ڈاکٹر شاہ رشاد عثمانی
جدید اردو ادب کا آغاز سر سید او ران کے رفقا حالی و شبلی سے ہوتا ہے، جب انہوں نے شعر و ادب کو نئے اسالیب، نئی ہیئتوں اور نئے موضوعات سے ہمکنار کیا۔ شعر کا رشتہ فردیت کے بجائے اجتماعیت اور داخلیت کے بجائے خارجیت سے جوڑا تو تمام اصناف سخن کے ساتھ نعت کے موضوع کو بھی وسیع کینوس ملا۔ اب حالی اور ان کے رفقا کی نعت حضور اکرم سے صرف عقیدت و محبت کے اظہار تک محدود نہیں رہی بلکہ اسے وسیلہ اصلاحِ سیرت و کردار بھی بنایا گیا۔ سیرت کے پیغام کو عام کرنے اور مقاصد نبوت کو فروغ دینے کی تحریکی ضرورت کا احساس بعد میں شدت اختیار کرتا گیا۔ گزشتہ نصف صدی میں ایسے ہم فکر شعرا کا ایک کارواں ارد وادب میں جادہ پیما ہوا، جن کا مقصد اسلامی ادب کا فروغ اور نعت میں عشق رسول کو اتباع رسول سے مشروط کرنے کا جذبہ ان کا رہنما رہا ہے۔
الطاف حسین حالیؔ کی نعت، جس میں انہوں نے بارگاہ رسالت مآب میں ملت اسلامیہ کا حال زار بیان کیا ہے۔ اس کی ابتدا نہایت پردرد اور رقت انگیز ہے اور جس کے بعد تو اردو نعت گویا عصری مسائل اور ملی شعور کا مرقع بن گئی۔ ملت کے معاملات دربار رسالت میں استمداد و استغاثہ اور فریادوں کا نہایت پردرد بیان شروع ہوگیا۔
اے خاصہ خاصان ر سل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکےعجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
دور جدید نے جو روحانی اور تہذیبی کرب جنم دیے ہیں، ان کی گونج بھی آج کی نعت میں سنائی دے رہی ہے۔ گویا جدید اردو نعت فرد سے لے کر ملت کے اجتماعی مسائل سے پیدا ہونے والے گہرے کرب سے مرتب ہوئی ہے۔ نعت کا یہ رنگ و آہنگ اردو کی نعتیہ شاعری کا امتیاز خاص ہے۔ عصری آگہی، اجتماعی مسائل، سیاسی و تاریخی اور ملی شعور کی جھلکیاں جتنی کثرت اور جذبہ کی شدت کےساتھ اردو زبان کی نعتیہ شاعری میں ملتی ہیں، وہ شاید دوسری زبانوں میں نہیں ملتی۔ اس وقت میرے سامنے دور حاضر کے درجنوں شعرا کے نعتیہ کلام ہیں، جس میں نبی کریم کے ساتھ اپنے عشق و شیفتگی کے ذکر کے ساتھ ملت کے اجتماعی احوال بھی بیان کیے گئے ہیں۔ یہ نعت گو شعرا غم جاناں کے ساتھ غم دوراں کی روداد بھی سناتے رہے ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابھی عرض کیا کہ حالی نے’ مد و جزر اسلام ‘کے نام سے ایک طویل نظم لکھی جومسدس حالی کے نام سے مشہور ہے۔ اس نظم میں انہوں نے مسلمانوں کے دور عروج کی تاریخ بیان کی ہے اور اس کے بعد زوال کے دور کی تصویر بھی کھینچی ہے، جس کامقصد مسلمانوں کو بیدار کرنا اور انہیں انقلاب کے لیے تیار کرنا ہے۔ حالی کی شاعری گہرے ملی شعور کی آئینہ دار ہے۔ جب مغربی تہذیب کا ستارہ اقبال مسلمانوں پر چمکا اور ان کے ملک درملک اس تہذیب کی یلغار سے متاثر ہونے لگے تو حالی کے ساتھ اکبر الٰہ آبادی بھی طنز کے تیر و نشتر لے کر مغربیت کے خلاف میدان میں آگئے۔ پھر اقبال نے بھی مغربی تہذیب کوتنقید کا نشانہ بنایا، مگر اکبر کے مقابلہ میں اقبال کے یہاں گہرائی زیادہ ہے۔ اس مغربی تہذیب کا خمیر لادینیت، عیش کوشی اور لذت و منفعت سےبنا ہے۔ اقبال نے مغرب کے نظام فکر و تعلیم کو اپنی فلسفیانہ تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اقبال نے اپنے نعتیہ اشعار میں خصوصاً ارمغان حجاز میں عصر حاضر کے افکار کا گہرا تجزیہ کیا اور اس کے نقصانات بتائے ۔ ملت کی بے بسی کاذکر اقبال نے یوں کیا ہے ؔ
شیرا زہ ہوا ملت مرحوم کا ابتر
اب تو ہی بتا تیرا مسلمان کدھر جائے
اس راز کو اب فاش کرائے روح محمد
آیات الٰہی کا نگہبان کدھر جائے
یہاں پر ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نعتوں میں ملی مسائل، اجتماعی درد اور استغاثہ و فریاد کی پیش کش درست ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ اردو کے مقابلہ میں عربی و فارسی کی نعتیں زیادہ موحدانہ شان رکھتی ہیں۔ عربی و فارسی شعرا کے نزدیک قومی وملی مصائب کا بیان نعت کے دائرہ کے باہر کی چیز ہے اور آلام روزگار کی فریاد پیش کرنے کی جگہ رب ذوالجلال کی بارگاہ ہے۔
یہ بات اپنی جگہ بالکل صحیح ہے کہ نعت گوئی کا فن گویا پل صراط کا سفر ہے۔ جس میں قدم قدم پر لغزش پا کا خطرہ ہے۔ خدا اور رسول کے درمیان فرق و امتیاز کی جوباریک لکیرہے وہ عام طور پر اردو کی قدیم نعتیہ رویات میں ملحوظ نہیں رکھی گئی ہے۔ عام طور سے نعت کا موضوع شمائل و سراپا نگاری، یاد مدینہ میں بے قراری، اذن حضور کا انتظار ، دوری ومہجوری میں سرشاری، ساتھ ہی ساتھ اخلاق نبوی، شفاعت طلبی ، اشک ندامت، حضور کے احسانات کا تذکرہ اور دورد و سلام کے موضوعات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ ان موضوعات میں اردو کی جدید نعتیہ شاعری نے عصری آگہی، ملی شعور، سوز و گداز کے ساتھ آزمائش کے بیان کا اضافہ کردیا ہے۔ غم دوراں اور احوال زمانہ کے بیان کی ایک بڑی وجہ برصغیر ہند میں مسلمانوں کو تاریخ کےبدترین دور کا سامنا کرنا پڑا وہ نہایت دلدوز اور جاں گداز ہے۔ اس تاریخ میں ۱۸۵۷، ۱۹۴۷ اور ۱۹۹۲ خاصی اہمیت کے حامل ہیں، جب کہ یہاں کی ملت کو آزمائش کے عظیم سمندر اور آگ و خون کے دریا سے گزرنا پڑا تھا، ان دلخراش واقعات کا بیان باعث تکلیف بھی ہے اور حیرانی و پریشانی کا سبب بھی۔ اگر اس طویل تاریخی پس منظر کو سامنے رکھا جائے گا اور کوئی حیرت کی بات نہیں رہ جائے گی کہ ہندوستانی شعرا نے زیادہ نعتیں کیوں کہی ہیں؟ ان نعتوں میں قومی حالات کی عکاسی کیوں کی گئی ہے اور ان میں زیادہ سوز و گداز کیوں ہے؟ دراصل یہ کار ساز ازل کی حکمت کی کار فرمائی ہے۔ جب سیاسی و سماجی انحطاط عام ہوجاتا ہے تو سر چشمہ اسلام سے دلوں میں زبردست عشق و شیفتگی پیدا ہوجاتی ہے جو ایک حصار کا کام کرتی ہے۔ اردو کی نعتیہ شاعری اس کی بہترین مثال ہے۔
اب ایک نعتیہ نظم کے چند اشعار دیکھیے جن میں شاعر نے دور جدید کے فتنہ کے مقابلہ کے لیے ایک نئے مجدد اسلام کے ظہور کی تمنا کی ہے۔ نظم میں جوش عقیدت اور سوز و ساز موجود ہے طویل نعتیہ شاعری کا انتخاب پیش کیا جارہا ہے۔
حضور ! دشت بلا میں ہے شام غم کا ظہور
حضور! آپ کی چشم کرم ہے آیہ نور
حضور! کوئی مجدد عطا ہو ملت کو
ہو جس کے فیض سے احیائے دین حق کا ظہور
بہت طویل ہیں آلام دہر کے سائے
بہت دراز ہے اب دامن شب دیجور
(عبداللہ خاور)
ایک دوسری نعتیہ نظم میں شاعر مدینہ جانے والے کو حسرت سے دیکھتا ہے اور ان کے خاک قدم کو اپنا سرمہ بنانا چاہتا ہے اور ان سے یہ گزارش کرتا ہے کہ اس دربار میں پہنچ کر امت کا حال زار ضرور سنانا۔
اے خوش نصیب لوگو! یثرب کے جانے والو
عیش ابد کمالو رنج سفر اٹھالو
آؤ ذرا کہ دے لوں تسکیں اپنے دل کو
خاک قدم تمہاری آنکھوں سے میں لگاکر
(تمنا عمادی پھلواری)
اب جوش ملیح آبادی کی ایک نعت دیکھیے جس میں الفاظ کی شوکت اور آہنگ کا جوش و خروش بہت نمایاں ہے۔ آخر میں شاعری کی نظر امت مسلمہ کی حالت زار کی طرف مڑ جاتی ہے
تجھ پر نثار جان ودل مڑ کر ذرا تو دیکھ لے
دیکھ رہی ہے کس طرح ہم کو نگاہ کافری
آج ہوائے دہر سے ان کے سروں پر خاک ہے
رکھی تھی جن کے فرق پر تو نے کلاہ سروری
تیرے فقیر اور دیں کوچہ کفر میں صدا
تیرے غلام اور کریں اہل جفا کی چاکری
جتنی بلندیاں تھیں سب ہم سے فلک نے چھین لیں
اب نہ وہ تیغ غزنوی اب نہ وہ تاج اکبری
(جوش ملیح آبادی)
اب دیکھیے ایک شاعر حضورﷺ کی نعت و منقبت لکھنا چاہتا ہے اسی اثنا میں جبل پور میں فساد کا آتش فشاں بھڑک اٹھتا ہے جو اس کے خیال کو آتش بداماں کردیتا ہے۔
اے عازم دربار شہنشاہ مدینہ
یاد آئیں اگرتجھ کو شہیدان جبل پور
تھرا اٹھے عبرت سے بیابان و جبل بھی
اغیار کے دل جس کے تصور سے ہوئے چور
یہ خون وطن کی تری امت نے دیا ہے
حاضر ہیں ترے درپہ شہیدان جبل پور
(حفیظ الرحمن واصفؔ)
اب اس طرح کی ایک دوسری نعت کے چند اشعار دیکھیے۔ مراد آباد میں جب عین عیدالفطر کے دن عیدگاہ میں قتل کا بازار گرم ہوا تو کلیم عاجزؔ نے باد صبا کے ذریعہ یہ پیغام بھیجا ۔
مدینہ پہنچ کر سرعام کہیو
صبا کملی والے سے پیغام کہیو
یہاں میکدہ کہتے ہیں قتل گہہ کو
لہو سے بھرے جاتے ہیں جام کہیو
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
محرم کا اب عید ہے نام کہیو
میرٹھ میں مسلمانوں کا خون بہا۔جب کلیم عاجز بارگاہ نبویؐ میں حاضر ہوئے تو اپنی فریاد پیش کی۔
مسلمانوں کی خانماں بربادی اور حرماں نصیبی کا کچھ نہ کچھ ذکر ان کی ہر نعت میں ضرور ملتا ہے ایک نعت کے چند اشعار دیکھیے۔
یہ بات صبا کہیو ان سے وہ جن کی کملی کالی ہے
اب ان کے غلاموں کے گھر کی دیوار الٹنے والی ہے
کہیو کہ انہوں نے اپنی نظر کیوں ہم سے الگ فرمالی ہے
ہم نے تو انہیں کے زلفوں کی زنجیر گلے میں ڈالی ہے
کہیو کہ دلوں پر چھائی ہوئی ہر سمت شکستہ حالی ہے
دن بھی یہاں سونا سونا اور رات بھی کالی کالی ہے
کہیو کہ یہ صورتحال ہے اب ہم منہ کو چھپائے پھرتے ہیں
گردن پہ تو چہرے ہیں لیکن چہروں پرکہاں اب لالی ہے
کہیو کہ وہی تو ساقی ہیں کہیو کہ وہ یہ بھی جانے ہیں
رندوں کو لگی ہے پیاس بہت اور سب کا پیالہ خالی ہے
اس دور کے دوسرے شعرا میں ماہر القادری ، نعیم صدیقی، حفیظ میرٹھی وغیرہ کے یہاں بھی نعتوں میں عصری حسّیت کی مثالیں بڑی تعداد میں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن میں آخر میں صرف سرزمین دکن کے ایک نمائندہ شاعر شاذ تمکنت کی ایک نعتیہ نظم کے چند بند پیش کرنا چاہتا ہوں جس میں غم جاناں کے ساتھ غم دوراں بھی پوری طرح موجود ہے۔
آپ اکیلے مل جائیں تو دامن تھام کے رولو ں گا
جی غم سے ہے بوجھل بوجھل رات اندھیری گہرے بادل
اپنے گناہوں کی ہے کہانی بہتے ہوئے اشکوں کی زبانی
سب کے آگے کیسے بولوں تنہائی میں بولوں گا
آپ اکیلے مل جائیں تو دامن تھام کے رو لوں گا
دور حاضر کے بیشتر شعرا نے اپنی نعتیہ شاعری میں ملت کے غم اور اس کے مستقبل کی فکر کے جذبہ کو پوری شدت سے پیش کیا ہے۔ بطور نمونہ چند شعرا کے اشعار بغیر کسی تلاش کے جو میرے سامنے آگئے انہیں پیش کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
حفیظ تائب :
آمادہ شر پھر ہیں ستم گر میرے آقا
امت کی خبر لے مرے سرور مرے آقا
افغانیوں پر کوہ الم ٹوٹ پڑا ہے
خونریز ہیں کہسار کے منظر مرے آقا
فریاد کناں ہیں د ر و دیوار فلسطیں
ہیں نوحہ طلب مسجد و منبر مرے آقا
مختصر یہ کہ ملت کی زبوں حالی کا دلدوز تذکرہ جدید اردو نعت کا ایک ایسا امتیاز خاص ہے، جس کا مقابلہ شاید دنیا کی دوسری زبانیں نہیں کرسکتی ہیں۔ ملت اسلامیہ جب بھی اور جہاں جہاں بھی جبر ، ظلم و بربریت اور استحصال کا شکار ہوئی ہے، اس کے حساس شعرا نے رسول کریم کی رحمت کے تصور کو فکری و عملی سطح پر عام کرنے کی بھرپور کدو کاوش کی ہے اور یوں اس کے صلے میں وہ سکون قلب کی دولت سے مالا مال ہوئے ہیں۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب جب غلامان رسول عاجزی کے ساتھ دل کی گہرائیوں سے اپنے آقا کے حضور امت کی بے چارگی اور بے کسی کا تذکرہ کرتے ہیں تو نعت روح عصر کی نمائندہ بھی ہوجاتی ہے۔ ساتھ کہیں استغاثہ و فریاد، دعا، التجا اور عرض داشت بھی قرار پائی ہے اور ایسا کیوں نہ ہو جب ذات رسولؐسے عشق عصر حاضر کی تمام بیماریوں سے نجات حاصل کرنے کا واحد ذریعہ ہے اور جدید نعتیہ شاعری کا یہ نیا رخ تابناک مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
( مضمون نگار بھٹکل انجمن ڈگری کالج کے سابق صدر شعبہ اردو اورادارہ ادب اسلامی ہند کے سابق صدرو ماہنامہ پیش رفت دہلی کے سابق مدیر ہیں )