ڈاکٹرصابر علی سیوانی

تبصرہ نگاری ایک فن ہے۔ کوئی بھی فن آسانی سے کسی شخص کے حصے میں نہیں آتا ہے۔ اس کے لیے بڑی مشق و مزادلت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے اسرار و رموز اور نکات و جہات کو سمجھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔ دیدہ ریزی، ریاضت اور محنت اس کے تین بنیادی کردار ہوتے ہیں۔ ان تین کرداروں کو اگر کوئی شخص اپنی زندگی کا حصہ بنائے تو وہ شخص کسی بھی فن کی بلندی پر پہنچ سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ شخص اس فن سے جنون کی حد تک وابستگی رکھتا ہو۔ تبصرہ نگاری کوئی آسان کام نہیں ہے، لیکن آج کل سب سے آسان کام اسے ہی سمجھ لیا گیا ہے۔ تبصرہ کسی حد تک تنقید کا فریضہ بھی انجام دیتا ہے اس لیے یہ آسان بھی نہیں ہے۔

تبصرہ کا لغوی معنی تصریح، تفصیل اور توضیح ہوتا ہے۔ یہ تینوں الفاظ ایک دوسرے سے بیحد قریب معلوم ہوتے ہیں۔ کسی بھی کتاب پر تبصرہ لکھنا دراصل اس کتاب میں موجود مواد کی توضیح و تصریح کے ضمن میں آتا ہے۔ تبصرہ نگار کتاب کے متن کے حوالے سے اختصار کے ساتھ تعارفی گفتگو کرتا ہے۔ مصنف کی فکر و نظر، تلاش و جستجو، اُسلوب بیان اور ندرتِ اظہار کے بارے میں اظہار خیال کرتا ہے۔ وہ کتاب کے صُوری اور معنوی خوبیوں کو اُجاگر کرتا ہے اور کتابت و طباعت اور جلد سازی کی خوبیوں کو بھی بیان کرتا ہے تاکہ قاری بیک نظر زیر تبصرہ کتاب میں موجود تمام مضامین سے آشنا ہوسکے۔ قاری اگر اس کے تبصرے سے متاثر ہوتا ہے تو کتاب کی خریداری کے متعلق ذہن بناتا ہے اور اگر وہ علم شناس اور ادب فہم ہوتا ہے تو اس سے استفادے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتا ہے۔ تبصرہ دراصل کسی کتاب کا وہ تعارفی خاکہ ہوتا ہے جس سے قاری کو کتاب کی نوعیت کا اندازہ ہوجاتا ہے اور کتاب کی افادیت سے بھی وہ باخبر ہوجاتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن دنوں جو تبصرے لکھے جارہے ہیں کیا وہ تبصرہ نگاری کے فن کے تقاضوں کو پورا کرپاتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہی دیا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ نئی کتابیں جو منظر عام پر آتی ہیں، ان میں سے چند نسخے صاحب کتاب اپنے بہی خواہ، دوست اور ہم مزاج ادیب و شاعر کی خدمت میں ارسال کرتا ہے، اس فرمائش کے ساتھ کہ ذرا زوردار تبصرہ لکھیے، کیوں کہ گزشتہ سال جب آپ کی کتاب شائع ہوئی تھی تو میں نے بھرپور تبصرہ لکھا تھا، جسے ادبی حلقوں میں کافی پسند کیا گیا۔ ادبی اعتبار سے مقروض ادیب اس کتاب پر نہایت عالمانہ تبصرہ لکھنے کی کوشش کرتا ہے اور وہ اس کوشش میں یہ بھول جاتا ہے کہ کتاب میں مواد کی نوعیت کیا ہے اور کتاب معیاری بھی ہے کہ نہیں۔ بس قصیدہ خوانی کے زیور سے آراستہ تبصرہ کا ایک ملغوبہ تیار ہوجاتا ہے۔ اس تبصرہ کو یا تو مصنف اپنے توسط سے کسی رسالے کو روانہ کردیتا ہے، جس کے مدیر سے اس کے اچھے مراسم ہوتے ہیں یا خود مبصر اپنے طور پر ملک کے چند مؤقر رسائل اور معتبر اخبارات کو بھیج دیتا ہے۔ یہ تبصرہ مصنف کی زبان و بیان کی خامی، تن آسانی، سطحی مواد اور دور ازکار و بے سود مضامین کی نشاندہی سے یکسر پاک ہوتا ہے۔ کیوں کہ سچ لکھنے اور سچ برداشت کرنے کی نہ تو مبصر کو عادت ہوتی ہے اور نہ ہی مصنف کو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کتاب کا تبصرہ تو ضرور شائع ہوجاتا ہے لیکن اس کتاب کے تبصرے کے ساتھ انصاف نہیں ہوپاتا ہے۔ موجودہ دور میں ایک رجحان یہ پیدا ہوگیا ہے کہ تھوڑا بہت ادب سے ذوق رکھنے والا شخص صاحب کتاب بننا چاہتا ہے۔ چنانچہ پہلے تو وہ کتابوں پر تبصرے لکھنے سے اپنی ادبی نگارش کا آغاز کرتا ہے۔ پھر دھیرے دھیرے تاریخ ادب اُردو کی بعض اہم کتابوں سے استفادہ کرتے ہوئے چند نامور ادبی شخصیات پر مضامین لکھنے کی ابتدا کرتا ہے۔ چونکہ وہ زبان و بیان پر عبور نہیں رکھتا اس لیے کتاب سے من و عن مواد نقل کرکے اپنے نام سے اخبارات یا رسائل کو اشاعت کے لیے بھیج دیتا ہے اور یہ سلسلہ چل پڑتا ہے۔ ایک سال کے اندر اس کے پاس اتنے مضامین جمع ہوجاتے ہیں کہ کتاب تیار ہوسکے۔ اب وہ اپنی ریاست کی اردو اکادمی میں مضامین کے مجموعے کو جزوی مالی تعاون کی درخواست کے ساتھ داخل کرتا ہے۔ ماہرین ادب اس غیر معیاری اور سطحی مضامین کے مجموعے کے لیے جزوی مالی تعاون کی سفارش کردیتے ہیں جو ان کی مجبوری ہوتی ہے۔ اب نوآموز مضمون نگار نہایت فرحت و شادمانی کے ساتھ کسی کمپوزر سے ٹائپ کراکے دہلی کے کسی مشہور پبلشر کو بھیج دیتا ہے اور یوں کتاب چھپ کر منظر عام پر آجاتی ہے۔ اب مصنف اپنی حصولیابی کا ڈنکا پیٹتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ اپنے دوست، احباب اور ادب نواز اصحاب کی خدمت میں نہایت احترام و خلوص کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ چند دنوں تک یہ کتاب ان افراد کے دیوان خانوں کی زینت بنی رہتی ہے اور پھر کسی ایسی جگہ وہ کتاب پہنچادی جاتی ہے، جہاں دوبارہ ہاتھ نہ جاسکے۔ حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ملک کی اکثر و بیشتر اردو اکادمیوں کا یہی حال ہے کہ وہ مواد کو معیار و اعتبار کی کسوٹی پر نہیں پرکھتی ہیں بلکہ سب کو خوش کرنے کی غرض سے کم و بیش تمام مسودات کو جزوی مالی تعاون کے زمرے میں داخل کردیتی ہیں۔ ایک طرح سے اسے اردو کا نقصان کہا جائے گا۔

آج کل اخبارات و رسائل میں جو تبصرے شائع ہورہے ہیں، وہ اسی روایتی انداز کے حامل ہوکر رہ گئے ہیں۔ پوری کتاب پڑھنے کی ضرورت بھلا کہاں۔ مبصر تو بس کتاب کی سرسری ورق گردانی کرتا ہے۔ پیش لفظ یا مقدمہ پر ایک نظر ڈالتا ہے اور مشمولات کی فہرست کی روشنی میں تبصرہ لکھ ڈالتا ہے۔ ہمیں یہاں رضا نقوی واہیؔ کا ایک مصرع یاد آرہا ہے جو انھوں نے تبصرہ نگاری کی موجودہ روش پر طنز کرتے ہوئے موزوں کیا تھا کہ ”پڑھ کے لکھا تو تبصرہ کیا ہے“ ظاہر سی بات ہے کہ مبصر عام طور پر پوری کتاب نہیں پڑھتا ہے۔ ممکن ہے کہ بعض مبصرین کتاب کے ایک ایک لفظ کو پڑھتے ہوں، لیکن ایسے افراد کی تعداد کم ہی پائی جاتی ہے۔ ملک کے بعض پیشہ ور مبصرین کی حالت تو یہ ہے کہ وہ ایک ہفتے میں چار تا پانچ کتابوں پر تبصرے لکھ ڈالتے ہیں۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کیا وہ ان کتابوں کو از ابتدا تا انتہا پڑھ پاتے ہوں گے۔ اب یہ ایک المناک صورت حال بن چکی ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ یہاں تبصرہ نگاری کے فن اور اس کی خصوصیات کے حوالے سے چند سطور لکھنا چاہتا ہوں، ممکن ہے کہ قارئین اور خصوصاً مبصرین کو پسند آئے۔ تبصرہ کس انداز سے کیا جانا چاہئے اس پر نگاہ ڈالتے ہیں۔

مبصر کو چاہیے کہ جب وہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ میں لے تو سب سے پہلے اس کے ظاہری حُسن اور گیٹ اپ پر نظر ڈالے۔ پھر اس کے بعد کتاب میں موجود مصنف کا لکھا ہوا پیش لفظ، کسی ناقد کا لکھا ہوا مقدمہ یا اس کتاب کے متعلق اس کی ناقدانہ رائے پر توجہ مرکوز کرے۔ اس کے بعد ایک ایک مضمون کو پڑھتا جائے اور جہاں جہاں کچھ نئی باتیں اسے نظر آئیں، اسے الگ کاغذ پر صفحہ نمبر کی نشاندہی کے ساتھ لکھتا جائے۔ اگر اس مضمون میں کہیں کوئی متنازعہ جملہ ہو یا قواعد کی کوئی غلطی ہو تو اس کی نشاندہی کرے۔ اگر شعر کا متن درست نہیں لکھا گیا ہو تو اس کی تصحیح کرنے کی بھی کوشش کرے۔ اگر اقتباس کی فراوانی ہوتو مصنف کی توجہ اس جانب مبذول کرائے کہ اقتباس کی بہتات درست نہیں ہے۔ جہاں کہیں جملے بے ربط ہوں تو اس کی وضاحت ہونی چاہیے۔ زبان و بیان کی کہیں غلطی ہوتو مبصر کو اس کی صحت کی جانب اشارہ کرنا چاہیے۔ تذکیر و تانیث سے بھی مصنف کو واقف کرانا چاہیے۔ علاوہ برایں مصنف کے قلم کی جولانی، جوانی اور اُسلوب نگارش کے حوالے سے بھی ایماندارانہ رائے قائم کی جانی چاہیے۔ اگر اس کا اُسلوب دلکش اور طرز نگارش اچھا ہے تو اس کی تحسین وستائش کی جانی چاہیے اور اگر اس کی مبان دقیق اور عربی و فارسی آمیز ہے تو اس کی وضاحت بھی کردینی چاہیے۔ اگر کتاب میں لفاظی سے کام لیا گیا ہو تو مصنف کو اس سے بچنے کی رائے دینی چاہیے کہ آئندہ وہ اس کمی کو دور کرسکے۔ مختصر لفظوں میں یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ تبصرہ بالکل غیر جانبدارانہ ہونا چاہیے جس سے مصنف کی خوبیاں اور خامیاں دونوں کھل کر سامنے آجائیں۔ قاری کو گمراہ کرنے سے احتراز کرنا چاہیے۔ یہاں ماہر القادری کے ذریعہ لکھا گیا ایک تبصرہ کا جزوی حصہ پیش کرنا مناسب سمجھتا ہوں، جو انھوں نے اسعد گیلانی کے ناول ”جہنم کے دروازوں پر“ کے متعلق لکھا تھا جو قاران کراچی کے شمارہ اکتوبر 1950 ء میں شائع ہوا تھا، وہی تبصرہ ماہنامہ شاعر کے شمارہ جنوری 2019 ء کے صفحہ نمبر 22 اور 23 پر چھپا ہے۔ جناب ماہر القادری اس تبصرے میں ایک جگہ اسعد گیلانی کی زبان و بیان کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

(صفحہ 260) ”ایک پاگلانہ نعرہ لگاتا ہوا نرسنگ سپاہی ایک ایک مریض کی چار پائی کو ہلارہا تھا“۔ ”پاگلانہ نعرہ“ کس قدر ”وجدان خراش“ ترکیب ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ سپاہیانہ بولتے ہیں تو ”پاگلانہ“ میں کیا حرج ہے۔ حرج یہ ہے کہ سپاہیانہ بولا جاتا اور پاگلانہ بولا نہیں جاتا۔ یہ ترکیب نامانوس اور غریب ہے۔ (صفحہ 265)۔ ”گھٹاکی سی گنگھوریت“ یہ گنگھوریت جیسے کسی نے وجدان میں نشتر چبھودیا ہو۔ توبہ (صفحہ 274) ”ہم نے ایک ساتھ خوابناک کشتیاں ملائم اور گداز پانیوں میں چلائی تھیں“۔ پانی صاف، گدلا، میٹھا، کھارا ہوتا ہے مگر گداز اور ملائم اس کی صفت پہلی بار سننے میں آئی۔ شاید مصنف کو سخت اور کھردرے پانی سے بھی کہیں سابقہ پڑا ہو(صفحہ 304) ”ایک پہر گمشدگی بڑھی“ ”موج گمشدگی“ لکھنا چاہیے تھا۔ گمشدگی (فارسی لفظ) کے ساتھ ”لہر“ (اردو لفظ) کی اضافت درست نہیں (صفحہ 307) ”میری روح اُمیدوں اور طفل تسلیوں کے ایک شکستہ ڈھانچے کی صورت میں ڈھیر ہورہی تھی“۔ ”روح کا ڈھیر ہونا“ نہ کوئی محاورہ ہے اور نہ کیفیت کی صحیح ترجمانی ہے۔ (صفحہ 308) محبوب کے سامنے اپنی مادر زاد عریانی میں کھلکھلاکر ہنستے ہیں۔ حروف جار نے پورے جملے کو مہمل بنادیا۔ (ماہنامہ شاعر ممبئی جنوری 2019 ء صفحہ 23) یہاں ماہر القادری بھی ”لہر“ کو اردو بتاکر غلطی کرگئے۔ لہر ہندی لفظ ہے جو موج تلاطم کے معنی میں استعمال ہوتی ہے۔ اس اقتباس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ایک غیر جانبدارانہ، ایماندارانہ اور عالمانہ تبصرہ کیسا ہونا چاہیے۔ ماہر القادری نے مصنف کی زبان و بیان کی غلطیوں کی شدید گرفت کی ہے۔ صحیح الفاظ اور محاوروں کی نشاندہی کی ہے اور کہیں کہیں طنز کی شدید ضرب بھی لگائی ہے۔

تبصرہ لکھتے وقت یہ بھی خیال رکھنا چاہیے کہ جس مقصد کے تحت کتاب لکھی گئی ہے اس کی تکمیل ہوتی ہے کہ نہیں، اگر نہیں ہوتی ہے تو مبصر کو یہ بھی بتادینا چاہیے کہ کتاب اپنے اصل محور سے دور جاچکی ہے۔ غیر ضروری انگریزی، ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال سے احتراز کرنے کا مشورہ بھی تبصرے میں شامل ہونا چاہیے کیوں کہ بہت سے فاضل مصنفین اپنی قابلیت کا دھونس جمانے کے لیے عام اُردو الفاظ کے لیے انگریزی کے الفاظ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ان الفاظ کے نعم البدل اُردو میں موجود ہیں اور خوب مستعمل ہیں۔ پیچیدہ اور طویل جملوں میں مافی الضمیر ادا نہ کرکے آسان اور چھوٹے چھوٹے جملوں میں اپنی بات کہی جاسکتی ہے۔ اس پر بھی مبصر کی نظر رہنی چاہیے۔ محاوروں، صنائع و بدائع اور تشبیہات کا اگر خوبصورت استعمال ہوا ہوتو اس کے لیے مصنف کی ستائش کرنی چاہیے۔ عبارت فلسفیانہ نہ بن جائے، اس کا مشورہ بھی تبصرہ میں ہونا چاہیے۔ مبصر کو چاہیے کہ وہ مصنف کو یہ بھی بتائے کہ پیچیدگی، اُلجھاؤ اور وہ جسے دور کی کوڑی لانا کہتے ہیں طرز نگارش کی خوبی نہیں ہے بلکہ سادگی، شوخی اور پُرکاری سے تحریر میں جان پڑتی ہے۔ یہ چند موٹی موٹی باتیں اگر مبصر کے پیش نظر رہیں تو وہ ایک اچھا تبصرہ نگار بن سکتا ہے اور اس کے تبصرے سے مصنف کی مستقبل کی ادبی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ یہ نہیں بولنا چاہیے کہ تبصرہ میں تنقید بھی شامل ہوتی ہے۔

آج کل کے تبصروں میں تبصرے کا ایک چوتھائی حصہ مصنف کی حصولیابی، تعارف اور اس کے اعزازات اور انعامات پر مشتمل ہوتا ہے۔ تبصرے کا نصف سے زائد حصہ مضامین کے عنوانات لکھنے اور اس کتاب کی ستائش میں صرف ہوجاتا ہے اور باقی کا آخری حصہ یہ لکھنے میں پورا ہوجاتا ہے کہ ”یہ کتاب ادب کے ذخیرے میں ایک اہم اضافہ کا درجہ رکھتی ہے اس کے لیے مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں“۔ حالانکہ تبصرے میں کتاب کے گیٹ اپ، جلد سازی، کمپوزنگ، پروف ریڈنگ، قیمت، ملنے کے پتے وغیرہ کا ذکر بہت کم ہی ہوتا ہے۔ جبکہ ان کا اندراج ہونا چاہئے تاکہ اگر کسی قاری کو اس کتاب سے دلچسپی ہو اور وہ اسے خریدنا چاہے تو خرید سکے۔

ہمارے متقدمین اور ناقدین کتابیں پڑھ کر تبصرے لکھا کرتے تھے۔ کتابیں شائع ہونے سے قبل مختلف ماہرین کی نظروں سے گزرتی تھیں۔ وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے تھے۔ اپنی دوٹوک بات کہہ جاتے تھے جس میں کسی طرح کی جانبداری کو دخل نہیں ہوتا تھا۔ ان کی آراء کی روشنی میں مصنف اپنی کتاب میں ردوبدل کیا کرتا تھا۔ پھر وہ کتاب زیورِ کتابت سے آراستہ ہوکر مطبع کے حوالے ہوجاتی تھی۔ جب کتاب چھپ کر منظر عام پر آتی تو سب سے پہلے مصنف اپنی کتابیں ہندوستان کے مختلف شہرت یافتہ کتب خانوں کو بھیجتا تھا اور کچھ کتابیں ناقدین، محققین اور ماہرین علوم و فنون کی خدمت میں ارسال کرتا تھا مگر وہ ان ماہرین اور محققین سے اصرار نہیں کرتا تھا کہ آپ ہماری کتاب پر چند تعریفی کلمات رقم فرمائیں۔ ناقدین کتاب کو سطر بہ سطر اور حرف بہ حرف بغور پڑھتے تھے اور اس کے بعد جو تاثر ان کے اذہان پر ثبت ہوتا تھا اسے صفحہئ قرطاس پر بغیر جانبداری کے لکھ دیا کرتے تھے۔ ان کے تبصرے عالمانہ اور ناقدانہ ہوا کرتے تھے۔ وہ زبان و بیان، اُسلوب، مواد اور یہاں تک کہ کتابت کے معیار کی بھی پرکھ کرکے اپنی بیباکانہ رائے لکھ کر یا تو صاحبِ کتاب کو بھیج دیتے تھے یا کسی جرنل یا مقبول ادبی رسالے میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیتے تھے۔ مدیر مبصر کی رائے کو ہوبہو شائع کرتا تھا،قارئین اس پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے، اور کتاب کے شائقین اس کتاب کو خریدکر پڑھتے تھے اور پھر اپنی بھی وقیع رائے دیا کرتے تھے۔ اس طرح ایک کتاب کی قدر و قیمت کا تعین ہوا کرتا تھا، اس تخلیق کو استنادی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔

موجودہ دور میں کتاب شائع ہونے سے قبل تبصرے تیار رہتے ہیں۔ جوں ہی کتاب منظر عام پر آئی اسی ہفتے کے اوّل دنوں میں اس کتاب پر تبصرہ یا تو اخبارات میں شائع ہوجاتے ہیں یا رسائل میں چھپ جاتے ہیں۔ مصنف تبصرہ نگار کو پہلے ہی اپنی کتاب کے اوصاف کے متعلق بتادیتا ہے اور وہ اسی کی روشنی میں قصیدہ سرائی کا ایک مکمل نمونہ تیار کردیتا ہے اور پھر اس کتاب پر تبصرہ شائع ہوجاتا ہے۔ تبصرہ نگار مصلحت سے کام لیتے ہوئے ”خطائے بزرگان گرفتن خطا است“ کی روشنی میں اپنی رائے نہایت مثبت انداز سے پیش کرتا ہے۔ اس میں صرف اور صرف جانبداری اور خیر خواہی کا عنصر غالب رہتا ہے۔  عام طور پر اسی انداز کے تبصروں کا رواج آج کل عام ہوچکا ہے جن میں صرف مثبت پہلو کو اُجاگر کیا جاتا ہے اور منفی پہلو عمداً اور مصلحتاً نظرانداز کردیا جاتا ہے یا یہ کہ مبصر کو اس کا علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کتاب میں منفی پہلوؤں کی نشاندہی کرسکے۔ یا وہ خود اس کتاب کے موضوع اور مواد ہی کو نہیں سمجھ پاتا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ اگر تبصرہ نگار کتاب پڑھ کر تبصرہ لکھے گا تب ہی تو اسے علم ہوگا کہ متعلقہ کتاب میں کون سی بات کہی گئی ہے اور کس انداز سے کہی گئی ہے، کیا غلط لکھا گیا ہے اور کیا صحیح۔ مگر افسوس کا پہلو یہ ہے کہ فاضل مبصر کتاب پڑھنے کی زحمت ہی نہیں گوارا کرتا ہے۔ کیوں کہ اس کے پاس وقت ہی کہاں ہے کہ وہ پڑھ کر تبصرہ لکھے۔

آج کا تبصرہ نگار موجودہ دور کا ناقد کہلاتا ہے۔ چار پانچ ماہ پرانا لکچرز جسے آج کی اسسٹنٹ پروفیسر کے نام سے جانا جاتا ہے، جس کے دو مضامین ”آج کل“ اور ”اردو دنیا“ میں شائع ہوجائیں تو وہ خود کو ناقد گرداننے لگتا ہے اور قارئین و ماہرین سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اسے ”ناقد“ کے نام سے مخاطب کریں۔ جسے لفظ انتقاد، تنقید، نقد اور ناقد کی صحیح تعریف اور اس لفظ کا مخرج و مشتق تک نہیں معلوم ہوتا ہے۔ یہی موجودہ دور کے ناقدین بڑی بڑی دانشگاہوں میں علم و فضل کی کرسیوں پر براجمان ہیں۔ موجودہ تنقید کا خدا ہی حافظ ہے۔

اس دور میں مولانا محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور خواجہ الطاف حسین حالی جیسے ناقدین نہ سہی کم از کم انیسویں صدی کے احتشام حسین، کلیم الدین احمد، پروفیسر آل احمد سرور جیسے ناقدین اور قاضی عبدالودود، رشید حسن خاں اور نثار احمد فاروقی جیسے محققین کیوں نہیں پیدا ہورہے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ آج کے نام نہاد اہل علم و فضل اور استادانِ ادب سستی شہرت کے بھوکے ہوچکے ہیں جو محنت و مشقت اور دیدہ ریزی سے کام نہیں لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی میں اب تک ایک بھی کم از کم کلیم الدین احمد جیسا بے باک ناقد اور قاضی عبدالودود جیسا انصاف پسند محقق نہیں پیدا ہوسکا۔ آج کا ادب اس نہج پر لکھا اور لکھایا جارہا ہے جس میں مصلحت پسندی اور احباب پروری کو کافی حد تک دخل حاصل ہے۔ ادب کی جب یہ صورت حال ہے تو تبصرہ نگاری کی کیا کیفیت ہوسکتی ہے، اس کا اندازہ لگانا اہل علم کے لئے مشکل نہیں ہے۔

موجودہ دور میں جس انداز کے کتابوں کے تبصرے لکھے جارہے ہیں انہیں ہم تبصراتی ادب نہ کہہ کر مضحکاتی ادب یا تمسخراتی کہیں تو بہتر ہوگا کیوں کہ ان تبصروں میں جس انداز کی مضحکہ خیزی،تمسخرانہ اور عامیانہ انداز اپنایا جارہا ہے اس سے نہ صرف قاری کا ادبی ذوق خراب ہورہا ہے بلکہ کتاب کی اہمیت اور قطعیت پر بھی سوالیہ نشان لگائے جارہے ہیں۔ کتاب لکھنے کا جو ایک خاص رجحان ان دنوں دیکھنے میں آرہا ہے وہ یہ کہ مصنف چاہتا ہے کہ جلد از جلد کتاب کے ابواب مکمل ہوجائیں اور وہ کتاب شائع کراکر صاحبِ کتاب بن جائے۔ اسی لیے موجودہ دور میں شائع ہونے والی کتابوں میں دیگر مصنفین کی کتابوں کے اقتباسات ہی نصف سے زیادہ کتاب کا حصہ ہوتے ہیں۔ اگر افسانہ نگاری کے فن پر کوئی کتاب لکھی جارہی ہے تو اس میں مزید آسانی کی گنجائش ہوتی ہے۔ بھاری بھر کم افسانوی مکالمے، لمبے لمبے اقتباس اور ناقدین کی تنقیدی آراء سے مزین مجوزہ کتاب بہت جلد زیرطبع ہوجاتی اور زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آجاتی ہے۔ مصنف کی بس اتنی محنت ہوتی ہے کہ وہ مختلف کتابوں سے اقتباسات نقل کرکے اور ناقدین کی رائے اخذ کرکے اپنے مخطوطے میں ضخامت پیدا کرلیتا ہے۔ اس کے حصے کی صرف پچیس فیصد ہی محنت کتاب کی تیاری میں ہوتی ہے اور جب کتاب تیار ہوجاتی ہے تو کسی ہم خیال اور ہم مزاج دوست ادیب کی اس پر مبسوط رائے کے طور پر پانچ تا دس صفحات پر مشتمل ستائشی تحریر اپنی کتاب کے ابتدائی صفحات میں شامل کرلیتا ہے۔ اس طرح وہ کتاب شائع بھی ہوجاتی ہے اور وہ ایک مستند ادیب اور اکیسویں صدی کا ناقد بھی بن جاتا ہے۔

آج کا ادب مختلف خانوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ جس طرح کا ادب ابھی لکھا جارہا ہے اسے ہم درج ذیل عنوانات سے یاد کرسکتے ہیں۔ سمیناری ادب، کانفرنسی ادب، توصیفی ادب، شخصی ادب اور مکتوباتی ادب وغیرہ۔ کچھ ادیب ایسے ہیں جن کے صرف تاثراتی خطوط ہی رسالوں میں چھپتے ہیں اور وہ اس کے توسط سے سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر کسی رسالے میں مکتوب نگار کے دوست یا ان کے گروہ کے کسی فرد کا مضمون چھپ گیا تو صرف اسی کی تعریف ان کے خط میں رہتی ہے۔

تبصراتی ادب کو بھی ہم مختلف اقسام میں بانٹ سکتے ہیں۔ مثلاً تاثراتی تبصرہ، تمسخراتی تبصرہ، تعریفی تبصرہ، سفارشی تبصرہ، ذاتیاتی تبصرہ، مکالماتی تبصرہ، مصاحاتی تبصرہ (انٹرویو پر مشتمل) اور لفاظی تبصرہ وغیرہ۔ ان تمام اقسام کے تبصروں میں ایک بات قدرے مشترک کے طور پر پائی جاتی ہے وہ یہ کہ اس میں جانبداری کا عملی دخل ضرور ہوتا ہے کیوں کہ جو تبصرہ کرتا ہے وہ چاہتا ہے کہ جب اس کی کتاب شائع ہوتو اس پر بھی ہماری موافق تبصرہ لکھا جائے۔ اس طرح ”من ترا حاجی بگویم تو مرا مد بگو“ کے مصداق تبصرے دھڑلے سے لکھے جارہے ہیں۔ سابقین اور معاصرین میں فرق یہ ہے کہ پہلے تبصرے عالمانہ لکھے جاتے تھے اور آج وہی تبصرے عامیانہ لکھے جارہے ہیں۔

اس ضمن میں ایک نکتے کی طرف اشارہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کا کام ہی صرف تبصرہ نگاری ہے۔ اُردو کا جو بھی پرچہ اُلٹیے اس میں ان مخصوص افراد کا نام ان صفحات میں ضرور مل جائے گا جو تبصرہ کے ضمن میں مخصوص ہوتے ہیں۔ انھیں صرف اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ اس بہانے رسالوں میں ان کے نام شائع تو ہوگئے اور قارئین ان کے نام سے آگاہ بھی ہوگئے۔ اسی طرح کچھ ادیبوں کی کمزوری مکتوب نویسی ہوتی ہے۔ کسی رسالے کے چند مضامین سرسری طور پر پڑھ کر اپنی رائے ثبت فرمادیتے ہیں، جس میں مدیران کے لیے تعریفی کلمات بھی ہوتے ہیں اور یہ عبارت خاص طور پر موجود رہتی ہے کہ ”آپ کا رسالہ دن بہ دن خوب سے خوب تر ہوتا جارہا ہے، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔ آپ کا اداریہ ادبی اور سماجی مسائل کا آئینہ دار ہوتا ہے اور آپ کی نظموں اور غزلوں کا انتخاب نہایت عمدہ ہوتا ہے۔ خدا آپ کی عمر دراز کرے“۔ ایسے ہی دروغ پسند ادیب رسائل میں جگہ پاتے ہیں۔ اگر وہ رسائل کے منفی پہلوؤں کا ذکر کردیں تو مدیر حضرات اسے حذف کردیتے ہیں کیوں کہ مدیران رسائل بھی خود اُصول پسند اور صداقت بیان کم ہی ہوتے ہیں۔ مدیران اپنے منفی پہلوؤں کو شائع کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتے، بھلا انھیں اپنے رسائل میں جگہ کیسے دے سکتے ہیں۔

آج کی تبصرہ نگاری تعریفی اور سفارشی تبصرہ نگاری بن کر رہ گئی ہے جس میں لفاظی اور لچھے دار جملوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ آج کل اُردو میں 80 فیصد ایسی کتابیں شائع ہورہی ہیں جو صرف ٹائٹل کی وجہ سے باعث کشش ہوتی ہیں۔ ورنہ کتاب کے اندر مواد اتنا کمزور اور سطحی ہوتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اسے دوبارہ کھولا ہی نہ جائے اور کوڑے کی نذر کردیا جائے۔ ہندوستان میں اُردو کے چند ایسے ادیب بھی ہیں جن کی ہر چند ماہ میں ایک کتاب ضرور شائع ہوجاتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی تیز رفتاری اور سرعت مزاجی سے جب کتاب شائع ہوگی تو اس کا حشر کیا ہوگا۔ اس طرح تبصرہ نگار بھی زود نویسی اور خوب نویسی کا مظاہرہ کرکے ہر ماہ چار پانچ کتابوں پر تبصرے ضرور لکھ لیتا ہے اور یہ پروفیشنل تبصرہ نگار کہلاتا ہے۔ جسے تبصرے لکھنے کے لیے یا تو مصنف پیسے دیتا ہے یا پبلشر۔ بس خدا سے یہی دعا ہے کہ تبصرہ نگاری کے موجودہ رجحان سے ادیبوں کی دلچسپی اس جانب موڑ دے کہ وہ کچھ ادبی کام کرسکیں اور خالص ادب تخلیق نہ کرسکیں تو کم از کم حق بیانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صحت مند تنقید لکھ سکیں۔

٭