غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“

عبد الرحمان بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں وید مقدس اور دیوان غالب ۔“

اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انھوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انھوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔

غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس میں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کے انھیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری میں ان سب کا اظہار و ابلاغ ہوا ہے۔ وہ بھی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔

غالب کی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کی سی کیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کے اظہار و ابلاغ میں بھی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔

استدلالی انداز بیان

غالب کی شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ان کا منطقی اور استدلالی انداز بیان ہے بقول پروفیسر اسلوب احمد انصاری: ”یعنی غالب صرف جذبات کا تجزیہ ہی نہیں کرتے بلکہ ان میں باہمی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ محبت ان کے لیے کوئی ایسا جذبہ نہیں جو فطری طریقے سے دلکش محاکات میں ڈھل جائے۔ بلکہ یہ ایک گرم تیز رو ہے جو پوری شخصیت کے اندر انقلاب پیدا کردیتی ہے۔ غالب صرف اشاروں سے کام نہیں لیتے بلکہ اپنے نرم و لطیف، احساسات و کیفیات کا تجزیہ کرتے اور ان پر استدلال کرتے ہیں۔“

غالب کے اس اندازِبیان کو سمجھنے کے لیے یہ اشعار ملاحظہ ہوں کہ استدلال کا یہ انداز کس طرح شاعر کے جذبات و احساسات کی معنویت میں اضافہ کرتا ہے۔

”      ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کو پر خار دیکھ کر

جب توقع ہی اٹھ گئی غالب

کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا

جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرار ہوتا

       “

قولِ محال کا استعمال

غالب نے قولِ محال کے استعمال سے بھی اپنی شاعری میں حسن و خوبی پیدا کی ہے۔ قول محال سے مراد یہ ہے کہ کسی حقیقت کا اظہار اس طرح کیا جائے کہ بظاہر مفہوم عام رائے کے اُلٹ معلوم ہو مگر غور کریں تو صحیح مفہوم واضح ہو۔ قول محال دراصل ایک طرف ذہنی ریاضت ہے۔ اس سے ایک طرف اگر شاعر کی قوت ِفکر کا انحصار ہوتا ہے تو دوسر ی طرف قار ی کو بھی ذہن و دماغ پر زور دینا پڑتا ہے۔ اس سے شاعر لطیف حقائق کی طرف اشارہ ہی نہیں کرتا بلکہ حیرت و استعجاب کی خوبصورت کیفیات بھی پیدا کرتا ہے۔ اس سلسلے میں غالب کے اشعار دیکھیں:

”      ملنا تیر اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

       “

تشکک پسندی

غالب کی شاعری میں تشکک پسندی کا پہلو بہت اہم ہے۔ جو بحیثیتِ مجموعی غالب کی شاعری کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ اس کی ایک وجہ غالب کا فلسفیانہ مزاج ہے۔ جبکہ دوسری وجہ غالب کا ماحول ہے۔ غالب نے جس دَور میں آنکھ کھولی وہ ایک ہنگامی دور تھا۔ ایک طرف پرانی تہذیب مٹ رہی تھی اور اس کی جگہ جدید تہذیب اور تعلیم اپنی جڑیں مضبوط کر رہی تھی۔ یوں انتشار اور آویزش کے اس دور میں اُن کی تشکک پسندی کو مزید تقویت ملی۔

”      ہیں آج کیو ں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

زندگی اپنی جب اس شکل سے گذری غالب

ہم بھی کیا یاد کر یں گے کہ خدا رکھتے تھے

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب خیال اچھاہے

       “

معانی دار پہلو

حالی نے بڑے زور و شور کے ساتھ غالب کی شاعری کی اس خصوصیت کا ذکر کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ اس میں معانی کی مختلف سطحیں موجود ہیں۔ غالب کے بہت سے اشعار ایسے ہیں۔ جن کی فلسفیانہ ،سیاسی اور شخصی تفسیر ہم کر بیک وقت کر سکتے ہیں۔ ایسے اشعار ان ترشے ہوئے ہیروں کی مانند ہیں جن کی آب وتاب اور خیرگی سے ہر زاویہ نگاہ سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج تک غالب کی کئی شرحیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں۔

ابن مریم ہوا کرے کوئی

میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

اُگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالب

ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے

رمز و ایمائیت

غالب نے اپنی شاعری میں رمز و ایمائیت سے بھی حسن پیدا کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کی بڑی بڑی حقیقتوں اور گہرے مطالب کو رمز و ایما کے پیرائے میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے اردو غزل کی روایت میں تصوف نے جو رمز و ایمائیت پیدا کی اسے اپنے لیے شمع راہ بنایا۔ یوں انھوں نے سیاسی او ر تہذیبی، معاشرتی موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور انفرادی رنگ کے پردے میں اجتماعی تجربات کی ترجمانی کی۔ اس طرح سے رمزیت اور ایمائیت کا رنگ ان کی شاعری پر غالب نظرآتا ہے۔

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر

کچھ تو پیغام زبانی اور ہے

عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب

دل کاکیا رنگ کروں خون جگر ہونے تک

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں

میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

لطافت خیال اور نکتہ آفرینی

غالب کی شاعری میں نکتہ آفرینی پائی جاتی ہے غالب عام روش سے ہٹ کر چلنا پسند کرتے تھے۔ شاعری میں بھی الگ روش پر چلنا پسند کرتے تھے۔ انھوں نے لفظی سے زیادہ معنو ی نکتہ آفرینی پر زور دیا۔ اس طرح وہ مومن سے ممتاز اور برتر ہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی سلاست، گہرائی اور معنویت سے پر ہے۔ اس میدان میں غالب نے نمایاں کامیابی حاصل کی ہے اس کی وضاحت اُن کے درج ذیل اشعار سے ہوتی ہے۔

بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیر پا

موئے آتش دیدہ ہے حلقہ میری زنجیر کا

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے

بہت نکلے میرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

زندگی کی محرومیاں

غالب کی ذاتی بھی تلخیوں اور محرمیوں کی زنجیر ہے۔ بچپن میں باپ کی موت، چچا کی پرورش، اُن کی شفقت سے محرومی، تیرہ سال کی ناپختہ عمر میں شادی کا بندھن، بیوی کے مزاج کا شدید اختلاف ،قرضوں کا بوجھ۔ ان سب نے غالب کو زمانے کی قدرشناسی کا شاکی بنا دیا۔ چنانچہ ان محرومیوں کی تصویر بھی ان کی شاعری میں نمایاں خصوصیت کی حامل ہے۔

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسد

ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

زندگی اپنی جب اس شکل سے گذری غالب

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

کوئی دن گر زندگانی اور ہے

اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

زندگی کا حقیقت پسندانہ تصور

ان تمام تر محرمیوں کے باوجود غالب کا اندازِ فکر قنوطی نہیں۔ چنانچہ قدم قدم پر ان کے ہاں یہ احساس ہوتا ہے کہ زندگی خوشی کے ساتھ گذرے یا غموں کی گود میں بہرحال قابلِ قدر ہے۔ خود زندگی کا ہونا ہی بجائے خود ایک بڑی نعمت ہے ا س لیے ہر حال میں اسے غنیمت تصور کرنا چاہیے۔ اس کا اعتراف غالب نے اپنے بعض خطوط میں بھی کیا ہے۔ غم سے بچنے کی غالب نے ایک صورت یہ بھی نکالی ہے کہ آدمی رند مشربی اور آزادی اختیار کر لے اور لذت و الم دونوں سے بے نیاز ہو جائے۔

نغمہ ہائے غم کو بھی اے دل غنیمت جانیے

بے صدا ہو جائے گا یہ ساز ہستی ایک دن

قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق

نوحہ غم ہی سہی نغمہ شادی نہ سہی

طنز و مزاح شوخی وظرافت

شوخی و ظرافت غالب کی شخصیت کا خاصہ ہے۔ عملی زندگی میں وہ خوش باش انسان تھے۔ اسی لیے حالی انھیں حیوان ِ ظریف کہتے ہیں۔ انتہائی کٹھن حالات میں بھی وہ زندہ دلی کا دامن نہیں چھوڑتے۔ انھیں زمانے نے نجانے کتنے دکھ دیے لیکن غالب پھر بھی ہنسے جاتے ہیں۔ ان کی ظرافت میں محض شوخی ہی کام نہیں کر رہی ،جس طرح غالب کی شخصیت پہلو دار شخصیت ہے اسی طرح غالب کی ظرافت کی بھی متعدد سطحیں ہیں۔ ان کی شاعری میں طنز و طرافت کے اعلی نمونے ملتے ہیں۔ غالب کے کچھ طنزیہ اشعار ملاحظہ ہوں:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے خوش رکھنے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی

بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

چاہتے ہیں خوب رویوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے

جانتا ہوں ثواب طاعت وزہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

زندہ دلی اور خوش طبعی

غالب کی شاعر ی میں طنز یہ اشعار کے ساتھ ساتھ شوخی اور خوشدلی کا پہلو بھی بڑا نمایاں ہے۔ چنانچہ ان کے ہاں ایسے اشعار بھی بہت ہیں جنہیں خالص مزاح کا نمونہ کہا جا سکتا ہے۔ اصل میں غالب زندگی کی چھوٹی چھوٹی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے تھے۔ اگرچہ وہ زندگی کی تلخیوں سے آگاہہیں لیکن انھیں زندگی سے والہانہ لگائو بھی ہے۔ غالب ایک فلسفی شاعر تھے۔ انھوں نے زندگی کو سمجھنے کی کوشش کی اور پھر اپنے انکشافات کو ہلکے پھلکے انداز میں پیش کر دیا۔ غالب کے کچھ مزاح سے پھرپور اشعار ملاحظہ ہوں:

در پہ رہنے کو کہا اور کہہ کے کیسا پھر گیا

جتنے عرصے میں مرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کہاں مے خانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ

پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

پیکر تراشی اور تصویر کاری:۔

غالب کی شاعری میں پیکر تراشی کا عمل جاندار ہے۔ اور بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی، ”غالب کی شاعری میں جو پیکر اور تصویریں ملتی ہیں۔ وہ ان کے ساسی معاشرتی، تہذیبی حالات، نجی معاملات اور ان کے زیر اثر پرورش پانے والی ذہنی کیفیات کا آئینہ دار ہیں۔ غالب ایک تہذیب کی پیداوار اور ایک تہذیبی روایت کے علمبردار ہیں۔ ۔۔ اگرچہ یہ تہذیب مٹ رہی تھی لیکن زوال کے احساس نے اس کی عظمت کے احساس کو بھی بڑھا دیا۔ چنانچہ غالب کی تصویر کاری اور پیکر تراشی میں بھی اس تہذیبی روایت کا اثر مختلف انداز میں خود بخود ظاہر ہوتا ہے۔ اس دور کی بزم ہائے نشاط کی تصویریں غالب کے ہاں بہت خوبصورت اور جاندار ہیں:

ہم سے کھل جاؤ بوقت مے پرستی ایک دن

ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عذر ِ مستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آگیا

سب لکیریں ہاتھ کی گویا رگ جاں ہوگئیں

فارسی زبان کے اثرات

غالب کو فارسی زبان پر بڑا عبور حاصل تھا۔ اس لیے ان کی شاعری میں فارسی زبان کے اثرات زیادہ ہیں۔ خود فارسی شاعری کے بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ اور فارسی کو اردو سے زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ چنانچہ فارسی زبان کے اثر سے ان کی زبان میں شیرینی حلاوت اور شگفتگی کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔ انھوں نے فارسی الفاظ استعمال کرکے اور ان کی ترکیبیں تراش کر نہ صرف اردو زبان کے دامن کو وسیع کیا بلکہ اپنی شاعری میں بھی ایک نکھار اور رعنائی پیدا کر لی۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

یا د تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں

لیکن اب نقش و نگار ِ طاق نسیاں ہوگئیں

بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی

یہ جو اک لذت ہماری سعی لاحاصل میں ہے

سادہ انداز بیان

مشکل الفا ظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ غالب کے ہاں آسان زبان بھی موجود ہے۔ غالب نے پیچیدہ مسائل کے اظہار میں عموماً فارسی ترکیبوں سے کام لیا ہے اور سنجیدہ مضامین کے لیے الفاظ کا انتخاب بھی اسی مناسبت سے کیا ہے۔ لیکن سیدھے سادے اور ہلکے پھلکے مضامین کو غالب نے فارسی کا سہار ا لیے بغیر رواں دواں اور سلیس اردو میں پیش کیا ہے۔ زبان کی سادگی ان اشعار کی معنوی قدرو قیمت پر کوئی بڑا اثر نہیں ڈالتی بلکہ ان کے حسن میں اضافہ کرتی ہے۔ کیونکہ یہ سادگی شعری تجربے سے ہم آہنگ ہے۔ اس سلسلے میں یہ اشعار ملاحظہ ہوں:

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالب

مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

موت کا ایک دن معین ہے

نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب

کس کے گھر جائے گا سیلاب ِ بلا میر ے بعد

فارسی اور اردو کا حسین امتزاج

غالب نے فارسی اور اردوکے امتزاج سے بھی اپنے فن کو نکھارا ہے۔ غالب نے فارسی کی شیرینی کو ہندی کی گھلاوٹ سے اس طرح ملا دیا ہے کہ ان کی زبان میں ایک گنگا جمنی رنگ پیدا ہو گیا ہے۔ غالب کے ایسے کلام میں فارسی اثرات زیادہ ہیں۔ جہاں زندگی کے رنگین پہلوئوں کا بیان آیا ہے۔ انھوں نے رومانوی مضامین کے لیے خصوصاً فارسی کی آمیزش کی ہے لیکن فارسی اور ہندی روایتوں کا ملاپ ان کے ایسے اشعار میں نسبتاً زیادہ ہے جہاں انھوں نے قلبی واردات کو پیش کیا ہے اس لیے ایسے اشعار میں ایک گداز کی کیفیت ملتی ہے۔

آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

صوتی آہنگ

غالب کی شاعری میں صوتی آہنگ بھی قابل تعریف ہے۔ انھوں نے الفاظ کے انتخاب میں بڑی فنکاری کا ثبوت دیا ہے۔ اور ان سے وہ موسیقیت اور نغمگی پیدا کی ہے جو پڑھنے والے کومسحور کر دیتی ہے۔ غالب مختلف الفاظ کو ملا کر ایک مترنم کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ وہ منفر د الفاظ کی نغمگی اور موسیقیت کا بھی گہرا شعور رکھتے ہیں اور انھوں نے تجربات کے اظہار کے لیے موضوع کی مناسبت سے ان الفاظ کے انتخاب میں بھی بڑے فن کارانہ شعور کا اظہار کیا ہے۔

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا

اسے تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے

غم عشق گر نہ ہوتا غم روز گار ہوتا

ہم کہاں کے دانا تھے کس ہنر میں یکتا تھے

بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا

تشبیہ و استعارہ کا حسن

غالب کی شاعری کی ایک اور اہم خصوصیت خوبصورت تشبیہات و استعارات کا استعمال ہے۔ مرزا اپنی انفرادیت پسند طبع کے تحت قدیم روایتی استعارات کی بجائے جدید اور دلکش تشبیہات استعمال کرتے ہیں۔ مولانا حالی نے اس کی وجہ اُن کے خیالات کی جدت قرار دیا ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ جب خیال جدید اور اچھوتا ہوگا تو اس کے لیے تشبیہ میں بھی لازمی جدت ہوگی۔ اسی طرح شیخ اکرام نے ان کو ”تشبے ہات کا بادشاہ “ قرار دیا ہے۔ مثلاً

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز

پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

سبزہ خط سے ترا کاکل ِ سرکش نہ دبا

یہ زمرد بھی حریف ِ دم افعی نہ ہوا

دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ

دیکھیں کیا گذرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

جوئے خون آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق

مین يہ سمجھوں گا کہ شمعين دو فروزاں ہو گئیں

جدت ادا

غالب ذہنی اور طبعی اعتبار سے انفرادیت پسند تھے۔ کسی کی تقلید کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ وبائے عام میں بھی مرنا نہیں چاہتے تھے۔ غالب کی یہی جدت ادا ان کی شاعری میں نئے نئے گھل کھلاتی ہے۔ مرزا سے پہلے تمام شعراءکا طریقہ شعر گوئی یہ رہا کہ وہ قدیم خیالات میں کچھ ترمیم کرکے پیش کر دیتے تھے۔ لیکن غالب کے ہاں ایسا نہیں۔ اُن کی جدت طبع اور انفرادیت پسندی ہمیشہ نئے نئے خیال ڈھونڈ نے پر مجبور کرتی رہی۔ چنانچہ اُن کی شاعری میں ہمیں رنگا رنگی اور بوقلمونی محسوس ہوتی ہے۔ اگر کبھی مرزا نے کسی قدیم خیال کو ادا بھی کیا ہے تو اس انداز میں کہ شانِ استادی کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے

دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد

یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

بسکہ دشوار ہے ہرکام کا آساں ہونا

آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

تصوف

غالب کوئی باقاعدہ صوفی شاعر نہ تھے اور نہ اُن کو تصوف سے دلچسپی تھی لیکن پھر بھی ان کی شاعری میں بعض مقامات پر تصوف کے عناصر ملتے ہیں جس کی بنیادی وجہ فارسی شاعری میں تصوف کی روایت کی موجودگی ہے اس کے علاوہ اس دور کے حالات بھی تصوف کے لیے خاص طور پر سازگار تھے۔ طبیعتیں بھی غم و الم اور فرار کی طرف مائل تھیں۔ لیکن غالب نے تصوف کو محض رسمی طور پر ہی قبول کیا۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

اُسے کون دیکھ سکتا وہ یگانہ ہے وہ یکتا

جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیاہوتا

غالب کا تصور عشق

غالب کے ہاں حسن و عشق کے تصورات اگرچہ وہی ہیں جو صدیوں سے اردو اور فارسی شاعری میں اظہار پاتے رہے ہیں۔ تاہم غالب کی فطری جدت پسندی نے ان کو صرف انہی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے ذاتی تجربات و محسوسات کی روشنی میں حسن و عشق کے بارے میں انھوں نے اپنی انفرادیت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔

غالب عشق کی اہمیت کے اس قدر قائل ہیں کہ وہ اس کے بغیر انجمن ہستی کو بے رونق سمجھتے ہیں مثلاً وہ کہتے ہیں کہ

رونق ہستی ہے عشق خانہ ویراں ساز سے

انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

غالب کو اس بات کا بڑا قلق ہے کہ وہ عشق کی بزم آرائی تو عمر بھر کرتے رہے لیکن عشق کی راہ میں حقیقی قربانی ایک بھی نہ دے سکے اور وہ غالباً اس لیے کہ ان کے پاس عشق کے حضور میں پیش کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ فرماتے ہیں کہ

ہوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ

سوائے حسرت تعمیرگھر میں خاک نہیں

غالب عشق کے پرانے افلاطونی تصور کو بھی تسلیم نہیں کرتے۔ بلکہ اس کے برخلاف ان کا عشق زمینی اوصاف کا حامل ہے۔

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار

کیا پوجتا ہوں اس بت بیداد گر کو میں

غالب کے ہاں عشق کی روایتی عاجزی اور مسکینی کے برخلاف ایک جارحانہ انداز پایا جاتا ہے۔ ایک خاص مقام اور مخصوص شان ہے۔ وہ سوتے ہوئے محبوب کے پاؤں کا بوسہ محض اس لیے نہیں لیتے کہ وہ بدگماں نہ ہو جائے۔ وہ ناراض محبوب کو مناتے بھی نہیں کہ یوں ان کی سبک سری کا پہلو نکل سکتا ہے۔ وہ بزم میں نہیں بلاتا تو یہ راہ میں نہیں ملتے اور جب وہ عجز و نیاز سے راہ پر نہیں آتے تو اس کے دامن کو حریفانہ کھینچنے کی جرات رندانہ بھی کر لیتے ہیں۔

لے تو لوں سوتے میں اُس کے پاؤں کا بوسہ مگر

ایسی باتوں سے وہ کافر بدگماں ہو جائے گا

عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر

دامن کو اس کے آج حریفانہ کھنچئے

غالب کا تصور حسن یا تصور محبوب

حسن کے بارے میں غالب کے تصورات کا سراغ لگانے کے لیے اُن کے محبوب کی تصویر دیکھنا ہوگی اس لیے کہ ان کے محبوب کی ذات میں وہ تمام خصوصیات جمع ہوگئیں ہیں۔ ایک طرف تو غالب نے روایتی تصوارت سے استفادہ کیا ہے۔ اور دوسری جانب بعض ایسی باتیں کہی ہیں جو قدیم تصورات سے مختلف ہیں۔ ان کے خیال میں حسن میں سادگی و پرکاری دونوں ہونے چاہئیں۔ غالب کو دراز قد، دراز زلف، شوخ و شنگ، سادہ و پرکار، شان محبوبی کا مالک، لمبی لمبی پلکوں والا۔ چاند چہرے کا مالک، ستارہ آنکھوں والا محبوب پسند ہے اور وہ اسی کے حسن کے قصیدے گاتے ہیں۔

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری

حسن کوتغافل میں جرا ت آزما پایا

اس نزاکت کا برا ہو وہ بھلے ہیں تو کیا

ہاتھ آئیں تو انھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

جال جیسے کڑی کمان کا تیر

دل میں ایسے کے جاکرے کوئی