جوش ملیح آبادی
(۱) عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے:
عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟
(۲) جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جنابِ والا،میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔
(۳)ایک مولانا کے جوش صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔کہنے لگے:کیا بتاؤں جوش صاحب،پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔
میں سمجھ گیا۔جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔الله تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔
(۴) کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: منافقت۔اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔
شوکت تھانوی
1۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ“ سنگھا” تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔
2۔ ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔ لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔
شوکت تھانوی نے فوراً کہا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں،چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
پطرس بخاری
(1) کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔
پطرس نے جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام کلام مجید رکھیں۔
اسرارالحق مجاز
(۱) رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اُدھر سے ایک تانگا گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی،تانگہ رک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: اماں ، صدر جاؤ گے؟ تانگے والے نے جواب دیا:”ہاں ، جاؤں گا“
”اچھا تو جاؤ—–!“ یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
(۲) مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا:
”مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟“
”آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔“
مجاز نے اسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔
(۳) مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو ان کو جانتے نہیں تھے ،ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا:
احمقوں کی کمی نہیں غالب-ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں
مجاز نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔“
(۴) کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: بھئی!
یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
(۶) کسی صاحب نے ایک بار مجاز سے پوچھا: کیوں صاحب ! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ اعتراض نہیں کرتے؟
مجاز نے کہا: جی نہیں۔پوچھنے والے نے کہا: کیوں؟ مجاز نے کہا:” لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے۔ مگر میرے والدین سعادت مند ہیں۔“
گورکھپوری
(۱) ڈاکٹر اعجاز حسین الٰہ آباد یونیورسٹی میں غزل پڑھا رہے تھے۔فراق صاحب بھی وہاں بیٹھے تھے۔انہوں نے ڈاکٹر اعجاز حسین سے پوچھا: ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ غزل گو شعراء عام طور سے بد کردار ہوتے ہیں۔اعجاز صاحب برجستہ بولے: ان کے سامنے آپ کی مثال رہتی ہے۔کلاس میں ایک زبردست قہقہہ پڑا اور فراق صاحب کی آواز قہقہوں میں دب گئی،جو اب بھی کچھ کہنا چاہتے تھے۔
(۲) تقریباً ۱۹۴۴ ء میں ایک بار جوش ملیح آبادی الٰہ آباد یونیورسٹی میں گئے۔ادبی تقریب میں ڈائس پر جوش علاوہ فراق بھی موجود تھے۔جوش نے اپنی طویل نظم حرفِ آخر کا ایک اقتباس پڑھا۔اس میں تخلیقِ کائنات کی ابتداء میں شیطان کی زبانی کچھ شعر ہیں۔جوش شیطان کے اقوال پر مشتمل کچھ اشعار سنانے والے تھے کہ فراق نے سامعین سے کہا: سنیے حضرات، شیطان کیا بولتا ہے؟ اور اس کے بعد جوش کو بولنے کا اشارہ کیا۔
(۳) فراق گورکھپوری سے کسی نے پوچھا: بحیثیت شاعر آپ اور جوش صاحب میں کیا فرق ہے؟
فراق نے اپنی بڑی بڑی وحشت ناک آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا:جوش موضوع سے متاثر ہوتا ہے اور میں موضوع کو متاثر کرتا ہوں۔
(۴) ایک مشاعرے میں ہر شاعر کھڑے ہو کر اپنا کلام سنا رہا تھا۔ فراق صاحب کی باری آئی تو وہ بیٹھے رہے اور مائیک ان کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ مجمع سے ایک شور بلند ہوا: کھڑے ہو کر پڑھیے- کھڑے ہو کر پڑھیے۔
جو شور ذرا تھما تو فراق صاحب نے بہت معصومیت کے ساتھ مائیک پر اعلان کیا: میرے پاجامے کا ڈورا ٹوٹا ہوا ہے۔(ایک قہقہہ پڑا) کیا آپ اب بھی بضد ہیں کہ میں کھڑے ہو کر پڑھوں؟
مشاعرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔
مولانا محمد علی جوہر
(۱) مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔
مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟
یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟
تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
(۲) مولانا محمد علی جوہر،مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر، اور شوکت علی تین بھائی تھے۔شوکت صاحب منجھلے تھے۔انہوں نے ۵۲۔۵۴ سال کی عمر میں ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی۔اخبار نویس نے اور سوالات کرنے کے بعد مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی گوہر ہیں اور آپ کے چھوٹے بھائی جوہر،آپ کا کیا تخلص ہے تو فوراً بولے: شوہر۔
اقبال
(۱) علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ایک روز جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی انہیں سکول پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ماسٹر صاحب نے پوچھا: اقبال تم دیر سے آئے ہو؟
اقبال نے بے ساختہ جواب دیا: جی ہاں، اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔
(۲) پنجاب کے مشہور قانون دان چودھری شہاب الدین علامہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول زیادہ تھا۔ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئے تو اقبال نے انہیں سر تا پا سیاہ دیکھ کر کہا:ارے چودھری صاحب، آج آپ ننگے ہی چلے آئے۔
(۳) بمبئی میں عطیہ فیضی نے اقبال سے کہا:اقبال، عورت کی گود کے لیے بچے کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اقبال نے کہا: اور مرد کی آغوش کے لیے؟
عطیہ بولی——–شٹ اپ
(۴) علامہ اقبال کو ستار بجانے کا بہت شوق تھا۔ ایک صبح ستار بجانے میں محو تھے کہ سر ذولفقار علی اور سردار جو گندر سنگھ تشریف لے آئے۔ان کو ستار بجاتے دیکھ کر جوگندر سنگھ بولے: ہر وقت ستار کو گود میں لیے بیٹھے رہتے ہو۔علامہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: کیا کروں ”سکھنی“ جو ہوئی۔سردار صاحب نے بھی برجستہ جواب دیا: اچھا ہوا آج پتہ چل گیا کہ آپ ”سکھ دے“ ہو۔
غالب
(۱)ایک مرتبہ جب ماہِ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ: مرزا، تم نے کتنے
روزے رکھے؟غالب نے جواب دیا: پیر و مرشد ، ایک نہیں رکھا۔
(۲)جب مرزا غالب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا: کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔
(۳)ایک بار دلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا غالب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزررہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھا۔مولانا نے یہ دیکھ کر کہا: مرزا صاحب! دلی میں گدھے بہت ہیں۔
مرزا نے کہا: نہیں حضرت، باہر سے آ جاتے ہیں۔مولانا جھینپ کر چپ ہو رہے۔
انشاءالله خان انشاء
(۱)جرات نابینا تھے۔ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟جرات نے کہا : کچھ نہیں۔بس ایک مصرع ہوا ہے۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔انشاء نے عرض کیا : کچھ ہمیں بھی بتا چلے۔
جرات نے کہا: نہیں۔تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔مصرع تھا: اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
انشاء نے فوراً گرہ لگائی:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔دیر تک انشاء آگے اور پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
یہ لطائف شاید محفل میں موجود نہیں ہے
“انشااللہ خان انشا ننگے سر کھانا کھا رہے تھے پیچے سے نواب سعادت علی خان نے ایک چپت رسید کیا اور چپکے ہو گئے،
انشا سمجھ گئے لیکن گردن نیچے کیے نہایت متانت سے بولے اللہ میاں والد مرحوم کی قبر کو ٹھنڈی کرے،
سعادت علی خان نے پوچھا کیا ہے؟ “کہا مجھے اس وقت والد مرحوم کی ایک بات یاد آ گئی” پوچھا کیا بات ؟،کہا کچھ نہیں ! سعادت علی خان نے اصرار کیا
تو انشا بولے کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ننگے سر کبھی کھانا نہ کھاؤ ورنہ. شیطان چپت مارتا ہے
فیروز خان نون کی پہلی بیوی بیگم نون کے نام سے موسوم تھیں۔ جب فیروز خان نون نے دوسری شادی کر لی تو ان کی ایک شناسا نے مولانا سالک سے بطور مشورہ پوچھا، “ اب دوسری بیوی کو کیا کہا جائے گا؟“
مولانا نے بے ساختہ جواب دیا، “آفٹر نون۔“
کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: “منافقت” اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔
جوش ملیح آبادی
ایک مشاعرہ ہو رہا تھا۔ اس میں جوش ملیح آبادی، گوپی ناتھ امن اور دوسرے مشہور شعراء کے ساتھ غیر معروف اور نو مشق شعراء بھی پڑھ رہے تھے۔
ایک نو مشق شاعر کی باری آئی تو اس نے اپنا غیر موزوں کلام سنانا شروع کیا، جسے سن کر بیشتر شعراء نے آدابِ محفل کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کیئے رکھی۔ لیکن جوش ملیح آبادی خاموش نہ رہ سکے اور ایک ایک مصرع پر بڑھ چڑھ کر داد دینے لگے، جوش صاحب کے اس جوش و خروش کو دیکھ کر گوپی ناتھ امن خاموش نہ رہ سکے اور بولے۔۔
“حضرت یہ آپ کیا کرہے ہیں۔”
“منافقت”
ناصر کاظمی اور حبیب جالب بے تکلف دوست تھے ۔ جالب نے کاظمی سے کہا:
” آپ کی غزلیات سن کرمیری خواہش ہوتی ہے کہ کاش مجھ میں بھی ایسی غزل لکھنے کی استعداد ہوتی ۔ جب میں آپ کا کوئی کلام دیکھتا ہوں میرے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ کاش اس پر میرا نام لکھا ہو۔”
کاظمی نے جالب کی اس تعریف کا شکریہ ادا کیا ۔
جالب نے کاظمی سے پوچھا :
میری غزل دیکھ کرآپ کا کیا ردعمل ہوتا ہے ۔”
ناصر نے جواب دیا : ” خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ کی غزل یا نظم آپ کے نام سے ہی چھپی ، غلطی سے میرا نام نہیں چھپ گیا۔”
بشیرؔ رامپوری حضرت داغؔ دہلوی سے ملاقات کے لیے پہنچے تو وہ اپنے ماتحت سے گفتگو بھی کررہے تھے اور اپنے ایک شاگرد کو اپنی نئی غزل کے اشعار بھی لکھوا رہے تھے ۔ بشیر ؔ صابح نے سخن گئی کے اس طریقہ پر تعجب کا اظہار کیا تو داغؔ صاحب نے پوچھا”خاں صاحب آپ شعر کس طرح کہتے ہیں ؟ بشیرؔ صاحب نے بتایا کہ حقہ بھروا کر الگ تھلک ایک کمرے میں لیٹ جاتا ہوں ۔ تڑپ تڑپ کر کروٹیں بدلتا ہوں، تب کوئی شعر موزوں ہوتا ہے ۔یہ سن کر داغ مسکرائے اور بولے”بشیر صاحب! آپ شعر کہتے نہیں ، شعر جنتے ہیں۔”
جوش ملیح آبادی
جوش ملیح آبادی
(۱) عبدالحمید عدم کو کسی صاحب نے ایک بار جوش سے ملایا اور کہا:یہ عدم ہیں۔عدم کافی جسامت والے آدمی تھے۔جوش نے ان کے ڈیل ڈول کو بغور دیکھا اور کہنے لگے:
عدم یہ ہے تو وجود کیا ہو گا؟
(۲) جوش نے پاکستان میں ایک بہت بڑے وزیر کو اردو میں خط لکھا۔ لیکن اس کا جواب انہوں نے انگریزی میں دیا۔ جواب میں جوش نے انہیں لکھا:جنابِ والا،میں نے تو آپ کو اپنی مادری زبان میں خط لکھا تھا۔لیکن آپ نے اس کا جواب اپنی پدری زبان میں تحریر فرمایا ہے۔
(۳)ایک مولانا کے جوش صاحب کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔کہنے لگے:کیا بتاؤں جوش صاحب،پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا۔اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔
میں سمجھ گیا۔جوش صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔الله تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔
(۴) کسی مشاعرے میں ایک نو مشق شاعر اپنا غیر موزوں کلام پڑھ رہے تھے۔اکثر شعراء آدابِ محفل کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش تھے لیکن جوش صاحب پورے جوش و خروش سے ایک ایک مصرعے پر دادو تحسین کی بارش کیے جا رہے تھے۔گوپی ناتھ امن نے ٹوکتے ہوئے پوچھا: قبلہ، یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟
جوش صاحب نے بہت سنجیدگی سے جواب دیا: منافقت۔اور پھر داد دینے میں مصروف ہو گئے۔
شوکت تھانوی
1۔ پنجاب یونیورسٹی کے رجسٹرار ایس پی سنگھا کے گیارہ بچوں کے نام کا آخری حصہ“ سنگھا” تھا۔ جب ان کے ہاں بارہواں لڑکا پیدا ہوا تو شوکت تھانوی سے مشورہ کیا کہ اس کا کیا نام رکھوں۔ اس پر شوکت صاحب نے بے ساختہ کہا:آپ اس کا نام بارہ سنگھا رکھ دیجیے۔
2۔ ایک ناشر نے کتابوں کے نئے گاہک سے شوکت تھانوی کا تعارف کراتے ہوئے کہا: آپ جس شخص کا ناول خرید رہے ہیں وہ یہی ذات شریف ہیں۔ لیکن یہ چہرے سے جتنے بے وقوف معلوم ہوتے ہیں اتنے ہیں نہیں۔
شوکت تھانوی نے فوراً کہا: جناب مجھ میں اور میرے ناشر میں یہی بڑا فرق ہے۔ یہ جتنے بے وقوف ہیں،چہرے سے معلوم نہیں ہوتے۔
پطرس بخاری
پطرس بخاری
(1) کرنل مجید نے ایک دفعہ پطرس بخاری سے کہا: اگر آپ اپنے مضامین کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام صحیح بخاری رکھیں۔
پطرس نے جواب دیا: اور اگر آپ اپنی نظموں کا مجموعہ چھپوائیں تو اس کا نام کلام مجید رکھیں۔
اسرارالحق مجاز
(۱) رات کا وقت تھا۔ مجاز کسی میخانے سے نکل کر یونیورسٹی روڈ پر ترنگ میں جھومتے ہوئے چلے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اُدھر سے ایک تانگا گزرا۔ مجاز نے اسے آواز دی،تانگہ رک گیا۔ مجاز اس کے قریب آئے اور لہرا کر بولے: اماں ، صدر جاؤ گے؟ تانگے والے نے جواب دیا:”ہاں ، جاؤں گا“
”اچھا تو جاؤ—–!“ یہ کہہ کر مجاز لڑھکتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
(۲) مجاز اور فراق کے درمیان کافی سنجیدگی سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایک دم فراق کا لہجہ بدلا اور انہوں نے ہنستے ہوئے پوچھا:
”مجاز! تم نے کباب بیچنے کیوں بند کر دیے؟“
”آپ کے ہاں سے گوشت آنا جو بند ہو گیا۔“
مجاز نے اسی سنجیدگی سے فوراً جواب دیا۔
(۳) مجاز تنہا کافی ہاؤس میں بیٹھے تھے کہ ایک صاحب جو ان کو جانتے نہیں تھے ،ان کے ساتھ والی کرسی پر آ بیٹھے۔ کافی کا آرڈر دے کر انہوں نے اپنی کن سُری آواز میں گنگنانا شروع کیا:
احمقوں کی کمی نہیں غالب-ایک ڈھونڈو، ہزار ملتے ہیں
مجاز نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: ”ڈھونڈنے کی نوبت ہی کہاں آتی ہے حضرت! خود بخود تشریف لے آتے ہیں۔“
(۴) کسی مشاعرے میں مجاز اپنی غزل پڑھ رہے تھے۔ محفل پورے رنگ پر تھی اور سامعین خاموشی کے ساتھ کلام سن رہے تھے کہ اتنے میں کسی خاتون کی گود میں ان کا شیر خوار بچہ زور زور سے رونے لگا۔مجاز نے اپنی غزل کا شعر ادھورا چھوڑتے ہوئے حیران ہو کر پوچھا: بھئی!
یہ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟
(۵) سوز شاہجہانپوری ایک دن لکھنو کافی ہاؤس آ گئے اور مجاز کے میر پر آن بیٹھے۔ کہنے لگے: بھائی مجاز! میں نے اپنا مجموعہٴ کلام تو مرتب کر لیا ہے۔اب اس کے لیے کسی موزوں نام کی تلاش ہے۔کوئی ایسا نام ہو جو نیا بھی ہو اور جس میں میرے نام کی رعایت بھی ہو۔
مجاز نے برجستہ کہا: ” سوزاک رکھ لو۔“
(۶) کسی صاحب نے ایک بار مجاز سے پوچھا: کیوں صاحب ! آپ کے والدین آپ کی رِندانہ بے اعتدالیوں پر کچھ اعتراض نہیں کرتے؟
مجاز نے کہا: جی نہیں۔پوچھنے والے نے کہا: کیوں؟ مجاز نے کہا:” لوگوں کی اولاد سعادت مند ہوتی ہے۔ مگر میرے والدین سعادت مند ہیں۔“
گورکھپوری
فراق گورکھپوری
(۱) ڈاکٹر اعجاز حسین الٰہ آباد یونیورسٹی میں غزل پڑھا رہے تھے۔فراق صاحب بھی وہاں بیٹھے تھے۔انہوں نے ڈاکٹر اعجاز حسین سے پوچھا:
ایسا کیوں کہا جاتا ہے کہ غزل گو شعراء عام طور سے بد کردار ہوتے ہیں۔
اعجاز صاحب برجستہ بولے: ان کے سامنے آپ کی مثال رہتی ہے۔
کلاس میں ایک زبردست قہقہہ پڑا اور فراق صاحب کی آواز قہقہوں میں دب گئی،جو اب بھی کچھ کہنا چاہتے تھے۔
(۲) تقریباً ۱۹۴۴ ء میں ایک بار جوش ملیح آبادی الٰہ آباد یونیورسٹی میں گئے۔ادبی تقریب میں ڈائس پر جوش علاوہ فراق بھی موجود تھے۔جوش نے اپنی طویل نظم حرفِ آخر کا ایک اقتباس پڑھا۔اس میں تخلیقِ کائنات کی ابتداء میں شیطان کی زبانی کچھ شعر ہیں۔جوش شیطان کے اقوال پر مشتمل کچھ اشعار سنانے والے تھے کہ فراق نے سامعین سے کہا: سنیے حضرات، شیطان کیا بولتا ہے؟ اور اس کے بعد جوش کو بولنے کا اشارہ کیا۔
(۳) فراق گورکھپوری سے کسی نے پوچھا: بحیثیت شاعر آپ اور جوش صاحب میں کیا فرق ہے؟
فراق نے اپنی بڑی بڑی وحشت ناک آنکھیں مٹکاتے ہوئے کہا:جوش موضوع سے متاثر ہوتا ہے اور میں موضوع کو متاثر کرتا ہوں۔
(۴) ایک مشاعرے میں ہر شاعر کھڑے ہو کر اپنا کلام سنا رہا تھا۔ فراق صاحب کی باری آئی تو وہ بیٹھے رہے اور مائیک ان کے سامنے لا کر رکھ دیا گیا۔ مجمع سے ایک شور بلند ہوا: کھڑے ہو کر پڑھیے- کھڑے ہو کر پڑھیے۔
جو شور ذرا تھما تو فراق صاحب نے بہت معصومیت کے ساتھ مائیک پر اعلان کیا: میرے پاجامے کا ڈورا ٹوٹا ہوا ہے۔(ایک قہقہہ پڑا) کیا آپ اب بھی بضد ہیں کہ میں کھڑے ہو کر پڑھوں؟
مشاعرہ قہقہوں میں ڈوب گیا۔
مولانا محمد علی جوہر
(۱) مولانا محمد علی جوہر رام پور کے رہنے والے تھے۔ایک دفعہ سیتا پور گئے تو کھانے کے بعد میزبانوں نے پوچھا کہ آپ میٹھا تو نہیں کھائیں گے؟کیونکہ مولانا شوگر کے مریض تھے۔
مولانا بولے: بھئی کیوں نہیں لوں گا؟ میرے سسرال کا کھانا ہے کیسے انکار کروں؟
یہ سن کر سب لوگ حیران ہوئے اور پوچھا کہ سیتا پور میں آپ کے سسرال کیسے ہوئے ؟
تو مولانا بولے: سیدھی سی بات ہے کہ میں رام پور کا رہنے والا ہوں۔ظاہر ہے سیتا پور میرا سسرال ہوا۔
(۲) مولانا محمد علی جوہر،مولانا ذوالفقار علی خاں گوہر، اور شوکت علی تین بھائی تھے۔شوکت صاحب منجھلے تھے۔انہوں نے ۵۲۔۵۴ سال کی عمر میں ایک اطالوی خاتون سے شادی کر لی۔اخبار نویس نے اور سوالات کرنے کے بعد مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ آپ کے بڑے بھائی گوہر ہیں اور آپ کے چھوٹے بھائی جوہر،آپ کا کیا تخلص ہے تو فوراً بولے: شوہر۔
اقبال
علامہ اقبال
(۱) علامہ اقبال بچپن ہی سے بذلہ سنج اور شوخ طبیعت واقع ہوئے تھے۔ایک روز جب ان کی عمر گیارہ سال کی تھی انہیں سکول پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ماسٹر صاحب نے پوچھا: اقبال تم دیر سے آئے ہو؟
اقبال نے بے ساختہ جواب دیا: جی ہاں، اقبال ہمیشہ دیر سے آتا ہے۔
(۲) پنجاب کے مشہور قانون دان چودھری شہاب الدین علامہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے۔ان کا رنگ کالا اور ڈیل ڈول زیادہ تھا۔ایک روز وہ سیاہ سوٹ پہنے ہوئے اور سیاہ ٹائی لگائے کورٹ میں آئے تو اقبال نے انہیں سر تا پا سیاہ دیکھ کر کہا:ارے چودھری صاحب، آج آپ ننگے ہی چلے آئے۔
(۳) بمبئی میں عطیہ فیضی نے اقبال سے کہا:اقبال، عورت کی گود کے لیے بچے کا ہونا بہت ضروری ہے۔
اقبال نے کہا: اور مرد کی آغوش کے لیے؟
عطیہ بولی——–شٹ اپ
(۴) علامہ اقبال کو ستار بجانے کا بہت شوق تھا۔ ایک صبح ستار بجانے میں محو تھے کہ سر ذولفقار علی اور سردار جو گندر سنگھ تشریف لے آئے۔ان کو ستار بجاتے دیکھ کر جوگندر سنگھ بولے: ہر وقت ستار کو گود میں لیے بیٹھے رہتے ہو۔علامہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: کیا کروں ”سکھنی“ جو ہوئی۔
سردار صاحب نے بھی برجستہ جواب دیا: اچھا ہوا آج پتہ چل گیا کہ آپ ”سکھ دے“ ہو۔
غالب
مرزا غالب دهلوی
(۱)ایک مرتبہ جب ماہِ رمضان گزر چکا تو بہادر شاہ بادشاہ نے مرزا صاحب سے پوچھا کہ: مرزا، تم نے کتنے روزے رکھے؟غالب نے جواب دیا: پیر و مرشد ، ایک نہیں رکھا۔
(۲)جب مرزا غالب قید سے چھوٹ کر آئے تو میاں کالے صاحب کے مکان میں آ کر رہے تھے۔ ایک روز میاں صاحب کے پاس بیٹھے تھے کہ کسی نے آ کر قید سے چھوٹنے کی مبارکباد دی۔ مرزا نے کہا: کون بھڑوا قید سے چھوٹا ہے۔ پہلے گورے کی قید میں تھا۔اب کالے کی قید میں ہوں۔
(۳)ایک بار دلی میں رات گئے کسی مشاعرے یا دعوت سے مرزا غالب مولانا فیض الحسن فیض سہارنپوری کے ہمراہ واپس آ رہے تھے۔راستے میں ایک تنگ و تاریک گلی سے گزررہے تھے کہ آگے وہیں ایک گدھا کھڑا تھا۔مولانا نے یہ دیکھ کر کہا: مرزا صاحب! دلی میں گدھے بہت ہیں۔
مرزا نے کہا: نہیں حضرت، باہر سے آ جاتے ہیں۔مولانا جھینپ کر چپ ہو رہے۔
الله خان انشاء
ابنِ انشاء کے دستخط
(۱)جرات نابینا تھے۔ایک روز بیٹھے فکرِ سخن کر رہے تھے کہ انشاء آ گئے۔انہیں محو پایا تو پوچھا حضرت کس سوچ میں ہیں؟جرات نے کہا : کچھ نہیں۔بس ایک مصرع ہوا ہے۔شعر مکمل کرنے کی فکر میں ہوں۔انشاء نے عرض کیا : کچھ ہمیں بھی بتا چلے۔
جرات نے کہا: نہیں۔تم گرہ لگا کر مصرع مجھ سے چھین لو گے۔آخر بڑے اصرار کے بعد جرات نے بتایا۔مصرع تھا:
اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی
انشاء نے فوراً گرہ لگائی:
اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی
جرات لاٹھی اٹھا کر انشا کی طرف لپکے۔دیر تک انشاء آگے اور پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔
ادبی لطائف
دلی کے ایک مشاعرے میں حفیظ جالندھری اپنی غزل سنا رہے تھے کہ فراق گورکھپوری نے بلند آواز سے کہنا شروع کیا: حفیظ پیارے کیا گلا پا یا ہے۔ یا ر میرا سارا کلام لے لو مگر اپنی آواز مجھے دے دو۔ حفیظ فوراً شعر ادھورا چھوڑ کر بولے : فراق صاحب میں آپ کا نیاز مند ہوں۔ میری آواز تو کیا آپ مجھے بھی لے لیں۔ لیکن خدا کے لئے مجھے اپنا کلام نہ دیجئے۔
مو لانا عبد المجید سالک نے سید زیڈ اے بخاری اور جگن ناتھ آزاد کو ایک محفل میں بتایا کہ جن دنوں حفیظ جالندھری
شاہنامہ اسلام لکھ رہے تھے تو وہ بیمار پڑ گئے۔ ڈاکٹر کیفیت معلوم کی اور نبض لکھ کر دوا لکھ دی۔ حفیظ چلنے لگے تو ڈاکٹر سے دریافت کیا، ڈاکٹر صاحب کوئی پرہیز وغیرہ؟ ڈاکٹر نے جواب دیا کوئی خاص نہیں بس دماغی کام مت کیجئے گا۔ یہ کیسے ممکن ہے میں ان دنوں شاہنامہ اسلام لکھ رہا ہوں۔ اس پر ڈاکٹر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا آپ شاہنامہ اسلام شوق سے لکھیے مگر دماغی کام سے پرہیز کیجئے۔
1947 میں تقسیم ہند کے بعد حسرت موہانی سے کسی نے سوال کیا آپ پاکستان کیوں نہیں چلے جاتے؟ ٹھنڈی سانس لے کر حسرت نے جواب دیا: دونوں طرف جنونیت کا دور دورہ ہے اپنی تو دونوں جگہ جان خطرے میں رہے گی۔ یہاں نہ رہے تو نہ جانے کب کوئی ہندو انتہا پسند مسلمان کہہ کر مار ڈالے اور پاکستان میں یہی کچھ جوشیلے مسلمان کے ہاتھوں ہو سکتا ہے۔ وہ مجھے گستاخ یا کافر کہہ کر مار دے گا۔ پاکستان میں رہ کر کافر کی موت مرنے سے میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان میں رہ کر مسلمان کی موت مرنا ہی بہتر ہے۔
جگر مراد آبادی اپنی رندی اور سر مستی کے زمانے میں بھی مذہبی عقائد کی سختی سے پا بندی کرتے تھے۔ وہ جوش ملیح آبادی کے ساتھ تانگے میں کہیں جا رہے تھے اچانک ان کے منہ سے یا اللہ کی آواز بلند ہوئی۔ جوش نے ازراہ تمسخر کہا جگر صاحب آپ نے مجھے پکارا؟ جگر صاحب کب چونکنے والے تھے فوراً بولے میں نے تو اپنے رب کو پکارا تھا۔ یہ شیطان کہاں سے بول اٹھا۔
جوش ملیح آبادی نے جگر مراد آبادی کو چھیڑتے ہوئے کہا : کیا عبرت ناک حالت ہے آپ کی؟ شراب نے آپ کو رند سے مولوی بنا دیا اور آپ اپنے مقام کو بھول بیٹھے۔ مجھے دیکھئے کہ میں ریل کے کھمبے کی طرح اپنے مقام پر آج بھی اٹل کھڑا ہوں جہاں آج سے کئی سال پہلے تھا۔ جگر صاحب نے جواب دیا: بلا شبہ آپ ریل کے کھمبے ہیں اور میری زندگی ریل گاڑی کی طرح ہے جو آپ جیسے ہر کھمبے کو پیچھے چھوڑتی ہوئی ہر مقام سے آگے اپنا مقام بناتی جا رہی ہے۔
مولانا مودودی کے جوش ملیح آبادی سے بہت اچھے تعلقات تھے۔ کئی روز کی غیر حاضری کے بعد ملنے آئے تو جوش صاحب نے وجہ پوچھی۔ کیا بتاؤں جوش صاحب پہلے ایک گردے میں پتھری تھی اس کا آپریشن ہوا، اب دوسرے گردے میں پتھری ہے۔ مولانا نے جواب دیا۔ میں سمجھ گیا، جوش نے مسکراتے ہوئے کہا : اللہ تعالیٰ آپ کو اندر سے سنگسار کر رہا ہے۔
مشہور مصنف اور ایڈیٹر سردار خوشونت سنگھ بمبئی سے سنگار پور کی فلائٹ میں سفر کر رہے تھے۔ ان کے ساتھ کی سیٹ پر جو عورت بیٹھی تھی وہ ان کو بار بار غور سے دیکھ رہی تھی۔ انہوں نے سوچا شاید اس نے کوئی سردار پہلی بار دیکھا ہے۔ جب چائے ناشتہ ہو گیا تو انہوں نے اس عورت سے جس کا نام مارگریٹا اور سپین کی رہنے والی تھی، اس سے بات چیت شروع کی۔ اس نے سردار صاحب سے پوچھا آپ کیا ہیں؟ خوشونت سنگھ نے جواب دیا میں سکھ ہوں۔ وہ نوجوان عورت بولی مجھے افسوس ہے امید کہ آپ جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ اس پر خوشونت سنگھ نے کہا میڈم میں بیمار نہیں میں مذہب سے سکھ ہوں۔ اس نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا اور بولی: میں بھی مذہب سے بہت بیزار ہوں I am also sick of religion
کسی شاعر نے دیوان سنگھ مفتوں سے پوچھا: شراب پینے کا انسان پر کیا اثر ہوتا ہے؟ مفتوں نے جواب دیا: شراب کا اثر مختلف لوگوں پر الگ الگ صورتوں میں ہوتا ہے۔ اس نے پوچھا مثلا۔ امیر لوگ شراب پی کر قہقہے لگاتے ہیں، گرفتاران محبت شراب پی کر روتے ہیں۔ اور شاعر حضرات شراب پی کر شاعری شروع کر دیتے ہیں۔
اپنوں کے لیے بہترین گفٹس
ایک ادیب نے راجندر سنگھ بیدی سے سوال کیا : آپ اچھے افسانے کیسے لکھ لیتے ہیں؟ بیدی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا یہ سب پنجاب کی دین ہے اکثر پنجابی اچھے کاریگر ہوتے ہیں۔ زندگی کا کوئی بھی کام کیوں نہ ہو پنجابی خون میں یہ بات ہوتی ہے کہ چاروں کونوں کے ہیچ مضبوطی سے کس لیتا ہے۔
دلی کی ایک نشست میں کسی نے کرشن چندر کی بے حد تعریف کرتے ہوئے کہا: کرشن چندر لکھتے کیا ہیں جادو جگاتے ہیں۔ راجندر سنگھ بیدی سے دھیرے سے کہا: جادو ہی جگاتا رہے گا یا کدی کہانی وی لکھے گا؟
ساحر لدھیانوی 1960 میں پٹیالہ کالج کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ کافی لوگ جمع تھے۔ ہربنس سنگھ تصور ان کا انٹرویو لینے کے لئے آئے۔ ساحر اس کے سوالوں کے جواب بھی دیتے رہے اور آملیٹ بھی کھاتے رہے۔ تصور نے سوال کیا: آپ کی آملیٹ سے رغبت دیکھ کر مجھے غالب کے آم یاد آرہے ہیں؟ ساحر نے جواب دیا میرا آملیٹ غالب کے آموں سے بہتر ہے کیونکہ اسے گدھے بھی کھا لیتے ہیں۔
حفیظ جالندھری بیمار ہو کر لا ہور کے ہسپتال میں داخل ہو گئے۔ احمد ندیم قاسمی مشاعرے میں شمولیت کے لئے گجرات آئے تو ملاقات پر ضمیر جعفری نے پوچھا: حفیظ کا کیا حال ہے؟ قاسمی نے جواب دیا بیماری کی وجہ سے کافی کمزور ہو گئے ہیں۔ ضمیر جعفری نے پوچھا کیا اپنے شعروں سے بھی؟
عصمت چغتائی کو تاش کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ اس لئے ہر شام ان کے گھر پر تاش کھیلنے کی محفل جمتی تھی۔ ایک دن محفل جمی ہوئی تھی کہ ان کے شوہر شاہد لطیف سست ہونے کی وجہ سے کمرے میں لیٹے ہوئے تھے۔ انہوں نے ؑعصمت کو آواز دی کہ میرے سینے میں بہت درد ہو رہا ہے۔ مجھے کوئی دوائی دے دو۔ میرا بادشاہ مر رہا ہے تم خود ہی اٹھ کر ہاضمے کی دوا لے لو۔ عصمت نے اپنے تاش کے بادشاہ کو تو بچا لیا لیکن اس دوران اس کے اپنے بادشاہ شاہد لطیف ہارٹ اٹیک وجہ سے موت کی نیند سو گئے۔
ممبئی کی ایک دعوت میں تمام قابل ذکر ادیب موجود تھے۔ ایک اینگلو انڈین خاتون بھی دعوت میں شریک تھیں جو کرشن چندر سے واقف تھیں۔ کرشن چندر نے سب سے پہلے اس کا تعارف سردار جعفری سے کرایا اور اسے بتایا کہ یہ میرے دوست ہیں اور نامور شاعر ہیں۔ اس قتالہ نے فوراً سردار جعفری سے فرمائش کردی کہ اس پر ایک نظم لکھیں۔ جعفری نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: تم اتنی خوبصورت ہو کہ تم پر نظم نہیں بلکہ پوری کتاب لکھنی پڑے گی۔
مولانا اشرف علی کا قیام تھانہ شہر میں تھا۔ کسی معاملے میں پروفیسر عبد العلیم کو ایک رات پولیس تھانے میں قید و بند کی صعوبت جھیلنی پڑی تو ایک صاحب نے ان سے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: کہ انہیں نا حق پوری رات تھانے میں گزارنی پڑی۔ مولانا اشرف علی نے تو ساری عمر تھانے میں گزار دی۔ اگر میں نے ایک رات گزار دی تو کیا ہوا۔ علیم صاحب نے جواب دیا۔
لال قلعے کے مشاعرے میں فراق گورکھپوری کی ملاقات ساحر لدھیانوی سے ہوئی۔ فراق نے ساحر سے کہا آج کل تم آثار قدیمہ کے بارے میں بہت اچھی شاعری کر رہے ہو۔ تاج محل کے بارے میں کیا خوب لکھا ہے :
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق
میرے محبوب کہیں اور ملا کر مجھ سے
ایسا کرو اب ایک نظم جامع مسجد پر بھی لکھ دو:
اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ہم فقیروں کی عبادت کا اڑایا ہے مذاق
میرے اللہ کہیں اور ملا کر مجھ سے
اپنوں کے لیے بہترین گفٹس
سلام مچھلی شہری مشاعرے میں شمولیت کے لئے جب علی گڑھ جاتے تو کلام پیش کرنے سے پہلے علی گڑھ سے اپنے خلوص اور دیرینہ تعلقات کا ذکر ضرور کرتے تھے۔ ایک دفعہ مشاعرے میں ان کو دعوت سخن دی گئی تو حسب عادت انہوں نے جذبات سے معمور الفاظ میں حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: جب بھی میں علی گڑھ آتا ہوں اپنی روح میں جانے کیا چیز تیرتی ہوئی محسوس کرتا ہوں۔ اس سے آگے وہ کچھ بولتے کہ حاضرین میں سے آواز آئی۔ مچھلی
رشید احمد صدیقی کے ماتحت ڈاکٹر آمنہ خاتون علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں انشا پر پی ایچ ڈی کے لئے کام کر رہی تھیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی وہاں صدر شعبہ تھے۔ اسی دوران آمنہ خاتون کے یہاں بچے کی ولادت کا وقت قریب آ گیا تو انہوں نے چھٹی کے لئے درخواست دی۔ رشید صاحب نے چھٹی لینے کی وجہ دریافت کی۔ معلوم ہوا کہ یہ ماں بننے والی ہیں تو انہوں نے فرمایا: ہم نے تو انہیں تحقیق کے لئے بلایا تھا لیکن انہوں نے تو تخلیق شروع کر دی۔