کرشن چندر
میرے بچے کی پانچویں سالگرہ تھی۔
ماں نے اسے نئے کپڑے پہنائے۔ دوستوں نے تحفے پیش کیے۔ دوسرے گھروں سے اور بھی بچے آئے تھے۔ میرا بچہ دن بھر ان سے کھیلتا رہا۔ آم کھا کر اپنے کپڑے میلا کرتا رہا۔ جامن اور چیکو کے درختوں پر چڑھنے کی کوشش کرتا رہا اور جب اس کے سارے دوست چلے گئے اور وہ بالکل تھک گیا تو سونے کے لئے میری گود میں آبیٹھا۔
بچے نے پوچھا ’’آج ماں نے دن بھر پیار کیا۔ ایک بار بھی نہیں ڈانٹا، کیا بات ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’آج تمہاری سالگرہ ہے۔‘‘
وہ بولا ’’تو پھر یہ سالگرہ ہر روز کیوں نہیں آتی؟‘‘
میں نے کہا ہر روز کیسے ہوگی۔ آج نیا سال ہے۔ تمہاری زندگی کا پانچواں سال ہے۔‘‘
بچہ چپ ہوگیا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد بولا۔ ’’آج نیا سال آیا ہے تو۔ تو پھر میرا پچھلا سال کدھر گیا؟ سال کی خوشی میں پچھلے سال کی یاد کیسے آئی ہے۔ نئے دوست کے ملنے پر کون پرانے دوست کو یاد کرتا ہے۔ یہ تو دنیا کا دستور ہے۔
سوال اتنا عجیب تھا کہ میں بالکل چکرا گیا۔ میں نے اپنی اور اپنے دستوں کی اتنی سالگرہیں منائیں لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ پچھلے سال کہاں جاتا ہے؟؟۔
لیکن بچوں کا دستور دوسرا ہوتا ہے۔
اس لیے بچے نے پھر مجھ سے پوچھا ’’بتاؤنا پچھلا سال کہاں گیا؟‘‘
میں کیا بتاتا اسے۔ پانچ سال کے ننھے کو وقت کی گردش سمجھاتا۔ اس لیے میں نے خود ہی اس سے پوچھ لیا، کیونکہ جب میں اپنے بچے کے کسی سوال کو خود نہ بتا سکوں تو خود اس سے ہی پوچھ لیا کرتا ہوں۔ ’’تم خود بتاؤ ننھے۔ پچھلا سال کہاں گیا۔‘‘
ننھے کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ وہ بہت دیر تک مسکراتا رہا۔ آپ ہی آپ۔ میں نے دیکھا، اس کی پلکوں پہ نیند جھکی ہوئی ہے اور وہ کہیں بہت دور دیکھ رہا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے سمجھاتے ہوئے بولا ’’دیکھو وہ جامن کا پیڑ ہے نا جو ناریل کے درخت کے پاس ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘، ’’وہ کنویں والا ناریل نہیں۔ آم کے پیڑ کے پاس جو ناریل کا درخت ہے۔‘‘
’’ہاں‘‘، بس اس جامن کے درخت کے اوپر چڑھتے جاؤ۔‘‘
’’ہاں‘‘، اوپر ہی اوپر اور اوپر۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ ، ’’اور اوپر جہاں آسمان کی چھت ہے نا، وہاں تک جامن کا پیڑ جاتا ہے۔‘‘
’’اچھا۔‘‘، ’’ہاں، اس کے اوپر پچھلا سال رہتا ہے۔‘‘
’’ارے واہ۔ یہ نئی بات سنائی تم نے۔ تم کیا جامن کے پیڑ پر چڑھے تھے؟‘‘
بچے نے بڑی اداسی سے کہا ’’نہیں، پیڑ بہت اونچا ہے۔ میں چڑھ نہیں سکا۔ مگر جانتا ہوں، وہ وہیں ہوگا۔ اونچا اونچا اور اونچا۔ سب سے اونچی جگہ پر۔‘‘
پھر بچے کی پلکیں جھک گئی اور میری گود میں سوگیا۔ اور میں اپنے سوئے ہوئے بچے کو اپنی گود میں لیے لیے سوگیا۔
تھوڑی دیر کے بعد مجھے کسی نے کندھے سے ہلا کر جگایا۔ میں نے آنکھیں کھول کر دیکھا۔ ایک آدمی خوشنما لباس پہنے سر پر ہیروں کا تاج رکھے میری طرف مسکرا رہا تھا۔
میں نے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘
وہ بولا ’’یاد کرو، اتنی جلدی بھول گئے؟‘‘
میں نے کہا ’’میں نے تم کو کبھی نہیں دیکھا بھائی۔‘‘
وہ بولا ’’میں تمہارا چوتھا سال ہوں۔‘‘
میں جلدی سے گھبرا کر اٹھ بیٹھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ اس کے ہاتھ پکڑتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میرے چاروں طرف گہرا جنگل ہے چیل اور دیودار کے درخت ہوا کے جھونکوں سے سائیں سائیں کر رہے ہیں اور میں ایک سبز پیلے رنگ والی تیتری کا پیچھا کرتے ہوئے اپنے چھوٹے ہاتلھ پاؤں ہلاتا تیزی سے ایک طرف بھاگ رہا ہوں۔ موڑ پر سے گزر کر اس کی طرف بھاگا۔ اب تیتری میرے بالکل قریب تھی۔ میں نے ہاتھ پھیلا کر جھٹکا مارا۔ مگر تیتری آگے اترتی چلی گئی اور ایک جھاڑی کے نیلے نیلے پھولوں پر دولنے لگی۔ پھر وہ اس کے پتوں میں چھپ گئی اس کے پروں کا سبز رنگ پتوں سے مل گیا۔ مگر اس کی پیلی دھاریاں مجھ سے کیسے چھپتیں؟ میں نے آہستہ سے ہولے ہولے گھٹنوں کے بل چل کے عین اس وقت جب تیتری ایک نیلے پھول کو سونگھ رہی تھی، اپنا رومال اس پر رکھ دیا اور پھر اسے قید کر کے اپنی مٹھی کے خول میں رکھ لیا۔
تیتری کے پر ڈر کے مارے کانپنے لگے اور میں نے دیکھا کہ جنگل کے سارے درخت ایک دوسرے کے قریب ہوتے جارہے ہیں تنے سے تنے ملتے جارہے ہیں اور تنوں کے پیچھے خوفناک آنکھیں سبز اور سیاہ اور سرخ رنگ کی آنکھیں چمک رہی ہیں اور میں ڈر کے مارے کانپ گیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے چاروں طرف سیاہ جنگل کو پایا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ تیتری کے پیچھے بھاگتے ہوئے چلا تو میں اپنے باغ سے تھا لیکن بھاگتے بھاگتے جنگل میں آگیا۔ میں چلا کر کہا’’ماں! ماں۔‘‘
جنگل کے درختوں نے ہنس کر کہا ’’ہا ہا ہا۔‘‘
’’ماں ماں ماں۔‘‘ میں اور بھی زور سے چلایا۔
’’ہا ہا ہا۔ جنگل کے درخت اور بھی زور سے ہنسے۔‘‘
’’جاؤ تم کتنے بھی زور سے ہنسو۔‘‘ میں نے غصہ میں درختوں سے کہا ’’ہم خود اپنا راستہ ڈھونڈلیں گے۔‘‘
لیکن درخت بالکل ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ تنے سے تنے لگ گئے۔ جھکی ہوئی ڈالیاں چھڑیاں بن گئیں اور راستہ تنگ سے اور تنگ اور چھوٹے سے اور چھوٹا ہوتا گیا۔ آخرکار ایک جگہ بنفشہ کے پھولوں کی ایک بہت بڑی باڑ نظر آئی۔ یہاں آکر راستہ بالکل بند ہوگیا۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا۔ زمین سے آسمان تک بنفشہ کے پھولوں کی دیوار تھی۔
’’ماں ماں۔‘‘ پھول زور سے کھل کھلا کے ہنسنے لگے۔
اتنے میں ایک بڑی خوبصورت پری آئی۔ اس کا لباس ایسا تھا جیسے بنفشہ کے پھولوں سے تیار کیا گیا ہو۔ اس کے دائیں ہاتھ میں نیلے پھولوں کی ایک چھڑی تھی جس کے سرے پر بنفشہ کا ایک پھول تھا جو بالکل لال رنگ کے یاقوت کی طرح چمکتا تھا۔ اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ ’’بچے تم کیوں رو رہے ہو؟‘‘
میں نے کہا ’’میں ماں کے پاس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
پری بولی ’’تمہاری ماں کہاں ہے؟‘‘
’’وہ جنگل کے اس پار ہے۔‘‘
وہ بولی ’’تو چلے چلو تمہیں کون روکتا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’ادھر دیوار ہے۔ ادھر درخت۔ راستہ نہیں دیتے۔ جاؤں کیسے؟‘‘
اس نے میرے ہاتھ میں تیتری دیکھ لیا۔ بولی ’’یہ کیا ہے؟‘‘
میں نے کہا ’’اوہو، اسے مت چھوؤ۔ یہ میری تیتری ہے۔‘‘
’’تم اسے لے کر کیا کروگے؟‘‘
میں نے کہا ’میں اس کے پراتار کر اپنا تصویروں والی کتاب میں رکھوں گا۔‘‘ وہ بولی ’’پراتاروگے تو یہ مر جائے گی۔‘‘
’’مرجائے۔‘‘ وہ بولی ’’تو پھر اس کی ماں روئے گی۔‘‘
’’میں اس کی ماں روئے گی۔‘‘
’’ہاں۔‘‘ میں پوچھا ’’اس کی ماں کون ہے؟‘‘
پری تھوڑی دیر چپ رہنے کے بعد بولی ’’میں اس کی ماں ہوں۔‘‘
میں دیر تک چپ رہا۔ تیتری کے پر بڑے خوبصورت تھے۔ میں نے اسے بڑی مشکل سے پکڑا تھا۔ لیکن پری کی نیلی آنکھوں میں آنسو تھے۔ ایسے آنسو جیسے کبھی کبھی میری ماں کی آنکھوں میں ہوتے تھے۔ میں نے چپکے سے تیتر پری کی گود میں ڈال دی اپنا سر جھکا دیا۔
پری مسکرانے لگی اور پھر میں نے دیکھا۔ وہ تیتری ایک چھوٹی سی پری بن گئی جس کا لباس سبز رنگ کا تھا۔ گال پیلے پیلے تھے۔ وہ میرا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگی’’تم مجھے بڑے اچھے لگتے ہو۔ میں تو تم سے کھیلنا چاہتی تھی لیکن تم تو مجھے جان سے مار رہے تھے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’اب تمہیں کچھ نہیں کہوں گا۔ تم میرے باغ میں آ کے مجھ سے کھیلا کرنا۔ مجھے معلوم نہیں تھا تم پری ہو۔‘‘
پری کی ماں نے کہا ’’بیٹا سب تیتریاں پریاں ہی ہوتی ہیں جو بچوں سے کھیلنے کے لئے گاؤں اور باغوں میں جاتی ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ ’’ہاں آؤ، اب تمہیں گھر کا راستہ بتاؤں۔ نہیں تو تمہاری ماں روتے روتے مرجائے گی۔‘‘
پھر پری نے پھولوں کی چھڑی سے اشارہ کیا اور درخت راستہ دینے لگے اور تنے سے تنے لالگ ہوتے گئے اور ڈالیوں کی چھڑیاں اونچا ہوتی گئیں اور آسمان نظر آگیا۔ اور پھر جنگل کا کنارہ بھی آگیا اور میں نے دیکھا کہ میری ماں اور میرا باپ دوملازم ساتھ لیے مجھے ڈھونڈ رہے ہیں اور ماں بار بار پلو سے اپنے آنسو پونچھتی جاتی ہے۔
میں نے چلا کر کہا ’’ماں میں یہاں ہوں۔ یہ دیکھو میرے ساتھ ایک پری بھی ہے۔‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا۔ دونوں پریاں غائب تھیں۔ وہاں دور جنگل کی طرف ایک بنفشی رنگ کی تیتری کے ساتھ ایک سبز اور نیلے رنگ کی تیتری بھاگی جارہی تھی۔
یکایک خوشنما لباس اور ہیروں کا تاج پہنے ہوئے آدمی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور میری نظروں سے دور جنگل میں غائب ہوگیا۔ اس آدمی کے چہرے پر ایک جگمگ جگمگ کرتی مسکراہٹ آئی اور اس نے مجھ سے پوچھا۔ ’’یاد رہے۔‘‘
میں نے مسکرا کر کہا۔ ’’ہاں یاد ہے تم میرا چوتھا سال ہو۔ مگر تم کہاں چلے گئے تھے!‘‘
وہ مجھ سے اور دور ہوگیا۔ بولا ’’سات سمندر پار ایک جزیرہ ہے اسے یادوں کا جزیرہ کہتے ہیں۔ میں وہاں رہتا ہوں۔ طوفانی لہروں پر بچے کبھی کبھی کاغذ کے ناؤ کھیتے ہوئے آجاتے ہیں تو بڑی چہل پہل ہوتی ہے۔ ورنہ وہاں ہر وقت نیند چھائی رہتی ہے۔‘‘
میں نے کہا ’’مگر میرا بچہ تو کہتا ہے کہ تم جامن کے پیڑ کے اوپر رہتے ہو۔‘‘
وہ بولا ’’کبھی جامن کے پیڑ کے اوپر اور کبھی املی کے درخت کے نیچے۔ کبھی کھیت کے کنارے، کبھی کسی گلی کے نکڑ پر۔ جہاں جہاں بچے ہمیں بلاتے ہیں پہنچ جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ بچے ہیں، بڑے نہیں ہیں۔ بڑوں کے لئے تو پرانا سال مرجاتا ہے اور نیاسال جنم لیتا ہے۔ لیکن بچے ہمیں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ آدمی مر جاتے ہیں لیکن سال ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔‘‘
وہ اتنی بات کہتے کہتے مجھ سے دور ہوگیا۔ برآمدے کی سیڑھیاں اتر کے باغ میں چلا گیا اور اپنے چاروں طرف دھیمی دھیمی مدھم مدھم جگنوؤں کی روشنی پھیلاتا گیا۔
میں نے چلا کے اس سے کہا ’’سنو، ایک بات بتاؤ۔ وہ سبز اور پیلے رنگوں والی پری اب کہاں ہے؟‘‘
وہ ہنسا اور جامن کے درخت کے اوپر چڑھتا گیا۔ ہنستا گیا اور چڑھتا گیا۔ اونچا اور اونچا۔ جامن کا پیڑ آسمان سے جالگا اور آسمان کی چھت میں غائب ہوگیا۔
یکایک میری آنکھ کھل گئی۔ میں دیکھا، میں آرام کرسی پر ہوں اور میرا بچہ خواب میں کسی کو دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔