*غیر زبانوں کے الفاظ– از شمس الرحمن فاروقی
غیر زبانوں کے جو لفظ زبان میں پوری طرح کھپ جاتے ہیں، انھیں “دخیل” کہا جاتا ہے۔ اصول یہ ہے کہ صرف اور نحو کے اعتبار سے دخیل لفظ اور غیر دخیل لفظ میں کوئی فرق نہیں۔
جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو وہ ہمارا ہوگیا اور ہم اس کے ساتھ وہی سلوک روا رکھیں گے جو اپنی زبان کے اصلی لفظوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، یعنی اسے اپنی مرضی اور سہولت کے مطابق اپنے رنگ میں ڈھال لیں گے اور اس پر اپنے قواعد جاری کریں گے۔ لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی دخیل لفظ کے معنی، تلفظ، جنس یا املا ہماری زبان میں وہ نہ ہوں جو اس زبان میں تھے جہاں سے وہ ہماری زبان میں آیا ہے۔ اردو میں عملاً اس اصول کی پابندی تقریباً ہمیشہ ہو ئی ہے۔ لیکن شاعری میں اکثر اس اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ صرف و نحو کی کتابوں میں بھی بعض اوقات اس اصول کے خلاف قاعدے بیان کیے گئے ہیں۔ یہ دونوں باتیں غلط اور افسوسناک ہیں۔ نحوی کا کام یہ ہے کہ وہ رواج عام کی روشنی میں قاعدے مستنبط کرے، نہ کہ رواج عام پر اپنی ترجیحات جاری کرنا چاہے۔ شاعر کا منصب یہ ہے کہ وہ حتی الامکان رواج عام کی پابندی کرتے ہوئے زبان کی توسیع کرے، اس میں لچک پیدا کرے نہ کہ وہ رواج عام کے خلاف جا کر خود کو غلط یا غیر ضروری اصولوں اور قاعدوں کا پابند بنائے۔
اردو میں دخیل الفاظ بہت ہیں اور دخیل الفاظ کے ذخیرے سے بھی بہت بڑا ذخیرہ ایسے الفاظ کا ہے جو دخیل الفاظ پر تصرف کے ذریعہ بنائے گئے ہیں۔ یہ تصرف کئی طرح کا ہو سکتا ہے۔
(1) غیر زبان کے لفظ پر کسی اور زبان کے قاعدے سے تصرف کر کے نیا لفظ بنانا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* فارسی لفظ “رنگ” پر عربی کی تاے صفت لگا کر “رنگت” بنا لیا گیا۔
* فارسی “نازک” پر عربی قاعدے سے تاے مصدر لگا کر “نزاکت” بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ “طرفہ” پر فارسی کی علامت فاعلی لگا کر “طرفگی” بنایا گیا۔
* فارسی لفظ “دہ /دیہہ” پر عربی جمع لگا کر “دیہات” بنایا اور اسے واحد قرار دیا۔
* عربی لفظ “شان” کے معنی بدل کر اس پر فارسی کا لاحقۂ کیفیت لگایا اور “شاندار” بنا لیا۔
* عربی لفظ “نقش” پر خلاف قاعدہ تاے وحدت لگا کر “نقشہ” بنا یا، اس کے معنی بدل دیے، اور اس پر فارسی لاحقے لگا کر “نقشہ کش/نقش کشی؛ نقشہ نویس/ نقشہ نویسی؛ نقشہ باز” وغیر بنا لیے۔
* عربی لفظ “تابع” پر فارسی لاحقہ “دار” لگا لیا اور لطف یہ ہے معنی اب بھی وہی رکھے کیوں کہ “تابع” اور “تابع دار” ہم معنی ہیں۔
(2) غیر زبان کے لفظ پر اپنی زبان کے قاعدے سے تصرف کرنا۔ اس کی بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* عربی “حد” پر اپنا لفظ “چو” بمعنی “چار” اضافہ کیا ، پھر اس پر یاے نسبتی لگا کر “چو حدی” بنا لیا۔
* عربی لفظ “جعل” کے معنی تھوڑا بدل کے اس پر اردو کی علامت فاعلی لگا کر “جعلیا” بنایا گیا۔ فارسی کی علامت فارعلی لگا کر “جعل ساز” بھی بنا لیا گیا۔
* عربی لفظ “دوا” کو “دوائی” میں تبدیل کر کے اس کی جمع اردو قاعدے سے “دوائیاں” بنی۔
* فارسی لفظ “شرم” پر اپنا لاحقۂ صفت بڑھا کر “شرمیلا” بنا لیا۔
* فارسی لفظ “بازار” پر اردو لفظ “بھاؤ” لگا کر اردو قاعدے کی اضافت بنا لی گئی؛ “بازار بھاؤ”۔
(3) اپنی زبان کے لفظ پر غیر زبان کا قاعدہ جاری کر کے نیا لفظ بنا لینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* “اپنا” میں عربی کی تاے مصدری اور اس پر ہمزہ لگا کر “اپنائیت” بنایا گیا۔ لکھنؤ میں “اپنایت” بولتے تھے لیکن بعد میں وہاں بھی “اپنائیت” رائج ہوگیا۔ “آصفیہ” میں “اپنائیت” ہی درج ہے۔
* اردو کے لفظ پر “دار” کا فارسی لاحقہ لگا کر متعدد لفظ بنائے گئے؛ “سمجھ دار، چوکیدار، پہرے دار” وغیرہ۔
* اردو کے لفظ “دان” کا لاحقہ لگا کر بہت سے لفظ بنا لیے گئے ، جیسے:” اگردان، پیک دان، پان دان ” وغیرہ۔
(4) غیر زبان کے لفظ سے اپنے لفظ وضع کرلینا۔ بعض مثالیں حسب ذیل ہیں:
* مصدر “گرم” سے “گرمانا”؛”شرم” سے “شرمانا” وغیرہ۔
* اسم “نالہ” سے “نالش”؛ “چشم” سے “چشمہ(بمعنی عینک)” وغیرہ۔
* صفت “خاک” سے “خاکی” (رنگ، انگریزی میں Khaki کا تلفظ “کھیکی”)
(5) غیر زبان کے طرز پر نئے لفظ بنا لینا۔ مثلاً حسب ذیل لفظ فارسی / عربی میں نہیں ہیں، اردو والوں نے وضع کیے ہیں:
* بکر قصاب؛ دل لگی؛ دیدہ دلیل؛ ظریف الطبع؛ قابو پرست؛ قصائی؛ ہر جانہ؛ یگانگت وغیرہ۔
(6) اپنا اور غیر زبان کا لفظ ملا کر، یا غیر زبان کے دو لفظ ملا کر اپنا لفظ بنا لینا، مثلاً:
آنسو گیس (اردو، انگریزی)؛ بھنڈے بازار (اردو، فارسی)؛ خچر یاتری (اردو ، انگریزی)؛ خود غرض (فارسی، عربی)؛ گربہ قدم (فارسی، عربی) وغیرہ
جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے، دخیل الفاظ ، چاہے وہ براہ راست دخیل ہوئے ہوں یا ان کے زیر اثر مزید لفظ بنے ہوں، سب ہمارے لیے محترم ہیں۔ کسی دخیل لفظ، کلمے یا ترکیب کو، یا اس کے رائج تلفظ یا املا کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ جس زبان سے یہ لیا گیا ہے وہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی لفظ ہماری زبان میں آگیا تو اس کے غلط یا درست ہونے کا معیار ہماری زبان،اس کے قاعدے، اور اس کا روز مرہ ہوں گے نہ کہ کسی غیر زبان کے۔
ہمارے یہاں یہ طریقہ عام ہے کہ کسی لفظ یا ترکیب یا اس کے معنی کے لیے فارسی سے سند لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ فارسی میں ایسا ہے، اس لیے اردو میں بھی ٹھیک ہے۔ یہ طریقہ صرف اس حد تک درست ہے جب تک فارسی کی سند ہمارے روزمرہ یا ہمارے رواج عام کے خلاف نہ پڑتی ہو۔
“فارسی میں صحیح ہے اس لیے اردو میں صحیح ہے”، یہ اصول بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا یہ اصول کہ “فارسی [یا عربی] میں غلط ہے، اس لیے اردو میں بھی غلط ہے۔”
مثال کے طور پر “مضبوط” کو جدید فارسی میں “مخزون” کے معنی میں بولتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مثلاً “یہ کتاب نیشنل لائبریری میں مخزون ہے”۔ یہاں فارسی والا “مضبوط” کہے گا۔ ظاہر ہے کہ فارسی کی یہ سند اردو کے لیے بے معنی ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اردو نے فارسی /عربی سے بے شمار الفاظ ، محاورات اور تراکیب حاصل کیے ہیں۔
لہٰذا یہ بالکل ممکن ہے کہ اگر اردو میں کسی عربی/فارسی لفظ کے بارے میں کوئی بحث ہو تو ہم عربی/فارسی کی سند لا کر جھگڑا فیصل کرلیں۔ لیکن شرط یہی ہوگی کہ عربی /فارسی کی سند ہمارے رواج عام یا روزمرہ کے خلاف نہ ہو۔ مثلاً لفظ “کتاب” کی جنس کے بارے میں اختلاف ہو تو یہ سند فضول ہوگی کہ عربی میں “کتاب”مذکر ہے، لہٰذا اردو میں بھی یہ لفظ مذکر ہوگا/ہونا چاہیے۔ اسی طرح، اگر یہ سوال اٹھے کہ “طشت از بام ہونا” صحیح ہے کہ نہیں، تو یہ استدلال فضول ہوگا کہ فارسی میں “طشت از بام افتادن” ہے، لہٰذا اردو میں بھی “طشت از بام گر پڑنا” ہونا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے یہاں یوں بولتے ہیں، “سارا معاملہ طشت از بام ہو گیا”، جب کہ فارسی میں یہ محاورہ “طشت” کے حوالے سے بولتے ہیں، یعنی یوں کہتے ہیں:”طشت از بام افتاد”۔ ظاہر ہے کہ یہ ضد کرنا بھی غلط ہے کہ اردو میں بھی یوں ہی بولنا چاہیے۔
یا مثلاً اردو میں “لطیفہ” کے معنی ہیں، “کوئی خندہ آور چھوٹی سی کہانی یا چٹکلا”۔ یہ معنی نہ فارسی میں ہیں نہ عربی میں۔ لیکن ظاہر ہے کہ اردو میں رائج معنی کو اس بنا پر مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر کوئی شخص “لطیفہ” کو اردو میں “سخن خوب و نیکو” ، یا “اچھی چیز، اچھائی” کے معنی میں استعمال کرے اور کہے کہ (مثلاً) “مقدمہ شعر و شاعری لطیفوں [یا لطائف] سے بھری ہوئی ہے” درست استعمال ہے ، کیوں کہ فارسی میں “لطیفہ”بمعنی “سخن خوب” اور عربی میں بمعنی “اچھی چیز” وغیرہ ہے، تو اس کی بات قطعی غلط قرار دی جائے گی۔
لہٰذا بنیادی بات یہی ہے کہ جو استعمال، لفظ ، ترکیب، کلمہ ، اردو کے قاعدے یا رواج کے مطابق ہے، وہ صحیح ہے۔ دوسری بات یہ کہ اردو پر غیر زبانوں، خاص کر عربی /فارسی کے قاعدے جاری کرنا درست نہیں ہے، اس لے کو جتنا دھیما کیا جائے ، اچھا ہے۔
[بحوالہ : “لغات روزمرہ”، تیسرا اضافہ و تصحیح شدہ ایڈیشن]
کسی بھی زبان کے زندہ ہونے کی سب سے بڑی علامت یہی سمجھی جاتی ہے کہ وہ نئے دور کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں لاتی جائے۔ ایسے الفاظ متروک ہوجاتے ہیں جو کسی زمانے میں رائج تو ہو گئے لیکن لوگوں کے مزاج کا حصہ نہ بن سکے، ایسے الفاظ بھی متروک ہو جاتے ہیں جو لوگوں کی ہجرت کے ساتھ نئے علاقوں میں وہاں کے باشندوں کے مزاج سے مطابقت نہ رکھتے ہوں۔ اگر زبان میں دوسری زبانوں خصوصاً مقامی زبانوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو اس کا نئی جگہوں اور نئی ثقافت میں پھلنا پھولنا نا ممکن ہوتا ہے۔
۔۱۹۴۷ کی ہجرت ایک بہت غم انگیز تاریخی واقعہ ہے، یہ بات اپنی جگہ، لیکن اس کا ایک مثبت پہلو یہ نکلا کہ اردو ہندوستان، خصوصاً دلی اور لکھنئو سے نکل کر پنجاب، سندھ، بلوچستان اور سرحد تک ہر محلے اور گلی کوچے میں آن پہنچی۔ میں اس بات کو اردو کی خوش قسمتی سمجھتا ہوں کہ اسے پاکستان اور خصوصاً پنجاب کے رہنے والے کھلے دل کی ثقافت کی میزبانی نصیب ہوئی۔ پاکستان کے لوگوں، خصوصاً پنجاب کے لوگوں نے زبان کے تعصب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اردو ادب کو بہت بڑے بڑے نام دیئے، مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی جھجک نہیں کی اردو ادب کے اساتذہ کے بعد اگر اردو ادب کی صحیح معنوں میں خدمت ہوئی تو وہ پاکستان کے مقامی شعراء کے ہاتھوں ہی ہوئی۔ ایسے میں اس زبان میں مقامی الفاظ کا یا مقامی تلفظ کا در آنا ایک فطری امر تھا، جو کہ ہوا اور مزید ہوتا رہے گا۔
یہ ایک حیرت انگیز بات ہے کہ جہاں عوام میں بولی جانے والی اردو تبدیل ہوئی وہاں اردو ادب میں، خصوصاً اردو غزل میں اس رویئے کی شدید مخالفت کی گئی اور آج بھی اگر پنجابی تلفظ کے ساتھ اردو غزل میں کوئی شاعر کوئی لفظ پنجابی یا مقامی تلفظ کے ساتھ باندھ دے تو اس کے خلاف کم از کم ایک آدھ آواز ضرور اٹھتی ہے۔ اردو الفاظ کے مقامی تلفظ کے استعمال کے معترضین تو سیدھا سیدھا کہہ کر بحث ختم کر جاتے ہیں کہ ایسا رویہ زبان کی حرمت کے لئے نقصان دہ ہے اور ایسا کرنے والے عجزِ بیان کے مارے ہوئے وہ کم علم شعراء ہیں جو نہ تو زبان کا علم رکھتے ہیں نہ فن پر ان کی کوئی خاص دسترس ہوتی ہے۔ اس نظریئے کے حامی اپنے آپ کو ترقی پسندانہ رویئے کے علمبردار بتاتے ہیں اور الفاظ کو مقامی تلفظ میں ادا کرتے ہوئے شعر و ادب اور خصوصاً زبان کی خدمت قرار دیتے ہیں۔
جہاں اردو زبان پر مقامی الفاظ کا اثر ہوا، وہاں ذرائع ابلاغ کی بدولت اور ایک گلوبل کلچر کی پذیرائی کے نتیجے میں انگریزی زبان بھی اردو میں در آئی۔ یہاں تک کہ آپ اگر اردو گرامر استعمال کرتے ہوئے سارا فقرہ بھی انگریزی میں کہہ ڈالیں تو عام لوگ اس کو نہ صرف سمجھ جاتے ہیں بلکہ اس کا جواب بھی اسی سے ملتے جلتے انداز میں دیتے ہیں۔ گو کہ ان الفاظ کے بھرپور اردو مترادفات بھی موجود ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والے عموماً اپنے آپ کو سماجی سطح پر تھوڑا بلند خیال کرتے ہوئے یا بلند ثابت کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ خواص تو کیا عوام میں بھی انگریزی کے الفاظ روزمرہ کی زبان میں استعمال کرنا اب اس قدر معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ایسے میں کچھ شعراء نے شعوری طور پر انگریزی کے الفاظ اردو شاعری میں لانے کی سعی کی اور خصوصاً آزاد نظم میں نہ صرف انہیں کامیابی سے استعمال کیا بلکہ ان کے اس رویئے کی کسی بڑے پیمانے پر مخالفت بھی نہیں ہوئی۔ مسئلہ تب شروع ہوا جب لوگوں نے انگریزی کے الفاظ کو اردو غزل میں لانا شروع کیا۔ اس پر شعراء واضع طور پر دو مختلف نظریہ ہائے فکر سے بندھے نظر آئے، ایک وہ جو اس ملاپ کے حامی ہی نہیں تھے بلکہ اس کے پرچارک اور عملدار بھی، اور دوسرے وہ جو اردو زبان کی حرمت کے نام پر اس کے سخت مخالف ہوئے۔
میری اپنی شعری تربیت میں میرے والد محترم ماجد صدیقی اور ان کے اور میرے مشترکہ محترم دوست جناب آفتاب اقبال شمیم کا بہت حصہ ہے۔ وہ دونوں ہی انگریزی زبان کو اردو شاعری میں استعمال کرنے کے خلاف نہیں ہیں۔ مجھے بچپن کا ایک قصہ یاد ہے جب میرے والد محترم کے ایک دوست اسی موضوع پر ان سے کافی گرما گرم بحث میں مصروف تھے، اگلے دن وہ پھر آئے تو میرے والد نے انہیں ایک غزل سنائی جس کے ہر شعر میں ایک لفظ انگریزی سے لیا گیا تھا۔ لیکن وہ لفظ اردو میں اس قدر جذب ہو چکے ہیں کہ کچھ اشعار میں تو یہ محسوس بھی نہ ہو سکا کہ انگریزی استعمال کی گئی ہے۔
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجد زوال پر
فریم ، بٹن میک اپ اور بلب جیسے الفاظ ہر کوئی سمجھتا ہے، بلکہ سچ پوچھیں تو بلب، فریم اور بٹن کے بجائے اگر قمقمہ، چوکھٹا، ڈھانچ، ڈھچر یا سیپ یا بوتام وغیرہ کہیں تو ننانوے فی صد لوگ آپ کا منہ دیکھنے لگ پڑیں گے کہ یہ آخر کہہ کیا رہا ہے۔ ایسے الفاظ سے گریز ممکن ہی نہیں۔ بات اگر یہاں تک رہے تو قبولیت کے امکانات کافی ہیں لیکن کئی شعراء نے ایسے الفاظ بھی اردو نظم اور اردو غزل میں استعمال کئے جن کے بھرپور متبادل اردو میں موجود ہیں۔ اگر کسی لفظ کا متبادل اردو میں موجود ہو تو میں بذاتِ خود اردو متبادل کو شعروشاعری تو کیا اردو نثر تک میں استعمال کرنے پر فوقیت دیتا ہوں، میں زبان کے مروجہ اور کلاسیکل اصولوں کے اندر رہتے ہوئے زبان میں لائے جانے والی جدتوں کا حامی بھی ہوں اور پرچارک بھی۔
یہ ایک الگ بحث ہے کہ اردو میں انگریزی الفاظ کا استعمال درست ہے یا غلط ، اور اگر درست ہے تو کب اور کیسے، غلط ہے تو کیونکر۔ اس نظریے کے حامی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ اگر ہم نئی زبانوں کو اردو کا حصہ نہیں بنائیں گے تو ہماری زبان اپنی موت آپ مر جائے گی اور یہ کہ عام فہم میں رائج انگریزی کے الفاظ کو ادب کا حصہ بنا کر وہ شاعری کو نئی نسل تک پہنچانے میں زیادہ موثر کردار ادا کر رہے ہیں۔ جب کہ مخالفین کا نقطہءِ نظر یہ ہے کہ بادی النظر میں زیادہ تر شعرا ایسے الفاظ اردو شاعری میں گھسیٹ لاتے ہیں جن کے متبادل اردو میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ بھرپور طور پر مستعمل بھی ہیں۔ جیسے کار اور بلب کو تو شاعری میں استعمال کریں سو کریں، محبوب کے لئے سویٹ ہارٹ یا عشق کے لئے ،،لو،، استعمال کرنے سے زبان کی کونسی خدمت ممکن ہے؟ گو اس بات سے تو اختلاف ممکن ہی نہیں کہ جب جدید رویئے اور اشیا کسی ثقافت میں یا کسی زبان میں داخل ہوتی ہیں تو دوسری زبانوں کے الفاظ اپنے ساتھ لے کر آتی ہیں۔۔ جیسا کہ کار، کمپیوٹر، کی بورڈ۔ بٹن، انٹرنیٹ، بلب ، ہاکر، ای میل، سرکٹ اور نمبر وغیرہ، ان الفاظ کے مترادفات اردو میں سرے سے موجود ہی نہیں، تو کیا کیا جائے۔
رئیس فروغ کے تین اشعار پیشِ خدمت ہیں
لڑکیاں، روشنیاں، کاریں، دکانیں، شامیں
انہی چیزوں میں کہیں میرا بدن ہے لوگو
یہ مرا ہمزاد ہاکر تو نہیں؟
بیچتا پھرتا ہے سایہ دھوپ میں
شارٹ سرکٹ سے اڑی چنگاریاں
صدر میں اک پھول والا جل گیا
شارٹ سرکٹ، کار اور ہاکر جیسے الفاظ ہی نہیں یہ چیزیں بذاتِ خود برصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد ہی آئیں۔ ان الفاظ کو ان اشعار میں سے نکالا ہی نہیں جا سکتا ، اس کے ساتھ ساتھ ان اشعار میں موجود شعریت پر بھی انگلی اٹھانا کارِ محال ہے۔
اور تو اور حضرت مرزا اسد اللہ خان غالب تک نے انگریزی کے الفاظ استعمال کرنے میں عار نہیں سمجھی۔ ایک سہرے میں فرماتے ہیں
سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا
پنجابی اور اردو میں کچھ حروف اور ان کی ادائیگی کا مسئلہ ضرور ہے لیکن ان دو زبانوں میں کوئی بنیادی تضاد ہرگز نہیں۔ لیکن انگریزی زبان اپنی ساختیات کے لحاظ سے اردو سے ایک لحاظ سے بہت ہی مختلف ہے۔ میں اردو میں کوئی بھی ایسا لفظ ڈھونڈنے سے قاصر ہوں جو ساکن حرف سے شروع ہوتا ہو، لیکن انگریزی میں ایسے ہزاروں الفاظ مل جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ میں اس پر مزید بات کروں، اپنے ان قارئین کے لئے جنہیں متحرک اور ساکن حروف کے بارے میں زیادہ علم نہیں ایک چھوٹا سا تعارف کرتا چلوں۔
لفظ اردو ہی کو لے لیجیئے، اس میں وہ حروف جن پر آپ کی زبان حرکت میں آتی ہے اور لفظ کی جاری ہیئت میں ایک واضع تبدیلی لاتی ہے متحرک حروف ہیں۔ الف اور د، اسی طرح لفظ پنجابی میں پ ج اور ب کے حروف متحرک ہیں جبکہ ن ا اور ی کے حروف ساکن۔ لفظ انگریزی میں ا ر اور ز جبکہ لفظ قفس میں ق اور ف متحرک جب کہ س ساکن ہے۔
اب واپس آئیں اور انگریزی کے ان الفاظ پر غور کریں
فریم
سکول
سپورٹ بمعنی کھیل
کراس
ٹرک
ان تمام الفاظ کو اردو کے ساکن اور متحرک والے اصول پر پرکھا جائے تو فریم کو فَریم یعنی ف کے اوپر زبرسکول کے س، سپورٹ کے س، کراس کے ک اور ٹرک کے ٹ پر زبر لگانی پڑے گی۔
کچھ الفاظ ، خصوصاً انگریزی حرف ،،ایس،، سے شروع ہونے والے الفاظ کے لئے کسی زمانے میں لوگوں نے لفظ سے پہلے الف لگانے کا تجربہ کیا، سکول کو اسکول بنا دیا گیا، اور سپورٹ کو اسپورٹ کہا گیا۔ لیکن یہ اصول فریم اور ٹرک جیسے الفاظ پر لاگو نہیں ہو سکا، اور آج تک کسی نے فریم کو افریم اور ٹرک کواٹرک نہیں کہا۔
اب واپس لفظ سپورٹ پر آئیں۔ اگر اردو کے قاعدے پر آئیں اور س کو متحرک کریں تو
Sport
کا لفظ
support
بن جاتا ہے جس کے معنی بالکل ہی مختلف ہیں۔ دوسرا یہ کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں انگریزی بولنے والا کوئی بھی شخص فریم میں ف کو متحرک نہیں کرے گا، سکول کے س اور ک کو ایک ہی حرف کے طور پر لیتے ہوئے ایک نئےحرف کے طور پر ادا کرے گا، ٹرک کو ٹَ رَک نہیں کہے کا بلکہ ٹر کے دونوں حروف سے ایک ہی حرف کی آواز نکالے گا۔ اسی طرح الفاظ کے آخر میں آنے والے حروف بھی توجہ کے لائق ہیں ۔۔ جیسا کہ لفظ کورٹ بمعنی عدالت۔ پاسٹ بمعنی ماضی۔ انگریزی میں کورٹ کا ،،او،، ،،یو،، ،،آر،، اور ،،ٹی،، چاروں ہی ساکن ہیں، خیال رہے کہ او اور یو مل کر ایک ہی آواز بنا رہے ہیں اس لئے ان کو ایک ہی حرف کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ لفظ پاسٹ میں اے ایس اور ٹی تین الفاظ اکٹھے ساکن آ گئے ہیں۔ لیکن یہ کنسٹرکٹ اردو زبان میں سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ عروضی قواعد کے مطابق جب دو ساکن خروف اکٹھے آ جائیں تو دوسرا حرف متحرک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ اس شعر میں لفظ ٹوٹ، نظم اور عمر
خود قلم بن کے، ٹوُٹ کر لکھی
ایک ہی نظم عمر بھر لکھی
ٹوٹ کا آخری ٹ، نظم کا م اور عمر کا ر گو الفاظ میں ساکن ہیں لیکن شعری پیمانوں میں تلنے کے بعد متحرک پڑھے جاتے ہیں۔ اب ایسے ہی مصرعے میں کورٹ کا وزن لا کر دیکھیں جس میں دو نہیں آخر کے اکٹھے تین حروف ساکن آ گئے ہیں، عروضی پیمانوں کے اندر رہتے ہوئے اس کا کیا حل نکالا جا سکتا ہے؟ یا تو کورٹ کوکور یا کوٹ کے وزن پر باندھا جائے جیسا کہ فعولن فعولن فعولن فعل کی بحر میں یہ مصرع
قدم کورٹ میں اس نے رکھا تھا جب
یا کورٹ میں ر اور ٹ دونوں کو متحرک کیا جائے، موخرالذکر کام کرنے سے لفظ کے انگریزی تلفظ کا وہ کباڑا ہو گا کہ مصرع پڑھتے ہوئے بھی شرم آنے لگے گی جیسا کہ متفاعلن متفاعلن کی بحر میں یہ مصرع
کبھی کورٹ میں قدم رکھو
الفاظ کے ایک زبان سے دوسری زبان میں جانے کے بعد ان کے تلفظ، ہیئت یا معنی تک میں تبدیلی آنا قدرتی بات ہے۔ اور میں خود الفاظ کو کسی حد تک تبدیل کرنے کے حق میں ہوں ۔ میں نے دیکھا ہے کہ اردو شعراءِ کرام ایسے الفاظ کو اپنی سہولت کے مطابق شعر میں جیسے موزوں لگے استعمال کر ڈالتے ہیں، کہیں لفظڈرائیور کو مفاعلن کو وزن پر یعنی ڈ اور ر کو الگ الگ حروف گردانتے ہوئے ڈ پر زبر لگا کر اور کہیں ڈ اور ر کو ایک ہی حرف کے طور پر لیتے ہوئے انگریزی تلفظ کے ساتھ۔ ڈرائیور بر وزنِ مفاعلن۔ انگریزی تو کیا پنجاب کے کسی دیہات تک میں یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ نہیں بولا جاتا ۔
آتی ہے اردو آتے آتے
ڈاکٹر محسن عثمانی ،اردو بک ریویو دہلی
ہزاروں نہیں لاکھوں انسان یہ خیالِ خام رکھتے ہیں کہ وہ اردو زبان اچھی طرح جانتے ہیں، وہ اردو بولتے ہیں، کیونکہ یہ ان کی مادری زبان ہے جب کہ مرزا داغ دہلوی کا کہنا ہے کہ یہ خیال محض خوش عقیدگی اور غلط فہمی پر مبنی ہے ورنہ وہ اردو زبان جو بے عیب ہو اور جس میں محاورہ اور قواعد کی غلطی نہ ہو، کچھ ایسی آسان نہیں کہ اس کے جاننے کا ہر دعویٰ درست ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ اردو زبان بڑی مشکلوں سے آتی ہے اور آتے آتے آتی ہے۔ بڑی مشق ممارست اور مزاولت کے بعد آتی ہے اور اساتذۂ سخن اور کاملین فن کی صحبت اختیار کرنے کے بعد آتی ہے اور اس کے بعد بھی زبان کی غلطیوں سے کبھی کبھی دامن بچا لینا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایک واقعہ توضیح مدعا کے لئے بیان کیا جاتا ہے۔
جوش ملیح آبادی کا شمار ان ماہرِ فن شعرا میں ہوتا تھا جنہیں زبان و بیان کی صحت پر مکمل دسترس حاصل تھی اور جن کا فرمایا ہوا ایک ایک لفظ مستند سمجھا جاتا تھا۔ ایک بار جگن ناتھ آزاد اُن کی مجلس میں آئے اور بعد تسلیم انہوں نے دریافت کیا کہ ’’آپ کے مزاج بخیر ہیں؟‘‘ مجلس کے اختتام پر جگن ناتھ آزاد نے جوشؔ صاحب سے ان کی مہارت زبان کا اعتراف کرتے ہوئے التماس کیا کہ اگر وہ کوئی غلطی ان کی زبان میں دیکھیں تو بے تکلف آگاہ کردیا کریں۔ جوش صاحب نے جواب دیا کہ ’’میاں یہ بات لوگ کہہ تو یتے ہیں لیکن ٹوکنے پر برا بھی مانتے ہیں۔‘‘ جگن ناتھ آزاد نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ہرگز برا نہیں مانیں گے بلکہ شکر گزار ہوں گے۔ تب جوش صاحب نے کہا کہ دیکھئے ابھی آپ نے آتے ہی پوچھا تھا۔ مزاج بخیر ہیں؟ یہ لفظ مزاج اگرچہ بہت سی چیزوں کا مجموعہ ہے لیکن اس کا منفرد استعمال ہی درست ہے۔ یوں پوچھنا چاہئے تھا آپ کا مزاج بخیر ہے؟ اس واقعہ کے بہت دنوں کے بعد جگن ناتھ آزاد پھر جوش صاحب کے یہاں بیٹھے ہوئے تھے کہ پروفیسر آل احمد سرور تشریف لائے اور آتے ہی انہوں نے جوش صاحب سے سوال کیا۔ ’’آپ کے مزاج بخیر ہیں؟‘‘ بعد میں جب پروفیسر آل احمد سرور گفتگو کرنے کے بعد واپس چلے گئے، جگن ناتھ آزاد نے جوش سے کہا ’’دیکھئے یہ اتنے بڑے پروفیسر ہیں اور یہ بھی ’مزاج بخیر ہیں‘ بولتے ہیں۔‘‘ جوش نے ہنس کر کہا کہ میاں آج کل اردو کے پروفیسروں کو اردو کہاںآتی ہے۔ یہ قصہ خود جگن ناتھ آزاد نے اپنے مضمون میں لکھا تھا جو ’’ہماری زبان‘‘ دہلی میں شائع ہوا تھا۔ جوش کے مقام و مرتبہ سے ہر شخص واقف ہے اور زبان کے معاملہ میں انہیں سند کا درجہ حاصل ہے۔ اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے، خود انہیں بھی اپنی زبان دانی پر فخر تھا، لیکن خدائی انتظام یہ ہے کہ فوق کل ذی علم علیم ہر جاننے والے سے بڑھ کر کوئی دوسرا جاننے والا بھی ہوتا ہے۔ اس لئے اب ایک دوسرا واقعہ سن لیجئے:
سید مسعود حسین ادیب مرحوم مشہور ادیب اور زبان داں تھے۔ لفظوں کے بالکل درست مفہوم اور ان کے دروبست پر ان کی نظر بہت گہری تھی۔ کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان لکھتے تھے۔ ڈاکٹر محمد حسن نے اپنے ایک مضمون میں ان کا واقعہ لکھا ہے کہ جوش ملیح آبادی نے اپنی ایک مشہور نظم پڑھی جس کا ٹیپ کا مصرع تھا:
رواں دواں بڑھے چلو، رواں دواں بڑھے چلو
جوش کو کلام پر خوب خوب داد مل رہی تھی۔ جلسے کے بعد مسعود صاحب نے بڑی شائستگی سے جوش سے کہا۔ ’’جوش صاحب آپ جب یہ نظم شائع کریں تو یہ نوٹ ضرور دے دیں کہ ’رواں دواں‘ کا لفظ لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، محاورے کے اعتبار سے نہیں۔‘‘ جوش صاحب چوکنا ہوگئے اور پوچھا کہ محاورہ کے اعتبار سے اس کا کیا مفہوم ہے؟ مسعود صاحب نے بتایا کہ رواں دواں کا محاورہ کے اعتبار سے وہ مفہوم ہے جو صفی لکھنوی نے یتیموں کے بارے میں اپنی نظم میں ادا کیا ہے:
’’رواں دواں ہیں، غریب الدیار ہیں ہم لوگ‘‘
رواں دواں یعنی مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگ۔ جوش صاحب لفظوں کے اسرار و رموز سے آگاہ تھے پھر بھی ایک غلطی ان سے سرزد ہو ہی گئی ۔ محاورے کے اعتبار سے ان کے مصرع کا مطلب یہ ہوگیا کہ ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگوں کی طرح بس چلتے رہو۔‘‘
زبان و بیان کو غلطیوں سے پاک رکھنے کے لئے زبان و بیان کے ماہرین کی تحریریں پڑھنے، کلاسیکی شاعری کا مسلسل مطالعہ کرنے اور ہوسکے تو اہل زبان کی مجلسوں میں بیٹھنے اور ان کی گفتگو سننے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ اس کے بغیر زبان کا مزاج آشنا بننا اور گفتگو اور تحریر کو غلطی سے منزہ رکھنا ممکن نہیں ہوتا ہے۔ چونکہ اس ماحول میں نئی نسل کی پرورش نہیں ہوئی ہے اس لئے تذکیر و تانیث اور محاورے کی غلطیاں وبائی امراض کی طرح عام ہوتی جارہی ہیں۔ اب باذوق لوگ بھی گھروں میں بچوں کو زبان کی غلطیوں پر ٹوکتے نہیں ہیں۔ حالانکہ زبان کی خرابی بھی ایک طرح کی بیماری ہے اور اس کے علاج کی فکر ہونی چاہئے۔ محاورے کی غلطیوں کی چند مثالیں دیکھئے:
ایک لکھنے والے نے ایک صاحب کے علمی ذوق کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’’بوڑھے ہوچکے ہیں، بیمار رہتے ہیں پھر بھی روزانہ لائبریری جاتے ہیں۔ سچ ہے چور چوری سے جائے ہیرا پھیری سے نہ جائے۔‘‘ لکھنے والے کو احساس نہیں ہوا کہ چور والا محاورہ ذم کے لئے آتا ہے، تعریف کے لئے نہیں آتا۔ اسی طرح سے ایک صاحب نے اپنے پڑوسی سے کہا کہ ’’آپ اپنی گاڑی مجھے دیجئے۔ میں اس پر اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ زبان سے بے خبری کی وجہ سے انہیں جملہ میں بے احترامی کے مخفی مفہوم کا اندازہ نہیں ہوسکا۔ چنانچہ غیر شعوری طور پر زبان کی بے سلیقگی پیدا ہوگئی۔ اسی طرح سے لوگ بولتے ہیں ’’میں فلاں صاحب کو اسٹیشن چھوڑنے جارہا ہوں‘‘ گویا مہمان نہ ہوا بلّی ہوئی جسے لوگ بند کرکے دور اس غرض سے چھوڑتے ہیں تاکہ وہ واپس نہ آسکے۔ یہ بھی نہیں کہنا چاہئے کہ میں بچے کو اسکول چھوڑنے جارہا ہوں۔ چھوڑنے کے بجائے پہنچانے کا لفظ مناسب ہے۔ اسی طرح یہ جملہ بھی درست نہیں کہ شہر میں تبلیغی جماعت کا اجتماع ہونے جارہا ہے۔ یہ کہنا چاہئے کہ تبلیغی جماعت کا اجتماع ہونے والا ہے یا ہوگا۔ ’’ہونے جارہا ہے‘‘ انگریزی کا لفظی ترجمہ ہے اور اردو زبان کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ ایک صاحب میرؔ سے ملنے آئے اور کہا کہ آپ کو زحمت دینے کی معافی مانگتا ہوں۔ انہیں کہنا چاہئے تھا معافی چاہتاہوں۔ میرؔ صاحب تُنک مزاج تھے اور غلط زبان نہیں سن سکتے تھے۔ انہوں نے غصہ میں کہا ’’بھیک مانگو بھیک، معافی کیا مانگتے ہو۔‘‘ ایک صاحب نے مضمون میں لکھا تھا ’’ایک بے نام سی کسک اس کے سینہ میں ٹیس مارتی تھی۔‘‘ یہاں بھی محاورہ کی غلطی ہے ’’ٹیس اٹھنا‘‘ محاورہ ہے نہ کہ ٹیس مارنا۔ بہت سے لوگ حیدرآباد میں بولتے ہیں ’’میں نے بی اے کا امتحان کامیاب کرلیا۔‘‘ یہ غلط ہے۔ صحیح محاورہ امتحان میں کامیاب ہونا ہے نہ کہ کامیاب کرنا۔ بہار میں بہت سے لوگ اس طرح بولتے ہیں میں مکہ سے مدینہ گیا (کاف اور نون پر زبر کے ساتھ) حالانکہ امالے کے ساتھ پڑھنا چاہئے صحیح یہ ہوگا میں مکے سے مدینے گیا۔ میں پٹنے سے آرہا ہوں نہ کہ پٹنہ سے آرہا ہوں۔ دلیل کے طور پر داغ دہلوی کا یہ شعر ہے:
کسی کا مجھ کو نہ محتاج رکھ زمانے میں
کمی ہے کون سی یارب ترے خزانے میں
شعر میں زمانہ اور خزانہ نہیں پڑھا جائے گا۔ بہت سے لوگ استفادہ حاصل کرنا بولتے ہیں۔ استفادہ باب استفعال سے ہے اور اس میں حصول کا مفہوم داخل ہے اس لئے کہنا چاہئے میں نے استفادہ کیا۔ کچھ لوگ بولتے ہیں میں نے یہ کام کرا۔ حالانکہ کہنا چاہئے میں نے یہ کام کیا۔
قاعدہ ہے کہ دو مختلف زبانوں کے لفظوں کے درمیان اضافی ترکیب درست نہیں ہے۔ اس لئے ’’لبِ سڑک‘‘ درست نہیں ہے۔ اسے اگر درست قرار دیا جائے گا تو فوق البھڑک اور کثیر المہک بھی درست ہوگا۔ پھر تو کوئی یوں بھی لکھ سکتا ہے کہ ’’لبِ گھڑا ایک ٹکڑائے نان رکھا ہوا تھا جسے دیکھ کر لبِ چوہے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔‘‘ یاد رکھنا چاہئے کہ خورشید الاسلام، اختر الایمان اور اختر واسع یہ سارے نام قاعدے کے اعتبار سے غلط ہیں کیونکہ ان میں دو زبانوں کے لفظوں کے درمیان اضافی ترکیب ہے۔ تمام اردو اخبارات میں مرنے والے کے لئے مہلوک کا لفظ عام ہوگیا ہے۔ اہل ادب اور اہل زبان کو یہ لفظ نہیں استعمال کرنا چاہئے اور آج تک کسی مستند ادیب اور صاحب قلم نے استعمال نہیں کیا ہے۔ فعل ’’ھلک‘‘ لازم ہے نہ کہ متعدی۔ اس لئے مرنے والا ہالک ہے۔ قرآن میں آیا ہے اللہ کی ذات کے سوا ہر شئے ’’ہالک‘‘ ہے، لیکن ہالک کا استعمال اردو میں نہیں ہے اس لئے فارسی ترکیب ہلاک شدگان یا کوئی اور مناسب لفظ استعمال کرنا چاہئے۔ زبان کے قاعدوں سے ناواقفیت کی وجہ سے بہت سے لوگ ’’ناراضگی‘‘ کا لفظ بولتے اور لکھتے ہیں۔ صحیح لفظ ناراضی ہے جو حاصل مصدر ہے ناراض کا۔ ’’گی‘‘ کے ساتھ حاصل مصدر وہاں بنے گا جہاں آخر میں ہائے مختفی آتی ہو جیسے زندہ سے زندگی، بندہ سے بندگی وغیرہ۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعہ بھی بعض غلطیاں پھیلائی گئی ہیں۔ ’’آئیے پروگرام کی شروعات کرتے ہیں‘‘ اور ’’ٹرین الٹ گئی اور پچاس آدمی مارے گئے۔‘‘ یہ دونوں جملے غلط ہیں۔ ہونا چاہئے ’’پروگرام شروع کرتے ہیں اور پچاس آدمی مرے یا مرگئے۔‘‘ اسی طرح سے مرغن، مچرب اور رہائش کے الفاظ بھی غلط ہیں۔ روغن عربی زبان کا لفظ نہیں اس لئے باب تفعیل سے اس کا اسم مفعول محمد کے وزن پر مرغن اور اسی طرح چربی سے مچرب بنانا درست نہیں ہے۔ ’’رہنا‘‘ اردو کا مصدر ہے اس لئے فارسی کے حاصل مصدر آسائش اور آرائش کے وزن پر رہائش کا استعمال درست نہیں ہوگا۔ ایک معروف معاصر ادیب اور محقق نے ساڑھے آٹھ سو صفحہ کے ناول میں جو ابھی حال میں شائع ہوا ہے کئی جگہ ’’کواغز‘‘ کا لفظ کاغذ کی جمع کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کاغذ عربی کا لفظ نہیں۔ اس لئے مفاعل کے وزن پر جو عربی جمع کا وزن ہے کواغز کہنا درست نہیں ہوگا۔ مساجد مسجد کی جمع بالکل درست ہے لیکن ’’منادر‘ مندر کی جمع درست نہیں۔ زبان کی صحت کے بارے میں یہ دلیل درست نہیں کہ لوگ بولتے ہیں۔ دلیل قواعد سے دینی چاہئے یا قابل اعتبار لغت کی کتاب سے یا مستند شاعر و ادیب کے کلام سے۔ عوام کی غلطی کو فصیح قرار دینا زبان و ادب کی دنیا میں جنگل کا راج قائم کرنا ہے اور انار کی پھیلانا ہے۔
غلطی ہائے مضامین کا سلسلہ بہت دراز ہے۔ تمام غلطیوں کی نشان دہی ممکن ہی نہیں۔ صرف ایک ایسی غلطی پر یہ مضمون ختم ہوجاتا ہے جو پورے ملک میں عام ہوچکی ہے۔ عوام تو عوام ہیں اب خواص بھی کثرت سے لفظ اللہ کو جس کے ساتھ توحید کا عقیدہ وابستہ ہے بطور جمع استعمال کرنے لگے ہیں۔ واعظین شیوا بیان اور مبلغین کرام مسجدوں میں اور تبلیغی اجتماعات میں تقریروں میں پرسوز لہجہ کہتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘ شان توحید یہ ہے کہ کہا جائے ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔‘‘ وہ علما جن کی زبان سند کا درجہ رکھتی ہے جیسے مولانا آزاد، علامہ شبلی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا عبدالماجد دریابادی، ابوالاعلیٰ مودودی، ابوالحسن علی ندوی اور جتنے بھی اردو زبان کے بڑے ادیب اور شاعر گزرے ہیں ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک لفظ اللہ کو صیغہ جمع میں استعمال نہیں کیا ہے۔ جواب میں یہ نہ کہا جائے کہ غایت احترام میں ’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں‘‘ کہا جاتا ہے۔ کیا زبان کے ماہرین مذکور بالا علما اللہ کا احترام نہیں جانتے تھے۔ جن علما کو زبان کی صحت سے کوئی غرض نہیں اور جنہیں ادب سے سروکار نہیں، جن کی اردو مستند نہیں، ان کا نام سند اور دلیل کے طور پر نہیں لانا چاہئے۔
زبان وادب کا مناسب ذوق پیدا کرنے کے لئے ادبا اور شعرا کا کلام پڑھنا چاہئے۔ اسی کے ساتھ تھوڑی سی عربی زبان سے اور تھوڑی سی فارسی سے واقفیت ضروری ہے۔ اردو زبان کی چاشنی، شیرینی اور اس کے رنگ و روغن کی حفاظت کے لئے عربی اور فارسی کا علم بھی ضروری ہے۔ تمام اسکولوں میں اردو کے ساتھ عربی یا فارسی کا بھی ایک اختیاری مضمون ہونا چاہئے۔ عربی اور فارسی سے ناواقفیت کی وجہ سے کبھی کبھی فاش غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں۔ ایک ادیب، ادیب کی جمع اَدِبّا پڑھا کرتے تھے۔ الف پر زبر دال کے نیچے زیر اور ب پر تشدید اور زبر کے ساتھ اور کہتے تھے طبیب کی جمع اَطِبّاء ہے اسی وزن پر ادیب کی جمع اَدِبّاء ہے۔ ایسی غلطی عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ جو لوگ ادیب کی جمع صحیح استعمال کرتے ہیں وہ بھی عربی نہ جاننے کی وجہ سے اس سوال کاجواب نہیں دے سکتے ہیں کہ جب طبیب اور ادیب ہم وزن ہیں تو دونوں کی جمع ہم وزن کیوں نہیں ہے۔ ایک صاحب نامور (طاقتور کی طرح) کو نامور کافور کے وزن پر پڑھتے تھے اور ایک صاحب گل بداماں کا مطلب بتا رہے تھے بادام کا پھول۔ یہ غلطیاں فارسی سے نابلد رہنے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ تھوڑی سی عربی اور تھوڑی سی فارسی سیکھ لینے سے اردو تحریر میں خوبصورتی اور شگفتگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اردو زبان کی باریکیوں کو سمجھنے اور اس کا مزاج آشنا بننے کے لئے ریاضت و مزاولت کی ضرورت ہے۔ نثر و شعر کے اچھے نمونے جب تک نظر نہیں گزریں گے مذاق سخن کیسے پیدا ہوگا۔ افسوس کہ دینی مدارس میں جو ہزاروں کی تعداد میں اس ملک میں ہیں باستثناء چند اردو زبان و ادب سے بے توجہی برتی جاتی ہے اور یہ فرض کرلیا جاتا ہے کہ ہمیں اردو آتی ہے۔ اسکولوں اور کالجوں کے طلبا اور یونیورسٹی کے پروردہ گورا شاہی اردو بولنے لگے ہیں جیسے ’’مجھے آفٹرنون میں جوبلی ہال جاتا ہے وہاں تھری او کلاک کو پروگرام اسٹارٹ ہوجائے گا‘‘ اردو کے ساتھ اس ظلم و جفا سے اس کا جسم لہولہان ہے۔ وہ شاخ جو کبھی شاخ نہال تھی، جس پر نواسنجان گلشن کا بسیرا تھا، شاخ بریدہ بن گئی ہے۔ اس کی شادابی ختم ہوچکی ہے۔ زبان کے بارے میں اس قدر لاپروائی اور بے توجہی سے زبان کیسے آئے گی۔
نہیں کھیل اے داغ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے
اویل کش فوق العاده عالی و
با کیفیت تولید شده توسط نوربرت پرفورمنس البته توجه
داشته باشید اویل کش با نام مخزن روغن نیز شناخته میشود
My developer is trying to persuade me to move to .net from PHP.
I have always disliked the idea because of the costs. But he’s
tryiong none the less. I’ve been using Movable-type on numerous websites for about a year and am nervous about switching to another platform.
I have heard excellent things about blogengine.net. Is
there a way I can import all my wordpress posts into it?
Any kind of help would be really appreciated!