تحریر:نصیر وارثی
کالم صحافت کی ایک صنف ہے جس میں کالم نگار اپنے خیالات، تجربات، یا تبصرات کو عام فہم اور مؤثر انداز میں قارئین تک پہنچاتا ہے۔ یہ مضمون کی شکل میں ہوتا ہے اور اخبارات، رسائل، یا آن لائن میڈیا میں باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ کالم میں کسی خاص موضوع پر رائے دی جاتی ہے، جو معاشرتی، سیاسی، مذہبی یا ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کر سکتی ہے۔ کالم عام طور پر مختصر، معلوماتی اور پر اثر ہوتا ہے جس کا مقصد قارئین کو کسی موضوع کے بارے میں آگاہی دینا یا ان میں سوچنے کی تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے۔
کالم نگار کا انداز تحریر عموماً ذاتی اور منفرد ہوتا ہے، جس میں طنز و مزاح، تجزیہ، یا دیگر اسلوب کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری کو متاثر کیا جا سکے۔
کالم صحافت کی ایک صنف ہے جس میں کالم نگار اپنے خیالات، تجربات، یا تبصرات کو عام فہم اور مؤثر انداز میں قارئین تک پہنچاتا ہے۔ یہ مضمون کی شکل میں ہوتا ہے اور اخبارات، رسائل، یا آن لائن میڈیا میں باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ کالم میں کسی خاص موضوع پر رائے دی جاتی ہے، جو معاشرتی، سیاسی، مذہبی یا ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کر سکتی ہے۔ کالم عام طور پر مختصر، معلوماتی اور پر اثر ہوتا ہے جس کا مقصد قارئین کو کسی موضوع کے بارے میں آگاہی دینا یا ان میں سوچنے کی تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے۔
کالم نگار کا انداز تحریر عموماً ذاتی اور منفرد ہوتا ہے، جس میں طنز و مزاح، تجزیہ، یا دیگر اسلوب کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری کو متاثر کیا جا سکے۔اردو مزاحیہ کالم نگاری، جسے “مضاحیہ کالم” یا “مزاحیہ کالم” بھی کہا جاتا ہے، اردو ادب میں ایک بھرپور تاریخ رکھتی ہے۔ مزاحیہ کالم لکھنے کی روایت 20ویں صدی کے اوائل سے شروع ہوئی جب ادبی میگزین “شاعر” نے اکبر الہ آبادی، شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے مشہور ادیبوں کے مزاحیہ مضامین شائع کرنا شروع کئے۔
اس صنف کو 1950 کی دہائی میں اس وقت مقبولیت حاصل ہوئی جب مشتاق احمد یوسفی، شفیق الرحمان اور ابن انشاء جیسے مصنفین نے اخبارات اور رسائل کے لیے مزاحیہ کالم لکھنا شروع کر دیے۔ یہ کالم عام طور پر روزمرہ کی زندگی، سماجی مسائل، سیاست اور انسانی رویے پر مختصر، لطیف اور طنزیہ تبصرے ہوتے تھے۔
اردو کے مشہور مزاح نگاروں میں سے ایک مشتاق احمد یوسفی تھے، جن کے کالم اور کتابیں، جن میں “چراغ تلے” اور “زرغوشت” شامل ہیں، اردو ادب کی کلاسیکی مانی جاتی ہیں۔ دیگر نامور مزاح نگاروں میں شفیق الرحمان، ابنِ انشاء، (، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دنیا گول ہے، بلو کا بستہ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں) انور مقصود( ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا) ،رتن ناتھ سرشار ( سیر کوہسار) رشید احمد صدیقی (خنداں، طنزیات و مضحکات )،رؤف پاریکھ،سید محمد جعفری، شفیق الرحمن(دجلہ، حماقتیں، مزید حماقتیں، کرنیں، شگوفے وغیرہ)صدیق سالک،مجتبیٰ حسین،محمد یونس بٹ، نادر خان ( سَرگِروہ ، با اَدب بامُحاورہ ہوشیار) ،پریم چند،قدرت اللہ شہاب،کرنل محمد خان(، بزم آرائیاں) شوکت تھانوی، اور پطرس بخاری، ( پطرس کے مضامین) وغیرہ قابل ذکر ہیں-
اردو مزاحیہ کالم نگاری کی روایت پاکستان اور ہندوستان میں پروان چڑھ رہی ہے، بہت سے ہم عصر ادیبوں نے اپنے پیشروؤں کی وراثت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مقبولیت نے اردو مزاح نگاروں کی ایک نئی نسل کو بھی جنم دیا ہے جو ان پلیٹ فارمز کا استعمال اپنے دلچسپ مشاہدات کو وسیع تر سامعین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، اردو مزاحیہ کالم بدلتے وقت اور معاشرے کو درپیش نئے چیلنجوں کی عکاسی کرنے کے لیے تیار ہوا ہے۔ جدید اردو مزاح نگار سیاسی اور سماجی تبصروں سے لے کر صنفی کردار اور یہاں تک کہ ذہنی صحت تک بہت سے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔
مزاح نگار اپنے سامعین تک پہنچنے کے لیے مختلف ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں، بشمول پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور آن لائن بلاگ۔ بہت سے اردو مزاح نگاروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے فیس بک اور ٹویٹر پر بڑے پیمانے پر پیروکار تیار کیے ہیں، جہاں وہ باقاعدگی سے موجودہ واقعات اور ثقافتی رجحانات پر اپنی مزاحیہ تحریریں پوسٹ کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اردو مزاحیہ کالم نے ٹیلی ویژن شوز اور اسٹینڈ اپ کامیڈی کی شکل میں تفریح کی ایک نئی صنف کو بھی جنم دیا ہے۔ انور مقصود اور معین اختر جیسے مقبول اردو مزاح نگاروں نے اپنے ٹیلی ویژن شوز کے ذریعے بڑے پیمانے پر پیروی حاصل کی ہے، جہاں وہ سامعین کے سامنے مزاح کے اپنے منفرد برانڈ کی نمائش کرتے ہیں۔
آخر میں، اردو مزاحیہ کالم لکھنے کی ایک طویل اور بھرپور روایت ہے، جو پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہے، فروغ پا رہی ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسے ابتدائی علمبردار سے لے کر جدید دور کے مزاح نگاروں تک، اردو مزاحیہ کالم نے معاشرے اور انسانی رویوں کے بارے میں ایک منفرد اور تفریحی تناظر فراہم کیا ہے۔
اردو مزاحیہ کالم کی مقبولیت کی وجہ اس کی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے کی صلاحیت بھی بتائی جا سکتی ہے۔ اردو کے مزاح نگار اکثر روزمرہ کے حالات اور تجربات کو مزاح تخلیق کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو ثقافتی تقسیم میں قارئین اور سامعین کے ساتھ گونجتا ہے۔
مشہور اردو مزاحیہ کالم نگار
اردو کے مشہور مزاحیہ کالم نگاروں نے اپنی منفرد طرز تحریر اور مزاحیہ اسلوب سے قارئین کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ ان میں چند مشہور نام یہ ہیں:
ابن انشا – ابن انشا اردو ادب میں منفرد مقام رکھتے ہیں اور ان کے کالموں میں مزاح، تنقید اور عام فہم انداز میں بہت سے معاشرتی موضوعات شامل ہوتے تھے۔ ان کی تحریروں میں روزمرہ زندگی کے مسائل کو دلچسپ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
مشتاق احمد یوسفی – اردو ادب کے عظیم مزاح نگار اور کالم نویس مشتاق احمد یوسفی اپنی تحریروں میں فلسفہ اور طنز و مزاح کا حسین امتزاج پیش کرتے تھے۔ ان کی کتابیں، جیسے “چراغ تلے” اور “خاکم بدہن” آج بھی اردو ادب میں نمایاں حیثیت رکھتی ہیں۔
ظفر اقبال – ظفر اقبال نے اپنی منفرد اور جدید طرز تحریر سے مزاحیہ کالم نویسی میں اپنا الگ مقام بنایا ہے۔ ان کے کالموں میں معاشرتی مسائل اور سیاست پر دلچسپ اور بامقصد انداز میں طنز کیا گیا ہے۔
عارف وقار – عارف وقار کے کالموں میں مزاح کے ساتھ ساتھ حساس موضوعات پر گہرے انداز میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ان کا اسلوب عام قاری کو محظوظ کرنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔
یہ کالم نگار اردو مزاح میں اپنی اعلیٰ قابلیت اور دلکش اسلوب کی بدولت مقبول ہیں اور ان کی تحریریں اردو ادب میں اہمیت رکھتی ہیں۔
چند مزید اردو کے مشہور مزاحیہ کالم نگار جو اپنے دلچسپ اسلوب اور انداز بیان کے سبب مقبول ہیں:
انور مقصود – انور مقصود کا نام اردو مزاح اور طنز کے شعبے میں نمایاں ہے۔ انہوں نے مختلف موضوعات پر نہایت ہلکے پھلکے انداز میں لکھا اور قارئین کو اپنی شگفتہ تحریروں سے محظوظ کیا۔
ضیاء الحق قاسمی – ضیاء الحق قاسمی اردو ادب میں مزاح نگار اور شاعر کے طور پر معروف ہیں۔ ان کے کالموں میں روزمرہ زندگی کے مسائل کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
کرنل محمد خان – کرنل محمد خان کی تحریروں میں فوجی زندگی کے تجربات کو شگفتگی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ ان کی کتاب “بجنگ آمد” اور دیگر مزاحیہ کالمز نے انہیں اردو کے بہترین مزاح نگاروں میں شامل کر دیا۔
ڈاکٹر محمد یونس بٹ – ڈاکٹر یونس بٹ اپنے منفرد طنز و مزاح سے بھرپور کالموں کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے کالم میں طنز اور مزاح کی تیزی کے ساتھ معاشرتی مسائل پر بھی روشنی ڈالی جاتی ہے۔ ان کے پروگرام اور کالم دونوں ہی مقبول ہیں۔
گل نوخیز اختر – گل نوخیز اختر نے کالم نویسی کے میدان میں اپنے مخصوص شگفتہ انداز سے شہرت پائی۔ ان کی تحریروں میں جدید دور کے مسائل کو ہلکے پھلکے اور مزاحیہ انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
وسعت اللہ خان – وسعت اللہ خان ایک بہترین کالم نگار اور صحافی ہیں۔ ان کے کالموں میں مزاح اور تنقید کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنی تحریروں میں سنجیدہ موضوعات کو بھی دلچسپ انداز میں پیش کرتے ہیں۔
شفیق الرحمن – شفیق الرحمن اردو کے کلاسک مزاح نگاروں میں سے ہیں۔ ان کی کتابیں جیسے “حماقتیں” اور “مزید حماقتیں” آج بھی اردو ادب میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں اور مزاح کے شائقین میں بے حد مقبول ہیں۔
ابنِ صفی – اگرچہ ابنِ صفی بنیادی طور پر جاسوسی ناول نگار کے طور پر مشہور ہیں، مگر ان کے کالموں اور مزاحیہ تحریروں میں بھی شگفتگی کا عنصر نمایاں ہے۔ ان کا انداز عام فہم اور دلچسپ ہے۔
یہ مزاح نگار اپنی تحریروں میں قاری کو نہ صرف محظوظ کرتے ہیں بلکہ اکثر ان کے کالموں میں معاشرتی مسائل پر گہری طنز بھی شامل ہوتی ہے، جو معاشرتی اصلاح میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مشہور کلاسکی اردو مزاحیہ کالم نگار
کلاسیکی اردو مزاحیہ کالم نگاروں نے اردو ادب کو بے پناہ خوبصورتی اور شگفتگی سے مالا مال کیا ہے۔ ان کا منفرد اسلوب، روزمرہ کی زندگی میں چھپے ہوئے پہلوؤں کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کا ہنر، اور زبان و بیان کی خوبصورتی آج بھی اردو ادب کے قاری کو مسحور کر دیتی ہے۔ ان مشہور کلاسیکی اردو مزاح نگاروں میں شامل ہیں:
مولانا چراغ حسن حسرت – اردو کے اولین مزاحیہ کالم نگاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے کالموں میں طنز و مزاح کے ساتھ معاشرتی مسائل پر گہری نظر ہوتی تھی۔ ان کا کالم “چشم بدور” بہت مشہور ہوا۔
رشید احمد صدیقی – رشید احمد صدیقی کا شمار اردو کے کلاسیکی مزاح نگاروں میں ہوتا ہے۔ ان کی تحریروں میں مزاح اور فلسفے کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ انہوں نے روزمرہ زندگی کے مسائل کو بڑے ہی دلکش انداز میں بیان کیا۔
پطرس بخاری – پطرس بخاری کی کتاب “پطرس کے مضامین” اردو مزاح میں ایک شاہکار سمجھی جاتی ہے۔ ان کے کالمز اور مضامین میں مزاح کے ساتھ ساتھ گہرا طنز ملتا ہے، جو اردو ادب کے قارئین کے لیے ہمیشہ تازگی کا احساس دلاتا ہے۔
ابراہیم جلیس – ابراہیم جلیس اردو کے مایہ ناز مزاح نگار اور کالم نویس تھے۔ ان کی تحریریں سنجیدہ مسائل پر مزاحیہ انداز میں بات کرتی تھیں، اور انہیں عوام میں بہت مقبولیت حاصل تھی۔
شفیق الرحمن – شفیق الرحمن کی کتابیں “حماقتیں”، “مزید حماقتیں”، “دجلہ”، اور “پشتیں” ان کے بہترین مزاح کا نمونہ ہیں۔ ان کی تحریریں نہایت ہی شگفتہ اور دلچسپ ہیں اور آج بھی اردو ادب کے شائقین میں بے حد مقبول ہیں۔
کنہیا لال کپور – کنہیا لال کپور ایک ممتاز مزاح نگار تھے، جنہوں نے اپنی تحریروں میں انگریزوں کے دور کے مسائل، اور سماجی ناہمواریوں کو بڑے شگفتہ انداز میں پیش کیا۔
ڈپٹی نذیر احمد – نذیر احمد اپنے ناولوں اور کالموں میں مزاح اور اخلاقی سبق کے پہلو کو بڑی خوبصورتی سے پیش کرتے تھے۔ ان کی کتابیں آج بھی اردو ادب میں بلند مقام رکھتی ہیں۔
مرزا فرحت اللہ بیگ – مرزا فرحت اللہ بیگ اردو کے ابتدائی مزاح نگاروں میں سے تھے۔ ان کی تحریروں میں ایک خاص شگفتگی اور دلچسپی کا عنصر ہوتا ہے۔ “مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی” ان کی بہترین مزاحیہ تحریروں میں سے ایک ہے۔
یہ تمام مزاح نگار اپنے عہد کی سماجی، سیاسی اور اخلاقی حالت کو طنزیہ اور مزاحیہ انداز میں پیش کرتے تھے۔ ان کی تحریریں آج بھی اردو مزاح میں کلاسیکی حیثیت رکھتی ہیں اور مزاح کے شائقین کے لیے ایک قیمتی سرمایہ ہیں۔
چند مزید مشہور کلاسیکی اردو مزاحیہ کالم نگار اور ادیب جنہوں نے اردو ادب میں مزاح اور طنز کے ذریعے اپنا خاص مقام بنایا ہے:
اکبر الہ آبادی – اکبر الہ آبادی اردو کے کلاسیکی مزاحیہ شاعروں میں شمار ہوتے ہیں، جنہوں نے اپنے کالموں اور اشعار میں دورِ جدید کے مسائل، مغربی اثرات، اور معاشرتی ناہمواریوں کو مزاحیہ انداز میں پیش کیا۔ ان کی شاعری میں طنز اور مزاح کا حسین امتزاج ملتا ہے۔
دلاور فگار – دلاور فگار اردو کے مشہور مزاحیہ شاعر اور کالم نگار تھے۔ ان کی تحریروں میں موجودہ دور کی سیاست، سماجی مسائل، اور معاشرتی ناانصافیوں پر گہری طنز پائی جاتی ہے۔ وہ اپنے منفرد انداز اور شگفتہ طرزِ بیان کی وجہ سے بہت مقبول ہیں۔
آغا حشر کاشمیری – اردو کے ابتدائی مزاح نگاروں میں سے ایک اور نمایاں شخصیت ہیں۔ ان کی تحریروں میں ہلکا پھلکا مزاح اور طنز ملتا ہے۔ ان کی تحریریں اپنے وقت کی معاشرتی اور سماجی صورتحال کی عکاس ہیں۔
ابو الحسن نغمی – اردو کے مشہور مزاح نگار اور کالم نویس، جنہوں نے معاشرتی و سماجی پہلوؤں کو شگفتہ انداز میں بیان کیا۔ ان کی تحریروں میں مزاح اور تنقید کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔
سید امتیاز علی تاج – “چچا چھکن” کے خالق سید امتیاز علی تاج اردو کے ابتدائی مزاح نگاروں میں سے ہیں۔ ان کے کردار چچا چھکن کے ذریعے انہوں نے نہ صرف مزاحیہ انداز میں روزمرہ زندگی کے مسائل کو پیش کیا بلکہ قاری کو اپنے مخصوص طنزیہ انداز سے محظوظ بھی کیا۔
راجہ مہدی علی خان – راجہ مہدی علی خان اردو کے کلاسیکی مزاح نگاروں میں سے تھے۔ ان کی تحریروں میں شگفتگی، ہلکا پھلکا طنز اور معاشرتی مسائل کی عکاسی ملتی ہے۔
یہ تمام کلاسیکی مزاح نگار اردو ادب کے نایاب ہیرے ہیں، جنہوں نے اپنی تحریروں سے نہ صرف معاشرتی مسائل کو اجاگر کیا بلکہ مزاح کے ذریعے قاری کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اپنی تحریروں کو زندہ جاوید بنا دیا۔
کلاسیکی اردو مزاحیہ کالم نگاروں کے بارے میں مختلف کتب اور مستند ماخذات موجود ہیں جن سے ان شخصیات کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ کچھ مشہور حوالہ جات درج ذیل ہیں:
پطرس بخاری – “پطرس کے مضامین” (پطرس بخاری) – یہ کتاب اردو مزاح کی کلاسیکی مثال سمجھی جاتی ہے اور اس میں روزمرہ زندگی پر مبنی طنزیہ اور مزاحیہ مضامین شامل ہیں۔
رشید احمد صدیقی – “گنجہائے گراں مایہ” (رشید احمد صدیقی) – اس کتاب میں رشید احمد صدیقی کے مزاحیہ مضامین شامل ہیں جو ان کی بہترین تخلیقات میں سے ہیں۔
شفیق الرحمن – “حماقتیں” اور “مزید حماقتیں” (شفیق الرحمن) – شفیق الرحمن کی یہ کتابیں ان کے مخصوص طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کا عمدہ نمونہ ہیں۔
کنہیا لال کپور – “سرکس” (کنہیا لال کپور) – اس کتاب میں کنہیا لال کپور کی مزاحیہ تحریریں اور طنزیہ کالم شامل ہیں۔
سعادت حسن منٹو – “منٹو کے مضامین” (سعادت حسن منٹو) – اگرچہ منٹو بنیادی طور پر افسانہ نگار تھے، مگر ان کے مضامین میں بھی معاشرتی مسائل پر طنز و مزاح موجود ہوتا ہے۔
ابن انشا – “اردو کی آخری کتاب” اور “خمار گندم” (ابن انشا) – ابن انشا کی ان کتابوں میں مختلف موضوعات پر مزاحیہ مضامین اور طنز ملتا ہے۔
رشید حسن خان – “اردو نثر کا مزاح” – رشید حسن خان کی یہ کتاب اردو مزاح کی تاریخ اور مشہور مزاح نگاروں کے تعارف پر مشتمل ہے۔
دلاور فگار – “دلاور فگار کی شاعری اور کالمز” – مختلف اشاعتوں اور رسائل میں ان کے کالمز اور طنزیہ شاعری کو جمع کیا گیا ہے۔
اکبر الہ آبادی – “اکبر الہ آبادی کے مزاحیہ اشعار” – اکبر کے اشعار کو مختلف مجموعوں میں مرتب کیا گیا ہے جو ان کے طنزیہ اور مزاحیہ اسلوب کا مظہر ہیں۔
اردو انسائیکلوپیڈیا – اردو ادب کی تاریخ، مشہور شخصیات اور ان کی تخلیقات پر مختلف مضامین میں مستند معلومات فراہم کی گئی ہیں۔
ان کتب اور ماخذات کو مطالعہ کرکے ان مزاحیہ کالم نگاروں کے اسلوب، موضوعات اور اردو ادب میں ان کی خدمات کے بارے میں جامع معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
———————————-
اردو میں مزاحیہ کالم لکھنے کی روایت
کالم صحافت کی ایک صنف ہے جس میں کالم نگار اپنے خیالات، تجربات، یا تبصرات کو عام فہم اور مؤثر انداز میں قارئین تک پہنچاتا ہے۔ یہ مضمون کی شکل میں ہوتا ہے اور اخبارات، رسائل، یا آن لائن میڈیا میں باقاعدگی سے شائع ہوتا ہے۔ کالم میں کسی خاص موضوع پر رائے دی جاتی ہے، جو معاشرتی، سیاسی، مذہبی یا ثقافتی پہلوؤں کا احاطہ کر سکتی ہے۔ کالم عام طور پر مختصر، معلوماتی اور پر اثر ہوتا ہے جس کا مقصد قارئین کو کسی موضوع کے بارے میں آگاہی دینا یا ان میں سوچنے کی تحریک پیدا کرنا ہوتا ہے۔
کالم نگار کا انداز تحریر عموماً ذاتی اور منفرد ہوتا ہے، جس میں طنز و مزاح، تجزیہ، یا دیگر اسلوب کو شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ قاری کو متاثر کیا جا سکے۔اردو مزاحیہ کالم نگاری، جسے “مضاحیہ کالم” یا “مزاحیہ کالم” بھی کہا جاتا ہے، اردو ادب میں ایک بھرپور تاریخ رکھتی ہے۔ مزاحیہ کالم لکھنے کی روایت 20ویں صدی کے اوائل سے شروع ہوئی جب ادبی میگزین “شاعر” نے اکبر الہ آبادی، شبلی نعمانی اور مولانا الطاف حسین حالی جیسے مشہور ادیبوں کے مزاحیہ مضامین شائع کرنا شروع کئے۔
اس صنف کو 1950 کی دہائی میں اس وقت مقبولیت حاصل ہوئی جب مشتاق احمد یوسفی، شفیق الرحمان اور ابن انشاء جیسے مصنفین نے اخبارات اور رسائل کے لیے مزاحیہ کالم لکھنا شروع کر دیے۔ یہ کالم عام طور پر روزمرہ کی زندگی، سماجی مسائل، سیاست اور انسانی رویے پر مختصر، لطیف اور طنزیہ تبصرے ہوتے تھے۔
اردو کے مشہور مزاح نگاروں میں سے ایک مشتاق احمد یوسفی تھے، جن کے کالم اور کتابیں، جن میں “چراغ تلے” اور “زرغوشت” شامل ہیں، اردو ادب کی کلاسیکی مانی جاتی ہیں۔ دیگر نامور مزاح نگاروں میں شفیق الرحمان، ابنِ انشاء، (، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دنیا گول ہے، بلو کا بستہ، ابن بطوطہ کے تعاقب میں) انور مقصود( ففٹی ففٹی، آنگن ٹیڑھا) ،رتن ناتھ سرشار ( سیر کوہسار) رشید احمد صدیقی (خنداں، طنزیات و مضحکات )،رؤف پاریکھ،سید محمد جعفری، شفیق الرحمن(دجلہ، حماقتیں، مزید حماقتیں، کرنیں، شگوفے وغیرہ)صدیق سالک،مجتبیٰ حسین،محمد یونس بٹ، نادر خان ( سَرگِروہ ، با اَدب بامُحاورہ ہوشیار) ،پریم چند،قدرت اللہ شہاب،کرنل محمد خان(، بزم آرائیاں) شوکت تھانوی، اور پطرس بخاری، ( پطرس کے مضامین) وغیرہ قابل ذکر ہیں-
اردو مزاحیہ کالم نگاری کی روایت پاکستان اور ہندوستان میں پروان چڑھ رہی ہے، بہت سے ہم عصر ادیبوں نے اپنے پیشروؤں کی وراثت کو جاری رکھا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی مقبولیت نے اردو مزاح نگاروں کی ایک نئی نسل کو بھی جنم دیا ہے جو ان پلیٹ فارمز کا استعمال اپنے دلچسپ مشاہدات کو وسیع تر سامعین کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
حالیہ برسوں میں، اردو مزاحیہ کالم بدلتے وقت اور معاشرے کو درپیش نئے چیلنجوں کی عکاسی کرنے کے لیے تیار ہوا ہے۔ جدید اردو مزاح نگار سیاسی اور سماجی تبصروں سے لے کر صنفی کردار اور یہاں تک کہ ذہنی صحت تک بہت سے مسائل سے نمٹ رہے ہیں۔
مزاح نگار اپنے سامعین تک پہنچنے کے لیے مختلف ذرائع بھی استعمال کرتے ہیں، بشمول پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، اور آن لائن بلاگ۔ بہت سے اردو مزاح نگاروں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، جیسے فیس بک اور ٹویٹر پر بڑے پیمانے پر پیروکار تیار کیے ہیں، جہاں وہ باقاعدگی سے موجودہ واقعات اور ثقافتی رجحانات پر اپنی مزاحیہ تحریریں پوسٹ کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ اردو مزاحیہ کالم نے ٹیلی ویژن شوز اور اسٹینڈ اپ کامیڈی کی شکل میں تفریح کی ایک نئی صنف کو بھی جنم دیا ہے۔ انور مقصود اور معین اختر جیسے مقبول اردو مزاح نگاروں نے اپنے ٹیلی ویژن شوز کے ذریعے بڑے پیمانے پر پیروی حاصل کی ہے، جہاں وہ سامعین کے سامنے مزاح کے اپنے منفرد برانڈ کی نمائش کرتے ہیں۔
آخر میں، اردو مزاحیہ کالم لکھنے کی ایک طویل اور بھرپور روایت ہے، جو پاکستان، ہندوستان اور دنیا کے دیگر حصوں میں جہاں اردو بولی جاتی ہے، فروغ پا رہی ہے۔ اکبر الہ آبادی جیسے ابتدائی علمبردار سے لے کر جدید دور کے مزاح نگاروں تک، اردو مزاحیہ کالم نے معاشرے اور انسانی رویوں کے بارے میں ایک منفرد اور تفریحی تناظر فراہم کیا ہے۔
اردو مزاحیہ کالم نے بھی اردو ادب کے ادبی منظر نامے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے بہت سے نامور مزاح نگار، جیسے مشتاق احمد یوسفی، کو اردو ادب میں ان کی خدمات کے لیے متعدد ایوارڈز اور تعریفیں مل چکی ہیں۔ مزید یہ کہ ان کی تخلیقات کا مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے جس سے اردو ادب کو عالمی سطح پر فروغ دینے میں مدد ملی ہے۔
اردو مزاحیہ کالم کی مقبولیت کی وجہ اس کی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے کی صلاحیت بھی بتائی جا سکتی ہے۔ اردو کے مزاح نگار اکثر روزمرہ کے حالات اور تجربات کو مزاح تخلیق کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو ثقافتی تقسیم میں قارئین اور سامعین کے ساتھ گونجتا ہے۔
حالیہ برسوں میں اردو زبان و ادب کے زوال کے بارے میں تشویش بڑھ رہی ہے۔ تاہم، اردو مزاحیہ کالم کی مقبولیت بتاتی ہے کہ اردو ادب اب بھی متعلقہ ہے اور ڈیجیٹل دور میں ترقی کی منازل طے کر سکتا ہے۔
آخر میں، اردو مزاحیہ کالم تحریر کی ایک بھرپور اور متنوع تاریخ ہے، جو وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہوتی رہتی ہے۔ 20ویں صدی کے اوائل کے ادبی رسائل میں اپنی ابتدا سے لے کر جدید دور کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک، اردو مزاحیہ کالم اردو ادب اور ثقافت کا ایک لازمی حصہ ہے۔