ڈاکٹر چمن لعل بھگت

                                                اسسٹنٹ پروفیسر

                                                 شعبہئ اُردو جموں یونیورسٹی،جموں

 ادب کی دوسری انصاف کے مقابلے میں ایک قدیم ترین صنف ہے۔ یونانی لوگ مذہبی عقیدت کے طورپر اپنے دیوتا”ڈایونُسس(Dionysus)“ کے احترام میں رقص وسرود کا جومظاہرہ کرتے اسے ”ڈرومنن“ کہاجاتاتھا۔ دراصل لفظ”ڈراما“ اسی ڈرومنن کا مرہونِ منت ہے۔ اس کے لغوی معنی ”عمل کادکھاوا“ کے ہوتے ہیں، لیکن اصطلاح عام میں ڈراما”نقل“ سے منسوب ہے جو ازل سے انسانی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ڈرامائی فن کی روایت انفرادی طورپر ہر ملک وقوم میں الگ الگ دور میں پروان چڑھی ہے گواگرچہ اس نے ایک دوسرے کے اثرات ضرور مرتب کئے ہیں۔اس کی تاریخ کاغائر مطالعہ کرنے کے بعد یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس نے ابتدا سے ہی کئی منازل طے کرتے ہوئے جدید رُجحانات ونظریات اور مختلف تحریکات کے اثرات قبول کرتے ہوئے اپنے ارتقائی سفر کو جاری رکھا ہے۔ بالخصوص بیسویں صدی عیسوی کی ابتدائی دہائیوں میں مغربی ممالک میں بعض جلوہ گر ہونے والے جدید رُجحانات ونظریات نے جہاں ایک طرف انسانی ذہنوں کو عقل پسندی کی طرف مائل کیا، وہیں دوسری جانب یورپین فنکاروں کو پرانی روایات سے انحراف کرنے اور جدید ادب تخلیق کرنے پر بھی مجبور کردیا۔ مغربی ممالک میں ابھرنے والے ان جدید رُجحانات ونظریات میں ”رزمی ڈراما(Epic Theatre)“ ایک ایسا رجحان تھاجس نے عالمی سطح پر ڈرامائی ادب کو بے حد متاثر کیا۔

”رزمی ڈراما“ جِسے عام طور پر ”ایپک تھیٹر (Epic Theatre)“ یا بعض اوقات ”بریختین تھیٹر (Brechitain Theatre)“، کے نام سے بھی منسوب بھی کیا جاتا ہے کا آغاز ۰۲۹۱ء؁ کے آس پاس جرمنی میں ہوا۔ ڈرامے کے اس رُجحان کا موُجد اگر چہ اِرون پسیکٹر (Erwin Piscator) تھا لیکن عالمی سطح پراس کی علم برداری کا فخر برٹولٹ بریخت (Bertolt Brechit۔ ۸۹۸۱ء ؁ تا ۶۵۹۱ء؁) کو حاصِل ہے۔ موضوع کے اعتبار سے ”رزمی ڈراما (Epic Theatre)“ رزمیہ کی قدیم ہندوستانی، یونانی اور ایرانی روایات کا مرہونِ منّت ہے۔ اس کی اعلیٰ مثالیں رِشی والمیکیؔ (Rishi Valmiki) کی شہُرت یافتہ تصنیف ”رامائن (Ramayna)“،مہا رِشی وید ویاسؔ (Maharishi Ved Vyasa) کی شہُرہئ آفاق تخلیق ”مہا بھارت (Mahabharata)“، ہومر (Homer)کی مشہور تصنیف ”ایلیڈ (Iliad)“ اور ”اودیسی(Odyssey)“، فردوسیؔ کا عظیم ادبی کارنامہ ”شاہنامہ (Shahnamah)“ وغیرہ ہیں۔ ہیئت اور تکنیک کے لحاظ سے ڈرامے کا یہ رُجحان (رزمی ڈراما) ہم عصری اخلاقی مسائل، سیاسی و سماجی حقیقتو ں اور مارکسی فلسفے کی بھرپور ترجمانی کرتا ہے۔ صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو ”رزمیہ“ کا ”نشاۃ ثانیہ (Renaissence) ”برٹولٹ بریخت کے ہاتھوں ”رزمی ڈرامے“ کی شکل میں ہوا۔ بقول ڈاکٹر ظہورالدّین:۔

”بریخت نے خود کو ڈرامے کی نئی ہیئت کا آئنسٹائن قرار دیا ہے، کیوں کہ جِس طرح آئنسٹائن نے جیومڑی سے مُتعلّق اقلیدس کے نظریات کی تردید کرکے ایک نیا نظریہ پیش کیا تھا اُسی طرح بریخت نے بھی ڈرامے سے متعلق ارسطوؔ کے نظریات کی تردیدپر اپنے نظریات کی بُنیاد رکھی۔“

(ڈاکٹر ظہورالدین، ”جدید اُردو ڈراما]نئے یورپی رُجحانات کی روشنی میں [“ ادارہ فکرِ جدید،دریاگنج نئی دلّی۔سن ۷۸۹۱ء؁، ص۷۲)

رزمی ڈرامے کے کینوس میں چوں کہ وسعت ہوتی ہے اس لیے یہ ڈراما اسٹیج کے مقابلے میں ٹیلی ویژن کے لیے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔اس کا پلاٹ اس طرح چھوٹے چھوٹے پلاٹوں میں منقسم رہتا ہے کہ جِس کا ہر واقعہ اپنے بل بوتے پر آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ ایک مُکمّل اِکائی کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ وحدّت زماں کی قید سے آزاد کے علاوہ اس کے کردار اپنی معاشرتی اصلیت بھی رکھتے ہیں اور معاشرے کی تبدیلی کے مُطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔ اس تبدیلی کے پیچھے اہم مقصد جذبات کے بجائے بصیرت پر زور دینے کے علاوہ ناظرین و سامعین کو کوئی ہدایت یا نصیحت کرنا بھی ہوتا ہے۔”رزمی ڈرامے“میں ڈراما نگار ناظرین و سامعین کو قدم قدم پر باور کراتاہے۔کہ وہ جو کچھ بھی دیکھ رہے ہیں وہ خیالی ہے یعنی ڈراما ہے اس کا اصلی زندگی سے کوئی سروکار نہیں۔ اس کے علاوہ اسٹیج پر کیے جانے والے عمل اور ناظرین وسامعین کے جذبات میں اتفاق رائے کے فُقدان کی وجہ سے ان کے درمیان ایک خلیج رہتا ہے۔ ”رزمی ڈرامے“ میں فرد کی نہیں بل کہ معاشرے کی عِکاسی کی جاتی ہے اس لئے اداکار کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنی حدُود میں رہتے ہوئے اس بات کا خاص دھیان رکھے کہ وہ کِردار نہیں بل کہ اداکار ہے۔ اس کے علاوہ اداکار کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا مقصد سامعین و ناظرین کی معلومات میں اضافہ کرنا ہے نہ کہ انھیں فریب کاری میں مُبتلا کرنا۔ ”رزمی ڈرامے“ میں سادہ اور بیانیہ انداز کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ اکثر اشاروں وکنایوں سے کام لیتے ہوئے علامتی لب و لہجہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ بریخت کے اکثر ڈراموں میں یہ خصوصیات بدرجہ اُتم موجود ہیں۔ غرض یہ کہ بریخت کی قائم کردہ ”رزمی ڈرامے“ کی روایت کو اس قدر شہرت نصیب ہوئی کہ ہر مُلک و ہر زبان میں نہ صرف اس کی تقلید میں ڈرامے لکھے گئے بل کہ تھیٹر بھی قائم کیے گئے۔

اُردو میں ”رزمی ڈرامے“ کے ابتدائی نُقوش اس دور (۶۳۹۱ء؁ کے آس پاس) سے ملنے شروع ہو جاتے ہیں جب مارکسی نظریے (اشتراکی حقیقت نگاری) کو فروغ دینے کے لئے ترقی پسند تحریک سے وابستہ قلم کار کمر بستہ ہوئے۔ خواجہ احمد عباس کا ”میں کون ہوں“ اور ”سُرخ گُلاب کی واپسی“، عصمت چغتائی کا ”دھانی بانکیں“، بلراج ساہنی کا ”جادو کی کرُسی“، علی سردار جعفری کا ”یہ کس کا خون ہے“، کرشن چندر کا ”ہائیڈروجن بم کے بعد“وغیرہ وہ ڈرامے ہیں جن میں ”رزمی ڈرامے“ کی جھلکیاں کہیں نہ کہیں ضرور مِل جاتی ہیں۔

ترقی پسند تحریک کی قیادت میں پیش کیے گئے یہ ڈرامے حقیقت پسندی پر مبنی بھی ہیں اورتھیٹر کا رشتہ عوام سے جوڑنے میں کار گرثابت بھی ہوئے۔ اسی تحریک نے ”اپٹا (Indian People Theatre Association)“، ”پرتھوی راج تھیٹر“،”حبیب تنویر تھیٹر“ وغیرہ کے لیے میدان بھی ہموار کیا۔اس تحریک سے وابستہ  ڈراما نگاروں نے ایک طرف ادب اور زندگی کے رشتے کو استوار کیا اور دوسری جانب ادب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے قابل بھی بنایا۔ اپٹا، پرتھوی راج  تھیٹر اور حبیب تنویر کے تھیٹر نے جب بریخت کے ان ڈراموں جو اُردو میں ترجمہ ہوئے تھے کو بارہا اسٹیج پر پیش کیا تو نہ صرف اُردو کے فنکارڈرامے کے اس جدید رُجحان سے واقف ہوئے بل کہ اس (رزمی ڈرامے) کی ترقی کے لیے مزید راستے بھی کھلے۔

اردو میں ”رزمی ڈرامے“ کا باقاعدہ آغاز ۰۵۹۱ء کے بعد ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اہم ڈراما حبیب تنویرؔ کا ”آگرہ بازار“ہے۔آگرہ بازار جوپہلی باراپریل ۴۵۹۱ء میں شائع ہوا یوم نظیر کے موقع پر انجمن ترقی پسند مصنّفین جامعہ ملیہ کی طرف سے ۴۱/مارچ۴۵۹۱ء کو جامعہ ملیہ میں کھیلا گیا۔یہ حبیب تنویرؔ کا وہ  لافانی ادبی کارنامہ ہے جو اُردو ڈرامے کی روایت میں ایک موڑ اور ڈرامے کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس ڈرامے کی مقبولیت کا راز اس میں مضمر ہے کہ دسمبر۰۷۹۱ء تک پچاس بار اسٹیج کیا گیا۔

حبیب تنویرؔنے ڈراما”آگرہ بازار“ کے پلاٹ کی بنیاد انسانی زندگی کی حقیقتوں پررکھی ہے۔ اس کے لیے انھوں نے اُردوزبان کے عوامی شاعرِ نظیرؔ اکبرآبادی (۶۳/۵۳۷۱ء تا۰۳۸۱ء)کی شہر ِ آشوب، پیسانامہ،دید ِ بازی، مُفلسی،خوشامد، کنھیّاجی کابالپن، بلدیوجی کامیلہ، چوہوں کا اچار، روٹیاں،شہرِ اکبرآباد،آگرے کی تیراکی،زرکی فلاسفی، مذمت اہلِ دُنیا، پیٹ کے لیے (پیٹ کی فلاسفی)،مہادیوکابیاہ، آگرے کی ککڑی، تربوُز،تِل کے لڈو،کورابرتن، کنکّوے اورپتنگ کی تعریف،ریچھ کابچّہ، ہولی کی بہاریں اورآدمی نامہ نظموں کے بندوں (کم وبیش) کے علاوہ دوغزلوں کوبھی ڈراما”آگرہ بازار“میں شامل کیاہے۔انھوں نے نظیر اکبرآباد کی زندگی کو نہیں بلکہ کلام کو ڈرامے کی بنیاد بنایاہے۔علاوہ ازیں ڈراماآگرہ بازار میں نظیرؔ اکبرآبادی کی شخصیت کے افسانوی پہلو کو موضوع بناکرانھیں آگرے کا بحیثیت عوامی شاعرمتعارف کروانے کے ساتھ ساتھ آگرہ شہرکی زُبوں حالی کامکمل نقشہ کھینچ کرایک مخصوص دورکی عکاسی بھی کی ہے۔ حبیب تنویرؔ خود رقمطرازہیں:

”ڈرامے کا زمانہ لگ بھگ۰۱۸۱ء ہے____یہ وہ زمانہ تھا کہ شخصی حکومت کی بنیادیں ہل چکی تھیں۔مغلیہ سلطنت کا خاتمہ ہوگیاتھا۔ اکبر شاہ ثانی برائے نام دلی کے تخت پر بیٹھے تھے۔ملک میں انگریزوں کااقتدار بڑھ رہاتھا اور چاروں طرف لوٹ کھسوٹ مچی تھی۔ اندرونی اوربیرونی حملوں سے دلّی اور آگرہ پر بار بار تباہی آچکی تھی اور شعرائے اردو دلّی چھوڑ چھوڑ کر بھاگ رہے تھے، اورلکھنؤ بہت تیزی سے ادبی مرکز بن چلا تھا۔لکھنؤ میں نواب سعادت علی خان کادور دورہ تھا، اور اردو شاعری کا انحطاط، جواس دور سے وابستہ ہے شروع ہوگیاتھا____ا س دورِ انحطاط میں بھی ہمارے سماجی نظام میں وہ عناصر موجود تھے جو آگے چل کر ترقی پسند قوت بننے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پرانا سماجی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ رہاتھا۔ چاروں طرف افراتفری اور سیاسی بے چینی بڑھ رہی تھی۔لوگوں کی اقتصادی حالت دن بدن گِر رہی تھی اوران حالات کا ردِّ عمل ۷۴ سال بعد ۷۵۸۱ء ؁کی جنگِ آزادی کی شکل اختیار کرنے والا تھا ____ ان سیاسی اور سماجی حالات کی روشنی میں نظیرؔ کے کلام کو دکھا جائے تو اس کی سچائی اور گہرائی کا اندازہ ہوتا ہے۔“

(حبیب تنویرؔ”آگرہ بازار“،آزاد کتاب گھر کلاں محل دہلی، اپریل۴۵۹۱ء،ص۲۱،۳۱)

حبیب تنویر کے علاوہ اُردو کے جن اسٹیج اور ٹی۔ وی ڈراما نگاروں نے ”رزمی ڈرامے“ کے اسلُوب سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ڈرامے لکھے، ان میں ڈاکٹر محمد حسن ؔکا ”ضحاک“، آفاق ؔاحمد کا ”ڈراما ابھی اُدھورا ہے“، ویریندرؔ پٹواری کا ”گھر“ ابصار عبدالعلی ؔکا ”مسیحا“، امجد اسلام امجدؔ کا ”دہلیز“۔ اشفاقؔ احمد کا ”توتا کہانی“ وغیرہ ڈرامے خاص طور سے اہمیت کے حامِل ہیں علاوہ ازیں اُپندر ناتھ اشک ؔ، انتظار ؔحسین، بانو قدسیہ ؔ، انور سجادؔ، مرزا ادیب ؔ، ریوتی سرن ؔشرما، کرتار سنگھ دُگلؔ، فضل الرحمن ؔ، اشتیاق حسین قریشیؔ، اظہر پرویزؔ، ظہیر انورؔ، مجیب خانؔ، رفعت سروشؔ وغیرہ ڈراما نگاروں کے بعض ڈراموں میں بھی ”رزمی ڈرامے“ کے نقوش بدرجہ اُتم موجود ہیں۔