انجم قدوائی
لوک کہانی (یہ کہانی مجھے بچپن میں میرےابّی نے سنائی تھی)
ایک دیہاتی اپنی لاٹھی میں ایک گٹھری باندھے ہوئے گانے گاتا سنسان سڑک پر چلا جارہا تھا۔ سڑک کے کنارے دور دور تک جنگل پھیلا ہوا تھا اور کئی جانوروں کے بولنے کی آوازیں سڑک تک آ رہی تھیں۔
تھوڑی دور چل کر دیہاتی نے دیکھا کہ ایک بڑا سا لوہے کا پنجرہ سڑک کے کنارے رکھا ہے اور اس پنجرے میں ایک شیر بند ہے۔ یہ دیکھ کر وہ بہت حیران ہوا اور پنجرے کے پاس آ گیا۔
اندر بند شیر نے جب اس کو دیکھا تو رونی صورت بنا کر بولا۔
’’بھیا تم بہت اچھّے آدمی معلوم ہوتے ہو۔ دیکھو مجھے کسی نے اس پنجرے میں بند کر دیا ہے اگر تم کھول دوگے تو بہت مہربانی ہوگی۔‘‘
دیہاتی آدمی ڈر رہا تھا مگر اپنی تعریف سن کر اور قریب آ گیا۔ تب شیر نے اس کی اور تعریف کر نا شروع کر دی۔
’’بھیّا تم تو بہت ہی اچھے اور خوبصورت آدمی ہو ِ یہاں بہت سے لوگ گزرے مگر کوئی مجھے اتنا اچھا نہیں لگا۔ تم قریب آؤ اور پنجرے پر لگی زنجیر کھول دو۔ میں بہت پیاسا ہوں۔دو دن سے یہیں بند ہوں۔ ‘‘
اس آدمی کو بہت ترس آیا اور اس نے آگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ کھول دیا۔
شیر دھاڑ مار کر باہر آ گیا اور دیہاتی پر جھپٹا۔۔۔ اس نے کہا ’’ارے میں نے ہی تم کو کھولا اور مجھ ہی کو کھا نے جا رہے ہو؟
شیر ہنس کر بولا’’ اس دنیا میں یہی ہوتا ہے اگر یقین نہیں آتا تو پاس لگے ہوئے پیڑ سے پوچھ لو۔۔‘‘
دیہاتی نے پیڑ سے کہا۔ ’’بھیّا پیڑ! میں راستے پر جا رہا تھا شیر پنجرے میں بند تھا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ مجھے کھول دو اور میں نے کھول دیا۔ اب یہ مجھ ہی کو کھا نا چاہتا ہے۔‘‘
پیڑ نے جواب دیا۔
’’اسِ دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ لوگ میرے پھل کھاتے ہیں اور میرے سائے میں اپنی تھکن مٹاتے ہیں۔ مگر جب ضرورت پڑتی ہے تو مجھے کاٹ کر جلا بھی دیتے ہیں۔ مجھ پر ترس نہیں کھاتے۔‘‘
شیر یہ سن کر پھر دیہاتی پر جھپٹا۔۔
اس نے کہا، ’’رکو ابھی کسی اور سے پوچھ لیتے ہیں‘‘ ۔ اس نے راستے سے پوچھا۔
’’بھائی راستے! ۔دیکھو کتنی غلط بات ہے کہ شیر کو پنجرے سے میں نے نکا لا اور وہ مجھ ہی کو کھانا چاہتا ہے۔‘‘
راستے نے کہا۔’’ہاں بھائی! کیا کریں دنیا ایسی ہی ہے۔مجھ پر چل کر لوگ منزل تک پہنچتے ہیں میں انکو تھکن میں آرام دینے کے لیئے اپنے اوپر سلا لیتا ہوں۔
مگر جب ان کو مٹی کی ضرورت ہوتی ہے تو میرے سینے پر زخم ڈال کر مجھے کھود ڈالتے ہیں۔۔ یہ نہیں سوچتے کہ میں نے کبھی آرام دیا تھا۔‘‘
شیر یہ بات سن کر پھر جھپٹا۔۔۔ دیہاتی سہم کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔
تب وہاں ایک لومڑی گھومتی نظر آئی۔۔ دیہاتی اس کی طرف لپکا۔۔ اور بولا۔ ’’دیکھو یہاں کیا غضب ہو رہا ہے‘‘۔ لومڑی اطمینان سے ٹہلتی ہوئی قریب آئی اور پوچھا۔۔ ’’کیا بات ہے؟ کیوں پریشان ہو‘‘
’’دیہاتی نے کہا کہ میں راستے سے جا رہا تھا۔۔ شیر پنجرے میں تھا اور پنجرہ بند تھا۔ اس نے میری بہت تعریف کی اور کہا کہ پیاسا ہوں کھول دو اور جب میں نے اسے کھولا تو یہ مجھ پر جھپٹ پڑا۔۔ یہ تو کوئی انصاف نہیں۔۔ اور جب ہم نے پیڑ سے پوچھا تو وہ کہہ رہا ہے کہ یہی صحیع ہے اور جب راستے سے پوچھا تو وہ بھی یہی کہہ رہا ہے کہ شیر کی بات ٹھیک ہے۔اب بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘
شیر کھڑا یہ سب باتیں سن کر یہی سوچ رہا تھا کہ دیہاتی کی بات ختم ہو تو اس کو کھا کر اپنی بھوک مٹاؤں۔
لومڑی بولی۔ ’’اچھّا میں سمجھ گئی تم پنجرے میں بند تھے اور پیڑ آیا اور اس نے تمکو ۔۔۔‘‘
’’ارے نہیں۔۔۔ میں نہیں شیر بند تھا‘‘ دیہاتی نے سمجھایا۔
’’اچھا۔‘‘ لومڑی بولی
’’شیر بند تھا اور راستے نے شیر کو کھول دیا تو تم کیوں پریشان ہو ؟‘‘
’’اففوہ۔۔۔ راستے نے نہیں میں نے اسکو پنجرے سے۔۔۔‘‘دیہاتی الجھ کر بولا۔
’’بھئی میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کون بند تھا۔۔۔ کس نے کھولا کیا ہوا پھر سے بتاؤ۔‘‘ لومڑی نے کہا۔
شیر نے سوچا بہت وقت بر باد ہو رہا ہے وہ بولا۔ ’’ میں پنجرے میں۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر وہ پنجرے کی طرف گیا اور اندر جاکر بولا۔یوں بند تھا تو۔۔۔‘‘
لومڑی نے اگے بڑھ کر پنجرے کا دروازہ بند کر دیا اور زنجیر چڑھا دی۔
پھر مڑ کر دیہاتی سے بولی اب تم اپنے راستے جاؤ۔۔ہر ایک مدد کے قابل نہیں ہوتا ہے۔ دیہاتی نے اپنی لاٹھی اٹھا ئی اوراحسان مندی سے لومڑی کو دیکھتا ہوا تیزتیز قدموں سے چلتا ہوا راستے سے گزر گیا۔