ازقلم:  رونق جمال

”کائنات“ اسٹریٹ نمبر ۹،

آدرش نگر،درگ (چھتیس گڑھ)

            شہر کے اردو اکثریتی علاقے کے چند غیر سنجیدہ لوگوں نے ایک مقامی مشاعرے کا انعقاد کیا جسے انہوں نے”شبِ کھجلی“ کا نام دیا۔ دیواروں پر پوسٹروں کے چسپاں ہوتے اور شاہراہوں وگلیوں میں بینرس کے لہراتے ہی سارے شہر میں ”شبِ کھجلی“کے چرچے ہونے لگے۔ جدھر دیکھو ادھر صرف شبِ کھجلی کا ہی تذکرہ!!! جب شبِ کھجلی کے سلسلے میں ہمیں پتہ چلا تو ہم پر حیرتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا جس سے ہمارا منہ کھلا کا کھلا ہی رہ گیا۔ لیکن ہم اوروں کی طرح تجسس کو دبائے نہیں بیٹھے رہے بلکہ چھٹی حِس کے اشارے پر شب ِ کھجلی کے سلسلے میں معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہو گئے۔

             سب سے پہلے ہم نے اپنے پسندیدہ سیلون کا رخ کیا جہاں ہم عہد جوانی سے بال تر شواتے آرہے ہیں۔ عہد جوانی میں ہمارے سر پر اچھے خاصے بال ہوا کرتے تھے تو ہم سیلون پہنچ کر گھنٹوں بیٹھے اپنی باری کا انتظار کیا کرتے تھے اور باری آنے پر نر م گداز کرسی پر شان ِبے نیازی سے سر جھکائے حجام کی قینچی  کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی زبان سے ساری دنیا کی خبریں سن لیا کرتے تھے۔ اب جب کہ سر پر بال کم رہ گئے ہیں ہمارے مخصوص حجام کے سر کا حال بھی ہمارے سر ہی کی طرح کا ہے۔ اب اس کی قینچی اور زبان دونوں دھیرے دھیرے چلتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے اب دونوں بھی منجھے ہوئے انداز میں چلتی ہیں یعنی قینچی  اچھے بال تراشتی ہے اور زبان ٹھوس با تیں ہی اگلتی ہیں۔ وہ اب اِدھر اُدھر کی نہیں ہانکتا عمر اور تجربے کی باتیں کرتا ہے اور ٹھوس خبروں پر ہی تبصرہ کرتا ہے کبھی کبھی اس کے پاس نہایت ہی اہم خبریں ہوتی ہیں اور ان پر اس کا تبصرہ نہایت گہرائی سے ہوتا ہے۔ ہم نے داڑھی بنانے کے بہانے کرسی پر بیٹھتے ہی شبِ کھجلی کا ذکر چھیڑا تو وہ ٹالنے والے انداز میں گویا ہوا۔”لگتا ہے سب ہی کھجلی والے شاعروں کو بلا کر شب ِ کھجلی منائی جارہی ہے۔!ہم سمجھ گئے کہ اس کے پاس کوئی ٹھوس معلومات نہیں ہے۔ ہم نے داڑھی بنوائی اور بازار کا رخ کیا۔ بازار پہنچے تو وہی پوسٹر اور بینر۔! لیکن لوگوں کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ کچھ لوگوں نے صرف اتنا کہا کہ مزاحیہ مشاعرہ لگتا ہے۔ کچھ نے کہا کوئی مزاحیہ شاعر جناب کھجلی آرہے ہوں گے اس لیے مشاعرے کو شبِ کھجلی کا نام دے دیا گیا ہے۔ ادھوری اور ہلکی پھلکی معلومات فراہم ہونے کی وجہ سے ہماراتجسس  چنگاری سے شعلہ بن چکا تھا۔ ہم بازار کی دوسری جانب جہاں چائے خانے اور پان کی دکانیں زیادہ ہیں ادھر چل دیئے۔ دور ہی سے ہماری نظر علامہ دستؔ پر پڑی۔ علامہ دستؔ ہمارے شہر کے بالکل تازہ ہزل گو ہیں۔ انھیں لکھنے کے ساتھ ساتھ سنانے کی بھی کھجلی ہے۔ کہیں بھی موقع بے موقع سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ نام سے پکارنے پر ناراض ہو جاتے ہیں۔تخلص سے مخاطب کرنے پر ان کی بانچھیں کِھل جاتی ہیں۔ مشاعروں میں بن بلائے پہنچ جاتے ہیں۔ شعراء کی فہرست میں نام ہو نہ ہو سید ھے اسٹیج پرپہنچ جاتے میں اور ہر شاعر کے ہر ایک شعر پر واہ واہ کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔ منتظمین اگر انھیں ہار پیش کرے تو ٹھیک ورنہ وہ شعراء کے سامنے پڑے ہوئے ہاروں میں سے ایک ہار اٹھاکر خود اپنے گلے میں ڈال کر کچھ اس طرح کا اظہار کرنے لگتے ہیں جیسے ان کی بھی گُل پوشی کی گئی ہو۔ دعوتِ سخن ملنے پر مائیک پر آتے ہی پہلے اپنے تخلص کے معنی بتانا بھی نہیں بھولتے۔”دستؔ یعنی پتلے پاخانے۔!“  ہم نے لپک کر انھیں جالیا اور ایک کپ چائے کی پیش کش کر دی۔ وہ اچانک ہماری چائے کی دعوت پر چونک پڑے۔

            الٹی گنگا بہتی دیکھ کر ان کی حیرت لازمی تھی۔ اس سے پہلے کہ کہیں ہم اپنا ارادہ نہ بدل دیں وہ ہمارا ہاتھ پکڑ کر چائے خانے میں داخل ہو گئے۔ کونے والی ٹیبل پر قابض ہو کر ان کی بانچھیں اس طرح کِھل اٹھیں جیسے اکبر اعظم کی حکومت پر قبضہ کر لیا ہو۔ ہمیں بیٹھے دیکھ کر پہلے ٹیبل صاف کرنے والا دوڑ کر آیا اور ایک گندے سے کپڑے سے ٹیبل صاف کرنے لگا جس سے بدبو آرہی تھی۔ ہمیں محسوس ہوا یہاں کی چائے پی کر ہمارا ہاضمہ ہم سے خفا  ہو جائے گا۔ لڑکا ٹیبل صاف کر کے جانے کے لیے مڑا تو چائے کا آرڈر لینے والا لڑ کا آگیا۔ ہم نے دواسپیشل چائے کا آرڈر دیا تو علامہ دستؔ نے لقمہ دیا ”چند بسکٹ اور ایک پلیٹ نمکین بھی لے کر آنا بھائی۔!“ ہماری ان کی آنکھیں چار ہو ئیں تو انہوں نے اپنے موٹے موٹے ہونٹوں کے درمیان آڑے ٹیڑھے پیلے پیلے دانتوں کی نمائش کر دی۔ اور فوراً کہا!……. ”ہاں تو جناب کیا سنیں گے آپ!“”جی کچھ نہیں….. کچھ ضروری معلومات آپ سے چاہتا ہوں!“ ”ضروری معلومات…..! ضرور دوں گا………. لیکن  پہلے  چند شعر……. بالکل شبِ کھجلی کے لیے  لکھے ہیں۔!!“ ”جی ہاں سن لوں گا……!  لیکن پہلے میں آپ سے شب ِ کھجلی کے سلسلے میں کچھ معلومات چاہتا ہوں!“ ”پوچھئے کیا پوچھنا چاہتے ہیں آپ۔! مگر شرط یا درکھیے…. گا…..! میرے چند اشعار ضرور سینے گا……!“ ”ضرور سنیں گے جناب! لیکن پہلے یہ تو بتائیے……….یہ شبِ کھجلی  ہے کیا!!؟“ ”ارے جناب مشاعرہ ہے اور کیا۔!؟“ ”لیکن آپ کو یہ……. شبِ کھجلی  کچھ عجیب سا نہیں لگتا۔!؟“ ”پہلے مجھے بھی لگا تھا لیکن اب نہیں……. در اصل شب ِ کھجلی کا اہتمام خصوصاً ان شعراء کے لیے کیا گیا ہے جنھیں سنانے کا موقع نہیں ملتا۔ شہر میں شاعر تو بہت ہیں لیکن بیرونی شعراء آتے ہیں اور جیب گرم کر کے چلے جاتے ہیں۔ مقامی شعراء تا کتے رہ جاتے ہیں۔ شہر کے کچھ سمجھدار وذمہ دار حضرات نے یہ سوچ کر کہ مقامی شعراء کو سنا جائے اور سراہا جائے نہ جانے شہر میں کتنے غالبؔ، دردؔ، داغؔ اور اقبالؔ وفیضؔ ہوں گے۔ انھیں اُبھرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ شاید ان کے تخلص کی وجہ سے شہر کا نام بھی روشن ہو جائے۔ جیسے فراقؔ گورکھپوری، اسدؔ بھوپالی، اکبرؔ الہ آبادی، خمارؔ بارہ بنکوی وغیرہ وغیرہ کی وجہ سے ان کے نام کے ساتھ ان کے شہر بھی مشہور ہوئے ہیں کہ نہیں۔!؟“ ”جی بالکل ہوئے ہیں۔!! لیکن پھر بھی……… شبِ کھجلی۔! عقل و فہم سے بہت پرے ہے۔!! ہمارے جملے پر غور کرتے ہوئے علامہ دستؔ نے سرہلایا اور ٹیبل پر ہماری جانب جھکتے ہوئے نہایت ہی راز دارانہ لہجے میں گویا ہوئے۔”جناب!  در اصل شبِ کھجلی عام فہم لفظ ہے‘ لوگ روایتی انداز میں بول چال میں اس لفظ کا استعمال کرتے ہیں۔ بس اس لفظ کا کثرت سے استعمال کرنے والوں اور اس کے معنی کو بخوبی سمجھنے والوں نے ہی مشاعرہ کو ”شبِ کھجلی“ کا نام دے دیا ہے۔ یعنی وہ مقامی شعراء جنھیں سنانے کی کھجلی ہے لیکن انھیں موقع نہیں ملتاوہ سب کے سب ”شب ِکھجلی“ میں شرکت فرما کر اپنی شاعری کی کھجلی مٹالیں گے۔!! اب بھی سمجھے کہ نہیں آپ!!؟ علامہ دستؔ نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے مسکرا کر کچھ اس انداز میں ہماری جانب دیکھا کہ کہیں ہمیں بھی تو شاعری کی کھجلی نہیں ہے۔! مگر ہم نے جلدی سے کہا واہ جناب! آپ نے تو ہمارے ساتوں طبق روشن کر دیئے ہیں۔ ہمیں سنانے کی کھجلی تو نہیں ہے لیکن سننے کی کھجلی ضرور ہے اس لیے ہم شبِ کھجلی میں ضرور شرکت کریں گے۔ پھر ہم نے علامہ دست ؔکی تُک بندی سنی نہیں بلکہ برداشت کی اور اجازت لے کر رخصت ہو گئے حالانکہ علامہ دستؔ نے اجازت نہیں دی تھی۔ وہ ابھی اور بھی سنانا چاہتے تھے لیکن ہم میں مزید تُک بندی برداشت کرنے کی قوت نہیں تھی اس لیے کھسک لینے میں ہی عافیت سمجھی۔!

            مقررہ دن تاریخ اور وقت پر ہم مشاعرہ گاہ میں پہنچ گئے۔ سیکڑوں ہزاروں کی تعداد میں سامعین وقت سے پہلے ہی مشاعرہ گاہ میں پہنچ چکے تھے۔ بڑی مشکل سے ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملی۔ اس سے پہلے ہم نے شہر میں منعقدہ عالی شان مشاعروں میں ایسی بھیڑ کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لوگوں میں ایک انوکھا جوش و خروش تھا۔ اسٹیج کو خوبصورت انداز میں سجایا گیا تھا۔ انتظام میں کہیں کسی طرح کی کوئی کمی دکھائی نہیں پڑ ھ رہی تھی۔منتظمین اپنے سینوں پرخوبصورت رنگ برنگی بیچ لگائے ادھر سے ادھر منڈلاتے گھوم  رہے تھے اور سامعین سے نظم وضبط بنائے رکھنے کی التجا کر رہے تھے۔چند ہی لمحوں میں شہر کے الول جلول کہنے والے یا تُک بندی کرنے والے متشاعروں کا جم غفیر اسٹیج پرنظر آنے لگا۔ علامہ دستؔ بھی شاہی انداز کی چمکیلی پوشاک پہنے وارد ہوئے۔ تین بار زمینی سلام کیا اور لباس کو سنبھالتے ہوئے تکیہ سے ٹیک  لگا کرا کبر اعظم کی طرح بیٹھ گئے۔

            منتظمین  میں سے ایک صاحب نے مائیک سنبھالا اور با قاعدہ شبِ کھجلی کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ ہم روایت سے ہٹ کرگُل پوشی اور شبِ کھجلی کے یادگار مومنٹو پہلے دور کے بعد شعراء کی خدمت میں پیش کریں گے اور اس کے بعد دوسرے دور کا آغاز ہوگا۔ شبِ کھجلی کے انعقاد سے ہماری

 مراد شہر کے شعراء کے اس طبقہ کی حوصلہ افزائی کرنا ہے جنھیں نامور شعراء متشاعر کہہ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے اسٹیج پر موجود شعراء میں مستقبل کے غالبؔ، میرؔ یا داغ ؔبھی ہوں۔!اس لیے آپ حضرات سے گزارش ہے کہ ان کی زور دار حوصلہ افزائی کیجیے گا تاکہ یہ شعراء رہ زندگی میں کبھی شبِ کھجلی کو فراموش نہ کرسکیں!!اب شبِ کھجلی کی نظامت کے لیے مائیک جناب آسمانی کو سونپ رہا ہوں۔ جناب آسمانی مائیک پر آئے اور آتے ہی شبِ کھجلی کے منتظمین کی شان میں ایک لمبی چوڑی تقریر شروع کر دی۔ ان کی تقریر سے بور ہو کر سامعین نے شور وغل مچایا تو انہوں نے خود ہی غزل سنانا شروع کر دی کہ کہیں بھگدڑ مچ جائے اور غزل سنانے کا سنہرا موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ا ن کی اس حرکت پر اسٹیج پر بیٹھے شعراء نے غل مچانا شروع کر دیا۔ بحر حال انھوں نے کسی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میں پچیس اشعار کی غزل داغ کر ہی دم لیا۔ ان کی تُک بندی سے سامعین خوب محظوظ ہوئے اور دل کھول کر طوفانِ بد تمیزی بپا کی جسے آسمانی داد سمجھ کر بار بار آداب آداب کہے جارہے تھے۔ آسمانی نے اپنے بعد ایک ایک کر کے شعراء کو دعوت ِسخن دینا جاری کیا لیکن جب وہ کسی شاعر کو دعوت دینے کے لیے مائیک سنبھالتے دس بیس شاعران پر گدھ کی مانند جھپٹ پڑتے کہ پہلیہمیں پڑھاؤ….. معالمہ نازک دیکھ کر منتظمین دوڑ کر آتے، شعراء کو سمجھاتے اور آسمانی کی جان بچاتے۔ اڑیل قسم کے شعراء پر ہاتھ صاف کرتے، انھیں ان کی اوقات یاد دلاتے اور کھینچ کر ان کی نشست پر بٹھاتے اور دوبارہ مشاعرہ کو آگے بڑھاتے۔ اسی اثنا میں ایک صاحب جو کہ بقول ان کے شاعر تھے اور شب ِ کھجلی میں مدعو تھے،تلوار لے کر اسٹیج پر آگئے اور آسمانی کو دھمکانے لگے کہ اگر آج تو نے مجھے میرے مقام پر نہیں پڑھوایا تو سمجھو تیری نسل ختم…….تیرے ساتھ تیرے خاندان کو بھی کاٹ کر رکھ دوں گا۔ سمجھا!!“  منتظمین…… نے انھیں پکڑ کر بڑی مشکل سے قابو میں کیا لیکن مشاعرہ کُشتی کے اکھاڑے میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ایک شاعر صاحب اپنی شاعری کی ڈائری کو، پھاڑ کر صفحات کو ہوا میں اچھال کر آسمانی صاحب پر پل پڑے اور آسمانی کو پٹخنی دے کر ان پر سوار ہو گئے۔ آسمانی نے بھی نہایت مستعدی کا مظاہرہ کیا اور ان صاحب کو بغلی مار کر چاروں شانے چت کر دیا اور لگے سارے اسٹیج پر راون کی طرح ران ٹھوکنے اچھلنے کودنے۔! منتظمین دوڑ کر آئے آسمانی کو پکڑا اور بڑی مشکل سے ان کی نشست پر بٹھانے میں کامیاب ہوئے۔ ادھر اسٹیج پر کُشتی کا ماحول دیکھ کر مشاعرہ گاہ کے پنڈال میں موجود تماش بین بھی کُشتی کے موڈ میں دکھائی دئے۔ کچھ سامعین ماحول سے محظوظ ہو کر بے تحاشہ قہقہہ لگا رہے تھے۔ کچھ سامعین بے تحاشہ قہقہہ لگانے والوں کو دیکھ کر پیٹ پکڑ پکڑ کر ہنس رہے تھے۔ منتظمین میں سے ایک نے ماحول کو بگڑتا دیکھ کر مائیک سنبھالا اور اعلان کیا کہ”آپ حضرات اطمینان سے بیٹھ جائیں شعراء کی گل پوشی و عزت افزائی کی جائے گی اور یادگار مومنٹو شعراء کو پیش کئے جائیں گے۔ اس کے بعد باقاعد ہ مشاعرہ کا آغاز ہوگا۔“ادھر شہر میں مشاعرہ کے حالات سن کر لوگ جوق در جوق مشاعرہ گاہ کی طرف بڑھ رہے تھے لوگوں کے آنے کا تانتا لگا ہوا تھا۔

            استقبال اور گُل پوشی کا سلسلہ جاری ہوا تو ماحول کچھ سازگار ہو گیا۔ منتظمین ایک ایک شاعر کا پھولوں کے ہارسے استقبال کر کے یادگار مومنٹو دیتے جا رہے تھے اور شال اوڑھاتے جا رہے تھے۔ چند ہی منٹوں بعد استقبال کرنے،مومنٹو دینے وشال اوڑھانے کا سلسلہ تھم گیا تو مشاعرہ گاہ میں موجود ہر ایک شخص نے دیکھا کہ اسٹیج پر موجود سب ہی شاعر بے اختیار سارے بدن کو کھجلا رہے ہیں اور پھر چند ہی منٹوں میں شعراء کے کھجلانے کا انداز کچھ اس طرح کا تھا کہ اسٹیج پر با قاعدہ کھجانے کے مقابلے کا گمان ہونے لگا۔ اسٹیج پر بھاگ دوڑ جاری ہو گئی تھی۔ کچھ شعراء تو جلد بازی میں اسٹیج کی سیڑھی سے اترتے وقت بری طرح گر پڑے تھے۔ چند ہی لمحوں میں اسٹیج سنسان ہو گیا۔ مشاعرہ گاہ سے سامعین بھی لوٹنے لگے تھے کہ اچانک اسٹیج کے پیچھے سے کارڈلیس مائیک کے ذریعے ایک آواز مشاعرہ گاہ میں گونجنے لگی۔

            ”معزز سامعین!ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں کہ آپ اپنی منشاء کے مطابق مشاعرہ نہیں سن سکے۔!لیکن یقین مانیئے آئندہ آپ کو آپ کی منشاء کے مطابق مشاعرہ ضرور سننے کو ملے گا۔ بزرگ استاد شعراء اور حقیقی شاعروں کو ان کا مقام بھی برابر ملے گا۔ مشاعروں میں متشاعر نظر نہیں آئیں گے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ مشاعرہ کا کھویا ہوا وقار آپ کو آئندہ شہر میں ہونے والے مشاعروں میں نظر آئے گا۔ ہم نے ”شب ِکھجلی“ کا اہتمام متشاعروں کی کھجلی مٹانے اور مشاعرے کو اس کا وقار واپس دلانے اور بزرگ و استاد شعراء کو ان کا حق دلانے نیز ان کے احترام و مقام کو پامال کرنے والوں کو سبق سکھانے کے لیے کیا

 تھا۔ جس کے لیے  ہم آپ سے معافی چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ ہمارے اقدام سے خفا ہونے کے باوجود مشاعرے اور اردو کے لیے ہمارے اس جہاد سے خوش بھی ہوں گے۔!!!