اشرف کمال
۱) اردو زبان سے آپ کی دلچسپی اور شناسائی کب اور کیسے ہوئی؟
اہل پاک و ہند سے میری محبت کی کہانی میرے بچپن سے شروع ہوتی ہے، جب میں خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ہفتے میں ایک دن ہندوستانی فلمیں دیکھنے کے لیے سینما جایا کرتا تھا۔اُن دنوں یعنی اس سے تقریباً تیس چالیس سال قبل کی ہندوستانی فلموں میں پیار تھا، درد دکھ تھا، ہنسی مذاق تھا مختصر اُن میں زندگی کے ہر پہلو موجود تھے لیکن ہند کی اپنی خوشبو اور طرز و ادا کے ساتھ۔ وہ فلمیں ترکی ڈبنگ کی ہوئی ہوتی تھیں اور صرف اُن کے گانے اردو، ہندی میں ہوتے تھے اور ہم سب بچے اُن گانوں کو غلط سلط مگر محبت سے یاد کرکے گانے کی کوشش کرتے تھے۔ کبھی راج کپور کی ”آوارہ“ فلم کا گانا ”آوارہ ہوں“ اپنے اندار میں ”آوارے مو، آوارے مو“ بناکر گاتے اور کبھی ”جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا“ کے بول کو ”جو وادے کی یا وو نبانے پرے گا“ میں تبدیل کرکے گنگناتے اور میں دل ہی دل میں سوچتا کہ میں بڑا ہوکر یہ زبان سیکھوں گا۔ مختصر بچپن میں ہندی فلموں کے اثرات ہم پر اِس طرح سے مرتب ہوئے کہ کچھ عرصے بعد ہند سے جو بھی آتا وہ ہمارے لیے عزیز ٹھہرنے لگا کیونکہ اُس زمانے کی ہندوستانی فلمیں آجکل کی مانند خون خرابے والی نہیں تھیں اور ہندوستان کے محبت بھرے چہرے کو ہمیں دکھایا کرتی تھیں۔
بعد میں جب ہم نے کچھ شعور سنبھالا اور بڑے ہونے لگے اوراور مجھے تاریخ سے دلچسپی پیدا ہونے لگی تو کچھ کچھ یہ علم ہونے لگا کہ ہمارے مشکل وقتوں میں مسلمانان ہندو پاک نے ہماری امداد کے لیے کیا کیا مصیبتیں برداشت کیں اور ہماری جنگوں میں ہمارا سہارا بننے کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ کر بھاگے بھاگے یہاں چلے آئے، جس کے بارے میں میری والدہ مرحومہ نے ہمیں کہانی کی صورت میں سنایا کرتی تھیں۔
پھر ضیاء الحق مرحوم کے زمانے میں پاکستان اور ترکی کے تعلقات اس طرح محکم ہونے لگے تھے کہ ترکی میں ہر فرد کی زبان میں ”جیوے جیوے پاکستان“ کے بول گونجنے لگے تھے اور ترکی میں جب ترکی کے لوگ کسی پاکستانی کو دیکھتے تو اُسے روک کر اسی گیت کو گاتے۔ اسی طرح میرے دل میں بر صغیر پاک و ہند سے اور اہل پاکستان و ہند سے ایک عجیب قسم کا پیار پیدا ہوا۔
شاید اسی پیار کا نتیجہ تھا کہ جب میں نے استنبول یونیورسٹی، شعبہئ السنہئ مشرقیہ میں فارسی کی تعلیم کے لیے داخلہ لیا اور اُنہیں دنوں میں شعبہئ اردو کے از سر نو قیام کے لیے پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار مرحوم پاکستان سے تشریف لائے تو میں بھی اُن کی انتخابی کلاسوں میں جانے لگا اور اُن سے اردو سیکھنے لگا۔یہ زبان جو میری زبان کے ایک لفظ ”اردو“ سے پکاری جاتی تھی مجھے بہت ہی پیاری لگی۔ اس کی مٹھاس، سحر آفرینی اور وسعتِ بیان جو ہے وہ مجھ پر جادو کی طرح اثر کیا اور اردو سے پہلے پیار اور بعدمیں عشق پیدا ہونے لگا۔
۲) آپ جامعہ استنبول میں اردو زبان کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ صدر شعبہ اردو کے منصب پر بھی فائز ہیں تو بحیثیت استاد اور صدر شعبہ آپ اردو زبان کا ترکی میں کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟
در اصل میرے خیال میں ہمیں ترکی میں اردو کے مستقبل کے نہیں پاکستان اور ہندوستان میں اردو کے مستقبل سے متعلق یہی سوال ذرا تبدیل کرکے پوچھنا بہتر ہوگا۔ ترکی میں اردو کا مستقبل وہی ہوگا جو آج ہے۔چونکہ ترکی میں اردو ایک غیرملکی زبان کی حیثیت سے یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہے لہٰذا مستقبل میں بھی اردو کا سٹاٹوس وہی رہے گا جو آج ہے۔ یونیورسٹیوں میں ہمارا کام تدقیق و تحقیق ہے اور یونیورسٹیوں میں قبل از مسیح کی مردہ زبانوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ یعنی اس لحاظ سے ترکی میں اردو کو کسی طرح کا خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔مزید بر آن ترکی میں اردو بولنے والی کمیونٹی کی تعداد بھی کافی کم ہے اور وہ اکثر تعلیم حاصل کرنے کے لیے ترکی آئے ہوئے نوجوان، کچھ کاروباری برادری کے لوگ اور کسی طرح سے یورپ جانے کے لیے غیرقانونی راستوں سے ترکی پہنچے ہوئے لوگ ہیں اور ان میں سے اکثر و بیشتر اپنے کام مکمل کرنے پر یا آگے یورپ یا امریکہ کی طرف بڑھتے ہیں یا پیچھے پاکستان یا ہندوستان واپس چلے جاتے ہیں۔ اور جو یہاں ترکی شہریت حاصل کرکے رہتے ہیں ان میں سے اکثر وہ نوجوان ہیں جو ترکی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں اور ترکی لڑکیوں سے شادیاں کرکے یہاں رہتے ہیں۔یعنی یورپ، بالخصوص انگلینڈ یا کینڈا اور امریکہ میں موجود اردو بولنے والوں کو اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنی قومی شناخت اور اپنی زبان کے سلسلے میں جن مسائل کا سامنا ہوتا ہے وہ ترکی میں مقیم لوگوں کو نہیں ہوتا۔
ہاں البتہ آپ پاکستان اور بالخصوص ہندوستان میں جو اردو زبان کو مستقبل سے متعلق خطرات کے بارے میں پوچھیں گے تو اس سلسلے میں ہم اردو سے محبت کرنے والوں کو طرح طرح کے اندیشات لاحق ہوتے ہیں جسے سمیٹنا طویل مضمون میں ہوسکتا ہے۔
۳۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اردو زبان میں تنقید و تحقیق کے حوالے سے دنیا میں تسلی بخش کام ہورہا ہے؟
اس سوال کے دو جوابات ہیں۔ ایک تو ”جی ہاں“ پھر دوسرا ”جی نہیں!“
”جی ہاں!“ اس لیے کہ اردو علمی اور ادبی دنیا میں کل بھی آج بھی بہت سے تفصیلی، تحقیقی، علمی، اخلاقی اور معقول بنیادوں میں تنقیداور تحقیق کرنے والے تنقید نگار یا محقّق ہو گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جو ”تخریبی“ نہیں ”تعمیری“ تنقید یا اپنی تحقیقات کو دنیا میں مقبول علمی اصولوں پر کرتے تھے اور کرتے ہیں۔
اور اس سوال کا دوسرا جواب ”جی نہیں!“ اس لیے ہے کہ اردو کی علمی اور ادبی دنیا میں فرقہ پرستی، دوست پروری، علاقائی اور زبانی تعصب کے تحت ایسے ایسے تنقیدی شاہکار سامنے آجاتے ہیں اور محض آپس کی چپقلشوں کی بنیاد پر ”تخریبی تنقید“ کا رویہ اپنایا جاتا ہے جس کا مقصد کبھی کبھار ”کردار کشی“ ہوتا ہے، ان کو دیکھ کر انسان حیران و پریشان رہ جاتا ہے۔میرے خیال میں اس کا بیان بھی خاصہ طویل ہے مگر یہاں اس کی گنجائش نہیں اور مناسب بھی نہیں لگتا۔
۴) آپ نے ترکی اور اردو دونوں زبانوں کے ادب کے ترجمے بھی کئے تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایک دوسرے ادب اور ثقافت سے واقفیت دو تہذیبوں کو قریب لانے کا بہترین ذریعہ ہے؟
بے شک و شبہ بہترین بلکہ واحد موثر طریقہ ہے۔ کیونکہ چھوڑئیے تہذیب و ثقافت کو ہم لوگ ٹیکنالوجی اور ٹیکنیکل ترقیات سے لے کر دوائیوں کے نسخے حتیٰ کہ کچن میں روزمرہ کے استعمال کے سامان تک ترجمہ کے محتاج ہیں۔پھر ترجمہ کی اہمیت تہذیبی، ثقافتی اور ادبی میدانوں میں اور بھی زیادہ بڑھ کر سامنے آتی ہے۔ ہرچند اب زمانہ بدل گیا ہے اور دنیا ٹیکنالوجی، ٹیکنیکل ترقیات اور کاروبار کے محور پر سرگردان ہے، مگر ہمیں مختلف قوموں کی تہذیب و ثقافت کی ہم آہنگی کا فرقہ واریت اور لوگوں کے دلوں میں بغض و دشمنی کو کم کرنے میں جو کرشماتی اثر ہے اُسے نہیں بھولنا چاہئے۔کیونکہ خوف اور دشمنی اُس چیز سے زیادہ ہوتی ہے جس سے آپ کو واقفیت نہ ہو۔
۵) پاکستان میں یونس ایمرے ترک مرکز ثقافت کے قیام میں آپ کی کوششیں نمایاں ہیں تو اس سلسلے میں اس مرکز سے متعلق کچھ بتائیے!
در اصل یہ کم از کم میرے لحاظ سے ایک خواب کی تکمیل تھی جس کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی۔ میں کافی سالوں سے چاہتا تھا کہ پاکستان میں ایک ترکی ثقافتی مرکز کا قیام عمل میں آئے تاکہ ترکی اور پاکستان کے مابین موجود دوستی اور برادری کے روابط کو اور زیادہ توسیع دی جاسکے اور یہ روابط تہذیبی، ثقافتی اور ادبی میدانوں پر بھی حاوی ہوں۔اسی سلسلے میں دونوں ملکوں کے درمیان چھ سال قبل ایک کلچرل ایگریمنٹ پر دستخط ہوا تھا۔ پھر ۶۱۰۲ء میں ترکی حکومت کے تہذیبی اور ثقافتی ادارہ یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے لاہور اور کراچی میں ترکی ثقافتی مراکز قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور مرکز کے لیے ایک ڈائریکٹر اور استاد کو لاہور بھیجا گیا لیکن اُن دونوں کو زبان و علاقے سے ناواقفیت کی وجہ سے ناکامی کا سامنا ہوا اور وہ مستعفی ہوکر واپس آئے۔ پھر یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر جنرل پروفیسر شرف صاحب کو میرا نام تجویز کیا گیا اور ہمارے ریکٹور پروفیسر محمود آق صاحب کی اجازت سے میری تعیناتی لاہور یونس ایمرے ترک مرکز ثقافت کے بانی مہتمم یا founder director کی حیثیت سے ہوئی۔ میں نے اس عہدے کو ایک سال کی شرط پر قبول کیا۔ یہ بھی اس لیے کہ میرے مطابق سرکاری عہدہ اور کام دانشور کو علمی کاموں سے دور کرتا ہے اور یہ میرے لیے قابل قبول نہیں سو میں آج تک ایسے کاموں سے گریز کرتا رہا۔خیر میں لاہور گیا۔لاہور میں ایوان اقبال میں جو سینٹر کے لیے جو خالی ہال ملا تھا تین ماہ میں اس کی تعمیراتی کام کروائے اور اس کے عملے اور ملازم رکھوائے اور پھر اس کے بعدچھ ماہ نہ صرف لاہور بلکہ اسلام آباد، کراچی اور فیصل آباد میں پچاس ادبی، تہذیبی اور ثقافتی تقریبات اور نمایشوں کا اہتمام کیا جن میں سے تصویری نمائش کا افتتاح صدر پاکستان جناب ممنون حسین مرحوم کے ہاتھوں ہوا۔ پھر دس ماہ بعد مجھے جب اطمینان ہوا کہ جس کام کرنے کے لیے لاہور آیا وہ کرچکا۔ پھر میں نے یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ شرف صاحب کو لکھا کہ میں واپس اپنی یونیورسٹی جانا چاہتا ہوں اور ان کی اجازت سے ترکی اپنی یونیورسٹی واپس آگیا۔
اب بھی لاہور مرکز میں ترکی زبان کی کلاسیں اور کلچرل تقریبات جاری ہیں۔
۶) رومن رسم الخط سے اردو رسم الخط کو نقصان پہنچنے کاخطرہ ہے؟ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
جہاں تک رومن رسم الخط کا اردو کے لیے استعمال اس زبان کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ کیونکہ ویسے بھی اس پیاری زبان کو بہت سارے خطرات کا سامنا ہے اور اوپر سے رومن رسم الخط کا خطرہ کیوں اس پر لادا جارہا ہے وہ میری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اول تو کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ اردو رسم الخط مشکل ہے، یہ بالکل غیر منطقی ہے۔ اگر مشکل ہے تو چینی رسم الخط مشکل ہے اور جاپانی زبان والے چینی رسم الخط کے علاوہ دو اور رسم الخط سیکھتے ہیں اور ان میں کوئی شکایت نہیں اور نہ ہی وہ رومن رسم الخط استعمال کرنے کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔ پھر یہ بہانہ اردو کے لیے لاگو نہیں۔مجھے متعدد بالخصوص نوجوانوں میں ایسے لوگوں سے ملاقات ہوئی جو کہتے ہیں ہمیں اردو رسم الخط نہیں آتا یا ہم پڑھتے ہیں لیکن لکھ نہیں پاتے۔ اگر میں پاکستانی ہوتا تو یہ کہتے ہوئے شرم سے پسینہ پسینہ ہو جاتا مگر پاکستان میں کچھ لوگ اپنی انگریزی دانی کا ثبوت دینے ہوئے یہ ایسے فخر سے کہتے ہیں کہ انسان کو افسوس ہوتا ہے۔
اگر ترکی، ملیشیا یا انڈونیشیا کی طرح ملک میں رسم الخط کی تبدیلی ہوئی ہوتی اور وہ یہ کہتے کہ ہمیں عربی رسم الخط نہیں آتا تو تب یہ قابل قبول ہوتا لیکن اس کا بھی یہ نقصان اٹھانا ہوتا ہے جس سے ترکی میں رسم الخط کی تبدیلی کے بعد ہم ترک دوچار ہوئے ہیں۔ کیونکہ ایک رسم الخط کی تبدیلی سے تہذیبی، ثقافتی اور ادبی لحاظ سے ہمیں جن نقصانات کا سامنا ہوا وہ ہم ہی جانتے ہیں۔چھ صدیوں پر مشتمل ایک تہذیب ایک ہی دم میں غائب۔اور ابھی تک اس کلچر کی تلاش میں سرگردان ہیں۔
۸)آپ کو اردو کے حوالے سے کی گئی آپ کی خدمات کے عوض دنیا میں مختلف اداروں کی جانب سے سراہا گیا اور اسی ضمن میں حکومت پاکستان کی جانب سے ”ستارہئ امتیاز“ سے نوازا گیا۔ اس بابت آپ کیا کہیں گئے خصوصی طورپر پاکستان کے لیے؟
اس سلسلے میں تو میں یہ عرض کرسکتا ہوں کہ جب کوئی کسی بھی ایوارڈ سے نوازا جاتا ہے تو انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ میری کوششیں رائگاں نہیں گئیں اور اس کا شوق اور حوصلہ بڑھ جاتا ہے۔ ہاں البتہ ایوارڈ لازمی نہیں، ایک محبت بھرا سلام، تشکر کے کچھ الفاظ یہ سب انسان کے اندر ہمت پیدا کرتے ہیں۔ اور بالخصوص پاکستان کے سلسلے میں میں ہمیشہ یہ عرض کرتا آیا ہوں کہ مجھے ایوارڈوں کے ملنے سے پہلے بھی دنیا کے بہترین ایوارڈ تسلسل کے ساتھ ملنا شروع ہوا تھا اور وہ تھا ”بے تحاشا محبت“۔ اور یہ میرے لیے سب سے پیارا اور حوصلہ افزا ایوارڈ تھا۔ مثلاً کراچی میں ایک کانفرنس کے دوران سندھ کے کسی قصبے سے ایک صاحب اپنی بیکری میں اپنے ہاتھوں سے بنائے کیک میرے لیے لے آئے اورانھوں نے محبت سے پیش کیا یہ میرے لیے کسی بھی اعزاز سے کم نہیں تھا۔ پھر بہاولپور میں کسی اور کانفرنس میں ایک عمر رسیدہ بزرگ یونس صاحب مرحوم نے اپنے گھر میں سالوں سے چھپائی ہوئی کالی چادر کو لے آئے اور محبت سے میرے کندھوں پر رکھا، میں اس سے زیادہ بڑا ایوارڈ سوچ ہی نہیں سکتا۔ پھر اسی طرح پشاور کے کسی پہاڑی علاقے کے ایک گاؤں سے ایک مولوی صاحب نے میرے لیے اردو میں ایک دو قطعے قلمبند فرماکر ارسال کیا۔ اب میں محبت کے ایوارڈوں کا اور کیا ذکر کروں؟ یہ سب میری زندگی کے حسین ترین ایوارڈ ہیں۔
۹) ورثہ رسالے کے لیے آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
میرا پیغام تو یہ ہوگا کہ آپ اپنی زبان سے، اپنے ملک سے اور اپنی قومی شناخت سے بلا تردید محبت کریں اور ان پر فخر کریں۔ آپ سب اپنی ہستی کے ان رکن ثلاثہ کے تحفظ کے لیے ہر ممکن کوشش کریں۔ کیونکہ آپ کی سر بلندی ان کی سربلندی سے تعلق رکھتی ہے۔
آخر مجھے اس انٹرویو کے ذریعے آپ کے قارئین تک پہنچے کی اجازت دینے کی وجہ سے آپ کا اور ورثہ کے مدیر صاحب اور ٹیم کا از تہہ دل شکرگزار ہوں اور آپ سب کی کامیابوں کے دوام کے لیے دعاگو ہوں۔
ڈاکٹر خلیل طوقار از ڈاکٹر اشرف کمال
”پاکستانی تُرک“، ”ترکی میں پاکستان کے سفیر“، ”سپہسالارِ اردو“، ’’سفیرِ اردو“، ”ترکی میں اردو کا آہنی ستون“، ”استنبول کے بابائے اردو“، ”اردو کا البیلا تُرک شاعر“، ”پاکستان اور ترکی کے درمیان دوستی کا پُل“، ”اردو کا تُرک شیدائی“ اور ”اردو کی محبت میں گرفتار تُرک“ جیسے متعدد القاب و عناوین سے پہچانے جانے والی شخصیت ہمارے دوست استنبول یونیورسٹی، شعبہئ اردو کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار کی ہے۔
بے شک پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار ایک تُرک ہیں اور اُنھوں نے بی اے کی سطح پر اردو سیکھنا شروع کیا لیکن اُنھوں نے اردو سے اپنا رشتہ ناطہ اس طرح جوڑ لیا اور اردو اور پاکستان سے والہانہ محبت کرنے لگا کہ اب خلیل طوقار، اردو اور پاکستان کو ایک دوسرے سے الگ کرنا ناممکنات میں شامل ہے۔
نہ صرف یہ ہے کہ وہ تقریباً تیس سال سے ترکی میں اردو کی تعلیم و تدریس اور ترویج کے لیے دن رات کوششیں کر رہے ہیں اوراُنھوں نے ہمیشہ اردو کے حق میں آواز بلند کی بلکہ اُنھوں نے اردو زبان میں ایسے ایسے عمدہ علمی و ادبی کارنامے انجام دئیے جن کی وجہ سے اب اُن کا شمار اردو دنیا کے جانے پہچانے محققوں اور ادیبوں میں ہوتا ہے۔
اُن کی ترپن سے زاید تصانیف میں سے بتیس کتابیں اردو زبان میں ہی ہیں جن میں تحقیقی و تنقیدی کتابوں کے علاوہ، ترکی سے اردو میں تراجم، اردو سفرنامے، اردو میں مجموعہ ہائے کلام اور کالم موجود ہیں۔اور پھر اُن کا طرہئ امتیاز یہ ہے کہ ترکی کا واحد اردو علمی و ادبی رسالہ ”سہ ماہی ارتباط“ چھ سال تک اُن کی ادارت میں شائع ہوتا رہا۔
اُن کی پاکستان سے محبت کا یہ عالم ہے کہ اُنھوں نے پنجابی اور ہندکو زبانیں بھی سیکھیں اور سونے پر سہاگے اُنھوں نے ہندکو زبان کی علمی بنیادوں پر مبنی تفصیلی گرائمر بھی قلمبند کی۔
ان کی مسئلہئ کشمیرکے سلسلے میں کی گئی ان تھک محنت اور تا حال جاری جدوجہد بے مثال ہے اُنھوں نے ہر پلیٹ فارم پر پاکستان اور کشمیری عوام کے موقف کی حمایت کی اور ترکی میں مسئلہ کشمیر کی بہتر انداز میں پہچان کرانے کے لیے کتابیں لکھیں۔ آج تک اُن کی تین اہم
کتابیں سامنے آئی ہیں۔ اُنھوں نے اس سلسلے میں مضامین لکھے، ملکی اور بین الاقوامی کانفرنسوں میں اور ٹی وی پروگراموں میں بھی شرکت کی۔
پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار سے انٹرویو
ڈاکٹر محمد اشرف کمال
ڈاکٹر خلیل طوقار ایک ترک ہیں اور ان کا تعلق استنبول (ترکی) سے ہے۔وہ استنبول یونیورسٹی کے شعبہئ اردوکے سربراہ ہیں۔کئی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ان کی پچاس سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ ترکی سے شائع ہونے والے اردو کے ادبی مجلہ”ارتباط“کے مدیر بھی ہیں۔ انھیں قومی وبین الاقوامی اداروں کی جانب سے اپنی ادبی اور علمی خدمات کے صلے میں کئی ایوارڈ اور اعزازات مل چکے ہیں۔
اشرف کمال: عزت مآب جناب پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقارآپ کے بارے میں جاننے اور بطور ادیب، رائٹر کے آپ کے خیالات ونظریات جاننے کے لیے آپ کی نجی وگھریلو اور خاندانی زندگی، اور اس سے جڑے اہم واقعات کو جاننا نہایت ضروری ہے تاکہ ان محرکات کا سراغ لگایا جاسکے جس کی وجہ سے یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کیا حالات تھے جنھوں نے آپ کو ایک بلند پایہ ادیب، نقاد اور ماہرِ تعلیم بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔میری کوشش ہوگی کہ میں آپ سے رسمی، روایتی اور لگے بندھے سوال نہ پوچھوں بلکہ کچھ ایسا پوچھنے کی کوشش کروں جس سے کوئی نئی بات معلوم ہوسکے کوئی ایسی بات جس کو قاری پڑھ کر اس سے متاثر ہو اور وہ قارئیں کی زندگی میں بھی تبدیلی یا ترقی کا محرک ثابت ہوسکے۔
آپ کتنے بہن بھائی ہیں۔ان کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائیے؟
خلیل طوقار: میری دو بڑی بہنیں ہیں، دونوں خانہ دار خاتون ہیں۔ سب سے بڑی بہن جن کا نام ”مینا“ ہے وہ استنبول کے یورپین سائیڈ پر ”باقرکوئے“ میں رہتی ہیں ان کا شوہر ملک سے باہر در آمد برآمد کے کاموں سے مصروف ہیں۔
میری دوسری بڑی بہن کا نام ”یاسمین“ ہے وہ ترکی کے مغربی بحر سیاہ یعنی بلیک سی کے کنارے موجود ”بارتِن“ نامی شہر میں رہتے ہیں۔ اُن کے شوہر کا نام ”ترک ایر“ ہے اور وہ فارمیسٹ ہیں اور میڈکل اسٹور کے مالک ہیں۔
اشرف کمال: ۔اپنے بچپن کے اہم واقعات پر روشنی ڈالیے۔
خلیل طوقار: اب بچپن کی بات، کیا اہم تھا کیا نہیں وہ ٹھیک طرح سے یاد بھی نہیں رہا۔ البتہ کچھ یادیں جن کے نقوش ابھی تک میرے ذہن میں ابھی تک موجود ہیں وہ یہ ہیں۔
۱۔ میرا نقاب کے ساتھ پیدا ہونے کا واقعہ ہے۔ پیدائش کے وقت میرے چہرے پر نقاب تھا۔ جب وہ نقاب گم ہوگیا تو میری والدہ مرحومہ مسلسل افسوس کررہی تھیں۔ کیونکہ ان سے کہا گیا تھا کہ یہ نقاب بہت مبارک ہے اور اس نقاب کو کبھی مت غائب ہونے دینا! اس میں اس بچے کے لیے بھی دوسروں کے لیے بھی شفا ہے اگر یہ نقاب کھوگیا تو اس بچے کے لیے بہت مسائل پیدا ہوں گے اور یہ بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل نہیں کرسکے گا۔پتہ نہیں یہ خواتین کی خام خیالی تھی یا نہیں البتہ اس کے بعد مجھے مسلسل بیماریوں اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا۔ ویسے آج تک بلا
توقف ایسی ایسی بیماریوں کی زد میں آتا ہوں جن کا سبب نہ ڈاکٹر لوگ سمجھ پاتے ہیں اور نہ میں۔
۲۔ شاید تین یاچار سال کی عمر میں تھاتو صبح سویرے ناشتہ کرتے ہوئے میری والدہ مرحومہ تیز گرم چائے سے بھرے ایک کپ چائے دادی اماں مرحومہ کی جانب بڑھارہی تھیں تو وہ کپ میرے اوپر سے گزرتے ہوئے اچانک ریزہ ریزہ ہوگیا اور وہ تیز گرم چائے میرے پیٹ پر گرگئی، درد اتنا شدید تھا کہ ابھی بھی جب اسے یاد کرتا ہوں تو اندر ایک عجیب کرب کا احساس ہوتا ہے۔ اور اسے کیسے بھول سکتا ہوں اب تریپن سال کی عمر میں بھی اس کے کچھ نشان ابھی میرے جسم پر موجود ہیں۔ اس زمانے میں تو بچوں کو آج کی طرح زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے لہٰذا مجھے ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جایا گیا اور صرف زخموں پر ٹوٹ پیسٹ لگایا گیا اس کی وجہ سے میرا درد اور شدید ہوگیا تھا۔
۳۔ پھر اسی طرح پرائمری اسکول میں والد مرحوم کے گھر لائیں بہت ساری دوائیں کھانے کی وجہ سے میں ایک مہینہ ہسپتال کوما میں رہا۔ ڈاکٹر میری زندگی سے بالکل ناامید تھے اور والدہ سے یہ کہا گیا تھا کہ اب اس بچے کا زندہ رہنا ممکن نہیں اب آپ لوگ بس اس کے لیے دعا کریں۔ تو اس رات میری والدہ مرحومہ کے بہت سے بال دکھ کی وجہ سے سفید ہوگئے تھے۔اس ایک ماہ کے اندر معلوم نہیں کیا ہوا، کس طرح گزرا مجھے کچھ بھی پتہ نہیں۔ہسپتال میں مجھے جگانے کے لیے ڈاکٹروں نے ہر طرح کی طبی چارہ جوئی کی اور انجکشن، ڈریپ وغیرہ کیا مگر مجھے کچھ بھی محسوس نہیں ہوا۔ بس ایک ماہ شاید اس سے کچھ زیادہ دن بعد اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ میری آنکھیں کھل گئیں اور ایسا تھا جیسے مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ اس کے بعد جب میں گھر واپس آیا تو میرے لیے مزے کے دن شروع ہوئے، کافی دنوں تک رشتہ دار، جان پہچان والے اور میری ٹیچر تک لوگ عیادت کے لیے ہمارے گھر آتے رہے اور میرے لیے تحفے تحائف بھی لے آئے،
۴۔ ایک اور چیز جو میرے بچپن سے یا دمیں رہی وہ میری بائیں ٹانگ کے اوپر پیدائش سے ایک براؤن نشان تھا۔ اس کی شکل بالکل جزیرہئ قبرص cyprusکے نقشہ کی مانند تھی، ان دنوں میں پورے قبرص پر یونیانیوں کا قبضہ تھا اور یونانی دہشتگرد وں نے انگریزوں کی نگرانی میں جزیرے میں موجود ترکوں کی نسل کشی شروع کی تھی اور بڑی طاقتیں ترکی کو مداخلت کرنے سے روکتی تھیں اور ترکی کے عوام میں بے صبری اور احتجاجی احساسات تیزی سے پھیل رہے تھے۔ پھر میری ٹانگ پر اس نقشے کی شکل کو دیکھ کر ہمارے رشتہ دار کہہ رہے تھے کہ دیکھیں خلیل کی ٹانگ پر قبرص کا نقشہ ہے ناں یہ اس کی علامت ہے کہ ہم لوگ قبرص پر پھر سے قبضہ کریں گے۔واضح رہے کہ قبرص بیسویں صدی کے ربعہ اول تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا مگر انگریزوں نے عثمانی سلطنت کے کمزور ہونے سے فائدہ اٹھا کر ایک سمجھوتے کے تحت کچھ عرصے کے لیے اس کو لیا مگر
پہلی جنگ عظیم کے چڑھنے سے اس پر قبضہ کرلیا۔ خیر وہ قبرص نقشے والا نشان کچھ سالوں بعد میری ٹانگ سے غائب ہوگیا۔
۵۔ اسی طرح جب قبرص میں حالات اور خراب ہوگئے اور یونانی دہشتگرد ترکوں کو ان کے بچوں تک کو قتل کرنے لگ گئے تو ترکی حکومت نے ایک خفیہ پلاننگ کی جس کا کوڈ ورڈ ”عائیشہ چھٹی پر گئی“ تھا کے تحت ایک شام قبرص پر فوجی آپریشن شروع کیا جس کی اطلاع کسی بھی ملک کو نہیں دی گئی تاکہ کوئی بڑی طاقت اس آپریشن کو روکنے نہ پائے۔خیر ہوا یہ ہے کہ اس وقت ترکی ائیرفورسز آج کی طرح مضبوط نہیں تھیں اور تمام تر اسلحہ وغیرہ امریکہ سے وصول ہورہا تھا اور امریکہ تھا آج کی طرح یونان کا حامی۔ اور امریکہ نے احتجاج کرکے ترکی پر پابندیاں عائد کردیں اور ترکی کے پاس زیادہ مواد نہ تھا۔ اس وقت یہ خبر ملی کہ معمر قذافی مرحوم نے ترکی کے فوجی اتھارٹیوں کو مدعو کرکے کہا کہ میرے تمام تر فوجی ڈپو ترکی کے لیے حاضر ہیں جتنے بھی سامان کی ترکی کو ضرورت ہو وہ سب لے جائیں تو اس پیغام نے ایک بڑی نوید کی طرح تمام تر ترکی میں ہلچل مچائی تھی، دوسری بات ہم استنبول میں تھے تو فوج سے اطلاع ملی کہ رات کو استنبول پر یونانی حملہ ہوسکتا ہے لہٰذا استنبول کے عوام سے حکم ہے کہ پوری رات
مکمل طور پر بلیک آؤٹ کیا جائے۔ ہمارے بڑوں نے موٹے لحافوں کو کھڑکیوں پر چڑھایا اور رات کوگھرکے اندر صرف ایک موم بتی جلارہے تھے اور تمام بجلی کی بتیاں بند ہوتی تھیں۔ کچھ دنوں بعد یونانی اخباروں میں یونانی ائیرفورسز کی جانب سے یہ خبریں ملنے لگیں کہ چند راتوں سے ہم لوگ رات کو استنبول کی جانب جارے ہیں مگر ایسا ہے کہ رات کو استنبول غائب ہوجاتا ہے اور اسے نہ پاکر ہم واپس آرہے ہیں۔ استنبول کے عوام نے اس پابندی سے فوجی احکامات پر عمل در آمد کررہے تھے کہ استنبول سے ایک روشنی کی کرن ان کو نظر نہیں آرہی تھی اور وہ ناکام اپنے ملک واپس جارہے تھے۔ مجھے ابھی تک یا د ہے ہم اپنے رشتہ دار بچوں کے ساتھ گھپ اندھیرے میں باہر جاکر آسمان تک رہے تھے کہ یونانی جنگی جہاز کب آئیں گے۔
یہی ہے میرے بچپن کی کچھ یادیں جو میرے ذہن میں ابھی تک زندہ ہیں۔
اشرف کمال: کیا بچپن میں کھلونوں سے کھیلنا پسند تھا اور کونسے کھلونے تھے، یا کون سے کھیل تھے جو آپ کے دور میں کھیلے جاتے تھے؟
جیسا کہ ہمارے یہاں بچے کرکٹ، ہاکی، فٹ بال، لکن چھپی، کیرم، لڈو،کنچے یا بنٹے، اخروٹ، چور سپاہی،آنکھ مچولی، ایکسپریس،پہل دوج،کوڑا جمال شاہی، پٹھو گرم، گلی ڈندا،کاٹا ماٹا،اڑن کبوتر، لک چھپ جانا، رسی کودنا، بارہ گوٹی کھیلتے تھے۔
خلیل طوقار: میری والدہ مرحومہ نے بتایا تھا کہ میں ایک یا ڈیڑھ سال کی عمر میں تھا تو رشتہ داروں کے ساتھ کسی تفریحی مقام میں گئے تھے، چونکہ میں بہت چھوٹا تھا تو اس لیے پرام میں تھا اور پرام کو میرے خالہ زاد بھائی جو مجھ سے عمر میں سات آٹھ سال بڑے ہیں، چلارہے تھے، اچانک کسی کو پتہ نہیں چلا لیکن میرا پرام ان کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں پرام سمیت وہاں موجود اترائی سے گرگیا۔ اس وقت ان کو پتہ نہیں چلا مگرگرنے کی وجہ سے اندر میرے کوہلے کی ہڈی ٹوٹ گئی، جب جب میں بڑا ہوتا گیا تو چلتے ہوئے میں لنگڑاتا تھا اور مجھے شدید درد ہوتا تھا مگر میری بات کوئی نہیں سنتا تھا سب کہتے تھے کہ بچہ والدین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایکٹنگ کررہا ہے۔ پھر ان دنوں میرے والد صاحب مرحوم کام کے سلسلے میں ظونغولداق چلے گئے تھے تو لوگ کہنے لگے کہ اپنے والد کو مس کررہا ہے اس لیے ایکٹنگ کررہا ہے۔ لیکن درد شدید ہوتا جارہا تھا تو آخر والدہ مرحومہ نے لوگوں کی بات سننا چھوڑ کر میری حالت پر رحم کھایا اور مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ معائنے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے والدہ مرحومہ کو خوب ڈانٹا کہ اس بچے کو اس قدر تاخیر کے ساتھ کیوں لے آئی، اس بچے کی تو کوہلے کی ہڈی ٹوٹی ہوئی ہے اور اس میں کافی گیپ ہے۔ معلوم نہیں یہ بچہ اس درد کو کیسے برداشت کرتا ہے۔ خیر مختصر یہ ہے کہ میں کافی سالوں تک لنگڑاتا رہا۔ اسی وجہ سے فٹ بال اور جتنے بھاگنے
، کودنے اور چھلانگ لگانے والے کھیل ہیں ان سے دور رہنے پر مجبور ہوا۔ البتہ مجھے بندوق، تلوار، تیر کمان کے ساتھ کھیلنا بہت پسند تھا اور حد الامکان کھیلنے کی کوشش کررہا تھا، مگر ایک طرح کے معذور ہونے کا یہی فائدہ ہوا کہ میری توجہ پڑھنے پر مرکوز ہوگئی۔
اشرف کمال: بچپن میں کیسے بچے تھے۔ شرارتی تھے یا حساس تھے۔ دوسروں بچوں سے جلد گھل مل جاتے تھے یا الگ تھلگ رہنا پسند کرتے تھے۔
خلیل طوقار: دوسرے بچوں کی نسبت میں بہت حساس بچہ تھا۔ اور بڑوں کا بہت احترام کرتا اور کبھی بھی بد لحاظی نہیں کرتا اور بولتے ہوئے ادب و آداب کا خیال رکھتا تھا اور کبھی بھی کسی سے بدتمیزی نہیں کرتا اورہمیشہ ”لطفاً یا رجا ایدیریم“ یعنی ”براہ مہربانی۔ میں گزارش کرتا ہوں“ وغیرہ کہہ کر بات کرتا تھا لہٰذا جتنے بھی بڑے تھے وہ مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ خلیل بچہ نہیں ”بے آفندی“ ہے۔ ظونغولداق میں ہماری ہمسائی نے مجھے دیکھ دیکھ کر اپنے نئے پیدا ہونے والے بیٹے کا نام خلیل رکھا تاکہ اس کابیٹا بھی میری طرح سعادت مند بچہ ہو۔ لیکن ان کا بیٹا بڑا
ہوکر اس قدر شرارتی بن گیا تو وہ کہتی تھیں کہ بچہ نام سے نہیں ذات سے بنتا ہے۔
اشرف کمال: بچپن کے کھیل یا مشاغل؟
خلیل طوقار: جس طرح میں نے عرض کیا۔ کچھ معذور سا ہونے کی وجہ سے میری توجہ کھیل کود سے زیادہ پڑھائی کی طرف رہی اور میں مسلسل کتاب وغیرہ پڑھ رہا تھا، ہمارے گھر میں ”حیات“ نامی ایک معلوماتی انسیکلوپیڈیا تھا وہ تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحوں پر مشتمل تھا اور اسے پڑھنا مجھے بہت پسند تھا اسے تقریباً تین دفعہ پڑھا تھا۔
اشرف کمال: بچپن میں آپ بڑے ہوکر کیا بننے کے خواب دیکھا کرتے تھے؟
خلیل طوقار: در اصل بچپن میں میں کیا چاہتا تھا اس کی اہمیت نہیں تھی اور والدین کیا چاہتے تھے۔ اصل اہم بات یہی تھی اور میری والدہ کی دلی خواہش تھی کہ میں میڈکل ڈاکٹر بنوں۔ مگر بچپن ہی سے میڈکل سائنس کی طرف میرے دل میں کوئی بھی دلچسپی نہیں تھی۔ میں شروع شروع میں ماہر آثار قدیمہ (Archeologist) بننا چاہتا تھا۔ مگر یہ شغل میری والدہ مرحومہ کو بالکل ناپسند تھا۔جب ماہر آثار قدیمہ والی بات چھڑتی تھی تو وہ مجھ سے پوچھتی تھیں کہ کیا ’گورکن‘ بننا ہے تمھیں؟ لوگوں کی قبریں کھود کھود کر کیا حاصل کرو گے؟“ پھر میں نے دیکھا کہ صرف میری والدہ نہیں ہمارے خاندان میں جتنے بھی لوگ ہیں اس مشغلے کو پیشہ ہی نہیں سمجھتے ہیں تو پھر میں نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ پھر کچھ عرصے کے لیے میری خواہش تھی کہ تاریخ دان بنوں۔ میں نے جب یونیورسٹی کے داخلے کے امتحانات میں لیا تو مجھے یہ معلوم تھا کہ کن سوالات سے کتنے سوالات حل کروں گا تو مجھے کس شعبے میں داخلہ ملے گا۔ میں نے جتنی جلدی ہوسکے سوالات حل کیے پھر امتحان کے اختتام تک میرے پاس کچھ فارغ وقت تھا۔ میں شعبہئ فارسی میں بھی داخلہ لینا چاہتا تھا شعبہئ تاریخ میں بھی کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے اسی دم فیصلہ کیا کہ مجھے شعبہئ فارسی میں داخلہ لینا ہے اور میں نے ترکی زبان اور تاریخ کے سوالات میں سے دو تین کو صاف کردیا اور ان کی جگہ انگریزی کے سوالات سے کچھ مزید سوالات حل کر دیے یعنی اس طرح سے میں استنبول یونیورسٹی شعبہئ فارسی میں آگیا۔
اشرف کمال: کیا کبھی کسی سے ناراضگی یا سنجیدہ قسم کی لڑائی بھی ہوئی؟
خلیل طوقار: ناراضگی تو بہت ہوتی ہے مگر سنجیدہ قسم کی لڑائی کبھی نہیں ہوئی۔ بچپن میں بالخصوص مڈل اسکول میں کچھ کلاس فیلو نے مجھ سے لڑنے کی کوشش کی لیکن جس انداز سے میں نے ان کو جواب دیا وہ مجھ سے لڑائی نہ کرسکے اور اوپر سے کچھ دنوں بعد میرے بہت اچھے دوست بنے۔
اشرف کمال: آپ کی شادی کب ہوئی، کس طرح ہوئی، اس رشتے کی کیا وجوہات تھیں؟
خلیل طوقار: میری شادی ۵۹۹۱ء میں لاہور میں ہوئی۔ میری اہلیہ ثمینہ تو میرے استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار مرحوم کی صاحبزادی
ہیں۔جیسا کہ آپ کو معلوم ہے وہ ۵۸۹۱ء میں اردو کی تدریس و تعلیم کے لیے استنبول یونیورسٹی تشریف لائے تھے اور اسی سال میں نے شعبہ فارسی میں داخلہ لیا تھا۔ جب وہ ہماری یونیورسٹی تشریف لائے تو میں نے اردو بھی سیکھنا چاہا اور ان کی انتخابی کلاسوں میں شرکت کرنا شروع کی۔ پھر جب وہ ۰۹۹۱ء میں لاہور واپس گئے تو میں بھی کچھ دنوں کے لیے لاہور گیا اور انھوں نے مجھے اپنے گھر میں ٹھہرایا۔ پھر اس دوران میری اپنی اہلیہ ثمینہ سے ملاقات ہوئی اور ہم دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کیا۔ یعنی ہماری بات محبت کی بات تھی، میں ترکی واپس آیا تو ایم اے اور پی ایچ ڈی مکمل کرلیا، میں شاید ان کم لوگوں میں سے ہوں کہ دو سال کے عرصے میں پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا۔ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تعلیم تو ۵۹۹۱ء کو مکمل ہوتے ہی میں نے اپنے استاد کو خط لکھا اور ان کی بیٹی ثمینہ کا ہاتھ مانگا۔ چونکہ استاد محترم مرحوم مجھے بہت اچھی طرح جانتے
تھے تو انھوں نے کسی توقف کے بغیر ہماری شادی کی اجازت دی۔
اشرف کمال: کیا آپ کے گھر میں،خاندان میں برادری سے باہر شادی پر خوش تھے؟
خلیل طوقار: ویسے تو ترکی کے جس علاقے سے ہم تعلق رکھتے ہیں اس میں یہ خیال ہے کہ ہماری اولاد جس کو پسند کرے وہ اسی کے ساتھ شادی کرسکتی ہے کیونکہ زندگی والدین کی نہیں ان کی اپنی زندگی ہے، والدین تو چلے جائیں گے لہٰذا اپنی اولاد کو زندگی بھر اپنے ناپسند شوہر یا بیوی کے ساتھ رہنے پر مجبور کرنے کا حق کبھی بھی والدین کو حاصل نہیں ہوسکتاپھر ہمارے علاقے میں خاندان میں یا رشتہ داروں میں شادی کو بالکل ناپسند کرتے ہیں۔اس رواج کے پس پردہ یہ خیال ہے کہ اگر رشتہ داری میں شادی ہوگی اور آگے چل کر میاں بیوی کی لڑائی ہوئی یا ان کی طلاق ہوئی تو پھر رشتہ داری میں دشمنی پیدا ہوگی، اس لیے رشتہ داری میں شادی کرنے سے ہزار بہتر ہے کہ خاندان سے باہر شادی ہو۔ ویسے چونکہ میرے بچپن میں ایک نجومی خانہ بدوش خاتون نے میرے لیے فال دیکھی اور اس نے کہا تھا کہ اس بچے کی شادی ملک سے باہر کسی لمبے بال والی لڑکی سے ہوگی تو میری والدہ مرحومہ کو انتظار تھا کہ میری شادی باہر سے ہوگی۔ جب میں نے اپنی اہلیہ کی تصویریں والدہ کو دکھائیں تو انھوں نے کہا کہ مجھے اسی دن کا انتظار تھا۔ کیونکہ ثمینہ ملک سے باہر ہیں اور کافی لمبے بال والی ہیں۔
اشرف کمال: آپ نے پہلی محبت کب کی اور کس سے کی،صرف یہ بتادیں، بعد والی محبتوں کے بارے میں نہیں پوچھوں گا؟
خلیل طوقار: در اصل میری توجہ تو مسلسل پڑھائی کی طرف تھی اور مجھے اپنی اہلیہ کو دیکھنے تک کسی سے محبت بھی نہیں ہوئی۔البتہ بچپن میں ایک لڑکی تھی جس کا نام ہاجر تھا۔ وہ شاید مجھ سے پیار کرنے لگی تھی اور وہ ادھر ادھر ایک گانا گارہی تھی کہ”اے میرے خلیل میں بڑی ہوکر تجھ سے شادی کروں گی اور ضرور کروں گی!“لیکن یہ سن کر مجھے بہت غصہ آتا تھا اور اپنی والدہ سے کہتا تھاکہ ”اس پاگل کو چپ کرائیں ورنہ میں ایک دن اس کی ایسی کی تیسی کردوں گا۔“ بچپن کی بات ہے۔پھر بی اے کے دوران ایک لڑکی تھی بعد میں دوستوں نے بتایا تھا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی تھی مگر نہ مجھے اس سے کوئی دلچسپی تھی اور نہ ہی مجھے پیار ویار سے تعلق۔ میں مسلسل پڑھائی کی طرف، پڑھائی کے علاوہ میری نظر میں کچھ بھی نہیں تھا۔ مختصر بچپن سے آج تک مجھے ایک ہی خاتون سے محبت ہوئی اور اسی سے شادی ہوئی وہ میری اہلیہ ہیں یعنی میری زندگی میں ناکام محبت کی کہانی ہے ہی نہیں۔ خیر میں اپنے تحقیق و تدقیق کے کاموں اور مختلف مصروفیات میں اس طرح گم ہوں اور بیماریوں کی زد میں اپنی زندگی یوں گزاررہا ہوں کہ کسی اور سے محبت کرنا در کنار کوئی اور مجھ سے پیا رکرے تو اس کا بھی مجھے علم نہیں ہوگا۔
اشرف کمال: آپ کیوں لکھتے ہیں؟
خلیل طوقار: یہ بہت مشکل سوال ہے جس کا جواب دینا قدرے مشکل ہے کیونکہ کبھی میں نے سوچا نہیں کہ میں نے کیوں لکھنا شروع کیا۔ شاید مسلسل مطالعہ اور پڑھائی کے نتیجے میں جب انسان معلومات سے بھر جائے تو اسے دوسروں تک بھی پہنچانا چاہتا ہے اور کام بھی ایسا انتخاب کیا جس میں انسان ہر صورت میں لکھنے پر مجبور ہوتا ہے۔البتہ اپنی تحقیق اور تدقیق اور اپنے خیالات کودوسروں سے شئیر کرنے سے انسان کو دلی اطمینان ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک وجہ ہے۔خیر مسئلہ کشمیر کی طرح کسی ظلم و ستم، حق تلفی یا معصوموں کی ناگفتہ بہ حالت دیکھتا ہوں تو پھر بھی مجھ سے خاموش رہا نہیں جاتا اور پھر اپنے مفادات کو در کنار کرکے لکھنا شروع کرتا ہوں۔جیسے مسئلہ کشمیر کے بارے میں لکھتے رہنے کی وجہ سے اب مجھے ہندوستان کا ویزا نہیں ملتا۔ حالانکہ پہلے ہندوستان کے اردو حلقوں کی جانب سے مجھے مسلسل دعوتیں آتی رہتی تھیں اور میں کئی دفعہ انڈیا جاچکا تھا۔
اشرف کمال: شاعری کرنے کی کیا وجہ ہوئی کیا کوئی چوٹ لگی دل پہ، یا کوئی معاشرتی یا سماجی محرکات تھے؟
خلیل طوقار: در حقیقت شاعری شروع کرتے ہوئے میرے حساس دل اور شرمیلا پن کا بڑا اثر تھا۔میں کسی سے اپنا دکھ درد بتا نہیں پا رہا تھا کیونہ مجھے شرم آتی تھی، ویسے بھی سنتے کب تھے۔ پھر جب میں نے فارسی سیکھی تو فارسی میں اپنے دل کی بات بیان کرنا شروع کیا کیونکہ مجھے علم تھا کہ اسی طرح سے کم از کم گھر میں کسی کو میرے مسائل اور الجھنوں کا علم نہیں ہوگا۔ پھر فارسی کے ساتھ اردو سیکھی تو اردو سے محبت ہوگئی اور جب مجھے اس خوبصورت زبان کے ساتھ ہونے والے ناجائز سلوک کو دیکھا تو سوچا کہ یہ زبان بھی میری طرح ہے مظلوم! پھر میری شاعری کی اصل محرک اردو زبان بنی۔ میں نے چاہا کہ سب کو یہ دکھاؤں کہ اردو زبان ایک ایسی شیریں اور پُر اثر زبان ہے کہ ایک غیر زبان پردیسی بھی اُس کی محبت میں شاعری شروع کرسکتا ہے۔ہاں ظاہر ہے کہ اپنے دکھ درد، دنیا میں ہونے والے مظالم، اپنے خاندان، اپنے ملک اور اپنی زبان سے محبت بھی میری شاعری کے اہم محرکات ہیں۔
اشرف کمال: آپ کا پہلا شعر یا نظم کون سی ہے؟
خلیل طوقار: سچی بات یہ ہے کہ مجھے یاد نہیں۔
اشرف کمال: اپنا وہ شعر جو آپ کو سب سے زیادہ پسند ہو؟
خلیل طوقار: نعت کا ایک شعر جو یہ ہے:
جاں بدن میں ہے گرفتار اِس ہی غم میں مَیں ہوں بیزار
کر مجھے آزاد غم سے، تجھ سے فرماں یا محمد ﷺ
اشرف کمال: آپ کا پہلا شعر یا نظم، غزل جو شائع ہوئی؟
خلیل طوقار: مجھے ابھی یاد نہیں کہ کونسی نظم تھی مگر مجھے یہ یاد ہے کہ میری پہلی نظم ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی مرحوم کی توسط سے سہ ماہی دربھنگہ ٹائمز، دربھنگہ، بہار، ہندوستان میں شائع ہوئی۔
اشرف کمال: آپ کی پہلی نثری تحریر کون سی تھی جو آپ نے لکھی؟وہ نثری تحریر جو سب سے پہلے شائع ہوئی؟
خلیل طوقار: میری پہلی تحریر یا یوں کہہ لیجئے تحقیقی مضمون جو ہے اور جسے شائع کیا گیا ”سبق ہندی“ (ہند کا اسلوب)تھا۔ یہ مضمون ۵۹۹۱ء میں بزم اقبال کے معروف علمی و تحقیقی سہ ماہی مجلہ ”اقبال“ میں شائع ہوا۔
اشرف کمال: کس بات یا واقعے سے تاثر ہوکر آپ نے لکھنا شروع کیا؟
خلیل طوقار: میری شروع کی جتنی بھی تحریریں ہیں وہ سب علمی و تحقیقی قسم کی تھیں لہٰذا ان سب کو تحقیقی مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا گیا تھا۔البتہ صحافتی انداز کی جتنی بھی تحریریں ہیں ان سب کے پس منظر میں کوئی نہ کوئی وجہ پائی جاتی ہے۔ مثال کے طور پرکسی پاکستانی صحافی نے ترکی کے خلاف پاکستان کے کسی معروف اردو اخبار میں تحریری لکھی مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے اس کے جواب میں تحریر لکھی۔ اسی اخبار کی ادارت نے مہربانی کرکے میری تحریر کو بھی شائع کیا۔ ۵۱۰۲ء میں دنیا بھر میں آرمانیوں کے جھوٹے الزامات کی آڑ میں ترکی کے خلاف الزامات کی بجھاڑ شروع ہوئی اور اردو دنیا کے کچھ اصحاب کو بھی ترکی مخالف صفوں میں دیکھا تو پھر میں نے ان جھوٹے الزاموں کے خلافت تحریری لکھی۔
اسی طرح جب کسی امریکن اخبار میں یہ خبر پڑھی کہ امریکن فوجی افغانستان میں معصوم افغانوں کا شکار کرکے ان کی انگلیاں اور ان کے کان کاٹ کر تحفے کے طور پر اپنے گھر والوں کے لئے لے گئے تو یہ خبر پڑھتے ہی مجھ سے برداشت نہیں ہوا اور میں نے اس ظلم کے خلاف ایک تحریر لکھی۔یعنی ان تمام تحریروں کے پس پردہ کوئی نہ کوئی محرک سبب موجود ہے۔
اشرف کمال: ملازمت کا پہلا دن جب آپ نے عملی زندگی میں قدم رکھا، روزی روٹی کے لیے سب سے پہلا کام کون سا کیا۔کیا پہلی ملازمت ہی یونیورسٹی میں پڑھانے سے کی یا اس سے پہلے بھی کوئی اور کام کیا؟
خلیل طوقار: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ والد کی آمدنی جو تھی اسی سے ہم لوگ سہولت سے زندگی بسر کررہے تھے اور والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں اپنی توجہ اپنی تعلیم کی طرف مبذول کروں اس لیے بی اے کے اختتام تک مجھے ملازمت کرنے کی ضرورت نہیں ہوئی۔اور اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ بی اے کی تعلیم کے بعد مجھے ملازمت کے سلسلے میں پریشان بھی نہیں ہونا پڑا۔ میں بی اے چوتھی کلاس میں تھا تو عثمانی آرکائیوز میں ملازمت کے امتحان کا اعلان ہوا، میں نے اس میں شرکت کی اور کامیاب ہوا۔ پھر ترکی وزارت خارجہ میں ملازمت کے امتحانات کا اعلان ہوا جس میں پندرہ بیس دن وقفہ پر غیرملکی زبان، ترکی زبان، جغرافیہ، حساب کتاب وغیرہ کے امتحانات تھے۔ میں فارسی زبان سے اس امتحانات میں شامل ہوا۔ ہم فارسی زبان کی ملازمت کے لیے امتحانات میں شرکت کرنے والے تقریباً چالیس پچاس امیدوارتھے مگر ان امتحانات میں صرف میں کامیاب رہا۔اس وقت ہماری یونیورسٹی میں شعبہ اردو قائم نہیں ہوا تھا لہٰذا شعبہ اردو میں مجھے اسسٹنٹ نہیں رکھا جاسکتا تھا لہٰذا شعبہ فارسی میں آسامی کا اعلان ہوا۔ اس کے بھی امتحانات تھے اورمجھے اردو اور فارسی دونوں کے سوال حل کرنا پڑا۔ میں اس میں بھی کامیاب ہوا۔ آخر مجھے وزارت خارجہ کی ملازمت اور یونیورسٹی کی ملازمت کے درمیان انتخاب کرنا پڑا۔ کچھ دن اپنے اندر تذبذب کے بعد میں نے اپنے دل کی بات مانی اور یونیورسٹی میں آگیا۔
اشرف کمال: استنبول یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی صدارت میں شعبہ کی حد تک آپ نے اردو کے لیے کیا کیا نمایاں کام کیے۔
خلیل طوقار: اب یہ سوچئے کہ جب یونیورسٹی میں ملازمت کرنے لگا تو اس وقت شعبہ اردو تھا ہی نہیں۔ استاد محترم غلام حسین ذولفقار مرحوم نے مختلف شعبوں کے طلبہ و طالبات کے لیے انتخابی اردو کلاسز شروع کی تھیں، ہفتے میں چار گھنٹے یا پریڈ کہہ لیجئے کی کلاسیں ہوتی تھیں۔ جس سال یعنی ۰۹۹۱ء میں میں نے ملازمت شروع کی اسی سال استاد محترم پاکستان واپس چلے گئے۔ پھر اچانک ان کی انتخابی کلاسیں میرے ذمے میں آگئیں، پھر دو سال بعد ترکی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے فیصلہ کیا کہ استنبول یونیورسٹی، ادبیات فیکلٹی میں شعبہ اردو قائم کیا جائے۔ میں نے دو سال تک شعبہ کے قیام کے لیے تمام تربھاگ دوڑ اور کاغذاتی کام کیے۔ویسے میں تھا اکیلا۔ پھر ۴۹۹۱ء میں سرکاری طور پر استنبول یونیورسٹی میں شعبہ اردوکا قیام
عمل میں آیا۔پھر طلبہ و طالبات کا داخلہ شروع ہوا۔ پھر ان کے نصابی پروگرام کی ترتیب، کلاسیں، تدیریس وغیرہ یعنی شعبہ کی ساری ذمہ داریاں میرے حصے میں آگئیں۔ ہماری یونیورسٹی چونکہ ترکی کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے اس لیے اس میں کسی بھی شعبے کے لیے اسامی نکالنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کے باوجود کافی تگ و دَو اور منت سماجت کرکر کے میں نے مختلف سالوں میں شعبے اردو کے لیے اسامیاں نکلوائیں اور اللہ کا شکر ہے اب ہمارے شعبے میں نو افراد خدمت انجام دے رہے ہیں اور ترکی میں سب سے بڑا شعبہ اردو اساتذہ کے لحاظ سے بھی طلبہ و طالبات کے لحاظ سے بھی ہمارا شعبہ ہے۔
مزید بر آں میں نے بی اے کی تدریس کے بعد شعبہ اردو میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تدریس کا بھی انتظام کرایا۔
اور ترکی میں ہم سب سوچتے تھے کہ ترکی یونیورسٹیوں میں اردو کی تعلیم انقرہ یونیورسٹی سے شروع ہوئی مگر عثمانی آرکائیوز میں میری تحقیقات کے دوران مجھے ہندوستانی آزادی خواہ عبدالجبار خیری کے عثمانی زبان میں خطوط اور ان کے بارے میں سرکاری خط و کتابت ملی۔ یوں مجھے یہ خوش آیند انکشاف ہوا کہ ترکی میں اردو کی تعلیم و تدریس انقرہ یونیورسٹی سے نہیں ۵۱۹۱ء میں ہماری استنبول یونیورسٹی (دارالفنون) سے شروع ہوئی اور اردوکے پہلے استاد عبدالجبار خیری صاحب تھے۔پھر ۵۱۰۲ء میں اس اہم موقع کی ایک صدی مکمل ہونے پر میں نے فیصلہ کیا کہ اس اہم موقع کو ترکی میں جشن اردو کی صورت میں بھی منایا جائے۔ پھر ۴۱۰۲ء میں ڈاکٹر ذکائی قارداش کے ہمراہ مختلف اداروں کے دروازے کھٹکھٹانے لگے۔ بہت سوں سے مایوس واپس آئے۔ آخرکار اللہ تعالیٰ کا بڑا کرم یہ ہوا کہ استنبول کی بلدیہئ عظمیٰ ہمارے ساتھ تعاون کرنے پر تیار ہوئی۔پھر ہماری تمام تر مشکلات ختم ہوئیں۔ ہم لوگ باوقار انداز میں ایک عالمی سمپوزیم منعقد کرنے میں کامیاب ہوئے جس میں دنیا بھر کے مختلف ملکوں سے اردو کے اٹھتر (۸۷) اساتذہ، ادباء و شعراء نے شرکت کی، مزید بر آن اس سمپوزیم میں ترکی کے بھی بیس سے زاید مندوبین نے بھی اپنے مقالے پڑھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وقت ترکی میں مقیم پاکستانی سفیر جناب محترم سہیل محمود صاحب کا بڑا تعاون رہا، انھوں نے ہماری ہر گزارش پر لبیک کہا اور اس اہم موقع پر پاکستانی حکومت کی یادگاری ٹکٹ کے اجرا کا سہرا انہی کے سر پر ہے۔
اب یہ جو کام ہیں انھیں نمایاں کام سمجھاجاسکتا ہے یا نہیں وہ میں نہیں کہہ سکتا البتہ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو خدمت اردو زبان اور ترکی اور پاکستان کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کے لیے مجھ سے ہوسکی میں نے وہی خدمت انجام دی۔
اشرف کمال: کیا پاکستان سے کوئی شعبہ اردو میں داخلہ لینا چاہے تو کون کون سے پروگرام میں داخلہ لے سکتا ہے اور اس کی کیا شرائط ہیں؟
خلیل طوقار: بی اے میں داخلہ ذرا مشکل ہے اس کے لیے استنبول یونیورسٹی کے غیرملکی طالبعموں کے لیے ہرسال ہونے والے امتحان میں شرکت کرکے شعبہ کے لیے لازمی نمبر حاصل کرنا ہوتا ہے۔ یہ امتحان پہلے لاہور اور کراچی میں ہورہا تھا لیکن اس سال کرونا کی وجہ سے صرف لاہور میں امتحان لیا جاسکا۔
ایم اے اور پی ایچ ڈی میں داخلہ نسبتاً آسان ہے۔ امیدوار متعینہ تاریخ کے اختتام تک اپنے کاغذات آن لائن جمع کراتا ہے اور اگر وہ ہماری یونیورسٹی کی ضروریات پر پورے اتریں تو اس کو داخلہ مل جاتا ہے۔ ہاں مجھے یہ عرض کرنا ہوگا کہ ترکی میں کسی بھی سطح کی تعلیم میں غیرملکی زبانوں کے لیے اسکالر شب نہیں دیا جاتا اور ان غیرملکی زبانوں میں اردو بھی شامل ہے۔ یعنی اگر کوئی طالب علم ترکی میں اردو کی تعلیم حاصل کرنا چاہے تو تمامتر اخراجات اسے خود پورے کرنے ہوتے ہیں۔
اشرف کمال: کیا یہ ممکن ہے کہ آپ استنبول یونیورسٹی میں اردومیں پوسٹ ڈاکٹریٹ کا سلسلہ شروع کریں؟
خلیل طوقار: در اصل پوسٹ ڈاکٹریٹ کا سلسلہ ابھی بھی ہے۔ مگر بی اے، ایم اے اور پی ایچ ڈی والا مسئلہ یہاں بھی ہمارے سامنے آتا ہے کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کے لیے استنبول یونیورسٹی آنے والے اسکالر کو نہ اسکالر شپ ملتا ہے نہ ہی رہائش وغیرہ کی سہولت میسر آتی ہے۔
اشرف کمال:کوئی ایسی بات جس نے آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا ہو؟
خلیل طوقار: مسائل وغیرہ تو انسانی زندگی کے حصے ہوتے ہیں مگر ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس سے میری زندگی میں کوئی انقلاب بر پا ہو۔
اشرف کمال: کچھ ایسے دوست جو ہر وقت آپ سے رابطے میں رہتے ہوں، جن کی دوستی پہ آپ کو فخر ہو؟
خلیل طوقار: ضرور ہیں اور ایسے کچھ دوست پاکستان میں، ہندوستان میں اور کچھ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم ہیں۔ مگر میں ان کا نام گرامی یہاں پیش نہیں کرسکتا، کیونکہ جن کا نام رہ جائے گا وہ دل شکستہ ہوں گے۔
اشرف کمال: کیا آپ اپنی زندگی کے سوانحی حالات وواقعات کو بھی قلم بند کرتے ہیں،میرا مطلب ہے کہ کوئی خودنوشت وغیرہ، کسی ڈائری یا بیاض میں؟
خلیل طوقار: نہیں، میں نے کبھی کسی طرح کی ڈائری یا بیاض نہیں رکھا یا واقعات قلمبند نہیں کیے۔ میں اکثر و بیشتر اپنی یادداشت کا سہارا لیتا ہوں۔ پہلے تو میری یادداشت کافی تیز تھی مگر اب بہت زیادہ دوائیں استعمال کرنے کی وجہ سے پہلے کی نسبت کمزور ہونے لگی ہے۔
اشرف کمال: جب آپ لکھتے ہیں تو کیا صرف شعوری کوشش کارفرما ہوتی ہے یا لاشعور کا بھی اس میں کوئی کردار ہے؟
خلیل طوقار: یہ موضوع سے منسلک ہے۔ اگر کوئی علمی تحریر ہو تو لازمی شعوری کوشش اور پہلے سے کی ہوئی تیاری ہوتی ہے ہاں اگر شاعری یا صحافتی قسم کی تحریر ہو تو وہ لاشعوری طور پر اچانک لکھنا شروع کرتا ہوں یعنی یوں کہہ لیجئے کہ آمد ہوتی ہے۔
اشرف کمال: آپ کو مصور بننا پسند تھا مگر شاعر بن گئے، شاعری اور مصوری میں آپ کو کیا فرق نظر آتا ہے؟
خلیل طوقار: اصل میں میری نظر میں دونوں ایک ہیں۔فرق اتنا ہے کہ تصویر رنگوں کی اور شاعری لفظوں کی مصوری ہے۔
اشرف کمال: آپ ترکی کی سیاست اور معاشرت کو اسلامی اور ایشیائی ممالک کے تناظر میں دیکھتے ہیں کیا کبھی آپ نے ترکی کی سیاسی ومعاشرتی صورت حال کو یورپی تناظر میں دیکھا ہے، کیا اس حوالے سے بھی کوئی تحریر ہے آپ کی؟
خلیل طوقار: اب عام طور پر ایشائی ممالک میں اور خاص طور پر عالم اسلام میں اور ترکی میں ترکی کی سیاست اور معاشرت کویورپی تناظر میں دیکھنے اور پرکھنے والے افراد کی اس قدر بہتات ہے کہ میں سوچتا ہوں کہ اس میں ایک اور فرد کے اضافے کی ضرورت نہیں۔ در اصل ہم لوگ دو تین صدیوں سے سیاسی، معاشرتی اور حتیٰ کہ اپنے رسم و رواج، طرز زندگی اور مذہب کو بھی یورپی تناظر میں دیکھتے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ صورتحال مجھے کچھ مناسب نہیں لگتی۔
اشرف کمال: آپ کے خیال میں جیسے کہ اردو میں میر، غالب، اقبال اور فیض جیسے شاعر موجود ہیں کیا ترکی ادب میں بھی ایسے نام موجود ہیں؟
خلیل طوقار: کیوں نہیں بہت سے نام ہیں، یونس ایمرے، فضولی، شاعر ندیم، محمد عاکف ایرصوئے، ناظم حکمت اور نجیب فاضل قصہ کوریک کے علاوہ ترکی ادب میں کئی اہم نام ہیں۔
اشرف کمال: کیا ادب کو ذریعہ روزگار بنایا جاسکتا ہے یا اسے صرف شوق کی تکمیل تک ہی رکھنا چاہئے؟
خلیل طوقار: کیوں نہیں ضرور بنایا جاسکتا ہے البتہ یہ کبھی ادیب کے قلم کے زور پر منحصر ہے اور کبھی ادیب کے پبلشر اور اس کی تالیف کی پبلسٹی پر۔ بہت سے ایسے ادیب ہیں اور ہو گزرے ہیں کہ وہ بہت اچھے ادیب بہت اچھا شاعر ہوتے ہیں مگر ان کو اپنی تحریروں سے ذریعہئ معاش میسر نہیں ہوتا اور کچھ نام کے ادیب ایسے ہیں جان پہچان والوں کے ذریعے ٹی وی پر یا مختلف تقریبات کرواکروا کر یعنی پبلسٹی کے ذریعے بڑے ادیب شمار ہونے لگتے ہیں۔ اور بدقسمتی سے قارئین میں ایک بڑا حلقہ تحریر کی کوالٹی پر نہیں پبلسٹی کو دیکھ کر کتاب خریدتے اور پڑھتے ہیں ہاں اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شہرت یافتہ ادیب پبلسٹی کے ذریعے اپنی شہرت کماتا ہے۔ یہ ہر گز نہیں اردو ادب میں بھی ترکی ادب میں بھی بہت سے ادیب ایسے ہیں جن کے قلم کے زور اور ادبی صلاحیت پر شہرت ملی ہے اور ادب ان کے لیے ذریعہ معاش بھی بنا ہے مگر ہم سب کو معلوم ہے کہ یہ سچے ادیب جس مقام پرآج ہیں اس تک پہنچتے پہنچتے بہت سی مشکلات سہی ہیں اور ادبی دنیا کے سمندر میں کئی دفعہ ڈوب ڈوب کر تیرنا سیکھا ہے۔
لہٰذامیرا عاجزانہ مشورہ یہ ہے کہ ادب کو ذریعہ معاش بنانے کی نسبت اس کو شوق کی حد تک رکھنا بہتر ہے نہیں تو بندے کو تیار رہنا چاہئے کہ میری زندگی میں مجھے بہت سی مایوسیوں کا سامنا کرنا ہے۔
اشرف کمال: ایک سوال تراجم کے حوالے سے، کیا آپ سمجھتے ہیں دوسرے ملکوں کے ادب کے تراجم ہماری نوجوان نسل کی ذہنی تشکیل میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں؟
خلیل طوقار: ترجمہ کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔کیونکہ ہر نیا ترجمہ ہمارے سامنے ایک نیا انداز اور اجنبی دنیا کے دروازے وا کرتا ہے اور ہمیں تراجم سے بیش بہا اور اہم معلومات سیکھنے کو ملتی ہیں اور نئے نئے تجربات اور انکشافات کا علم ہوتا ہے۔ ترجمہ کی اہمیت ادب کے میدان میں بھی علمی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی یکساں ہے۔اور ظاہر ہے کہ تراجم سے نوجوان نسل کی ذہنی تشکیل میں نئی نئی راہیں کھول جاتی ہیں۔ ُٓ سوچئے کہ قبل از تاریخ سے آج تک ترجموں کے ذریعے مختلف قومیں ایک دوسرے کو جانتی ہیں اور نئے نئے تجربات اور انکشافات کے بارے میں علم حاصل کرتے ہیں۔ Mesopotamia کی قبل از تاریخ تہذیبوں میں میخی خط کے زمانے میں بھی ایک کتنے پر تحریر کو اصل زبان کے ساتھ ترجمہ کرکے بھی ایک اور کبھی دو زبانوں میں بھی مرقوم کرتے تھے تاکہ یہ حدالامکان وسیع حلقوں تک پہنچ سکے۔
اشرف کمال: آپ نے جو تراجم کیے ہیں، ان میں سب سے زیادہ کون سا ترجمہ کرتے ہوئے آپ کو لطف آیا۔
خلیل طوقار: ترکی سے اردو میں ”ملا نصرالدین کے لطیفے“، اردو سے ترکی میں اردو مختصر افسانے اور انگریزی سے ترکی میں اقبال کی تصنیف ”Stray Reflections“
اشرف کمال: ہمارے ہاں ادارے اوربڑی نامور شخصیات ابھرتے ہوئے ٹیلنٹ کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور بغیر سفارش کے کوئی ادیب یا رائٹر کو کسی چینل پہ پذیرائی نہیں مل سکتی کیا یہ بات درست ہے؟
خلیل طوقار: یہ صورتحال صرف پاکستان میں نہیں تمام دنیا میں جاری ہے کسی ملک میں کم کسی ملک میں زیادہ۔ میں اس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہوں مگر یہ انسان کی فطرت میں شامل ہے اور ہر معاشرے کی ناگزیر اور تلخ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو قبول کرکے اور اس کے لحاظ کیے بغیر اور اسے بھوت کی طرح اپنے پر سر سوار کیے بغیر اپنا کام کیا کرنا بہتر ہے۔ کیونکہ مجھے چون سال کی عمر تک یہ تجربہ حاصل ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کی بھی
محنت اور کوشش کو ضائع ہونے نہیں دیتا بشرطیکہ آپ بھی یہ ناجائز کام کرنے والوں میں شامل نہ ہوجائیں اور اپنے جائز حق لینے کے لیے سفارشیوں کی قطار میں کھڑا نہ ہوجائیں۔
اشرف کمال: موجوہ جدید ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کی زبان کے تناظر میں کیا آپ اردو کے مستقبل کے حوالے سے پرامید ہیں؟
خلیل طوقار: میں تو اردو کے مستقبل کے حوالے سے بہت پُر امید ہوں کیونکہ اُردو ایک بہت ہی flexible زبان ہے، یہ ایک کمال کی خصوصیت یا یوں کہہ لیجئے صلاحیت ہے۔ آپ اُردو میں جب چاہیں بہت کچھ شامل کرسکتے ہیں اسی لیے یہ زبان سرکاری پشت پناہی اور حمایت کے فقدان کے باوجود زندہ ہے اور پھیلتی گئی ہے۔ اس میں الفاظ بھی ہیں، گرائمر کی خصوصیات بھی ہیں، اردو ہر طرح کے ڈھانچے میں اپنے آپ کو ڈھال سکتی ہے۔ یہ صلاحیت دنیا کی بہت سی زبانوں میں نہیں ہے۔مزید بر آں پاکستان اور ہندوستان کے لوگ بہت ذہین اور باصلاحیت لوگ ہیں، اگر انھیں حکومتی سطح کی پشت پناہی اور سہولتیں میسر آئیں وہ اردو کو جدید ٹیکنالوجی اور کمپوٹر کی زبان کے لحاظ سے بھی مالامال کردیں گے۔ بس انھیں سہولتیں میسر آجائیں
اشرف کمال: آپ کے خیال میں آج کے دور میں ایک ادیب کی کیا ذمہ داریاں ہیں اور نقاد کو کیا کردار ادا کرنا چاہئے؟
خلیل طوقار: ادیبوں کے سلسلے میں کچھ کہنے کو میں اپنا حق نہیں سمجھتا وہ یہ کام مجھ سے ہزار بہتر جانتے ہیں۔ البتہ نقادوں سے یہی مؤدبانہ التماس ہے کہ وہ تنقید برائے تنقید کا رویہ نہ اپنائیں اور اپنی ذاتی، طبقاتی، سیاسی یا گروہ کے مفادات کی آڑ میں آکر سامنے والے ادیب کی کردار کشی کرنے سے ممکنہ حد تک گریز کریں۔
اشرف کمال: آپ نوجوان نسل اورنئے لکھنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
خلیل طوقار: غلطی کرنے سے مت ڈریں، اپنی تحریروں کی دوسروں سے اصلاح یا رائے لینے سے نہ ڈریں اور منفی تنقیدیں سننے سے دل برداشتہ مت رہیں۔ اس سے ان کا جوہر نکھرجائے گا اور آگے چل کر غرور و تکبر کا شکار ہونے سے بچیں۔ اگر تنقید سننے سے ڈرتا تو مجھے کب سے یہ ادبی یا علمی دنیا کو خیرباد کہہ چکا ہونا تھا اور مزید بر آں میں اتنے سال کا تجربہ کار استاد ہوں مگر میری اپنی تحریر آج بھی اپنی زبان ترکی میں کیوں نہ ہواپنے دوستوں اور ہمکاروں کو دکھاکر ان کی رائے بھی لیتا ہوں تاکہ تحریر بہتر سے بہتر ہوسکے۔