امین جالندھری۔ حیدر آباد سندھ

اس دنیا میں جینے کے بہت سے ڈھنگ ہیں۔ جن میں نزاکت،شرافت، دیانت اور متانت کے حامل افراد اپنی مساعی جمیلہ سے انسانی زندگی میں رنگ مسرت اور آگہی کو عام کرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کا مداح ہوں جو اپنے اسلاف کے زریں کارناموں کو اجاگر کرنے کی ہر دم سعی کرتے ہیں۔ علم و ادب کے ایوانوں میں اپنے اسلاف کے کارناموں کو قرطاس پر منتقل کرنے والے ہمیشہ ہی معتبر رہے ہیں۔ آج کے دور میں اسلاف کی اہمیت کو اجا گر کرنا خاصا مشکل کام ہے اس لئے کہ بے حسی کی چادر نے ہمارے معاشرے کو مکمل طور پر ڈھانپ رکھا ہے۔ ہر ادارہ من مانی کر رہا ہے۔ نقلی اور غیر معیاری اشیاء ہر موڑ پر وافر تعداد میں موجود ہیں۔ فاسدین ادب نے جا بہ جا ادبی فیکٹریاں قائم کر رکھی ہیں۔ جعلی ڈگریاں ہر جگہ دستیاب ہیں اور اب تو مال لے کر پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی مل جاتی ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے کہ جب شعراء عوام دوستی کا دم بھرتے تھے۔ اب وہ اپنا دم غنیمت جانتے ہیں علم حاصل کرنے سے بھاگتے ہیں اور ادبی محافل کو جعلی صدر دیتے رہتے ہیں۔ ایسے میں کسی نایاب بلند پایہ عظمت کے مینار اور زندگی کو مسرت عطا کرنے والے افرادکا ذکر سن کر ہی بہت سے قابل منہ بنانے لگتے ہیں۔ اس کے بر عکس شائستہ اطوار ذہن اور فکر رسا کے حامل فردِ فرید اپنے اسلاف کے بارے میں ادب کے طالب علموں کے لئے اک گراں قدر تحفہ دینے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔ آج ہم محترم نفیس فاطمہ کے گنج ہائے گراں مایہ جناب قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی کے بارے میں بلند پایہ مقالہ کو زیر بحث لائیں گے کہ کس طرح ادب کی ترویج و ترقی میں نامور ادیب اور محقق نے کیا شاندار خدمات انجام دی ہیں۔ یہ اہم کاوش احوال و آثار کے عنوان سے کتابی شکل میں آئی ہے۔ اس کتاب کا حرف حرف اس بات کا گواہ ہے کہ پروفیسر نسیم فاطمہ نے خون جگر صرف کیا ہے تو بہار آئی ہے۔ یہ کتاب علمی مہارت کی حامل ہے۔ ادب میں کشادہ نگا ہی کی ضامن ہے۔ زبان و بیاں پر دسترس شبستان خیال کی دل افروزی بڑھاتی ہے۔ شعر و ادب اعلیٰ ذوق کا غماز کیسے بنتا ہے۔ انجمن آرائی داستاں سرائی کا حصہ بنتی ہے۔ یہ انداز، بانکپن، ندرت خیال فطرت انسانی میں امنگوں ولولوں اور عزائم کو زندگی کے حسین رنگوں کو والہانہ اندازِ فکر عطا کرتا ہے تازگی فکر یہ ہے کہ اس کی تاثیر ہر دور میں روشن اور درخشاں رہے۔ جدید نسل اپنے اہل علم و دانش مندوں کے کارناموں سے واقف ہو اور اپنی زندگیاں روشن اور منور کرنے کی تگ و دو میں علمی دانش کوکام میں لائیں۔ کچھ جھلکیاں فتو حات اختر سے وارثان علم و ادب کے لئے۔

٭اسلامی تاریخ، اسلامی تہذیب کا کوئی پہلو ہو عربی فارسی شعر و ادب کا کوئی مسئلہ ہو طب یا موسیقی کا کوئی موضوع ہو، مغربی ادبیات کا کوئی گوشہ قاضی صاحب ان میں سے کسی بھی مضمون میں بند نہ تھے۔ ٭ قاضی صاحب کا خاندان اصل ٹھٹھہ کا تھا۔ فرخ سیر کے دور میں ٹھٹھہ سے منتقل ہو کر کاٹھیا واڑ گئے اور درس و تدریس کا مشغلہ اختیار کیا۔ ٭ تحقیق کے مردِ میدان تھے دوسرے اہل علم کی مانند محض زاہد خشک نہ تھے۔ ٭ دل کھول کے ہنستے قہقہہ لگاتے اور بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرتے۔ ٭ بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے قائل نہ تھے۔ ٭ وہ علم کے شیدائی علم دوست اور اہل علم کے قدر دا ن تھے۔ ٭ خواجہ غریب نواز کی تصانیف میں دیوانِ معین بھی بتایا جا تا ہے۔ ٭ خواجہ صاحب نہ شاعر تھے اور نہ کوئی شعر ان سے منسوب ہے۔ ٭ یہ دیوان اصل میں ملا معین ہردی کا ہے جو ایک مشہور شیعہ عالم واعظ اور شاعر تھے۔ ٭ حضرت امیر خسرو نے اٹھارہ نئے راگ ایجاد کئے۔ ٭مرد نگ اور طبلہ ان کی ہی ایجاد ہے۔ ٭ اردو شاعری میں ہر قلم اٹھانے والے نے اقبال کو حالی اسکول کا پیرو کار یا نمائندہ بتایا ہے۔ ٭ اقبال کسی دبستان شاعری کے ہیرو نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنا دور خود پیدا کیا اس لحاظ سے وہ ایک عہد آفریں شاعر تھے۔ ٭ چچ نامہ کے بعد تاریخ معصومی لکھی جوچچ نامہ کے بعد سندھ کی دوسری اہم کتاب ہے۔ ٭ حضرت امیر خسرو اس کثر ت علم و فضل و فنی مہارت کے ساتھ نہایت ہی متقی پر ہیز گار اور مستقل مزاج صوفی تھے۔ فارسی شاعر محمد جان قدسی کے حالات میں لکھا ہے کہ اس نے ایک رنگین قصیدہ بادشاہ کی مدح میں لکھ کر پیش کیا تو اس کے صلے میں بادشاہ نے مختلف قسم کے جواہرات منگا کر سات مرتبہ شاعر کا منہ بھر دیا۔ ٭ قاضی صاحب محقق حضرات میں ایک امتیاز، ہمہ جہت، شخصیت اور مقام کے حامل ہیں۔ وہ بیک وقت عربی، فارسی اور سندھی، گجراتی زبانوں پر کامل عبور رکھتے ہیں۔ ٭ قاضی صاحب ان تمام زبانوں میں تحریر و تقریر پر قادر تھے۔ ٭ علمی زندگی کا آغاز1914ء میں ایک شاعر اور انشاء پر داز کی حیثیت سے ہوا۔ ٭ لمعات اختر غیر ملکی منظومات کے ترجمے اورطبع زاد نظموں پر مشتمل تقسیم سے پہلے شائع ہوا۔ ٭ سی پارہ دل ان کی تیس غزلوں کا مجموعہ ہے۔ ٭ زر گل انشائیوں کامجموعہ۔ ٭ ن م راشد نے اپنی خود نوشت میں ایک جگہ لکھا ہے۔ اردو میں پہلا سانیٹ اختر جونا گڑھی نے لکھا۔ ٭ وہ بیک وقت عربی فارسی اردو انگریزی ہندی گجراتی، زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ٭ وہ ریاست کے محکمہ آثارِ قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل اور جو نا گڑھ شہر کے میئر بھی تھے۔ ٭ محمد بن قاسم کے زمانے میں ان کے اجداد عرب سے آئے، جو صدیقی النسل تھے۔ ٭ قاضی صاحب کے تحقیقی مقالات گراں قدر تحقیق کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ ٭ مقالات اختر ان چند نادر علمی شہ پاروں میں شامل ہے۔ رب کریم جب کسی قسم سے خوش ہوتے ہیں تو اس معاشرے میں اچھے لوگوں کی کثرت ہو جاتی ہے جو اپنے میں سے اعلیٰ و ارفع اکابرین کو فلاح انسانیت کے لئے کام کرنے کے لئے اکساتے ہیں۔ اور ان میں عقابی روح پیدا کرتے ہیں۔ یہ نفوس قدسیہ صحن گلشن میں پھولوں کی طرح سے خوشبو علم و ادب عام کرتے ہیں اپنے سچے جذبوں اور عزائم سے عوام الناس کی بہتری کے لئے جتن کرتے ہیں۔ روشن دلوں میں فکر کا دیا جلا تے ہیں۔ رنگیلے شعر نہیں کہتے بلکہ متانت، بردباری اور وقار سے معاشرتی برائیوں کو حل کرتے ہیں اور حیرت انگیزباب ادب کھولتے ہیں کہ دل اش اش کر اٹھتا ہے اختر جونا گڑھی نے ادب میں ستارے ٹانکنے کا اہم فریضہ ادا کیا۔ ان کی فکر رسا، کس قدر اہمیت کی حامل تھے۔ وہ اپنی بات کیسے کہتے ہیں اس انداز و پیش کش کے قربان جائیے۔ گجراتی شاعر علی احمد آبادی کے لئے خدائے سخن میر کا شعر کیسے نگینے میں فٹ کیا ہے۔ دیکھئے۔

؎

یونہی نہیں ہم عاشق اس ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا

اختر جونا گڑھی کی ذات والا صفات میں یہ تین عادتیں موجود تھیں۔ سخاوت دریا کی طرح شفقت آفتاب کی طرح اور تواضع زمین کی طرح۔ ان صفات عالیہ نے ان کے علمی تحبر میں اضافہ کیا۔عوام کی محبت عطا کی اور اک عالم میں آپ کی شہرت کا ڈنکا بجا۔ ولی گجراتی پر تحقیق میں چابک دستی، ہنر مندی، قوت بیاں اور ندرت خیال نے چار چاند لگا دیئے ایسا کیوں نہ ہوتا۔ اختر جونا گڑھی صوفی مزاج تھے ذات باری کو محبوب ازلی جانتے تھے /مانتے تھے۔ سو مقامات عشق میں انہیں اک خاص کمال حاصل تھا۔ ان کو ظاہری ڈگریوں کے بجائے محض علم و فضل کی بناء پر کسی یو نیورسٹی میں استاد مقرر کیا گیا۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے کیا خوب کہا ہے۔ 1938؁ء کے آخر میں جب ذہن علم و فضل کی راہیں تلاش کر نے لگا تو بعض قد آور شخصیات نظر آنے لگیں جن میں بالخصوص قاضی احمد میاں اختر نمایاں تھے۔ ڈاکٹر ممتاز حسن کا فرمان دیکھئے گا۔ قاضی اختر میاں جونا گڑھی نہ صرف صوم و صلوٰۃ کے پابند تھے بلکہ اسلا م کی روح سے ہم آہنگ تھے عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوز دروں دونوں چیزیں خدا نے انہیں عطا کی تھیں۔ ہادی مچھلی شہری کے شاگرد نے کہا حضرت سبحان اللہ قاضی صاحب بھی کیا آدمی ہیں اس پر ہادی صاحب نے فرمایا میاں کیا پوچھتے ہو پورا ہندوستان ویران ہوا تب جا کر یہ کراچی آباد ہوا۔ الطاف علی بریلوی نے لکھا قریب قریب ہر ایک علم و فن پر قیمتی معلومات ان کی نوک زباں تھیں نصر اللہ خاں نے اپنے خاکے میں لکھا ہے۔ قاضی صاحب تو ایک سمندر تھے اور سمندر پر پل کون باندھ سکتا ہے۔

اردو ادب کے حسن و جمال کا نہایت ہی عمدہ ذخیرہ قاضی اختر جونا گڑھی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے جس نے اردو ادب کی ثروت میں خاصا اضافہ کیا ہے اور وارثان علم و ادب کو حیرتوں کے اک نئے جہاں سے واسطہ رہے گاجس میں سلیقے قرینے متانت، دیانت داری اور علمی تجربہ کے انوکھے دلچسپ اور نادر روزگار امکانات وافر انداز میں ملیں گے۔ آج تک ان کا خلاء کوئی پر نہیں کر سکا۔ یہ علم ہی ہے جو انسان کو اعلیٰ منزلوں سے روشناس کراتا ہے۔ اے وارثانِ علم و ہنر اک جملہ ملفو ظات حضرت معین الدین چشتی آپ کی نذر میں اس مقام کا سفر کرتا ہوں جو میرا مدفن ہے یعنی اجمیر شریف۔

آج ہمارے معاشرے کا حال بے بسی اور بے کسی ہے جہاں برسوں ہوئے نیکی کرنے کے ثمرات گم ہیں اور بدی ہمارے کاندھوں پر چڑھ کر بو ل رہی ہے اس بے حس سماج میں ہماری قابل صد احترام اور بے بہا ستائش کی حق دار عزت مآب پروفیسر رئیس فاطمہ نے علم و ادب کو جو گل دستہ اختر جونا گڑھی عطا کیاہے جو تادیر دلوں کو برماتا اور گرماتا رہے گا۔ آج کا طبقہ نسواں سب سے زیادہ سسرال کا نوحہ پڑھنے میں مصروف ہے اس کے بر عکس ہماری رئیس فاطمہ نے اپنے سسر محترم پر گراں قدر مقالہ پیش کر کے ثابت کر دیا ہے کہ تہذیبی رویوں کے امین اور دلداہ ہمیشہ حق و سچ کو دہراتے رہیں گے۔ آخر میں اک جملہ اہل کراچی کے لئے اے پیارے لوگو تمہارا پیارا شہر ہر دور میں ایدھی پیدا کرتا رہے گا۔ آج اد ب کا متفقہ ایدھی ہے سیدی معراج جامی اللہ کریم انہیں تادیر سلامت و با کرامت رہے۔

آخر میں دو شعر محمد خاں اشرف

؎

داستاں دل کے اجڑنے کی بیاں ہو کیسے

نہ مؤرخ، نہ مغنی نہ میں شاعر جاناں

غم اٹھانے کا اسے لپکا پڑا ہے ایسا

دل ہر اک زخم پہ کہتا ہے مکرر جاناں