پان کھاتے تھے۔شیروانی،گول ٹوپی اور چوڑی دار پاجامہ پہنتے تھے۔بڑے نفیس اور وضع دار انسان واقع ہوئے تھے۔انھوں نے ہمیشہ کشمیری براہمنی تہذیب اور خاندانی وجاہت کو قائم رکھا۔
1903میں انھوں نے کشمیری ینگ مین ایسوسی ایشن اور بہار لائبریری قائم کی مضامین چکبستؔ ان مضامین کا مجموعہ ہے۔
1901میں انھوں نے ہندوستان کے معروف جج مہادیوگووندراناڈے کی وفات پر مسدس کی شکل میں مرثیہ کہاجو چکبستؔ کا پہلا مرثیہ تسلیم کیا جاتاہے۔1906میں اپنی مشہور نظم ”رامائن کا ایک سین“ کہی۔چکبستؔ نے مختلف اوقات میں مشاعروں کے لیے غزلیں بھی کہیں چکبستؔ کو سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔مذہب کے سلسلے میں ان کا سخت رویہ نہیں تھا۔وہ اپنی بیسنٹ کی،ہوم رول لیگ کے سرگرم رکن بھی رہے۔1917میں انھوں نے امام باڑہ آصف الدولہ پر نظم کہی اور چند نظمیں بچوں کے لیے بھی کہیں۔چکبستؔ ان کاتخلص نہیں تھا بلکہ خاندانی نام تھا لیکن یہ نام شاعری میں تخلص کے طورپر ہی استعمال کیا۔12/فروری 1926کو چوالیس برس کی عمرمیں ان کا انتقال ہوگیا اور لکھنؤ میں ہی آخری رسومات ادا کی گئیں۔اثرؔلکھنوی ان کے بارے میں کہا تھا کہ چکبستؔ کاکلام ان کے کردار کا آئینہ ہے۔
چکبستؔ لکھنوی کا شمار اردو کے ممتاز نظم گو شعرامیں ہوتا ہے۔ابتدائی عمر ہی سے طبیعت موزوں تھی اور شعرکہناشروع کردیا تھا۔چکبستؔ کے والد اودت نرائن چکبست شاعر تھے اور یقینؔتخلص کرتے تھے۔گھرکے ادبی ماحول اور لکھنؤکی تہذیبی فضانے ان کے ذوق شعری کو اور بھی جلابخشی،لکھنؤ کے معروف شاعر سید افضل علی خاں لکھنوی سے اصلاح لی اور شرف تلمذ کیا میر انیسؔ کی بکری کی موت پر چکبستؔ نے شعرگوئی کا آغاز کیا اوریہ شعر کہا ؎
افسوس کہ دنیا سے سفر کرگئی بکری
آنکھیں تو کھلی رہ گئیں اور مر گئی بکری
لیکن چکبستؔ نے اپنی پہلی باقاعدہ نظم بارہ برس کی عمر میں ”حب قوم“ کے عنوان سے کہی جو سوشل کانفرنس کشمیری پنڈتوں کے چوتھے اجلاس میں پڑھی تھی۔
حب قوم کا زبان پر ان دنوں افسانہ ہے
بادہئ الفت سے پُر دل کا مرے پیمانہ ہے
چکبستؔ اقبال کے ہم عصر تھے۔ابتدامیں انھوں نے حالیؔ اور محمد حسین آزادؔ کی طرز پر نظمیں کہیں اور غزل کی قید سے آزاد ہوکر نظم گوئی کو اپنا میدان بنایا۔
چکبستؔ بہت ذہین اور حساس واقع ہوئے تھے۔وہ شاعری کے ذریعہ ملک و ملت اور خصوصاً کشمیریوں کو پیغام دیناچاہتے تھے۔چکبستؔ نے اپنی شاعری کا باقاعدہ آغاز 1894میں نظم گوئی سے کیا۔وہ میرانیسؔ سے بہت متاثر تھے۔انھوں نے اپنی بیشترنظمیں مسدس کی شکل میں کہیں۔چکبستؔ نے صنف غزل میں بھی طبع آزمائی کی اور شخصی مرثیے بھی کہے۔ان کے سیاسی رہنماؤں پر لکھے ہوئے ساتوں مرثیے بہت مشہور ہوئے لیکن 1916کے آس پاس محب وطن شاعر کی حیثیت سے ان کی شناخت قائم ہوئی۔
1926میں ”صبح وطن“ کے نام سے ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا،جس میں نظمیں غزلیں اور شخصی مرثیے بھی شامل ہیں اور کل اشعار کی تعداد2025 بتائی جاتی ہے۔ابتدائی دور میں ان کی نظمیں گائے،کرشن اور وید کے عنوان سے منظرعام پر آئیں۔1914کے سال میں انھوں نے چارغزلیں اور دو مرثیے بھی کہے۔بال گنگادھرتلک،گوپال کرشن گوکھلے اور رامائن کا ایک سین،چکبستؔ کی اہم نظمیں ہیں۔چکبستؔ ایک کامیاب وکیل بھی تھے اور غالباً اسی مصروفیت کی وجہ سے ان کی زندگی میں شاعری کو اولیت حاصل نہیں رہی۔
چکبستؔ کی شخصیت میں کشمیری اور لکھنوی تہذیب کا حسین امتزاج ملتا اور یہی رنگ ان کے کلام اور خصوصاً نظموں میں غالب نظر آتاہے۔فریاد قوم (1914)نالہ درد(1916) وطن کا راگ (1917) اور نظم جلوہئ صبح میں تشبیہات کا بھرپور استعمال ملتا ہے۔
دریائے فلک میں تھاعجیب نورکا عالم
چکّرمیں تھا گرداب صفِ نیّر اعظم
اٹھتی تھیں شعاعوں کی جو موجیں وہ شرر دم
سیارے حبابوں کی طرح مٹتے تھے پیہم
چکبستؔ کے یہاں سوزوگداز،جذبات کی مرقع کشی،عمل پہم کا درس،سماجی و اصلاحی اور سیاسی شخصیات پر نظمیں ان کے فن کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہیں۔انھوں نے اپنی نظموں میں مناظر فطرت کے ساتھ کلاسیکی روایت کو بھی قائم رکھاہے۔چکبستؔ کی موضوعاتی نظموں کا بیشتر حصہ حب الوطنی سے متعلق ہے۔نظم ’فریاد قوم‘ کے چند اشعار ملاحظہ کیجیے ؎
جو دب کے بیٹھ رہے سراٹھاؤگے پھر کیا
عدؤے قوم کو نیچادکھاؤگے پھر کیا
جفا و جور کی ذلّت مٹاؤگے پھر کیا
تم اپنے بچوں کو قصے سناؤگے پھر کیا
چکبستؔ کی شاعری میں حب الوطنی کے علاوہ اردو کی ادبی روایت،لکھنوی تہذیب کشمیری برہمنوں کے مسائل،خواتین کے مسائل،سماجی،سیاسی اور ادبی ماحول اور ذاتی ترجیحات شامل ہیں۔انھوں نے کشمیر کا سفربھی کیا،جس سے سرزمین کشمیر پر ان کی حب الوطنی کا جذبہ بیدار ہوا ؎
ذرہ ذرہ ہے مرے کشمیر کا مہماں نواز
راہ میں پتھر کے ٹکڑوں نے دیا پانی مجھے
نظم ’رامائن کا ایک سین‘ امیجری اور جذبات نگاری کا اعلیٰ نمونہ پیش کرتی ہے۔
رخصت ہوا وہ باپ سے لے کر خداکا نام
راہ وفاکی منزل اول ہوئی تمام
منظور تھا جو ماں کو زیارت کا انتظام
دامن سے اشک پوچھ کے دل سے کیا کلام
چکبستؔ کے کلام میں تشبیہات و استعاروں کے علاوہ موسیقیت،شعریت،رمزوایماں پیکر تراشی فطرت کی مرقع کشی،مزاحیہ اور عشقیہ شاعری کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔چکبستؔ نے کہا تھا ؎
دل میں اِک رنگ ہے ہوتاہے جو لفظوں سے بیاں
لے کی محتاج نہیں ہے مری فریاد و فغاں
چکبستؔ نے صنف غزل میں بھی طبع آزمائی کی،انھوں نے غزل کے دامن کو وسعت بخشی،نئی تراکیب واصطلاحات اور موضوعات سے مزئین کیا اور اس میں ندرت پیدا کی۔انھوں نے سیاسی،سماجی،اصلاحی، ملی اور قومی موضوعات کو غزل میں جگہ دی۔وطن سے محبت ان کی غزلوں کا محبوب موضوع ہے۔چکبستؔ کی غزل کا یہ شعر ان کے اِس جذبے کی نمائندگی کرتا ہے۔
وطن کی خاک سے مرکربھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامن مادرکاہے اِس مٹی کے دامن میں
حب الوطنی کے جذبات کو چکبستؔ نے روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اشاروں اور کنایوں میں اس طرح بیان کیا ہے ؎
حب قومی کا زباں پر ان دنوں افسانہ ہے
بادہئِ الفت سے پُر دل کا مرے پیمانہ ہے
چکبستؔ کے یہاں عشقیہ عناصر بھی موجود ہیں۔گل و بلبل کی علامتیں،مذہبی یکجہتی،فرقہ وارانہ ہم آہنگی،شیخ و برہمن اور فلسفہئ حیات و ممکنات کا مثبت تصور پایا جاتاہے۔چکبستؔ مے نوشی سے محرومی کا اظہار اس اندازمیں کرتے ہیں ؎
میئ گل رنگ لٹتی یو درِ میئ خانہ واہوتا
نہ پینے میں کمی ہوتی نہ ساقی سے گلہ ہوتا
فلسفہئ حیات و ممکنات سے متعلق چکبستؔ کا خیال ہے ؎
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزاکا پریشاں ہونا
چکبستؔ کے خالص عشقیہ شعر کا ایک نمونہ دیکھئے ؎
بے حجاب آج تری نرگس مستانہ ہے
اب جسے ہوش کا سودا ہے وہ دیوانہ ہے
چکبستؔ نے اپنے فکروفن کے ذریعہ اردو شاعری میں نئے موضوعات قائم کیے،لکھنوی شعری روایت کو فروغ دینے میں اہم کردار نبھایا اور اردو کے شعری افق کو بلند ی عطاکی۔
<<