اردو املا کے بنیادی اصول۔ مسائل اور اغلاط کے بیان کے ساتھ ساتھ درست املا کی تجاویز پر مشتمل ایک مستند دستاویز۔

مرتب

    گوپی چند نارنگ

پروفیسر اردو، دہلی یونی ورسٹی

نیشنل فیلو، یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن

اردو املا

اردو ایک نسبتاً نئی زبان ہے اور اس کے اکثر مسائل کا تعلق اس کی نوعمری سے ہے۔ گذشتہ چند صدیوں میں ہونے والی علمی، فکری اور ادبی ترقیوں کے باوجود اکثر لسانی پہلوؤں سے گیسوئے اردو ابھی منت پذیرِ شانہ ہے۔ املا انھی میں سے ایک ہے۔ اردو الفاظ کے لکھنے کے طریقے تاریخی طور پر کم و بیش اتنے ہی متنوع رہے ہیں جتنی وہ زبانیں جن سے یہ الفاظ آئے ہیں۔ تاہم یہ امر اہلِ نظر کے لیے نہایت اطمینان کا باعث ہے کہ علمائے اردو نے نہ صرف اردو کے ایک معیاری املا کی تشکیل کی ضرورت کو محسوس کیا ہے بلکہ حالیہ کچھ عرصے میں اس سلسلے میں نہایت قابلِ تحسین کاوشیں بھی کی ہیں۔

املا نامہ

املا نامہ اردو لکھنے کا منشور ہے۔ یہ اردو طرزِ تحریر کے مستند قواعد و ضوابط پر ایک معیاری دستاویز ہے جسے لسانیات اور املا کے جید علما نے برسوں پر محیط تحقیق و تفحص کے بعد مرتب کیا ہے

الف

اعلیٰ، ادنیٰ، عیسیٰ، موسیٰ

عربی کے کچھ لفظوں کے آخر میں جہاں الف کی آواز ہے، وہاں بجائے الف کے ی لکھی جاتی ہے اور اس پر چھوٹا الف (الف مقصورہ) نشان کے طور پر بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے ادنیٰ، اعلیٰ، عیسیٰ، دعویٰ، فتویٰ۔ اس قبیل کے کئی الفاظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں، مثلاً تماشا، تمنا، تقاضا، مدعا، مولا، لیکن کئی لفظ دونوں طرح سے لکھے جاتے ہیں اور ان کے بارے میں ٹھیک سے معلوم نہیں کہ انھیں پورے الف سے لکھنا چاہیے یا چھوٹے الف سے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے املا کے اس انتشار کو دور کرنے کے لیے تجویز کیا تھا کہ اردو میں ایسے تمام الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے، لیکن یہ چلن میں نہیں آ سکا۔ چنانچہ سرِ دست یہ اصول ہونا چاہیے کہ اس قبیل کے جو الفاظ اردو میں پورے الف سے لکھے جاتے ہیں اور ان کا یہ املا رائج ہو چکا ہے، ایسے الفاظ کو پورے الف سے لکھا جائے۔ باقی تمام الفاظ کے قدیم املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں، اور یہ بدستور چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں۔

پورے الف سے لکھے جانے والے الفاظ:

    مولا مُصفّا تَوَلّا مُدّعا تقاضا مُتفا تماشا مُدّعا علیہ تمنّا ہیولا نصارا مقتدا مقتضا ماوا

باقی تمام الفاظ چھوٹے الف سے لکھے جا سکتے ہیں:

    ادنیٰ اعلیٰ عیسیٰ موسیٰ یحییٰ مجتبیٰ مصطفیٰ مرتضیٰ دعویٰ فتویٰ لیلیٰ تعالیٰ معلیٰ صغریٰ کبریٰ کسریٰ اولیٰ منادیٰ مثنیٰ مقفیٰ طوبیٰ ہدیٰ معریٰ عقبیٰ تقویٰ متبنّیٰ حسنیٰ قویٰ مستثنیٰ حتیٰ کہ عہدِ وسطیٰ مجلسِ شوریٰ یدِ طولیٰ اردوئے معلّیٰ من و سلویٰ عید الضّحیٰ مسجد اقصیٰ سدرۃ المنتہیٰ شمس الہدیٰ

ذیل کے الفاظ کے رائج املا میں بھی کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں:

    اللّٰہ الہ الٰہی

دعوائے پارسائی، لیلائے شب

اضافت کی صورت میں ایسے تمام الفاظ الف سے لکھے جاتے ہیں اور یہی صحیح ہے، جیسے:

    لیلائے شب دعوائے پارسائی فتوائے جہاں داری

عربی مرکبات

یہ بات اصول کے طور پر تسلیم کر لینی چاہیے کہ عربی کے مرکّبات، جملے، عبارتیں یا اجزا جب اردو میں منقول ہوں تو ان کو عربی طریقے کے مطابق لکھا جائے، مثلاً

    عَلَی الصّباح عَلَی الرَّغم عَلَی العُموم عَلَی الحساب عَلَی الخُصوص حتّی الاِمکان حتّی الوَسع حتّی المقدور بالخُصوص عَلیٰ ہٰذا لقَیاس

رحمٰن، اسمٰعیل

بعض عربی الفاظ میں چھوٹا الف درمیانی حالت میں لکھا جاتا ہے، جیسے رحمٰن، اسمٰعیل، ان میں سے کئی لفظ اردو میں پہلے ہی پورے الف سے لکھے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی یہ تجویز مناسب ہے کہ اردو میں ایسے سب الفاظ کو الف کے ساتھ لکھا جائے۔

    رحمان ابراہیم سلیمان مولانا یاسین اسحاق لقمان اسماعیل

البتہ جب ایسا کوئی لفظ قرآن پاک کی سورتوں کے نام یا اللّٰہ کے اسمائے صفات کے طور پر استعمال ہو گا تو اس کا اصلی املا برقرار رہے گا۔ عربی ترکیب میں بھی اصلی املا برقرار رہنا چاہیے۔

علٰحدہ

علٰحدہ یا علیحدہ کو علاحدہ لکھنا چاہیے، اسی طرح علاحدگی (ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی)

لہٰذا

لفظ لہٰذا کی بھی رائج صورت میں تبدیلی کی ضرورت نہیں، کیونکہ یہ لفظ اسی املا کے ساتھ پوری چلن میں آ چکا ہے۔

معمّہ، تمغہ، معمّا، تمغا

عربی اور ترکی کے کچھ لفظوں کے آخر میں الف ہے، لیکن ان میں سے بعض لفظ ہ سے لکھے جاتے ہیں۔ اس بارے میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ جو لفظ ہ سے رائج ہو چکے ہیں، ان کا املا ہ سے مان لینا چاہیے، باقی الفاظ کو الف سے لکھنا چاہیے۔ ذیل کے الفاظ ہ سے صحیح ہیں:

    شوربہ چغہ سقہ عاشورہ قورمہ ناشتہ ملغوبہ الغوزہ

ذیل کے الفاظ الف سے لکھنے چاہییں:

    معمّا تماشا تقاضا حلوا مربّا مچلکا بقایا تمغا

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے بھی ان میں سے بیشتر الفاظ کو الف سے لکھنے کی سفارش کی ہے۔

بالکل، بالتّرتیب

ایسے مرکب لفظ اردو میں اچھی خاصی تعداد میں ہیں جو عربی قاعدے کے مطابق الف لام کے ساتھ لکھے جاتے ہیں۔ ایسے مرکّبات کی دو صورتیں ہیں، ایک وہ جہاں الف لام حروفِ شمسی (ت، ث، د، ذ، ر، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ل، ن) سے پہلے آیا ہے اور بعد کا حرف مشدّد بولا جاتا ہے تو الف لام آواز نہیں دیتا، جیسے عبد السّتار یا بالتّرتیب میں۔ دوسرے وہ جن میں الف لام حروفِ قمری (باقی تمام حروف) سے پہلے آیا ہے تو لام تلفظ میں شامل رہتا ہے، جیسے بالکل یا ملک الموت میں۔ ہمیں سیّد ہاشمی فرید آبادی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کہ حروفِ شمسی و قمری کا فرق اردو میں اٹھا دینا چاہیے، ہمارا خیال ہے کہ یہ طریقہ اردو املا کا جز ہو چکا ہے، اِس کو بدلنا ممکن نہیں۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کا وہی قدیم املا برقرار رکھنا چاہیے:

    فی الحال بالکل انا الحق بالفعل ملک الموت

البتہ یہ ضروری ہے کہ جہاں الف لام آواز نہ دے وہاں لام کے بعد والے حرف پر تشدید لگائی جائے، اور ان الفاظ میں الف لام کو اردو کے خاموش حروف تسلیم کر لیا جائے۔ پڑھنے والوں کو تشدید سے معلوم ہو جائے گا کہ الف لام تلفظ میں نہ آئے گا:

    عبدُ السّتّار شجاعُ الدّولہ عبدُ الرّزّاق لغاتُ النّساء بالتّرتیب فخرُ الدّین

الف ممدودہ

املا نامہ

الف ممدودہ کا مسئلہ صرف مرکّبات میں پیدا ہوتا ہے۔ یعنی دل آرام لکھا جائے یا دلارام۔ ایسی صورت میں اصول یہ ہونا چاہیے کہ معیاری تلفّظ کو رہنما بنایا جائے اور مرکّب جیسے بولا جاتا ہو، ویسے ہی لکھا جائے۔

بغیر مد کے:

    برفاب تیزاب سیلاب غرقاب سیماب زہراب گلافتاب تلخاب سردابہ گرمابہ مرغابی خوشامد دستاویز

مع مد کے:

    گرد آلود دل آویز عالم آرا جہان آباد دل آرا دل آرام دو آبہ ابر آلود خمار آلود قہر آلود زہر آلود زنگ آلود خون آلود رنگ آمیز درد آمیز جہاں آرا حسن آرا خانہ آباد عشق آباد عدم آباد

تنوین

املا نامہ

اردو میں عربی کے ایسے کئی لفظ استعمال ہوتے ہیں جن پر دو زبر آتے ہیں، جیسے فوراً، عموماً، وقتاً، فوقتاً، اتفاقاً۔ تنوین اردو املا کا حصّہ بن چکی ہے۔ اس لیے اسے بدلنا مناسب نہیں۔ چنانچہ فوراً کو فورن لکھنے کی سفارش نہیں کی جا سکتی۔ اس کو فوراً لکھنا ہی صحیح ہے۔ البتہ وہ لفظ تصفیہ طلب ہیں جن کے آخر میں ت آتی ہے۔ ایسے لفظوں کے بارے عربی املا کا اصول یہ ہے کہ اگر ت کسی لفظ کے مادے میں شامل ہے تو تنوین کی صورت میں اُس پر الف کا اضافہ کر کے تنوین لگائی جاتی ہے، جیسے وقتاً فوقتاً۔ لیکن اگر ت مادے میں شامل نہیں تو وہ تائے مُدَوَّرہ ۃ کی صورت میں لکھی جاتی ہے اور اس پر دو زبر لگا دیے جاتے ہیں، جیسے عادۃً۔ اس صورت میں الف کا اضافہ نہیں کیا جاتا اور تنوین تائے مُدَوَّرہ پر لگائی جاتی ہے۔ اردو املا میں عام طور سے اس فرق کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا، اور تنوین ایسے تمام الفاظ میں الف کا اضافہ کر کے لگائی جاتی ہے۔

اس ضمن میں ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس اصول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ”عربی کی ۃ کو اردو میں ہمیشہ ت لکھنا چاہیے“۔ چنانچہ اردو میں تنوین کے لیے ت والے لفظوں کے بارے میں قاعدہ یہ ہوا کہ سب لفظوں کے آخر میں الف کا اضافہ کر کے تنوین لکھی جائے، مثلاً

    نسبتاً مروَّتاً کنایتاً ضرورتاً ارادتاً فطرتاً شکایتاً کلیتاً قدرتاً حقیقتاً حکایتاً طبیعتاً وقتاً فوقتاً شریعتاً طاقتاً اشارتاً مصلحتاً حقارتاً وراثتاً صراحتاً عقیدتاً وضاحتاً شرارتاً

ت، ۃ

املا نامہ

اوپر ہم تنوین کے سلسلے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اصول کو اپنا چکے ہیں کہ اردو کے حروفِ تہجی میں تائے مُدَوَّرہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ لیکن اردو میں گنتی کے چند عربی الفاظ ۃ سے لکھے جاتے ہیں۔ جب تک یہ اسی طرح چلن میں ہیں، ان کو عربی طریقے سے لکھنا مناسب ہے:

    صلوٰۃ زکوٰۃ مشکوٰۃ

البتہ اس قبیل کے دیگر عربی الفاظ کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی رائے صحیح ہے کہ یہ اردو میں ت سے لکھے جاتے ہیں، اور اسی طرح چلن میں آ چکے ہیں۔ چنانچہ ان کو ت سے ہی لکھنا چاہیے:

    حیات نجات بابت منات مسمات توریت

ت، ط

املا نامہ

اردو میں کچھ الفاظ ایسے ہیں جو ت اور ط دونوں سے لکھے جاتے ہیں، ان کے املا میں احتیاط کی ضرورت ہے۔ ذیل کے الفاظ ت سے صحیح ہیں:

    تپش تہران تپاں تیار تیاری توتا ناتا (رشتہ)

ذیل کے الفاظ کو ط سے لکھنا صحیح ہے:

    غلطاں طشت طشتری طمانچہ طہماسپ طوطی

ذ، ز، ژ

املا نامہ

گذشتہ، گزارش

فارسی مصادر گذشتن، گذاشتن اور پذیرفتن کے جملہ مشتقات بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی ذال سے لکھنے صحیح ہیں۔ جیسے:

    گذشتہ گذشتگان گذر گاہ درگذر رہ گذر راہ گذار پذیرفتہ پذیرائی سرگذشت واگذاشت اثر پذیر دل پذیر

گزاردن (بہ معنی ادا کرنا، پیش کرنا) کے مشتّقات کو زے سے لکھنا صحیح ہے، جیسے:

    گزارش باج گزار خدمت گزار شکر گزار نماز گزار عرضی گزار مال گزاری

گزرنا اور گزارنا اگرچہ گذشتن سے ہیں لیکن تہنید اور تارید کے عمل سے گزر کر اردو کے مصدر بن چکے ہیں، اس لیے ان کی تمام تصریفی شکلیں ز سے لکھی جانی چاہییں، اسی طرح گزارا اور گزرانا بھی ز سے لکھنے مناسب ہیں۔

اس سلسلے کے بعض مُتنازعہ فیہ الفاظ جن سے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے اور دوسروں نے بحث کی ہے، یہ ہیں:

    آزر: حضرت ابراہیم کے والد یا چچا کا نام ز سے ہے، جیسے آزرِ بت تراش آذر: آگ کے معنی میں یہ لفظ ذال سے ہے، جیسے آذر کدہ بہ معنی آتش کدہ اور آذر فشاں بہ معنی آتش فشاں۔ نیز ذال سے ہی ایک رومی مہینے کا نام بھی ہے۔ ذرّہ: (کسی چیز کا بہت چھوٹا ٹکڑا) ذرا: (تھوڑا، قلیل) اگرچہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے ز سے لکھنے پر زور دیا ہے لیکن کمیٹی اس کی تائید نہیں کرتی۔ ذات: (نفس، شخص، قوم، نژاد، ہندی جات) زخّار: (بحرِ زخّار) آزوقہ: (غذائے قلیل) ازدحام: (اژدہام، اژدحام، ازدہام غلط ہیں۔)

ژ

ذیل کے لفظوں کا صحیح املا ژ سے ہے:

    مژدہ مژہ ارژنگ واژوں مژگاں پژمردہ پژمردگی اژدر ژالہ ژاژ نژاد ژولیدہ اژدہا ٹیلی ویژن

ث، س، ص

املا نامہ

    قصائی: اس کا رائج املا ص سے ہے، اور یہی صحیح ہے۔ مسالا: دہلی میں مصالح تھا۔ لکھنؤ میں مسالا ہو گیا۔ اسی صورت کو اختیار کرنا چاہیے۔ مسل: رودادِ مقدمہ کے معنی میں اس کا املا س سے رائج ہے، اسی کو اپنانا چاہیے۔

نون اور نون غُنّہ

املا نامہ

گنبد، انبار، کھمبا، چمپا

کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے

    گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر

اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے، انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:

    تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)

(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)

گِننا، سُننا

اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:

    بَننے (فعل)، بنّے (لقب) چُننی (فعل)، چُنّی (دوپٹہ) سُننی (فعل)، سُنّی (فرقہ)

نون غُنّہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ”نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے“ (بان‌س، پھان‌س، ہن‌سے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے:

بیچ میں:

    ہون٘ٹ پھان٘د این٘ٹ چون٘چ چان٘د

آخر میں:

    ماں جاؤں بولیں نظروں کتابیں

سِنچائی، بٹائی

لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (causative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تاہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:

    سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی

البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:

    بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا جانچنا سے: جچنا چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی

گانو، پانو، گاؤں، پاؤں

اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:

    گاؤں پاؤں چھاؤں

مہندی، مہنگی

ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے:

    مہندی مہنگی مہنگائی لہنگا بہنگی

چانول، گھاس

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:

    چاول گھاس پھوس سوچنا کوچہ

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:

    کینچلی جھونپڑا کنواں

نون اور نون غُنّہ

اردو املا

املا نامہ

گنبد، انبار، کھمبا، چمپا

کسی لفظ میں نون کے بعد ب ہو تو نون کی آواز م میں بدل جاتی ہے۔ لکھنے میں تو نون ہی آتا ہے، لیکن پڑھا م جاتا ہے، جیسے

    گنبد انبار جنبش دنبہ شنبہ تنبورہ سنبل عنبر

اس ضمن میں دقت دیسی الفاظ میں پیدا ہوتی ہے جن میں کچھ تو نون سے لکھے جاتے ہیں اور کچھ کو م سے لکھنے کا رواج ہے۔ سفارش کی جاتی ہے کہ ایسے دیسی الفاظ (علاوہ ناموں کے، انبار، کنبوہ) میم سے مرجح ہیں:

    تمباکو تمبولی کھمبا اچمبھا چمپا امبر (بمعنی آسمان)

(لیکن جہاں نون ساکن غیر وصلی ہو، وہ نون کی آواز دے گا، اور نون ہی لکھا جائے گا، مثلاً کنبہ)

گِننا، سُننا

اردو میں کئی مصدر ہیں جن میں دو نون ہیں، جیسے بُننا، گِننا، سُننا۔ ان میں ایک نون تو مادہ فعل کا ہے، دوسرا علامتِ مصدر کا (بُن + نا، سُن + نا)۔ اکثر غلطی سے ایسے مصدروں کو مشدّد نون سے لکھا جاتا ہے (بُنّا، گِنّا، سُنّا)۔ اصول یہ ہے کہ ایسے تمام مصدروں میں دو نون لکھنے چاہییں۔ اس سے ذیل کے جوڑوں میں املا کا امتیاز بھی ملحوظ رہے گا:

    بَننے (فعل)، بنّے (لقب) چُننی (فعل)، چُنّی (دوپٹہ) سُننی (فعل)، سُنّی (فرقہ)

نون غُنّہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا کہ ”نون غنّہ ہمیشہ منفصل لکھا جائے“ (بان‌س، پھان‌س، ہن‌سے گا)۔ عام قاعدہ ہے کہ لفظ کے آخر میں نون غُنّہ بغیر نقطے کے لکھا جاتا ہے۔ البتہ (ابتدائی کتابوں میں یا جب ضرورت ہو) لفظ کے بیچ میں نون غنہ کو اُلٹے قوس کی علامت سے ظاہر کرنا چاہیے:

بیچ میں:

    ہون٘ٹ پھان٘د این٘ٹ چون٘چ چان٘د

آخر میں:

    ماں جاؤں بولیں نظروں کتابیں

سِنچائی، بٹائی

لفظ کے مادّے یا مصدر میں جہاں نون غنّہ ہے، ماخوذ شکلوں میں کہِیں تو نون غنّہ لکھا جاتا ہے، اور کہِیں نہیں، زیادہ تر یہ صورت متعدی (causative) شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، جیسے باندھنا، بندھوانا اور ڈھونڈوانا یا پھینکنا سے پھنکوانا اور پھنسنا سے پھنسوانا، اس بارے میں صوتی حقیقت یہ ہے کہ اگر نون غنّہ کے بعد مسموع (voiced) آواز ہے تو نون غنّہ پورا ادا ہو گا جیسے بندھوانا، ڈھونڈوانا، اور اگر نون غنہ کے بعد غیر مسموع (unvoiced) آواز ہے تو غُنّیت کمزور پڑ جائے گی جیسے پھنکوانا، پھنسوانا میں، تاہم چونکہ ان لفظوں میں غنّیت ہے، خواہ ضعیف کیوں نہ ہو، ایسے تمام لفظوں میں نون غنّہ لکھنا چاہیے:

    سینچنا سے: سنچوانا، سِنچائی ہنسنا سے: ہنسوانا، ہنسائی کھینچنا سے: کھنچوانا، کھِنچائی

البتہ ذیل کے ماخوذ لفظوں میں غیر مسموع آواز سے پہلے کی ضعیف غنّیت بھی اردو کے ارتقائی سفر میں زائل ہو چکی ہے، نتیجتاً یہ لفظ نون غنّہ کے بغیر رائج ہو گئے اور یہی صحیح ہے:

    بانٹنا سے: بٹنا، بٹوانا، بٹانا، بٹوائی، بٹوارا پونچھنا سے: پچھوانا، پچھنا جانچنا سے: جچنا چھانٹنا سے: چھٹوانا، چھٹنا، چھٹنی، چھٹائی

گانو، پانو، گاؤں، پاؤں

اردو میں یہ الفاظ کئی طرح سے لکھے جاتے ہیں، جیسے گانو، گاؤں، گانوں، گانئوں، اس انتشار کو دور کرنے کے لیے ان کا ایک املا اختیار کرنا ضروری ہے، دیکھا جائے تو اردو میں گاؤں (اسم) اور گاؤں (مضارع گانا سے) دونوں نون غنّہ سے بولے جاتے ہیں، گانو، پانو، ان لفظوں کا قدیم املا ہے جس کو اردو ترک کر چکی ہے، اس پر اصرار کرنا ایک طرح سے رجعتِ قہقری ہے، چنانچہ جو حضرات اس پر اصرار کرتے ہیں، ان کی رائے کو ماننے میں ہمیں تامّل ہے، ایسے تمام لفظوں کو آخری نون غنّہ سے ہی لکھنا مناسب ہے:

    گاؤں پاؤں چھاؤں

مہندی، مہنگی

ان الفاظ کے رائج املا میں کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں۔ ان کا املا وہی صحیح ہے جو رواج عام میں ہے:

    مہندی مہنگی مہنگائی لہنگا بہنگی

چانول، گھاس

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ متروک ہیں، ان کو نون غنّہ کے بغیر لکھنا چاہیے:

    چاول گھاس پھوس سوچنا کوچہ

ذیل کے الفاظ نون غنّہ کے ساتھ صحیح ہیں:

    کینچلی جھونپڑا کنواں

واؤ

املا نامہ

اوس، اودھر

قدیم اردو میں اعراب بالحروف کا عام رواج تھا، خاص طور سے پیش کو ظاہر کرنے کے لیے واؤ لکھتے تھے، مثلاً اوس، اودھر، اوٹھانا، مونہہ۔ ایسے تمام الفاظ کو اب بغیر واؤ لکھنا چاہیے، دوکان نہیں، بلکہ دُکان یعنی بغیر واؤ مرجح صورت ہے۔

لوہار، لُہار

اردو میں کچھ لفظ ایسے ہیں جن کی اصل میں تو واؤ موجود ہے، جیسے لوہا، مونچھ، سونا، لیکن ان سے نکلنے والے لفظوں کا تلفظ چونکہ ہمیشہ پیش سے ہوتا ہے، اس لیے انہیں بغیر واؤ کے لکھنا چاہیے، جیسے :

    لُہار سُنار

بعض دوسرے الفاظ جن میں واؤ لکھنے کی ضرورت نہیں، نیچے درج ہیں:

    پُہنچنا پُہنچانا پُہنچ بُڑھاپا اُدھار دُلارا دُلاری دُلار

دُلہن / دولہن، دُہرا / دوہرا، مُٹاپا / موٹاپا، نُکیلا / نوکیلا دونوں طرح رائج ہیں، البتہ دوہا کے معنی میں صرف دوہرا رائج ہے، اور دوگانہ بمعنی نماز اور دُگانہ (دُگانا) بمعنی سہیلی ہے۔

ہندوستان، ہندُستان

دونوں صحیح ہیں، البتہ لفظ ہندُستانی بغیر واؤ مرجح ہے۔

جز، جزو

جز، جزو بمعنی ٹکڑا، دونوں صحیح ہیں، اور اردو میں مستعمل ہیں، جیسے:

    جُز رس جُز دان جُزوِ بدن

جز بمعنی ”سوا“ الگ لفظ بھی ہے، انھیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے:

    ؏ قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل ؏ جُز قیس کوئی اور نہ آیا بروئے کار

روپیے، روپیہ

ان لفظوں کو کئی طرح لکھا جاتا ہے۔ سب سے زیادہ رائج املا روپیہ، روپے ہے، اور اسی کی سفارش کی جاتی ہے۔

دُگنا، دوگنا

یہ دو الگ الگ لفظ ہیں، ان کو اسی طرح لکھنا چاہیے۔ اس بارے میں اصول یہ ہے کہ وہ مرکب الفاظ جن کا پہلا جز ’دو‘ ہے، مع واؤ لکھے جاتے ہیں، جیسے:

    دوگنا دوآبہ دوآتشہ دوراہا دوچار دوپہر دورنگا دوسخنا

البتّہ کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جن میں واؤ نہیں بولا جاتا، ان کا املا بغیر واؤ کے رائج ہے اور انہیں پیش ہی سے لکھنا صحیح ہے، مثلاً:

    دُگنا دُلائی

واؤ معدولہ

اردو میں واؤ معدولہ دو طرح سے آتا ہے، اوّل ایسے الفاظ میں جہاں واؤ کے بعد الف ہے، ان لفظوں میں یہ دُہرا مصوّتہ (diphthong) ہے، اور واؤ کا تلفظ پیش کا سا ہوتا ہے، جو بعد میں آنے والے الف کے ساتھ ملا کر بولا جاتا ہے، جیسے:

    خواب خواجہ خواہش خوار خواہ خدانخواستہ استخواں افسانہ خواں درخواست

ہائے خفی

املا نامہ

بھروسہ، بھروسا

ہائے خفی کئی مستعار الفاظ کے آخر میں آتی ہے (غنچہ، کشتہ، درجہ، پردہ، زردہ، دیوانہ، شگفتہ، جلسہ)، دیسی لفظوں کے آخر میں الف ہوتا ہے (بھروسا، گملا، اکھاڑا، اڈّا، دھبّا، انڈا)۔ ہائے خفی حرف نہیں، ایک طرح کی علامت ہے جس کا کام لفظ کے آخر میں حرفِ ما قبل کی حرکت کو ظاہر کرنا ہے۔ ہمیں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ ”اردو میں مختفی ہ کا وجود نہیں اور یہ دیسی الفاظ کے آخر میں نہیں آ سکتی“۔ واقعہ یہ ہے کہ چند دیسی الفاظ میں آخری مُصوّتے (حرفِ صحیح) کی حرکت کو ظاہر کرنے کے لیے اردو املا میں سوائے خفی ہ کے کسی اور علامت سے مدد لی ہی نہیں جا سکتی۔ جیسے روپیہ، پیسہ، نہ، پہ، البتّہ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کا یہ قول صحیح ہے کہ اردو والوں نے مختفی ہ کی اصلیت کو بھُلا دیا اور ٹھیٹھ اردو لفظوں میں مختفی ہ لکھنے لگے۔ چنانچہ اصول یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تمام دیسی لفظوں کو جو دوسرے الفاظ کی نقل میں خواہ مخواہ خفی ہ سے لکھے جاتے ہیں، الف سے لکھنا چاہیے:

    بھروسا اڈّا سندیسا ٹھیکا بھُوسا آرا راجا آنولا دھوکا ڈاکیا بتاشا بٹوا بیڑا باجا بلبلا بنجارا پانسا پٹاخا پٹارا پٹرا پھاوڑا پھیپھڑا نگوڑا توبڑا جالا ٹھپّا ٹڈّا پھندا ہنڈولا کٹورا چبوترا چٹخارا دھندا رجواڑا چٹکلا موگرا دسہرا ڈبیا خراٹا سانچا سہرا کھاجا کیوڑا گھونسلا

تکیہ عربی اور دربیہ فارسی لفظ ہے اور یہ ہائے مختفی سے صحیح ہیں۔ آریہ اور چاولہ دیسی الفاظ ہیں، لیکن ان کا املا ہائے خفی سے اس حد تک رائج ہو چکا ہے کہ انھیں مستثنیٰ سمجھنا چاہیے۔

تصریفی الفاظ

وہ تمام تصریفی شکلیں جن میں عربی، فارسی کا کوئی جز ہو لیکن اس کی تہنید ہو چکی ہو، الف سے لکھنی چاہییں:

    چوراہا بال خورا چھماہا بے فکرا نو دولتا کبابیا بسترا دسپنا سترنگا نصیبا دو رُخا خون خرابا تھکا ماندا شیخی خورا خوجا

البتہ ذیل کے الفاظ ہ سے مرجح ہیں:

    نقشہ خاکہ بدلہ مالیدہ امام باڑہ ہرجہ خرچہ غنڈہ غبّارہ آب خورہ یک منزلہ تولہ ماشہ زردہ سموسہ زنانہ

یورپی الفاظ

یورپی زبانوں سے آیا ہوا جو لفظ جس طرح مستعمل ہو، اس کے رائج املا کو صحیح ماننا چاہیے، البتّہ جو لفظ رواج میں نہیں، انھیں الف سے لکھنا مناسب ہو گا:

    کمرہ ڈراما فرما سوڈا

پٹنہ، آگرہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کے اس قول کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ ”شہروں (ملکوں، جگہوں) کے ناموں کو اس طرح لکھا جانا چاہیے جس طرح وہ رائج ہیں“:

    آگرہ کلکتہ پٹنہ باندہ ٹانڈہ امروہہ انبالہ

ہمالہ، ہمالیہ، افریقہ، امریکہ اور مرہٹہ کو بھی ناموں کی فہرست میں شامل سمجھنا چاہیے۔

دانا، دانہ

ذیل کے جوڑوں میں سب حروف مشترک ہیں، سوائے آخری حرف کے، یعنی پہلے لفظ میں آخری حرف الف ہے اور دوسرے میں ہائے خفی۔ یہ الگ الگ لفظ ہیں اور ان کے الگ الگ معنی ہیں۔ چنانچہ ان کے املا کا تعیّن ان کے معنی سے ہو گا:

    دانا (جاننے والا، عقل مند)، دانہ (بیج، مال، دانۂ گندم) چارا (مویشیوں کی خوراک)، چارہ (علاج، مدد) خاصا (اضافے کے معنی میں، جیسے: اچھا خاصا)، خاصّہ (طبیعت، عادت) / خاصہ (عام کی ضد، امیروں کا کھانا) پارا (سیماب)، پارہ (ٹکڑا، حصّہ) لالا (لقب)، لالہ (گُلِ لالہ) نالا (بڑی نالی)، نالہ (نالہ و فریاد) پتّا (درخت کا پتّا)، پتہ (نشان، مقام) نا (کلمۂ نفی)، نہ (مخّفف کلمۂ نفی) آنا (مصدر)، آنہ (پُرانے روپے کا سولھواں حصّہ)

پردے، جلوے (مُحرّف شکلیں)

جب ہائے خفی والے الفاظ (پردہ، عرصہ، جلوہ، قصّہ) محرّف ہوتے ہیں تو تلفّظ میں آخری آواز ’ے‘ ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تلفّظ کی پیروی ضروری ہے۔ چنانچہ ایسے تمام الفاظ کی مُحرّف شکلوں میں ’ے‘ لکھنی چاہیے:

    بندے (کا) پردے (پر) عرصے (سے) لوے (کی) مے خانے (تک) افسانے (میں) غصّے (میں) مدرسے (سے) مرثیے (کے)

موقعہ، معہ

مندرجہ ذیل لفظوں میں ہائے خفی کا اضافہ اب غلط ہے، ان کا صحیح املا یوں ہے:

    موقع مع مصرع بابت آیت

سنہ، سِن

سنہ بمعنی ’سال‘ کو اکثر بغیر ہ کے سن لکھا جاتا ہے جو غلط ہے۔ یہ دو الگ الگ لفظ ہیں۔ سنہ بمعنی سال ہائے خفی سے ہے، جیسے سنہ 1857 یا سنہ ہجری یا سنہ عیسوی

سِن کے معنی ’عمر‘ کے ہیں۔ یہ لفظ بغیر ہ کے ہے۔

؎ برس پندرہ یا کہ سولہ کا سِن جوانی کی راتیں، مُرادوں کے دِن

جگہ، توجّہ، بہ، تہ

ایسے الفاظ میں اگر ہائے ملفوظ یعنی جو ہائے آواز دیتی ہو، اور ہائے خفی یعنی جو ہائے آواز نہ دیتی ہو، اُن کا فرق ظاہر کرنا مقصود ہو تو اس کے نیچے شوشہ لگایا جا سکتا ہے، بصورتِ دیگر اس کی ضرورت نہیں، جیسے:

    بہنا مصدر سے بہہ سہنا مصدر سے سہہ کہنا مصدر سے کہہ

کہ، یہ

کہ (کافِ بیانیہ) اور یہ میں ہ کی آواز عموماً ادا نہیں ہوتی یا بہت کمزور ادا ہوتی ہے۔ یہ کے یہہ لکھنے پر اصرار کرنا خواہ مخواہ کا تکلّف ہے۔ کہ اور یہ کو ہ کی لٹکن کے بغیر لکھنا ہی مناسب ہے۔

ہائے مخلوط

املا نامہ

کچھ، کچہہ ؛ مجھ ،مجہہ

ایک زمانے میں اردو میں ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ کے لیے کسی صورت کا تعیّن نہیں تھا۔ عربی اور فارسی میں تو ہکار آوازیں ہیں ہی نہیں؛ اس لیے کسی خلطِ مبحث کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اردو کا معاملہ دوسرا ہے۔ ہند آریائی زبان ہونے کے ناتے بخلاف عربی اور فارسی کے اردو میں ہکار آوازوں کا پورا سیٹ موجود ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگرچہ الگ سے حروف نہیں، لیکن یہ مواقعہ ہے کہ پھ، بھ، تھ، ٹھ، ڈھ، ڑھ، جھ، چھ، کھ اور گھ اردو کی بنیادی آوازیں ہیں۔ نیز رھ، لھ، مھ، نھ، وھ اور یھ میں بھی ہکاریت کا شائبہ ہے۔ اردو میں ان کے لیے اگر ہائے مخلوط کو مخصوص نہ کر دیا جائے تو ایک طرح کی بے راہ روی پھیلتی ہے مثلاً ہے اور ھے، چاہیے اور چاھیے دونوں املا رائج ہیں۔ یہاں تک کہ گھر اور گہر، مجھ کو اور مجہکو، ساتھ اور ساتہہ، کچھ اور کچہہ، بھر اور بہر، پھر اور پہر، پھاڑ اور پہاڑ، بھین اور بہن، دھلی اور دہلی، بھاری اور بہاری میں بھی ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ میں امتیاز روا نہیں رکھا جاتا۔

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی نے سفارش کی تھی کہ اگرچہ دھ، ڈھ، ڑھ، لکھنے میں دو حروف ہیں لیکن ایک ہی آواز ادا کرتے ہیں، اس لیے ان کو ملا کر لکھنا چاہیے: دھ، ڈھ، ڑھ (لفظوں کی شکلیں یہ ہوں گی: دھ‌ن، دھ‌رتی، پڑھ‌نا) ان حروف کا ایک آواز کو ادا کرنا تسلیم، لیکن اردو میں متعدّد مصوّتے ایسے ہیں جنھیں (لفظ کے شروع میں) ایک سے زائد حروف سے لکھنا پڑتا ہے: ایک، اور، ایکھ، اون، اوج، وغیرہ۔ چنانچہ ہماری رائے ہے کہ د، ڈ، ڑ کے ساتھ ہائے مخلوط کو ملا کر لکھنے کی ضرورت نہیں۔ یہ چلن میں بھی نہیں آئی۔ البتہ یہ اصول واضح طور پر اپنا لینا چاہیے کہ ہائے مخلوط کو ہکار آوازوں کے ساتھ مخصوص کر دیا جائے، اور ان تمام لفظوں میں جہاں یہ آوازیں آئیں، تلفظ کی پیروی میں ان کو ہائے مخلوط یعنی ہائے دو چشمی سے لکھنا چاہیے:

    پھول بھول بھاری جھاڑ پھاڑ پتھر بھر پھر دکھ سکھ دودھ گھوڑا چھتری گھونٹ جھوم بھانڈ پھونک تھوڑا پڑھ بڑھ مجھ تجھ کچھ پھلجڑی

گیارھواں، تمھارا

اردو میں رھ، لھ، مھ، نھ، وھ، یھ میں بھی ہائے مخلوط کا اثر ملتا ہے اس لیے ذیل کے الفاظ کو ہائے مخلوط ہی سے لکھنا چاہیے:

    گیارھواں بارھواں کولھو کلھڑ تمھارا کمھار ننھا ننھیال

کب، جب، سب، نیز ان، جن، تم وغیرہ کے ساتھ جب ’ہی‘ ملا کر بولا جاتا ہے تو ہائے مخلوط کی آواز سنائی دیتی ہے۔ ایسے تمام لفظوں کو بھی ہائے مخلوط سے لکھنا مناسب ہے:

    ابھی کبھی جبھی سبھی تمھاری انھیں تمھیں جنھیں

بھابھی، بھابی

اردو میں وہ الفاظ جن میں دو ہائے مخلوط آتی ہیں، دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جو کسی نہ کسی طرح کی کیفیت کو ظاہر کرتے ہیں، جیسے بھن‌بھناہٹ، چھن‌چھناہٹ، تھر‌تھراہٹ، جھل‌جھلاہٹ، یہ صوتی الفاظ ہیں۔ ان میں اجزا کی تکراری نوعیت چونکہ کسی نہ کسی حسّی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں دونوں ہائے مخلوط (ہکاریت) جزو اصلی ہی حیثیت رکھتی ہیں اور ان کو جوں کا توں لکھنا چاہیے:

    جھن‌جھناہٹ جھن‌جھنانا تھرتھراہٹ تھرتھرانا کھڑکھڑاہٹ کھڑکھڑانا بھن‌بھناہٹ بھن‌بھنانا چھن‌چھناہٹ چھن‌چھنانا کھٹ‌کھٹاہٹ کھٹ‌کھٹانا

لیکن بعض مفرد الفاظ میں دوسری ہائے مخلوط زائل ہو جاتی ہے، جیسے بھابھی، بھابی۔ ایسے الفاظ کو ایک ھ سے لکھنا مرجح ہے:

    بھابی پھوپی بھبوکا ڈھیٹ بھبکی بھبک بھنبوڑنا گھونگا گھنگرو

ھے، ہے

بعض لوگ فارسی کی نقل میں، یا محض اپنی پسند کے طور پر لفظ کے وسط یا شروع میں آنے والی ہائے ہوّز کو لٹکن والی ہ کے بجائے دو چشمی ھ سے لکھتے ہیں۔ یہ اصول کے خلاف اور غلط ہے:

ہمزہ

املا نامہ

عربی میں ہمزہ ایک مستقل آواز ہے۔ اردو میں اس کی وہ صوتی حیثیت نہیں تا ہم اردو میں ہمزہ عربی سے ماخوذ لفظوں کے علاوہ بہت سے دیسی لفظوں کے املا میں بھی استعمال ہوتا ہے (جیسے آؤں، جاؤں، کھائے، پائے، لکھنؤ، کیکئی)، چنانچہ اردو املا کا تصور ہمزہ کے بغیر کیا ہی نہیں جا سکتا۔ انجمن ترقی اردو کی کمیٹی اصلاحِ رسمِ خط نے ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کی تجویز پر سفارش کی تھی۔ ہمزہ جب کسی منفصل حرف کے بعد آئے تو بالکل جدا لکھا جائے۔ جیسے آءو، آءی، جاءو، آءیں، آءِیں، بھاءی، سوءیں، سناءیں، ماءِل، گھاءِل، داءِر، تاءید، داءِرے، جاءِزہ، رعناءی؛ لیکن یہ رائج نہیں ہو سکا۔ ہمزہ حرف یا شوشے کے اوپر ہی لکھا جاتا ہے اور اس میں کوئی قباحت نہیں، چنانچہ اسی طریقے کو قبول کر لینا چاہیے۔ البتہ اردو میں ہمزہ کے استعمال میں جو بے قاعدگیاں راہ پا گئی ہیں، اُن کو ذیل کے اصول اپنا لینے سے دور کیا جا سکتا ہے۔

ہمزہ کا استعمال

اردو میں ہمزہ کے استعمال کے بارے میں یہ آسان سا اصول نظر میں رہنا چاہیے:

جس لفظ میں بھی دو مُصوّتے (حرفِ علّت یا حرکات) ساتھ ساتھ آئیں اور اپنی اپنی آوازیں (پوری یا جزوی) دیں، وہاں ہمزہ لکھا جائے، جیسے:

    کوئی جائے کھاؤ دکھائیں نائی لکھنؤ غائب فائدہ جاؤں جائز

اس بات کو بقول ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اردو میں ہمزہ لفظ کے درمیان الف متحرک کا قائم مقام ہے۔ (مثلاً عزرا+ئیل، سا+ئیس، جا+ئز، جا+ؤں، وغیرہ)

ہمزہ اور الف

عربی کے متعدد مصادر، جمعوں اور مفرد الفاظ کے آخر میں اصلاً ہمزہ ہے، جیسے: ابتداء، انتہاء، املاء، انشاء، شعراء، حکماء، ادباء، علماء، فقراء، وزراء

اردو میں یہ لفظ الف سے بولے جاتے ہیں۔ اس لیے انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا چاہیے:

    ابتدا انتہا املا انشا شعرا حکما ادبا علما فقرا وزرا

البتہ اگر ایسا لفظ کسی ترکیب کا حصہ ہو تو ہمزہ کے ساتھ جوں کا توں لکھنا چاہیے:

    انشاءاللّٰہ ضیاءُالرحمٰن ذکاءُاللّٰہ ثناءُالحق ثناءُاللّٰہ بہاءُاللّٰہ ضیاءُالدین علاءُالدین

جُرات، تَاثُّر، مورِّخ، موثّر

عربی میں ان الفاظ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے۔ اگر عربی کی تقلید کرتے ہوئے ایسے الفاظ پر ہمزہ لکھا جائے (جیسے جُرأت، تَأثُّر، تأسُّف، مؤرِّخ، تأمُّل) تو اسے اردو میں غلط نہ سمجھا جائے۔ لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں چونکہ بیشتر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا بھی صحیح سمجھا جائے:

    جرات تاثّر تاسّف مورّخ تامّل متاثّر موثّر متاہّل موذّن مودّب مونّث

ہمزہ اور واؤ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے افعال آؤ، جاؤ اور حاصل مصدر بناو (سنگھار) اور (رکھ) رکھاو کے تلفظ میں فرق کیا ہے اور حاصل مصدر بناو، رکھاو وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر لکھنے کی سفارش کی ہے، ہماری رائے ہے کہ ہندی میں تو بے شک ایسے لفظ آخری واؤ سے بولے جاتے ہیں، لیکن اردو بول چال میں افعال آؤ، جاؤ، پاؤ، کھاؤ اور حاصل مصدر بناؤ، پاؤ (سیر)، رکھاؤ، بچاؤ ایک ہی طرح بولے جاتے ہیں، یعنی ان سب میں دوہرے مصوّتے کی آواز آتی ہے۔ اس لیے ان کا فرق غیر ضروری ہے اور یہی چلن بھی ہے۔ چنانچہ ایسے تمام لفظوں میں ہمزہ لکھنا چاہیے:

اسما:

    الاؤ اود بلاؤ پلاؤ تاؤ چاؤ راؤ گاؤ باؤ گولا گھماؤ

حاصل مصدر:

    بچاؤ بہاؤ پتھراؤ دباؤ گھماؤ پھراؤ الجھاؤ چھڑکاؤ چناؤ جھکاؤ سمجھاؤ بناؤ سنگار بھاؤ تاؤ گھاؤ جماؤ

(جماؤ امر اور جماؤ حاصل مصدر کی آواز میں کوئی فرق نہیں)

امر: (امر کی سب شکلیں ہمزہ کے ساتھ صحیح ہیں)

    آؤ جاؤ لاؤ کھاؤ اڑاؤ

پانو، چھانو؛ پاؤں، چھاؤں

ان الفاظ کی بحث کے لیے ملاحظہ ہو ”نون اور نون غُنّہ“ کی ذیلی سرخی نمبر 5۔

ہمزہ یا ی

ہمزہ کے سلسلے میں ایک بڑی دقّت یہ ہے کہ چاہیے میں ہمزہ کیوں نہیں لکھنا چاہیے اور جائیے میں کیوں لکھنا چاہیے، یا کئی، گئے اور گئی کو تو ہمزہ سے لکھا جاتا ہے، لیکن کیے، لیے، اور دیے کو ہمزہ سے کیوں نہ لکھا جائے؟ واقعہ یہ ہے کہ کسرہ اور اعلان کی ی (نیم مصوّتہ ی) کا مخرج ساتھ ساتھ ہے۔ چنانچہ چاہِ+یے، لِ+یے، دِ+یے میں بالتّرتیب ہ، ل اور د کے زیر کے بعد دوسرے مصوّتے تک جانے سے پہلے زبان ی کے مخرج سے گزرتی ہے، جس سے ی کا شائبہ پیدا ہو جانا لازمی ہے۔ اس کے بر عکس کَ+ئی، گَ+ئے، گَ+ئی میں کسرہ نہیں بلکہ زبر ہے۔ اس لیے ی کے شائبے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ان میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئے ہیں، اور یہ طے ہے کہ جہاں دو مصوّتے ساتھ ساتھ آئیں، وہاں ہمزہ لکھنا چاہیے۔ اب اس سلسلے میں اصول یہ ہوا:

اگر حرفِ ما قبل مکسور ہے تو ہمزہ نہیں آئے گا، ی لکھی جائے گی، جیسے:

    کِیے دِیے لِیے جِیے سنیے چاہِیے

فعل کی تعظیمی صورتیں دیجِیے و لیجِیے اسی اصول کے تحت ی سے لکھی جائیں گی:

    دیجِیے لیجِیے کیجِیے اُٹھیے بولِیے بیٹھِیے کھولِیے تولِیے

باقی تمام حالتوں میں ہمزہ لکھا جائے گا۔

وہ تمام فعل جن کے مادّے کے آخر میں الف یا واؤ آتا ہے، اس اصول کے تحت ہمزہ سے لکھے جائیں گے۔ ان میں ایک حرفِ علّت تو مادّے کا، دوسرا تعظیمی لاحقے اِیے کا، (فرما اِیے، جا اِیے) مل کر اپنی اپنی آواز دیتے ہیں، اس لیے ہمزہ کے استعمال کا جواز پیدا ہو جاتا ہے:

    فرمائیے جائیے آئیے کھوئیے سوئیے

اسی طرح گئے، گئی، نئے میں یائے سے پہلا حرف مفتوح ہے، چنانچہ ان لفظوں کو بھی ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔

ہمزہ اور ے

ذیل کے الفاظ میں الف اور یائے دوہرے مصوّتے کے طور پر بولے جاتے ہیں، اس لیے ان میں ہمزہ لکھنا صحیح ہے:

    گائے (اسم) گائے (گانا سے) پائے (اسم) پائے (پانا سے) رائے (بہادر) رائے (صاحب) چائے

(اردو بول چال میں گائے (اسم) اور گائے (مضارع گانا سے) کے تلفظ میں کوئی فرق نہیں)

ذیل کے لفظ بھی بالعموم دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں، اس لیے ان کو بھی ہمزہ سے لکھنا مناسب ہے:

    جائے بجائے سوائے نائے سرائے رائے (عامّہ) واؤ یائے

آزمائش، نمائش

فارسی کے وہ حاصل مصدر جن کے آخر میں ش ہوتا ہے، اردو میں دوہرے مصوّتے کے ساتھ بولے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کو ہمزہ سے لکھنا صحیح ہے۔ فارسی میں البتہ آزمایش، نمایش لکھنا مناسب ہے، لیکن اردو میں ان کے تلفظ میں ی کی آواز کا شائبہ تک نہیں۔ اردو میں ان کو ی سے لکھنے پر اصرار کرنا محض فارسی کی نقّالی ہے۔ اردو میں ان الفاظ کو ہمزہ سے لکھنا ہی صحیح ہے، اور چلن بھی یہی ہے:

    آزمائش نمائش آسائش ستائش

اسی طرح ذیل کے الفاظ کو ی سے لکھا جاتا ہے۔ ان کا صحیح املا ہمزہ ہی سے ہے:

    آئندہ نمائندہ پائندہ نمائندگی سائل شائع شائق قائم دائم مائل

ہمزہ اور اضافت

ہمزہ اور اضافت کے تین نہایت آسان اصول درج کیے جاتے ہیں جو لفظوں کی تمام صورتوں کو کافی ہیں:

    اگر مضاف کے آخر میں ہائے خفی ہے تو اضافت ہمزہ سے ظاہر کرنی چاہیے:

        خانۂ خدا جذبۂ دل نغمۂ فردوس نالۂ شب نشۂ دولت جلوۂ مجاز تشنۂ کربلا نذرانۂ عقیدت

    اگر مضاف کے آخر میں الف، واؤ یا یائے ہے تو اضافت ئے سے ظاہر کرنی چاہیے:

        اردوئے معلیٰ صدائے دل نوائے ادب کوئے یار بوئے گل دعائے سحری دنیائے فانی گفتگوئے خاص

    بعض حضرات ایسی ترکیبوں میں ہمزہ استعمال نہیں کرتے لیکن در حقیقت مضاف اور مضاف الیہ یا موصوف اور صفت کی درمیانی آواز جو مختصر مصوّتہ ہے، وہ ما قبل کے طویل مصوّتے (الف یا واؤ) سے مل کر دوہرا مصوّتہ بن جاتا ہے۔ اصول ہے کہ جہاں دوہرا مصوّتہ ہو گا وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔ چنانچہ ایسی ترکیبوں میں ہمزہ لکھا جائے گا جو چلن ہے، اسے جائز سمجھنا چاہیے۔ البتہ فارسی کا معاملہ الگ ہے۔ (فارسی میں نوای ادب یا بوی گل لکھنا صحیح ہے۔)

    ی یا ے پر ختم ہونے والے الفاظ بھی اسی طرح ہمزہ ہی سے مضاف ہوں گے کیونکہ یہ بھی دوہرے مصوّتے سے بولے جاتے ہیں:

        شوخیٔ تحریر زندگیٔ جاوید رنگینیٔ مضمون مۓ رنگین رائے عامّہ سرائے فانی تنگ نائے غزل والیٔ ریاست گیسوئے شب

    باقی تمام حالتوں میں اضافت کسرہ سے ظاہر کی جائے گی، جیسے:

        (الف) مصمتوں یعنی حرف صحیح پر ختم ہونے والے الفاظ:

            دلِ درد مند دامِ موج گلِ نغمہ آہِ نیم شبی ماہِ نو لذتِ تقریر نقشِ فریادی دستِ صبا دودِ چراغِ محفل حسنِ توبہ شکن شمعِ روشن طبعِ رسا شعاعِ زریں نفعِ بے بہا

        (ب) نیم مصوّتہ واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ:ذیل کے الفاظ جب مضاف ہوتے ہیں تو آخری واؤ چونکہ نیم مصوّتے کے طور پر ادا ہوتی ہے، اس لیے ایسے الفاظ میں اضافت کو کسرہ سے ظاہر کرنا چاہیے:

            پرتوِ خیال جزوِ بدن ہجوِ ملیح عفوِ بندہ نواز

        (ج) ہمزہ جزوِ آخر:درج ذیل الفاظ جن میں ہمزہ لفظ کے آخر میں آتا ہے، ان میں اضافت کو ہمزہ کے بعد کسرہ لگا کر ظاہر کرنا مناسب ہے:

            سوءِ ظن مبدءِ اوّل سوءِ ہضم سوءِ ادب

        لیکن سوئے ظن، سوئے ہضم، سوئے ادب وغیرہ کو غلط نہ سمجھا جائے۔

ہمزہ اور واؤ عطف

عطف کے واؤ پر کسی بھی صورت ہمزہ نہیں لکھا جاتا:

    وفا و جفا ہوا و ہوس زندگی و موت مے و جام سادہ و پرکار شمع و پروانہ

ہُوا (ہونا کا ماضی)

اس میں دو مصوّتے ساتھ ساتھ ہیں (و+ا)۔ قدیم املا میں ہمزہ ملتا ہے لیکن اب رائج نہیں، اس لیے اس لفظ کا صحیح املا بغیر ہمزہ مان لینا چاہیے

اعداد

املا نامہ

    لفظ دونوں یا دونو نون غنّہ کے ساتھ اور اس کے بغیر دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ اس کا صحیح املا نون غنہ کے ساتھ ہے، یعنی دونوں، تینوں، چاروں وغیرہ۔

    لفظ چھ کا املا کئی طرح کیا جاتا ہے، چھ، چھہ، چھے۔ ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی نے چھے کی سفارش کی تھی لیکن چھے رائج نہیں ہو سکا۔ چلن میں اس لفظ کا املا چھ ہے، اور اسی کو صحیح مان لینا چاہیے۔

    گیارہ سے اٹھارہ تک گنتیوں کے آخر میں ہائے خفی ہے۔ اس لیے ان کے آخر میں ہمیشہ ہ لکھنی چاہیے۔ بعض لوگ ان کا تلفظ نون غنہ سے کرتے ہیں (جیسے گیاراں) یہ لہجہ معیاری نہیں۔ صحیح املا گیارہ، بارہ، تیرہ… ہے۔

    جب یہ گنتیاں اعدادِ صفی میں تبدیل ہوتی ہیں تو ہائے خفی ہائے مخلوط میں بدل جاتی ہے، یعنی: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں…

    اسی طرح اعدادِ تاکیدی بھی ہائے مخلوط سے لکھنے چاہییں: گیارھواں، بارھواں، تیرھواں…

    انتیس اور اکتیس ی سے صحیح ہیں۔

    اکتالیس سے اڑتالیس تک کی گنتیوں میں لام کے بعد کی ی ضرور لکھنی چاہیے: اکتالیس، بیالیس، پینتالیس…

    ذیل کے اعداد کبھی نون غنہ کے ساتھ اور کبھی اس کے بغیر بولے جاتے ہیں۔ ان کو نون غنّہ کے ساتھ لکھنا صحیح ہے: تینتیس، چونتیس، پینتیس، سینتیس، پینتالیس، سینتالیس، پینسٹھ

    اسی طرح 51، 81، 91 کو کبھی بہ اضافہ ی اور کبھی اس کے بغیر لکھتے ہیں۔ انھیں ی سے لکھنا ہی صحیح ہے: اکیاون، اکیاسی، اکیانوے

    لفظ سیکڑا نون غنّہ کے ساتھ بھی مروّج ہے۔ لیکن اسے بیشتر نون غنّہ کے بغیر لکھتے ہیں، اور یہی مرجح ہے۔

    85، 95، 99 میں بعض لوگ الف سے پہلے ی بولتے ہیں، لیکن ان گنتیوں کا ترجیحی املا پچّاسی، پچّانوے اور ننّانوے ہے۔

    اعداد وصفی بناتے ہوئے اگر عدد مصمتے پر ختم ہو رہا ہے تو اسے ملفوظی طور پر لکھنے میں کوئی دقّت نہیں، مثلاً چوبیسواں، اڑتیسواں، باسٹھواں، اٹھتّرواں، لیکن جو عدد مصوّتے پر ختم ہوتے ہیں، بالخصوص 97 سے 99 تک کی گنتیاں، ان کے اعداد وصفی بنانے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہندسہ لکھ کر ’واں‘ یا ’ویں‘ بڑھا دیا جائے۔ گویا 97 واں یا 97 ویں، 98 واں یا 98 ویں، 99 واں یا 99 ویں۔

    سو سے آگے (یا سو کے دیگر تمام یونٹوں) کی وصفی گنتیوں کو بھی ہندسہ لکھ کر ’واں‘ یا ’ویں‘ کے اضافے سے لکھنا مناسب ہے۔

    ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں، اربوں تو ملفوظی طور پر ہی لکھنا مناسب ہیں، لیکن بڑے اعداد مثلاً 1,720,615 کو وصفی صورت میں ہندسے کے بعد واں یا ویں کے اضافے سے لکھنا ہی مناسب ہو گا (یعنی 1,720,615 واں)۔

غلط: ھے، ھوا، ھندوستان، دھلی، ھمیشہ

صحیح:

    ہے ہوا ہندوستان دہلی ہمیشہ

الف والے الفاظ میں واؤ معدولہ کا صوتی ماحول طے ہے، اور تلفّظ میں کسی مغالطے کا امکان نہیں، البتّہ خود، خوش جیسے الفاظ میں (جو تعداد میں بہت کم ہیں) ابتدائی کتابوں کے لیے چھوٹی لکیر کی علامت کو اپنایا جا سکتا ہے، جیسے:

    خود خوش خودی خورشید خورد

لفظوں میں فاصلہ اور لفظوں کو ملا کر لکھنا

املا نامہ

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویزات

لفظوں میں فاصلے اور لفظوں کو ملا کر لکھنے کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی ان تجویزوں کو مان لینا چاہیے:

    (الف) لفظوں کے درمیان فاصلہ رکھا جائے اور یہ فاصلہ یکساں ہو۔ نیز یہ فاصلہ اس فاصلے سے زیادہ ہو جو ایک ہی لفظ کے دو ٹکڑوں کے بیچ میں رکھا جائے۔

    (ب) ایک لفظ کے اوپر دوسرا لفظ یا ایک حرف کے اوپر دوسرا حرف کسی حالت میں نہ لکھا جائے۔

البتہ مرکبات کے بارے میں ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی تجویز کہ ”مرکب لفظ جو دو یا زیادہ لفظوں سے بنے ہوں، آپس میں ملا کر نہ لکھے جاویں، بل کہ ہمیشہ الگ الگ لکھے جائیں“ قابلِ قبول نہیں، کیونکہ دو یا دو لفظوں سے مل کر بننے والے لفظ کئی طرح کے ہیں۔ اس بارے میں مرکبات اور مشتقات میں فرق کرنا ضروری ہے، مرکبات میں استعمال ہونے والے الفاظ صرفیے (free morphemes) ہوتے ہیں، مثلاً خوب صورت، خوش مذاق، گل بدن، دل لگی، ان میں سے ہر لفظ آزادانہ استعمال ہو سکتا ہے، اور الگ سے اپنے معنی رکھتا ہے۔ چنانچہ اصولی طور پر مرکبات میں لفظوں کو الگ الگ لکھنا چاہیے، لیکن مشتقات کا معاملہ دوسرا ہے۔

مشتقات سابقوں یا لاحقوں کے ملانے سے بنتے ہیں۔ بہ، بے، سار، گار، وار، زار، گر، گسار، بان، آن، رساں، ساں، گیں، پن، لا، وغیرہ آزاد صرفیے نہیں، پابند صرفیے (bound morphemes) ہیں۔ یہ تنہا استعمال نہیں ہو سکتے، اور تنہا طور پر اردو میں کوئی معنی نہیں رکھتے، جب الگ سے ان کے کوئی معنی نہیں تو ان کو الگ لکھنے کی سفارش کیسے کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اصولی بات یہی ہے کہ تمام مشتقات کو ملا کر لکھنا چاہیے، لیکن دشواری یہ ہے کہ اردو میں مشتقات کی بعض شکلوں کو ملا کر لکھنے کا چلن نہیں۔ مثلاً شاندار، جہاندار، زمیندار، خریدار، دلدار، تھانیدار تو ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن ایمان دار، مہمان دار، دکان دار، چمک دار، کانٹے دار، لچھے دار میں دار الگ لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح اگرچہ دستگیر، دلگیر، جہانگیر، عالمگیر ملا کر لکھے جاتے ہیں، لیکن آفاق گیر، ملک گیر، دامن گیر، کف گیر میں گیر الگ لکھا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں چلن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یوں ہو سکتے ہیں:

مرکبات

مرکبات میں جہاں تک ہو سکے، الفاظ کو الگ الگ لکھنا چاہیے:

    خوب صورت خوش رنگ نیک بخت گل بدن آج کل دل لگی گل دستہ ہم رنگ جفا شعار توپ خانہ بت خانہ فن کار گل کاری قلم کار دست کار عدم آباد

لیکن کچھ مرکب الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن راسخ ہو چکا ہے، مثلاً شبنم، دستخط۔ ان کو اسی طرح لکھنا مناسب ہے۔ پیچیدہ ایک لفظ ہے، اس کو آج کل بعض لوگ ”پے چیدہ“ لکھتے ہیں جو بالکل غلط ہے۔

مشتقات

مشتقات کو اصولی طور پر جہاں تک ممکن ہو، ملا کر لکھنا چاہیے، البتہ جن لفظوں کو الگ سے لکھنے کا چلن ہے، انھیں الگ ہی لکھا جائے:

    کمتر بیشتر ستمگر پیشتر پاسبان جانور تاجور کرخندار زمیندار شاندار دلدار خریدار دستگیر جہانگیر عالمگیر دلگیر خاکسار دلکش باغیچہ غالیچہ بچپن لڑکپن غمگین سرمگیں

سابقہ ”اَن“

سابقہ ”اَن“ کو اردو میں الگ سے لکھنے کا چلن ہے:

    ان پڑھ ان گھڑ ان گنت ان جان

(پاکستان میں ”ان جان“ کا املا ”انجان“ مروج ہے۔)

سابقہ ”بے“

سابقہ ”بے“ کو زیادہ تر الگ ہی لکھا جاتا ہے:

    بے ریا بے خوف بے مزا بے تحاشا بے حساب بے بس بے رخی بے ثبات بے خواب بے جان بے رحم بے ایمان بے گناہ بے دھڑک بے گھر بے آسرا بے ڈھنگا بے کیف

البتہ کئی الفاظ کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:

    بیکار بیشک بیگانہ بیباک بیتاب بیوقوف بیدخل بیخود بیدل بیدم بیہوش بیکل

لاحقے ”بہ“، ”چہ“، ”کہ“

ڈاکٹر عبد السّتار صدیقی کمیٹی کی سفارش کہ ”فارسی لفظ بہ، چہ، کہ وغیرہ جو کبھی ملا کر اور کبھی الگ لکھے جاتے ہیں، اردو عبارت میں الگ لکھے جائیں“ قابلِ قبول نہیں۔ اس لیے کہ اول تو یہ تمام پابند صرفیے ہیں، دوسرے ان میں سے بعض لاحقے ایسے الفاظ میں آتے ہیں جو جملوں کو ملانے کے لیے کثرت سے استعمال ہوتے ہیں، اور جن کی ملی ہوئی شکلیں اس حد تک چلن میں آ چکی ہیں کہ ان کو بدلنا آسان نہیں۔ اس لیے مناسب یہی ہے کہ انھیں ملا کر ہی لکھا جائے۔ چنانچہ اس بارے میں اصول یہ ہوا: بہ، چہ، کہ لاحقے ہیں اور مشتقات میں البتہ کئی الفاظ میں بے کو ملا کر لکھنے کا چلن ہے جو صحیح ہے:

    بلکہ کیونکہ چونکہ چنانچہ جبکہ بخوبی بہرحال بدستور بخدا بدقّت بدولت باندازِ خاص غرضیکہ حالانکہ بشرطیکہ

مجھکو، مجھ کو

بعض اوقات ضمائر کو کلماتِ جار کے ساتھ ملا کر لکھا جاتا ہے، مثلاً مجھکو، تجھکو، اسنے، اسلیے۔ انھیں غلط تو نہیں کہا جا سکتا البتہ انھیں الگ سے لکھنا مرجح ہے یعنی مجھ کو، تجھ کو، اس نے، اس لیے، مجھ سے، ہم پر، جس کا، وغیرہ۔ اسی طرح کے لیے، کے واسطے، جب تک، کیوں کر، جان کر، وغیرہ کو بھی ملا کر نہیں لکھنا چاہیے۔

گا، گے، گی

گا، گے، گی کو افعال کے ساتھ ملا کر نہیں، بلکہ الگ الگ لکھنا چاہیے:

    جائے گا آئیں گے پڑھے گا کھائیں گے چاہیں گے لکھے گی

انگریزی اور یورپی الفاظ

انگریزی اور یورپی الفاظ جس طرح اردو میں رائج ہیں، ویسے ہی لکھنے چاہییں، البتہ کوئی نیا لفظ ہو تو اس کے لیے صوتی اجزا کو الگ الگ لکھنا مناسب ہو گا:

    یونیورسٹی گلکرسٹ کانفرنس پارلیمنٹ انسٹی‌ٹیوٹ ٹیلیفون ریڈیو انسپکٹر ڈاکٹر مسٹر مسز اسٹیشن میونسپلٹی ٹیلیگراف ٹیلیگرام

سیمینار کو سے می نار لکھنا درست نہیں۔ ہاں مندرجہ ذیل الفاظ کے اجزا کو الگ الگ کر کے لکھنا مناسب ہے:

    ہائی‌وے ہائی‌جیکنگ ٹیلی‌ویژن ٹیلی‌کاسٹ کاپی‌رائٹ انڈی‌پنڈنٹ

پولیس کو آج کل بعض لوگ ہندی کی نقل میں پولس لکھتے ہیں جو غلط ہے۔