تحریر؛نصیر وارثی
زبان کی تعریف یوں کی جا سکتی ہے کہ یہ ایک نظام ہے جس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، جذبات، احساسات، اور معلومات کو الفاظ، علامات، یا آوازوں کے ذریعے دوسروں تک پہنچاتا ہے۔ زبان کو بنیادی طور پر ایک سماجی اور ثقافتی وسیلہ تصور کیا جاتا ہے، جو معاشرتی روابط قائم کرنے اور کمیونیکیشن کو ممکن بنانے کا ذریعہ بنتی ہے۔
زبان کی خصوصیات:
اظہار کا ذریعہ: زبان انسان کے خیالات، جذبات، اور معلومات کو دوسروں تک پہنچانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف الفاظ کے ذریعے بلکہ اشارے، آوازوں اور تحریر کے ذریعے بھی کام کرتی ہے۔
ڈھانچہ یا گرامر: ہر زبان کا ایک مخصوص ڈھانچہ یا گرامر ہوتا ہے، جو الفاظ کے درست استعمال اور ترتیب کو طے کرتا ہے۔ اس ڈھانچے کے تحت الفاظ کو جملوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ معنی واضح ہو سکے۔
مواصلاتی کردار: زبان کا بنیادی مقصد معلومات کی ترسیل ہے۔ یہ انسانوں کے درمیان مؤثر مواصلات کو ممکن بناتی ہے اور معاشرتی تعلقات کے قیام اور فروغ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ثقافت کا عکاس: زبان کسی قوم یا معاشرت کی ثقافت اور روایات کی عکاسی کرتی ہے۔ ہر زبان اپنے اندر اس معاشرت کے خیالات، تاریخ، اور تہذیب کے پہلو چھپائے ہوئے ہوتی ہے جس میں وہ بولی جاتی ہے۔
ترقی پذیر: زبان جامد نہیں ہوتی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیوں کا شکار ہوتی ہے۔ الفاظ کے معانی بدلتے ہیں، نئے الفاظ وجود میں آتے ہیں، اور پرانے الفاظ معدوم ہو جاتے ہیں۔
زبان کی اقسام:
بولی جانے والی زبان: یہ زبان وہ ہے جسے بول کر یا سن کر استعمال کیا جاتا ہے، جیسے اردو، انگریزی، چینی وغیرہ۔
تحریری زبان: یہ زبان تحریر کے ذریعے استعمال ہوتی ہے، جس میں لکھنے اور پڑھنے کا عمل شامل ہوتا ہے۔
اشاراتی زبان: یہ زبان بولنے یا سننے کی صلاحیت سے محروم لوگوں کے لیے ہوتی ہے، جو اشاروں کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
زبان ایک ایسا وسیلہ ہے جو انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت اور اپنے خیالات کو منتقل کرنے کی صلاحیت فراہم کرتا ہے۔ یہ نہ صرف معاشرتی تعلقات قائم کرنے میں مددگار ہے، بلکہ ہر زبان اپنی ثقافت اور تاریخ کی نمائندہ بھی ہوتی ہے۔
بازاری زبان کی تعریف
بازاری زبان سے مراد وہ زبان ہے جو عام طور پر غیر رسمی، نچلے طبقے یا غیر تعلیم یافتہ حلقوں میں استعمال ہوتی ہے اور اس میں عام بول چال کے الفاظ، محاورے، اور کبھی کبھی توہین آمیز یا غیر شائستہ الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ زبان اکثر رسمی یا ادبی زبان کے معیار پر پوری نہیں اترتی اور اسے بعض اوقات بے ہودہ، غیر موزوں یا غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے۔
بازاری زبان کا استعمال عام طور پر روزمرہ کی گفتگو، جھگڑوں، بازاروں میں لین دین یا سماجی تناؤ کے مواقع پر کیا جاتا ہے، اور یہ جذبات کو براہ راست اور بغیر کسی لگی لپٹی کے ظاہر کرتی ہے۔
بازاری زبان کی کچھ مثالیں درج ذیل ہیں:
گھٹیا آدمی – یہ جملہ کسی کی توہین کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے، جو اس کے کردار یا عادات کو حقیر یا نچلا ظاہر کرتا ہے۔
دماغ خراب ہے؟ – یہ محاورہ طنزیہ یا غصے میں استعمال ہوتا ہے، جب کسی کی بات یا حرکت ناقابلِ فہم ہو۔
تیرا دماغ ٹھکانے لگاؤں گا – دھمکی کے طور پر استعمال ہونے والا جملہ جو کسی کو سختی سے قابو میں لانے کا عندیہ دیتا ہے۔
نکل یہاں سے – سخت اور غصے سے بھرپور انداز میں کسی کو جانے کے لیے کہا جاتا ہے۔
تو کچھ بھی نہیں ہے – کسی کی بے قدری یا کمتر حیثیت ظاہر کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
یہ وہ زبان ہے جو عام طور پر غیر رسمی، جذباتی یا غصے کی حالت میں بولی جاتی ہے اور رسمی یا ادبی ماحول میں اس کا استعمال غیر موزوں سمجھا جاتا ہے۔
بکواس بند کر – یہ جملہ کسی کو چپ کرانے یا اس کی بات کو غیر اہم اور فضول قرار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
ابے او چل – یہ غیر شائستہ جملہ کسی کو نظرانداز کرنے یا بے وقوف سمجھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
تمیز نہیں ہے؟ – یہ سوال طنز کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جب کسی کے غیر مہذب رویے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔
مُفت کی روٹیاں توڑ رہا ہے – کسی کو نکما یا کاہل قرار دینے کے لیے استعمال ہونے والا محاورہ۔
دماغ خراب کر دیا – جب کوئی بات یا شخص کسی کو بہت تنگ کر دے، تو یہ جملہ شکایت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
یہ زبان جذباتی ردعمل کے طور پر استعمال ہوتی ہے اور اس میں اکثر بے تکلفی، غصہ، یا طنز شامل ہوتا ہے۔
تیرا باپ کون ہے؟ – یہ جملہ عام طور پر کسی کو دھمکی دینے یا اس کی حیثیت کو کمتر دکھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
بھاڑ میں جا – یہ غصے یا بے زاری کا اظہار کرنے کے لیے کہا جاتا ہے، جب کسی کو دھتکارنا مقصود ہو۔
اتنی بڑی بات تیرے دماغ میں کہاں سے آئی؟ – طنز کے طور پر استعمال ہونے والا جملہ جو کسی کی قابلیت یا سوچنے کی صلاحیت کو حقیر دکھاتا ہے۔
تم جیسے ہزاروں ملیں گے – کسی کی بے قدری اور بے وقعتی کا اظہار کرنے والا جملہ۔
تو کون ہوتا ہے مجھے روکنے والا؟ – جب کوئی اپنی خودمختاری کا اظہار کرتا ہے اور کسی کو اس کے کام میں مداخلت سے روکتا ہے۔
تیرے جیسے بہت دیکھے ہیں – یہ جملہ کسی کو کمتر یا عام انسان ظاہر کرنے کے لیے بولا جاتا ہے۔
اکڑ کس بات کی ہے؟ – یہ طنزیہ جملہ کسی کے تکبر یا غرور پر اعتراض کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
تجھے سمجھ میں نہیں آتی؟ – کسی کی عقل یا سمجھ پر شک کرتے ہوئے کہا جاتا ہے، عام طور پر غصے یا چڑچڑاہٹ کے عالم میں۔
اپنا کام کر – کسی کو اپنے کام میں مداخلت کرنے سے روکنے یا ٹوکا ٹاکی سے باز رکھنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
خود کو کیا سمجھتا ہے؟ – یہ جملہ کسی کی خودپسندی یا بڑائی پر طنز کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔
یہ زبان عموماً روزمرہ کے جھگڑوں، بازاروں، اور عام بول چال میں استعمال ہوتی ہے اور اس کا مقصد عموماً غصہ، بے زاری یا بے تکلفی کا اظہار ہوتا ہے۔
بازاری زبان کی مزید مثالیں:
تجھ سے کچھ نہیں ہوگا – کسی کی صلاحیتوں یا قابلیت کو کمتر ثابت کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔
منہ بند کر – سختی یا غصے میں کسی کو خاموش کرانے کے لیے کہا جانے والا جملہ۔
اتنی پھرتی کہاں سے آئی؟ – طنزیہ طور پر کسی کے غیر متوقع اقدام یا کامیابی پر کہا جاتا ہے۔
چمچہ بننا بند کر – یہ جملہ کسی کو دوسروں کی چاپلوسی کرنے پر طنزاً کہا جاتا ہے۔
جوتے ماروں گا – دھمکی دینے کے لیے استعمال ہونے والا عام جملہ، جس میں جسمانی سزا کا عندیہ ہوتا ہے۔
یہ سب جملے غیر رسمی اور عموماً غیر مہذب انداز میں غصے، دھمکی یا طنز کے اظہار کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
بازاری زبان کا استعمال
بازاری زبان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اکثر سخت، طنزیہ اور کبھی کبھار توہین آمیز الفاظ و محاورے شامل ہوتے ہیں۔ اس طرزِ گفتگو میں جذباتی شدت نمایاں ہوتی ہے، اور یہ غصہ، نفرت، بے زاری، یا سخت ردِعمل کے اظہار کا ایک عام ذریعہ بن جاتی ہے۔ ایسے الفاظ یا جملے جو عام حالات میں غیر مناسب یا غیر مہذب سمجھے جاتے ہیں، بازاری زبان میں عام ہیں۔ مثال کے طور پر “دماغ خراب ہے؟” یا “منہ بند کر” جیسے جملے غصے یا طنز کا اظہار کرتے ہیں اور باقاعدہ زبان میں انہیں ناپسند کیا جاتا ہے۔
بازاری زبان کا استعمال اکثر ان مواقع پر ہوتا ہے جہاں لوگ اپنی ناپسندیدگی، غصہ یا بے چینی کو فوری اور براہ راست طریقے سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں۔ بازاروں میں سودا سلف کرتے وقت، جھگڑوں کے دوران، یا عام سڑکوں پر لوگوں کے درمیان ہونے والی بحث میں یہ زبان سنائی دیتی ہے۔ ان مواقع پر لوگ رسمی زبان کی بجائے آسان اور بے تکلف الفاظ استعمال کرتے ہیں، تاکہ اپنی بات کا اثر زیادہ تیزی سے اور جذباتی شدت کے ساتھ پہنچایا جا سکے۔
بازاری زبان کے استعمال کے معاشرتی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ یہ زبان سماجی فرق کو ظاہر کرتی ہے اور اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ کون سا طبقہ اپنی بات کو کس طریقے سے پیش کرتا ہے۔ بازاری زبان کا استعمال ایک جانب کمزور طبقے کی شناخت کا حصہ بنتا ہے، جبکہ دوسری جانب یہ اس طبقے کی محرومیوں اور فرسٹریشن کا عکاس بھی ہوتی ہے۔
بازاری زبان کا ادب یا رسمی گفتگو میں استعمال غیر مناسب سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف سننے والے کی توہین کر سکتی ہے، بلکہ بولنے والے کی شخصیت کا بھی منفی تاثر چھوڑتی ہے۔ تعلیمی اور پیشہ ورانہ مقامات پر اس زبان کا استعمال ممنوع سمجھا جاتا ہے اور اسے تہذیب اور شائستگی کے دائرے سے باہر قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم، غیر رسمی یا ذاتی محافل میں، جہاں دوستوں یا قریبی لوگوں کے درمیان بے تکلفی ہو، اس کا استعمال ایک عام بات سمجھی جاتی ہے۔
خلاصہ یہ کہ بازاری زبان ایک غیر معیاری، جذباتی اور کبھی کبھار توہین آمیز زبان ہے جو عموماً غیر رسمی مواقع پر استعمال کی جاتی ہے۔ اس کا استعمال سماجی سطح، تعلیم اور جذباتی حالات پر منحصر ہوتا ہے، اور اسے مہذب یا رسمی ماحول میں غیر مناسب سمجھا جاتا ہے۔
بازاری زبان کی ابتدا
بازاری زبان کی ابتدا سماجی اور ثقافتی عوامل سے جڑی ہوئی ہے اور یہ زبانیں انسانی معاشرت کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ وجود میں آئیں۔ بازاری زبان بنیادی طور پر ان مواقع پر پروان چڑھتی ہے جہاں مختلف طبقے، پیشہ ور گروہ، اور عام عوام مل کر روزمرہ کے مسائل حل کرنے کے لیے ایک غیر رسمی انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔
تاریخی پس منظر: بازاری زبان کی جڑیں قدیم زمانوں سے جڑی ہوئی ہیں، جب بازار، میلے، اور عوامی جگہیں لوگوں کے درمیان بات چیت کے بڑے مراکز ہوتے تھے۔ مختلف پیشہ ورانہ طبقے جیسے کاریگر، تاجر، اور محنت کش طبقے کے لوگ روزمرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بازاروں میں اکٹھا ہوتے تھے۔ یہاں غیر رسمی اور سادہ انداز میں لین دین ہوتا تھا، جس میں مختصر اور مؤثر جملے استعمال کیے جاتے تھے۔ اس قسم کی زبان کا مقصد وقت بچانا اور ایک دوسرے کو فوری طور پر سمجھانا ہوتا تھا، لہذا پیچیدہ اور باقاعدہ زبان کی بجائے آسان اور عام فہم الفاظ کا استعمال کیا جاتا تھا۔
معاشرتی تنوع اور زبان: بازاروں میں مختلف علاقوں، ثقافتوں، اور پس منظر سے آنے والے لوگ جمع ہوتے تھے، جو مختلف زبانیں بولتے تھے۔ اس تنوع کی وجہ سے ایسی زبان پروان چڑھی جس میں مختلف مقامی زبانوں کے الفاظ اور محاورے مل کر ایک سادہ اور عملی زبان کا حصہ بنے۔ اس دوران، اس میں غصے، جلدبازی، اور بے تکلفی کے عناصر شامل ہونے لگے، جو بازاروں اور عوامی جگہوں کے بے ہنگم ماحول کی عکاسی کرتے تھے۔
طبقاتی فرق: بازاری زبان کا تعلق عام طور پر نچلے طبقے یا کم تعلیم یافتہ حلقوں سے ہوتا ہے، جہاں باقاعدہ اور ادبی زبان کو کم استعمال کیا جاتا ہے۔ جب اعلیٰ طبقے کے افراد تعلیم اور تہذیب کے اعلیٰ معیارات قائم کرتے ہیں، تو بازاری زبان ان لوگوں کی بول چال کا حصہ بن جاتی ہے جو ان معیارات تک رسائی نہیں رکھتے۔ یوں بازاری زبان اکثر طبقاتی فرق اور سماجی ناانصافی کی علامت بھی بن جاتی ہے۔
شہری ترقی اور بازاری زبان: شہروں کے بڑھتے ہوئے ترقی یافتہ معاشروں میں، جہاں لوگ روزمرہ کے معاملات کو جلدی نمٹانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، بازاری زبان نے ایک اہم کردار ادا کیا۔ یہ زبان نہ صرف بازاروں بلکہ دیگر عوامی مقامات، جیسے بسوں، ریلوے اسٹیشنوں، اور دیگر عوامی مقامات پر بھی سنائی دیتی ہے۔ شہری زندگی کی تیز رفتار اور مصروفیت کے ماحول میں، لوگ آسان اور غیر رسمی انداز میں بات چیت کرتے ہیں تاکہ پیچیدگی سے بچا جا سکے۔
ادبی اور ثقافتی اثرات: ادب میں بھی بازاری زبان کا ذکر ملتا ہے، خصوصاً سماجی مسائل اور معاشرتی ناانصافی پر لکھے گئے ادب میں۔ مثلاً ان کہانیوں یا ڈراموں میں جہاں عام آدمی کی زندگی کے مسائل اور مشکلات بیان کی گئی ہیں، وہاں بازاری زبان کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ حقیقت پسندی اور کرداروں کی سچائی کو ظاہر کیا جا سکے۔
موجودہ دور میں بازاری زبان: آج کے دور میں بازاری زبان نہ صرف عوامی گفتگو کا حصہ ہے، بلکہ سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ نوجوان نسل، خاص طور پر، اپنی روزمرہ کی گفتگو میں بازاری زبان یا اس کے کچھ عناصر کا استعمال کرتی ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زبان اب مختلف طبقاتی اور ثقافتی حلقوں میں پھیل رہی ہے۔
بازاری زبان کی ابتدا اور اس کا ارتقاء معاشرتی ضرورتوں، طبقاتی فرق، اور زبان کی فطری ترقی کا حصہ ہے۔ یہ زبان سماجی، معاشی، اور ثقافتی عوامل کا عکاس ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں۔
بازاری زبان ایک غیر معیاری، جذباتی توہین آمیز زبان ہے
بازاری زبان کو عمومی طور پر غیر معیاری، جذباتی، اور کبھی کبھار توہین آمیز سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا مقصد ہمیشہ توہین نہیں ہوتا۔ یہ زبان غیر رسمی مواقع پر اور عوامی جگہوں میں عام بول چال کا حصہ ہوتی ہے۔ اس میں عام طور پر بے تکلفی، تیزی، اور جذباتیت نمایاں ہوتی ہے، جس کی وجہ سے اسے اکثر سخت اور غیر مہذب سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، بازاری زبان کی اصل پہچان یہ ہے کہ یہ لوگوں کی روزمرہ کی زندگی، ثقافتی پس منظر، اور طبقاتی فرق کا عکاس ہوتی ہے۔
غیر معیاری ہونے کا پہلو:
بازاری زبان رسمی یا ادبی زبان کے معیار پر پوری نہیں اترتی، کیونکہ اس میں سادگی، بے ساختگی اور غیر روایتی انداز میں بات کی جاتی ہے۔ اس میں گرامر اور زبان کے اصولوں کی سختی سے پیروی نہیں کی جاتی اور یہ زبان عام لوگوں کے درمیان فوری اور مؤثر گفتگو کا ذریعہ بنتی ہے۔
جذباتیت:
بازاری زبان جذبات کے اظہار کا ایک تیز اور مؤثر ذریعہ ہے۔ غصہ، ناراضگی، حیرت، یا جلد بازی جیسے جذبات کو بیان کرنے کے لیے اس میں سادہ اور فوری الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسے، “دماغ خراب ہے؟” یا “بھاڑ میں جا” جیسے جملے لوگوں کے جذبات کو فوری طور پر بیان کرتے ہیں۔
توہین آمیز پہلو:
بازاری زبان کے کچھ حصے توہین آمیز ہو سکتے ہیں، خاص طور پر جب اسے کسی کو نیچا دکھانے، مذاق اڑانے یا دھمکی دینے کے لیے استعمال کیا جائے۔ اس میں ایسے الفاظ یا جملے شامل ہو سکتے ہیں جو کسی کی ذات یا کردار کو نشانہ بناتے ہیں، جیسے “نکما” یا “گھٹیا آدمی”۔ یہ الفاظ عام طور پر غصے یا ناراضگی کے اظہار کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور بعض اوقات غیر اخلاقی یا ناپسندیدہ سمجھے جاتے ہیں۔
استعمال کی نوعیت:
یہ ضروری نہیں کہ بازاری زبان ہمیشہ توہین آمیز ہو، بلکہ اس کا زیادہ تر استعمال بے تکلف ماحول میں کیا جاتا ہے جہاں لوگ رسمی زبان سے گریز کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر دوستوں کی محفل میں یا کسی غیر رسمی موقع پر لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بازاری زبان میں بات کرتے ہیں تاکہ گفتگو میں دوستانہ یا مزاحیہ انداز پیدا ہو۔
سماجی اور ثقافتی اہمیت:
بازاری زبان کا تعلق عوامی زندگی، محنت کش طبقے اور روزمرہ کے مسائل سے ہے۔ یہ زبان اس طبقے کی بول چال اور زندگی کے طریقے کو ظاہر کرتی ہے۔ اگرچہ اسے غیر معیاری اور کبھی کبھار ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، لیکن اس کا استعمال انسانی جذبات، طبقاتی فرق، اور سماجی دائرے کی عکاسی کرتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ بازاری زبان ایک غیر معیاری اور جذباتی زبان ضرور ہے، مگر اسے ہمیشہ توہین آمیز سمجھنا درست نہیں۔ اس کے استعمال کا دارومدار موقع اور سیاق و سباق پر ہوتا ہے، اور اس کا اصل مقصد گفتگو کو آسان اور بے تکلف بنانا ہے۔
بازاری زبان کا ادب یا رسمی گفتگو میں استعمال غیر مناسب سمجھا جاتا ہے
جی ہاں، بازاری زبان کا ادب یا رسمی گفتگو میں استعمال عام طور پر غیر مناسب سمجھا جاتا ہے۔ اس کی چند اہم وجوہات درج ذیل ہیں:
- ادبی معیار اور وقار:
ادب اور رسمی گفتگو میں زبان کی شائستگی اور معیاری انداز کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بازاری زبان میں چونکہ اکثر عامیانہ، غیر رسمی، اور بعض اوقات سخت الفاظ ہوتے ہیں، اس لیے اسے ادبی تحریروں یا رسمی مکالمے میں استعمال کرنا ادبی معیار اور وقار کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ ادبی زبان میں اظہار کی خوبصورتی، معانی کی گہرائی، اور الفاظ کی سلیقہ مندی اہمیت رکھتی ہے، جب کہ بازاری زبان ان عناصر کو متاثر کرتی ہے۔
- معاشرتی اور ثقافتی اصول:
رسمی مواقع اور اداروں، جیسے تعلیمی، کاروباری، یا حکومتی سطح پر، ایک معیاری زبان کا استعمال ہوتا ہے جو احترام اور تہذیب کا مظہر ہو۔ بازاری زبان، جو عام طور پر غیر مہذب اور بے تکلف سمجھی جاتی ہے، ان مواقع کے لیے غیر موزوں ہوتی ہے کیونکہ یہ سماجی و ثقافتی اصولوں کے خلاف جا سکتی ہے۔
- پیشہ ورانہ ماحول میں غیر موزونیت:
پیشہ ورانہ زندگی میں، جیسے دفتری یا کاروباری ملاقاتوں میں، زبان کے انتخاب میں احتیاط ضروری ہوتی ہے تاکہ گفتگو کا مقصد مؤثر انداز میں اور مہذب طریقے سے پہنچایا جا سکے۔ بازاری زبان کا استعمال پیشہ ورانہ دائرے میں غیر سنجیدہ، غیر پیشہ ورانہ اور بعض اوقات توہین آمیز سمجھا جاتا ہے۔ اس کا استعمال بات چیت کی سنجیدگی کو کم کر سکتا ہے اور سامعین پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔
- اخلاقی اور تہذیبی معیارات:
اخلاقی اور تہذیبی معیارات میں ادب اور شائستگی کا اعلیٰ مقام ہوتا ہے، اور بازاری زبان ان معیارات کی نفی کرتی ہے۔ ادب میں، ایک ایسی زبان کا استعمال کیا جاتا ہے جو کرداروں کے جذبات اور تجربات کو خوبصورتی سے پیش کر سکے، جبکہ بازاری زبان عموماً ناپسندیدہ، سخت اور بے تہذیبی کا احساس دلاتی ہے۔
- سامعین یا قارئین کا احترام:
رسمی گفتگو یا ادب میں مخاطبین کا احترام ضروری ہوتا ہے۔ بازاری زبان چونکہ اکثر توہین آمیز یا غیر شائستہ ہو سکتی ہے، اس لیے اسے سننے یا پڑھنے والے کو ناگوار گزر سکتا ہے۔ سامعین یا قارئین کی توقعات ہوتی ہیں کہ انہیں مہذب اور وقار والی زبان سننے یا پڑھنے کو ملے، اور بازاری زبان ان توقعات پر پورا نہیں اترتی۔
- ادبی تخلیقات میں حدود:
ادبی تخلیقات میں بازاری زبان کا استعمال بعض اوقات محدود یا مخصوص مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جیسے کسی کردار کے پس منظر یا ماحول کی وضاحت کرنے کے لیے۔ لیکن اگر اس کا حد سے زیادہ یا بے محل استعمال ہو، تو یہ ادبی وقار کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ زیادہ تر ادیب اور شاعر بازاری زبان سے پرہیز کرتے ہیں تاکہ ان کی تخلیقات کا معیار اور حسن برقرار رہے۔
- تہذیبی فرق اور طبقاتی تفریق:
بازاری زبان کا استعمال عام طور پر نچلے طبقے یا عوامی حلقوں میں زیادہ ہوتا ہے، جبکہ رسمی گفتگو اور ادب کا تعلق اعلیٰ طبقے اور تعلیم یافتہ لوگوں سے ہوتا ہے۔ اس لیے جب بازاری زبان کو رسمی گفتگو میں استعمال کیا جاتا ہے، تو یہ سماجی اور تہذیبی فرق کی نشاندہی کرتا ہے اور بعض اوقات طبقاتی تضادات کو بھی نمایاں کرتا ہے۔
بازاری زبان میں بے تکلفی اور جذباتیت کا عنصر غالب ہوتا ہے، جبکہ رسمی گفتگو اور ادب میں زبان کا استعمال معیاری، شائستہ اور باوقار ہونا ضروری ہے۔ اس لیے بازاری زبان کا ادب یا رسمی گفتگو میں استعمال غیر مناسب اور ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دونوں سیاق و سباق میں نہ صرف زبان کے وقار کو نقصان پہنچا سکتی ہے بلکہ سننے یا پڑھنے والے کے جذبات کو بھی مجروح کر سکتی ہے۔