بلال مخدومی
نعت گوئی ہیتی نہیں بلکہ موضوعاتی صنف ہے۔ اس کا برگزیدہ موضوع یعنیٰ مد ح خیر المرسلینؐ ، شعرائے کرام کو ہمیشہ مرغوب رہا ہے۔ محض عقیدت اور محبتِ رسول صلعم میں لکھی گئی نعتیں ایک طرف دلی جذبات کی عکاس ہیں تو دوسری طرف فن کے نت نئے تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں۔ جہاں ایک طرف بکثرت لکھئے گئے نعتیہ قصائدنے فن قصیدہ کی قدر و منزلت بڑھائی ، وہیں موضوع کی پاکیز گی نے خوش عقیدگی کے نئے پیمانے مقرر کئے ۔
نعت گوئی میں بعض شعرا ء مبالغہ کی سرحدیں پاکرتے ہیں تو بعض نے عروس سخن کے گیسوں سنوارنے تک اپنے فن کومحدود رکھا ہے۔
نعت غزل کی ہیت میں بھی کہی گئی ہے، مثنوی میں بھی نعت گوئی جزولا ینفک ہوتی آئی ہے۔ دیگر اصناف سخن میں بھی گا ہے گا ہے شعراء نے اس موضوع کو ڈال کر طبع آزمائی کی ہے۔ دراصل مذہبی نظموں میں نعت گوئی ہمیشہ اہمیت کی حاصل رہی ہے ۔نثر میں سیرۃ النبیؐ پر اکثر محققین ‘ علماء ‘ دانشوروں ‘ مورخین اور ادیبوں نے طبع آزمائی کی ہے۔ شعرائے کرام نے منظوم نعت گوئی کو فن کی بلند یوں تک پہنچانے میں بھی کوئی کثر باقی نہیں چھوڑی ہے۔
محبوب خداؐکی مدحت سرائی اور ذکرِ رسولِ خداؐ بھی ایمان کی شان سمجھا جاتا ہے۔ محمدمصطفیٰؐ رسول خدا ؓبھی ہیں اور تاریخ انسانی میں واحد انسان کامل‘ بہترین وافضل ترین بشر بھی ہیںیا دوسرے الفاظ میں خیر البشر آپؐ ہی کی ذات مقدس ہے۔
ہر کام شروع کرنے سے پہلے خدا کو یا دکر لو‘ یہ بچپن سے ہی سکھا یا جاتا رہا ہے۔ ادبیات میں یہ روایت روزِ اوّل سے نظر آتی ہے۔ آج بھی کہ زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے ‘ تحریر میں، تقریر میں ہر جگہ اپنے اپنے طور پر مالک حقیقی کو یاد کر لینے کارجحان کار فرما ہے۔ بہر نوع یہی کچھ کیفیت کوئی فن پارہ شروع کرنے سے پہلے بالخصوص طویل نظم، مثنوی یا اسی قبیل کی کوئی کاوش ،بیشتر حمد سے شروع ہوتی ہے۔ کہیں کہیں نعت و منقبت بھی جزو شاعری بن جاتے ہیں۔
’’گلزار نسیم‘‘ کا ابتدا ئی حصّہ ہو یا ’’فسانہ عجائب ‘‘ لکھنے والے غیر مسلم بھی رہے، حمد کے بعد نعت اور منقبت کے اشعار ضرور لکھے ہیں۔ اور دنیائے ادب میں ہر دور میں مسلم شعر اء کے علاوہ غیر مسلم شعر اء نے بھی اس صنف کی آبیاری میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا ہے لیکن یہ نعت گوئی فنّی تقاضے اور مذہبی روا داری کے لحاظ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ سیرت النبیؐ کے مطالعہ سے ہمیںمعلوم ہوتا ہے کہ آپ ؐ کے ساتھ حقیقی محبت و عقیدت کا انحصار آپؐ کی اطاعت پر ہے‘ جس کا اعلان بعثت کے بعد نبی محترم ؐنے ان الفاظ میں کیا تھا ’’ قولو لا اِلٰہَ اِلا اﷲ تفلحوا ‘‘ جس پر لبیک کہنے والے جانثار صحابہؓ نے عملی ثبوت پیش کرکے کا میابی کی سند ’’ رضی اﷲ عنہم ور ضوعنہ‘ جیسے قرآنی الفاظ سے حاصل کی اور تا قیامت کا میابی کے متلاشی اشخاص کے لئے ایک راہ متعین کردی۔ لہٰذا شعرا ء کی وہ جماعت جنہوں نے غزل و نظم یا کسی اور ہیت کو نعت گوئی کے اظہار کا ذریعہ بنایا اور ان کا دل آپؐ کی محبت و عقیدت سے خالی ہو، رسمی اور روایتی نعت گوئی کو اظہارِ محبت کا ذریعہ بنا یا تو ان کے لئے یہ شجرِ بے ثمر ثابت ہوگا۔
البتہ شعرا ء کی وہ جماعت جنہوں نے صحیح اسلامی عقائد کی تعلیم سے استفادہ کرکے نبی آخر الزماںؐ کا رتبہ و مرتبہ پہچان کر پھر غلو اور مبالغہ آرائی سے خود کو بچا کر نعت گوئی کو اپنی محبت و عقیدت کا اظہار بنا یا‘ اُن کیلئے یہ باعث فخراور ثواب دارین ہوگا۔
نعت گوئی چونکہ ایک موضوعاتی صنف ہے اس لئے شعراء نے شاعری کی تمام ہیتوں کو ذریعہ اظہار بنا کر ان میں اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کیا لیکن ہمیں نعت گوئی کے سب سے اعلی نمونے نظم کی ہیئت میں ملتے ہیں ۔اس صنف کو علامہ اقبال نے نیا رنگ دے کر آگے بڑھانے کا بُنیادی فریضہ انجام دیا۔
علامہ اقبالؒ نے مشرق و مغرب کے جدید و قدیم علوم اور مذہب کے مطالعے سے اپنی فکر کو روشن اور مستحکم بنا کر، اس فکر کے اظہار کیلئے شعری اسلوب کو ترجیح دی، غزل ، رباعی ہو یا پھر انکی پسند یدہ صنف’’نظم‘‘ ان اصناف میں انہیں بے شمار موضوعات کو نئے اور منفرد انداز میں بیان کرنے کا فن بخوبی آتا ہے۔ دیگر موصنوعا ت کی طرح ان کے کلام میں صنف نعت کے ایسے اشعار ملتے ہیں جو بہت ہی معنیٰ خیز اور معیار نعت گوئی پر پورے اترتے ہیں۔ چند نمونے ہی علامہ کو ہمارے سامنے ایک منفرد اور ممتاز نعت گو کی حیثیت سے کھڑا کر دیتے ہیں۔ علامہ کی نعتیہ شاعری مولانا حالی و شبلی کے نقش قدم پر ہے۔ اس میں پیغام ہے‘ اصلاحی کو شش ہے اور سیرت پاکؐ کے واقعات ہیں۔ اور یہ سب اپنے اندر مظاہر ہ عقیدت و محبت لیے ہوتے ہیں۔ دراصل علامہ اقبالؒ کو آپ صلعم کے ساتھ بے انتہا سچی محبت تھی۔ انہوںنے آپ ؐکی محبت کو اپنی زندگی کا جزو لازم بنا دیا تھا اورچاہتے تھے کہ دوسروں کو بھی آنحضورؐ سے ایسی ہی سچی محبت و عقیدت ہو جائے اور تمام لوگ آپ ؐکے نقش قدم پر زندگی گزاریں ، اسی میں وہ قوم و ملت کی فلاح و بہبودی سمجھتے تھے۔
علامہ اقبالؒ کی آپ ؐ سے سچی محبت اس قدر تھی جب بھی ان کے سامنے ذکرِ خیر الانا مؐ ہوتا تو ان کی آنکھوں سے آنسووں کی جھڑی جاری ہوتی تھی۔ آپؐ کی محبت میں انکا دل بہت گداز ہو گیا تھا۔ مختلف واقعات و شواہدات اور اقوال سے علامہ کی آپ ؐکے ساتھ محبت میںتڑپ ‘ بے چینی اور بے قراری کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی عقیدت، وار فتگی، شیفتگی، جذباتی لگاو اور ذوق و شوق کی وجہ سے ان کے کلام میں بھی جابجا نعیتہ اشعار اُمڈآتے ہیں‘ جن میں عقیدت و محبت اور جذب و کیف کی اتباع و اقتدا کا پیغام بھی ہے اور پیام بھی۔
علامہ اقبالؒ کے ابتدا ئی کلام میں کچھ رسمی یا روایتی نعت گوئی بھی ملتی ہے لیکن علامہ نے اسے اپنی کلیات میں شامل نہیں کیا۔کیونکہ یہ نعت اس لائق نہیںہیں کہ اسے کلیات میں شامل کیا جاتا۔ اس کا مطلع ہی شرکیہ اور اسلامی عقائد کے منافی ہے۔ چند اشعار دیکھے ؎
نگاہ عاشق کی دیکھ لیتی ہے پردہ میم کو ہٹا کر
وہ بزم یثرب میں اکر بیٹھیں ہزار منہ کو چھپا چھپا کر
وہ تیرے کوچے کے ساکنو کا فضائے جنت میں دل نہ بہلا
تسلیاں دے رہی ہیں حوریں خوشامدوں سے منا منا کر
بہار جنت میں کھینچتا تھا ہمیں مدینے سے آج رضواں
ہزار مشکل سے ٹالا بڑے بہانے بنا بناکر
خیالِ راہ عِدم سے اقبال تیرے در پر ہوا ہے حاضر
بغل میں زادِ سفر نہیں ہے صلہ مری نعت کا عطا کر
ممتاز حسن نے اس نعت کے بارے میں درست لکھا ہے’’ اس قسم کی نعت گوئی حدّ ادب ہی سے متجاوز نہیں ہے۔ دین کے دائرے سے بھی با ہر ہے ۔‘‘ یہ نعت اقبالؒ کے ابتدائی زمانے کی ہے جس میںاُ ستاد داغ کا اثر صاف جھلکتا ہے۔ البتہ علامہ نے جلد ہی اس روایت کو چھوڑ کر تمثیلی انداز میں کئی عمدہ نعیتہ اشعار پیش کئے جن کی خصوصیت کے بارے میں پروفیسر احمد سہروردی یوں قمطراز ہیں۔
’’علامہ نے ہی پہلی دفعہ بالواسطہ نعت لکھی ، کسی دوسرے شاعر نے میری معلومات کی حد تک یہ کوشش نہیں کی اور میری رائے میں یہ بالواسطہ تمثیلی نعتیں براہ راست نعتوں سے زیادہ دلکش اور پُر تایثر ہیں ۔ کیونکہ ان میں تمثیلی رنگ پیدا ہوگیا ہے‘‘۔
علامہ اقبالؒ نے زیادہ تر براہ راست اور بلا واسطہ نعتیں نہ کہہ کر بالواسطہ اور تمثیلی انداز میں نعتیں کہیں ہیں لیکن چند نعتیں آنحضور ؐسے مخاطب ہو کر کہی ہیں۔ حکیم سنائی کے مزار کی زیارت کے بعد جو نظم کہی اس کے چند اشعار تو بہت ہی عمدہ نعیتہ آہنگ لیے ہوئے ہیں ؎
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغِ وادی سیناٖ
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآن ، وہی فرقان ، وہی یٰسین وہی طٰہٰ
یہ دوشعر ایسے بلیغ ، جامع اور شاندار ہیں کہ طویل نعتوں میں جو مضامین بیان کئے جائیں ، وہ سب یہاں مختصر الفاظ میں سمودئیے گئے ہیں۔ ایسے ہی یہ اشعار بھی دیکھئے کہ دل کے جذبے کو الفاظ کا جامہ کس طرح پہنا یا ہے ؎
لوح بھی تو ، قلم بھی تو، تیر ا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالم آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّہ ریگ کو دیا تو نے طلوع آفتاب
شوکت سنجر و سلیم ، تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنید و بایزید، تیرا جمال بے نقاب
شوق تیر ا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب ، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہ ِ ناز سے دونو ں مراد پاگئے
عقل غیاب و جستجو ، عشق حضور و اضطراب
علامہ اقبالؒ جب یورپ کے سفر سے واپس ہوئے تو انہوں نے مغربی ممالک کے مقابلہ بلا د اسلامیہ کو حسنِ نظر سے دیکھا اور پسند کیا اور خواب گاہِ مصطفیٰؐ کے متعلق یہ اشعار کہے ؎
وہ زمین ہے تو ، مگر اے خوابگاہِ مصطفیٰ
دید ہے کعبے کو تیری حج اکبر سے سوا
خاتم ہستی میں تو تاباں ہے مانند نگیں
اپنی عظمت کی ولادت گاتھی تیری زمین
تجھ سے راحت اس شہنشاہِ معظم کو ملی
جس کے دامن میں اماں اقوامِ عالم کو ملی
نام لیوا جس کے شہنشا ہ عالم کے ہوئے
جانشین قیصر کے ، وارث مسند جم کے ہوئے
ہے اگر قومیت اسلام پابند مقام
ہند ہی بُنیاد ہے، نہ اس کی فارس ہے نہ شام
آہ یژب! دیس ہے مسلم کا تو ماوا ہے تو
نقطہ جازب تاثر کی شفا عتوں کا ہے تو
جب تلک باقی ہے تو دنیا میں باقی ہم بھی ہیں
صبح ہے تو اس چمن میں گو ہر شبنم بھی ہیں
دیا رسول ؐ سے چونکہ ان کو بے انتہا محبت تھی، روضیہ اطہر کی زیارت کے اشتیاق میں تڑپتے رہتے تھے، اس لئے اس موضوع کے اشعار بھی بے ساختہ نگل گئے ہیں ترانہ ملی کا یہ شعر ملا خط ہوں۔
سالا ر کارواں ہے میر حجاز اپنا
اس نام سے ہے باقی آرام جاں ہمارا
ایک حاجی جب مدینہ کے راستہ میں ہی لوٹ لیا جاتا ہے تو علامہ اقبالؒ حاجی کے جذبات اپنے الفاظ میں یوں بیان فرماتے ہیں۔
خوف کہتا ہے کہ’’ یژب کی طرف تنہانہ چل‘‘
شوق کہتا ہے کہ’’ تو مسلم ہے بے با کا نہ چل ‘‘
’’ شفا خانہ حجاز‘‘ کے عنوان کے تحت علامہ اقبال نے ایک قطعہ کہا ۔ جب ایک پیشوائے قوم نے جدہ میں ایک شفاخانہ کھلنے کی اطلاع دی، اس کا ایک شعر دیکھتے ؎
اوروں کو دیں حضور یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
ججاز کی محبت میں غزل کا یہ شعر بھی دیکھئے ۔
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستان سے اے اقبال
اُڑا کے مجھ کو غبارِ رہ حجاز کرے
علامہ اقبالؒ نے ’’اے روح محمد‘‘اور حضور رسالت مآب میں‘‘ وغیرہ عنوان سے کئی نظمیں لکھی جن میں آپ ؐ سے براہ راست خطاب ہے۔ لیکن نظموں میں تمثیلی انداز اپنا یا ہے۔ جس سے تاثیر، دلکشی اور جذباتیت کا احساس زیادہ ہے چندمنتخب اشعار دیکھئے۔
کہا حضور نے اے عندلیب باغ حجاز
کلی کلی ہے تری گرمیٔ نوا سے
نکل کے باغ جہاں سے برنگ بو آیا
ہمارے واسطے کیا تحفہ لے کے تو آیا؟
حضورِ دہر میں ، آسودگی نہیں ملی
تلاش جس کی ہے وہ زندگی نہیں ملتی
ہزاروں لالہ و گل میں ریاض ہستی میں
وفا کی جس میں ہو بو، وہ کلی نہیں ملتی
مگر میں نذر کو اک آبگینہ لایا ہوں
جو چیز اس میں ہے جنت میںبھی نہیں ملتی
جھلکتی ہے تری امت کی آبرواس میں
طرابلس کے شہید وں کا لہو اس میں
علامہ نے دورِ رسالت میں پیش آنے والے بعض واقعات کا سہارا لیکر انہیں فنکار ا نہ مہارت سے نعت کے رنگ میں پیش کیا ہے مثلاً غزوہ تبوت کے موقع پرحب رسولؐ اور ایثار صدیقؓ کے اس واقعہ کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے اﷲ اور اس کے رسول ؐ کے نام پر اپنے گھر کا سارا اثاثہ قربان کر دیا۔ یہ جذبہ ، ایثار اور والہانہ عقیدت بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اتنے میں وہ رقیقِ نبوت بھی آگیا
جس سے بنائے عشق و محبت ہے استوار
لے آیا اپنے ساتھ وہ مرد وفا سرشت
ہر چیز جس سے چشم جہاں میں ہو اعتبار
ملکِ یمن و درہم و دینار ورخت جنس
اسپ قمر سم و شتر و قاطر و حمار
اے تجھ سے دیدہ مہ و انجم فروغ گیر!
اے تیری ذات باعث تکوین روز گار
پروانے کو چراغ ہے بُلبُل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
اسی طرح آپ نے مؤذن رسول حضرت بلالؓ کا ذکر بھی دو الگ الگ نظموں میں کیا ہے۔ ایک نظم میں ان کی غلامی پر ہزار آزادیوں کو قربان کیا ہے۔ اور دوسری نظم میں ان کا مقابلہ اسکندر رومی سے کیا ہے۔ پہلی نظم جس میں محبت رسولﷺ کے بدلے حضرت بلالؓ کی خوش نصیبی پر ناز کیا گیا ہے۔ اس کی ابتدایوں ہوتی ہے۔
چمک اٹھا جو ستارہ تیرے مقدر کا
حبش سے تجھ کو اٹھاکر حجاز میں لایا
ہوئی اسی سے تیرے غمکدے کی آبادی
تری غلامی کے صدقے ہزار آزادی
اور انتہا ان اشعار سے ہوئی ہے ؎
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ نبی
نماز اس کے نظارے کا اک بہانہ نبی
خوشا وہ وقت کہ یژب مقام تھا اس کا
خوشا وہ دور کہ دید ارعام تھا اس کا
اسی طرح علامہ نے جنگ یرموک ، واقعہ معراج ، صحابہ کی عظمت و جانثاری وغیرہ جیسے موضو عات کو الفاظ میںپر و یا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ علامہ کو رسولِ اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے بہت محبت تھی۔ اور اسی محبت واطاعت کو وہ دنیا و آخرت کی کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ملاخط ہوں جواب شکوہ کے آخری چند بند جو نعت کے اعلیٰ ترین نمونوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ یہاں بھی تمثیلی انداز ہے اور زورِ بیان خوب ہے موجوں کی سی روانی ہے تمام روایتی اور رسمی انداز کی نعتیں ان اشعار کے سامنے ہیچ نظرآتی ہے۔
عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درو یش ! خلافت ہے جہانگر تری
ماسوا اﷲ کے لئے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلمان ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری
کی محمد ؐسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
بحیثیت مجموعی علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کے ذریعہ جہاں قرآن اسلام کی صداقت و عظمت اور رسولِ خدا کی تعلیمات پر اتباع و اقتدا کی پُر زور دعوت دی ہے۔ وہیں انہوں نے نعت کو باقاعدہ فنی طور پر یا مقصد شاعری سمجھ کر نہیں اپنایا بلکہ ان کی محبت اتنی پختہ تھی کہ ان کی اکثر شاعری میں نعتیہ روح موجزن ہوگئی۔ جہاں کہیں آپﷺ کا ذکر آگیا ہے۔ وہاں تو والہانہ شیفتگی اور وار فتگی کچھ زیادہ ہی نظر آتی ہے۔ اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان