ن۔و

 

بیسویں صدی میں اردو ڈرامے نے نمایاں ترقی کی اور ادب کے اس صنف کو نئے رنگ اور نئے موضوعات دیے۔ اس صدی کے آغاز میں جہاں زیادہ تر ڈرامے اخلاقی اور تعلیمی موضوعات پر مبنی تھے، وہیں وقت کے ساتھ ساتھ معاشرتی، سیاسی اور سماجی مسائل پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ اس صدی کے اردو ڈرامے کی تاریخ کو کئی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن میں ابتدائی دور، ترقی پسند تحریک، اور جدید دور شامل ہیں۔

ابتدائی دور

بیسویں صدی کے ابتدائی دور میں اردو ڈرامہ زیادہ تر تعلیمی اداروں اور سٹیج پر پیش کیے جانے والے ڈراموں تک محدود تھا۔ اس دور کے ڈرامے اکثر معاشرتی مسائل، اخلاقی تعلیمات، اور مذہبی موضوعات پر مبنی ہوتے تھے۔ اس وقت کے نمایاں ڈرامہ نگاروں میں آغا حشر کاشمیری کا نام سر فہرست ہے۔ ان کے ڈرامے “رستم و سہراب” اور “سیدا کی بیٹی” نے لوگوں کو نہ صرف تفریح فراہم کی بلکہ سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔

ترقی پسند تحریک

ترقی پسند افسانے کا یہ احسان ہے کہ اس نے ادیبوں کو زمینی حقائق اور مسائل کی طرف متوجہ کرنے کا اہم ترین کام کیا۔ عورتوں میں شخصی آزادی اور تشخص کی پہچان کا شعور پیدا ہوا تو ہندوستانی عورت اپنے روایتی منصب سے باہر نکلی۔ اس وقت کے ادیبوں کے ہاں تعلیم یافتہ، مزدور، مظلوم، استحصال کا شکار، طوائف اور گھریلو معصوم عورت کے کردار نظر آتے ہیں۔ بیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ عالمی ادب سے آگاہی کے باعث تھوڑا بے باک ہوا تو ڈرامے میں بھی عورت اپنے اصل سماجی مناصب کے ساتھ جلوہ گر ہوئی۔

عصمت چغتائی، رشید جہاں، حکیم احمد شجاع، امتیاز علی تاج، عشرت رحمانی، سید عابد حسن، کرشن چندر، اوپندر ناتھ اشک اور دیگر ڈرامہ نگاروں کے ہاں عام عورت محبوبہ، بیوی، بہن بیٹی اور ماں کے کرداروں میں نظر آنے لگی۔ قیام پاکستان کے بعد اسٹیج ڈراما معدوم ہو گیا جو پہلے ہی آخری سانسیں لے رہا تھا اور ریڈیو نے ڈرامے کو سنبھالا دیا ہوا تھا۔ لہٰذا اس وقت ڈرامے بہت کم تحریر ہوئے اور جو ہوئے بھی تو وہ سامعین کو تفریح مہیا کرنے کی غرض سے لکھے گئے لیکن ڈرامے میں کوئی نہ کوئی اصلاحی پہلو ضرور بیان کیا جاتا۔ اس کے مدمقابل افسانہ اس وقت کے خلفشار، قومی تشخص، عورت کے مسائل، خاندانی شیرزاہ بکھرنے کے مسائل اورمرد و عورت کے تعلقات کی عکاسی بہت خوبصورت طریقے سے کررہا تھا۔ ۲۵؍نومبر ۱۹۶۴ء کو پاکستان ٹیلی ویژن کا افتتاح ہوا اور اردو ڈرامے کے درخشندہ دور کا آغاز بھی۔

بیسویں صدی کے درمیانی عرصے میں اردو ادب پر ترقی پسند تحریک کا گہرا اثر پڑا۔ اس تحریک کے زیر اثر لکھے جانے والے ڈرامے معاشرتی ناانصافی، غربت، طبقاتی تقسیم، اور انسانی حقوق جیسے موضوعات پر مبنی تھے۔ اس دور کے نمایاں ڈرامہ نگاروں میں سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، اور راجندر سنگھ بیدی شامل تھے۔ ان لکھاریوں نے اپنے ڈراموں کے ذریعے سماج کے نچلے طبقے کی زندگی کو اجاگر کیا اور ان کی مشکلات کو بیان کیا۔

جدید دور

بیسویں صدی کے آخری حصے میں اردو ڈرامہ نئی جہتوں میں داخل ہوا۔ ٹیلیویژن کی آمد نے ڈرامے کو ایک نئی شکل دی اور اس نے گھروں میں جگہ بنائی۔ اس دور کے نمایاں ڈرامہ نگاروں میں اشفاق احمد، بانو قدسیہ، اور انور مقصود شامل تھے۔ اشفاق احمد کے ڈرامے “من چلے کا سودا” اور بانو قدسیہ کا “راجہ گدھ” نے لوگوں کے دلوں میں گہری جگہ بنائی۔

ٹیلیویژن اور اردو ڈرامہ

ٹیلیویژن کی آمد نے اردو ڈرامے کو مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچایا۔ 1980 کی دہائی میں پاکستان ٹیلیویژن (پی ٹی وی) کے ڈرامے لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ بن گئے۔ اس دور کے مشہور ڈراموں میں “تنہائیاں”، “دھوپ کنارے”، “ان کہی”، اور “وارث” شامل ہیں۔ ان ڈراموں نے نہ صرف ناظرین کو تفریح فراہم کی بلکہ سماجی مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔

تھیٹر اور اسٹیج ڈرامہ

بیسویں صدی میں اردو اسٹیج ڈرامہ بھی کافی مقبول ہوا۔ اسٹیج ڈرامہ کی دنیا میں معروف ناموں میں انور مقصود، معین اختر، اور عمر شریف شامل ہیں۔ انور مقصود کے ڈرامے “آنگن ٹیڑھا” اور “ہاف پلیٹ” نے لوگوں کو ہنسنے کے ساتھ ساتھ سوچنے پر بھی مجبور کیا۔

اردو ڈرامے کا عالمی سطح پر اثر

بیسویں صدی کے اردو ڈرامے نے نہ صرف مقامی سطح پر بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنی پہچان بنائی۔ ہندوستان اور پاکستان کے ڈرامہ نگاروں کے کاموں نے عالمی سطح پر بھی پذیرائی حاصل کی۔ ان کے ڈرامے مختلف زبانوں میں ترجمہ کیے گئے اور مختلف ممالک میں پیش کیے گئے۔

خواتین ڈرامہ نگار

بیسویں صدی میں خواتین ڈرامہ نگاروں نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بانو قدسیہ، فاطمہ ثریا بجیا، اور حسینہ معین نے خواتین کے مسائل اور جذبات کو اپنے ڈراموں کے ذریعے بہترین انداز میں پیش کیا۔ ان کی تحریریں نہ صرف ادبی معیار پر پورا اتریں بلکہ عوامی سطح پر بھی مقبول ہوئیں۔

موضوعات کی تنوع

بیسویں صدی کے اردو ڈرامے میں موضوعات کی تنوع بھی دیکھنے کو ملی۔ رومانس، تاریخ، سماجی مسائل، سیاسی جدوجہد، اور مذہبی موضوعات پر مبنی ڈرامے اس دور کی خاصیت رہے۔ ہر موضوع پر ڈرامہ نگاروں نے اپنی مہارت سے کام لیا اور ناظرین کو مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کیا۔

اردو ڈرامے کا مستقبل

بیسویں صدی کے آخر میں اور اکیسویں صدی کے آغاز میں اردو ڈرامہ نئی تکنالوجی اور نئے میڈیمز کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ انٹرنیٹ اور سٹریمنگ پلیٹ فارمز نے ڈرامے کو دنیا بھر میں پہنچا دیا ہے۔ آج کے ڈرامہ نگار نئی تکنیکوں اور جدید موضوعات کو استعمال کر کے اردو ڈرامے کو مزید بلندیوں پر لے جا رہے ہیں۔

بیسویں صدی کا اردو ڈرامہ ادب کی دنیا میں ایک نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس نے نہ صرف لوگوں کو تفریح فراہم کی بلکہ سماجی، سیاسی، اور اخلاقی مسائل پر بھی گہری نظر ڈالی۔ اس صدی کے ڈرامہ نگاروں نے اپنے فن سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی اور اردو ادب کو ایک نئی جہت دی۔ آج بھی ان کے لکھے ہوئے ڈرامے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں اور ان کی مقبولیت آج کے دور میں بھی برقرار ہے۔