اُردو اَدب میں خواتین کے مسائل کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے

ادب کے فروغ میںخواتین کا ایک اہم حصہ ہے اور انہوں نے بھی اپنی استعداد، صلاحیت اور زمانے کے لحاظ سے خود اپنے مسائل پر مختلف اصناف میں روشنی ڈالی ہے۔

In every age, women have made their role clear in literature as well as in other areas of life. Photo: INN

ہر زمانے میں خواتین نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح ادب میں بھی اپنا کردار واضح کیا ہے۔ تصویر : آئی این این

یہ موضوع تو اس قدر وسیع ہے کہ اس پر پوری کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ چونکہ ابتداء سے ہی ادب میں کسی نہ کسی صورت عورت اور اس کے مسائل کو موضوع بنایا گیا، اپنے اپنے انداز اور زمانے کے لحاظ سے ادب کے فروغ میں بھی خواتین کا ایک اہم حصہ ہے اور انہوں نے بھی اپنی استعداد، صلاحیت اور زمانے کے لحاظ سے خود اپنے مسائل پر مختلف اصناف میں روشنی ڈالی ہے۔

 جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، اس کی ابتداء غزل سے ہوئی جو خالص مردانہ طرز احساس کی شاعری ہے جس میں عورت کے حسن و جمال، ناز و انداز، عشوؤں، غمزوں کو موضوع ِ سخن بنایا گیا۔ وہ بس ایک معشوق ہے اور اس کا کام مرد کو آسودگی پہنچانا ہے۔

مجھ کو سمجھا گیا میں شعر مجسم خود ہوں

بانکپن اور ادا /شرم و حیا/کالی زلفوں کی گھٹا

دستِ حنائی کا کرم/یہی سرمایۂ ہستی ہے مرا

اردو شاعری میں اس کی مثالیں دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مثنوی، مرثیے میں بھی عورت کا ذکر ہے۔ اول الذکر میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ غزل میں جو اس کی تصویر ہے وہی نظر آتی ہے اور مرثیے کی نوعیت دوسری ہے۔ اس میں جن خواتین کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذہبی طور پر قابل عقیدت ہیں اور خاص واقعہ میں جو ان کا رول ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۱۸۵۷ء ہندوستان میں دورِ جدید کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس زمانے میں عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کا سوال بھی اٹھا اور اس کو ادب کا موضوع بھی بنایا گیا۔ زنانہ رسائل نکلنے لگے جیسے شریف بی بی، خاتون، تہذیب نسواں، عصمت وغیرہ۔ ان رسالوں سے خواتین نے اپنے مسائل کو سمجھنا شروع کیا۔ بہت سی خواتین نے اس میں لکھا بھی۔ مولوی ممتاز علی اور راشد الخیری نے خاص طورسے اپنے رسائل ’تہذیب نسواں ‘ اور ’عصمت‘ میں خواتین کی تعلیم اور ان کی سماجی حیثیت سے متعلق مضامین شائع کئے اور خواتین میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔

شاعروں میں سب سے پہلے حالیؔ نے آواز بلند کی:

اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے

اور سماج میں عورت کے خلاف ہونے والی ناانصافی کی نشاندہی کی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں بھی عورتوں کے مسائل کو موضوع بنایا، مثلاً کم سنی کی شادی، ذات پات کی فکر میں لڑکی کی غلط جگہ شادی اور ’بیوہ کی مناجات‘ تو ان کی اس موضوع پر سب سے اہم نظم ہے جس میں انہوں نے کمسن ہندوستانی بیوہ کی محروم زندگی کی دردناک تصویر نہایت پراثرانداز میں کھینچی ہے۔

اکبرؔ اور اقبالؔ نے عورتوں کی اس آزادی کی مخالفت کی جو تقلید مغرب میں کی جارہی تھی اور اس آزادی سے عورت کا وہ تصور جو خالص مشرقی ہے، مجروح ہورہا تھا۔ اکبرؔ اور ان سے زیادہ اقبالؔ کے ہاں عورت کا تصور قدامت پسندانہ تھا۔ وہ دونوں اس کو زمرد کا گلوبند قرار دے کر چاردیواری میں بٹھانا چاہتے تھے۔ ان کو اس اعتراف تھا کہ :وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

مگر مرد اس کا نگہبان ہے :

نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد

اکبرؔ کا کہنا تھا:

تعلیم لڑکیوں کی ضروری ہے تو ہے مگر

خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

ترقی پسند شاعرو ں نے اپنی شاعری میں عورت کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ اس کو محبوبہ کے ساتھ ساتھ رفیق کہا، آنچل کو پرچم بنانے کی ترغیب دی۔ اس کے حسن کے نام سلام تو اب بھی لکھے جاتے، فطرت کے بہاریں نغمے بھی سنائے جاتے، پیکر حیات کہا جاتا مگر ساتھ ساتھ اس کو بغاوت کا راگ بھی سنایا جانے لگا۔ اس کو تاج محل میں آکر ملنے سے بھی روکا جانے لگا کہ وہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی محبت کی نشانی ہے اور اس کی توجہ ان مزدوروں کی طرف دلائی جانے لگی جنہوں نےتاج محل تعمیر کیا، مگر ان کے پیاروں کے مقابر بے نام و نشان رہے تھے۔ اس سے ساز بیداری اٹھانے کی فرمائش ہونے لگی۔ اس کو ایک ساتھی کے طور پر مخاطب کیا جانے لگا جو زندگی کی جدوجہد میں مرد کی برابر کی ساتھی ہے:

چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں

کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے (ساحر)

بقول شارب ردولوی ’’ترقی پسند تحریک کے اثر کے تحت اس کے روایتی تصور میں تبدیلی آئی اور شعوری طور پر اس کے مسائل یا زندگی کی دوڑ میں اس کے برابر ہونے کا احساس ہونے لگا۔ ‘‘

اس کے بعد جدید شاعری میں خاص طور سے خواتین شاعرات نے عورت کے ان مسائل کی نشاندہی کی جو آزاد تعلیم یافتہ عورت کو درپیش تھے۔ بظاہر جو مرد کی زندگی کی رفیق اور ساتھی ہے لیکن دراصل آج بھی اس کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اب جدید شاعری میں عورت کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ اس کے اس روپ کی نفی کرتی ہے۔

فکشن میں ناول کی ابتداء نذیر احمد کے قصوں سے ہوتی ہے جن میں تمام تر عورتوں کے مسائل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت، حسن انتظام، خاندان میں ان کی مرکزی حیثیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل سے ہی ہمیں خواتین کے لکھے ہوئے ناول ملنے لگے ہیں۔ یہ سب ناول معاشرتی اصلاحی ہیں، ان کا موضوع عورت کی سماجی حیثیت ہے، تعلیم، پردہ، توہم پرستی، سوتیلی ماؤں کی بدسلوکی، موت کا غم، ساس نندوں کے ظلم و ستم، شوہروں کی دوسری عورتوں طوائفوں وغیرہ میں دلچسپی لینا وغیرہ ہیں۔ خواتین ناول نگاروں میں رشیدۃ النساء، والدہ افضل علی طیبہ، خدیو جنگ، صغراہمایوں مرزا، انوری بیگم، حشمت النساء، احمدی بیگم اور نذر سجاد حیدر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں نذرسجاد حیدر نے عورت کے مسائل کو خاص طور سے اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی تعلیم، آزادی اور سماج میں بہتر حیثیت کی حمایت کی ہے اور ساتھ ساتھ مغرب زدہ خواتین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

’امراؤ جان اداؔ‘ میں مرزا رسوا نے طوائف کے مسئلے کو اٹھایا۔ ان حالات کی نشاندہی کی جو عورت کو طوائف بناتے ہیں اور ہر سماج اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس کے بعد اکثر ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے اس مسئلے کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ طوائفوں اور عصمت فروش عورتوں کی زندگی کو منٹو نے اپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ موجودہ زمانے میں واجدہ تبسم نے حیدرآباد کے جاگیرداری نظام میں حویلیوں اور کوٹھیوں کے اندر بسنے والی ماماؤں اور خادماؤں کے جنسی استحصال کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا جو ان کے مالکان کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔

 پریم چند نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں عورت کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ اس میں اعلیٰ طبقے کی عورتیں بھی ہیں، متوسط اور نچلے طبقے کی بھی۔ گھریلو بھی ہیں اور کھیتوں میں کام کرنے والیاں بھی۔ سیاست میں حصہ لینے والی اور پڑھی لکھی خود مختارعو رت بھی تھی۔ ان سب کے مسائل کو انہوں نے اٹھایا ہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورت کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ خاص طور سے رشید جہاں نے نابرابری، سماج میں اس کی کمترحیثیت اور جہالت کو اپنے افسانوں اور ڈراموں کا موضوع بنایا۔ عصمت چغتائی، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، صدیقہ بیگم، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور پھر جیلانی بانوں نے عورت کے مختلف مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور اکثر افسانوں کا تھیم عورت ہے۔ کچھ اس کی انٹرنل مجبوریاں وار کچھ سماج کی پیدا کی ہوئی۔

 اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اردو ادب میں عورتوں کے مسائل کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اس ماڈرن زمانے میں بھی اس کی سماجی حیثیت زیر بحث ہے اور وہ ادب، صحافت اور میڈیا کا خاص موضوع ہے۔

صغرا مہدی

ادب کے فروغ میںخواتین کا ایک اہم حصہ ہے اور انہوں نے بھی اپنی استعداد، صلاحیت اور زمانے کے لحاظ سے خود اپنے مسائل پر مختلف اصناف میں روشنی ڈالی ہے۔

یہ موضوع تو اس قدر وسیع ہے کہ اس پر پوری کتاب تصنیف کی جاسکتی ہے۔ چونکہ ابتداء سے ہی ادب میں کسی نہ کسی صورت عورت اور اس کے مسائل کو موضوع بنایا گیا، اپنے اپنے انداز اور زمانے کے لحاظ سے ادب کے فروغ میں بھی خواتین کا ایک اہم حصہ ہے اور انہوں نے بھی اپنی استعداد، صلاحیت اور زمانے کے لحاظ سے خود اپنے مسائل پر مختلف اصناف میں روشنی ڈالی ہے۔

 جہاں تک شاعری کا تعلق ہے، اس کی ابتداء غزل سے ہوئی جو خالص مردانہ طرز احساس کی شاعری ہے جس میں عورت کے حسن و جمال، ناز و انداز، عشوؤں، غمزوں کو موضوع ِ سخن بنایا گیا۔ وہ بس ایک معشوق ہے اور اس کا کام مرد کو آسودگی پہنچانا ہے۔

مجھ کو سمجھا گیا میں شعر مجسم خود ہوں

بانکپن اور ادا /شرم و حیا/کالی زلفوں کی گھٹا

دستِ حنائی کا کرم/یہی سرمایۂ ہستی ہے مرا

اردو شاعری میں اس کی مثالیں دینے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔

اس کے علاوہ مثنوی، مرثیے میں بھی عورت کا ذکر ہے۔ اول الذکر میں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ غزل میں جو اس کی تصویر ہے وہی نظر آتی ہے اور مرثیے کی نوعیت دوسری ہے۔ اس میں جن خواتین کا ذکر کیا گیا ہے وہ مذہبی طور پر قابل عقیدت ہیں اور خاص واقعہ میں جو ان کا رول ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

۱۸۵۷ء ہندوستان میں دورِ جدید کا نقطۂ آغاز ہے۔ اس زمانے میں عورت کی سماجی حیثیت کو بہتر بنانے کا سوال بھی اٹھا اور اس کو ادب کا موضوع بھی بنایا گیا۔ زنانہ رسائل نکلنے لگے جیسے شریف بی بی، خاتون، تہذیب نسواں، عصمت وغیرہ۔ ان رسالوں سے خواتین نے اپنے مسائل کو سمجھنا شروع کیا۔ بہت سی خواتین نے اس میں لکھا بھی۔ مولوی ممتاز علی اور راشد الخیری نے خاص طورسے اپنے رسائل ’تہذیب نسواں ‘ اور ’عصمت‘ میں خواتین کی تعلیم اور ان کی سماجی حیثیت سے متعلق مضامین شائع کئے اور خواتین میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش کی۔

شاعروں میں سب سے پہلے حالیؔ نے آواز بلند کی:

اے ماؤ بہنو بیٹیو دنیا کی زینت تم سے ہے

ملکوں کی بستی ہو تمہیں قوموں کی عزت تم سے ہے

اور سماج میں عورت کے خلاف ہونے والی ناانصافی کی نشاندہی کی۔ انہوں نے اپنی نظموں میں بھی عورتوں کے مسائل کو موضوع بنایا، مثلاً کم سنی کی شادی، ذات پات کی فکر میں لڑکی کی غلط جگہ شادی اور ’بیوہ کی مناجات‘ تو ان کی اس موضوع پر سب سے اہم نظم ہے جس میں انہوں نے کمسن ہندوستانی بیوہ کی محروم زندگی کی دردناک تصویر نہایت پراثرانداز میں کھینچی ہے۔

اکبرؔ اور اقبالؔ نے عورتوں کی اس آزادی کی مخالفت کی جو تقلید مغرب میں کی جارہی تھی اور اس آزادی سے عورت کا وہ تصور جو خالص مشرقی ہے، مجروح ہورہا تھا۔ اکبرؔ اور ان سے زیادہ اقبالؔ کے ہاں عورت کا تصور قدامت پسندانہ تھا۔ وہ دونوں اس کو زمرد کا گلوبند قرار دے کر چاردیواری میں بٹھانا چاہتے تھے۔ ان کو اس اعتراف تھا کہ :وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

مگر مرد اس کا نگہبان ہے :

نسوانیت ِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد

اکبرؔ کا کہنا تھا:

تعلیم لڑکیوں کی ضروری ہے تو ہے مگر

خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

ترقی پسند شاعرو ں نے اپنی شاعری میں عورت کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ اس کو محبوبہ کے ساتھ ساتھ رفیق کہا، آنچل کو پرچم بنانے کی ترغیب دی۔ اس کے حسن کے نام سلام تو اب بھی لکھے جاتے، فطرت کے بہاریں نغمے بھی سنائے جاتے، پیکر حیات کہا جاتا مگر ساتھ ساتھ اس کو بغاوت کا راگ بھی سنایا جانے لگا۔ اس کو تاج محل میں آکر ملنے سے بھی روکا جانے لگا کہ وہ ایک مطلق العنان بادشاہ کی محبت کی نشانی ہے اور اس کی توجہ ان مزدوروں کی طرف دلائی جانے لگی جنہوں نےتاج محل تعمیر کیا، مگر ان کے پیاروں کے مقابر بے نام و نشان رہے تھے۔ اس سے ساز بیداری اٹھانے کی فرمائش ہونے لگی۔ اس کو ایک ساتھی کے طور پر مخاطب کیا جانے لگا جو زندگی کی جدوجہد میں مرد کی برابر کی ساتھی ہے:

چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں

کہ ہم کو جنگ و جدل کے چلن سے نفرت ہے (ساحر)

بقول شارب ردولوی ’’ترقی پسند تحریک کے اثر کے تحت اس کے روایتی تصور میں تبدیلی آئی اور شعوری طور پر اس کے مسائل یا زندگی کی دوڑ میں اس کے برابر ہونے کا احساس ہونے لگا۔ ‘‘

اس کے بعد جدید شاعری میں خاص طور سے خواتین شاعرات نے عورت کے ان مسائل کی نشاندہی کی جو آزاد تعلیم یافتہ عورت کو درپیش تھے۔ بظاہر جو مرد کی زندگی کی رفیق اور ساتھی ہے لیکن دراصل آج بھی اس کو اپنی زندگی کے فیصلے کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ اب جدید شاعری میں عورت کی جو تصویر ابھرتی ہے وہ اس کے اس روپ کی نفی کرتی ہے۔

فکشن میں ناول کی ابتداء نذیر احمد کے قصوں سے ہوتی ہے جن میں تمام تر عورتوں کے مسائل ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت، حسن انتظام، خاندان میں ان کی مرکزی حیثیت کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل سے ہی ہمیں خواتین کے لکھے ہوئے ناول ملنے لگے ہیں۔ یہ سب ناول معاشرتی اصلاحی ہیں، ان کا موضوع عورت کی سماجی حیثیت ہے، تعلیم، پردہ، توہم پرستی، سوتیلی ماؤں کی بدسلوکی، موت کا غم، ساس نندوں کے ظلم و ستم، شوہروں کی دوسری عورتوں طوائفوں وغیرہ میں دلچسپی لینا وغیرہ ہیں۔ خواتین ناول نگاروں میں رشیدۃ النساء، والدہ افضل علی طیبہ، خدیو جنگ، صغراہمایوں مرزا، انوری بیگم، حشمت النساء، احمدی بیگم اور نذر سجاد حیدر کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں نذرسجاد حیدر نے عورت کے مسائل کو خاص طور سے اپنے ناولوں کا موضوع بنایا ہے۔ ان کی تعلیم، آزادی اور سماج میں بہتر حیثیت کی حمایت کی ہے اور ساتھ ساتھ مغرب زدہ خواتین کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

’امراؤ جان اداؔ‘ میں مرزا رسوا نے طوائف کے مسئلے کو اٹھایا۔ ان حالات کی نشاندہی کی جو عورت کو طوائف بناتے ہیں اور ہر سماج اس سے نفرت کرتا ہے۔ اس کے بعد اکثر ناول نگاروں اور افسانہ نگاروں نے اس مسئلے کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ طوائفوں اور عصمت فروش عورتوں کی زندگی کو منٹو نے اپنے بیشتر افسانوں کا موضوع بنایا۔ موجودہ زمانے میں واجدہ تبسم نے حیدرآباد کے جاگیرداری نظام میں حویلیوں اور کوٹھیوں کے اندر بسنے والی ماماؤں اور خادماؤں کے جنسی استحصال کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا جو ان کے مالکان کے ہاتھوں ہوتا رہا ہے۔

 پریم چند نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں عورت کو مرکزی حیثیت دی ہے۔ اس میں اعلیٰ طبقے کی عورتیں بھی ہیں، متوسط اور نچلے طبقے کی بھی۔ گھریلو بھی ہیں اور کھیتوں میں کام کرنے والیاں بھی۔ سیاست میں حصہ لینے والی اور پڑھی لکھی خود مختارعو رت بھی تھی۔ ان سب کے مسائل کو انہوں نے اٹھایا ہے۔ ترقی پسند افسانہ نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورت کی مساوی حیثیت پر زور دیا۔ خاص طور سے رشید جہاں نے نابرابری، سماج میں اس کی کمترحیثیت اور جہالت کو اپنے افسانوں اور ڈراموں کا موضوع بنایا۔ عصمت چغتائی، صالحہ عابد حسین، رضیہ سجاد ظہیر، صدیقہ بیگم، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور اور پھر جیلانی بانوں نے عورت کے مختلف مسائل کو اپنی تخلیقات میں پیش کیا۔ قرۃ العین حیدر کے ناولوں اور اکثر افسانوں کا تھیم عورت ہے۔ کچھ اس کی انٹرنل مجبوریاں وار کچھ سماج کی پیدا کی ہوئی۔

 اس طرح اگر جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھیں گے کہ اردو ادب میں عورتوں کے مسائل کو خاص اہمیت حاصل رہی ہے اور اس ماڈرن زمانے میں بھی اس کی سماجی حیثیت زیر بحث ہے اور وہ ادب، صحافت اور میڈیا کا خاص موضوع ہے۔