سید صہیب ھاشمی
نعت کو پاک و ہند میں شاید آغاز ہی سے محض عطا یا توفیق سمجھا جاتا ہے، جیسی بھی ہو شکر ادا کیا جاتا ہے چنانچہ قاری یا سامع کے پاس سبحان اللہ کہنے کے علاوہ کوئی دوسرا رستہ نہیں بچتا۔
نعتیہ تنقید کو ہمیشہ یہ مسئلہ بھی درپیش رہا ہے کہ نعت پہ ادبی تنقید کو مذھبی عقائد پہ حملہ تصور کیا جاتاہے ـ جب کہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تنقید عقائد اور عقیدتوں کو اپنا موضوع بناتی ہی نہیں ہے ـ نعتیہ تنقید کے معاملے میں روایتی فکری نظام نے جدید طرز احساس کو پھلنے پھولنے کا موقع نہیں دیا اور ایسا برتاؤ کسی طور نعت کے ساتھ عدل نہیں تھا ـ یہی وجہ ہے کہ آج مغربی تنقید کے محب نعت کے صنفِ ادب ہونے پر سوال اٹھارہے ہیں ـ جب یہ طے ہو گیا کہ نعت قاری یا سامع کو پیش کرنے کے لئے نہیں بارگاہِ رسالت ماب ص میں پیش کرنے کے لیے کہی جاتی ہے اور جب رسالت مآب کی زبان مبارک سے ادا ہونے والا ایک ایک جملہ فصاحت و بلاغت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہوتا ہے تو کیا بطور امتی ہماری ذمہ داری نہیں کہ ہم ان کی شان میں جو کچھ کہیں وہ ہماری تخلیقی صلاحیت کا بھر پور آئنہ ہو ـ
نعت کہنے والوں اور نعتیہ تنقید سے وابستہ ہر دو کے لئے ضروری ہے کہ نعت کے اشعار پہ سخن کی دوسری اصناف کی طرح بھرپور توجہ دی جائے چاہیے تھی اور دوسری اصناف کی طرح نعت کو بھی شعری جمالیات کے میزان پر پرکھا جانا چاہیے تھا، بہتر تو یہ ہوتا کہ نعت کے معاملے میں معیار دوسری اصناف سے زیادہ کڑا ہوتا ـ تنقید کا معاملہ تو یہ ہوا کہ چونکہ تنقید عقیدے اور عقیدے کے اظہار کو اپنا موضوع نہیں بناتی اس لیے جدید تنقید نے نعت پر گفتگو بھی نہیں کی ہے ـ اس کی سب سے اہم وجہ شعری رویے کا نعت میں نہ ہونا ہے ـ
بقول سرورجاوید
” شاعری میں جمالیاتی اظہار ہی اس کا اصل سرمایہ ہے جبکہ اس کے فکری مواد کی حیثیت ثانوی درجہ رکھتی ہے۔ ان کے مطابق زبان و بیان کے اصول و ضوابط، الفاظ کا انتخاب، ان کے صحیح تلفظ اور معنیٰ کی صحت کے ساتھ اور اس طرح کہ وہ روایت و درایت سے متصل رہیں، جدید نظریات کی تمام بحثوں کے باوجود وہی شاعری آفاقیت اور اپنا شعری وجود رکھتی ہے جس میں موسیقیت (غنائیت) موجود ہو یا موسیقیت کی کم سے کم صورت موجود ہو، جسے ہم آہنگی کہا جاتا ہے۔”
یقیناً نعت کے معاملے میں غنائیت پہ توجہ ضرور دی جاتی رہی لیکن عموماٌ ناگزیر ترین سطح پر اسے نہیں پرکھا گیا ـ یعنی الفاظ کی نشست و برخاست کو غنائیت کی ارفعی ترین سطح پہ پرکھنا انتہائی ضروری تھا ـ علاوہ ازین نعت کے معاملے میں مضامین کی یکسانیت کا مسئلہ بھی روایت کے ہاں عام چلن ہے جس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ نعت میں تہہ داری کے تصور کو ضروری نہیں سمجھا گیا نتیجہ یہ کہ نعت تغزل کی عنصر سے کھچی کھچی رہی ـ روایتی نعت میں تغزل کے نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی یے کہ نعت میں ابہام کو حرام سمجھا جاتا رہا جو کہ اچھی شاعری کا خاصہ ہے اور اسی سے تہ داریت کا تصور ابھر کے سامنے آتا ہے یعنی شاعرانہ ٹیڑھ پن کو گستاخی کے مترادف سمجھا گیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مولانا مودودی سے نعت میں ابہام کے بارے سوال کیا گیا جس کا جواب یہ ملا کہ اس قدر ابہام جائز ہے کہ جہاں شرک کا شبہ نہ ہو۔ مخصوص نعتیہ تراکیب، استعارات اور تلازمات میں بھی اسی سبب ترقی نہیں ہوسکی کہ بدلتے منظر کے اتصال کرتی تراکیب کو شجر ممنوع سمجھا جاتا رہا ہے۔ نتیجتاً نعت میں وہی تراکیب استعارات اور تلازمات اب تلک برتے جا رہے جو روایت کے ہاں دکھائی دیتے ہیں ـ ہمارے روایتی نعت پر بضد شعرا کرام یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ نئے استعارات و تازہ کار تراکیب موضوعات کے امکانات کا سبب بنتے ہیں ـ
ہمارے ادبی ورثے کی بدقسمتی رہی ہے کہ نعت کو ہمیشہ عقیدت اور عقیدے کے ایسے میزان پر تولا جاتا رہا جہاں شعری جمالیات و تغزل اور موضوعات کی فراوانی کی گنجائش کسی صورت نہیں تھی ـ حالی سے حفیظ تائب تک مذھبی علما نعت کے ایسے ناقد تھے جو صرف اس تاک میں رہتے کہ کس مقام پر فتوا دینا ہے یقین کیجے گذشتہ نعتیہ ادب فتاویٰ کے بوجھ تلے دبا ہوا محسوس ہوتا ہےـ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ شاعر اپنی حدود سے متجاوز ہوجائے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر کو اجازت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے تخلیقی وجدان کو بروئے کار لائے اور نعت کو بطور صنفِ ادب منوائے ـ
تنقیدی حوالوں سے نعت پر بہت کم کام کیا گیا جس کا نقصان نعت کو ہوا۔ نعت میں اب تک مدینہ کا گدا ہونا مدینہ کی گلیوں میں برہنہ پا پھرنا یا ایسے دیگر مضامین ہی برتے جارہے ہیں.
نعت کے روایتی مضامین کے علاوہ نئے، تازہ اور منفرد زاویے سے متن کشید کرنا مشکل کام ہے کیوں کہ معاملہ یہ ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ سے متعلقہ مختلف پہلوؤں کو قرآن و حدیث اور بعد ازاں نعت میں محفوظ کر لیا گیا ہے لہذا اب بات ذوق سے زیادہ علم اور متن سے زیادہ ہنر اور خلوص سے زیادہ تخلیقی صلاحیت پر آ ٹھہرتی ہے تاکہ ظاہر سے باطن کا سفر طے کیا جاسکے یعنی معروضیت کے بجائے داخلیت کے ساتھ انسلاک کیا جاسکے جیسا کہ ہماری غزل کرتی آ رہی ہے ـ
نعت کے مضامین کو جدید فکریات کے تحت برتنا عصر حاضر کی ضرورت بنتا جا رہا ہے، غنائیت، شعری جمالیات اور تغزل کی ارفعی ترین سطح نعت کی ترقی کے لئے انتہائی ضروری ہیں۔ نعت کے معاملے میں جدید تراکیب، استعارات و تلازمات، تلمیحات اور علامات کی ضرورت کو سمجھ کر ہی جدید نعت کا تصور پیش کیا جا سکتا۔
جدید انتقادیات میں ابھی تک نعت کو بطور صنفِ ادب قبول نہ کرنے کا نوحہ اپنی جگہ مگر دوسری طرف یہ خوش آئند ہے کہ ایسے غزل گو شعرا موجود ہیں جو جدید نعت کی بنیاد رکھ چکے ہیں۔ (یعنی نعت کو جدید تنقیدی نظریات کے حوالے سے پرکھنے کا وقت بھی آچکا ہے).
ڈاکٹر ریاض مجید جدید نعتیہ شاعری اور نعتیہ تنقید کا ایک اہم نام ہے ـ اسلوبیاتی سطح پر نعت کی جدید ڈکشن کی سمت انھوں نے متعین کی اور بہت سی نئی تراکیب و علامات کو تخلیقی سطح پر بھرپور انداز میں برتا ہے ۔ جدید تر لب ولہجہ کے غزل گو شاعر ہونے کے باعث ان کی نعت میں لفظیات،تشبیہات، استعارے، تراکیب اور فکر کی تازہ کاری بھی شعر در شعر سفر میں رہتی ہے۔ نعت پر لکھے گئے مختلف رسائل میں موجود ڈاکڑ ریاض مجید کے مضامین خاصے کی چیز ہیں ـ بطور انتخاب چند اشعار دیکھیے
اے خوشا! یہ سرشاری جو اثاثۂ جاں ہے
نعت دار سوچوں سے دل بہشت ساماں ہے
ہوئی جاتی ہیں کیسے نعتوں پہ نعتیں
حرم کا سفر نعت آور بہت ہے
مغفرت رُو ہو لفظ لفظ ترا
حمد میں التجا ہو بخشش کی
صدیاں طلوع ہوتی ہیں اس رخ کو دیکھ کر
کہتے ہیں جس کو وقت ہے صدقہ حضورؐ کا
سیرت شناس دوست جو دو چار جمع ہوں
حب دار ہو مکالمہ و گفتگو کا رنگ
بزرگ شعرا میں عارف امام کا نام بھی جدید نعتیہ شاعری کی ضمن میں اہم ہے۔ ان کی نعت میں جو تغزل اور شاعرانہ پن ہے اس سے لطف کشید کیے بنا رہا نہیں جاسکتا ـ ان کے ہاں اسلوب سے زیادہ موضوعات کو والہانہ شعری پیرائے میں ڈھالنے کا جو سلیقہ ہے وہ ہمیں کہیں اور نہیں ملتا ـ اسی خاصیت کے سبب عارف امام اپنے عہد کے نعت کہنے والے شعرا میں ممتاز نظر آتے ہیں. عارف امام صاحب کی نعوت سے چند اشعار ملاحظہ کیجئے ـ
اک عشق نے میرے سینے میں اک شہرِ خبر آباد کیا
اک عشق نے میری آنکھوں سے مری اپنی صورت اوجھل کی
رات بھر چہرۂِ والیل چمکتا ہے یہاں
یہ مدینہ ہے یہاں رات کہیں اور کی ہے
خضوع کم ہے ابھی جانمازِ مدحت پر
ابھی کھلا نہیں چہرے پہ خاشعون کا رنگ
ڈاکڑ رفیق سندیلوی نے اردو نظم و غزل کا ایک اہم نام تو ہے ہی مگر تنقیدی نکتہ نظر کے اعتبار سے بھی ایک نہایت اہم نام ہے ـ ان کی نعت کے مطالعے کے دوران رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ نعت کہنے والا اگر خود ناقد بھی ہو تو کیسے اس کے ہاں مضمون آفرینی و تغزل کا متوازن نظام تشکیل پاتا ہے ـ
ڈاکٹر رفیق سندیلوی کی نعت ان کی نظموں کی طرح تہ دار بھی ہے اور جمالیات سے بھرپور بھی ـ اگر استعارات، تلازمات و علامات کا ناگزیر ترین سطح پر استعمال دیکھنا ہو تو ڈاکٹر رفیق سندیلوی کی جملہ شاعری بشمول نعت مطالعہ کرنا چاہیے ـ انھوں نے عصرِ حاضر کی تلخیوں کو نعت کرنے کی جو روش اختیار کی ہے وہ قابلِ توجہ ہے ـ انھوں نے الفاظ کو اس کے معنی سے الگ کرکے اپنا نیا جہان آباد کیا ہے جسے جدید نعت کے منظر نامے میں ایک بڑی تبدیلی شمار کیا جاسکتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کیجے
مَیں اپنے شہر کے خونیں مناظر کس طرح دیکھوں
بُنا ہے آنکھ پر مکڑی نے جالا یا رسول اللہ
مُنافق رُوبرو تھے، سامنے سے جنگ کیا ہوتی
کسی نے پُشت پر مارا ہے بھالا یا رسول اللہ
یہ کیسا فطری تعلّق ہے چشم و اسم کے بیچ
کہ تیرا ذکر ہُوا اور ابر چھانے لگے
ترا کرم کہ مَیں ٹُوٹا تو جوڑنے کے لئے
تمام ہاتھ مری کرچیاں اُٹھانے لگے
مندرجہ بالا تمام غزل کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ایسے سینئر شعرا ہیں جنھوں نے نہ صرف جدید نعت کی آبیاری کی بالکہ بہت خوبصورتی کے ساتھ اسے بیسویں صدی کے اواخر سے اکیسویں صدی کے اوائل تک لے کر آئے۔ دیکھا جائے تو جدید نعت کے ضمن میں ان شعراء نے جدید نعت کا تصور پیش کرنے اور اسے تصویر کرنے میں اہم کردار ادا کیا. مگر اس صدی کے آغاز میں مابعد جدیدیت نے یہاں اپنے پنجے مضبوطی کے ساتھ گاڑنے شروع کردیے نتیجہ یہ کے اصناف عقیدت تو کجا مابعد جدید نکتہ نظر رکھنے والے مذہب بیزار دکھائی دینے لگے اور اب بھی ہرجگہ ایسے ہی شعرا نظر آتے ہیں جو سوشل میڈیا کو استعمال کرنے کا ہنر جانتے ہیں ـ ایسے وقت میں وہ نوجوان غزل گو شعرا اس منظر نامے میں بہت دیر کے بعد سامنے آئے مگر اب بھی وہ سوشل میڈیا کو ویسا ہتھیار نہیں بنا سکے جیسا مابعد جدیدیت والوں نے اس کے استعمال سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے ـ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں تین نئے ناموں کا اضافہ ہوا جنھوں نے جدید نعت کی ضرورت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اس کی ترویج میں اپنا کردار بھی ادا کررہے ہیں۔ ان میں عقیل ملک نثر، نظم و غزل اور دلاور علی آزر غزل کے شاعر ہیں جبکہ سید مقصود علی شاہ خاص نعت کے شاعر ہیں۔
عقیل ملک یوں تو اکیسویں صدی کے پہلے عشرے کے اوائل میں بھی نعت کہ رہے تھے مگر اس صدی کے دوسرے عشرے کے وسط میں ان کےہاں نہ صرف نعتیہ اسلوب میں بڑی تبدیلیاں آئیں بلکہ مضمون و موضوع کے اعتبار سے بھی ان کے ہاں روایت سے ہٹ کر تازہ اظہار کی موج نے انگڑائی لی ہے ـ ان کے عصر کے شعرا میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ایسی جدید نعت کہ رہا یوں جیسا کہ عقیل ملک کہ رہے ہیں۔ عقیل ملک ڈاکٹر ریاض مجید کے تتبع میں نعت کو نہ صرف بہت سی نئی تراکیب اور علامات سے مزین کیا بلکہ نعت کو تازہ مضامین سے بھی روشناس کیا ۔ انھوں نے استعارات، تلازمات، علامات، تلمیحات کو ناگزیر ترین سطح پر جاکر برتا ہے ـ ان کے ہاں مضمون آفرینی آہنگ الفاظ کی نشست و برخواست معنی آفرینی تغزل تلازماکاری ہر وہ جزو جو شعر کو خوبصورت بناتا ہے اسے انتہائی متوازن انداز میں برتا ہے ـ نعتیہ تنقید کے حوالے سے ان کا مضمون (دلاور علی آزر کی کتاب نقش میں شامل) انتہائی اہمیت کا حامل ہے اور میں انھیں تنقید کا ایک اہم نام بنتے ہوئے بھی دیکھ رہا ہوں۔ عقیل ملک کی نعت کے اشعار دیکھیے
کنیزِ فاطمہ زہرا سلام بھیجتی ہے
سو میں بھی ماں کی طرف سے درود بھیجتا ہوں
دارالقرارِ حمد ہے دارالضّیائے نعت
بیدار ہو کے دیکھیے جلوہ سرائے نعت
میں کیسے پاؤں اٹھاؤں کہ حکم آیا نہیں
وگرنہ چوکڑی بھرتا وہاں غزالِ رسول
اک طرف عشقِ علی ایک طرف عشقِ رسول
گویا وجدان کے واوین میں ہم رہتے ہیں
پھول تھا اور پھول بھی سر سبز
جس کا تتلی نے اڑ کے بوسہ لیا
غزل ہو یا نعت دلاور علی آزر کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ میری دانست میں ڈاکٹر ریاض مجید کے بعد دلاور وہ دوسرا فرد ہے جو جدید نعت کے ضمن میں صاحب کتاب ہے ـ دلاور نے اپنی نعوت میں تغزل کو بہترین سطح پہ برتا ہے. اس نے روایت اور جدت کے انسلاک کا ایک ایسا منظر نامہ پیش کیا ہے جو انتہائی دلکش ہے. دلاور علی آزر نے نعت میں جدید استعارات، تلازمات اور علامات کو لطیف ترین پیرائے میں برتاہے اور نعت گزیدگان کے لیے لطف کا سامان پیدا کیا ہے ـ آپ کے نعتیہ مجوعہ نقش کو صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے جس سے یہ بات تو واضح ہو چکی ہے کہ آنے والاعہد جدید نعت کا ہے۔ حوالے کے طور پر اشعار:-
اور بھی اِس کے خد و خال نکھر جاتے ہیں
چہرۂ حرف پہ ملتا ہوں میں جب غازۂ نعت
حرفِ علت کو گرانے کی ضرورت نہ رہی
اس نے ترتیب دیے آ کے جب اوزان عرب
نعت لکھنے کی اجازت نہیں ملتی جس کو
اس سخن ساز سے اعزاز و شرف جاتا ہے
بنتا ہی نہیں تھا کوئی معیارِ دو عالم
اس واسطے بھیجے گئے سرکارِ دوعالم
مقصود علی شاہ اکیسویں صدی کے دوسرے عشرے کے آخر میں سامنے آنے والا ایک اہم نام ہے جس کی زندگی صرف نعت کے لیے ہی وقف ہےـ ان کی دوسری اصناف میں طبع آزمائی میرے سامنے نہیں ہے اس لیے میں وثوق سے نہیں کہ سکتا کہ وہ غزل کہتے ہیں یا کہتے رہے تھے مگر ان کی نعوت کے مطالعے کے دوران یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انھوں نے کلاسیکی غزل کا مطالعہ کر رکھا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کلاسیکی تغزل جو ہماری روایت کا حصہ ہے ان کی نعت میں شعوری یا لاشعوری سطح پر درآیا ہے ـ ان کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے کیفیات کو شعر کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ ان کی نعت روایتی و جدید نعت کے بین بین سفر کرتی دکھائی دیتی ہےـ
ایسے شعرا جن کا تعلق کسی دوسری صنفِ سخن سے نہیں رہا ہوتا یا کم رہا ہوتا ہے ان کے ہاں ہم دیکھیں تو جدید طرز کا احساس خال خال ہی دکھائی دیتا ہےـایسے شعرا یا تو بھاری بھر کم تراکیب و مرکبات کا سہارا لینے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں یا روایتی مضامین کو برت کر اپنی عقیدت و عقیدے کا اظہار کرتے ہیں لیکن مقصود علی شاہ کا معاملہ ان سے حیران کن حد تک الگ ہے اس کی نعت میں سماجی نکتہ نظر کو واضح طور ہر محسوس کیا جاسکتا ہے ـ
سید مقصود علی شاہ کے چند اشعار دیکھئے۔
آنکھ سے گرتے ہُوئے اشک سے بنتامنظر
پلکوں پرکھِلتاہُواقطرۂ نم ہے، ذکرک
انتہا رکھتی نہیں نسبتِ دہلیزِ کرم
مجھ کو مقصود میسّر ہے وہ پیمانِ وسیع
بہار آسا تری مدحت ضیا پرور تری باتیں
طراوت زاد لمحوں میں خیالِ مشکبو تو ہے
مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو پورے ادبی منظر نامے میں اگر تخلیقی سطح پر کام دکھائی دیتا تو انھی شعرا کے ہاں وہ جدید حسیات وافر مقدار میں نظر آتی ہیں جو وقت کا تقاضا بھی ہے اور اس عہد کی ضرورت بھی ـ اور یہ نہایت خوش آئند ہے کہ اس سطح کا کام کرنے والوں میں اب مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے اور آئندہ دس بارہ برسوں میں ہمیں درجنوں ایسے شعرا ملیں گے جو نعت کو الگ رنگ سے ادب کا حصہ بناتے دکھائی دے رہے ہوں گے ـ