ڈاکٹرنثار ترابی۔  ایسوسی ایٹ پروفیسر، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، مری

نعت ایک مخصوص صنف ہے جو اسلام کے پیغمبر محمد (ص) کے بارے میں شاعرانہ تاثرات سے متعلق ہے۔ نعت دریچہ (نعت کی کھڑکی) پروفیسر ارشاد شاکر اعوان کی تازہ ترین کتاب ہے۔ 1942] جو ان کی نظموں اور شاعرانہ ٹکڑوں پر مشتمل ہے۔ یہ مضمون کتاب میں چھپنے والی نظموں کا تجزیہ ہے اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ارشاد کی اصلیت ان کے ذاتی اسلوب، شائستہ الفاظ اور فرق کے ساتھ صنف میں حصہ ڈالنے کی شعوری کوشش میں ہے۔

کلیدی الفاظ: نعت؛ ادب اور مذہب؛ اردو؛ اردو ادب

صنفِ نعت، جس عظیم ہستی کی سیرت و کردار کا احاطہ کرتی ہے اس کا بیان اظہار کے ہزار رنگوں سے عبارت  ہو کر بھی تشنہ ہی رہتا ہے۔ یہاں خیال کی قوت  کو موضوع کےمتعین کردہ آداب و احترام کے تابع رکھنا پڑتا ہے۔ جذبہ عشق اس  عشقیہ صنفِ سخن کے دوش بدوش رہتا ہے۔اور یو ں اس کی تخلیق کا ظاہری انداز غزل کی تخلیق کے ظاہری انداز سے ہم رشتہ محسوس ہوتا ہے۔ اور اسی سبب سے غزل کہنے والوں کے لیے عموماً نعت کہنا زیادہ مشکل تخلیقی عمل نہیں سمجھا جاتا مگر اس کے ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار کی بھی گنجائش نہیں ہے کہ نعت کہنا مشقَ  سخن کا کمال نہیں، خصوصی توفیق سے مشروط ہے۔یہ خصوصی توفیق جن خوش نصیب  شعرا  کا مقدر بنی ہے ان میں ایک نام ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان کا بھی ہے۔جو معا صر شعری اور نثری ادب کا ایک ہمہ جہتی حوالہ ہیں۔شعر کے اظہار کے جن تین زاویوں سے ان کی تخلیقی تازگی کی خوش فکری  اورامکانات سامنے آئے ہیں اُن میں غزل گو اور نظم گو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ اُن کا بطورِ نعت  گو شاعر ہونا ہے۔فنِ نعت گوئی سرورِ کائنات سے اظہارِ محبت و عقیدت کا وسیلہ بن کر ان کے فکر و فن کا محور بن چکا ہے۔

“نعت دریچہ”سے قبل “عہد رسالت  میں نعت “کے عنوان  سے انہوں نے نعتیہ شعری ادب سے اپنی والہانہ وابستگی کو  تحقیق کی روشنی میں جس خوبی سے تاریخِ ادب کا امتیاز بنایا تھا اسے حوالہ بناتے ہوئے احمد ندیم قاسمی بجا طور پر کہتے ہیں:

“پاکستان میں اس پائے کی علمی اورتحقیقی لگن کی کوئی مثال مشکل سے ہی پیش کی جاسکتی ہے”(۱)

اسی طرح مذکورہ تحقیقی کتاب کی دوسری اشاعت کے لیے مقدمہ کی گزارش پر محمد کا ظم لکھتے ہیں:

“ایک بات میں آپ کو بتا دوں کہ کتاب اگر اچھی لکھی ہوئی ہو تو وہ اپنے آپ کو خود منواتی ہے۔دیباچوں کے بل پر کوئی کتاب اہم اور ہر دلعزیز نہیں ہو سکتی۔آپ کی کتاب ماشا اللہ بہت اچھی لکھی ہوئی ہے اور یہ  صحیح ہے کہ اس موضوع پر عربی زبان  میں بھی کوئی کتاب میری نظر سے نہیں گزری اس لیے میرا مشورہ ہے کہ اسے اسی صورت میں پھر سے آنے دیں”(۲)

“عہد رسالت میں نعت” کے بعد”نعت دریچہ” ان کے نعتیہ شعری ادب سے والہانہ تخلیقی وابستگی  کا ایک ایسا مظہر ہے جس کی منظر بہ منظر عقیدت مندانہ ترجمانی اپنے جملہ فنی و فکری حوالوں کے ساتھ ہمارے سامنے ہے۔تحقیق و تنقید کے شعبوں میں ان کی تحریر کردہ  متعدد کُتب شائع ہو چکی ہیں۔شاعری ان کا اولین تخلیقی عشق ہے اور اس   عشق کے کئی رنگ ان کے فکری اظہار کو نمایاں کیے ہوئے ہیں۔”احوال ، خواب خیال اجالا، شاخ در شاخ”یہ تینوں نظمیہ مجموعے ہیں  جن کے بارے میں ڈاکٹر ریاض مجید کہتے ہیں :

” ارشاد شاکرؔ اعوان کی شاعری کا مطالعہ موضوعات و مضامین  کے حوالے سے کریں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ان کا فکری دائرہ بڑا وسیع ہے اس دائرے میں اس زندگی کا عکس ہے جو انہوں نے گزاری اور جو گزار رہے ہیں۔ اسی طرح ان کی افکار کی موجود اور امکانی دنیا بھی ان کی شاعری میں جھلکتی ہے۔ان کے احباب، عزیز، مجلس آرائیاں، سماجی اور معاشرتی روابط،مسلکی اور سیاسی وابستگیاں، تہذیبی اور ادبی رجحانات،علمی و درسی موضوعات۔۔۔۔ سب کی جھلک ان کی شاعری میں موجود ہے”(۳)

مذکورہ نظمیہ مجموعوں کی اشاعت سے قبل “برف کی دیوار”کے نام سے بھی ۱۹۷۸  میں ان کا ایک نظمیہ مجموعہ شائع ہو چکا ہے جو مزاحمتی شاعری کی نمائندگی کرتا ہے۔علاوہ ازیں وہ ایک ماہر ِاقبال شناس کے طور پر بھی قومی  و ادبی حلقوں میں جانے اور مانے جاتے ہیں۔  فکرِ اقبال سے جڑے ہوئے قومی مباحث بھی ان کی تحقیقی اور تنقیدی فعالیت کے ترجمان ہیں جو نا صرف کتابی صورتوں میں یکجا ہوئے بلکہ برصغیر کے ممتاز اور معتبر ادبی جرائد میں شائع ہونے والے ان کے مضامین کی ایک قابلِ ذکر تعداد ایسی ہے جن میں ان کا ایک بالغ نظر اور ریاضت طلب نظریاتی طرزِ احساس الگ سے اپنی پہچان کے رنگ واضح کر چکا ہے۔ تاہم  فن نعت ان کا ایسا تخلیقی اختصاص ہے  جو ایک  صاحب توفیق شاعر کی حیثیت سے ہماری خصوصی توجہ اور تحسین کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ ۲۰۱۶  میں منعقد ہونے والی قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر” نعت دریچہ” کی پیش کاری پر انہیں قومی سیرت نگاری کے اوّل انعام کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔” نعت دریچہ” کے روپ میں سیرتِ نبوی ؐکے مختلف پہلوؤں کو اپنے اندر جذب کرکے جس طرح نعتیہ اشعار میں  ڈھالا گیا ہے وہ ان کے با توفیق سخنور ہونے کا ایک واضح ثبوت ہے۔ جدید نعتیہ شعری روایت میں ان کے شاعرانہ رویے کی انفرادیت اپنی مرکزی موضوعاتی وحدت، تخلیقی شادابی اور اسلوب کی جدت کے اعتبار سے منفرد حیثیت کی حامل ہے۔

نعت کی تخلیقی صداقتوں موضوع ِبحث بناتے ہوئے ڈاکٹر عزیز احسن رقم طراز ہیں:

“نعت اپنی تخلیقی اہمیت کے لیے شاعری کی پابند تو نہیں ہے لیکن کم از کم اردو میں تو نعت کو شعری پیکرہی دیا جاتا ہے اور عرفِ عام میں اسے تخلیقی  ہیت کو نعت کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہیتی اعتبار سے یہ اصنافِ سخن  کی کسی ایک شکل کی پابند نہیں۔ اسے اصنافِ شاعری کے ہر ظرف سے متشکل کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح نعت موضوعاتی شاعری کی ذیل میں آتی ہے اور اپنا تشخص اسی حوالے سے منواتی ہے۔ قصیدے میں کسی بھی ممدوح کی مدح کی جاسکتی ہے جبکہ نعت میں فکر کے سارے دھارے ، بیان کے سارے زاویے اور احساس کے تمام اشارے، ممدوحِ رب العالمین سیدِ المرسلین جناب محمد  رسولﷺ کی ذاتِ بالا صفات کی طرف راجع ہوتے ہیں”(۴)

کسی بھی کلام میں دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ موضوع ایک ایسی چیز ہے  جس سے متکلم کی حیثیت کا تعین بھی ہوتا ہے۔ قاعدے اور کلیے کی بات یہ ہے کہ جس موضوع پر ذیادہ اور اچھا کام  موجود ہو تو اس پر مزید کام کرنا  جہاں مشکل ہے وہاں غیر  ضروری اضافی یا عبث بھی اس لیے ہو جاتا ہے  کہ ہر موضوع کا ایک حد تک ہی احاطہ مقصود اور ممکن ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ تحقیقی میدان میں محققین کو نئے نئے تجربات کرنے اور خلا پُر کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے اور ایسے موضوعات پر کام کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہےجو پہلے ہی روشن ہوں۔ اس گریز کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ابتدا  میں کسی چیز کا احاطہ جس درجہ آسان ہوتا ہے ایک خاص وقت کے بعد اس میں کوئی قابلِ بیان یا نیا پہلو تلاش کر لینا  کارے دارو۔ زندگی میں بعض سدا بہار موضوعات بھی ہوتے ہیں مثلا محبت، عداوت،وصل،جفا،وفا وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن ان پر بھی قلم اٹھانا بعض دفعہ مندرجہ بالا وجوہات کے باعث دشوار ہوجاتا ہے۔

عربی زبان میں لفظ معجزے کی آسان تعریف کی جائے تو اس سے مراد ایسی چیز یا صنف ہے جو انسان کے وجدان اور کسی علم و تجربات سے ماورا  ہو اور عقل و دانش اس  کی توجیہہ اور تفہیم سے عاجز ہو۔ نعت  رسولِ مقبول میں مساعی کرنے والے اس امر سے آگاہ ہیں  کہ یہ موضوع بذاتِ خود معجزہ ہے۔ اس پر جس قدر بھی لکھا جائے اس کا احاطہ ممکن ہے نہ موضوعی یکسانیت ہی کا احساس دامن گیر ہوتا ہے۔شاعر اس میں برکت اور تائید غیبی کو ہر آن محسوس کرتا ہے۔ ارشاد شاکر اعوان کا “نعت دریچہ” نعتِ رسولِ مقبول کے گلشن کا ایک تازہ منظر ہے۔ اس گلشن کےہر پھول کی ہر پنکھڑی جداگانہ رنگ لیے ہوئے ہے۔ اس میں عقیدت کی خوشبو بھی ہے اور علم کا رنگ بھی ہے۔ مطالعہ کی گہرائی بھی ہے اور زبان پر گرفت کا ثبوت بھی۔ شریعت کی پابندی اور طریقت سے آشنائی، محبتوں کی انتہا اور احتیاط، اس پر ان کا استعاراتی طرزِبیان، حفظِ مراتب کے آداب کی پاسداری کا شعورانہ ادراک بھی شاعر کے تخلیقی سفر کی ایک خوبی بن کر نمایاں رہتا ہے۔ غرض یہ کہ کیا نہیں ملتا۔  شاعری کو جس انداز میں برتا گیا ہے اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس میدان میں بھی آپ کا مکمل ریاض ہے۔ اس مجموعے کی پہلی نعت ہی  قاری کو ان کے فکر کی گہرائی اور الفاظ کو برتنے کے سلیقے کا معترف کر دیتی ہے اور یہ بھی عیاں کر دیتی ہے کہ یہ الفاظ فقط  کسبی نہیں بلکہ روحانی فیضان کے بعد منظوم ہوا ہے۔ یوں تو ہر ہر شعر میں  لفظ ما”زاغ البصر”کی منفرد تفسیر ہے لیکن آخری شعر تو سوچ کی پرواز کو مزید مہمیز لگا دیتا ہے۔

          ؏           ماطٰفیٰ   وما غویٰ  ہی  تو ہے  بالا فُقِ المبین

                    شرحِ مازاغ البصر ہے حرفِ مازاغ البصر(۵)

کتاب کے آغاز میں ڈاکٹر سفیان سفی نے ڈاکٹر ارشاد شاکر کی اقبال فہمی اور اقبال سے تعلق کا جو ذکر کیا ہے اس نعتیہ کلام میں اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ مندرجہ بالا شعر میں قرآنی الفاظ کا اپنے مخصوص رنگ میں استعمال کرنا  یقیناً اقبال سے حد درجہ محبت ہی کے باعث ممکن ہے۔ اس طرح ان کا یہ شعر

          ؏         وقتِ   انیِ   انا ر،   یاخدا

                    بخ زدہ شب،  نگر تا نگر روشنی(۶)

عربی ترکیب کو بطورِ استعارہ استعمال کرکے جہاں اس شعر میں قدما کا رنگ یاد دلاتے ہیں وہیں ایک نئے تجربے سے بھی روشاس کراتے ہیں جو کہ اردو میں ایک نئی تلمیح ہے۔ ان کو ایک اور نعت کا  مطلع ملاحظہ ہو

          ؏         اللہ     الحمد     کہ     الحمد    کے      انوار       اترے

                    شق قلم کی ہے زباں “نون” کے اسرار اترے (۷)

اس شعر میں جہاں مصرعہ اول میں  لفظ “الحمد” کی ترکیب لفظی کے جوہر دکھاتے ہیں وہی مصرعہ ثانی میں “نون” کے اسرار  ہونے کا بیان اور یہ کہ ان کا کوئی مطلب فقط وجدانی سطح پر ہی سمجھ آسکتا ہے کس قدر اختصار سے ان سب  پہلوؤں کو ایک مصرعے میں  سمو دیا ہے۔ اس طرح یہ شعر ملاحظہ ہو

          ؏         اک طرف ساری ماؤں کا لطف وکرم

                    فاتحِ        مکہ   کا  انتقام   اک   طرف(۸)

اس شعر میں معنویت کا حسن اپنی جگہ ہے لیکن لطف و کرم اور انتقام کے استعمال جمع بین الاضد کو جو حسن قائم کیا ہے یقیناً الفاظ پر عبور کا ثبوت ہے۔اسی طرح وہ نعت جس میں رسالت کی شان اور رسالت کا مقصد بتایا گیا ہے وہاں بھی آپ ﷺ کی جامعیت،  توازن، تعدل اور اکملیت کو کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے  گویا” سید سلیمان ندوی ”  کے خطباتِ مدراس کا کوئی باب منظوم کردیا گیا ہو۔ چند  شعر بطور مثال ملاحظہ ہوں:

          ؏         رسالت  حق و باطل  میں   تمیز  اس  طرح   فرمائے

                    جدا سورج کی کرنوں سے ہوں جیسے دھوپ اور سائے(۹)

اور یہ کہ

          ؏          شریعت وہ کہ رہتی زندگی تک دستگیری ہو

                    طریقت یہ کہ ہر سالک مراد زندگی پائے(۱۰)

اپنے اشعار میں رسالت  مآب کی مدح کے ساتھ امت کی تربیت بھی حسنِ اخلاق کے ساتھ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

          ؏         انہی  لبوں  پہ  صلوٰ ۃ   و سلام  سجتے  ہیں

                    جو شوقِ وصل بھی رکھتے ہیں انتہا والا(۱۱)

یہاں ذکرِ رسول ؐکے ساتھ فکرِ وصل رسول ؐ سے شخصیت میں کس قدر  واضح فرق مقصود ہے دو مصرعوں میں بند کر کے دکھا دیا ہے۔اسی طرح اُمت میں عمل کی کمی کو عرضِ حال کی طرح دربارِ نبی میں یوں بیان کرتے ہیں۔

          ؏         الجھ کے رہ گئی اُمت دلیل و برہاں میں

                    گیا عمل سے مسلماں یا رسول اللہؐ(۱۲)

اس نعت کو پڑھتے ہوئے مولانا جامی کی عرضِ حال کا منظر سامنے آجاتا ہے۔

          ؏         تنم فرسودہ جاں پارہ  زہجراں یا رسول اللہؐ

                    الم  پژمردہ آورہ  رُعصیاں  یا رسول اللہؐ           حضرت جامی

عربی، فارسی اور اُردو میں شعری اصناف میں غزل ایسی صنف ہے جس میں موضوعات کا تنوع نِت نئے تجربات اور اسالیب کے لیے بہت کُشادہ د امن ہے۔ ارشاد شاکر اعوان کے یہاں غزل کی صنف کو اگر  نعتیہ کلام کےلیے استعمال کیا جائے تو اس میں آپؐ کی شخصیت کی ہمہ جہتی پر بات کرنا شاید آسان ہو جاتایا یہ کہ آپ اتنے وسیع قالب کو ہی شانِ رسالت مآب کے بیان کے لیے اس لیے پسند کرتے ہیں کہ اس سے کم میں دشواری بہت ہے اور اس سے زیادہ کی گنجائش زبان کے دامن میں موجود نہیں ہے۔یہ شعر اس تناظر میں اپنا مفہوم کتنی عمدگی سے بیان کر رہا ہے:

          ؏         لکھوں تو بات آپؐ کی ،   کہوں تو نعت آپؐ کی

                    غزل کی لے میں آپؐ کی ہی مدحتیں کیا کروں (۱۳)

ارشاد شاکر اعوان نعتیہ اشعار میں درجے کی متوازن سوچ کا اظہار کرتے ہیں اس کا ثمرہ ہے کہ توحید، رسالت، مقامِ توحیدِو رسالت، عقیدہ و عقیدت،شریعت اور طریقت تمام کو اپنی  جگہ توازن اور تعدل سے رکھا ہے اور  ان تمام امور میں فی الفور قرآنی حوالے آپ کا  علومِ فقہ  تفسیر پر عبور عیاں کرتے ہیں۔ذیل میں ایک نعت کے تین اشعار بطورِ مثال پیش ہیں۔

          ؏         کہہ رہی ہے امرہم  شوری کی نَص

                    تاقیامت  ہے امامت آپؐ کی

                    انت فیھم کا تقاضہ ہے یہی

                    تازہ ہو ہر وقت سنت آپؐ کی

                    نکتہ توحید ہے حبِّ رسول

                    شرک کیا جانے حقیقت آپؐ کی(۱۴)

اور اسی نعت کا آخری شعر عقیدہ ختمِ نبوت پر دال کر رہا ہے۔

          ؏         حرفِ ما کان ابا محکم دلیل

                    آخری حتمی نبوت آپؐ کی(۱۵)

ان کے تخلیقی رویوں کی مجموعی اور مرکزی سمت ہماری کلاسیکی تہذیبی روایت کی فکری تسلسل سے ہم آہنگ ہے۔معاصر نعتیہ شعری روایت میں ان کے شاعرانہ رویے کی خوبصورتی اپنی مرکزی موضوعاتی وحدت اور اسلوب ،  ہر دو کے اعتبار سے الگ شناخت دکھائی دیتی ہے۔

شاعر کا ایمان ہے کہ ذکر نبیؐ کی مبارک تخلیقی ساعتوں میں اس کے لفظوں میں تاثیر کا معجزہ،  صاحبِ کوثر کی ثنا خوانی کے فیض ہی سے نمو پاتا ہے۔

          ؏         تاثیر ہے یہ صاحبِ کوثرؐ کی ثنا کی

                    شاکر مری آواز میں زم زم کا اثر ہے(۱۶)

یہی نہیں بلکہ اس کے نزدیک بخششِ عصیاں کی راہ صرف اُنہی کا مقدر بنتی ہے جنہیں شفیع عالمؐ پناہ کی غلامی میسر آجائے۔

          ؏         اگر شفاعتِ عالم پناہ مل جائے

                    ہمیں بھی  بخشش عصیاں کی راہ مل جائے(۱۷)

“نعت دریچہ” کے صفحہ ۱۴۳ پر درج ان کی ایک نعتیہ نظم “بدر بار خیرالابرار” کے عنوان سے مکمل ہوئی ہے جو کُل (۵۱) اشعار پر مشتمل ہے۔ جس کا آغاز اس شرطِ ایمانی سے ہوتا ہے کہ کوئی دنیاوی افتخار ہو یا دیں کا  کوئی وقار، آقائےِ نامدار پر سب کچھ قُربان کر دینا ہی عشقِ خیر الوریٰ کا حاصل ہے۔

          ؏         توقیرِ دنیوی ہو کہ دیں کا وقار ہو

                    آقائے نامدارؐ پہ سب کچھ نثار ہو(۱۸)

آگے چل کر شاعر کا تخاطب “نسیمِ صبحِ بہاراں ” سے ہے۔ ذرا دیکھیے کہ شاعر نے کس درجہ دل نشین اسلوب اپناتے ہوئے آقائے دو جہاں ؐسے اپنی شیفتگی کا اظہار کیا ہے۔

          ؏         اُ س شہر نور،دیدہ کونین سے اگر

                    تیرا نسیمِ صبحِ بہاراں گزار ہو

                     کہنا بصد عقیدت و با جملہ احترام

                    اے تم پہ میری جان فدا دل نثار ہو(۱۹)

سرشاری اور وارفتگی کا یہ عالم بھی دیدنی ہے۔

          ؏         مقصود وہی در ہے وہی راہ گزر ہے

                    ہر لحظہ مدینے کا سفر پیشِ نظر ہے

                    دیتے ہیں جہاں جنّ و ملک روز سلامی

                    اے بخت ! مبارک ہو ‘ یہ اُ س شاہ کا در ہے

                    لکھتا ہے قلم  جو بھی ثنا  آپؐ کی ‘ گویا

                    ہے صورِ سرافیل کہ جبریل کا  پر ہے(۲۰)

مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ

          ؏         اےآفتابِ  عرش رسالتؐ        ! نگاہِ لطف

                    اے ابرِ فیضؐ                 ! رحمتِ حق کی پھوار ہو

                    پھر سے وہی ہو وحدت ملی ؐ کی آن بان

                    پاؤں میں زخم آئے،  تو آنکھ اشک بار ہو(۲۱)

اس نظم کا بلیغ اشارہ  اہلِ مدینہ متفقہ آئینِ ریاست کا استعارہ ہے اور ایسا لطف کہ نہ دیکھا نہ سنا

          ؏         میثاق ہے مدینہ کا شاہد کہ آپؐ کو

                    مانا ہر ایک نے ہے، امام الامم ہیں  آپؐ(۲۲)

اسی نظم کے ایک بند کا ایک شعر تشبیہ کے لیے مشبہ بہ کے بجائےمشبہ کے تفضّل کی انفرادیت کا نمونہ ہے۔

          ؏         لایا تھا وہ بھی آپؐ کے قد سے مشابہت

                    دھوکہ مگر نہ دے سکا سروِ رواں مجھے(۲۳)

ذرا اس طرف بھی نگاہ کہ سب کچھ کہہ دیا مگر کچھ بھی نہ کہا

          ؏         مصفطےؐ تشبیہ رمزِ کُن فکاں

                    زندگی کا استعارہ مصطفیؐ (۲۴)

اسی طرح استغاثہ میں انہوں نے اپنے عہد کے آشوب کی طرف جو بلیغ اشارات کیےہیں وہ ان کے داخلی کرب کا صداقت آمیز اظہار ہیں۔ ایسا صداقت آمیز اظہار جو ہر سچے تخلیق کار کے بیانیہ کا احسا سا تی سرمایہ ہو تا ہے۔

          مجموعہ نعت کے آخر میں اس کا آنا  یاد رکھا جاتا گویا ساری ریاضت کا حسنِ طلب ہے۔ آخری تین بند پیشِ خدمت ہیں

          ؏          فرقہ بندی سکہ ہے بازار کا

                    خدمت دیں نام ہے آزار کا

                    حال کیا اچھا ہو اس بیمار کا

                                                    ہو نہ جس کو اپنی بیماری کا غم

                                                    یا رسول  اللہ،   یا  میر اُممؐ

                    آپؐ تو ہیں رحمتہ العالمین

                    آپؐ کی بخشش کی حد کوئی نہیں

                    بے یقینوں کو عطا ہو پھر یقیں

                                                    سخت نادم، سخت ہیں شرمندہ ہم

                                                    یا رسول اللہ،  یا میرِ اُممؐ

                    شاکر اعوان ایک ادنیٰ اُمتی

                    سامنے جالی کے ہے دامن تہی

                    لے کے آیا استغاثہ یا نبیؐ

                                                    عاجزی کا اس کی۔رکھ دیجئے بھرم

                                                    یا رسول اللہ،  یا  میرِ اُ ممؐ (۲۵)

اور پھر وفور ِ عقیدت کا ایک مسلسل بیانیہ ہے جس کی ہر ہر ادا شاعر کی اس مکالماتی مکاشفے کی مترنم فضا بندی کا اعلان کرتی سنائی دیتی ہے جو مصرعے مصرعے کا حاصل ہے۔اس نظم میں شاعر، میدانِ حشرمیں لوائے حمد کے نیچے پناہ مل جانے کی بے تاب تمنا لیے جب کسی سے مدینے کی گفتگو سنتا ہے تو اُس لمحہ جاں فزا میں اس کی نظر طواف کرنے لگتی ہےاور دل صلوۃ و سلام کی وجدانی سرشاریوں میں ڈوب ڈوب جاتا ہے۔ اس نظم میں شاعر نے تراکیب سازی کا ہنر خوب آزمایا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ یہ شاعر کی وارفتگی کی عطا ہے(۵۱) اشعار کی حامل اس نعتیہ نظم میں کم و بیش ساٹھ سے زائد تراکیب کا تخلیقی استعمال اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ تراکیب سازی میں شاعر کو کمال حاصل ہے۔ کچھ تراکیب یوں ہیں:

رُتبہ دانِ عظمتِ ذاتِ قدم، صد نازشِ عرب،کشتِ کمالِ ملتِ بیضا، شاخ نہالِ شوق،اسیرِ شوقِ جمال،رہینِ کشمکشِ انتظار، احمد و محمود و حامد لقب،رازِ دارِ لوحِ و قلم،غبارِ کوچہ عالم پناہ، پناہ خواہِ رسالت پناہ،خا کروبی صحنِ حرم، بندہِ بیکارِ محض، فقیرِ راہ نشینِ غم و الم وغیرہ وغیرہ۔ نظم کی ہیئت ترکیب بند ہے روانی ایسی کہ ایک بند سے دوسرے کی طرف نکل جائیں مگر ذوقِ سلیم تبدیلی محسوس نہ کر پائے۔ اس شعری مجموعہ کا ایک مرکزی امتیاز یہ ہے کہ اس میں سیرت احمد مجتبیٰ کے متعدد پہلوؤں کو قرآنی تعلیمات کی روشنی میں بیان کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے۔ صرف قرآنی تلمیحات کو پیش منظر یا پسِ منظر کے لیے نہیں برتا  بلکہ پورے پورے مصرعے قرآنی آیات کے مقدس سائے میں اپنا جہانِ معانی کھولتے ہیں۔ جہاں جہاں سرکارِ دو عالم کے مقام و مرتبے کا بیان منظوم ہوا ہے وہاں وہاں کلامِ الہٰی کا پرتو بھی اپنی ضیائیں بکھیر رہا ہے۔

سیرت نبی کریم ﷺ جیسا لامتناہی موضوع شانِ رسالت کے بیان جیسا عظیم مضمون دلیل میں جا بجا دیکھیں حدیث  و قرآن ایسے الفاظ کا چننا جو ہوں شایانِ شان اور ایک شاعر مسکین کی واحد جان، واقعی یہ اعجاز نبی کریمؐ ہے کہ اس قدر عالی شان نعتیہ مجموعہ مرتب ہو گیا۔ کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ شاعر کو اللہ کے فضل  سے دربارِ رسالتؐ میں شرفِ باریابی حاصل ہوا تو پھر  محمد عربی ؐ کے رب نے بھی نوازنے میں شایانِ شان فیاضی کا معاملہ کیا ہے۔ موضوع کی عظمت تو ظاہر ہے ہی ساتھ موضوع کی نزاکت بھی مدِ نظر رہی ہے اور رہی بات موضوع سے انصاف کی تو وہ تمام اُمت مل کر بھی مساعی کرے تو انصاف نہیں ہو سکتا۔ البتہ ہر گلِ را رنگ و  بوئے دیگر کے مصداق گُل ہائے عقیدت جا بجا بکھرے ہوئے ضرور نظر آتے ہیں۔