جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کے تحت ایک علمی و ادبی شعبہ قائم کیا گیا۔ جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہے تھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی عبد الحق اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرح حیدرآباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔

انجمن کے زیر اہتمام ایک لاکھ سے زائد جدید علمی، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیا گیا نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دو سہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے۔ ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیا گیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔

1936ء میں انجمن کو دلی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور 1938ء میں انجمن مع مولوی عبد الحق دلی آ گئی۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں میں انجمن کے کتب خانے کی بیشتر کتابیں ضائع ہو گئیں۔ مولوی عبد الحق کراچی آ گئے اور اکتوبر 1948ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ سر شیخ عبدالقادر انجمن کے صدر اور مولوی عبد الحق سیکرٹری تھے۔ 1950ء میں مولوی عبد الحق صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں انجمن نے اردو کالج قائم کیا جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ مولوی عبد الحق کے انتقال (1961) کے بعد اختر حسین صدر اور جمیل الدین عالی اعزازی سیکرٹری بنائے گئے۔ انجمن کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ ابھی تک زندہ ہے۔

تاریخ

انجمنِ ترقّیٴ اُردو کی تاریخ برّصغیر پاک و ہند میں خلوص، لگن، جدّوجہد اور سعی و عمل کی تاریخ ہے۔ سرسیّد احمد خاں کے عہد میں مسلمان 1857ء کی ہزیمت سے سہمے ہوئے تھے۔ ہندوؤں کو بھاری اکثریت کے ساتھ ساتھ فرنگی حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل تھی۔ چناں چہ انھوں نے اس سے فائدہ اٹھاکر یہ آواز بلند کی کہ عدالتوں کی ساری کارروائی ہندی زبان میں ہونا چاہیے۔ اس نعرے نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی اور اس سلسلے میں قوّت اور اکثریت کے دباؤ دونوں سے کام لیاگیا۔ سرسیّد کو اس تحریک کے نقصان دہ اثرات کا اندازہ ہو گیا تھا۔ انھوں نے یہ صورتِ حال دیکھ کر اپنے آپ کو صرف مسلمانوں کے قومی کاموں کے لیے وقف کر لیا اور دو قومی نظریے کی ترویج و اشاعت کی۔ سرسیّد نے اپنی زندگی کے آخری لمحے تک بڑے زور و شور سے اردو زبان کی مدافعت جاری رکھی۔ اُن کے بعد اُن کے لائق جانشینوں نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے یہ خدمت انجام دی۔ سرسیّد نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقّی کے لیے ایک ادارہ ”مسلم ایجوکیشنل کانفرنس“ کے نام سے قائم کیا تھا۔ مسلم ایجوکیشنل کے سالانہ جلسے ہماری قومی اور تعلیمی تاریخ میں اہمیت کے حامل ہیں۔ ترقّیٴ اردو بھی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ایک مقصد تھا جس کے حوالے سے کام ہوتا رہتا تھا۔ مگر یہ بات شدّت کے ساتھ محسوس کی جا رہی تھی کہ ترقّیٴ اردو اور اردو کی مدافعت کے لیے ایک ہمہ جہت فعّال اور مستعد ادارے کی ضرورت ہے۔ 1903ء میں مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا سالانہ جلسہ دلّی میں منعقد ہوا۔ اس جلسے میں کانفرنس کے مختلف شعبے قائم کیے گئے۔ انھیں شعبوں میں ایک شعبہ ترقّیٴ اردو کا بھی تھا۔ یہی شعبہ’ انجمنِ ترقّیٴ اُردو‘کی بنیاد تھا۔

درج ذیل حضرات انجمن کے عہدے دار نامزدہوئے :

صدر پروفیسر ٹامس آرنلڈ (علی گڑھ کالج کے پرنسپل تھے، اس وقت جامعہ نہیں بنی تھی)

نائب صدر شمس العلماء مولوی نذیر احمد

نائب صدر شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالی

نائب صدر شمس العلماء مولوی ذکاء اللہ

سیکریٹری شمس العلماء مولانا محمد شبلی نعمانی

انجمن کا ابتدائی دور بڑی جدّوجہد اور کشمکش کا دور تھا۔ کسی ادارے کو کامیاب اور روایت ساز بنانے کے لیے غیر معمولی محنت کرنا پڑتی ہے۔ انجمن کے عہدے داروں نے بڑی محنت کی اور انجمن کو ایک حیثیت دی لیکن دو تین برسوں کے وقفے سے یکے بعد دیگرے تین سیکریٹری مقرر ہوئے اس وجہ سے کام کسی حد تک متاثر ہوا مولانا شبلی کو اپنی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہونا پڑا۔ نواب صدر یار جنگ نے اُن کا کام سنبھالا۔ وہ بھی اپنی دوسری انتظامی مصروفیات کی وجہ سے مستعفی ہو گئے۔ مولوی عزیز مرزا سیکریٹری مقرر ہوئے۔ وہ بہت فعّال اور کارگزار انسان تھے۔ بڑے ذوق و شوق اور محنت سے کام شروع کیا لیکن 1911ء میں اُن کا انتقال ہو گیا اور انجمن ایک مستعد سیکریٹری سے محروم ہو گئی۔

1912ء میں ایجوکیشنل کانفرنس کا اجلاس پھر دلّی میں منعقد ہوا۔ اجلاس میں انجمن کی کارگزاری اور حالات پر بھی غور ہوا۔ یہ طے ہوا کہ مولوی عبد الحق (اس وقت صدر مہتمم تعلیمات اورنگ آباد) کو سیکریٹری مقرر کیا جائے۔ مولوی صاحب سرسیّد کے تربیت یافتہ تھے محسن الملک کے ساتھ کام کرچکے تھے۔ مولانا حالی کے عقیدت مند اور علمی، ادبی کاموں سے دلچسپی رکھتے تھے۔ مولوی صاحب انجمن کے سیکریٹری مقرر ہو گئے۔ انجمن کو اپنے ساتھ اورنگ آباد لے آئے اور رفتہ رفتہ اس صدی میں اردو زبان و ادب کی ترقّی کی سب سے بڑی انجمن کا سب سے اہم حوالہ بن گئے۔ مولوی عبد الحق انجمنِ ترقّیٴ اُردو کے سیکریٹری ہی نہیں مجسّم ترقّی اردو تھے۔ اُن کا سونا جاگنا، اُٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، پڑھنا لکھنا، آنا جانا، دوستی، تعلقات، روپیہ پیسہ غرض کہ سب کچھ انجمن کے لیے تھا۔ ساری تنخواہ انجمن کی نذر کردیتے (بعد میں پینشن بھی انجمن پر ہی خرچ کرتے رہے) لکھنے پڑھنے سے جو آمدنی ہوتی وہ بھی انجمن کے کھاتے میں جاتی۔ زندہ رہے تو اردو کے لیے اور یہ بھی ریکارڈ پر ہے کہ کراچی کے جناح اسپتال میں بسترمرگ پر تھے مگر لیٹے لیٹے ”قاموس الکتب“ (جلد اوّل) کا معرکہ آرا مقدمہ لکھ دیا۔ مولوی عبد الحق نے جنھیں انجمن کے حوالے اور اردو کی خدمت سے خواص و عوام نے ”بابائے اردو“ کا خطاب دیا انجمن کو غیر معمولی ترقّی دی۔ اس کی خدمات کا دائرہ وسیع کیا۔ وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق علمی اور ادبی منصوبے مرتّب کیے اور ان پر بڑی دل جمعی سے کام کیا انجمن کے کاموں کی ایسی شہرت ہوئی کہ نظام دکن میر عثمان علی خاں نے ایک ذاتی فرمان کے ذریعے سے اس کی سرپرستی منظور کی اور اس کے لیے مستقل امداد جاری کردی۔

ہندی اردو تنازع اور انجمن

برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کر لیا جائے۔ ”اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔ “ یک قلم خارج کر دیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔

اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفوں اور مشکلات کا دَور

انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے .

اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری

اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔ اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔

علمی و ادبی کتابوں کے تراجم

انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔ بعض اہم ترجمے یہ ہیں :

1۔تاریخ تمدّن (سر ہینری طامس بکل۔ ترجمہ: منشی محمد احد علی)

2۔ تاریخ ملل قدیم (سینویس۔ ترجمہ: سیّد محمود اعظم فہمی)

3۔ نفح الطیب (علّامہ مقری۔ ترجمہ: مولوی محمد خلیل الرحمن)

4۔ نیپولین اعظم (جوزیف ایبٹ۔ ترجمہ: محمد معین الدّین)

5۔ فلسفہ تعلیم (ہربرٹ اسپینسر۔ ترجمہ: خواجہ غلام الحسنین)

6۔ فاؤسٹ (گوئٹے۔ ترجمہ: ڈاکٹر عابد حسین)

7۔ تاریخ ادبیات ایران (پروفیسر ایڈورڈ براؤن۔ ترجمہ: سیّد سجّاد حسین)

8۔ خطبات گارسین دتاسی (نامور فرنچ اردو محقّق)ترجمہ:سر راس مسعود،ڈاکٹر یوسف حسین خاں،ڈاکٹر حمید اللہ

9۔ مقالات گارسین دتاسی (مقدمہ: مولوی عبد الحق)

10۔ شکنتلا (کالی داس۔ ترجمہ: اختر حسین رائے پوری)

11۔ ہماری نفسیات (ای۔ اے۔ مینڈر۔ ترجمہ: شیدا محمد)

12۔ معمارِ اعظم (ابسن۔ ترجمہ: عزیز احمد)

       13۔ بقول زرتشت (نتشے۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابو الحسن منصور احمد)

14۔ الف لیلہٰ و لیلہٰ (سات جلدیں۔ ترجمہ: ڈاکٹر ابو الحسن منصور)

15۔ کتاب الہند (البیرونی۔ ترجمہ: سیّد علی اصغر)

16۔ ایران بہ عہد ساسانیان (آرتھر کرسٹن سین۔ ترجمہ: ڈاکٹر محمد اقبال)

17۔ فن شاعری (ارسطو کی بوطیقا۔ ترجمہ: عزیز احمد)

18۔ علم الاقوام (ڈاکٹر بیرن عمر رالف ایرن قیلس۔ ترجمہ ڈاکٹر سیّد عابد حسین)

19۔ مشاہیر یونان و روما (چار جلدیں، پلوٹارک، ترجمہ: ہاشمی فرید آبادی)

20، مکالمات افلاطون (افلاطون۔ ترجمہ: ڈاکٹر سیّد عابد حسین)

21۔ جوامع الحکایات و لوامع الروایات (عربی سے ترجمہ: اختر شیرانی)

22۔ طربیہ خداوندی (دانتے کی ڈوائن کامیڈی۔ ترجمہ: عزیز احمد)

23۔ تاریخ الحکما (جمال الدّین ابو الحسن علی بن یوسف القفطی۔ ترجمہ: ڈاکٹر غلام جیلانی برق)

انجمن کے رسائل

انجمن نے 1921ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ’’اردو (جریدہ) 1928‘‘ء میں رسالہ ”سائنس“ اور 1939ء میں اخبار ”ہماری زبان“ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ”سائنس“ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ”ہماری زبان“ ”اردو زبان“ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔

املا کے قاعدے

انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔

قدیم کتابوں کی اشاعت

انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔

شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت

انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔

اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی

انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ”اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان“ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے۔.. 1938ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہو گیا مگر 1947ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہو گیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کر لیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کر دی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔

انجمنِ ترقی اردو پاکستان میں

دہلی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔ بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبد القادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا۔ شہید ملّت لیاقت علی خان، سردار عبد الرب نشتر اور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا۔ سر شیخ عبد القادر بھی جلد ہی انتقال فرما گئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدر رہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر بنے۔ آفتاب صاحب کے بعد، ذوالقرنین جمیل صاحب 2018 سے 2019تک صدر رہے۔۔ پھر2019 سے 2022 تک عبد الواجد جواد صاحب کو یہ عہدہ دیا گیا اور 2022 سے اب تک عبد الواجد جواد صدر اعزازی ہیں ، اب انجمن ترقی اردو پاکستان 2025 میں مجلس نظماء (governing body) کے الیکشن کا انعقاد کرے گی۔ انجمن کے ان سربراہان کے علاوہ بھی پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔

    ڈاکٹر محمود حسین

    ڈاکٹر معین الحق

    جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِ اعزازی مقرر ہوئے۔ وفات تک وہ یہ خدمت اعزازی طور پر انجام دیتے رہے۔