اردو کو مختلف ناموں سے موسوم کیا جاتا رہا ہے۔ شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : ’’اردو نام کچھ زیادہ پرانا نہیں ہے۔ پچھلے دو سو سال سے ہماری زبان اس نام سے موسوم ہے۔ ابتدا میں لفظ اردو بصورت ترکیب اپنے لغوی معنی میں استعمال ہوتا تھا۔ زبان اردوئے معلی کہلاتی تھی یعنی شاہی لشکر کی زباں۔ رفتہ رفتہ زبان کا لفظ خارج ہو گیا اور اردوئے معلی بچا رہا۔ کچھ عرصہ بعد ازراہِ اختصار معلی بھی ساقط ہو گیا اورصرف اردو باقی رہ گیا۔ اردو کے چند قدیم نام یہ ہیں۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، دہلوی، زبان ہندوستان، دکنی اور ریختہ۔ ‘‘

ہندوی

سب سے پہلے ہندوستان کی نسبت سے اسے ’ہندوی‘ کہا گیا۔ حافظ محمود شیرانی سے لے کر ڈاکٹر سنیی کمار چٹرجی تک لسانی محققین اس بات پر متفق ہیں۔ قدیم لغات اور ادبی تصنیفات میں بھی اس کا نام ’ہندی‘ یا’ہندوی‘ ہے۔ اسی لیے 812ھ میں ’قاضی خاں بدر‘ سے لے کر 1742 میں ’ سراج الدین خاں آرزو‘ تک سبھی قدیم لغات نویسیوں نے ہندوستان کی زبان کو’ ہندی‘ یا’ہندوی‘ لکھا ہے بعض صوفیا کرام کی تحریریں یا اقوال میں بھی اسے ’ہندی‘ یا ’ہندوی‘ کہا گیا ہے۔ شمس الر حمن فاروقی لکھتے ہیں : ’’جس زبان کو آج ہم اردو کہتے ہیں پرانے زمانے میں اسی زبان کو ہندوی، ہندی، دہلوی، گجری، دکنی اور پھر ریختہ کہا گیا۔ اور یہ نام تقریباً اسی ترتیب سے استعمال میں آئے جس ترتیب سے میں نے انھیں درج کیا ہے۔ ‘‘ میر اثر (پیدایش59، 1758۔ وفات 1794) نے اپنی مثنوی ’خواب و خیال‘ کی ابتدا میں اپنی زبان کو’ہندوی‘ قرار دیا ہے :

    فارسی سوں ہیں، ہندوی سوں ہیں

    باقی اشعارِ مثنوی سوں ہیں

صغیر احمد جان لکھتے ہیں : ’’فارسی اور ہندی کے اختلاط وارتباط سے جو زبان عالم وجود میں آئی اور جو آئندہ چل کر اردو کہلائی، اپنے ابتدائی عہد میں ہندی ہی کہلاتی تھی۔ ‘‘ ایوب صابر لکھتا ہے : ’’مسلمان ہندوستان آئے تو یہاں کی ہر بولی کو ہندی یا ہندوی کہا۔ ہند کی نسبت سے ہندی اور ہندو کی نسبت سے ہندوی۔ امیر خسرو نے اپنے دیوان کے دیباچے میں دہلوی کو کلام ہندوی لکھا ہے۔ ‘‘ میراں جی شمس العشاق اور برہان الدین جانم بھی اسے ہندی کہتے رہے۔ سب رس کے مصنف نے اسے ہندی لکھا۔ خطوطِ غالب میں بھی ہندی کلام کہا گیا۔

ریختہ

’ہندوی‘ کے بعد اردو کا دوسرا مقبول نام ‘ریختہ’ ہے۔ لغت میں ’ریختہ‘ کے متعدد معنی ہیں مثلاََ بُننا، ایجاد واختراع کرنا، نئے سانچے میں ڈھالنا اور موزوں کرنا، پریشان و گری پڑی چیز وغیرہ لیکن ریختہ اور جشنِ ریختہ میں فرق ہے۔ آب حیات میں مولانا محمدحسین آزاد لکھتے ہیں : ’’مختلف زبانوں نے اسے ریختہ کیا ہے جیسے دیوار کو اینٹ، مٹی، چونا، سفیدی وغیرہ پختہ کرتے ہیں یا یہ کہ ریختہ کے معنی ہیں گری، پڑی پریشان چیز۔ ‘‘ لیکن شروعات میں ریختہ کا استعمال بالکل الگ معنی میں ہوا یعنی مقامی راگوں اور فارسی کو ملا کر ہندوستانی موسیقی میں جو اختراع وجود میں آئی اس کو’ ریختہ ‘کہا گیا۔ اسی لیے مختلف زبانوں اور بولیوں کے امتزاج کی بنا پر استعارۃََ اردو بھی ریختہ کہلائی۔ زبان کے لیے ’ریختہ‘ جلال الدین محمد اکبر کے عہد میں غالباََ پہلی بار استعمال ہوا مگر یہ استعمال صرف شاعری تک محدود تھا۔ بولی جانی والی زبان یا نثری کاوشوں کے لیے ’ہندی‘ کا ہی استعمال ہوتا رہا۔ اس کی وجہ بھی غالباََ موسیقی تھی کیوں کہ بعض قدیم غزلوں میں فارسی اور ہندوی کا پر لطف امتزاج ملتا ہے۔ حافظ محمود شیرانی لکھتے ہیں : ’’ریختہ سے مراد اگرچہ ولی اور سراج کے ہاں نظم اردو ہے لیکن دہلویوں نے بالآخر اس کو زبان اردو کے معنی دے دیے اور یہ معنی قدرتاً پیدا ہو گئے اس لیے ان ایام میں اردو زبان کا تمام تر سرمایہ نظم ہی میں تھا۔ جب نثر پیدا ہو گئی تو یہی اصطلاح اس پر ناطق آ گئی۔ اس طرح ریختہ قدرتاً اردو زبان کا نام ہو گیا۔ ‘‘ یوں تو ’ریختہ‘ کی اصطلاح ایک خاص قسم کی شاعری کے لیے مستعمل تھا لیکن کچھ عرصہ بعد ریختہ کا لفظ تمام شاعری کے لیے مقبول ہو گیا۔ بیشتر قدیم شعرا نے شاعری یا اردو زبان کے لیے ریختہ کا لفظ استعمال کیا۔ چنانچہ شاہ حاتم، قائم چاندپوری، مرزا قتیل، میر تقی میر، مرزا محمد رفیع سودا، غلام علی ہمدانی مصحفی اور مرزا غالب کے وقت تک سبھی کے کلام میں یہ لفظ ملتا ہے اور سبھی نے اسے شاعری کا مترادف جانا۔ بقول مرزا غالب:

    ریختے کے تمھیں استاد نہیں ہو غالبؔ

    کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

دکنی

دکن کا اردو زبان و ادب میں انتہائی اہم کردار ہے۔ اردو کو دکھنی بھی کہا جاتا رہا ہے۔ دکن کی زبان کو دکنی کہا جاتا رہا ہے۔ مولانا شیرانی لکھتے ہیں : ’’اہالی دکن دکنی کہتے رہے۔ اس کی متعدد مثالیں بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔ ۔۔ شاہ ملک بیجاپوری رسالہ ’’احکام الصلوۃ‘‘ میں لکھتے ہیں

    یوں مسلیاں کو دکھنی کیا اس سبب

    فہم کرکے دل میں کریں یاد سب

نصیر الدین ہاشمی لکھتے ہیں : ’’شمال میں اب تک اس جدید زبان کا کوئی نام رائج نہیں تھا، مگر دکن میں وہ دکھنی کے نام سے موسوم ہوئی، لیکن رفتہ رفتہ شمالی ہند میں ریختہ، اردو اور اردوئے معلی کے ناموں سے موسوم ہوئی۔ دکن میں یہ زبان ہندی اور دکھنی سے موسوم رہی ہے۔ وجہی کہتا ہے

    دکھنی میں جوں دکھنی مٹھی بات کا

    ادا نہیں کیا کوئی اس بات کا

رستمی کہتا ہے :

    کیا ترجمہ دکھنی ہوردل پزیر

    بولیا معجزہ یو کمال خان دبیر

نصرتی کہتا ہے :

    صفائی کی صورت کی ہے آرسی

    دکھنی کا کیا شعر یوں فارسی

گوجری

شیرانی لکھتے ہیں : ’’ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ اہالی دکن نے اردو کا نام دکنی رکھا۔ اہالی گجرات نے اس کا نام گجراتی یا گوجری رکھا۔ شیخ محمد نے ’’خوب ترنگ‘‘ لکھی ہے۔ اس مثنوی کی زبان زیادہ تر اردو کے ذیل میں داخل ہے لیکن وہ اسے گجراتی بولی کہتے ہیں :

    جیوں دل عرب عجم کی بات

    سن بولی، بولی گجرات

اردو

شرف الدین اصلاحی لکھتے ہیں : اردو شعرا میں سب سے پہلے مصفحی کے ہاں یہ لفظ بطور اسم علم آیا ہے

    خدا رکھے زباں ہم نے سنی ہے میرو میرزا کی

    کہیں کس منہ سے ہم اے مصحفی اردو ہماری ہے

    ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں : ’’ہندوستانی لشکر جو اردو کہلاتے تھے اور ان میں ہر علاقہ کے لوگ موجود تھے۔ وہ ایک دوسرے سے اسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ مختلف زبانوں کے الفاظ، مزاج اور لہجوں کو سلیقہ کے ساتھ جذب و ہم آہنگ کر کے ایک وحدت بنا دینے کی صلاحیت کی وجہ سے بعد مین یہ زبان خود اردو کہلائی جانے لگی۔ اردو زبان کے موضوعات پر تحقیق کی جا سکتی ہے کیوں کہ یہ سب زبانوں کی زبان ہے۔ یہ سب ہے اور سب اس میں ہیں۔ ‘‘ مولانا شیرانی لکھتے ہیں :’’ہندوستان میں اس لفظ کا استعمال ظہیر الدین محمد بابر کے عہد سے ہونے لگا ہے۔ مگر زبان کے معنوں مین اس کا استعمال چنداں قدیم نہیں ہے۔ اس کو رواج میں آئے سو سوا سو سال کا عرصہ کم وبیش گزرتا ہے۔ ادبیات میں سب سے بیشتر میر محمد عطا حسین تحسین نے یہ نام اختیار کیا۔ اس کے بعد یہ لفظ عام ہو گیا۔ دریائے لطافت میں سید انشاء اور مرزا قتیل اپنے تذکرے میں اسی نام سے یاد کرتے ہیں۔