اردو فلمی شاعری نے برصغیر کی فلمی صنعت میں ہمیشہ ایک خاص مقام رکھا ہے، جہاں شاعروں نے الفاظ کی جادوگری سے گانوں کو لازوال بنا دیا۔ انڈو-پاک کے فلمی شاعروں نے نہ صرف رومانوی جذبات بلکہ سماجی مسائل اور انسانی تجربات کو بھی گیتوں کے ذریعے خوبصورتی سے پیش کیا۔ ان کے لکھے ہوئے گیت فلموں کے لازمی جزو بن گئے اور نہ صرف اپنی موسیقی بلکہ معنویت کی گہرائی کے باعث مقبول ہوئے۔

پاکستانی فلمی صنعت کے ابتدائی دور میں شاعروں نے گانوں میں تہذیبی ورثے اور معاشرتی احساسات کو پیش کیا۔ ان شعرا کی تخلیقات میں محبت کے جذبات اور سماجی حقیقتوں کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔انڈو-پاک اردو فلمی شاعروں نے فلمی گانوں میں ادب، جذبات اور فن کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔ ذیل میں چند نمایاں اردو فلمی شاعروں کا ذکر کیا جا رہا ہے

احمد راہی

احمد راہی ایک مشہور پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار اور ادیب تھے۔ ان کا اصل نام غلام احمد تھا، لیکن وہ احمد راہی کے نام سے زیادہ جانے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش 12 نومبر 1923 کو امرتسر، بھارت میں ہوئی اور وہ 2 ستمبر 2002 کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے۔

احمد راہی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بہت سی معروف اور مقبول گانے لکھے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، دکھ اور درد کے جذبات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

ان کی مشہور فلموں میں “گمنام”، “آشیانہ”، “عشق نہ پوچھے ذات”، “انارکلی”، اور “زمانہ” شامل ہیں۔ احمد راہی نے اپنے فن کے ذریعے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک منفرد مقام حاصل کیا اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 حزیں قادری

حزیں قادری کا اصل نام محمد صادق تھا اور وہ 1923 میں بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ حزیں قادری ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے جنہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستانی فلموں کو اپنی لازوال شاعری سے سنوارا۔

حزیں قادری نے 1950 کی دہائی میں فلمی صنعت میں قدم رکھا اور کئی مشہور فلموں کے گانے لکھے۔ ان کے نغمے عوام میں بہت پسند کیے گئے اور ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے مشہور گانوں میں “چندا توری چندنی میں” اور “لٹھے دی چادر” شامل ہیں۔

حزیں قادری کی شاعری میں محبت، درد، اور سماجی مسائل کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے کلام میں سادگی اور دلکشی ہوتی تھی جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

حزیں قادری نے اپنی زندگی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو بہت کچھ دیا اور ان کے گانے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی وفات 12 دسمبر 1976 کو لاہور میں ہوئی۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

موج لکھنوی

موج لکھنوی، جن کا اصل نام محبوب عالم تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 1905 میں بھارت کے شہر لکھنؤ میں ہوئی۔ موج لکھنوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

موج لکھنوی نے پاکستانی فلموں کے لیے بہت سے مشہور اور مقبول گانے لکھے۔ ان کے نغمے عوام میں بہت پسند کیے گئے اور آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے گانوں میں سادگی، دلکشی اور گہرائی ہوتی تھی جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

موج لکھنوی کی مشہور فلموں میں “انتظار”، “بیداری”، “چنگاری”، “ماں کے آنسو”، اور “قسمت” شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے، جو ان کے فن کی عمدگی کا ثبوت ہے۔

موج لکھنوی کی وفات 19 نومبر 1975 کو ہوئی۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

 مظفر وارثی

مظفر وارثی ایک ممتاز پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور مذہبی شاعری کے حوالے سے بھی بہت مشہور تھے۔ ان کا اصل نام محمد مظفر تھا اور وہ 23 دسمبر 1933 کو میرٹھ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا۔ مظفر وارثی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔

مظفر وارثی نے اپنے کیریئر کی شروعات بحیثیت نعت گو شاعر کی، لیکن جلد ہی ان کی قابلیت کو فلمی دنیا میں بھی پہچانا گیا۔ انہوں نے متعدد پاکستانی فلموں کے لیے نغمے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں محبت، حسن، اور روحانیت کے عناصر شامل ہوتے تھے، جو ان کے گانوں کو منفرد بناتے تھے۔

ان کی مشہور فلمی نغمات میں “محبت ایسا دریا ہے”، “چلو اچھا ہوا تم بھول گئے”، اور “یہ دل یہ پاگل دل میرا” شامل ہیں۔ ان کے نغمے نہ صرف دلکش تھے بلکہ ان میں ایک خاص قسم کی گہرائی اور سچائی بھی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔

مظفر وارثی نے صرف فلمی شاعری تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے نعتیہ شاعری اور غزل گوئی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ ان کی کتابوں میں “لہجہ”، “نور”، “سفید و سیاہ”، اور “نئے چہرے” شامل ہیں۔

مظفر وارثی کی وفات 28 جنوری 2011 کو لاہور، پاکستان میں ہوئی۔ ان کی خدمات اور ان کا ادبی ورثہ پاکستانی ادب اور فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

ساغر صدیقی

ساغر صدیقی، جن کا اصل نام محمد اختر تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور اردو کے عظیم شاعر تھے۔ ان کی پیدائش 1928 میں بھارت کے شہر انبالہ میں ہوئی۔ ساغر صدیقی کی زندگی اور شاعری دونوں میں ایک خاص طرح کا درد اور دکھ نمایاں ہے، جو ان کی تخلیقات میں بخوبی جھلکتا ہے۔

ساغر صدیقی نے اپنی شاعری کا آغاز بہت کم عمری میں کیا اور ان کی شاعری نے جلد ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے کئی مقبول گانے لکھے۔ ان کے گانوں میں جذبات، درد، اور محبت کی عکاسی ہوتی ہے، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔

ساغر صدیقی کی مشہور فلمی نغمات میں “پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے”، “غمِ زندگی کا ساتھ نبھاتے چلے گئے”، اور “وہ چاندنی کا بدن” شامل ہیں۔ ان کے نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔

ساغر صدیقی کی زندگی میں مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال لاہور کی گلیوں میں گزارے اور 19 جولائی 1974 کو انتقال کر گئے۔ ان کی زندگی کی کہانی میں ایک خاص طرح کی تلخی اور درد شامل ہے، جو ان کی شاعری میں بھی محسوس ہوتا ہے۔

ساغر صدیقی کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی ادب اور فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کے کلام میں جو گہرائی اور سچائی ہے، وہ انہیں دیگر شعرا سے منفرد بناتی ہے۔

 شیون رضوی

شیون رضوی، پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید علی رضوی تھا اور وہ 1931 میں بھارت کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے فن کا آغاز کیا۔

شیون رضوی نے پاکستانی فلموں کے لیے بے شمار مقبول گانے لکھے۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جس نے انہیں فلمی صنعت میں ایک اہم مقام دلایا۔ ان کے گانوں کی دلکشی اور سادگی نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا۔

شیون رضوی کی مشہور فلمی نغمات میں “بہارو پھول برساؤ”، “کہاں تک سنو گے”، اور “چلو اچھا ہوا” شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

شیون رضوی کی شاعری میں ایک خاص طرح کی گہرائی اور سچائی پائی جاتی ہے، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

شیون رضوی کی وفات 1997 میں ہوئی، لیکن ان کا شعری ورثہ آج بھی زندہ ہے اور ان کی شاعری نئے نسلوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ان کے گانوں کی خوبصورتی اور جذباتی گہرائی انہیں ہمیشہ یادگار بناتی ہے۔

 سرور برابنکوی

سرور بارہ بنکوی، جن کا اصل نام محمد سرور تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 30 جنوری 1919 کو بھارت کے شہر بارہ بنکی میں ہوئی۔ سرور بارہ بنکوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے نغمات سے ایک اہم مقام حاصل کیا اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

سرور بارہ بنکوی نے 1949 میں پاکستان ہجرت کی اور جلد ہی پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ آج بھی کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

ان کی مشہور فلموں میں “سرفروش”، “عشق لیلیٰ”، “صاعقہ”، اور “نیند ہماری خواب تمہارے” شامل ہیں۔ سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گانوں میں “جب رات ڈھلی”، “محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے”، اور “بہت خوبصورت ہے میرا سنم” شامل ہیں، جو آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

سرور بارہ بنکوی نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جو ان کے گانوں کو لازوال بناتی ہے۔

سرور بارہ بنکوی کی وفات 9 اکتوبر 1980 کو ہوئی، لیکن ان کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

طفیل ہوشیارپوری

طفیل ہوشیارپوری، جن کا اصل نام طفیل احمد تھا، پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معروف شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 14 جولائی 1914 کو بھارت کے شہر ہوشیارپور میں ہوئی۔ طفیل ہوشیارپوری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

طفیل ہوشیارپوری نے اپنی شاعری کا آغاز کم عمری میں کیا اور جلد ہی ان کی قابلیت کو تسلیم کیا جانے لگا۔ انہوں نے متعدد پاکستانی فلموں کے لیے نغمے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

ان کے مشہور فلمی نغمات میں “میرا لونگ گواچا”، “چھن چھن چھن، باج رہی پائل”، اور “تینوں رب دیاں رکھاں” شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔

طفیل ہوشیارپوری نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے، جو ان کے گانوں کو لازوال بناتی ہے۔

طفیل ہوشیارپوری کی وفات 1987 میں ہوئی، لیکن ان کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

اختر یوسف

اختر یوسف ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا اور انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔ اختر یوسف نے اپنی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی کی، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

اختر یوسف نے پاکستانی فلموں کے لیے بے شمار مقبول گانے لکھے۔ ان کے نغمے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں سادگی، دلکشی، اور گہرائی ہوتی تھی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔

اختر یوسف کے مشہور فلمی نغمات میں “تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”، “زندگی ایک سفر ہے سہانا”، اور “دل دیتا ہے رو رو دہائی” شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اختر یوسف کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا ادبی ورثہ زندہ ہے اور نئی نسلیں بھی ان کی شاعری سے مستفید ہو رہی ہیں۔

 فیاض ہاشمی

فیاض ہاشمی ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور ادیب تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے مشہور ترین گیت نگاروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو بے شمار یادگار نغمات دیے۔ فیاض ہاشمی کی پیدائش 1920 میں کلکتہ، بھارت میں ہوئی اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے۔

فیاض ہاشمی کی شاعری میں محبت، درد، جذبات اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی۔ ان کے گانے سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی رکھتے تھے، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے تھے۔

ان کے مشہور فلمی نغمات میں شامل ہیں:

فیاض ہاشمی نے فلمی گانوں کے علاوہ کئی غزلیں، نظمیں اور ملی نغمے بھی لکھے۔ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کی سچائی اور گہرائی ہوتی تھی جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

فیاض ہاشمی کی وفات 29 نومبر 2011 کو کراچی میں ہوئی، لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور نئی نسلیں ان کے گانوں اور شاعری سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

حمایت علی شاعر

حمایت علی شاعر ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور ادیب تھے۔ ان کی پیدائش 14 جولائی 1926 کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ حمایت علی شاعر نے اردو ادب اور فلمی دنیا میں اپنی شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

حمایت علی شاعر نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بہت سے مشہور گانے لکھے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔

حمایت علی شاعر نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔

حمایت علی شاعر نے کئی شعری مجموعے بھی تحریر کیے جن میں “آگ میں پھول”، “تشنگی کا سفر”، اور “مٹی کا قرض” شامل ہیں۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب کا ایک اہم نام بنا دیا۔

حمایت علی شاعر کی وفات 16 جولائی 2019 کو ٹورنٹو، کینیڈا میں ہوئی، لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور نئی نسلیں ان کے گانوں اور شاعری سے مستفید ہو رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

 کلیم عثمانی

کلیم عثمانی ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید عبدالقادر تھا اور وہ 1911ء میں بمبئی، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے۔ کلیم عثمانی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

کلیم عثمانی کی شاعری میں محبت، درد، جذبات، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی، جو ان کے گانوں کو بہت مقبول بناتی تھی۔ ان کے لکھے گئے گانے نہ صرف فلموں کے لیے بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

ان کے نغمات نے پاکستانی فلموں کو سندرجہ بندی میں نہایت مدد فراہم کی اور انہوں نے اپنے گانوں کے ذریعے مختلف نغمہ نگاروں اور گلوکاروں کو بھی نیا اعتبار دیا۔

کلیم عثمانی نے اپنے فنی کردار کی بدولت پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نمایاں شخصیت حاصل کی۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا دیا۔

کلیم عثمانی کی وفات 25 فروری 2001ء کو کراچی، پاکستان میں ہوئی، لیکن ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے نئی نسلوں کو بھی محبت کے ساتھ سنائے جاتے ہیں۔

مسرور انور

مسرور انور ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید مسرور انور تھا اور وہ 1934ء میں لودھراں، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے۔ مسرور انور نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

مسرور انور کی شاعری میں محبت، درد، جذبات، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی، جو ان کے گانوں کو بہت مقبول بناتی تھی۔ ان کے لکھے گئے گانے نہ صرف فلموں کے لیے بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

ان کے نغمات نے پاکستانی فلموں کو سندرجہ بندی میں نہایت مدد فراہم کی اور انہوں نے اپنے گانوں کے ذریعے مختلف نغمہ نگاروں اور گلوکاروں کو بھی نیا اعتبار دیا۔

مسرور انور نے اپنے فنی کردار کی بدولت پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نمایاں شخصیت حاصل کی۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا دیا۔

مسرور انور کی وفات 7 جون 2007ء کو لاہور، پاکستان میں ہوئی، لیکن ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے نئی نسلوں کو بھی محبت کے ساتھ سنائے جاتے ہیں۔

 منیر نیازی

منیر نیازی، جس کا اصل نام منیر احمد تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ وہ 10 نومبر 1931ء کو لکھنؤ، برطانوی ہند میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کی فیملی پاکستان منتقل ہوگئی اور وہ کراچی میں قائم ہوگئے۔

منیر نیازی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، جذبات، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی، جو ان کے گانوں کو بہت مقبول بناتی تھی۔

ان کے نغمات نے پاکستانی فلموں کو سندرجہ بندی میں نہایت مدد فراہم کی اور انہوں نے اپنے گانوں کے ذریعے مختلف نغمہ نگاروں اور گلوکاروں کو بھی نیا اعتبار دیا۔

منیر نیازی نے اپنے فنی کردار کی بدولت پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نمایاں شخصیت حاصل کی۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا دیا۔

منیر نیازی کی وفات 17 اگست 2004ء کو لاہور، پاکستان میں ہوئی، لیکن ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے نئی نسلوں کو بھی محبت کے ساتھ سنائے جاتے ہیں۔

 ریاض الرحمن ساغر

ریاض الرحمن ساغر، جناب کا نام میرے لیے نئے ہیں اور میں ان کے بارے میں معلومات دینے میں قادر نہیں ہوں۔ اس وجہ سے میں اس موضوع پر آپ کی مکمل مدد نہیں کر سکتا۔ شاید آپ کو کوئی اور معلومات چاہیے جو میری مدد کے لیے ہو سکے؟

تنویر نقوی

تنویر نقوی، جناب، ایک مشہور پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔ تنویر نقوی نے اپنی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا۔

تنویر نقوی کی شاعری نے انہیں اردو ادب اور فلم انڈسٹری میں معروف بنایا، اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نے موسیقی کی دنیا میں ان کی عظیمیت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔

علی سفیان آفاقی

علی سفیان آفاقی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

ان کے لکھے گئے گانے نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنا دیا، اور ان کی شاعری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام دیا۔ علی سفیان آفاقی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

حبیب جالب

مجھے معذرت، میرے پاس حبیب جالب کے بارے میں کوئی معلومات موجود نہیں ہیں۔ اس وجہ سے میں آپ کی مکمل مدد نہیں کر سکتا۔ کیا آپ کو کسی اور شخصیت یا موضوع میں معلومات چاہیے جس پر میں آپ کی مدد کر سکوں؟

ساحل فارانی

ساحل فارانی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

ساحل فارانی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنایا۔ ان کے لکھے گئے گانے میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا گیا۔

ساحل فارانی کے مشہور فلمی نغمات میں شامل ہیں:

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ ساحل فارانی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

امتیاز علی تاج کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنایا۔ ان کے لکھے گئے گانے میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا گیا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ امتیاز علی تاج کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

خواجہ پرویز

خواجہ پرویز، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلموں کو ایک خاص مقام حاصل کرایا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ خواجہ پرویز کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

مشیر کاظمی

مشیر کاظمی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

مشیر کاظمی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنایا۔ ان کے لکھے گئے گانے میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا گیا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

احمد راہی

احمد راہی ایک مشہور پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار اور ادیب تھے۔ ان کا اصل نام غلام احمد تھا، لیکن وہ احمد راہی کے نام سے زیادہ جانے جاتے تھے۔ ان کی پیدائش 12 نومبر 1923 کو امرتسر، بھارت میں ہوئی اور وہ 2 ستمبر 2002 کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے۔

احمد راہی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بہت سی معروف اور مقبول گانے لکھے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، دکھ اور درد کے جذبات کو بہت خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

ان کی مشہور فلموں میں “گمنام”، “آشیانہ”، “عشق نہ پوچھے ذات”، “انارکلی”، اور “زمانہ” شامل ہیں۔ احمد راہی نے اپنے فن کے ذریعے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک منفرد مقام حاصل کیا اور ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 حزیں قادری

حزیں قادری کا اصل نام محمد صادق تھا اور وہ 1923 میں بھارت کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ حزیں قادری ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے جنہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ ان کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے پاکستانی فلموں کو اپنی لازوال شاعری سے سنوارا۔

حزیں قادری نے 1950 کی دہائی میں فلمی صنعت میں قدم رکھا اور کئی مشہور فلموں کے گانے لکھے۔ ان کے نغمے عوام میں بہت پسند کیے گئے اور ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے مشہور گانوں میں “چندا توری چندنی میں” اور “لٹھے دی چادر” شامل ہیں۔

حزیں قادری کی شاعری میں محبت، درد، اور سماجی مسائل کی جھلک نظر آتی ہے۔ ان کے کلام میں سادگی اور دلکشی ہوتی تھی جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

حزیں قادری نے اپنی زندگی میں پاکستانی فلم انڈسٹری کو بہت کچھ دیا اور ان کے گانے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کی وفات 12 دسمبر 1976 کو لاہور میں ہوئی۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

موج لکھنوی

موج لکھنوی، جن کا اصل نام محبوب عالم تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 1905 میں بھارت کے شہر لکھنؤ میں ہوئی۔ موج لکھنوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

موج لکھنوی نے پاکستانی فلموں کے لیے بہت سے مشہور اور مقبول گانے لکھے۔ ان کے نغمے عوام میں بہت پسند کیے گئے اور آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے گانوں میں سادگی، دلکشی اور گہرائی ہوتی تھی جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

موج لکھنوی کی مشہور فلموں میں “انتظار”، “بیداری”، “چنگاری”، “ماں کے آنسو”، اور “قسمت” شامل ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی ہے، جو ان کے فن کی عمدگی کا ثبوت ہے۔

موج لکھنوی کی وفات 19 نومبر 1975 کو ہوئی۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

 مظفر وارثی

مظفر وارثی ایک ممتاز پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور مذہبی شاعری کے حوالے سے بھی بہت مشہور تھے۔ ان کا اصل نام محمد مظفر تھا اور وہ 23 دسمبر 1933 کو میرٹھ، بھارت میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان منتقل ہو گیا۔ مظفر وارثی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک اہم مقام حاصل کیا۔

مظفر وارثی نے اپنے کیریئر کی شروعات بحیثیت نعت گو شاعر کی، لیکن جلد ہی ان کی قابلیت کو فلمی دنیا میں بھی پہچانا گیا۔ انہوں نے متعدد پاکستانی فلموں کے لیے نغمے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں محبت، حسن، اور روحانیت کے عناصر شامل ہوتے تھے، جو ان کے گانوں کو منفرد بناتے تھے۔

ان کی مشہور فلمی نغمات میں “محبت ایسا دریا ہے”، “چلو اچھا ہوا تم بھول گئے”، اور “یہ دل یہ پاگل دل میرا” شامل ہیں۔ ان کے نغمے نہ صرف دلکش تھے بلکہ ان میں ایک خاص قسم کی گہرائی اور سچائی بھی تھی جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔

مظفر وارثی نے صرف فلمی شاعری تک محدود نہیں رہے بلکہ انہوں نے نعتیہ شاعری اور غزل گوئی میں بھی اپنا لوہا منوایا۔ ان کی کتابوں میں “لہجہ”، “نور”، “سفید و سیاہ”، اور “نئے چہرے” شامل ہیں۔

مظفر وارثی کی وفات 28 جنوری 2011 کو لاہور، پاکستان میں ہوئی۔ ان کی خدمات اور ان کا ادبی ورثہ پاکستانی ادب اور فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 ساغر صدیقی

ساغر صدیقی، جن کا اصل نام محمد اختر تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور اردو کے عظیم شاعر تھے۔ ان کی پیدائش 1928 میں بھارت کے شہر انبالہ میں ہوئی۔ ساغر صدیقی کی زندگی اور شاعری دونوں میں ایک خاص طرح کا درد اور دکھ نمایاں ہے، جو ان کی تخلیقات میں بخوبی جھلکتا ہے۔

ساغر صدیقی نے اپنی شاعری کا آغاز بہت کم عمری میں کیا اور ان کی شاعری نے جلد ہی لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا لی۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے کئی مقبول گانے لکھے۔ ان کے گانوں میں جذبات، درد، اور محبت کی عکاسی ہوتی ہے، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی ہے۔

ساغر صدیقی کی مشہور فلمی نغمات میں “پائل میں گیت ہیں چھم چھم کے”، “غمِ زندگی کا ساتھ نبھاتے چلے گئے”، اور “وہ چاندنی کا بدن” شامل ہیں۔ ان کے نغمے آج بھی لوگوں کے دلوں میں تازہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی۔

ساغر صدیقی کی زندگی میں مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری سال لاہور کی گلیوں میں گزارے اور 19 جولائی 1974 کو انتقال کر گئے۔ ان کی زندگی کی کہانی میں ایک خاص طرح کی تلخی اور درد شامل ہے، جو ان کی شاعری میں بھی محسوس ہوتا ہے۔

ساغر صدیقی کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی ادب اور فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کے کلام میں جو گہرائی اور سچائی ہے، وہ انہیں دیگر شعرا سے منفرد بناتی ہے۔

 شیون رضوی

شیون رضوی، پاکستانی فلمی صنعت کے مشہور شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید علی رضوی تھا اور وہ 1931 میں بھارت کے شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے فن کا آغاز کیا۔

شیون رضوی نے پاکستانی فلموں کے لیے بے شمار مقبول گانے لکھے۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جس نے انہیں فلمی صنعت میں ایک اہم مقام دلایا۔ ان کے گانوں کی دلکشی اور سادگی نے عوام کے دلوں میں گھر کر لیا۔

شیون رضوی کی شاعری میں ایک خاص طرح کی گہرائی اور سچائی پائی جاتی ہے، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

شیون رضوی کی وفات 1997 میں ہوئی، لیکن ان کا شعری ورثہ آج بھی زندہ ہے اور ان کی شاعری نئے نسلوں کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ان کے گانوں کی خوبصورتی اور جذباتی گہرائی انہیں ہمیشہ یادگار بناتی ہے۔

 سرور برابنکوی

سرور بارہ بنکوی، جن کا اصل نام محمد سرور تھا، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 30 جنوری 1919 کو بھارت کے شہر بارہ بنکی میں ہوئی۔ سرور بارہ بنکوی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنے نغمات سے ایک اہم مقام حاصل کیا اور ان کی شاعری آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

سرور بارہ بنکوی نے 1949 میں پاکستان ہجرت کی اور جلد ہی پاکستانی فلمی صنعت میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف مقبول ہوئے بلکہ آج بھی کلاسک کا درجہ رکھتے ہیں۔

ان کی مشہور فلموں میں “سرفروش”، “عشق لیلیٰ”، “صاعقہ”، اور “نیند ہماری خواب تمہارے” شامل ہیں۔ سرور بارہ بنکوی کے لکھے ہوئے گانوں میں “جب رات ڈھلی”، “محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے”، اور “بہت خوبصورت ہے میرا سنم” شامل ہیں، جو آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

سرور بارہ بنکوی نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جو ان کے گانوں کو لازوال بناتی ہے۔

سرور بارہ بنکوی کی وفات 9 اکتوبر 1980 کو ہوئی، لیکن ان کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

طفیل ہوشیارپوری

طفیل ہوشیارپوری، جن کا اصل نام طفیل احمد تھا، پاکستانی فلمی صنعت کے ایک معروف شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی پیدائش 14 جولائی 1914 کو بھارت کے شہر ہوشیارپور میں ہوئی۔ طفیل ہوشیارپوری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

طفیل ہوشیارپوری نے اپنی شاعری کا آغاز کم عمری میں کیا اور جلد ہی ان کی قابلیت کو تسلیم کیا جانے لگا۔ انہوں نے متعدد پاکستانی فلموں کے لیے نغمے لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

ان کے مشہور فلمی نغمات میں “میرا لونگ گواچا”، “چھن چھن چھن، باج رہی پائل”، اور “تینوں رب دیاں رکھاں” شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔

طفیل ہوشیارپوری نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی شاعری میں محبت، وفا، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی ہے، جو ان کے گانوں کو لازوال بناتی ہے۔

طفیل ہوشیارپوری کی وفات 1987 میں ہوئی، لیکن ان کی شاعری اور نغمہ نگاری پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔

 اختر یوسف

اختر یوسف ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام محمد اختر تھا اور انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔ اختر یوسف نے اپنی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی کی، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتی تھی۔

اختر یوسف نے پاکستانی فلموں کے لیے بے شمار مقبول گانے لکھے۔ ان کے نغمے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی شاعری میں سادگی، دلکشی، اور گہرائی ہوتی تھی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔

اختر یوسف کے مشہور فلمی نغمات میں “تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد”، “زندگی ایک سفر ہے سہانا”، اور “دل دیتا ہے رو رو دہائی” شامل ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اختر یوسف کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک اہم کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔ ان کی وفات کے بعد بھی ان کا ادبی ورثہ زندہ ہے اور نئی نسلیں بھی ان کی شاعری سے مستفید ہو رہی ہیں۔

فیاض ہاشمی

فیاض ہاشمی ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور ادیب تھے۔ ان کا شمار پاکستان کے مشہور ترین گیت نگاروں میں ہوتا ہے اور انہوں نے پاکستانی فلم انڈسٹری کو بے شمار یادگار نغمات دیے۔ فیاض ہاشمی کی پیدائش 1920 میں کلکتہ، بھارت میں ہوئی اور تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے۔

فیاض ہاشمی کی شاعری میں محبت، درد، جذبات اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی۔ ان کے گانے سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی رکھتے تھے، جو سننے والوں کے دلوں کو چھو جاتے تھے۔

فیاض ہاشمی نے فلمی گانوں کے علاوہ کئی غزلیں، نظمیں اور ملی نغمے بھی لکھے۔ ان کے کلام میں ایک خاص قسم کی سچائی اور گہرائی ہوتی تھی جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کے لکھے ہوئے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

فیاض ہاشمی کی وفات 29 نومبر 2011 کو کراچی میں ہوئی، لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور نئی نسلیں ان کے گانوں اور شاعری سے لطف اندوز ہو رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

 حمایت علی شاعر

حمایت علی شاعر ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر، نغمہ نگار، اور ادیب تھے۔ ان کی پیدائش 14 جولائی 1926 کو بھارت کے شہر اورنگ آباد میں ہوئی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔ حمایت علی شاعر نے اردو ادب اور فلمی دنیا میں اپنی شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔

حمایت علی شاعر نے پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے بہت سے مشہور گانے لکھے جو آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کی عکاسی ہوتی تھی، جو سننے والوں کو متاثر کرتی تھی۔

حمایت علی شاعر نے اپنی شاعری میں سادگی اور دلکشی کے ساتھ گہرائی بھی پیش کی، جو ان کے فن کو منفرد بناتی ہے۔ ان کی خدمات کو پاکستانی فلم انڈسٹری میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نہ صرف فلموں کی زینت بنے بلکہ عوام میں بھی بے حد مقبول ہوئے۔

حمایت علی شاعر نے کئی شعری مجموعے بھی تحریر کیے جن میں “آگ میں پھول”، “تشنگی کا سفر”، اور “مٹی کا قرض” شامل ہیں۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب کا ایک اہم نام بنا دیا۔

حمایت علی شاعر کی وفات 16 جولائی 2019 کو ٹورنٹو، کینیڈا میں ہوئی، لیکن ان کا ادبی ورثہ آج بھی زندہ ہے اور نئی نسلیں ان کے گانوں اور شاعری سے مستفید ہو رہی ہیں۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں کو چھو جاتے ہیں۔

 کلیم عثمانی

کلیم عثمانی ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید عبدالقادر تھا اور وہ 1911ء میں بمبئی، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے۔ کلیم عثمانی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

کلیم عثمانی کی شاعری میں محبت، درد، جذبات، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی، جو ان کے گانوں کو بہت مقبول بناتی تھی۔ ان کے لکھے گئے گانے نہ صرف فلموں کے لیے بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

ان کے نغمات نے پاکستانی فلموں کو سندرجہ بندی میں نہایت مدد فراہم کی اور انہوں نے اپنے گانوں کے ذریعے مختلف نغمہ نگاروں اور گلوکاروں کو بھی نیا اعتبار دیا۔

کلیم عثمانی نے اپنے فنی کردار کی بدولت پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نمایاں شخصیت حاصل کی۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا دیا۔

کلیم عثمانی کی وفات 25 فروری 2001ء کو کراچی، پاکستان میں ہوئی، لیکن ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے نئی نسلوں کو بھی محبت کے ساتھ سنائے جاتے ہیں۔

مسرور انور

مسرور انور ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام سید مسرور انور تھا اور وہ 1934ء میں لودھراں، برطانوی بھارت میں پیدا ہوئے۔ مسرور انور نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں اپنی شاندار شاعری اور نغمہ نگاری کے ذریعے ایک اہم مقام حاصل کیا۔

مسرور انور کی شاعری میں محبت، درد، جذبات، اور سماجی مسائل کی عکاسی ہوتی تھی، جو ان کے گانوں کو بہت مقبول بناتی تھی۔ ان کے لکھے گئے گانے نہ صرف فلموں کے لیے بلکہ ریڈیو اور ٹی وی پروگرامز کے لیے بھی مشہور ہوئے۔

ان کے نغمات نے پاکستانی فلموں کو سندرجہ بندی میں نہایت مدد فراہم کی اور انہوں نے اپنے گانوں کے ذریعے مختلف نغمہ نگاروں اور گلوکاروں کو بھی نیا اعتبار دیا۔

مسرور انور نے اپنے فنی کردار کی بدولت پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک نمایاں شخصیت حاصل کی۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام بنا دیا۔

مسرور انور کی وفات 7 جون 2007ء کو لاہور، پاکستان میں ہوئی، لیکن ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ آج بھی قائم ہے۔ ان کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور ان کے گانے نئی نسلوں کو بھی محبت کے ساتھ سنائے جاتے ہیں۔

منیر نیازی

منیر نیازی (9 اپریل 1923ء – 26 دسمبر 2006ء) کا شمار اردو اور پنجابی کے اہم تر شاعروں میں ہوتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری قیام ساہیوال کے ایام کی یادگار ہے۔ منٹگمری (اب ساہیوال) میں انھوں نے ۔۔سات رنگ۔۔۔کے نام سے ایک ادبی رسالہ بھی جاری کیا۔ لاہور منتقلی کے بعد فلمی گانے بھی لکھے۔ منیر نیازی کی غزل میں حیرت اور مستی کی ملی جلی کیفیات نظر آتی ہیں۔ ان کے ہاں ماضی کے گمشدہ منظر اور رشتوں کے انحراف کا دکھ نمایاں ہے۔

عظیم شاعر اردو ادب میں ایک معتبر حیثیت کے حامل تھے ،ان کی فلمی شاعری بھی دیگر شاعری کی طرح زندہ رہے گی نور جہاں ،مہد ی حسن نے انکی غزلیں اور گیت گائے ، اردوشاعری کے 13،پنجابی کے 3اورانگریزی کے دو مجموعے بھی شائع ہوئے

کیااور ان کے فلمی گیت زبان زدعام ہوئے۔ انہوں نے فلم شہید کے لئے غزل ’’اس بے وفاکا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو‘‘ تحریر کیا جس کی موسیقی رشید عطرے نے ترتیب دی اوراسے گلوکارہ نسیم بیگم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ۔فلم کے ہدایتکار خلیل قیصر تھے ۔یہ غزل اداکارہ مسرت نذیر پر پکچرائزکی گئی فلم کی دیگر کاسٹ میں علائوالدین ،آغاطالش اور اعجاز شامل تھے ۔اسی فلم کے لئے ان کالکھاگیا گیت ’’میری نظریں ہیں تلوار‘‘بھی نسیم بیگم نے گایا اور اسے مسرت نذیراور اعجازپر فلمایا گیا ۔فلم سسرال کا گیت ’’جس نے میرے دل کو درد دیااس شکل کومیں نے بھلادیا‘‘مہدی حسن اور ’’جا اپنی حسرتوں پر آنسوبہا کہ سو جا‘‘ ملکہ ترنم نورجہا ں کی آواز میں ریکا رڈ کیاگیااور ان کی موسیقی حسن لطیف لیک نے ترتیب دی۔ فلم کی کاسٹ میں یوسف خان ،لیلیٰ ،نگہت سلطانہ اور آغاطالش شامل تھے ۔فلم ’’تیرے شہر میں‘‘ کے لئے منیر نیازی کی غزل ’’کیسے کیسے لو گ ہمارے جی کوجلانے آجاتے ہیں‘‘ کومہدی حسن نے گایا جس کی دھن موسیقار رشید عطرے نے تیارکی اور اداکار علائوالدین پر پکچرائزکی گئی ۔اس فلم کی سب سے بڑی خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس کا مرکزی کردار علا ئوالدین نے ادا کیا تھا ۔فلم ’’ضرورت‘‘ کے جس گیت نے مقبولیت کی حدوں کوچھولیا تھاوہ ناہید اخترنے گایا تھا ’’زندہ رہیں تو کیا ہے جو مرجائیں توکیا‘‘ گلوکا ر ہ ناہید اخترکے بہترین گیتوں میں سے ا یک ہے جس کے موسیقارایم اشرف تھے اور یہ گیت اداکارہ رانی اورشاہد پرفلمایاگیا ۔منیر نیاز ی کی فلمی شاعری بھی ان کی دیگر شاعری کی طرح زندہ رہے گی ۔

ناصر ادیب

ناصر ادیب، جناب کی معلومات میرے لیے دستیاب نہیں ہیں اور نہ ہی میرے پاس ان کی معلومات کا کوئی مرجع ہے۔ اس لیے میں اس بارے میں آپ کی مکمل مدد نہیں کر سکتا۔ کیا اپ کو اس بارے میں مزید معلومات چاہئیے؟

ریاض الرحمن ساغر

ریاض الرحمن ساغر، جناب کا نام میرے لیے نئے ہیں اور میں ان کے بارے میں معلومات دینے میں قادر نہیں ہوں۔ اس وجہ سے میں اس موضوع پر آپ کی مکمل مدد نہیں کر سکتا۔ شاید آپ کو کوئی اور معلومات چاہیے جو میری مدد کے لیے ہو سکے؟

ساحل فارانی

ساحل فارانی، جناب کا نام میرے لیے نیا ہے اور میں ان کے بارے میں معلومات دینے میں قادر نہیں ہوں۔ اس وجہ سے میں اس موضوع پر آپ کی مکمل مدد نہیں کر سکتا۔ شاید آپ کو کوئی اور معلومات چاہیے جو میری مدد کے لیے ہو سکے؟

تنویر نقوی

تنویر نقوی، جناب، ایک مشہور پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔ تنویر نقوی نے اپنی شاعری میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا۔

تنویر نقوی کی شاعری نے انہیں اردو ادب اور فلم انڈسٹری میں معروف بنایا، اور ان کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ ان کے لکھے ہوئے گانے نے موسیقی کی دنیا میں ان کی عظیمیت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔

علی سفیان آفاقی

علی سفیان آفاقی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔ تفصیلات کے لیے میں ان کے بارے میں مزید معلومات دے سکتا ہوں۔

ان کے لکھے گئے گانے نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنا دیا، اور ان کی شاعری نے انہیں اردو ادب اور موسیقی کی دنیا میں ایک بڑا نام دیا۔ علی سفیان آفاقی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم

 حبیب جالب

حبیب جالب صرف ایک انقلابی اور سیاسی شاعر ہی نہیں بلکہ انہوں نے فلمی دنیا کے لیے بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بخوبی استعمال کیا۔ ان کی فلمی شاعری ان کی انقلابی اور جذباتی شخصیت کا عکس ہے، اور اس میں بھی وہی سادگی، درد، اور عوامی جذبات کی عکاسی ملتی ہے جو ان کی دیگر شاعری میں پائی جاتی ہے۔

فلمی شاعری میں نمایاں پہلو

حبیب جالب نے کئی پاکستانی فلموں کے لیے گیت لکھے، جو اپنے وقت میں بے حد مقبول ہوئے۔ ان گیتوں میں رومانی احساسات اور عوامی دکھوں کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا گیا۔ ان کی شاعری میں جذباتی گہرائی کے ساتھ ساتھ موسیقی کا شاندار امتزاج پایا جاتا تھا، جو سننے والوں کو دل کی گہرائیوں تک متاثر کرتا تھا۔

    ان کی فلمی شاعری میں بھی انقلابی روح جھلکتی تھی، لیکن انہوں نے عوام کے دلوں کے جذبات اور محبت کے پہلوؤں کو بھی بخوبی پیش کیا۔

    سادہ زبان اور دلکش اظہار ان کی فلمی شاعری کا خاصہ تھا۔

حبیب جالب کی فلمی شاعری نے پاکستانی فلمی صنعت میں ایک نیا رنگ بھرا، جہاں انہوں نے موسیقی اور شاعری کو عوامی جذبات کے قریب تر کر دیا۔ ان کے گیت آج بھی سننے والوں کے دلوں کو چھوتے ہیں اور ان کی بے پناہ صلاحیتوں کی گواہی دیتے ہیں۔

ساحل فارانی

ساحل فارانی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

ساحل فارانی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنایا۔ ان کے لکھے گئے گانے میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا گیا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ ساحل فارانی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

خواجہ پرویز

خواجہ پرویز، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ ان کی شاعری اور نغمہ نگاری نے پاکستانی فلموں کو ایک خاص مقام حاصل کرایا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ خواجہ پرویز کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

 مشیر کاظمی

مشیر کاظمی، جناب، ایک معروف پاکستانی فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے پاکستانی فلموں کے لیے مختلف گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

مشیر کاظمی کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں پاکستانی فلم انڈسٹری میں ایک معتبر شخصیت بنایا۔ ان کے لکھے گئے گانے میں محبت، درد، اور انسانی جذبات کو بہترین طریقے سے ظاہر کیا گیا۔

ان کے نغمات نے پاکستانی موسیقی کے عرصے میں ان کی عظمت کو بڑھایا اور انہیں یادگار بنا دیا۔ مشیر کاظمی کے گانے آج بھی لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں اور ان کا ادبی ورثہ قائم ہے۔

فلمی شاعر قتیل شفائی

قتیل شفائی 1919ء میں برطانوی ہند (موجوہ پاکستان) میں پیدا ہوئے۔ ان کا پیدائشی نام محمد اورنگ زیب تھا۔[6] ان کا خاندانی پس منظر ہندکوان ہے۔ انھوں نے 1938ء میں قتیل شفائی اپنا قلمی نام رکھا اور اردو دنیا میں اسی نام سے مشہور ہیں۔ اردو شاعری میں وہ قتیل تخلص کرتے ہیں۔ شفائی انھوں نے اپنے استاد حکیم محمد یحییٰ شِفا کانپوری کے نام کی وجہ سے اپنے نام کے ساتھ لگایا۔[7] 1935 میں ان کے والد کی وفات ہوئی اور ان پر اعلیٰ تعلیم چھوڑنے کا دباو بنا۔ انھوں نے کھیل کے سامان کی ایک دکان کھول لی مگر تجارت میں وہ ناکام رہے اور انھوں نے اپنے چھوٹے سے قصبہ سے راولپنڈی منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جہاں انھوں نے ایک ٹرانسپورٹ کمپنی کے لیے کام کرنا شروع کیا۔ بعد میں 1947ء میں انھوں نے پاکستانی سنیما میں قدم رکھا نغمہ لکھنے لگے۔[7] ان کے والد ایک تاجر تھے اور ان کے گھر میں شعر و شاعری کا کوئی رواج نہ تھا۔ ابتدا میں انھوں حکیم یحییٰ کو اپنا کلام دکھانا شروع کیا اور بعد میں احمد ندیم قاسمی سے اصلاح لینے لگے اور باقاعدہ ان کے شاگرد بن گئے۔ قاسمی ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی

سیف الدین سیف

سیف الدین سیف (پیدائش: 20 مارچ، 1922ء – وفات: 12 جولائی، 1993ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر، نغمہ نگار، مکالمہ و کہانی نگار اور فلمساز تھے۔

حالات زندگی

سیف الدین سیف 20 مارچ، 1922ء کو کوچۂ کشمیراں امرتسر، برطانوی ہندوستان کے ایک معزز اور ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔[1][2]۔ ان کے آباء و اجداد کشمیر سے ہجرت کرکے امرتسر میں آباد ہوئے تھے۔ والد کا نام خواجہ معراج دین تھا جو ایک نیک صفت اور درویش منش آدمی تھے۔ سیف الدین سیف کی عمر جب ڈھائی برس ہوئی تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سیف کا بچپن امرتسر کی گلیوں میں گذرا۔ ابتدائی تعلیم مسلم ہائی اسکول امرتسر سے حاصل کی لیکن میٹرک کا امتحان بطور پرائیویٹ امیدوار اچھے نمبروں سے پاس کیا۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر میں داخل ہو گئے۔ یہاں پر کالج پرنسپل ڈاکٹر ایم ڈی تاثیر اور انگریزی لیکچرار فیض احمد فیض کی قربت نے علمی و ادبی ذوق پیدا کی

صہبا اختر

صہبا اختر (انگریزی: Sehba Akhtar) (پیدائش: 30 ستمبر، 1931ء – وفات: 19 فروری، 1996ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر تھے۔

حالات زندگی

صہبا اختر 30 ستمبر، 1931ء کو جموں، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد منشی رحمت علی کا تعلق امرتسر سے تھا،وہ آغا حشر کاشمیری کے ہم عصر تھے۔ صہبا اختر نے بریلی سے میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا مگر اسی دوران پاکستان کا قیام عمل میں آ گیا اور انھیں اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پاکستان آنا پڑا۔ پاکستان آنے کے بعد صہبا اختر نے بہت نامساعد حالات میں زندگی بسر کی پھر انھوں نے محکمہ خوراک میں بطور انسپکٹر ملازمت اختیار کی اور ترقی کرکے راشننگ کنٹرولر کے عہدے تک پہنچ کر ریٹائر ہوئ

تسلیم ٖفاضلی

تسلیم فاضلی (پیدائش: 1947ء – وفات: 17 اگست، 1982ء) پاکستان کے ممتاز فلمی نغمہ نگار تھے۔ انھوں نے پاکستانی فلم آئینہ، شبانہ اور بندش پر بہترین نغمہ نگار کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔

حالات زندگی

1947ء کو دہلی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئےان کا اصل نام اظہار انور تھا۔ تسلیم فاضلی کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے تھا۔ ان کے والد دعا ڈبائیوی اردو کے مشہور شاعر تھے۔

فلمی نغمہ نگاری

انھوں نے نہایت کم عمری میں فلم عاشق کے نغمات لکھ کر اپنی فلمی زندگی کا آغاز کیا۔ اس کے بعد انھوں نے لاتعداد فلموں کے لیے نغمات لکھے جن میں فلم ایک رات، ہل اسٹیشن، اک نگینہ، اک سپیرا، افشاں، تم ملے پیار ملا، جلے نہ کیوں پروانہ، انصاف اور قانون، من کی جیت، شمع، شبانہ، میرا نام ہے محبت، دامن اور چنگاری، آئینہ، بندش، طلاق اور میرے حضور کے نام سرفہرست ہیں۔ تسلیم فاضلی نے اپنے دور عروج میں معروف اداکارہ نشو سے شادی کی تھی۔ ہندوستان کے مشہور نغمہ نگار ندا فاضلی ان کے حقیقی بھائی ہی

———————

آرزو لکھنوی

پیدائش؛1872

وفات: 1951

اصل نام سید انور حسین۔ اردو شاعر،لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ بارہ سال کے تھے کہ جلال لکھنوی کے شاگردوں میں شامل ہو گئے۔ جلال کے انتقال کے بعد ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ معاشی پریشانیوں کے باعث انھیں لکھنؤ چھوڑ کر کلکتے جانا پڑا اور پھر وہاں سے بمبئی۔ ان شہروں میں انھوں نے فلم کمپنیوں کے لیے گیت لکھے۔ کراچی میں وفات پائی۔

کمال امروہوی

سید عامر حیدر کمال نقوی جنہیں ان کے قلمی نام کمال امروہی سے جانا جاتا ہے ایک بھارتی فلمی ہدایت کار اور منظر نویس تھے۔ وہ اردو شاعر بھی تھے۔ آپ سید محمد مہدی (عرف رئیس امروہوی)، سید محمد تقی اور سید حسین جون اصغر المشہور بہ جون ایلیا کے سگے چچا زاد بھائی تھے۔

خمار بارہ بنکوی

اصلی نام محمد حیدر خان تھا اورتخلص خمار۔ 19 ستمبر 1919 کو بارہ بنکی (اودھ) میں پیدا ہوئے۔ نام کے ساتھ بارہ بنکوی اسی مناسبت سے تھا۔ 19 فروری 1999 کو بارہ بنکی میں انتقال کر گئے۔

راجہ مہدی علی خاں

راجا مہدی علی خان ایک مصنف، شاعر اور ہندی فلمی دنیا میں ایک نغمہ نگار تھے۔ وہ وزیر آباد (موجودہ پاکستان) میں 23 ستمبر 1915ء میں پیدا ہوئے۔ وہ صرف 4 سال کے تھے جب وہ والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہوئے۔ ان کی پرورش ان کی والدہ کی جانب سے ہوئی جو ایک شاعرہ تھی۔وہ نامور صحافی اور شاعر مولانا ظفر علی خان کے بھانجے تھے۔

کیف بھوپالی

کیف بھوپالی ایک اردو کے معروف شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ وہ مشاعروں کے حلقوں میں ایک خاصا مقام رکھتے تھے۔ ان کا نغمہ ’’چلو دلدار چلو چاند کے پار چلو‘‘ جسے محمد رفیع نے 1972ء میں فلم پاکیزہ کے لیے گایا تھا بہت مقبول ہو

 آنند بخشی

آنند بخشی 21 جولائی 1930ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے اس نامور بھارتی فلمی نغمہ نگار کا اصل نام بخشی آنند پرکاش وید تھا۔ پانچ سال کی عمر میں ان کی والدہ کا انتقال ہوا اور 17 برس کی عمر میں اکتوبر 1947ء کو ان کے خاندان نے پاکستان چھوڑ کر دہلی بھارت ہجرت کی۔

گلشن باورا

۔12 اپریل 1937ء کو شیخوپورہ میں پیدا ہونے والے گلشن باورا کا اصلی نام گلشن کمار مہتہ تھا۔ باورا کا مطلب ہے دیوانہ۔ انہوں نے گلشن کمار مہتہ کی جگہ گلشن باورا کہلوانا زیادہ پسند کیا۔ وہ ہندی سینما سے 42 سال تک وابستہ رہے اور انہوں نے 240 گیت تخلیق کئے۔ انہوں نے بڑے مشہور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا جن میں کلیان جی آنند جی‘ شنکر جے کشن اور آرڈی برمن شامل ہیں۔ آرڈی برمن کے ساتھ انہوں نے ’’کھیل کھیل میں‘ اور قسمیں وعدے‘‘ میں کام کیا اور ان فلموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔اس کے علاوہ ان کی فلموں ’’پکار اور ’’زنجیر‘‘ کے گیت بھی سپرہٹ ہوئے۔ ان دونوں فلموں کے گیت لکھنے پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔

حسن کمال

حسن کمال ایک معروف نام ہے۔ بھارت کی فلمی دنیا بالی وڈ میں جانی مانی شخصیت ہیں۔ فلم فیئر ایوارڈ یافتہ ہیں، ان کو یہ ایوارڈ 1984 کی فلم آج کی آواز میں نغمے لکھنے کے لیے دیا گیا تھ

جاوید اختر

جاوید اختر بالی وڈ کے مشہور کہانی کار، منظر نامہ نگار اور گیت کار ہیں۔ ان کی اہلیہ شبانہ اعظمی، خسر کیفی اعظمی اور خوش دامن شوکت اعظمی ہیں۔

اندیور

شیام لال بابو رائے ، جو پیشہ ورانہ طور پر اندیور کے نام سے مشہور ہیں ، ( انھیں اندیور اور اندیوار کے نام سے بھی جانا جاتا ہے) (18 اگست 1924 – 27 فروری 1997)  1960 کی دہائی میں ہندی فلم کے ایک اہم گیت نگار تھے ۔

وہ اتر پردیش کے ضلع جھانسی کے گاؤں دھمنا میں پیدا ہوئے اور بروا ساگر ضلع جھانسی میں پلے بڑھے. وہ ایک گیت نگارکے طور پر کیرئیر بنانے کے لیے ممبئی منتقل ہو گئے۔

سنتوش آنند

سنتوش آنند ایک برھمن خاندان میں جنم لیا۔ وہ جی ٹی روڈ پر غازی پور اور بلند شہر ھے درمیاں واقع ایک شہر ” سکندر آباد میں پیدا ھوئے۔ 1970 میں منوج کمار کی فلم ” پورب اور پچھم” میں سنتوش آنند کو دنیائے فلم سے متعارف کروایا گیا۔ ان کی شھرت 1974 میں فلم ” روٹی کپٹرا مکان” کے ایک گانے ۔۔۔” میں نہ بھولوں گا”۔۔۔ سے ھوئی۔ 1981 میں فلم ” کانتی” اور 1982 میں راج کپور کی فلم ” پریم روگ” کے گانے بہت مقبول ھوئے۔ 1974 میں ” روٹی کپڑا اور مکان” کے گیت ” میں نہ بھولوں گا” اور 1982 میں ” پریم روگ” کے گانے ۔۔” محبت ھے کیا چیز” پر انھیں فلم فیئر ایورڈ ملا۔ انھوں نے بالی وڈ کو کئی یادگار گانے دئے

جانثار اختر

جاں نثار اختر (ولادت: 18 فروری 1914ء – وفات: 19 اگست 1976ء) ایک معروف ترقی پسند شاعر اور نغمہ نگار تھے

جانثار اختر 18 فروری 1914ء کو گوالیار (بھارت) میں پیدا ہونے۔ ان کے والد مضطر خیر آبادی اور تایا بسمل خیر آبادی دونوں شاعر تھے۔ ساحر لدھیانوی

شکیل بدایونی

اردو شاعر۔ اگست سنہ 1916 کو اتر پردیش کے ضلع بدایوں میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک مذہبی گھرانے سے تھا۔ والد جمیل احمد سوختہ قادری بدایونی ممبئی کی مسجد میں خطیب او رپیش امام تھے اس لیے شکیل کی ابتدائی تعلیم اسلامی مکتب میں ہوئی۔ اردو، فارسی اور عربی کی تعلیم کے بعد مسٹن اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں سے سند حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ سنہ 1932 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے اور بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سنہ 1942 میں دہلی میں سرکاری ملازم ہو گئے۔ علی گڑھ میں قیام کے دروان جگر مراد آبادی سے ملاقات ہوئی۔ ان کی وساطت سے فلمی دنیا میں داخل ہوئے۔ اور سو سے زائد فلموں کے لیے گیت لکھے۔ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ جس میں مغل اعظم کے گیت سر فہرست ہیں۔

راحت اندوری

راحت اندوری ( پیدائش : 1 جنوری 1950ء، وفات: 11 اگست 2020ء) ایک بھارتی اردو شاعر اور ہندی فلموں کے نغمہ نگار تھے۔[5] وہ دیوی اہليہ یونیورسٹی اندور میں اردو ادب کے پروفیسر بھی رہے۔ انھوں نے کئی بھارتی ٹیلی ویژن شو بھی کیے۔ انھوں نے کئی گلوکاری کے رئیلیٹی شو میں بہ طور جج حصہ لیا ہے۔ راحت اندوری کا 11 اگست 2020ء بروز منگل انتقال ہوا۔ ان کا ایک ہی شعری مجموعہ ہے جو (کلام) کے نام سے ہندوستان اور پاکستان میں شائع ہوا

سمیر انجان

شیتلا پانڈے ، جو سمیر انجان یا سمیر کے نام سے مشہور ہیں، ایک ہندوستانی گیت کار ہیں، جو بالی ووڈ فلموں کے لیے بنیادی طور پر گانے لکھنے کے لیے مشہور ہیں۔ وہ فلموں کے لیے سب سے زیادہ گانے لکھنے کا گنیز ورلڈ ریکارڈ کا حامل ہے۔

ان کے والد لال جی انجان پانڈے بالی ووڈ کے مشہور گیت کار ہیں۔ سمیر کو اپنے فلمی گیت کاری کے لیے اب تک تین فلم فیئر ایوارڈ حاصل ہوئے ہیں

مجروح سلطان پوری

مجروح سلطانپوری (17 جون 1920ء – 24 مئی 2000ء) اردو زبان کے مشہور شاعر اور نامور نغمہ نگار تھے۔ ان کا اصل نام اسرار الحسن خان تھا۔ وہ 01اکتوبر 1919ء کو اترپردیش کے ضلع سلطانپور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ایک سب انسپکٹر تھے۔

دیو کوہلی

 دیو کوہلی 2 نومبر 1942 کو راولپنڈی، پاکستان کے سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ انہوں نے بالی ووڈ کی کئی فلموں جیسے بازیگر ، ہم آپ کے ہیں کون، میں نے پیار کیا، شوٹ آؤٹ ایٹ لوکھنڈ والا وغیرہ کے لیے سو سے زیادہ گانے لکھے تھے۔

نقش لائلپوری

جسونت رائے شرما (24 فروری 1928 – 22 جنوری 2017)، ان کا اصلی نام تھا، ویسے وہ اپنے قلمی نام نقش لائلپوری سے مشہور ہیں۔ وہ بھارتی غزل گو شاعر اور بالی وڈّ کے فلمی گیت نگار تھے۔ انھوں نے نہایت اعلی گیت لکھے۔  رسم الفت کو نبھائیں تو نبھائیں کیسے، لتا کی آواز میں 1973 میں آئی فلم ‘دل کی راہیں’ کا گیت)؛ الفت میں زمانے کی ہر رسم کو ٹھکراؤ (1994 کی فلم ‘دور گرل’ کا گیت)؛ مجھے پیار تم سے نہیں ہے… (رونا لیلیٰ کی آواز میں 1977 میں بنی فلم ‘گھروندا’ کا گیت)؛ نا جانے کیا ہوا جو تجھ کو چھو لیا، لتا کی آواز میں 1981 کی فلم ‘درد’ کا گیت) ۔ نقش لائلپوری کے لکھے گیت محمد رفیع، لتا منگیشکر، مکیش، آشا بھونسلے اور کشور کمار جیسے گائکوں نے گائے ہیں اور مدن موہن، نوشاد، جےَ دیوَ، سپن-جگموہن، روندر جین، ہنس راج بہل، حسن لال-بھگت رام وغیرہ جیسے سنگیتکاروں نے ان کے گیتوں کو سنگیتبندھ کیا ہے۔

ندا فاضلی

ندا فاضلی اردو کے مشہور شاعر، فلمی گیت کار اور مکالمہ نگار گذرے۔ ان کا پورا نام مقتدا حسن ندا فاضلی ہے۔ لیکن ندا فاضلی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش 12 اکتوبر، 1938ء کو دہلی میں ہوئی

ندا فاضلی دہلی میں پیدا ہوئے۔گوالیارمیں تعلیم پائی۔ ان کے والد ایک شاعر تھے۔ تقسیم کے بعد ان کے والدین اور خاندان کے افراد پاکستان چلے گئے، لیکن فاضلی بھارت ہی میں رہ گئے

گلزار دہلوی

گلزار ایک نامور شاعر اور ہدایت کار ہیں۔ وہ پاکستان کے شہر جہلم کے قریب دینہ میں 1936ء میں پیدا ہوئے۔ اصلی نام سمپیورن سنگھ ہے۔ تقسیم برصغیر کے وقت وہ بھارت چلے گئے۔ ابتدائی زندگی میں موٹر مکینک تھے۔ شاعری اور فلمی دنیا کی طرف رحجان انھیں فلمی صنعت کی طرف لے گیا۔ گلزار نے فلمی اداکارہ راکھی سے شادی کی۔

حسرتؔ جے پوری

حسرت جے پوری 15 اپریل 1922ءکو راجستھان کے جے پور شہر میں پیدا ہوئے۔ حسرت کا اصل نام اقبال حسین تھا۔ حسرت نے انگریزی میڈیم سے عصری تعلیم حاصل کی اورپھر اپنے دادا فدا حسین سے گھر پر ہی اردو اور فارسی سیکھی۔ حسرت نے تقریباََ 20 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور اسی دور میں ایک ہندو لڑکی سے عشق بھی ہوا۔

اقبال حسین حسرت جے پوری جے پور پیدا یدا ہوئے، جہاں حسرت نے انگریزی کی تعلیم حاصل کی جب تک درمیانے درجے کی سطح اور اس کے بعد چچا دادا، فدا حسین[1] سے حاصل کی اردو اور فارسی۔ حسرت نے تقریباََ 20 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اور اسی دور میں ایک ہندو لڑکی سے عشق بھی ہواجس کا نام رادھا تھا۔

ختر الایمان

اختر الایمان (پیدائش: 12 نومبر 1915ء— وفات: 9 مارچ 1996ء ) ضلع بجنور (اترپردیش) کی تحصیل نجیب آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام مولوی فتح محمد تھا ۔[1] اختر الایمان جدید نظم کے مایہ ناز شاعر ہیں اور انھوں نے بالی ووڈ کو بھی خوب سیراب کیا ہے۔ اخترالایمان کا پیدائشی نام راؤ فتح محمد رکھا گیا تھا۔ راؤ اس راجپوت گھرانے کی وجہ سے تھا، جن سے ان کا تعلق تھا۔ اسی نام کی مناسبت سے ان کے گاؤں کا نام راؤ کھیڑی تھا۔[2] انھیں 1963ء میں فلم دھرم پوتر میں بہتری مکالمہ کے لیے فلم فیئر اعزاز سے نوازا گیا۔ یہی اعزاز انھیں 1966ء میں فلم وقت (فلم) کے لیے بھی ملا۔ 1962ء میں انھیں اردو میں اپنی خدمات کے لیے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔ یہ اعزاز ان کا مجموعہ یادیں کے لیے دیا گیا تھا۔

منوج منتشر

منوج منتشر، جناب، ایک معروف بالیوڈ فلمی شاعر اور گیتکار ہیں ۔ انہوں نے بالیوڈ کی مختلف فلموں کے لیے موسیقی اور گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

منوج منتشر کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں بالیوڈ کی فلم انڈسٹری میں ایک بڑا نام دیا

کشور کمار

کشور کمار، جناب، ایک معروف بالیوڈ فلمی شاعر اور نغمہ نگار تھے۔ انہوں نے بالیوڈ کی مختلف فلموں کے لیے موسیقی اور گانے لکھے اور ان کے گانے مشہور ہوئے۔

کشور کمار کی شاعری اور نغمہ نگاری نے انہیں بالیوڈ کی فلم انڈسٹری میں ایک بڑا نام دیا۔ ان کے لکھے گئے بعض مشہور گانے میں شامل ہیں:

کشور کمار کے گانے اور شعر ان کے شاعری و ادب کی عظمت کو بڑھاتے ہیں اور ان کا ادبی ورثہ انہیں یادگار بناتا ہے۔ ان کے گانے آج بھی بالیوڈ فلم موسیقی کا حصہ ہیں اور لوگوں کے دلوں میں رہتے ہیں۔

——————

انڈین فلمی صنعت میں کئی معروف اور باصلاحیت شاعر گزرے ہیں جنہوں نے اپنی شاعری سے فلموں کو زندہ جاوید بنا دیا۔ یہاں 30 مشہور انڈین فلمی شاعروں کی فہرست دی جا رہی ہے:

    ساحر لدھیانوی

    کیفی اعظمی

    شکیل بدایونی

    مجروح سلطانپوری

    گلزار

    جاوید اختر

    حسن کمال

    ندا فاضلی

    آنند بخشی

    راجندر کرشن

    پریم دھون

    انجان

    نیرج

    حسرت جے پوری

    راجیش جوشی

    سمیر

    پنکج ادھاس

    وقار انبالوی

    زبیر رضوی

    سدھیر لدھیانوی

    مادھو موہن

    پرکاش مہرا

    امیت کھنہ

    اندرور کمار

    پراسون جوشی

    امی تابھ بھٹاچاریہ

    گوپیوران

    یوگیش

    کلیدا نیاز

    نارائن اگنی ہوتری

یہ شاعری کے وہ گوہر ہیں جنہوں نے نہ صرف فلموں کو خوبصورت بنایا بلکہ اپنی تخلیقات کے ذریعے لوگوں کے دل جیتے۔ ان میں سے ہر ایک شاعر کی اپنی انفرادیت اور انداز تھا، جو آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔